Damadam.pk
Mehar_1's posts | Damadam

Mehar_1's posts:

Mehar_1
 

محمل نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا جس کے بے وفا چہرے پہ کوئی پچھتاوا کوئی ملال نہ تھا-
پوچھ سکتی ہوں آپ دوسری شادی کس سے کر رہے ہو؟
ہمایوں نے ایک نظر سامنے کھڑی آرزو کو دیکھا اور پھر شانے جھٹکے-
یہ بتانا ضروری نہیں ہے-میں ذرا چینج کر کے آتا ہوں-آخری فقرہ آرزو سے کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چرھتا گیا-
وہ چند لمحے اسے اوپر جاتے دیکھتی رہی - زندگی میں پہلی بار اسے ہمایوں داؤد سے نفرت محسوس ہوئی تھی، شدید نفرت-
آپ تو اپاہج ہو کر بھی خوب بنی سنوری رہتی ہو-آرزو کی طنزیہ آواز پہ اس نے چہرہ اس کی جانب موڑا-
اگر شکل اچھی ہو تو معذوری میں بھی اچھی ہی لگتی ہے۔ آرزو بی بی ورنہ لوگ تو گھنٹوں کی تراش خراش کے بعد بھی خوبصورت نہین لگتے-
چچ چچ- رسی جل گئی ، بل نہیں گئے-وہ اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی-

Mehar_1
 

کیا ہے اس میں ہمایوں صاحب؟ کیا میرا طلاق نامہ ہے؟اندر سے تہ شدہ کاغذ نکالتے ہوئے ہوئے وہ بہت آرام سے بولی تھی-وہ خاموش رہا- محمل نے کاغذ کی تہیں کھولیں-
وہ واقعی طلاق نامہ تھا-ہمایوں کے دستخط ، محمل کا نام-
نہ اس کے ہاتھ سے کاغذ پھسلا نہ وہ چکرا کر گری- بس ایک نظر میں پورا صفحہ پڑھ ڈالا اور پھر گردن اٹھائی-لمحوں میں ہی اس نے سارے فیصلے کر لیے تھے-
اس پہلی طلاق کا شکریہ ہمایوں داؤد ! جس عالم نے آپ کو یہ بتایا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا ایک قبیح عمل ہے- سو طلاق ایک ہی دینا بہتر ہے، تو اس نے یقینا یہ بھی بتایا ہوگا کہ اب عدت کے تین ماہ میں اسی گھر میں گزاروں گی، کیا نہیں بتایا؟
مجھے معلوم ہے ، تم تین ماہ ادھر ہی رہ سکتی ہو، اس کے بعد میں شادی کر لوں گا- وہ کھڑا ہو گیا-

Mehar_1
 

ٹھیک ہے آپ بتائیں-
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے، اور آرزو اسی طرح سینے پہ بازو لپیٹے اکھڑی اکھڑی سی کھڑی تھی- چند لمحے خاموشی حائل رہی -ہمایون ہاتھ میں پکے خاکی لفافے کو دیکھتا رہا ، جیسے کچھ کہنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا ہو- اس نے سر اٹھایا اور ان ہی سنجیدہ نگاہوں سے محمل کا چہرہ دیکھا-
میں شادی کر رہا ہوں-
ایک لمحے کو سکوت چھا گیا، مگر نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی نہ ہی کوئی طوفان ایا- اس نے بہت صبر سے اس کی بات سنی اور پھر سوالیہ ابرو اٹھائے- تو؟
تو یہ کہ ہم دونوں کو الگ ہو جانا چاہیئے- یہ لو-
اس نے خاکی لفافہ محمل کی طرف بڑھایا، جسے اس نے دایاں ہاتھ بڑھا کر تھاما-دونوں لمحے بھر کو رکے، دونوں اسی وقت خاکی لفافہ تھام رکھا تھا-مگر وہ بس ایک لمحے کا فسوں تھا- پھر ہمایوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور محمل نے سفاکی سے لفافہ چاک کیا-

Mehar_1
 

وہ اس کے ہم قدم مسرور سی چل رہی تھی-وائٹ ٹراؤزر پہ پنک گھٹنوں تک اتی شرٹ ، اور دوپٹہ نا پید ، کمان پتلی ابروز اور تیکھی نگاہیں-
اسے سامنے بیٹھے ، گردن اٹھائے خود کو دیکھتے ، ان دونوں کے قدم ذرا سست پڑ گئے-
چند لمحے وہ شدید صدمے کی حالت میں رہی تھی-مگر پھر سنبھل گئی -
بظآہر سکون سے ان دونوں کو آتے دیکھا اور اسی سکون سے سلام کیا-
السلام علیکم!
وعلیکم السلام - ہمایوں نے جواب دے کر ایک نظر آرزو کو دیکھا جو سینے پہ بازو باندھے تیکھی نگاہوں سے محمل کو دیکھ رہی تھی-اس کی نگاہوں میں واضح استہزا تھا-
میں اپ کا انتظار کر رہی تھی ہمایوں!مجھے آپ سے بات کرنی ہے-وہ آرزو کو یکسر نظر انداز کیے سپاٹ لہجے میں ہمایوں سے مخاطب تھی-
مجھے بھی تم سے بات کرنی ہے- وہ سنجیدگی سے کہتا اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھا ، خاکی لفافہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا-

Mehar_1
 

ہمایوں ابھی تک نہیں ایا تھا-وہ بے چین سی لاؤنج میں بیٹھی تھی-کبھی آویزے درست کرتی کبھی چوڑیاں ٹھیک کرتی اور بار بار دروازے کو دیکھتی-
دو بجنے والے تھے جب اس نے گاڑی کی آواز سنی- ایک دم اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا-
یہ ہی طریقہ اسے بہترین لگا تھا سو اس نے اسی کو اپنایا تھا-
قدموں کی آواز اسے قریب ہوتی سنائی دی- وہ خواہ مخواہ گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھنے لگی- وہ نروس ہو رہی تھی اور یہ وہ جانتی تھی-
دروازہ کھلا اور اسے ہمایوں کے بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دی-مگر نہیں ، ساتھ میں نازک ہیل کی تک ٹک بھی تھی-
اس نے حیرت سے سر اٹھایا اور اگلے ہی پل زور کا جھٹکا لگا-
ہمایوں اور آرزو آگے پیچھے اندر داخل ہوئے-
وہ یونیفارم میں ملبوس تھا، ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا اور وہ آرزو سے بغیر کچھ سنے چلا آرہا تھا-

Mehar_1
 

یوں کہ اونچی پونی ٹیل اس کی گردن پہ جھولنے لگی-
محمل کی یادگار پونی ٹیل-
وہ اسے دیکھ کر اداسی سے مسکرادی--پھر ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا جیولری باکس کھولا اور لٹکتے سرخ یاقوت کا سونے کا سیٹ نکالا- کانوں میں آویزے پہنے، اور گردن میں نازک سا نیکلس ، اب اپنا عکس دیکھا تو خوشگوار سی حیرت ہوئی-وہ واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی-ترو تازہ اور خوبصورت-
جیولری باکس کے ساتھ ہی اس کی کانچ کی سرخ چوڑیاں پڑی ہوئی تھیں-وہ ایک ایک چوڑی اٹھا کر کلائی میں ڈالتی گئی-یہاں تک کہ دونوں کلائیاں بھر گئیں اور جب اس نے سرخ بڑے سے یاقوت کی انگوٹھی اٹھائی تو اسے پہنتے ہوئے چوڑیاں بار بار کھنک اٹھتیں-
ڈیڑھ بجنے والا تھا، اس نے ایک نظر گھڑی کو دیکھا اور پھر پرفیوم اسپرے کر کے خود کو باہر نکال لائی-

Mehar_1
 

وہیل چئیر پہ بیٹھی ایک کمزور سی لڑکی جس کے گھٹنوں پہ چادر پڑی تھی اور گیلے بال شانوں پہ بکھرے تھے-چہرے کی سپید رنگت میں زردی کھنڈی تھی اوور بھوری آنکھوں تلئ حلقے تھے-
اس نے ہئیر برش اٹھایا اور آہستہ آہستہ بالوں میں اوپر سے نیچے کنگھی کرنے لگی-گیلے بالوں سے موتیوں کی طرح ٹپکتے قظرے اس کی سرخ قمیض کو بھگو رہے تھے-یہ خوبصورت جوڑا فرشتے نے اس کے لیے بنوایا تھا، اور آج بہت شوق سے اس نے پہنا تھا-
بال سلجھ گئے تو اس چہرے پہ ہلکا سا فاؤنڈیشن لگایا ، پھر گلابی سا بلش آن بکھیرا ، آنکھوں میں گہرا کاجل اور اوپر لائٹ پنک آئی شیڈو پھر پنک اور ریڈ لپ آسٹک ملا کر لبوں پہ لگائی ، یوں کہ اوور بھی نہ لگے اور بہت پھیکی بھی نہیں-بال ذرا ذرا سوکھنے لگے تھے-اس نے ان کو برش سے سمیٹا ، پھر دونوں ہاتھوں میں پکڑے اونچا کیا، اور پونی میں باندھا،

Mehar_1
 

یہاں تک کہ شام ڈوب گئی اور چاندنی سے کھڑکی کے شیشے روشن ہوگئے-
وہ اسی طرح اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں بیٹھی ، گردن اٹھائے چاند کو دیکھ رہی تھی-
"ادفع بالتی احسن -
(دور کرو اسے اس طریقے سے جو بہترین ہو-)
جو بہترین ہو-
جو بہترین ہو-
ایک آواز بار بار اس کی سماعت میں گونج رہی تھی-وہ چپ چاپ چاند کو دیکھتی کچھ سوچے گئی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے دیوار پہ آویزاں گھڑی پہ نگاہ دوڑائی-ایک بجنے میں ابھی چند منٹ تھے اور ہمایوں ڈیڑھ بجے تک گھر آجاتا تھا-
وہ وہیل چئیر گھسیٹتی سنگھار میز کے سامنے لے آئی اور قد آور آئینے میں اپنا عکس دیکھا-

Mehar_1
 

اس نے پھر پڑھا-
پھر دفعتا وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے ، یوں ہو جائے گا گویا تمہارا حمیم ہو ، اور اس (خوبی ) کو ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں حاصل کر سکتا جو بہت صبر کرتے ہیں اور اس ( خوبی ) کو ان کے علاوہ کوئی نہیں حاصل کر سکتا جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں-
میں اتنی صبر کرنے والی اور قسمت والی کہاں ہوں اللہ تعالی؟اس نے پاس سے سوچا تھا-کیا واقعی کبھی بھی ان عداوتوں کو پگھلا نہیں سکے گی؟کیا اسے مایوس ہو جانا چاہیئے؟
باہر سے چہل پہل کی اوازیں بدستور ارہی تھیں-محمل کے کمرے کے سامنے ہی ڈرائنگ ہال اور ڈائننگ روم تھا-
اس نے قرآن بند کر کے شیلف پہ رکھا، اور وہیل چئیر کو گھسیٹتی ہوئی کھڑکی کے پاس لے آئی- قد آور کھڑکی کے شفاف شیشوں کے اس پار ڈوبتی شام کا منظر نمایاں تھا- دور اوپر کہیں آدھا چاند بادلوں سے جھانک رہا تھا-

Mehar_1
 

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی سو ( برائی کو ) اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو پھر دفعتا وہ شخص جس کے اور تمہارے دریان عداوت ہے ،یوں ہو جائے گا گویا کہ تمہارا حمیم ( گہرا جاں نثار دوست) ہو-
اس نے اچنبھے سے ان آیات کو دیکھا، کیا اب بھی کوئی امید تھی کہ وہ شخص اس کا حمیم ( گہرا جان نثار دوست) بن سکتا ہے؟اب تو کچھ باقی نہیں رہا تھا، سب ختم ہوگیا تھا- اس نے اس آیت کو دوبارہ پڑھا-
بہت ہی عجب ماجرا تھا- آج وہ اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے دیکھ آئی تھی، اپنے اس شوہر کو جو برملا اس سے علیحدگی کا کہہ چکا تھا-اس کا اپنا بچہ اس سے بکتا تھا-اس سے نفرت کرتا تھا- اس کی بے انتہا پر امید رہنے والی بہن بھی آج خاموش تھی، آج اس نے بھی امید نہیں دلائی تھی کہ ہمایوں کا رویہ سب کے سامنے تھا-

Mehar_1
 

میرے مالک کوئی امید کا سرا دکھا دے، کوئی روشنی دکھا دے-
وہ بنا لب ہلائے دعا کے لیے اتھے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی-آنکھوں سے آنسو اسی طرح بہہ رہے تھے-
پھر جب بہت رو چکی، تو چہرہ پونچھا اور سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اپنا سفید کور والا قرآن اتھایا، اس کے فرنٹ کور پہ مٹا مٹا سا "م " اسی طرح لکھاتھا-
اسے یاد نہیں تھا اس نے آخری بار تلاوت کدھر چھوڑی تھی، پتا نہیں نشان کہیں لگایا تھا یا نہیں- بس جہاں سے صفحہ کھلا اس نے پڑھنا شروع کر دیا-
لا شعوری طور پر وہ اللہ تعالی سے رہنمائی چاہتی تھی-
" اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہت،جو اللہ کی طرف بلائے اور اچھے عمل کرے اور کہے ، بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں-
اس نے اگلی ایت پڑھی-

Mehar_1
 

کیا کبھی حالات بدلیں گے ، کیا کبھی ہمایوں لوٹے گا ؟ کیا کبھی اس کی معذوری ختم ہوگی؟کیا کبھی تیمور اس کے پاس آئے گا؟کیا یہ گھر اس کا رہ سکے گا؟کیا وہ دربدر کردی جائے گی؟کیا وہ بے سہارا چھوڑ دی جائے گی؟
اندر کا خوف اور بے بسی آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر چہرے پہ لڑھکنے لگی- مستقبل ایک بھیانک سیاہ پردے کی مانند ہر طرف چھاتا دکھائی دے رہا تھا، اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں-
اللہ اس چیز سے بڑا ہے، جس سے میں ڈرتی اور خوف کھاتی ہوں-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا وہ ایک کلمہ وہ زیر لب بار بار دہرا رہی تھی-یہاں تک کے اندر کا کرب قدرے کم ہوا اور ذرا سکون آیا تو اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے-
اگر ان لوگوں نے مجھے چھوڑ ہی دینا ہے نکال ہی دینا ہے تو مجھے کسی بے قدرے کے حوالے مت کرنا،

Mehar_1
 

تم آرام کرو-وہ باہر نکل گئی اور محمل وہیں اداس ویران سی بیٹھی رہ گئی
باہر سے چہل پہل کی مدھم سی آوازیں ارہی تھیں-کافی دیر بعد اس نے کھڑکی سے ہمایوں کی گاڑی کو آتے دیکھا تھا-اس کے ہمراہ دو تین معزز اشخاص بھی تھے،ہمایوں اسی لباس میں تھا جس میں وہ شام کو آرزو کے ساتھ ریسٹو رنٹ میں تھا-گویا وہ واقعی وہی تھا، یہ اس کا واہمہ نہیں تھا-
وہ حسرت و یاس سے کھڑکی سے لگی ان کو اندر جاتے دیکھتی رہی-اس کے کمرے میں اندھیرا اتر آیا تھا- باہر روشنی تھی-باہر والے اسے نہیں دیکھ سکتے تھے، اور وہ باہر والا " تو شاید اب کبھی بھی اسے نہ دیکھ سکے-اس کے پاس اب بہتر انتخاب تھا،
جوان اسٹائلش، زندگی سے بھرپور عورت،بے شک وہ محمل کی طرح خوبصورت نہ تھی ، مگر اس کی تراش خراش کی گئی شکل اب محمل سئ حسین لگتی تھی-

Mehar_1
 

مصحف
#
قسط 34
💕
یہ میرا گھر نہیں ہے محمل! مجھے اس کا حق نہیں ہے-
محمل چپ سی ہوگئی-اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا-
ہمایوں کے کچھ گیسٹ آنے ہیں چائے پہ- ابھی پہنچنے والے ہونگے، میں ذرا کچن دیکھ لوں-وہ اس کے ہاتھوں سے ہاتھ نکال کے کھڑی ہوگئی-گیلے بال شانے سے پھسل کر کمر پہ جا گرے-
آپ۔۔۔۔۔ آپ بہت اچھی ہیں فرشتے- وہ کہے بغیر نہ رہ سکی-
وہ تو مجھے پتا ہے- وہ نرمی سے مسکرائی اور زرد دوپٹے کا پلو سر پہ ڈالا، پھر اچھی طرح چہرے کے گرد حصار بنا کر دایاں پلو کندھے پہ ڈال لیا- یوں کہ بال اور کان چھپ گئے-

Mehar_1
 

واقعی ؟ اسے حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا- آخر وہ کس حیثیت سے آئی تھی اس گھر؟
آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ اندر کیوں آنے دیا؟
یہ میرا گھر نہیں ہے محمل! مجھے اس کا حق نہیں ہے-
محمل چپ سی ہوگئی-اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا-
Episode 33 Complete... ♥️

Mehar_1
 

کن دونوں کو؟وہ بری طرح چونکی-
ہمایوں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آرزو کو-
آرزو اسد انکل کی بیٹی آرزو؟
ہاں وہی-کیا اسد چچا کی ڈیتھ ہوگئی ہے؟
تم نے انہیں کدھر دیکھا؟وہ اس کا سوال نظر انداز کر گئی تھی-
مرکز کے ایک ریسٹو رنٹ میں- وہ دونوں لنچ کر رہے تھے یا شاید ہائی ٹی- فرشتے!ہمایوں ہنس رہے تھے ، میں تو سمجھی تھی وہ ہنسنا بھول گئے ہیں-
مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ پتا نہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ متذبذب تھی کچھ کہتے کہتے رک گئی-
مجھے پتا ہے وہ آرزو کی وجہ سے میرے ساتھ یوں کر رہے ہیں-اس نے کہا تھا وہ ہمایوں کو مجھ سے چھین لے گی-اور اس نے یہ کر دکھایا- کیا وہ کبھی اس گھر میں آئی ہے؟
ہاں وہ اکثر آتی رہتی ہے، مگر تمہارے گھر شفٹ ہو جانے کے بعد وہ کبھی نہیں ائی-

Mehar_1
 

وہ اجڑی اجڑی سی صورت لیے گم صم سی وہیل چئیر پہ بیٹھی تھی-بلقیس کب اسے کمرے میں لائی اسے کچھ علم نہیں تھا-
کسی نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی، اور پھر گردن اٹھا کر سامنے دیکھا-
فرشتے حیران سی اس کے سامنے کھڑی تھی-زرد شلوار قمیض میں ملبوس، دوپٹہ شانوں پہ پھیلائے اس نے گیلے بھورے بال سمیٹ کر دائیں شانے پہ ڈال رکھے تھے-شاید ابھی وہ نہا کر آئی تھی-
کدھر گم ہو محمل؟ کب سے تمہیں بلا رہی ہوں- وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے کارپٹ پہ بیٹھی اور اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے- دائیں شانے پہ پڑے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک کر اس کا دامن بگھو رہے تھے-
آپ ؟ٹھیک کہتی تھں فرشتے- وہ جیسے ہار گئی تھی-فرشتے کو لگا وہ رو رہی ہے، مگر اس کے آنسو باہر نہیں اندر گر رہے تھے-
میں نے آج خود ان دونوں کو دیکھا ہے-

Mehar_1
 

ہمایوں اب والٹ سے چند نوٹ نکالتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا جبکہ وہ ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی- دونوں کے درمیان بے تکلفی واضح اور عیاں تھی-
تو یہ بات تھی ہمایوں داؤد ! تمہیں آرزو ہی ملی تھی؟اس نے غم سے لب کاٹتے ہوئے سر جھٹکا تھا-
فرشتے ٹھیک کہتی تھی-یقینا وجہ کوئی اور تھی-اس کی معذوری کا توبہانہ تھا-اصل وجہ تو وہ پتلی کمان سی ابرو والی شاطر لڑکی تھی جو اس کے شوہر کے ساتھ سر عام لنچ کر رہی تھی-
اس نے کہا تھا وہ ہمایوں کو اس سے چھین لے گی اس نے ٹھیک کہا تھا-
محمل نے کرب سے سوچا-
مغرب کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، جب بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی گھر کے گیٹ میں داخل ہوئی-
اس کے سامنے ایک ہی منظر تھا کونے کی ٹیبل پہ بیٹھے ،ہنستے مسکراتے دو نفوس، ایک جانا پہچانا سا فرد اور ایک جانی پہچانی سی عورت-

Mehar_1
 

اس نے سر جھٹکا اور پھر بے چین اور منتظر نگاہوں سے ریسٹورنٹ کی گلاس وال کو دیکھنے لگی-بلقیس جانے کہاں گم ہوگئی تھی-
وہ یونہی بے زار سی نگاہیں ادھر ادھر گھماتی رہی اور دفعتا بری طرح ٹھٹکی-ریسٹورنٹ کی گلاس وال کے اس طرف کا منظر بالکل واضح تھا-
کونے وال میز پہ بیٹھا مسکراتے ہوئے والٹ کھولتا ہمایوں ہی تھا-وہ یک ٹک اس کی مسکراہٹ کو دیکھے گئی-کیا اسے مسکرانا یاد تھا؟کیا اسے مسکرانا آتا تھا؟
اور تب اس کی نظر ہمایوں کے مقابل بیٹھی لڑکی پر پھسلی-شولڈر کٹ بال ، سلیو لیس شرٹ ، دوپٹہ ندارد کمان کی طرح پتلی آئی بروز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی ، اور ہمایوں سر جھٹک کر مسلسل مسکرائے جا رہا تھا-
اس لڑکی کو وہ اچھی طرح پہچانتی تھی-وہ آرزو تھی-وہ واقعی آرزو ہی تھی-

Mehar_1
 

بس بی بی! ئی سامنے والے پلازہ میں ہوٹل ہے ، ےیمور بابا کے لیے پزا لے لوں-ورنہ بابا کھانا نہیں کھائے گا-بس بی بی پانچ منٹ-
وہ تیزی سے وہیل چئیر دھکیلتی کہہ رہی تھی-محمل نے بے زاری اور بے چینی سے سڑک کو دیکھا-وہ فراٹے بھرتی گاڑیاں اسے بہت بری لگ رہی تھیں- ایسے ہی کسی گاڑی نے اسے ٹکر ماری تھی-
بلقیس ایک فاسٹ فوڈ کے سامنے اسے کھڑا کر کے اندر چلی گئی، اور وہ اس ریسٹورنٹ کی گلاس والز کو تکتے اس گاڑی کو یاد کرنے لگی جس نے اسے ٹکر ماری تھی-نا جانے وہ کون تھا یا تھی؟پکڑا بھی گیا یا نہیں؟
کیا ہمایوں نے اس پہ مقدمہ کیا ہوگا؟اسے جیل بھیجا ہوگا؟مگر یوں مقدمہ کرنے سے اس کا نقصان پورا تو نہیں ہو سکتا تھا -
خیر جانے دو میں نے معاف کیا سب کو-