Damadam.pk
Mehar_1's posts | Damadam

Mehar_1's posts:

Mehar_1
 

کیا معیز جو ایک دفعہ آیا تھا، اسی لیے آیا تھا؟اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا-
پزل کے سارے ٹکڑے ایک ساتھ جڑنے لگے-
آرزو نے کہا تھا کہ وہ ہمایوں کو اس سے چھین لے گی- محمل کو سجا سنورا اور ہنستا بستا دیکھ کر شاید شدید حسد کی آگ میں جلنے لگی تھی-اس سے اس کی خوشیاں برداشت نہیں ہو رہی تھیں، پھر اسد چچا کی ناگہانی موت کے بعد یقینا وہ لوگ مالی کرائسز کا شکار ہوئے ہونگے-ایسے میں محمل کی طویل بے ہوشی نے آرزو کو امید دلائی ہوگی-اور شاید یہ سب ایک سوچا سمجھا پلان تھا-
یہ جعلی تصاوہر بنا کر، محمل اور فرشتے کا دستخط شدہ کاغذ ہمایوں کو دکھا کر اس نے ہمایوں کو بھڑکایا ہوگا- مگر کیا ہمایوں چھوٹا بچہ تھا جو ان کی باتوں میں آجاتا؟کیا ایک منجھا ہوا پولیس آفیسر اس قسم کے بچکانہ کھیل کا شکار بن سکتا تھا؟کیا بس اتنی سی باتوں پہ ہمایوں اتنا بدظن ہو گیا تھا؟

Mehar_1
 

وہ فواد اور محمل کی تصاویر تھیں-فواد۔۔۔۔۔۔۔ اور محمل ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ساکت سی ان تصویروں کو دیکھ رہی تھی-ان میں وہ کچھ تھا جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا تھا- گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا فواد اور اس کے کندھے پہ سر رکھے محمل۔۔۔۔۔ ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتا فواد اور محمل۔۔۔۔۔ ایک ساتھ کسی شادی میں رقص کرتے ۔۔ قابل اعتراض تصاویر۔۔قابل اعتراض مناظر۔۔ وہ سب جو کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔
اس نے پھر سے تصویر کو الٹ پلٹ کر دیکھا-
اس کا لباس اور چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر تصویر میں ذرا الگ تھا-کوئی بچہ بھی بتا سکتا تھا کہ وہ کوئی فوٹؤ شاپ یا ایسی ہی کسی ٹرک کا کمال ہے-پہلی نظر میں واقع پتا نہیں چلتا تھا-مگر بغور دیکھنے سے سب ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ سب نقلی ہے ہمایوں خود ایک پولیس آفیسر تھا، وہ ان بچوں والی باتوں میں نہیں آسکتا تھا-اور کس نے لا کر دیں اس کو یہ تصاویر؟

Mehar_1
 

مگر یہ ادھر ہمایوں کی لائبریری میں کیا کر رہے ہیں؟وہ تو اس معاملے سے قطعی لا علم تھا-یہ موضوع کبھی زیر بحث ایا ہی نہیں، بس ایک دفعہ آغآ جان کے گھر سے واپسی پہ ہمایوں نے اسے اپنا حصہ لینے کے لیے کہا تھا مگر وہ ٹال گئی تھی-اگر وہ روہ راست پوچھتا تو وہ بتا دیتی -پھر فرشتے نے بھی نہیں بتایا کہ یہ کاغذ اس کے ہاتھ کیسے لگا اور کیا وہ اس کی وجہ سے اس سے بدظن تھا؟مگر یہ اتنی بڑی وجہ تو نہیں تھی-اور یہ کاغذ ہمایوں کے ہاتھ لگا بھی کیسے یہ تو اس کے پاس تھا-
اس نے دوسرا سفید لفافہ اٹھایا- وہ بے دردی سے چاک کیا گیا تھا اس نے اس کے کھلے منہ میں جھانکا اندر کچھ فوٹو گراف تھے شاید-
محمل نے لفافہ گود میں الٹ دیا- چند تصویریں اس کے گھٹنے پر پھسلتی فرش پہ جا گریں اس نے ہاتھ جھکا کر تصویروں کو اٹھایا اور سیدھا کیا-

Mehar_1
 

یہ لفافہ اٹھا کر دو- شاید ہمایوں کے کام کا ہو-
کتابیں سیٹ کرتی بلقیس رکی اور خاکی لفافہ اٹھا کر اسے تھمایا-
لفافہ وزنی نہیں تھا ، مگر بھولا ہوا تھا- اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا-
کوئی نام پتہ نہیں لکھا تھا- اوپر اکھڑی ہوئی سی ٹیپ لگی تھی جیسے کھول کر پھر لگا دی گئی ہو-
پتا نہیں کس کا ہے- بنا کسی تجسس کے ٹیپ اتاری اور لفافہ گود میں الٹ دیا - ایک عدالتی کاغذ اور ساتھ ایک سفید خط کا کور گود میں گرا- اس نے زرد عدالتی کاغذ اٹھایا-
اس کی تہیں کھولیں اور چہرے کے سامنے کیا-
اسٹمپ پیپر کی تحریر کے نیچے بہت واضح دستخط تھے-
محمل ابراہیم-
فرشتے ابراہیم-
وہ بری طرح سے چونکی اور تیزی سے اوپر تحریر پہ نگاہیں دوڑائیں-
یہ وہی کاغذ تھا جو فواد نے اس سے اور فرشتے سے سائن کروایا تھا- وسیم سے نکاح نہ کروانے کی شرط پہ، اس کی گردن پستول رکھ کر-

Mehar_1
 

یہ والی بکس اندر رکھ دو ، اس طرف والی سامنے کر دو- میز سے یہ سب ہٹا لو اور اس والے شیلف میں رکھ دو-
جھاڑ پونجھ سے گرد آڑ رہی تھی- سالوں سے کسی نے کتابوں کو صاف نہیں کیا تھا-
بیبی ان کو تو کیڑا لگ گیا ہے-وہ پریشان سی کچھ کتابوں کے کنارے دکھا رہی تھی- تاریخ کی پرانی کتابیں-
ان کو الگ کر دو- اور وہ دراز خالی کرو،یہ اس میں رکھ دیں گے-
اچھا جی! بلقیس اب اسٹڈی ٹیبل کی درازوں سے کتابیں نکال رہی تھی-
ان کو اس آخری شیلف پہ نا سیٹ کردوں؟ اس نے دراز سے نکلنے والی کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا-
ہاں کردو- اسے بھلا کیا اعتراض تھا- بلقیس پھرتی اور انہماک سے کتابیں صاف کر کے اوپر لگانے لگی -
ڈھیر ذرا ہلکا ہوا تو اسے اس کتابوں کے بیچ ایک بھولا ہوا خاکی لفافہ رکھا نظر آیا-

Mehar_1
 

اچھا اب تو نہیں رو رہی - اور شاپ سے کیا لائے ہو؟
چپس! اس نے چپس کا پیکٹ سامنے کیا- اور میں اتنی دیر سے گیا ہوا ہوں پر آپ نے ابھی تک مٹر نہیں چھیلے یو آر ٹو سلو ماما! اس نے مٹر کی ٹوکری اس کی گود سے اٹھائی اور کاؤنٹر پر رکھ دی -
آئیں باہر چلتے ہیں-
رہنے دو تیمور میرا دل نہیں کر رہا -
بلقیس بوا! اس کی سنے بغیر بلقیس کو پکارنے لگا ماما کو باہر لے اؤ-
اور وہ اپنی نا قدری کا غم اندر ہی اندر دباتی رہ گئی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بڑے عرصے سے لائبریری کی صفائی نہیں ہوئی تھی- وہ کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ کسی دن کروالے ، آج ہمت کر ہی لی-
بلقیس کو تو کہنے کی دیر تھی- وہ فورا لگ گئی- وہ دروازے کی چوکھٹ پہ وہیل چئیر پہ بیٹھی ہدایات دے رہی تھی-

Mehar_1
 

مصحف
#
قسط 37
💕
ماما!کتنی ہی دیر بعد تیمور نے اسے پکارا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا -وہ اس کے سامنے کھڑا تھا- تم کب آئے؟ وہ سنبھلی-
ماما! وہ آہستہ سے اس کے قریب آیا - آپ رو رہی ہیں؟ اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھ اس کے چہرے پہ گرتے آنسوؤں پہ رکھے- وہ حیران رہ گئی- پتا نہیں کب یہ آنسو پھسل پڑے تھے-
آپ نہ رویا کریں- وہ اب آہستہ سے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا - محمل بھگی آنکھوں سے مسکرائی اور اس کے ہاتھ تھام لیے-
میں تو نہیں رو رہی-
آپ رو رہی ہیں- میں بچہ تھوڑی ہوں- وہ اس کی غلط بیانی پر خفا ہوا -

Mehar_1
 

ایک دو ہفتے رہتے ہیں- وہ رسان سے کہہ رہا تھا- وہ دونوں وہیں لاؤنج کے وسط میں کھڑے باتیں کر رہے تھے-
کیا اس کی عدت ختم ہونے سے پہلے ہم شادی نہیں کر سکتے؟
نہیں ! اس کا انداز اتنا سرد مہر اور قطعی تھا کہ پل بھر کو آرزو بھی چپ رہ گئی-
مگر ہمایوں۔۔۔۔۔۔ ! اس نے کہنا چاہا-
کہا نا نہیں! وہ اب سختی سے بولا تھا- اگر تمہیں منظور نہیں ہے تو بے شک شادی نہ کرو- جاؤ چلی جاؤ- وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا-
نہیں ، ہمایوں ، سنو ، رکو- وہ بوکھلائی ہوئی سی اس کے پیچھے لپکی-
سیڑھیاں چڑھنے کی اواز مدھم ہو گئیں۔۔۔۔ وہ دونوں اب اس سے دور جا چکے تھے-
ماما!کتنی ہی دیر بعد تیمور نے اسے پکارا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا -وہ اس کے سامنے کھڑا تھا-
Episode 36 Complete... ♥️

Mehar_1
 

وہ کچن میں اپنی وہیل چئیر پہ بیٹھی تھی-گود میں ٹوکری تھی جس میں مٹر رکھے تھے-تیمور بلقیس کے ساتھ مرکز تک گیا تھا-وہ مٹر چھیلتے ہوئے لا شعوری طور پر اس کا انتظار کر رہی تھی-
کچن کا دروازہ نیم وا تھا-وہ ویسے بھی اس سمت میں بیٹھی تھی کہ لاؤنج میں نظر نا آسکتی تھی- تب ہی اسے بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز ائی اور ساتھ قدموں کی چاپ بھی پھر قریب اتی آوازیں ۔۔۔۔ مٹر چھیلتے اس کے ہاتھ ٹھہر گئے۔۔۔۔۔۔
ایسا کب تک چلے گا ہمایوں؟وہ آرزو تھی اور تنک کر کہہ رہی تھی-
کیا؟
انجان مت بنو-ہم کب شادی کر رہے ہیں؟ان کی آواز قریب آرہی تھیں-وہ دم سادھے بیٹھی رہ گئی-مٹر کے دانے ہاتھ سے پھسل گئے-
کر لیں گے- اتنی جلدی بھی کیا ہے-
کیا مطلب جلدی؟اتنا عرصہ ہو گیا ہے تمہیں اسے طلاق دیئے ہوئے-
اس کی عدت ختم ہو لینے دو-
اور کب ختم ہوگی وہ؟

Mehar_1
 

وہ ٹینس بھی ہیں تو آپ کیوں کئیر کرتی ہیں؟جسٹ لیو ہر الون! وہ بہت غصے اور بد تمیزی سے بولا تھا- محمل نے فرشتے کی مسکراہٹ کو واضح ماند پڑتے دیکھا، اس کا دل دکھا-
تیمور بیٹا ! وہ تمہاری خالہ ہیں ایسے بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹ گو! چلی جاؤ آپ یہاں سے -وہ پیر پٹخ کر چیخا -بالکل ہمایوں کا پرتو-
سوری سنی! وہ شکستگی سے اٹھی، بیگ ہاتھ میں لیا اور تیز تیز قدموں سے لان کی روش پار کر گئی-
اور جہاں میری ماما ہوں وہاں مت ایا کرو-وہ اس کے پیچھے چلایا تھا- محمل نے تاسف سے برآمدے میں دیکھا، جہاں فرشتے دروازہ بند کر کے غائب ہو گئی تھی-
تیمور ابھی تک لب بھینچے دروازے کو دیکھ رہا تھا-
اف۔۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکا ۔۔۔۔۔۔ کیسے سمجھاؤں اسے کہ تمہارے بڑے تمہارے دشمن نہیں ہیں- وہ سر جھٹک کر رہ گئی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Mehar_1
 

اس کے ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھا اور وہ اپنے مخصوص سیاہ عبایا اور اسکارف میں ملبوس تھی- جس میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا- وہ غآلبا مسجد سے آرہی تھی-اس وقت وہ ادھر پڑھانے جاتی تھی-
السلام علیکم، جلدی آگئیں؟اسے آتے دیکھ کر محمل نے مسکرا کر مخاطب کیا-
ہاں بس ذرا تھک گئی تھی-وہ تھکان سے مسکراتی اس کی طرف چلی ائی-
کھانا کھا لیں، آپ نے دوپہر میں بھی نہیں کھایا تھا-
ہاں کھاتی ہوں- اس نے تھکے تھکے انداز میں کہہ کر انگلی سے کنپٹی سہلائی-اس کی مخروطی انگلی میں چاندی کی وہی انگوٹھی تھی جو وہ اکثر دیککھتی تھی-جانے کیوں وہ محمل کو قدرے پریشان لگ رہی تھی-
خیریت فرشتے؟مجھے آپ ٹینس لگ رہی ہیں-
نہیں تو- وہ پھیکا سا مسکرائی-تب ہی فاصلے پہ کھڑے تیمور نے پائپ پھینکا اور ان کی طرف آیا -

Mehar_1
 

وہ ابھی تک سن تھی، پہلی بار ہمایوں نے اتنی زہریلی بات کی تھی-یہ اتنا سارا زہر اس کے اندر کس نے بھر دیا تھا؟
اچھا چھوڑیں نا، مجھے اسٹوری اگے سنائیں-وہ اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا- محمل نے سر جھٹک کر کتاب اٹھا لی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ لان میں بیٹھی تھی اور تیمور پانی کا پائپ اٹھائے گھاس پہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا-قطرے موتیوں کی طرح سبز گھاس پہ گر رہے تھے-جب اسے زندگی میں گھپ اندھیرا نظر آنے لگا تھا ،وہیں پہ فجر کی پہلی کرن چمکی تھی-ہمایوں کی بے وفائی کا غم اب اتنا شدید نہیں رہا تھا جتنا اس سے قبل تھا-تیمور کی محبت مرہم کا کام کر رہی تھی-
شام اتر رہی تھی جب اس نے گیٹ پر آہٹ سنی تو گردن موڑ کے دیکھا، فرشتے نے باہر سے ہاتھ اندر کر کے گیٹ کا ہک کھولا تھا اور اب وہ دروازہ کھول کے داخل ہوئی تھی-

Mehar_1
 

میرے گھر میں یہ سب نہیں ہوگا، یہاں سے جا کر جو بھی کرنا ہو کر لینا-ریسیور ہاتھ میں لیے ہوئے درشتی سے کہتا ہوا وہ محمل کے ساتھ آغآ فواد کو بھی سنا چکا تھا-
وہ ششدر سی بیٹھی رہ گئی-ہمایوں نے ایک شعلہ بار نگاہ اس پہ ڈالی اور ریسیور کھٹاک سے کریڈل پہ ڈال دیا-پھر جیسے آیا تھا اسی طرح تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا گیا-
تیمور خاموشی سے مگر بغور سب دیکھ رہا تھا، ہمایوں واپس ہو لیا تو وہ آہستہ سے محمل کی طرف بڑھا-
ماما! اس نے ہولے سے محمل کا ہاتھ چھوا،پھر ہلایا-
وہ اسی طرح شل سی بیٹھی تھی-
" ایک بار پہلے بھی ان کا فون آیا تھا اپ کے لیے، ڈیڈی نے تب ان کو کہا تھا یہاں کوئی محمل نہیں رہتی، ماما! ڈیڈی ان کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں؟وہ تو آپ کے کزن ہیں نا؟

Mehar_1
 

اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی-تیمور صوفے سے اٹھا اور لپک کر فون ریسیور اٹھایا-
ہیلو؟ کچھ دیر تک وہ دوسری طرف سنتا رہا، پھر سر ہلایا، جی وہ ہیں ، ایک منٹ!
وہ ریسیور ہاتھ میں پکڑے محمل کی طرف گھوما-اسی پل ہمایوں کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز ائی-
ماما! آپ کا فون ہے-
کون ہے؟وہ ذرا حیران ہوئی-اس کے لیے بھلا کہاں فون آتے تھے-
وہ کہہ رہے ہیں ان کا نام آغا فواد ہے-تیمور نے ریسیور اس کی طرف بڑھایا- تار لمبی تھی ریسیور اس تک پہنچ ہی گیا-
آغافواد؟ وہ بے یقینی سے بڑ بڑائی، پھر ریسیور تھاما-کتنی ہی دیر وہ سن سی اسے کان کے ساتھ لگائے بیٹھی رہی-
ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو" اور پھر بمشکل لفظ ہونٹوں سے نکل ہی پایا تھا کہ کسی نے سختی سے ریسیور اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا- محمل نے بری طرح چونک کر پیچھے دیکھا-

Mehar_1
 

اور پھر موسی علیہ السلام کی ماں کا دل خالی ہو گیا-
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ لا شعوری طور پر رک گئی-
جانتی تھی اس وقت کون ایا ہوگا- بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی تھی-اس نے سر نہیں اٹھایا-
آگے بتائیں نا ماما!تیمور چند لمحو ں کے انتظار کے بعد بے چین ہو گیا، اسی پل ہمایوں اندر داخل ہوا ،بے ساختہ ہی محمل نے سر اٹھا لیا-
وہ تھکا تھکا سا سرخ آنکھیں لیے ، آستین کہنیوں تک فولڈ یے چلا آرہا تھا-ان دونوں کو یوں اکٹھا بیٹھے دیکھ کر ایک دم ٹھٹک کر رکا- آنکھون میں واضح حیرت اور الجھن ابھری-وہ پچھلے دنوں کافی دیر سے گھر ارہا تھا اور سوئے اتفاق وہ ان کی اس دوستی کے بارے میں کچھ جان سکا نہ ہی دیکھ سکا-
محمل نے نگاہیں کتاب پر جھکا لیں اور آگے پڑھنے لگی-

Mehar_1
 

تیمور لب کاٹتے اسے دیکھتا رہا ، گلاس لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا-
اسے توڑنا چاہتے ہو؟
نو- اب وہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا -
چلو لان میں چلتے ہیں، میں تمہیں ایک سٹوری بھی سناؤں گی-
اس کی بات پہ وہ مسکرا دیا ، اور گلاس اس سے لے کر دروازہ کھولا ، پھر ایک طرف ہٹ کر اسے راستہ دیا - وہ آسودگی سے مسکراتی وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں ہاتھوں سے گھماتی آگے بڑھنے لگی-
وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے- محمل کے ہاتھوں میں قرآن کے قصوں کی کتاب تھی اور وہ موسی علیہ السلام کا قصہ تیمور کو سنا رہی تھی-ان گزرے کچھ دنوں میں اس نے آہستہ آہستہ بہت سے قصے تیمور کو سنا ڈالے تھے-وہ چاہتی تھی کہ تیمور میں قرآن کا شوق پیدا ہو جائے-

Mehar_1
 

تیمور بھی غصے میں مٹھیاں بھینچ رہا تھا-وہ گئی تو اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور قریب رکھا کاغذ پھاڑ ڈالا- پھر اس کے ٹکڑے دروازے پہ دے مارے-
محمل بغور اس کا رویہ دیکھ رہی تھی-وہ واپس آکر بیڈ پہ بیٹھا تو اس نے اس کی رف کاپی اٹھائی ، تین صفحے نکال کر اسے پکڑاتی جا رہی تھی اور وہ وحشیانہ انداز میں اسے پھاڑتا جا رہا تھا-یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور سر ہاتھوں پہ گرا دیا -
محمل نے اس کی کاپی بند کر کے بیڈ پہ ڈال دی -
اٹھو پانی پیو اور مجھے بھی پلاؤ-
اس کے اندر کا لاوا باہر اچکا تھا- سو خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا گیا- چند لمحوں بعد واپس ایا تو اس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا شیشے کا گلاس تھا-محمل نے گلاس تھاما، پانی پیا اور پھر گلاس واپس اس کی طرف بڑھا یا-
اس کو بھی دیوار پہ مارو اور توڑ دو-

Mehar_1
 

آجاؤ - فرشتے کا چہرہ دکھائی دیا تو محمل نے مسکرا کر کہا-
وہ حیران سی دروازے میں کھڑی تھی-
تم اور سنی ۔۔۔۔۔۔ اوہ گاڈ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیسے ہوا ؟وہ حیرت زدہ بھی تھی اور خوش بھی-
بس اللہ کا شکر ہے!اس نے مسکراہٹ دبا کر کندھے اچکائے، جیسے خود بھی اس خوش گوار واقعے پہ لا جواب ہوگئی ہو-
آئی ایم سو ہیپی محمل!فرط جذبات سے محمل کی انکھیں ڈبڈبا گئیں-اور اس سے پہلے کہ محمل جوابا کچھ کہہ پاتی تیمور زور سے بولا ــــــــــ نو یو آر ناٹ، آپ جھوٹ بولتی ہو، مجھے سب پتا ہے-فرشتے کا چہرہ ماند پڑ گیا-
سنی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
یو کین گو ناؤ، جسٹ گو اوے! وہ ایک دم زور سے چلایا- فرشتے لب کاٹتی ایک دم پلٹی اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی-

Mehar_1
 

وہ چاہتی تو فرشتے کو آواز دے لیتی ، مگر ابھی تیمور کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی-
شی از ناٹ مائی خالہ- وہ منہ ہی منہ میں بدبداتا اٹھا ، دروازہ آدھا کھول کر سر باہر نکالا اور غصے سے بولا-
واٹس رانگ ود یو؟
اوہ سوری سنی میں محمل کو ڈھوند رہی تھی-
فرشتے کی خجل سی آواز آئی-
شی از ود می، پلیز ڈونٹ ڈسٹرب از-
اس نے زور سے دروازہ بند کیا- پھر واپس مڑا تو محمل قدرے خفا سی اس کو دیکھ رہی تھی-
وہ میری بہن ہے، تم اسے مجھ سے بات بھی نہیں کرنے دو گے یٹا؟
آپ کیوں اس وچ نمبر ٹو کو پسند کرتی ہیں؟ میرا تو دل کرتا ہے اسے کہوں اپنا بروم اسٹک اٹھائے اور یہاں سے چلی جائے-بگڑ کر کہتے ہوئے اس نے پلٹ کر دروازہ کھولا-

Mehar_1
 

ہاں۔۔۔۔۔۔
ابھی تو ہاف منتھ ہوا ہے،ابھی تو ٹائم ہے،کیا پتا ڈیڈی - ڈائیورس واپس لے لیں-
اس نے سوچا کہ اسے سمجھائے کہ پہلی طلاق واپس نہیں ہوتی ، بلکہ اس میں رجوع ہو سکتا ہے، مگر اس کے ننھے دماغ کو خواہ مخواہ کہاں الجھاتی ، سو بات بدل دی-
مجھے اپنی بکس دکھاؤ-
آپ ٹاپک مت چینج کریں، میں آپ کو ساری بکس دکھا چکا ہوں-
اوہ میرا مطلب تھا کاپیز دکھاؤ-
محمل۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل- اس سے پہلے کہ تیمور جواب دیتا ، اس نے فرشتے کی آواز سنی جو باہر اسے پکار رہی تھی-اس کی وہیل چئیر دروازے سے ذرا دور تھی- سو اس نے تیمور کو اشارہ کیا-
بیٹا! دروازہ کھولو-
پلیز نو! اس نے برا سا منہ بنایا اور وہیں بیڈ پہ بیٹھا رہا-
محمل - فرشتے کی آواز میں پریشانی تھی-
تیمور پلیز دروازہ کھولو خالہ بلا رہی ہیں-