. تقدیر ہے
شاید تم ہمیں چھوڑ جاؤ، تب ہمایوں میرے پاس واپس آجائے، مجھے لگا میری قربانی قبول ہوگئی ہے-اس کا انعام مجھے دیا جانے لگا ہے-مجھے بھول گیا کہ وہ قربانی تو اللہ کے لیے تھی، اللہ کو پانے کے لیے تھی، دنیا کے لیے یا ہمایوں کے لیے تو نہ تھی-مگر تمہاری طرف سے ہم اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ آہستہ آہستہ مجھے سب بھولتا گیا- میں ہر نماز میں ، ہر روز تلاوت کے بعد ہمایوں کو خدا سے مانگنے لگی - میں آہستہ آہستہ زمین کی طرف جھکنے لگی تو میرے ساتھ شیطان لگ گیا-
اس کی اٹھی لمبی گردن پہ آنکھوں سے نکلتے آنسو پھسل رہے تھے- اس کی نگاہیں ابھی بھی اوپر چاند پہ ٹکی تھیں- شاید وہ ابھی محمل کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی-
جب میں دوبارہ واپس آئی تو اپنی زمین کی طرف جھکی ہوئی آئی ،
پھر جب میں نے ہمایوں کو تمہارے لیے مسکراتے دیکھا اور اس کے لیے تمہاری آنکھوں کو چمکتے دیکھا تو میں نے سوچا کہ تمہیں آگاہ کر دوں، اور تمہیں یاد ہے جب تم اسپتال میں ہمایوں کو دیکھنے آئی تھیں، تو میں تمہیں بتانے ہی والی تھی- مگر تم نے نہیں سنا ، تب میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں گی-قربانی دے دوں گی- تب میرا جینا، اور میرا مرنا۔ اور میری نماز اور میری قربانی صرف اللہ کے لیے تھی- میں نے ہر چیز بہت خلوس دل دے کی تھی -خود تمہاری شادی کروائی اور اپنے تئیں میں مطمئن تھی لیکن-
جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا اور میں پاکستان واپس آئی تو مجھے پہلی دفعہ لگا شاید تم زندہ نہ رہ سکو، اور ہمایوں میرا نصیب۔۔۔۔ اور اس سے آگے سوچنے سےبھی میں ڈرنے لگی تھی-سو واپس چلی گئی- مگر ہمایوں جب بھی کال کرتا اور تمہاری مایوس کن حالت کی خبر دیتا تو مجھے لگتا کہ یہی تقدی
میں نے بچپن سے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام سنا تھا مجھے اس پہ اپنا ہی حق لگتا تھا-اور جب ایک روز ہمایوں نے مجھے کہا کہ مجھے شادی کے بارے میں سوچنا چاہیئے ، تو میں نے اس کو خالہ کی خواہش کے بارے میں بتانے کا سوچا-
اس رات میں بہت دیر تک مسجد کی چھت پہ بیٹھی رہی تھی، اور جب میں فیصلہ نہ کر پائی تو دعائے نور پڑھنے لگی -تمہیں پتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کا ایک حصہ سجدے میں پڑھا کرتے تھے؟ اور یہ دعا قرآن سمجھنے میں مدد دیتی ہے میں جب بھی فیصلہ نہ کر پاتی اس دعا کو پڑھتی- اس رات بھی میں پڑھ کر ہٹی ہی تھی کہ تم ہماری چھت پہ آئیں، اور پھر تم ہماری زندگی میں بھی آگئیں-
میں نے آج تک تمہارے لیے جو بھی کیا ہے وہ اللہ کے لیے کیا ہے-مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کیا کیا تھا،
مصحف
#
قسط نمبر- 41
💕
اس کے اوپر چاند کو تکتی آنکھوں سے قطرے گر رہے تھے-
کبھی تم نے میری چاندی کی وہ انگوٹھی دیکھی ہے محمل؟تم نے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ مجھے کس نے دی تھی- جانتی ہو، وہ مجھے میری خالہ نے دی تھی - وہ انہوں نے اپنی بہو کے لیے رکھی تھی، اور اپنی وفات سے قبل وہ بیمار تھیں،انہوں نے مجھے وہ پہنا دی- میری امی ان کا مطلب سمجھتی تھیں، مگر خاموش رہیں- وہ وقت آنے پہ ہمایوں سے بات کرنا چہاتی تھیں ، مگر وقت نہیں آیا- آہی نہ سکا- امی فوت ہوئیں تو میں چپ چاپ مسجد چلی گئی- میں برسوں انتظار کرتی رہی کہ ہمایوں کبھی تو اس انگوٹھی کے بارے میں پوچھے گا، مگر اس نے نہیں پوچھا- پھر میں نے صبر کر لیا، مگر انتظار تو مجھے تھا نا-
میں نے خود کو بہت سمجھایا تھا - بہت یقین دلایا تھا کہ یہی صحیح ہے مگر آج میرا یقین ٹوٹ گیا ہے محمل میں خود غرض ہو گئی تھی ، کتے کی طرح خود غرض ، جو ہڈی ڈالنے پر بھی زبان نکالتا ہے-
اس کے اوپر چاند کو تکتی آنکھوں سے قطرے گر رہے تھے۔
Episode 40 Complete... ♥️
کیوں رو رہی ہیں؟اس کے اپنے آنسو گرنے لگے تھے- یہ وہ لڑکی تھی جس نے اسے قرآن سنایا تھا، قرآن پڑھایا تھا- اس کی جان ان لوگوں سے چھڑائی تھی سات سال اس کی خدمت کی تھی- بہت احسان تھے اس کے محمل پہ- اور آج اس نے اسے رلا دیا!
مجھے رونا ہی تو چاہیے ، وہ سر اٹھا کر چاند کو دیکھنے لگی، میں نے بہت زیادتی کی ہے محمل، بہت زیادتی-
وہ خاموشی سے اس کو سنے گئی - شاید ابھی فرشتے نے بہت کچھ کہنا تھا وہ سب جو وہ پہلے نہیں کہہ سکی- میں نے سات سال توجیہات جوڑیں، دلیلیں اکٹھی کیں اور تم نے سات آیتوں میں انہیں ریت کا ڈھیر بنا دیا -
کیوں رو رہی ہیں؟اس کے اپنے آنسو گرنے لگے تھے- یہ وہ لڑکی تھی جس نے اسے قرآن سنایا تھا، قرآن پڑھایا تھا- اس کی جان ان لوگوں سے چھڑائی تھی سات سال اس کی خدمت کی تھی- بہت احسان تھے اس کے محمل پہ- اور آج اس نے اسے رلا دیا!
مجھے رونا ہی تو چاہیے ، وہ سر اٹھا کر چاند کو دیکھنے لگی، میں نے بہت زیادتی کی ہے محمل، بہت زیادتی-
وہ خاموشی سے اس کو سنے گئی - شاید ابھی فرشتے نے بہت کچھ کہنا تھا وہ سب جو وہ پہلے نہیں کہہ سکی- میں نے سات سال توجیہات جوڑیں، دلیلیں اکٹھی کیں اور تم نے سات آیتوں میں انہیں ریت کا ڈھیر بنا دیا - میں نے خود کو بہت سمجھایا تھا - بہت یقین دلایا تھا کہ یہی صحیح ہے مگر آج میرا یقین ٹوٹ گیا ہے محمل میں خود غرض ہو گئی تھی ، کتے کی طرح خود غرض ، جو ہڈی ڈالنے پر بھی زبان نکالتا ہے-
اس کے اوپر چاند کو تکتی آنکھوں سے قطرے گر رہے تھے۔
وشعری نورا وبشری نورا ( اور میرے بال و کھال میں نور ہو )
محمل وہیل چئیر کو گھاس پہ آگے بڑھانے لگی گھاس کے تنکے پہیوں کے نیچے چرمڑانے لگے تھے-
میرے نفس میں نور ہو اور میرے لیے نور کو بڑھا دے )
وہ اسی طرح آنسو بہاتی بند آنکھوں سے بے خبر سی پڑھتی جا رہی تھی-
محمل وہیل چئیر اس کے بالکل سامنے لے ائی-
اللھم اعطنی نورا
(اے اللہ ، مجھے نور عطا کردے!)
چاندنی میں اس کے آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے-
فرشتے! اس نے ہولے سے پکارا-
فرشتے کی آنکھوں میں جنبش ہوئی- اس نے پلکیں جدا کیں اور محمل کو دیکھا- وہ شاید بہت روئی تھی- اس کی آنکھیں متورم ، سرخ تھیں-
وامامی نورا وخلفی نورا ( اور میرے آگے پیچھے نور ہو) آواز میں اب آنسو گرنے لگے تھے - وہ وہیل چئیر کو بمشکل گھسیٹتی باہر لائی-
واجعل لی نورا)
( اور میرے لیے نور بنا دے)
چاندنی میں ڈوبا برآمدہ سنسان پڑا تھا- وہ مترنم ، غم زدہ آواز لان سے آرہی تھی-
وفی لسانی نورا وعصبی نورا ( اور میری زبان اور اعصاب میں نور ہو )
اس نے سوز میں پڑھتے ذرا سی ہچکی لی-
محمل آہستہ آہستہ برآمدے کی آرام دہ ڈھلان سے نیچے وہیل چئیر کو اتارنے لگی - یہ ڈھلان فرشتے نے ہی اس کے لیے بنوائی تھی-
ولحمی نورا ودمی نورا
(اور میرے گوشت اور لہو میں نور ہو )
لان کے آخری سرے پہ دیوار سے ٹیک لگائے ایک لڑکی بیٹھی تھی -اس کا سر نڈھال سا دیوار کے ساتھ ٹکا تھا- آنکھیں بند تھیں جب سے قطرہ قطرہ آنسو ٹوٹ کر رخسار پہ گر رہے تھے- لمبے بھورے بال شانوں پہ گرے تھے-
محمل کی وجہ سے وہ کچن میں ہی سوتی تھی-
جی بی بی؟
مجھے بٹھا دو ،بلقیس ! اس نے بھرائی ہوئی آواز میں وہیل چئیر کی طرف اشارہ کیا- بلقیس سر ہلا کر آگے بڑھی، تب ہی کھڑکی کے اس پار سے آواز ائی-
وفی سمعی نورا
(اور میری سماعت میں نور ہو)
بلقیس چونک کر کھڑکی کو دیکھنے لگی ، پھر سر جھٹک کر اس کی طرف ائی-
وعن یمنی نورا وعن یساری نورا
(اور میرے دائیں جانب اور بائیں جانب نور ہو)
بہت احتیاط سے بلقیس نے اسے وہیل چئیر پہ بٹھا دیا-
اب تم جاو- اس نے اشارہ کیا - بلقیس سر ہلاتی متذبذب سی واپس پلٹی -
وفوقی نورا وتحتی نورا
(اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو)
مدھم چاندنی کی چاشنی میں ڈوبی آواز ہر شے پہ چھا رہی تھی- محمل نے وہیل چئیر کا رخ باہر کی جانب موڑا-
محمل نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں-
کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا- کھڑکی کے اگے پردے ہٹے تھے- وہ رات کے وقت شیشے کے پٹ کھول کر رکھتی تھی تا کہ جالی سے ہوا اندر ائے- وہیں باہر سے کوئی آواز اندر ارہی تھی
اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ ہاتھ مارا، اور بٹن دبایا- ٹیبل لیمپ فورا جل اٹھا- روشنی سامنے دیوار گیر گھڑی پہ پڑی - رات کا ایک بج رہا تھا- وہ مدھم سی دکھ بھری آواز ابھی تک آرہی تھی-
اس نے رک کر سننا چاہا- لفظ کچھ کچھ سنائی دینے لگے تھے-
اللھم جعل فی قلبی نورا
(اے اللہ میرے دل میں نور ڈال دے)
محمل نے بے اختیار سائیڈ ٹیبل پہ رکھی بیل پہ ہاتھ مارا-
وفی بصری نورا
(اور میری بصیرت میں نور ہو)
بلقیس تیزی سے دروازہ کھول کر اندر آئی تھی-
" اور اسی طرح ہم کهول کهول کر آیات بیان کرتے ہیں ' شاید کہ وہ پلٹ آئیں!" وہ کهڑکی کے پار دیکهتے ہوئے زیرلب بڑبڑائی تهی-
فرشتے سے مزید کچھ نہیں سنا گیا- وہ تیزی سے آٹهی اور منہ پر ہاتھ رکهتے ہوئے تیزی سے بهاگتی ہوئی باہر نکل گئی-
محمل اسی طرح نم آنکهوں سے باہر چمکتی بجلی کو دیکهتی رہی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ تب بھی کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی جب ہمایوں کی گاڑی اندر آئی - اور تب بھی ، جب رات ہر سو چھا گئی- اس کی اس گھر میں آخری رات۔۔۔ اور وہ اسے سکون سے گزارنا چاہتی تھی-تب اس نے بلقیس کو بلوایا جس نے اسے بستر میں لیٹنے میں مدد دی- پھر وہ آنکھوں پہ ہاتھ رکھے کب گہری نیند میں چلی گئی اسے پتا ہی نہیں چلا-
اس کے زہن میں اندھیرا تھا، گھپ اندھیرا جب اس نے وہ آواز سنی- تاریکی کو چیرتی ، مدھر آواز آپنی جانب کھینچتی آواز-
اور ان کے لیے آنکهیں ہیں ' وہ ان سے کچھ بهی نہیں دیکهتے-
اور ان کے لیے کان ہیں- وہ ان سے کچھ بهی نہیں سنتے- یہی لوگ مویشیوں کی طرح ہیں' بلکہ یہ تو زیادہ بهٹکے ہوئے ہیں- یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں' جو غافل ہیں-" وہ کسی معمول کی طرح بار بار وہی لفظ دہرا رہی تهی-
فرشتے سفید چہرہ لیے بےدم سی بیٹهی تهی-اس کے لب ہولے ہولے کپکپارہے تهے- محمل نے آہستہ سے پلک جهپکی تو دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکهوں سے گرے-
" اور اسی طرح ہم کهول کهول کر اپنی آیات بیان کرتے ہیں ' شاید کہ وہ پلٹ آئیں!"
اس نے وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں اطراف سے تهاما اور اس کا رخ کهڑکی کی طرف موڑا وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر کو کهڑکی کی طرف بڑهانے لگی-
فرشتے پیچهے بیٹهی رہ گئی تهی-محمل نے پلٹ کر اسے نہیں دیکها- وہ ابهی پلٹنا نہیں چاہتی تهی-
" اگر تم اس پہ حملہ کرو تو وہ زبان باہر نکالتا ہے' یا تم اس کو چهوڑ دو ' تو بهی وہ زبان باہر نکالتا ہے-"
' خاموش ہو جاؤ! خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ-" اس نے تڑپ کر محمل کے منہ پر ہاتھ رکهنا چاہا' اس کا دوپٹہ کندهوں سے پهسل گیا تها' کهلے بال شانوں پی آگرے تهے-
محمل نے سختی سے اس کا ہاتھ جهٹکا- اسی میکانکی انداز میں اسے دیکهتی پڑهتی جا رہی تهی-
" جسے اللہ ہدایت بخشے ' پس وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بهٹکا دے ' بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں-"
اس کے ہاتھ بے دم ہو کر اپنی گود میں آ گرے تهے- وہ پهٹی پهٹی نگاہوں سے اسے دیکهتی ' گهٹنوں کے بل اس کے قدموں میں گری تهی-
" بےشک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنوں میں سے اور بہت سےانسانوں میں سے پیدا کیے ہیں- ان کے لیے دل ہیں- وہ ان سے کچھ بهی نہیں سمجهتے
" ان لوگوں کو اس شخص کی خبر پڑھ کے سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیات دی تهیں- جس کو ہم نے اپنی" آیات" دی تهیں- پهر وہ ان سےنکل بهاگا تو اس کے پیچهے شیطان لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا-".
فرشتے کی بهوری آنکهوں میں بےچینی ابهری تهی- " محمل! میری بات سنو-"
مگر وہ نہیں سن رہی تهی- پتلیوں کو حرکت دیے بنا نگاہیں اس پہ مرکوز کیے کہتی جا رہی تهی-
" تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا-" اس کی آواز بلند ہو رہی تهی- " اور اگر ہم چاہتے تو اسے انہی آیات کے ساتھ بلندی عطا کرتے' لیکن وہ زمین کی طرف جهک گیا-"
" محمل چپ کرو-" وہ زیر لب بڑبڑائی تهی' مگر محمل کی آواز اونچی ہو رہی تهی-
" لیکن وہ زمین کی طرف جهک گیا اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی- تو اس کی مثال اس کتے جیسی ہے - تو اس کی مثال کتے جیسی ہے-"
اور اس میں کسی کی حق تلفی کی کوئی بات نہیں ہے-نہ ہی قطع رحمی کا عنصر شامل ہے،
یاد کرو سورۃ نساء میں ہم نے کیا پڑھا تھا؟کہ اگر کوئی ایک حقوق ادا نہ کر سکے تو پھر اپنے حقوق چھوڑ دے، الگ ہو جائے کہ اللہ دونوں کے لیے وسعت پیدا کر دے گا-
اپنے مطلب کی آیات اسے آج بھی یاد تھیں-
آئی ہوپ کہ اب تمہاری کنفیوژن اور اعتراضات دور ہوگئے ہونگے-میں نے سات سال تمہاری خدمت کی،حالانکہ یہ میرا فرض نہیں تھا،مگر اس لیے کہ تم کبھی یہ نہ سمجھو کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی ہوں-تم نے ایک بار مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر تم میرے لیے اپنا حق چھوڑ دوگی،فواد نے تمہاری گردن پہ پستول رکھا تھا، تمہیں بچانے کے لیے میں نے اپنا حق چھوڑ دیا تھا-یہ باتیں میں نے آج کے دن کے لیے سنبھال کر رکھی تھیں، تا کہ آج میں تم سے تمہارے وعدے کی وفا مانگ سکوں-
وہ شدت پسند لڑکی ہے جانے غصے میں کیا کر ڈالے- مگر جو بھی ہو وہ آج اسے آئینہ دکھا کر ہی واپس آئے گا
کھڑکی کے بند شیشے پہ کسی چڑیا نے زور سے چونچ ماری، پھر چکرا کر پیچھے کو گری ، بادل وقفے وقفے سے گرج رہے تھے-
شاید تم یہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ برا کیا ہے یا یہ کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا-لیکن تم یہ سوچو میں پھر اور کیا کرتی؟میں ہمایوں سے بہت محبت کرتی تھی اور کرتی ہوں-مگر جب مجھے لگا تم دونوں ایک دوسرےکو چاہتے ہوتو میں درمیان سے نکل گئی،لیکن اب وہ تمہیں نہیں چاہتا، اور مجھے بھی کسی نا کسی شادی تو کرنا تھی-مجھے بتاؤ میں نے کیا غلط کیا؟
میرے دین نے مجھے پرپوزل سلیکٹ کرنے کا اختیار دیا تھا- سو میں نے اسے استعمال کیا-تم کسی بھی مفتی سے پوچھ لو، اگر کوئی عورت شوہر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہی ہو تو شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے
اور نیچرلی ، تمہارے بارے میں وہ پر یقین تھی کہ تم کبھی نہیں اٹھو گی-
بادل ایک دفعہ پھر زور سے گرجے، دور کہیں بجلی چمکی تھی،شام کی نیلاہٹ سارے میں بھر رہی تھی-
وہ ابھی تک خاموشی سے فرشتے کو سن رہی تھی-
مگر ہمایوں کو فواد سے ضد ہو گئی تھی-صرف اس لیے کہ فواد آرزو کو پسند کرتا تھا- اس نے آرزو کو اپنے قریب آنے دیا- فواد ہمایوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ آرزو کو چھوڑ دے ، مگر ہمایوں اس سے اپنے سارے بدلے چکانا چاہتا تھا-وہ کہتا تھا کہ فواد نے اس کی محبت کو اس سے چھینا ہے، وہ بھی اس کی محبت کو ویسے ہی چھینے گا- وہ آرزو سے کبھی بھی شادی نہیں کر رہا تھا، مگر اس نے آرزو کو دھوکے میں رکھا ابھی مجھے ڈراپ کر کے وہ آرزو کے پاس ہی گیا ہے، اس کو بتانے کہ جیسے وہ اس کو استعمال کر رہی تھی ، ویسے ہی وہ بھی اس کو استعمال کر رہا تھا-
اس ٹیپ میں کسی رنگ کابھی ذکر تھا-ہمایوں نے اسے بار بار سنا، وہ مجھ پر غصہ ہوتا رہا کہ میں نے اسے بے خبر کیوں رکھا،پھر اس نے اپنا ٹرانسفر کراچی کروالیا-
وہ اب کھڑکی سے باہر لان میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی-
وہاں کراچی میں اسے آرزو ملی-اس کے فادر کی ڈیتھ کے بعد کریم چچا اور غفران چچا نے اس کا حصہ بھی دبا لیا تھا-سو اس نے سوچا کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں-اس نے فواد سے تمہارا اور میرا سائن کردہ کاغذ لیا اور معیز کے ہاتھوں ہمایوں کوبھجوادیا- فواد آرزو کو پسند کرنے لگا تھا، وہ اب اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، وہ اسے اپنانے کے لیے تڑپ رہا تھا- مگر آرزو کو ہمایوں بہتر لگا، سو اس نے چاہا کہ ہمایوں تمہارا حصہ قانونی طور پر آغآ کریم سے واپس لے ، اس کا حصہ لینے میں بھی مدد کرے تو تمہارے حصے پہ بھی وہ قابض ہو سکے جو ہمایوں کی ملکیت میں ہوگا،
میں نے اسے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی ، نہ ہی تم نے کبھی مجھے اس معاملے میں راز دار بنایا ہے-اس نے اس رات کے متعلق پوچھا تو میں نے سچ سچ بتا دیا کہ فواد تمہیں پرپوز کرنے کے بہانے ڈنر پہ لے جا رہا تھا-تم نے مجھے یہی بتایا تھا سو میں نے یہی بتا دیا
وہ چپ چاپ یک لخت سامنے کھڑی مطمئن سی لڑکی کو دیکھتی رہی-جس کے چہرے پر ملال تک نہ تھا-وہ اس کا ایک راز تک نہ سنبھال سکی تھی-
وہ سچ کیسے ہو سکتا ہے،جس میں کسی امانت کا خون شامل ہو؟وہ تو اسے جانتی تھی، وہ اس کی بہن تھی کیا وہ اسکی پردہ پوشی نہیں کر سکتی تھی؟فواد نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ اسے پرپوز کرنے جا رہا ہے-یہ سب تو اس نے خود اخذ کیا تھا اس سے ایک غلطی ہوئی تھی وہ سمجھی کہ وقت کی دھول نے اس کی غلطی کو دبا دیا ہوگا، مگر لڑکیوں کی کچی عمر کی نادانیاں اتنی آسانی سے کہاں دبتی ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain