Damadam.pk
Mehar_1's posts | Damadam

Mehar_1's posts:

Mehar_1
 

ایک الوہی سی چمک نے محمل کے چہرے کا احاطہ کر رکھا تھا-وہ اس ماحول میں آ کے جیسے بہت خوش تھی اور اس خوشی کو اپنے اندر سمیٹ کر اب وہ دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار تھی-
آج اسے بازار جانے سے ڈر نہیں لگ رہا تھا-
بلقیس عادتا چھوٹی موتی ادھر ادھر کی باتیں کرتی اس کی وہیل چئیر چلاتی مرکز تک لے آئی-مرکز وہاں سے بہت قریب پڑتا تھا-وہ گوشت بنوانے دکان میں چلی گئی جبکہ محمل باہر بیٹھی رہی-
گاڑیاں بہت تیزی سے گزر رہی تھیں، لوگ بہت اونچا بول رہے تھے- موٹر سائیکلیں بہت شور مچا رہی تھیں-روشنیاں بہت تیز تھیں-
ذرا سی دیر میں ہی سارا سکون ہوا ہو گیا-اس کا دل گھبرانے لگا-
جلدی کرو بلقیس!وہ لفافے تھامےے دکان سے باہر آئی تو محمل سخت اکتا چکی تھی-

Mehar_1
 

اسکا پور پور خوشی میں ڈوب رہا تھا- یہ ماحول یہ درو دیوار -یہ تو اس کی ذات کا حصہ تھے-وہ کیسے اتنا عرصہ ان سے کٹی رہی؟
وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے وہیل چئیر پہ بیٹھی مسلسل سب کے سلام کا جواب دے رہی تھی- نہ کسی نے رک کر ترس کھا کر پوچھا کی اسے کیا ہوا ہے -نہ کسی نے ترحم بھری نگاہ ڈالی- نہ کوئی تجسس نہ کرید -وہ کونے میں وہیل چئیر پہ بیٹھی ساری چہل پہل دیکھ رہی تھی-
پھر کتنے ہی دیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہی یہاں تک کہ بلقیس نے مرکز تک جانے کی اجازت مانگی-
رات صاحب کے کوئی سرکاری مہمان آنے ہیں اور فرشتے بی بی نے مجھے گوشت بنوانے کو کہا تھا، میں بھول ہی گئی- آپ بیٹھو میں لے اتی ہوں-
نہیں میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی، آج دل کر رہا ہے دنیا کو پھر سے دیکھنے کا-

Mehar_1
 

ٹھنڈی تازگی بھری، باوقار سی دنیا-اس کے درو دیوار سے سکون ٹپکٹا تھا-
وہ جیسے بچوں کی طرح کھل اتھی تھی-آنکھوں میں چمک اگئی اور بے اختیار گردن ادھر ادھر گھماتی وہ ہر شے دیکھ لینا چاہتی تھی-بلقیس آہستہ آہستہ وہیل چئیر اگے بڑھا رہی تھی-
برآمدے میں سنگ مر مر کی چمکتی سیڑھیاں تھیں-ان پہ مسلسل لڑکیاں اوپر نیچے آ جا رہی تھیں-سفید یونیفارم کے اوپر لائٹ گرین اسکارف پہنے، وہ مسکراتی ہوئی خوش باش لڑکیاں ، ہاتھوں میں قرآن اورکتابیں پکڑے ہر کسی کو مسکرا کر سلام کرتیں، آس پاس نظر آرہی تھیں-
وعلیکم السلام ۔ وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔ وہ مسکرا کر ہر کسی کے سلام کا جواب دے رہی تھی-وہ وہاں کسی کو نہیں جانتی تھی اور کوئی اسے نہیں جانتا تھا پھر بھی سلام کرنا اور سلام میں پہل کرنے کا حرص رکھے ہر کوئی پاس سے گزرتے ہوئے سلام کرتا تھا-

Mehar_1
 

وہ کھانا کھا کر سو گئی تھیں-
چلو ٹھیک ہے-وہ جانتی تھی فرشتے تھکی ہوئی ہوگی- صبح بھی وہ فزیو تھراپست کے ساتھ محمل کی ایکسرسائزز اور پھر مساج کرنے میں لگی رہی تھی-پھر سبزی لانا اور گھر کی نگرانی-وہ شام کو مسجد جائے گی ہی، پھر ابھی اسے کیوں تھکائے سو اس نے فرشتے کو بلانے کا ارادہ ترک کردیا-
مسجد کا ہرا بھرا گھاس سے مزین لان ویسا ہی خوبصورت تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی-سفید ستونوں پہ کھڑی عالیشان اونچی عمارت ، چمکتے سنگ مر مر کے برآمدے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کونوں میں رکھے سبز لہلہاتے گملے شور مچاتی دنیا سے دور ، ہنگامے سے پاک ، ٹہرا ہو ، کونا کونا سکون میں ڈوبا ہوا ماحول-
مسجد کے اندر کوئی اور ہی دنیا تھی-

Mehar_1
 

یہاں تک کہ بلقیس وہیل چئیر لاؤنج کے داخلی دروازے تک لے آئی-
دروازے کی چوکھٹ پہ لگے بیل بوٹوں اور نقش و نگار کے درمیان اسے صوفے پہ بیٹھے تیمور کا چہرہ نظرآیا، جو بہت غور سے اسے باہر جاتے دیکھ رہا تھابلقیس وہیل چئیر لان میں لے آئی تازہ ہوا کا جھونکا چہرے سے ٹکرایا تو بال پیچھے کو اڑنے لگے- اسنے آنکھیں موند کے لمحے بھر کو موسم کی تازگی اپنے اندر اتارنا چاہی-تب ہی دیوار کے اس پار سے مدھم مدھم سی بھنبھناہٹ سماعت میں اتری-
اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جاتی ہے-
اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں-اسے گھر آئے ہوئے مہینہ ہونے کو آیا تھا مگر وہ کبھی مسجد نہیں گئی تھی-نہ جانے کیوں؟
بلقیس مجھے مسجد لے چلو-ایک دم سے اس کا دل مچل گیا تھا-
بلقیس نے فرمانبرداری سے سر ہلا کر وہیل چئیر کا رخ موڑ دیا-
فرشتے کدھر ہے؟اس نے سوچا کہ اسے بھی ساتھ لے لے-

Mehar_1
 

بار بار یہ سوال ذہن میں اٹھتے اور وہ بمشکل اس کو جھٹلا پاتی-
اور پھر آخر کب تک وہ ان کو یوں جھٹکے گی؟کبھی نہ کبھی تو اسے ان کا جواب چاہیئے ہو گا اور جس کتاب سے جواب مل جایا کرتے تھے، اس کے صفحے بار بار ایک ہی ایت سے کھل جاتے تھے-کبھی ایک جگہ سے کھل جاتے تو کبھی دوسری جگہ سے اور یہی صفحہ سامنے آجاتا-
اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطۃ-
مگر ہیکل سلیمانی کا دروازہ کہاں تھا؟وہ تو بن سواری کے شہر سے باہر نکال دی جا رہی تھی-اندر کیسے جاتی؟
وہ سہ پہر بہت زرد سی اتری تھی- بلقیس نے اسے بیڈ سے وہیل چئیر پہ بٹھایا اور باہر لے آئی-
تیمور لاؤنج میں صوفے پہ کتابیں پھیلائے بیٹھا تھا-اسے آتا دیکھ کر ایک خاموش نگاہ اس پہ ڈالی۔ اور پھر نگاہیں کتاب پہ جما لی-وہ پیاسی نگاہوں سے اسے تکتی رہی،

Mehar_1
 

اور وہ ایک سال جو اس نے اس گھر میں محبتوں اور چاہتوں کے بیچ گزارا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے تھے-وہ کیندل لائٹ ڈنرز، وہ لانگ ڈرائیوز، وہ روز ہمایوں کے لیے تیار ہونا، وہ ٹیرس پہ جا کر رات کو باتیں کرنا وہ ایک ساتھ کی گئی شاپنگز۔۔۔۔۔۔ ہر شے اس کی یاد داشت سے فلم کی طرح گزرتی تھی اور ہر یاد اس کے دل پہ مزیڈ آنسو گرا جاتی تھی- اور اگر تیمور بھی اس کے ساتھ نا رہا، تب وہ کیا کرے گی؟ کدھر جائے گی؟اگر ہمایوں نے اسے گھر سے نکال دیا، تو وہ کہاں رہے گی؟ کیا اپنے چچاؤں کے پاس؟ کیا وہ اسے رکھیں گے؟فرشتے کے ساتھ؟ مگر فرشتے تو خود تنہا تھی-ہمایوں کے گھر میں مہمان تھی -پھر وہ کیا کرے گی؟
یوں لگتا تھا چلچلاتی دھوپ میں اسے لا کھڑا کر دیا گیا ہے-نہ چھت نہ سائبان،مستقبل کا خوف کسی بھیانک آسیب کی طرح اس کے دل کے ساتھ چمٹ گیا تھا-

Mehar_1
 

کیا یہی واحد وجہ ہے؟
اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟
وللہ اعلم ۔ خیر جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا، اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس پہ اپنے دل کو بھی راضی کر لینا-لو یو سسٹر!اس نے اپنے ہاتھ محمل کے ہاتھوں سے ہٹائے اور ہولے سے اس کا گال تھپتھپاتی کھڑی ہوگئی-
بس یہ یاد رکھنا میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور جب تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتیں، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی- اوکے-
محمل نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب سے ہمایوں نے علیحدگی کی بات کی تھی فرشتے کے سامنے وہ لاکھ خود کو صابر شاکر ظاہر کرتی مگر اندر سے وہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی-اس کی یاد داشت میں ہمایوں کے ساتھ بیتا ایک ہی سال تھا- باقی کے ماہ و سال ذہن کے پردے پہ اترے بغیر ہی سرک گئے تھے-

Mehar_1
 

تم اس کے بغیر رہ لو گی؟
کیا وہ میرے بغیر نہیں رہ رہا؟ وہ پھیکا سا مسکرائی-
مگر کیا تم خوش رہو گی؟
اگر اللہ نے میرے مقدر میں خوشیاں لکھی ہیں تو وہ مجھے مل ہی جائیں گی،بھلے ہمایوں میرے ساتھ ہو یا نا ہو-
فرشتے تاسف سے اسے دیکھتی رہی-
آئی ایم ویری سوری محمل اگر تم کہو تو میں اس کا فیصلہ بدلنے کو۔۔۔۔۔۔
نہیں - اس نے تیزی سے اس کی بات کاٹی-آپ اس معاملے میں نہیں بولیے گا-
مگر ایک بار مصالحت کی ایک کوشش تو-
پلیز فرشتے مجھے بھکاری مت بنائیں!اس نے کچھ ایسی بے بسی سے کہا کہ فرشتے لب کاٹتی رہ گئی- مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟کیا اس نے تمہیں وجہ بتائی ہے؟
کیا میں نہیں جانتی؟ ہونہہ ! اس نے تلخی سے سر جھٹکا- وہ ایک معذور عورت کے ساتھ کب تک رہے،کب تک میری خدمت کرے، وہ میری بیماری سے اکتا گیا ہے،میں جانتی ہوں-

Mehar_1
 

مصحف
#
قسط 33
💕
کیا اس نے خود تمہیں ایسا کہا ہے؟
ہاں۔۔۔۔۔۔۔
تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مان لیا؟وہ بے یقین تھی-
میرے پاس چوائس بچی ہے کیا؟
فرشتے ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی-
فرشتے! میرے اختیار میں نہ کل کچھ تھا ، نہ آج ہے-ہمایوں نے فیصلہ سنانا تھا سنا دیا-اگر وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو کیا میں اسے مجبور کروں؟ نہیں-اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا-اگر وہ علیحدگی ہی چاہتا ہے تو ٹھیک ہے-میں مصالحت کی آخری کوشش ضرور کروں گی، مگر اس سے بھیک نہیں مانگوں گی-
پھر ۔۔۔ پھر کیا کرو گی کدھر جاؤ گی؟
فرشتے! میں ہمایوں کی محتاج نہیں ہوں-اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے-میں اپنے بیٹے کو لے کر کہیں بھی چلی جاؤں گی-

Mehar_1
 

محمل! تم اور ہمایوں۔۔۔۔۔۔ تم الگ ہو رہے ہو؟ وہ متحیر سی کہتی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اور دونوں ہاتھ اس کی گود میں دھرے ہاتھوں پہ رکھے-
ہاں ۔۔ شاید-"
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟وہ مضطرب سی اس کی آنکھوں میں دیکھتی جواب تلاش کر رہی تھی-
میں نے نہیں کیا ۔۔۔ ہمایوں نے کیا ہے-
کیا اس نے خود تمہیں ایسا کہا ہے؟
ہاں۔
Episode 32 Complete... ♥️

Mehar_1
 

راستہ ایک ہی ہے، اس پہ انسان ایک وقت تک چلتا ہے، اور پھر آکر واپس اپنے قدموں کے نشانوں پہ لوٹتا ہے جو ببول اگا کر جاتے ہیں ان کو لہولہان کرنے والے کانٹے ہی ملتے ہیں اور جنہوں نے پھول بکھیرے ہوںان کا انتظار گلستان کر رہے ہوتے ہیں-
محمل! کسی نے پکارا تو وہ خیالوں سے جاگی اور پھر سختی سے اپنی انکھیں رگریں-
کیا میں نے ٹھیک سنا؟فرشتے جیسے بے یقین سی اس کے سامنے آئی-
کیا؟اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے سر اٹھایا-

Mehar_1
 

جسٹ لیو می آلون- وہ ایک دم زور سے چیخا تھا اور پھر کرسی کو ٹھوکر مارتا اندر چلا گیا-
وہ تاسف سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی- یہ تلخ لہجہ ، یہ بد مزاجی، یہ اندر بھرا زہر۔۔۔۔۔ یہ کس نے تیمور کے اندر ڈالا-
اور اس سے پہلے کہ وہ اس کے باپ کو مورد الزام ٹھہراتی ایک منظر سا اس کی نگاہوں کے سامنے بننے لگا-
جینز کرتے میں ملبوس ، اونچی پونی تیل والی ایک لڑکی چہرے ہی ڈھیروں بے زاری سجائے چلا رہی تھی-
" میں اپ کے باپ کی نوکر ہوں جو یہ کروں؟
اس کے مخاطب بہت سے چہرے تھے، کبھی تائی مہتاب ، کبھی مسرت، کبھی کزنز تو کبھی کوئی چچا-
اسے وہ منہ پھٹ بد تمیز اور تلخ لڑکی یاد ائی اور اس کا رواں رواں کانپ اٹھا-
ہاں۔۔۔۔ جو اپنے بڑوں کے ساتھ جیسا کرتے ہے اس کے چھوٹے بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کرتے ہیں-کوئی اس کے اندر بولا تھا-

Mehar_1
 

بیٹھو تیمور مجھے تم سے بات کرنا ہے-
آئی ڈونت وانت ٹو ٹاک یو- (میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا) وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا تھا-
مگر مجھے کرنا ہے، اور یہ تمہارے ڈیڈ کا میسج ہے میرا نہیں-
واٹ؟وہ لمحے بھر کو رکا، ماتھے پہ بل اور بھنویں تنی ہوئی-
شاید میں اس گھر سے چلی جاؤں، شاید اب ہم ساتھ نہ رہیں، میں اور تمہارے ڈیڑی-
آئی ڈونت کئیر!
" تیمور تم کس کے ساتھ رہنا چاہو گے؟میرے ساتھ یا ڈیڈی کے ساتھ؟وہ جانتی تھی کہ تیمور کا جوام کم از کم اس کے حق میں نہیں ہوگا، پھر بھی پوچھ لیا-
کسی کے ساتھ بھی نہیں-اس نے بے زاری سے شانے اچکائے تھے-
مگر بیٹا اپ کو کسی کے ساتھ تو رہنا ہی ہوگا-
میں اپ کا نوکر ہوں جو کسی کے ساتھ رہوں؟

Mehar_1
 

آخر کیوں انہوں نے صحیح لفظ نہ بولا ؟حنطتہ کیوں کہا؟
وہ سمجھ نہ پائی اور پھر قرآن بند کر کے رکھ دیا- دل اتنا خالی تھا کہ تفسیر کھول کر تفصیل پڑھنے کو بھی نہیں چاہا- کانوں میں ابھی تک ہمایوں کے الفاظ گونج رہے تھے-
ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور رخسار پہ پھسلتا گیا-
تو جس حال میں رکھے میرے مالک میں تجھ سے راضی ہوں-اور نہایت بے دردی سے اس نے ہتھیلی کی پشت سے آنسو رگڑ ڈالا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تیمور توس کے چھوٹے چھوٹے لقمے لے رہا تھا- ڈائننگ ٹیبل پہ اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا-
وہ اپنی وہیل چئیر گھسیٹتی دائننگ ہال میں داخل ہوئی وہ آہت پہ چونکا-لقمہ توڑتے چھوٹے چھوٹے ہاتھ رکے اور سر اٹھایا-محمل کو اتے دیکھ کر اس کے ماتھے پہ بل پڑ گیا-اس نے توس کا بچا ٹکڑا زور سے واپس پلیٹ میں پھینکا اور کرسی پیچھے کو دھکیلی-

Mehar_1
 

اس نے رجسٹر کھولا نوٹس میں اس واقعے کے متعلق بس اتنا لکھا تھا کہ ہیکل میں داخلے سے قبل جب بنی اسرائیل کو کہا گیا کہ سواریوں پہ جھکتے ہوئے عاجزی سے حطتہ یعنی بخشش کہتے ہوئے داخل ہو ، تو تمسخر اڑاتے ہوئے زبانیں مروڑ کر حنطتہ حنطتہ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے- آگے لکھا تھا-
حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن- اس سے ؟آگے صفحہ ختم تھا-
اس نے ذہن سے تمام سوچوں کو جھتک کے ان الفاظ پہ غور کیا اور پھر نئے سرے سے الجھ گئی- وہ واقعہ اسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا- بنی اسرائیل جتنی جینئیس اور عقل مند قوم نے ایسا کیوں کیا؟انہوں نے گن کس چیز کو کہا؟جب ان کو سیدھے طریقے سے بتایا گیا تھا کہ وہ بخشش مانگیں تو انہوں نے گن گن کیوں کہا؟ ایک طرف وہ اتنے ذہین تھے کہ حطتہ سے ملتا جلتا لفظ ڈھونڈ لائے، اور پھر دوسری طرف اس لفظ کو کہنے کا مطلب ہی نہیں بنتا تھا-

Mehar_1
 

اگر سنی تمہارے ساتھ رہنا چاہے تو میں اسے مجبور نہیں کروں گا کہ وہ میرے ساتھ رہے اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو تم اسے مجبور نہیں کرنا، جو بھی فیصلہ کرو مجھے بتا دینا، لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں،اس نے کتاب ریک میں رکھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا-
وہ شدید صدمے کے زیر اثر پتھر بنی وہیں بیٹھی رہ گئی-
کیا ہمایوں اس طرح اسے اپنی زندگی سے دور کر سکتا ہے؟
اگر کرتا ہےا تو کرنے دو میں مر نہیں جاؤں گی اس کے بغیر- ایک دم اس نے سر جھٹکا-
آنکھ آنسو بہاتی ہے-
اور دل غمگین ہوتا ہے- مگر ۔۔۔۔۔
ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو-
بے اختیار ہی مدھم آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی-اس کے دل کو جیسے قرار سا آگیا-

Mehar_1
 

بغیر کسی دقت کے اسے وہ رجسٹر سامنے ہی مل گیا - اس پر ہلکی ہلکی سی گرد کی تہ جمی تھی-محمل نے وہ ترچھا کر کے چہرے کے سامنے کیا اور پھونک ماری، گرد اڑ کر دور بکھر گئی-
میں تمہیں چھوڑنا چاہتا ہوں- ہمایوں بغیر کسی تمہید کے کھڑے کھڑے کتاب کے صفحے الٹ پلٹ کرتے بولا تھا-
لمحے بھر کو محمل کو لگا وہ دھول متی ار کر ہر طرف چھانے لگی ہے-اس نے بمشکل رخ موڑ کر اسے دیکھا- وہ بے نیاز سا کتاب کے ورق پلٹ رہا تھا-
میرا مطلب مکمل علیحدگی سے ہے- میں اب یہ رشتہ مزید نہیں نبھانا چاہتا-سو مجھے اپنے پیروں کی زنجیر کھولنے دو-سنی ہم دونوں کا بیٹا ہے اور سات سال کا ہو چکا ہے- اس کی کسٹڈی اسے خود ڈیسائیڈ کرنے دینا-
دھول شاید اس کی آنکھوں میں بھی پر گئی تھی-وہ سرخ پڑنے لگی تھیں- وہ لب کچلتی اس کی بات سن رہی تھی-

Mehar_1
 

اس میں اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لکھے تھے-
شاید پرانے رجسٹر میں ہوں جو الگ سے تھے-اس نے اپنی وہیل چئیر کا رخ موڑا اور اندر لے گئی - اسٹڈی میں ایک جگہ اس نے اپنے پرانے نوٹس رکھے تھے-وہ انہیں کو ڈھونڈنے اسٹڈی میں ائی- دروازہ ادھ کھلا تھا وہ اندر آگئی-
ہمایوں اس کی طرف پشت کیے ریک میں سے کوئی بک نکال رہا تھا- آہٹ پہ پلٹا- ایک نظر اسے دیکھا اور پھر واپس کام میں لگ گیا - اجنبیت ، سرد مہری ، بے حسی ، مگر ذیادہ دل جلائے بغیر وہ مطلوبہ حصے کی طرف بڑھ گئی-
اس کے نوٹس وہیں رکھے تھے- گرد کی ایک تہ ان پر جمی ہوئی تھی، جیسے ان گزرے برسوں میں بس واجبی سی صفائی کی جاتی رہی ہو-ظاہر ہے فرشتے کیا کیا دیکھے، اسے کسی دن اسٹڈی کی صفائی کروانا چاہیئے- وہ سوچتی ہوئی مطلوبہ رجسٹر ڈھونڈنے لگی-

Mehar_1
 

وہ آواز آج بھی آ رہی تھی-وہ وہیں دیوار کے ساتھ وہیل چئیر روکے کان لگا کر سننے لگی-
وہ سب مل کر بلند آواز میں پڑھ رہے تھے-ترجمہ"اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے، اور کہو حتطۃ-ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے-
آج اس نے بہت عرصے بعد یہ دعا سنی تھی-
بےاختیار وہ گود میں رکھے قرآن کے صفحے پلٹنے لگی-
وہ بنی اسرائیل کے ہیکل میں داخل ہونے کا قصہ تھا- سورۃ البقر کی 58 آیت، جب انہوں نے حطتہ کے بجائے حنطتہ کہا تھا- محمل کو کبھی یہ قصہ سمجھ میں نہیں ایا تھا- اب بھی وہ الجھ سی گئی اور صفحہ نکالا-