محمل کو اب احساس ہوا تھا کہ ےیمور غیر معمولی ذہن اور سمجھدار لڑکا تھا-وہ ایک ایک چیز کے بارے میں خبر رکھتا تھا-اسے معلوم تھا کہ کب ہمایوں نے اسے طلاق دی ، کب جھڑکا، کب اس پہ چلایا اور دوسری ہو شئے جو ان دونوں کے درمیان تھی، وہ ظاہر کرتا تھا کہ اسے اس سے نفرت ہے،مگر اس کے باوجود وہ اس کے ہر پل کی خبر رکھتا تھا-
اگر ڈیڈی نے آپ کی ڈائیورس واپس نا لی تو آپ یہاں سے چلی جائیں گی؟وہ دونوں تیمور کے کمرے میں بیٹھے تھے،جب اس نے بے حد اداسی سے کہا-
جانا تو ہے-
مگر ابھی ٹو اینڈ ہاف منتھ آپ ادھر ہی ہیں نا؟
آپ کی ڈائیورس کے تھری منتھس بعد تک اپ نے یہیں رہنا ہے نا؟
وہ اپنی باتوں سے اسے حیران کر دیتا تھا-اس کی عمر اتنی نہیں تھی ، مگر وہ ہر بات سمجھتا تھا-
وہ دن بہت خوبصور ت دن تھا - جب وہ دونوں خوب رو چکے تو مل بیٹھ کر خوب باتیں کیں،کبھی لان میں ، کبھی ڈائننگ ٹیبل پہ ، کبھی لاؤنج میں اور پھر تیمور کے کمرے میں-
اس سے بات کر کے محمل کو پتہ چلا تھا کہ اس کا یہ رویہ اس رات کا رد عمل تھا جو اس نے ہمایوں سے تھپڑ کھانے کے بعد محمل کو پکارتے گزاری تھی-شاید وہ ساری رات روتا رہا تھا،مگر اس کی ماں نے جواب نہیں دیا تھا تو وہ بدظن ہو گیا تھا-مگر بچہ تھا آخر کتنی دیر ناراض رہ سکتا تھا-بالآخر اپنے اندر کا سارا لاوا نکال کر اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور یہ بد گمانی کی عادت تو اس نے اپنے ماں اور باپ دونوں سے ورثے میں ملی تھی-اس کا قصور نہیں تھا -
اس کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ آرزو اور ہمایوں کے تعلق کے بارے میں بھی جانتا تھا-مگر محمل دانستہ اس موضوع کو نہیں چھیڑتی تھی-
آپ بولتی نہیں تھی،آپ نے مجھے پیار بھی نہیں کیا-
اور تم مجھ سے ناراض ہو گئے؟وہ ہچکیوں کے درمیان آنسو پونچھ رہا تھا-
میں تب بیمار تھی بول نہیں سکتی تھی، لیکن اب میں تمہارے پاس ہوں نا، اب تو تم ناراض نہیں ہو ؟
ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا -اس نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا-
ایک دم ہی اس کے ادھورے وجود میں ٹھنڈک اتر آئی-اسے لگا وہ مکمل ہوگئی ہے، اب اسے کسی ہمایوں داؤد نامی شخص کی ضرورت نہیں تھی-اسے اس کا تیمور واپس مل گیا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ آپ کو ڈائیورس کر دیں گے- میں ان سے بہت لڑا تھا- اور ایک دم وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا-
"تیمور ! وہ متحیر رہ گئی-اس نے کبھی اسے روتے نہیں دیکھا تھا-محمل نے بے اختیار بازو بڑھا کر اس کے ہاتھ تھامے-
میرے پاس آؤ-اسے ہاتھوں سے تھام کر کھڑا کیا اور خود سے قریب کیا-
ڈیڈی نے کیوں مارا تمہیں؟
میں نے کہا تھا کہ میں ان کو اور اس وچ کو گھر میں نہیں رہنے دوں گا--انہوں نے کہا کہ تمہاری ماں ایک بری عورت ہے-میں نے ان پہ بہت شاؤٹ کیا،تو انہوں نے مجھے ادھر تھپڑ مارا-اس نے ہاتھ اہنے آنسوؤں سے بھیگے گال پہ رکھا- محمل نے بے اختیار اس کا گال چوما- وہ بیٹھی تھی، اور وہ اس کے ساتھ کھڑا رو رہا تھا-
تم میرے پاس ائے تھے؟
ہاں ، میں اتنی دیر آپ کے پاس روتا رہا تھا-بٹ یو ور سلیپنگ-آپ نے مجھے جواب نہیں دیا،آپ نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا،
آپ کو سنائی دیتا تھا سب؟ زندگی میں پہلی دفعہ اس نے محمل سے یوں بات کی، وہ اندر سے تڑپ کر رہ گئی-
تمہیں لگتا تھا کہ میں اپنے تیمور کی باتیں نہیں سنوں گی؟کیا ایسا ہو سکتا ہے؟اس نے الٹا سوال پوچھا-تردید نہیں کی، نہ جھوٹ بولنا چاہتی تھی، نہ ہی اسے مایوس کرنا چاہتی تھی-
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ پھر اس رات بولتی کیوں نہیں تھی جب ڈیڈی نے مجھے مارا تھا؟ آپ کو سب سنتا تھا تو آپ بولتی کیوں نہیں تھیں؟اس کی آوازبلند ہونے لگی تھی غصے سے نہیں دکھ سے -
میں بول نہیں سکتی تھی ، بیمار تھی- اور۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔ ڈیڈی نے تمہیں مارا کیوں تھا؟
وہ تڑپ کر رہ گئی مگر بظاہر خود کو کمپوزڈ رکھا-
وہ اس چریل (چڑیل ) سے شادی کر رہے تھے- میں نے ان سے بہت لڑائی کی تھی-
اس کی موٹی موٹی بھوری آنکھیں ڈبڈبا گئیں- وہ کہتے تھے وہ اس بچ سے شادی کر لیں گے-
کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی چیختا چلاتا بدتمیزی کرتا بچہ تھا ، جو اب جاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا-
چند لمحے وہ خاموشی سے اپنے بیتے کو دیکھتی رہی- (آخر تھا تو وہ بچہ ہی، کتنا ناراض رہ سکتا تھا بھلا؟)اور پھر آہستہ سے بولی-
مجھ سے ابھی تک خفا ہو؟
تیمور نے آنکھیں اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھا، منہ سے کچھ نہ بولا-
کیوں خفا تھے مجھ سے؟
وہ چپ رہا بالکل چپ-
تمہیں میں بری لگتی ہوں؟تمہارا دل کرتا ہے تم مجھے قتل کردو؟
نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیور! وہ گھبرا کر کہہ اٹھا، پھر ایک دم چپ ہو کر لب کاتنے لگا-
تم پہلے تو ایسے نہیں تھے-تم اسپتال میرے لیے پھول لے کے اتے تھے، مجھ سے اتنی باتیں کرتے تھے، تمہیں بھول گیا ہے؟
اس کی بھوری انکھوں میں استعجاب پھیل گیا-
اور موسی علیہ السلام کا قصہ جو اللہ کہ ایک بندے سے ملنے اس جگہ کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں مچھلی نے سمندر میں راستہ بنایا تھا-اور اس گردش کرنے والے آدمی کا قصہ جو سفر کرتا ہوا مشرق سے مغرب جا پہنچا تھا-
وہ چار قصے تھے جو قرآن کے درمیاں مں رکھ دیے گئے تھے-جب وہ ختم ہوئے تو تیمور نے سر اٹھایا- محمل اب اسٹاپ کا بٹن دبا رہی تھی-
تمہیں پتا ہے یہ کس کی آواز ہے؟
تیمورنے نفی میں سر ہلایا-
یہ قاری مشاری تھے-تمہیں پتا ہے وہ کون ہیں؟
اس نے پھر گردن دائیں سے بائیں ہلائی-
پہلے وہ سنگر تھے- پھر انہوں نے قرآن پڑھا تو گلوکاری چھوڑ دی اور قاری بن گئے-اان کے گیارہ مختلف ٹون میں قرآن مجید موجود ہیں۔ مگر مجھے یہ والی ٹون سب سے زیادہ پسند ہے، تمہیں پسند ائی؟
جی!وہ بے ساختہ کہہ اٹھا-
اور سورۃ کہف تو شروع ہوتی اور اس کے آنسو بہنے لگتے تھے-
پہلا رکوع ابھی ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ برآمدے کا دروازہ کھلا اور تیمور بھاگتا ہوا بڑامدے کی سیڑھیاں اتر کر گھاس پہ ایا- پھر اسے بیٹھے دیکھ کر اس کے قدم سست پڑ گئے-
وہ کہنیوں تک آستین فولڈر کیے ہوئے تھا-جن کے کنارے اور اس کے بازو گیلے تھے-پاؤں بھی دھلے لگ رہے تھے-شاید وضو کر کے آیا تھا-
اس نے مسکرا کر سر خم کر کے اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا-وہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا ہوا قریب ایا اور سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا-
دونوں خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے وہ مدھر ، مترنم سی اواز سنتے رہے جو غار والوں اور کتے والوں کا قصہ بیان کر رہی تھی- ان چند نوجوانوں کا قصہ جو کہیں چلے گئے تھے-اور دو باغوں کے مالک کا قصہ جسے اپنے مال اور اولاد پہ بہت غرور تھا-
پچھلا پورا دن اس نے دانستہ تیمور کا سامنا نہیں کیا-وہ بھی کمرے سے باہر نہیں نکلا- اس کی غالبا چھٹیاں تھیں، سو آج کل گھر پہ ہی ہوتا تھا- وہ جانتی تھی کل قرآن سنا کر تیمور کو اس نے ذہنی طور پر ڈسٹرب کر دیا ہے-اگر واقعی وہ قران کی چاہ رکھتا ہے تو اس کے اندر مزید سننے کی خواہش ضرور بھڑکے گی اور وہ خود ہی چل کر ائے گا- اس نے نو ماہ اسے قرآن سنایا تھا- وہ سات سالوں میں اسے کیسے بھول سکتا تھا؟
بلقیس نے اسے لان میں ہی ٹیپ ریکارڈر سیٹ کر کے دے دیا تھا- اسے معلوم نہ تھا کہ تیمور ابھی جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے، پھر بھی اس نے پلے کا بٹن دبایا اور انچی اواز کر دی-
قاری المشاری کی سورہ کہف چلنے لگی تھی-گو کہ قاری حضرات اور بھی بہت اچھے تھے-
مگر جو بات قاری مشاری کے دھیمے ، پر سوز انداز میں تھی، وہ اسے دنیا میں کہیں نہیں لی تھی-
اس نے سوچا کہ اسے کھلا چھوڑ دے-اگر وہ اس کا ہوا تو واپس اجائے گا، نہ ہوا تو نہ آئے گا-
کافی دیر بعد اس نے انکھیں کھولی تو تیمور ادھر نہیں تھا- فرش کا پانی سوکھ چکا تھا- چڑیاں اڑ گئی تھیں-سرخ کیڑے اپنے بلوں میں جا چکے تھے- چیونٹیاں بکھر گئی تھیں، سفید بلی بھی واپس چلی گئی تھی-
اور اللہ کی طرف بلانے والی بات سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے بھلا-
اس نے بے اختیار سوچا تھا- دشمن کو دوست بنانے کا احسن طریقہ تو اسی ایت میں دے رکھا تھا، اس کی سمجھ میں ذرا دیر سے آیا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی صبح وہ لان میں پہلے سے موجود تھی-لان میں لاؤنج کی کھڑکی کھلتی تھی اور اس کے سامنے تیمور کا کمرہ تھا -آواز کا راستہ صاف اور کھلا تھا-
" کیا قاری صاحب کا قران بھی یونہی سنا کرتے تھے جیسے میرا سنتے ہو؟
نہیں- وہ بالکل اچھا نہیں بولتے تھے-
اور میں ؟
آپ ۔۔۔۔ آپ اچھا بولتی ہو- وہ اب بھی اٹک اٹک کر بول رہا تھا-
اور فرشتے کا اچھا لگتا ہے؟
she never reads" ( وہ کبھی نہیں پڑھتیں)
وہ recite (تلاوت کو) read (پڑھنا) کہہ رہا تھا۔ مگر وہ وقت اس کی غلطی نکالنے کا نہیں تھا، نہ ہی یہ بتانے کا کہ وہ کونسا پڑھتی ہوگی، وہ لمحے تو بہت خاس تھے، ان کو ضائع نہیں کرنا تھا-
تم ایسا پڑھ سکتے ہو؟
نو! اس نے نفی میں گردن ہلائی-
پڑھنا چاہتے ہو؟
وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا -
محمل نے آہستہ سے اس کے ہاتھ چھوڑے-
چلو کل صبح پھر پڑھیں گے- اور سر وہیل چئیر کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں-
it....... it just slipped (میرے منہ سے نکل گیا)وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا- آنکھیں ابھی تک محمل کے چہرے پہ جمی تھیں-
اسے یاد تھا کہ تیمور کی پریگننسی میں وہ ہر جمعہ کو یوں ہی بیٹھ کر انکھیں موند ے بلند آواز میں سورۃ کہف پڑھا کرتی تھی، تاکہ وہ جنم لینے سے قبل ہی قرآن کا عادی ہو اور شاید وہ واقعی عادی ہوگیا تھا ، اور شاید سات سال بعد اس نے یہ آواز سنی تھی-
تمہیں اور سورتیں آتی ہیں؟
اس نے پھر نفی میں سر ہلایا-وہ اپنے ہاتھ ابھی تک محمل کے ہاتھ میں دیے کھڑا تھا-
تمہیں قرآن پڑھنا اتا ہے؟
اس نے اثبات میں گردن کو جنبش دی-
مسجد جاتے ہو یا کہیں اور سے سیکھا ہے؟
گھر پہ قاری صاحب لگوائے تھے ڈیڈی نے-
کتنی دفعہ قران ختم کیا ہے؟
ٹو ٹائمز-
تیمور اسی طرح ساکت سا مجسمہ بنے کھڑا تھا جیسے برآمدے اور لان میں مبہوت ہوئی خلق کا حصہ ہو-
ادھر اؤ- وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھتے ہوئے بولی- وہ کسی معمول کی طرح آہستہ سے چھوتے چھوتے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا-
اس نے اس کے ہاتھ تھامنے کو دونون ہاتھ بڑھائے اور کسی سحر زدہ شخص کی طرح تیمور نے اپنے چھوتے چھوتے ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیے-
تمہیں کیسے پتا چلا اصحب الکہف کے بعد والرقیم اتا ہے؟
وہ خاموش کھڑا رہا جیسے اسے خود بھی نا معلوم ہو-
" تمہیں سورہ کہف اتی ہے؟نرمی سے اس کے ہاتھ تھامے محمل نے پوچھا تو-
اس نے آہستہ سے سر نفی میں ہلایا-
پھر تمہیں کیسے پتا چلا؟
مصحف
#
قسط 36
💕
چند لمحوں کے لیے سارے میں سناٹا چھا گیا- وہ دونوں بنا پتلیوں کو حرکت دیے ایک دوسرے کی انکھوں میں دیکھ رہے تھے-
اور پھر اسی طرح تیمور کی بھوری آنکھوں کو نگاہوں میں لیے اس نے ہولے سے لب کھولے اور پھر سے وہ ایت دہرائی-
ام حسبت ان اصحب الکہف- وہ دانستہ رکی تو تیمور کے ننھے سرخ ہونٹ حرکت کیے-
والرقیم-
"کانومن ایتنا عجبا " اس نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے آیت مکمل کی-
ابھی اس نے نویں آیت آصحب الکہف تک ہی پرھی تھی کہ کسی نے اگلا لفظ " والرقیم" پڑھ دیا -اس کے ہلتے لب رک گئے-بہت حیرت سے چونکتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں-
سامنے کھلے دروازے میں تیمور کھڑا تھا-
اپنے نائٹ سوت میں ملبوس، کچی نیند سے خمار آلود آنکھیں لیے وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا-
وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی-
چند لمحوں کے لیے سارے میں سناٹا چھا گیا- وہ دونوں بنا پتلیوں کو حرکت دیے ایک دوسرے کی انکھوں میں دیکھ رہے تھے۔
Episode 35" Complete... ♥️
اوہ اچھا-اسے یاد ایا، آج سورہ کہف پڑھنی تھی-جانے وہ کیسے بھول گئی، خود کو سرزنش کرتی قرآن کے صفحے پلٹنے لگی-
چوکیدار گیٹ بند کر کے اپنے کواٹر میں چلا گیا تھا اور بلقیس اندر، وہ برآمدے میں تنہا رہ گئی تھی، پہلے قران سے پڑھنے کا سوچا، مگر سورہ کہف یاد تھی ہی، سو قران میز پہ رکھا اور سر کرسی کی پشت پہ ٹکا کر آنکھیں موند لیں-
کبھی کبھی اس کو لگتا اس کی زندگی مصحف قرانی کے گرد ہی گھومنے لگی ہے-اس کا کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس میں اس کا کردار نہ ہو-ہر لمحے ہر وقت وہ قرآن کو اپنے ساتھ رکھتی تھی-اب اس کے بغیر اس کا گزارہ بھی نہیں تھا-
آنکھیں موند کے وہ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ کہف پڑھنے لگی-
اس ٹھندی صبح میں ہر طرف خاموشی اور میٹھی چاشنی چھاگئی تھی-وہ آنکھیں موندے اپنی تلاوت کر رہی تھی-
" ام حسبت ان اصحب الکہف۔۔۔۔۔۔۔
والرقیم۔۔۔
اس کی طرف مت دیکھا کرو جو ہم نے دوسرے جوڑوں کو عطا کیا ہے-
محمل نے بے اختیار تھنڈی سانس لے کر سر اتھایا -پھر ادھر ادھر گردن گھمائی، بلقیس اپنے کام میں مگن تھی اور چوکیدار اپنے کام میں،وہاں کسی نے اس کی وہ ایک لمحے کی نظر نہیں پکڑی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ مگر-
اس نے ذرا سی گردن اتھا کر اوپرآسمان کو دیکھا-
مگر کوئی تھا جو اس کی لمحے بھر کی بھی بھٹکی نگاہ پکڑ لیتا تھا اور کسی دوسرے کو بتاتا بھی نہیں تھا-خاموشی سے اسے تنبیہہ کر دیتا تھا-سمجھا دیتا تھا،بہت احسان تھے اس کے اس پر ،وہ تو شکر بھی ادا نہیں کر سکتی تھی-
بلقیس! آج کون سا دن ہے؟ایک دم اسے خیال ایا تو اسے پکارا-
جمعہ ہے جی-وہ اب پائپ بند کر کے اسے سمیٹ رہی تھی-
سامنے والوں کے گیٹ کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی، اس کے کندھے پہ پیارا سا پھولے پھولے گالوں والا بچہ تھا-ساتھ ہی گاری کا دروازہ کھولے ایک گڈ لکنگ سا آدمی مسکرا کر انہیں کچھ کہہ رہا تھا- لڑکی ہنس رہی تھی، پھر وہ آدمی جو غالبا اس کا شوہر تھا، گاری میں بیٹھ گیا اور لڑکی بچے کا ہاتھ پکڑ کر بائے بائے کے انداز میں گاری کی طرف ہلانے لگی-بچہ قلقاریاں مار رہا تھا-آدمی نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور گاری اسٹارٹ کرنے لگا-
ایک مکمل اور خوبصورت فیملی-
وہ چپ چاپ ان تینوں کو دیکھے گئی، یہان تک کہ گاڑی فراٹے بھرتی سڑک پہ اگے نکل گئ اور لڑکی بچے کو کندھے سے لگائے گیٹ بند کرنے لگی-
اس نے ہولے سے سر جھٹکا اور اپنی خاموش بالکل خاموش نظریں واپس قرآن پہ جھکا دیں اور پڑھا آگے کیا لکھا ہوا تھا-
بلقیس نے جھاڑو اٹھائ اور بھاگ کر پائپ ڈرائیو وے سے ہٹایا- چوکیدار جو گھاس کاتٹرہا تھا پھرتی سے اگے بڑھا اور گیٹ کے دونوں پٹ کھول دیے-
وہ گاڑی میں بیٹھا ، زور سے گاری کا دروازہ بند کیا اور پیچھے دیکھتا ہوا گاری نکال کر لے گیا-
گیٹ کے دونوں پٹ کھلے رہ گئے-چوکیدار نے ابھی انہیں بند نہیں کیا تھا، وہ واپس درانتی اٹھائے گھاس کی طرف آگیا تھا-
بلقیس پھر سے پانی کا فوارہ سفید بجری کے ڈرائیو وے پہ ڈالنے لگی- وہ سر جھٹک کر اپنی آیات کی طرف متوجہ ہوئی-
مگر پھر پڑھتے پڑھتے نگاہ پھسلی، پہلے ناخنوں کے کناروں کو دیکھا، پھر ہاتھوں کو ، پھران سے ہوتی ہوئی پیروں پہ جا ٹکی اور پھر سے پائپ کے پانی کی طرف بھٹک گئی-
کھلے گیٹ کے اس پار سامنے والوں کا گیٹ بھی کھلا نظر ارہا تھا-وہ بے دھیانی میں کسی سوچ میں گم ادھر دیکھے گئی-
وہ صبح ناستے کا وقت تھا-ہمایوں کو اس کے کمرے میں ناشتہ دے کر بلقیس اب یہاں مصروف تھی-تیمور کدھر تھا، اسے کچھ پتا نہیں تھا، وہ آج اپنی فجر کی تلاوت نہ کر سکی تھی اب ادھر وہیل چئیر پہ بیٹھ کر وہی کرنا چاہ رہی تھی، مگر بار بار دھیان بٹ جاتا تھا-
بلقیس پائپ اٹھائے برآمدے سے نیچے اتر گئی-
اب ڈرائیو وے پہ پانی ڈال رہی تھی-برآمد ےکے فرش پہ کہیں کہیں پانی چمک رہا تھا-
دقعتا دروازہ کھلا تو وہ چونک کر دیکھنے لگی-
ہمایوں عجلت بھرے مصروف نداز میں کف بند کرتا باہر آرہا تھا-اس نے محمل کو ادھر بیٹھے دیکھا کہ نہیں، اس کے بے نیاز انداز سے یہ پتا لگانا مشکل تھا-وہ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا-
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain