مسیں بھیگ رہی تھی قد بھی اونچا لمبا تھا، میں آپ کو کہہ رہی تھی نا کہ عمر میں کم تھا-
اور وہ ایسی دم بخود بیٹھی تھی کہ کچھ کہہ ہی نا سکی-تصویر میں معیز بارہ سال کا تھا، اب بیس کا ہوگا اور جب وہ ادھر ایا تھا تو یقینا سترہ برس کا ہوگا-مگر وہ کیوں آیا؟وہ کیوں ہمایوں سے لڑا؟وہ دونوں کیوں بلند آواز میں جھگڑتے رہے؟
بہت سے سوال تھے جن کے جواب اسے معلوم نا تھے-بلقیس سے پوچھنا بے کار تھا-اس سے پہلے جب اس کے کزن کا ذکر کیا تھا تو ایسے تعظیم سے ان اور وہ آئے- جیسے الفاظ استعمال کیے تھے کہ وہ بالکل غلط سمجھ بیٹھی- مگر خیر، بلقیس کا قصور نہیں تھا اور پتا نہیں کس کا قسور تھا-
اس نے بے دلی سے البم بند کیا اور میز پہ رکھ دیا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چمکیلی صبح برآمدے میں پھسل رہی تھی-بلقیس پائپ لگائے سفید سنگ مر مر کا چمکتا برآمدہ دھو رہی تھی-
نہیں جی ، یہ تو بڑا بابو لوگ ہے بی بی، وہ تو عمر میں کم تھا-
کیا مطلب کم تھا؟وہ الجھی-بلقیس متذبذب سی کھڑی تھی، جیسے اپنی بات سہی نا پہنچا پا رہی ہو-
اچھا یہ تو نہیں تھا؟اس نے ساتھ لگی وسیم کی تصویر کی طرف اشرہ کیا-بلقیس پہلے نا جی میں سر ہلانے لگی، پھر ئک دم رک گئی، اور چہرہ جھکا کر غور سے تصویر کو دیکھا-کافی دیر وہ تصویر کو بغور دیکھے گئی-
ہاں ی یہ والا تھا، یہ ہی تھا-
تو کیا وسیم؟ وہ ابھی حیران بھی نہ ہو پائی تھی کہ بلقیس نے معیز کی شکل پہ انگلی رکھی جو تصویر میں وسیم کے ساتھ کھڑا تھا-یہ سدرہ کی منگنی کی تصویر تھی-
معیز؟ وہ معیز تھا؟ معیز آیا تھا؟وہ ششدر رہ گئی-
یہ ہی تھا بی بی، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ابھی ذرا بچہ لگ رہا ہے مگر شاید یہ پرانی تصویر ہے جی جب ادھر ایا تھا تو اس سے بڑا تھا،
ہاں جی! یہ آرزو بی بی! اس نے آرزو کے چہرے پہ انگلی رکھی-
ہاں یہ میری کزن ہے اور یہ ساتھ فواد ہے جو ہمایوں کے پاس آیا تھا-
آیا ہوگا جی- وہ ابھی تک اشتیاق سے آرزو کے کپڑے دیکھ رہی تھی-اس کے انداز میں ذرا سی لاپرواہی تھی-یک دم محمل کو کچھ کھٹکا- اسے لگا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے-
بلقیس، یہ وہی بندہ ہے جو اس روز ہمایوں کے پاس آیا تھا، جب ہمایوں نے فرشتے کو ڈانتا تھا؟اس نے البم ذرا اس کے قریب کیا- تمہیں یاد ہے تم نے مجھے بتایا تھا؟
نا جی، یہ تو کبھی نہیں آیا-
یہ۔۔۔۔۔ یہ کبھی نہیں آیا؟اسے جھٹکا لگا تھا-تو پھر وہ کون تھا؟
پتا نہیں جی کوئی اپ کا رشتے دار تھا-آپ کے چچا تایا کسی کا بیٹا تھا-
میرے چچا کا بیٹا؟ ایک منٹ، یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو- وہ جلدی جلدی البم کےصفھے پیچھے کو پلٹنے لگی- پھر حسن کی تصویر پہ رکی-
یہ تھا؟
ہانڈی نہیں لگی تھی ، شکر مالک کا-بلقیس تیزی سے اندر داخل ہوئی، اس نے خیالات سے چونک کر سر اٹھایا-
ہائے کتنے سوہنے فوٹو ہیں، یہ آپ کے گھر والوں کے ہیں جی؟وہ کھلے البم کو اشتیاق سے دیکھ کر اس کے کندھے کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور سر جھکائے دیکھنے لگی-
ہاں میرے رشتے دار ہیں-اس نے صفحہ پلتا- اگلے صفحے پہ آرسو اور فواد، تائی اماں کے ساتھ کھڑے تھے-یہ خاندان کی کسی شادی کا فوٹو تھا-
یہ تو وہ ہیں! بلقیس گویا حیرت زدہ رہ گئی-
تب اسے یاد ایا بلقیس نے ہی تو اسے فواد کے آنے کا بتایا تھا، شاید وہ اسے پہچان گئی تھی-
یہ اپ کے رشتے دار ہیں جی؟یہ تو ادھر اتی رہتی ہیں ، کمال ہے مجھے تو پتا ہی نہیں تھا-
کون؟ یہ لڑکی؟اسے حیرت ہوئی ، وہ تو سمجھی تھی بلقیس فواد کی بات کر رہی ہے-
سو اب مزید کریدنے کی حاجت نہیں رہی تھی-
اور رہے یہ لوگ تو ان کی تصویریں دیکھتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح یہی سوچ رہی تھی کہ ان کا کیا بنا؟کیا وہ ابھی تک بے مہار گھوم رہے ہیں یا اللہ نے ان کی رسی کھینچی؟ظلم اور والدین کی نافرمانی دو ایسے گناہ ہیں جن کی سزا دنیا میں بھی لازمی ملتی ہے، تو کیا ان کو سزا ملی؟کیا ان کو احساس ہوا؟اور سب سے بڑھ کر کیا اس شخص کو سزا ملی جو اس وقت اس کے سامنے تصویر میں مسکرا رہا تھا؟
آغا فواد کریم، آغآ جان کا ولی عہد، جس نے اس کو بکاؤ مال بنایا، بلیک میل کر کے تمام جائیداد انے نام لکھوائی اور پھر اس کی گردن پہ پستول رکھ کے فرشتے کو دھمکایا، گھر سے نکلوایا اور بعد میں جانے وہ ہمایوں کو آکر کیا کہہ گیا تھا کہ ہمایوں اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا-
یہ آغا ہاؤس میں کھینچی گئی ملی جلی تصاویر کا البم تھا-جب وہ اپنی شادی کے سال بعد آغآ ہاؤس گئ تھی تو واپسی میں اپنی کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ اسے بھی لے ائی تھی-اس میں ذیادہ تصاویر اس کی اپنی تھیں-کہیں وہ تیرہ سال کی تھی تو کہیں انیس سال کی-کچھ تصاویر خاندان میں ہونے والی شادیوں کی بھی تھیں، وہ محو سی اس کو دیکھتی صفحے پلٹنے لگی-
معلوم نہیں یہ سب لوگ اب کدھر ہونگے-سوائے آرزو کے ، کسی کا کچھ پتا نہیں تھا اور آرزو سے ان کا پتا وہ کرنا نہیں چاہتی تھی-ویسے بھی اس روز کے بعد آرزو ادھر نہیں ائی تھی-یاں ہر شام ہمایوں کہیں باہر کسی دوست کے ساتھ اس وقت شام کی چائے پیتے ہیں، اور دوستی کا ایک نظارہ تو وہ اس روز مرکز کے ریسٹورنٹ میں دیکھ ہی چکی تھی-
بلیو کلر کا ویلوٹ کور کا البم ہوگا، سائیڈ پہ دیکھو-
یہ والا بی بی؟اس نے البم نکال کے وہی سے لہرایا-
یہ مہرون ہے بلقیس ، میں بلیو کہہ رہی ہوں، نیلا آسمانی رنگ-وہ اس البم کی تلاش میں اسٹڈی کے کئی دراز اور شیلف چھنوا چکی تھی-اب اوپر والے کیبنٹ کی باری ائی تھی-
ایک منٹ جی- شاید اسے کچھ نظر آیا تھا، کچھ دیر اندر سر گھسائے ہاتھ مارتی رہی ، پھر کہیں پیچھے سے کھینچ کے البم نکالا-
یہ ہی ہے ، لاؤ مجھے دو- اس نے سکون کی گہری سانس اندر کو کھینچتھا-
ہ لیں جی-بلقیس نے ننگے پاؤں زمین پہ رکھے،اور البم اس کو پکڑا کے چپل اڑسنے لگی-میں ذرا ہانڈی دیکھ لوں-
ہاں جاؤ-اسنے البم دونوں ہاتھوں میں لیا ، اس پہ جمی گرد جھاڑی اور پہلا صفحہ کھولا-
مصحف
#
قسط 35
💕
اس کا بیٹا، اس کا خون ، اس کے جسم کا ٹکڑا ، کیا وہ اس کا حمیم اس کا (جان نثار دوست)بن سکتا تھا؟ کیا واقعی ؟
کیا وہ ایسی قسمت والی ہے؟کیا ایسا ممکن ہے؟
وہ ایک نئی آگہی کے احساس کی ساتھ حیرت میں گھری بیٹھی تھی-
تیمور اب روٹی کے چھوتے چھوٹے ٹکڑے کرکے سامنے گھاس پہ ڈال رہا تھا، بلی لپک کر آگے گئی اور گھاس پہ منہ مارنے لگی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلقیس کرسی پہ چڑھی اوپر بنے کیبنٹ کو کھولے کھڑی تھی،جبکہ وہ سامنے وہیل چئیر پہ بیٹھی ، گردن اوپر اٹھائے اسے ہدایات دے رہی تھی- اس کے اور ہمایوں کے ٹوٹے تعلق کی بات ابھی ملزموؔں تک نہیں پہنچی تھی-
وہ الفاظ کمرے کی دیواروں کے ساتھ ٹکرا رہے تھے-
وہ بنا پلک جھپکے تیمور کو دیکھ رہی تھی-اس اترتی نیلی صبح میں اس پہ اچانک سے آشکار ہوا تھا-وہ شخص ہمایوؔں نہیں تھا، نہیں تھا، نہیں تھا-
وہ شخص تیمور تھا-
اس کا بیٹا، اس کا خون ، اس کے جسم کا ٹکڑا ، کیا وہ اس کا حمیم اس کا (جان نثار دوست)بن سکتا تھا؟ کیا واقعی
کیا وہ ایسی قسمت والی ہے؟کیا ایسا ممکن ہے؟
وہ ایک نئی آگہی کے احساس کی ساتھ حیرت میں گھری بیٹھی تھی-
Episode 34 Complete... ♥️
پردوں کے دوسری جانب روشنی جھانکنے لگی تھی-اس نے ہاتھ بڑھا کر پردے ہؔٹا دیئے-
باہر لان میں صبح اتر ائی تھی۔ گہری سیاہ رات کے بعد اترتی صبح-
برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو-
گھاس پہ تیمور بیٹھا تھا-نیکر شرٹ میں ملبوس سوئی سوئی آنکھیں لیے وہ گھاس پہ بیٹھی بلی کی کمر پہ پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا-شاید اس کے ہاتھ میں کچھ تھا جو وہ بلی کو کھلانے لایا تھا-
پھر دفعتا وہ شخص۔۔۔۔۔
پھر دفعتا وہ شخص-
پھر دفعتا وہ شخص-
قاری صاحب کی آواز اور اس کی سوچیں آپس میں گڈ مد ہو رہی تھیں-
تیمور اب بلی کے منہ میں روٹی کا ٹکڑا ڈالنے کی کو شش کر رہا تھا-
وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے-
وہ حیران سی سن رہی تھی-اللہ اسے یہ آیت پھر سے کیوں سنوا رہا تھا؟یہ آیات تو گزر چکی تھیں، پھر دوبارہ کیوں؟
برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو؟
قاری صاحب کی آواز پڑھتے ہوئے بھرا گئی تھی-
وہ الجھ سی گئی-اللہ اسے پھر سے کیوں وہی بات بتا رہا تھا؟وہ شخص تو اب سارے تعلق کاٹ چکا تھا، اب تو کوئی امید نہیں رہی تھی۔ پھر کیوں اسے برائی کو بہترین طریقے سے دور کرنے کو کہا جا رہا تھا؟
وہ میرا حمیم میرا جان نثار نہیں بن سکتا اللہ تعالی! اس نے مجھے طلاق دے دی ہے، وہ مجھے تین ماہ بعد گھر سے نکال دے گا-اب تو درمیان کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا،پھر آپ کیوں مجھے عداوت کو دور کرنے کا کہہ رہے ہیں؟وہ ایک دم رو پڑی تھی-
محمل نے وضو کیا اور نماز پڑھی- پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اتھائے تو کوئی دعا ذہن میں ہی نہ آئی، بس ایک وہی لفظ-
اے کمزوروں کے رب ! لبوں پہ اترا- اس نے کئی بار اسے دہرایا، آنکھوں سے ٹپ ٹپ انسو گرنے لگے تو اس نے آمیں کہہ کر چہرے پہ ہاتھ پھیر لیے-
کمرے میں ہلکی ہلکی نیلاہٹ اترنے لگ تھی - وہ وہیل چئیر کو شیلف کے قریب لائی ، جہاں ٹیپ ریکارڈر اور ساتھ کیسٹون کا ڈبہ رکھا تھا-اس نے بنا دیکھے ایک کیسٹ لگا لی اور ٹیپ میں ڈال کر پلے کا بٹن دبا یا- کہیں درمیان سے تلاوت شروع ہوگئی تھی-
اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے؟
وہ حیرت سے چونکی، یہ آیت تو پرسوں اس نے پڑھی تھی، پھر یہی کیوں لگ گئی؟
"اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں-
نہ کسی رشتے دار کا آسرا تھا اور رہی فرشتے تو وہ اس کے جانے کے بعد مسجد شفٹ ہو جاتی، وہ کب تک فرشتے کو اپنی وجہ سے پابند رکھتی؟
رات یونہی خاموشی سے بیتتی گئی-وہ اسی طرح برف کا مجسمہ بنی وہیل چئیر پہ بیٹھی رہی-پردوں کی چمک ختم ہوگئی تھی اور کمرے میں مہیب گھپ اندھیرا چھا گیا-
اسے اس اندھیرے سے خوف آنے لگا ، وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی سعی کرنے لگی ، اور تب ہی کھڑکی کے کناروں میں صبح کاذب کی نیلاہٹ ابھرنے لگی-
دور کہیں فجر کی آذانیں بلند ہو رہی تھیں-
اس کے برف بنے وجود میں پہلی بار جنبش ہوئی-
اس نے اپنے سن ہوتے ہوئے ہاتھ اٹھائے اور پہیوں کو آگے کی طرف گھسیٹا - شیلف پہ ایک طرف وضو کے پانی کابرتن رکھا تھا-
کمرہ پھر سے سنسان ہو چکا تھا وہ جا چکی تھی-
وہ رات بہت عجیب تھی- محمل نے اتنی ویران رات کبھی نہیں گزاری تھی- تب بھی نہین جب وہ مسجد کی دیوار پھلانگ رہی تھی-تب بھی نہیں جب اسے اس کی جائیداد اور گھر سے محروم کر کے نکال دیا گیا تھا-تب بھی نہیں جب اس کی ماں مری تھی، اور تب بھی نہیں جب وہ سات سال بعد کومے سے جاگی تھی-ایسی رات پہلے کبھی نہیں آئی تھی-
وہ وہیل چئیر کی پشت سے سر ٹکائے چھت کو دیکھ رہی تھی-پردوں سے چھن چھن کر اندر آتی چاندنی میں پردے یوں چمک رہے تھے جیسے چاندی کے ورق ہوں-
زندگی ایک دم گویا ختم سی ہوگئی تھی- ہر طرف اندھیرا تھا- اس کے پاس آگے چلنے کو کوئی امید نہ تھی-ہمایوں اس کا نہیں رہا تھا، تیمور اس کا نہیں رہا تھا،
محمل!
ہمایوں نے مجھے طلاق دے دی ہے- وہ دھیرے سے بولی تو آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی-
کتنے ہی پل ماحول پہ سکتہ چھایا رہا -
کب؟
آج دوپہر میں، میں عدت اس گھر میں پوری کروں گی، پھر اس کے بعد میں چلی جاؤں گی اور وہ شادی کر لے گا- اس نے رخ فرشتے سے موڑ لیا تھا تا کہ وہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے-
آئی ایم ویری سوری محمل- وہ ماسف کھڑی تھی- تم عدت کے بعد کہاں جاؤ گی-
کیا تم خود کو اتنا اسٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کرلو گی؟
ہاں میں کر لوں گی، آپ جائیں ، مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز-
فرشتے نے سمجھ کر سر ہلایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھ گئی-دروازے کے بند ہونے کی آواز پہ اس نے چہرہ موڑا-
دوپہر دم توڑ گئی شام ڈوب گئی اور ہر سو رات چھانے لگی-جانے رات کا کون سا پہر تھا جب کسی نے دروازے پہ دستک دی اور پھر چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ وہ کھلتا چلا گیا-
اس نے گردن موڑ کر نہیں دیکھا-اسے اب کوئی خوش فہمی نہ تھی کہ ہمایوں کبھی اس کے پاس آئے گا-
قدموں کی چاپ سنائی دی اور ایک ہیولا سا اس کے سامنے آکھڑا ہوا-
محمل! وہ فرشتے کی آواز تھی-
وہ چپ چاپ آنکھیں چھت پہ جمائے بیٹھی رہی-
محمل کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو؟
چند لمحے کی خاموشی کے بعد اس کی متفکر سی آواز ابھری-
محمل تم ٹھیک ہو؟
اس نے دھیرے سے چہرہ اٹھایا اور متورم آنکھوں سے اندھیرے میں کھری فرشتے کو دیکھا- اس نے سیاہ جوڑا پہن رکھا تھا سیاہ دوپٹے کے ہالے میں مقید اس کا چہرہ دمک رہا تھا-
اس نے ہاتھ آویزوں کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ دفعتا نیم تاریک کمرے میں ایک مدھم سی آواز ابھری-
آنکھ آنسو بہاتی ہے-
اور دل غمگین ہے-
مگر زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو-
آویزے کو پکڑے اس کا ہاتھ بے دم سا گر گیا-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا صبر، صدمے کی پہلی چوٹ پہ ہوتا ہے-اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا ، کہ جو شخص گریبان چاک اور رخساروں پہ طمانچے مارے اور جاہلیت کی طرح بین ( نوحہ) کرے- وہ ہم میں سے نہیں ہے-
اس نے سر وہیل چئیر کی پشت پہ ٹکا دیا اور آنکھیں موندلیں-قطرہ قطرہ آنسو بند آنکھوں سے ٹپکنے لگے-وہ بے آواز روتی رہی بلکتی رہی- اندھیرے کمرے میں بیٹھی ایک معذور ، کمزور لڑکی جو بے آواز روتے ہوئے بس ایک ہی لفظ دہرائے جا رہی تھی-
یارب المستفعفین۔۔۔۔۔ اے کمزوروں کے رب۔۔۔۔۔ اے کمزوروں کے رب-
اب کچھ باقی نہیں رہا تھا-
کمرے میں اکر اس نے دروازہ بند کردیا- لاک نہیں لگایا، اب کس کو ادھر انا تھا بھلا؟ سب کچھ بکھر گیا تھا-
وہ وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں ہاتھوں سے گھسیٹتی سنگھار میز کے سامنے لائی -کمرے کی بتی بجی تھی کھڑکی ک آگے پردہ گرا تھا، کہیں درزوں سے زرد سی روشنی جھانک رہی تھی، جس سے کمرے میں نیم اندھیرا سا تھا-
وہ اس نیم تاریک ماحول میں اپنا عکس آئینے میں دیکھے گئی-
ہر شئے اجڑ گئی تھی ، سب ختم ہوگیا تھا- راکھ کا ڈھیر لگا تھا اور اس میں کوئی چنگاری نہیں بچی تھی-
اپنے عکس کو دیکھتے اس کا دل چاہا، وہ کانوں سے آویزے نوچ پھینکے ، نازک سا ہار اتار کر دیوار پہ مارے ، چوڑیاں توڑ دے - زور زور سے چلائے- دھاریں مار مار کر روئے-
تمہاری اکڑ ابھی تک نہیں گئی محمل-
اور میری یہ اکڑ جائے گی بھی نہیں، تمہیں کیا لگتا ہے، محمل ہمایوں کے بغیر مر جائے گی؟ ہونہہ- اس نے تلخی سے سر جھٹکا- میں سات سال کوما میں پڑی رہی ، تب میرے پاس ہمایون نہیں تھا، میں تب بھی نہیں مری تو اب اس کے بغیر کیوں مروں گی؟خیر اگر تم نے بیٹھنا ہے تو بیٹھو، کھانے پینے آئی ہو تو سامنے کچن ہے، ویسے بھی دوسروں کا مال کھانے کی تمہاری خاندانی عادت ہے اور ہمایوں کی خیرات کرنے کی- جو کھانا ہو کھا لینا ٹیک کئیر-
اس نے دانستہ اسلام علیکم کہنے سے احتراز برتا- کم از کم اس وقت وہ آرزو پہ سلامتی نہیں بھیج سکتی تھی، اور وہیلل چئیر کا رخ اپنے کمرے کی طرف موڑ دیا-
تہ شدہ کاغذ ادھ کھلا اس کی گود میں رکھا تھا-
اسے آرزو کے بڑ بڑانے ، اٹھنے اور سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سنائی دی تھی-اس کا گھر تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا تھا
دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پہ چڑھائی اور بڑے استحقاق سے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا ہمایوں کا مو بائل اٹھایا جو اس نے بیٹھتے ہوئے ادھر رکھا تھا-
وہ خاموش رہی-
میں نے تم سے کہا تھا نا محمل! مجھے اس سے پیار ہوگیا ہے، لو ایٹ فرسٹ سائیٹ، میں اسے حاصل کر ہی لوں گی-
اور میں نے بھی تب کہا تھا آرزو! کہ تم خدا نہیں ہو جو ہر چیز تمہاری مرضی سے ہو -آج وہ تمہارے لیے مجھے چھوڑ رہا ہے، کل کو کسی اور کے لیے تمہیں بھی چھوڑ دے گا ، تب میں تمہاری آہیں سننے ضرور آؤں گی-
آرزو بے اختیار محفوظ سی ہنس پڑی-
اس کا انداز محمل کے اندر آگ لگا گیا، مگر اس نے آگ چہرے پہ نہ آنے دی - وہ بہت کمال ضبط کا وقت تھا-
تمہارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس سے میں جیلس ہوں-رہا ہمایوں تو تم شوق سے اسے لے لو، مجھے کھنکتی مٹی کے اس پیلے کا کیا کرنا جس میں وفا نہ ہو-
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain