کیا بولا؟ محمل نے تیزی سے اس کی بات کاٹی-یہی کہ مجھے معلوم نہیں اور مجھے واقعی معلوم نہیں تھا-
اور وہ اسے دیکھتی رہ گئی،یہ فرشتے کا سچ تھا؟
پھر اس نے پوچھا معیز اسے جو باتیں بتا کر گیا وہ سچ ہیں یا جھوٹ؟وہ اسے یہ بتا کر گیا تھا کہ تمہارا اور فواد کا افیر تھا اس رات فواد نے تمہیں پرپوز کرنا تھا ، کوئی رنگ بھی دی تھی غالبا اور پھر اس نے تمہیں بہانے سے ہمایوں کے گھر بھیج دیا -اس رنگ کا ذکر فواد کی اس فون کال میں بھی تھا جو ہمایوں نے ٹیپ کی تھی-
یہ بات اس نے پہلے اگنور کردی تھی، پھر ظاہر ہے معیز نے یاد دلایا تو وہ الجھ گیا-اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے سچ بولا-
اب کی بار وہ خاموش رہی- اس نے نہیں پوچھا کہ فرشتے کا سچ کیا تھا- وہ جان گئی تھی کہ وہ کیا کہنے جا رہی ہے-
اور جب ہمایوں نے آپ سے میرے اور فواد کے تعلق کی نوعیت اور ان تصاویر کے بارے میں پوچھا تھا تب آپ نے کیا کہا تھا؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا-
وہ ہی جو سچ تھا- وہ اب بھی پرسکون تھی- اس کو معیز نے کچھ تصاویر اور ایگری منٹ لا کر دکھایا تھا جو ہم نے فواد سے طے کیا تھا-میں سمجھتی تھی کہ تم نے اس کے بارے میں ہمایوں کو بتا دیا ہو گا، میں نے اس کے غصے کے ڈر سے خود نہیں بتایا تھا- مگر تم نے بھی نہیں بتایا تو اس کا غصہ کرنا لازمی تھا - اس نے مجھے بلایا ، پھر وہ مجھ پر چیخا ، چلایا،میں چپ کر کے سنتی رہی، اس نے پوچھا کہ یہ ایگری منٹ سچا ہے یا جھوٹا- میں نے سچ بولا- وہ غصے میں چلاتا رہا ، اسے دکھ تھا کہ ہم دونوں نے اس پہ ٹرسٹ نہیں کیا- پھر اس نے وہ تصویریں مجھے دکھائیں اور پوچھا کہ وہ سچ ہے یا جھوٹَ میں نے سچ ہی بولا-
وہ بہت سکون اور اطمینان سے میز سے ٹیک لگائے کھڑی اس کے بارے میں ان کہے سوالات کے جوابات دے رہی تھی-
میں نے اس کا پرپوزل اس لیے قبول کرلیا کیونکہ طلاق کے بعد اسے بھی کسی نہ کسی سے شادی کرنا ہی تھی، اور مجھے بھی اور چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے تھے، سو اس کے پرپوزل میرے لیے بہترین چوائس تھا- میں اس کو تمہارے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے مجبور بہیں کر سکتی تھی، نہ ہی وہ کسی کی مانتا ہے-سو شرعی لحاظ سے میرے پاس پرپوزل قبول کرنے کا حق تھا سو میں نے وہ استعمال کیا-
اس کے پاس دلائل تھے، توجیہات تھیں، ٹھوس اور وزنی شرعی سہارے تھے-محمل خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتی رہی ، وہ ذرا دیر کو چپ ہوئی تو اس نے لب کھولے-
اس کے انداز میں ندامت تھی، نہ پکرے جانے کا خوف، وہ بہت آرام سے پپوچھ رہی تھی-
سب کچھ! اس نے آہستہ سے دہرایا-
جب ہمایوں کراچی سے آیا تو اس نے مجھے پرپوز کیا-وہ تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا، مگر طلاق سے قبل وہ مجھ سے شادی نہیں کر سکتا تھا- سو ہم نے ڈیسائیڈ کیا جب تم ہوش میں آؤ گی وہ تمہیں ڈائیورس دے گا اور ہم شادی کر لیں گے-
وہ جیسے موسم کی کوئی خبر سنا رہی تھی-
وہ کہتا تھا علماء سے فتوی لے لیتے ہیں، مگر میرا دل نہیں مانا ، میں نے سوچا کہ کچھ وقت اور انتظار کر لیتے ہیں - اور پھر تم ہوش میں آگئیں- سو اس نے ڈائیورس پیپرز سائن کر دیے- مجھے پرپوز کرنے سے قبل ہی وہ تمہیں ڈائیورس دینے کا فیصلہ کر چکا تھا، اگر یہ ضروری نہ ہوتا وہ تب بھی ایسے ہی کرتا، کیونکہ وہ یہ شادی رکھنے کو راضی نہیں تھا-
فرشتے قرآن بھول گئی تھی- اگر وہ اسے پڑھتی رہتی تو اسے یاد رہتا ، لیکن وہ اسے پڑھنا چھوڑ چکی تھی اور قرآن تو چند دن کے لیے بھی چھوڑ دیا جائے تو وہ فورا ذہنوں سے مکمل طور پہ محو ہو جاتا ہے-یہ کتاب اللہ کی سنت تھی اور کبھی یہ تبدیل نہیں ہوگی-
اس نے گہری سانس لی-
وہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی تھی جس پہ ایک جسم ڈال دیا گیا تھا-
اوہ اچھا- فرشتے نے میز پہ گرے پانی کے قطرے ٹشو سے صاف کیے-
کیوں کیا آپ نے ایسے فرشتے؟ وہ بہت دکھ سے بولی تھی، اب وقت آگیا تھا کہ چوہے بلی کا کھیل بند کردے-
کیاَفرشتے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا-اس کے چہرے پر صرف استفسار تھا-
وہ جو اس گھر میں ہوتا رہا میں وہ سب جاننا چاہتی ہوں؟
مثلا؟اس نے ابرو اٹھائی ، اس کے چہرے پہ وہ ہی نرم سا تاثر تھا- سب کچھ!
سب کچھ؟ کس بارے میں میری اور ہمایوں کی شادی کے بارے میں؟
اور تم سارا دن کیا کرتی رہیں؟اس نے چڑمڑائے سوکھے پھول ڈست بن میں ڈالے - کچھ خاص نہیں-
دونوں خاموش ہوگئیں، اپنی اپنی سوچوں میں گم- اب اس کے پاس حقیقت جاننے کا ایک ہی راستہ تھا اور اس نے استعمال کرنے کا ارادہ کیا-
فرشتے، وہ جسم کس کی کرسی پہ ڈالاگیا تھا؟
کون سا جسم ؟فرشتے نے پلٹ کر اسے دیکھا- پلٹنے سے اس کا دوپٹہ سرکنے سے بھورے بال جھلکنے لگے تھے-
قرآن میں ایک جگہ ایک جسم کا ذکر ہے جو کسی کی کرسی پہ ڈالا گیا تھا- آپ کو یاد ہے وہ کس کا جسم تھا؟اس کا انداز یوں تھا جیسے بھول گئی ہو-
فرشتے نے الجھ کر چند لمحے سوچا، پھر نفی میں سر ہلادیا- نہیں مجھے نہیں یاد آرہا-
اور محمل کو سارے جواب مل گئے تھے-
اس کے بھورے بال کھلے تھے اور اس نے انہی پہ دوپٹہ لے رکھا تھا، ایسے کہ چند لٹیں باہر گر رہی تھیں-گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا-
جی-مجھے پتا نہیں کی آپ کدھر ہیں- محمل نے بغور اس کو دیکھا، جو اس کے سامنے سر جھکائے کتابیں سیٹ کر رہی تھی-
اسے ابھی بھی تیمور کی بات پر مکمل یقین نہیں تھا-فرشتے ایسا نہیں کر سکتی تھی، کبھی بھی نہیں، یقینا تیمور کو سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی-
میں ایک دوست کے ساتھ تھی کچھ شاپنگ کرنا تھی- بے حد رسانیت سے بتا کر اس نے رجسٹر ایک دوسرے کے اوپر رکھے- نہ اس نے جھوت بولا نہ سچ بتایا- اس کا یقین ڈگمگانے لگا-
آپ نے آگے کا کیا سوچا ہے فرشتے؟ میرے جانے کے بعد آپ کیا کریں گی؟
ابھی پلان کروں گی دیکھو کیا ہوتا ہے-وہ اب گلدان میں رکھے سوکھے پھول احتیاط سے نکال رہی تھی- اس کے جواب مبہم تھے۔۔۔۔ نہ سچ نہ جھوٹ-
البتہ وہ پانچ منٹ بعد ہی کچھ کاغذات اٹھا کر واپس چلا گیا تھا-اس کی گاری ابھی ابھی نکلی تھی-
وہ کھڑکی کے اس طرف چوکیدار کو گیٹ بند کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی، جب دروازہ ہولے سے بجا-
محمل؟فرشتے نے اپنے مخصوص نرم انداز میں پکارا،پھرہولے سے دروازہ کھولا- اب وہ کثرت سے سلام نہیں کرتی تھی-محمل نے گردن موڑ کر دیکھا-وہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی- دراز قد کانچ سی سنہری آنکھوں والی لڑکی، جو کھلتے گلابی رنگ کے لباس میں، سر پہ دوپٹہ لیے کھڑی تھی- وہ کون تھی-اسے لگا وہ اسے نہیں جانتی-
کیسی ہو؟نرم سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے وہ اندر داخل ہوئی-
بلقیس بتا رہی تھی تم میرا پوچھ رہی تھی- وہ آگے بڑھ کر عادتا شیلف پہ پڑی کتابیں ، رجسٹر اور ٹیپ وغیرہ سلیقے سے جوڑنے لگی تھی-
سورۃ الضحی ختم ہو چکی تھی- اس کی زندگی کی ساری کہانی گیارہ آیتوں میں سمیٹ کر اسے سنا دی گئی تھی- وہ سورہ جیسے ابھی ابھی اسمانوں سے اتری تھی، اس کے لیے صرف اس کے لیے-
اس نے تھک کر سر کرسی کی پشت سے ٹکا لیا، اورآنکھیں موند لیں-وہ کچھ دیر ہر سوچ سے بے نیاز سونا چاہتی تھی-پھر اٹھ کر اسے فرشتے سے ملنا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بادل زور سے گرجے تھے-
محمل نے ایک نظر کھڑکی سے باہر پھسلتی شام پہ دالی اور دوسری بند دروازے پہ-اس کی دوسری طرف اسے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دے رہی تھی- ابھی چند منٹ قبل اس نے فرشتے کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا-اس کے آنے کے کچھ دیر بعد ہمایوں کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی-
اللہ کو اس کی اتنی فکر تھی کہ وہ اس کے اداس دل کو تسلی دینے کے لیے یہ سب اسے بتا رہا تھا؟کیا واقعی اس نے اسے چھوڑا نہین تھا؟
کیا اس نے تمہیں یتیم پا کر ٹھکانا نہیں دیا؟
(الضحی 6)
وہ اپنی جگہ سن سی رہ گئی - یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا واضح ،اتنا صاف ، یہ سب اس کے لیے اترا تھا؟کیا وہ اس قابل تھی؟
کیا اس نے تمہیں راہ گم پا کر ہدایت نہیں دی؟
(الضحی 7)
وہ ساکت سی سنے جا رہی تھی، ہاں یہی تو ہوا تھا-
اور تمہیں نادار پا کر غنی نہیں کردیا ؟(الضحی 8)
اس کے آنسو گرنا رک گئے تھے- کپکپاتے لب ٹھہر گئے تھے-
پس تم بھی یتیم سے سختی نہ کرنا، اور سائل کو مت ڈانٹنا- اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا-
(الضحی 9)
مصحف
#
قسط نمبر- 40
💕
اسکو وہ سناٹے بھری رات یاد آئی جب ہمایوں نے اسے طلاق دی تھی، وہ رات جب وہ یہیں بیٹھی چھت کو دیکھتی رہی تھی-
تمہارے رب نے تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا اور نہ ہی ناراض ہے- ( الضحی ، 3)
اس کے آنسو روانی سے گرنے لگے تھے- یہ کون تھا جو اس کی ہر سوچ پڑھ لیتا تھا؟ یہ کون تھا؟
یقینا تمہارے لیے انجام آغاز میں بہتر ہوگا-
(الضحی 4)
اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں- کیا واقعی اب بھی اس سارے کا انجام اچھا بھی ہو سکتا تھا؟
تمہارا رب بہت جلد تمہیں وہ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے- (الضحی 5)
ذرا چونک کر بہت آہستہ سے محمل نے سراٹھایا -
والضحی ۔۔۔۔۔۔ قسم ہے دن کی-
وہ خاموشی سے سنتی رہی-اسے اپنی زندگی کے روشن دن یاد آرہے تھے ، جب وہ اس گھر کی ملکہ تھی-
اور قسم ہے رات کی جب جب وہ چھا جائے-
اسکو وہ سناٹے بھری رات یاد آئی جب ہمایوں نے اسے طلاق دی تھی، وہ رات جب وہ یہیں بیٹھی چھت کو دیکھتی رہی تھی-
Episode 39" Complete... ♥️
اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ خوب روئے- قرآن سنتی جائے اور روتی جائے- تلاوت کی کیسٹوں کا ڈبہ قریب ہی رکھا تھا- ٹیپ ریکارڈ بھی ساتھ تھا-اس نے بنا دیکھے آخر سے ایک کیسٹ نکالی اور بنا دیکھے ہی ڈال دی- ابھی نہ معافی جاننا چاہتی تھی، نہ ہی فہم پہ غور و فکر کرنا چاہتی تھی-ابھی وہ صرف سننا چاہتی تھی -
اس نے پلے کا بٹن دبایا اور میز پہ رکھ دیا- آنسو اس کی آنکھون سے ٹپک کر میز کے شیشے پر گر رہے تھے- قاری صہیب احمد کی مدھم ، پر سوز آواز دھیرے سے کمرے میں گونجنے لگی تھی-
اللہ اسے زندگی کے ایک مختلف فیز میں لایا تو اسے بخشش مانگنی چاہیئے تھی-مگر وہ ہمایوں اور تیمور کو مانگتی رہی - حنطتہ حنطتہ کہنے لگ گئی-گندم مانگنا برا نہیں تھا-مگر پہلے بخشش مانگنا تھی، وہ پہلا زینہ چڑھے بغیر دوسرے کو پھلانگنا چاہتی تھی اور ایسے پار کب لگا جاتا ہے؟
اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر تک میز پہ سر رکھے زارو قطار روتی رہی ، آج اسے اپنے سارے گناہ پھر سے یاد ارہے تھے-آج وہ پھر سے توبہ کر رہی تھی- وہ توبہ جو بار بار کرنا ہم نیک ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں-
زندگی میں بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب آپ سے خود قرآن نہیں پڑھا جاتا- اس وقت اپ کسی اور سے قرآن سننا چاہتے ہیں-آپ کا دل کرتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے کتاب اللہ پڑھتا جائے اور آپ روتے جائیں-بعض دفعہ آپ خوش ہونے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ صرف رونے کے لیے-
بنی اسرائیل کو شہر کے دروازے میں داخل ہونے سے قبل بخشش مانگنے کا حکم ملا تھا-مگر وہ گندم مانگتے رہے-بخشش نہیں مانگی-یہ بنی اسرائیل کی ریت تھی اور یہ ہی ریت خود اس نے بھی دہرائی تھی-
ہم زمانہ جاہلیت سے دور اسلام میں آکر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں، مگر بار بار کی توبہ بھول جاتے ہیں، ہم ایک کھائی سے بچ کر سمجھتے ہیں زندگی میں پھر کبھی کھائی نہیں آئے گی اور اگر آئی تو بھی ہم بچ جائیں گے-ہم ہمیشہ نعمتوں کو اپنی نیکیوں کو کا انعام سمجھتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہ کی سزا۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بھی امتحان ہوتا ہے، نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا اور زندگی کے کسی نئے امتحان میں داخل ہوتے ہی منہ سے پہلا کلمہ حطتہ کا نکلنا چاہیئے- مگر ہم وہاں بھی گندم مانگتے رہتے ہیں-
رجسٹر کی سطر حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن - کے اگے صفحہ ختم تھا-وہ بے اختیار اس سطر کو قرآن کے سفید کور کے قریب لائی جہاں مٹا مٹا سا "م" لکھا تھا-
اس نے گن اور م کو ملایا- دونوں کے درمیان ایک ننھا سا نقطی تھا-اس نے نقطوں کو جوڑا، ادھورا لفظ مکمل ہوگیا-
گندم-
وہ ننھے نقطے دال کے دو حصے تھے-
اسے یاد آیا وہ غلطی سے قرآن پہ رجسٹر رکھ کر لکھ رہی تھی- صفحی ختم ہوا تا لا شعوری طور پہ اس نے لفظ قرآن کے کور پہ مکمل کردیا-اسی وقت اسے کلاس انچارج سے ڈانٹ پڑی تو یہ بات ذہن سے محو ہو گئی - وہ کبھی جان ہی نہ پائی کہ یہ مٹا مٹا سا م اس ادھورے لفظ کی تکمیل تھا-
آج برسوں بعد وہ قصہ مکمل ہوگیا تھا-اس کے ذہن میں ایک روشنی کا کوندا سا لپکاتھا اور ساری گتھیاں سلجھ گئی تھیں-
اوہ !اس نے آہستہ سے سر اٹھایا اور پھر دھیرے سے وہیل چئیر کے پہیوں کو اندر کی جانب موڑا-
اس کے کمرے میں شیلف کے اوپر اس کا سفید کور والا مصحف پڑا تھا، اس نے سرعت سے اسے اٹھایا اس وقت اسے اس کی بے حد ضرورت تھی-
مصحف کے نیچے اس کا پرانا رجسٹر رکھا تھا-اس نے قرآن اتھایا تو رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا- محمل نے ہاتھ میں قرآن پکڑے ، جھک کر رجسٹر اٹھایا- وہ درمیان سے کھل گیا تھا- اسے بند کر کے رکھتے ہوئے ٹھہر سی گئی، کھلے صفحے پہ سورہ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر لکھی تھی جس پہ وہ ہمیشی الجھتی تھی- حطتہ اور حنطتہ- یہ صفحہ بہت دفعہ کھولنے کے باعث اب رجسٹر کھولتے ہی یہ کھل جاتا تھا-
کھلا ہوا رجسٹر اس کے دائیں ہاتھ میں تھا، اور قرآن بائیں ہاتھ میں، دونوں اس کے بالکل سامنے تھے-
یہ ہی کہا تھا ہمایوں نے، اور یقینا فرشتے کی بات کر رہا تھا-
لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟وہ اس کے گھر میں خیانت کیسے کر سکتی ہے؟وہ تو قرآن کی طالبہ تھی، وہ تو سچی تھی امانت دار تھی- پھر وہ کیوں بدل گئی؟وہ جو لمحوں کی امانت کا خیال رکھتی تھی رشتوں میں خیانت کیسے کر گئی؟
سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا- دل ڈوبا جا رہا تھا- آج اسے لگا تھا کہ سب دھوکے باز نکلے تھے، سب خود غرض نکلے تھے-ہر شخص اپنی زمین کی طرف جھکا تھا- اس کا کوئی نہیں تھا،کوئی بھی نہیں، وہ کتنی ہی دیر ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھی رہی-
بہت سے لمحے سرکے ، تو اسے یاد ایا کہ جہاں سب بدل گئے تھے ، وہاں کوئی نہیں بدلا تھا-جہاں سب نے دھوکا دیا ، وہاں کسی نے اس کا خیال بھی رکھا تھا-جہاں سب چھوڑ گئے - وہاں کسی نے سہارا بھی دیا تھا-
اور وہ ابھی تک ادھر کیوں رہ رہی تھی؟کیا صرف محمل کی کئیر کے لیے؟وہ کئیر تو کوئی نرس بھی کر سکتی تھی-پھر وہ کیوں ان کے گھر میں تھی؟
اس نے کبھی فرشتے کو قرآن پڑھتے نہیں دیکھا تھا- جس روز وہ مسجد گئی تھی- فرشتے ادھر نہیں تھی-وہ شام تک وہی رہی ، مگر وہ ادھر نہیں آئی- وہ غلط فہمی کا شکار رہی اور فرشتے نے اس کئ غلط فہمی نہیں دور کی-
اور آرزو؟اس کا کیا قصہ تھا؟وہ گواہ تھی کہ ہمایوں اس سے شادی کر رہا تھا-اس نے خود آرزو سے یہی کہا تھا مگر جب محمل نے پوچھا تھا تب اس نے کیا کہا تھا، یہ بتانا ضروری نہیں ہے-اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ آرزو سے شادی کررہا ہے-فرشتے نے کبھی اس کے اور آرزو کے غیر واضح تعلق پہ فکر مندی ظاہر نہیں کی- وہ سب کسی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھا- وہ دونوں جانتے تھے اور ایک اسی کو بے خبر رکھا تھا- وہ تم سے بہتر ہے-
ماما! آپ ٹھیک ہو؟ تیمور نے پریشانی سے اس کا ہاتھ ہلایا- وہ ذرا سا چونکی- آنکھوں کے آگے جیسے دھند سی چھا رہی تھی-
مجھے۔۔۔۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو بیٹا- اس نے بے اختیار چکراتا ہوا سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا-
ابھی۔۔۔۔ ابھی جاؤ یہاں سے پلیز-
چند لمحے وہ اداسی سے اسے دیکھتا رہا، پھر جھک کر گھاس پہ بیٹھی موٹی سفید بلی اٹھائی اور واپس پلٹ گیا-
کیا یہی واحد وجہ ہے؟
کیا تمہیں بالکل امید نہیں ہے کہ وہ رجوع کرے گا؟
کیا تم خود کو اتنا اسٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کر لوگی؟اس کے ذہن میں فرشتے کی باتیں گونج رہیں تھی-
ہر شام ہمایوں گھر سے چلا جاتا- کسی دوست کے پاس، ہر شام فرشتے بھی گھر سے چلی جاتی -اس نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ کدھر جاتی ہے-اس نے کبھی نہیں بتایا کہ محمل کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ کدھر جائے گی؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain