کہو تم مجھ سے محبت کرتی ہو یہ عاشق دیوانہ ایسے ہی تو نہیں تمہارے پیچھے بھاگتا رہا کوئی تو وجہ تھی کچھ تو تھا جو مجھے تمہاری طرف راغب کرتا تھا بتاؤ وہ تمہاری محبت تھی کیوں صحیح کہہ رہا ہوں نہ میں کرتی ہو نہ تم بھی مجھ سے محبت تم بھی ہونا دیوانی میری ۔وہ اس کا چہرہ نظروں کے حصار میں لیے ضدی لہجے میں بول رہا تھا
ایسے نہیں پہلے تمہیں میری محبت کا جواب محبت سے دینا ہوگا وہ اس کا چہرہ اپنے سینے سے نکالتے ایک بار پھر سے پوچھنے لگا
ہاں بابا آئی لو یو ٹو وہ اس کے ہاتھوں سے اپنا چہرہ نکالتی اس بار اس کے سینے میں پناہ لے گئی تو زاوق قہقہ لگا کر ہنسا
صرف لفظوں سے کام نہیں چلے گا عملی نمونہ بھی تو دکھاؤ وہ شرارت سے بولا تو احساس نے رکھ کر ایک نازک سا مکا اس کے سینے پر مارا
The____End
آئی لو یو سو مچ احساس تم میری پہلی اور آخری چاہت ہو اگر اس دن تمہیں کچھ ہوجاتا تو تمہارا زاوق ٹوٹ جاتا ختم ہو جاتا لیکن تم نے اسے ٹوٹنے نہیں دیا
نہ میری جان آج تو ایسا نہیں چلے گا آج تو کہہ دو جو میں تمہارے لئے محسوس کرتا آیا ہوں وہی تمہارے دل میں بھی تھا آج تو اپنے دل میں چھپی اس محبت کا اظہار کر دو جو تمہارے دل میں پچھلے 12 سال سے دبی ہوئی ہے ہاں احساس میں جانتا ہوں جتنی محبت میں نے تم سے کی ہے اتنی ہی محبت تم بھی مجھ سے کرتی ہو
بس کہتی نہیں ہو لیکن آج کہو گی اور میں سنوں گا یہ تم میری خواہش سمجھ لو یا ضد لیکن آج تمہیں میری محبت کا جواب محبت سے دینا ہوگا
ہاں جیسے تمھیں اپنے دلہے کا دیدار نہیں کرنا زائم شرارت سے بولا اس نے کتنی منتیں کی تھی گھر چلو لیکن مجال ہے جو وہ احساس کی بہن بننے کا موقع ہاتھ سے جانے دیتی احساس بیچاری کو تو آج ہی پتہ چلا تھا کہ جس حجاب کو اپنا دشمن بنائے ہوئے تھی وہ تو اسی کی ٹیم میں کام کرنے والی ایک ورکر تھی
زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے تمہارا دیدار کئے چار سال ہو چکے ہیں اب فون رکھو اور مجھے سکون سے سر کا انتظار کرنے دو وہ بس آنے والے ہی ہوں گے حجاب نے فون بند کرتے ہوئے کہا
لگے رہو حجاب بیٹا آج کوئی نہیں آنے والا کیونکہ جس کو اس کی منزل تک پہنچنا تھا وہ تو کب کا پہنچ چکا ہے زائم نے آنکھیں بند کرتے ہوئے مسکرا کر کہا
❤
تو میں پڑھائی نہیں کروں گی نا ۔۔۔۔؟وہ اس کے سینے سے سر اٹھائے معصومیت سے بولی
نہیں میری جان اب ہمارے بچے ہوں گے پھر بڑے ہوں گے شادی ہوگی ان کے بچے ہوں گے تمہارے پاس وقت کہاں ہے پڑھائی کا وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا
جبکہ بے دھیانی میں وہ کہاں سے کہاں آ گئی تھی اس بات کا احساس ہوتے ہی اس نے شام سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی لیکن اب یہ ممکن نہ تھا
❤
یار میں کب سے زاوق سر کا انتظار کر رہی ہوں نہ جانے کہاں چلے گئے ۔حجاب نے اب زائم کو فون کرکے اسے بتایا
صبر کرو یار کہاں جانا ہے انہوں نے آنا تو نے اسی کمرے میں ہے زائم نے موسی کو اپنے سینے پر لٹاتے ہوئے کہا
لیکن اب تو ان کو آجانا چاہیے تھا اتنی دیر ہو چکی ہے لگتا ہے انہیں اپنی دلہن کا بالکل بھی دیدار نہیں کرنا حجاب منہ بنا کر بولی
مجھے اس پڑھائی سے
ویسے بھی پڑھائی کا ٹائم کہاں رہے گا اب میں شادی شدہ لڑکی ہوں اپنی زندگی میں مصروف ہو جاؤں گی ایک ڈیڑھ سال میں بچے پیدا ہوجائیں گے کہہ رہے گا ان سب چیزوں کا اتنا بڑا گھر ہے جو مجھے سنبھالنا ہے اور پھر بچوں کی پڑھائی ان کا اسکول ان کے کپڑے ان کا کمرہ کتنی چیزوں کا خیال رکھنا پڑے گا اور پھر جب بچے بڑے ہوگئے ان کی شادی بھی تو کرنی پڑے گی میرے پاس بالکل پڑھائی کا ٹائم نہیں ہے زارا بولنے پر آئی تو پھر بولتی ہی چلی گئی جبکہ شام خاموشی سے آنکھیں پھیلائیں اس کی فیوچر پلاننگ سن رہا تھا
ذارا اس رات سے آگے بڑھیں گے ان شاءاللہ بچوں کے بارے میں بھی سوچیں گے لیکن پلیز ابھی تم مجھے کنفیوز مت کرو
وہ اس کا ہاتھ تھام تھا اسے اپنے نزدیک کرتے ہوئے کنفیوز سے انداز میں بولا
تم نہیں جانتی ذارا ایک یتیم انسان کی زندگی کیا ہوتی ہے اس وطن میں اس وردی نے مجھے ایک پہچان دی ہے میں تمہیں اپنا پابند نہیں کر رہا بس یہ کہہ رہا ہوں کے اگر زندگی میں مجھے کبھی میرے وطن اور تم میں سے کسی ایک کو چننا پڑا تو میں اپنے وطن کو چنوں گا اور۔
اور میں اس میں آپ کا ساتھ دوں گی اس سے پہلے کے شام اپنی بات مکمل کرتا زارا نے اس کے بات کاٹتے ہوئے کہا
اسی لئے تو تمہیں چنا ہے ۔مجھے یقین ہے تم میرے اس فیصلے میں ہر قدم پر میرے ساتھ رہو گی
لیکن قدم سے قدم ملانے کے لیے اور بھی بہت سی چیزوں میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھانا ہوگا
وہ اس کے ہاتھوں کی کلائی پر خوبصورت نفس سا بریسلیٹ پہناتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا
آپ یہاں تک آ ہی گئی ہوں توآگے میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن پلیز آپ مجھے آگے پڑھنے کے لیے نہیں کہیں گے بری ہی الجھن ہوتی ہے
میں تم سے کوئی بہت بڑی بڑی باتیں نہیں کروں گازارا میں اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا میں کیا ہوں کیسا ہوں کوئی مجھے جانتا ہی نہیں تھا سالوں سے اس یتیم خانے میں پڑے میں ہمیشہ اپنے ماں باپ کو ڈھونڈتا رہا
لیکن پھر مجھے کسی نے بتایا کہ یتیوں کے تم ماں باپ ہوتے ہی نہیں اور یتیم خانے میں صرف یتیم ہی رہتے ہیں ۔میں جہاں بھی گیا جس موڑ پر بھی مجھے کسی نے اپنا کہہ کر اپنے سینے سے نہیں لگایا ۔
میرا دل چاہتا تھا کہ ہر کوئی مجھ سے پیار کرے سب کی نظروں میں میری بھی کوئی اہمیت ہو
پھر اب زاوق نے جب یہ پروفیشنل چنا تو میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اس کے بعد ہر کوئی مجھ سے پیار کرنے لگا مجھے دیکھتے ہی مجھے سینے سے لگانے کے لئے میرے پاس آتے لوگ ۔مجھے احترام سے بلاتے عزت سے بات کرتے ہیں نہ کہ غصے سے گالی دیتے
ماما نے کہا ہے ایک لاکھ سے ایک روپیہ بھی کم ہوا تو شام ماموں کو اندر مت جانے دینا موسی منہ پھلا کر بولا
اکاؤنٹنگ آتی ہے شام نے مسکرا کر اسے گود میں اٹھایا
فاسٹ فاسٹ نہیں آتی آہستہ آہستہ کر لونگا ۔موسی نے جلدی سے کہا
ویری گڈ بیٹا ہے یہ لو تمہارے ایک لاکھ روپے اب تم یہاں بیٹھ کر کاؤنٹنگ کرو تب تک میں اندر جا رہا ہوں شام نے پیسوں کے گڈی اس کے ہاتھ میں پکڑا اور اندر چلا گیا
زائم اس کی ہوشیاری پر قہقہ لگا کر ہنسا
بیس بیس روپے کی گڈی میں مشکل سے بیس ہزار روپے ہونے تھے
جب کہ موسیٰ بہت ہوشیاری سے ایک ایک روپے کا حساب کر رہا تھا آخر اس نے اپنی ماں کو پورا ایک لاکھ روپیہ دینا تھا
❤
شام نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ سامنے بیڈ کر اپنا ہوش رُبا حسن لیے بیٹھی تھی
آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب آ گیا تھا ۔
سوری ماموں آپ اندر نہیں جا سکتے تب تک نہیں جب تک جب تک آپ ماما اور احساس آنٹی کا نیگ نہیں دے دیتے
ماما یہاں پر نہیں ہیں وہ زاوق ماموں سے اپنا نیگ وصول کر رہی ہیں اسی لیے مجھے یہاں بھیجا ہے تاکہ آپ سے میں ان کا گفٹ لے سکوں چلیں اب جلدی کریں میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے مجھے سونا ہے الریڈی دو گھنٹے لیٹ ہو چکا ہوں اس کی ٹائم کی پابندی دیکھ کر شام نے گھور کر اسے دیکھا حجاب اسے ایک سیکنڈ بھی نہ تو زیادہ سونے دیتی تھی اور نہ ہی زیادہ جاگنے دیتی تھی یہ تو شام اور زاوق کی شادی کی وجہ سے اس کی عید ہو چکی تھی کہ یہ ابھی تک جاگ رہا تھا
کیا چاہیے شام نے گھور کر پوچھا ۔
کچھ بھی دیتے بچہ ہے کون سا اس کو پتہ چلے گا زائم نے حل پیش کیا
مجھے بچہ سمجھنے کی غلطی مت کیجئے گا
زاوق نے شام کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا بالکل احساس کے انداز میں جب کہ اسے اپنی نقل اتارتے دیکھ کر احساس نے اسے زبان چڑائی ۔
زاوق کو چند مہینوں پہلے والی وہ بولی سی احساس یاد آئی اس کے قریب آنے پر بھی سہم سے جاتی تھی ۔اسی کے کالج میں اپنا مشن مکمل کرنے اور احساس کو کچھ دن اپنے پاس رکھنے کا ہی اثر تھا کہ اب وہ پہلے کی طرح اس سے ڈرتی اور گھبراتی نہیں تھی شاید اب اسے زاوق کی محبت کا احساس ہو چکا تھا
❤
ساری رسم ادا ہو چکی تھی بس ایک رسم کے علاوہ زارا کو شام کے گھر رخصت کردیا گیا جس کی وجہ سے اس کی آخری رسم رہ گئی اور اب دونوں ہی افسوس سے ہاتھ ملتی بیٹھی ہوئی تھی
شام کے کمرے میں قدم اکھنا چاہا تو دیکھا دروازے پہ زائم اور موسی کھرے ہیں
جہاں زاوق ہر ممکن طریقے سے زارا کو اٹھانے کے بعد جا کر بیٹھا تھا زارا کی بیٹی ڈیمانڈ پوری کرنے کے بعد جب زارا کی ڈیمانڈ مزید پر گئی تو وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا اور اب شام بھی منہ لٹکائے وہی آکر بیٹھا تھا یہ پہلی شادی تھی جس میں دلہے الگ اور دلہن الگ بیٹھی ہوئی تھی
ہائے کتنی بےچاری شکلیں ہیں دونوں کی احساس نے ان دونوں کے پھولے ہوئے منہ دیکھ کر زارا کے کان میں سرگوشی کی
کوئی بات نہیں اب ساری زندگی ان کے یہ بے چارے بنے ہی رہیں گے جانتے نہیں ہیں کہ کس سے پالا پڑا ہے زارا نے احساس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے قہقہ لگایا
یار مجھے یقین ہے یہ ہمیں دیکھ کر ہی ایسے ہنس رہی ہوگی ۔شام نے زاوق کو دیکھتے ہوئے منہ بنایا
کوئی بات نہیں یار ہنسنے دے آج ان کا دن ہے آگے ہم قہقے لگائیں گے ۔
بہت پٹو گی تم میرے ہاتھوں ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تو احساس کھلکھلا کر مسکرائی
اچھا پیارا بےبی نہیں کرتی اور شادی بس آپ سے ہی کروں گی پہلی اور آخری وہ اسے شرارت سے پچکارتے ہوئے بولی
شکریہ احسان کا اپنی پڑھائی پر دھیان دیں زاوق اسبک ہلکے سے آس کے سر پر مارتا اس کا دھیان کتاب کی طرف لگانے لگا
احساس مسکراتے ہوئے اس سے اس کے سارے سوالات سمجھ رہی تھی جبکہ زاوق جو اتنے دنوں کے بعد اپنی نظروں کی پیاس بجھانے یہاں آیا تھا ۔اپنا دماغ کھپاکر رہ گیا
❤
نہیں بھائی میں آپ کو یہاں نہیں بیٹھانے دے سکتی ۔لیکن پھر بھی اگر آپ کا یہاں بیٹھنا ضروری ہے تولائی میرا نیگ دیجئے ۔
ورنہ ایسا کریں جہان دوسرا دلہا بیٹھا ہے اس کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اسے تھوڑے سے فاصلےپر بیٹھے زاوق کی طرف اشارہ کیا
مطلب تمہیں پتا ہے میتھس سر کو کھپانے والا کام ہے اگر درمیان می چائے کی ضرورت پڑی تو تمہیں پلانی پڑے گی وہ اس کی گھوری کو دلچسپ نظروں سے دیکھتے ہوئے بات بدل گیا
تو آپ کو چائے پینی ہےٹھیک ہے آپ مجھے میتھس سمجائیں میں آپ کو چائے پلا دوں گی ۔
لیکن شرط یہ ہے کہ آپ یہاں چیئر پر بیٹھیں گے اور میں وہاں بیڈ پر ۔اور آپ میرا چہرہ نہیں دیکھیں گے اس سے شادی کے رولز خراب ہوں گے خیر میں گھونگھٹ کر لیتی ہوں۔
آخر میری بھی پہلی پہلی شادی ہے اتنا تو کر سکتی ہو نا احساس نے دوپٹے کا گھونگھٹ بناتے ہوئے اپنے آگے کیا تو زاوق اسے گھور کر رہ گیا
میڈم اور کتنی شادی کرنے کا ارادہ ہے آپ کا ۔۔۔؟ وہ صدمے سے بولا
ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی ۔۔۔اسی لیے بہتر ہو گا کہ آپ اپنا دھیان میری بک پر لگائیں وہ اپنی ہنسی دبانے ہوئے بولی تو زاوق بھی مسکرایا
ایک تو میں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں اور اوپر سے تم میری شکایت لگا رہی ہو ۔
زاوق نے بہانہ بناتے ہوئے کہا
لگتا ہے تم نے کل پاس نہیں ہونا ٹھیک ہے اگر نہیں ہونا تو میں چلا جاتا ہوں بس اچھی مصیبت پالی میں نے مجھے ہی کیا ضرورت پڑی تھی اس طرح سے مدد کرنے کے لئے آنے کی اچھا خاصا نیند پوری کر رہا تھا پتا نہیں کیوں تمہارا احساس کرتا ہے یہاں آ گیا
جا رہا ہوں میں خدا حافظ لیکن اگر تم پیپر میں فیل ہوگی تو مجھے مت کچھ بھی کہنا ۔
ایک تو مدد کرو اوپر سے باتیں بھی سنو وہ منہ بنا کر کہتا باہر جانے لگا جب اچانک احساس نے اس کا ہاتھ تھام لیا
سچی مچی صرف میری مدد کرنے آئے تھے وہ شاکی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی
ہاں میں سچی مچی تمہاری مدد کرنے کے لئے ہی آیا تھا لیکن اگر مدد کے دوران میری نیت زرا سی خراب ہو جائے تو تمہیں کمپرومائز کرنا پڑے گا ۔
لیکن ایک منٹ آپ یہاں اندر کہاں سے آئے ۔ماما نے تو آپ کو مجھے دیکھنے سے منع کیا ہوا ہے نا ہائے اللہ آپ نے شادی کا رول توڑ دیا
آپ میری شادی خراب کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے کندھے پر مکا مارتی ہوئی بولی
کیا کیا خواب دیکھے تھے میں نے سب سے بیسٹ شادی ہوگی میری اور یہ میری بے صبرے خاوند صاحب جو میری شادی کے رولز توڑ رہے ہیں
اٹھیں یہاں سے اور نکلے میرے کمرے سے باہر کس نے بولا آپ کو یہاں آنے کے لئے ماما نے منع کیا تھا نہ ماما کی بات نہیں مانی آپ نے ابھی جا کے میں ماما سے شکایت کرتی ہوں وہ اسے گھسیٹنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اب اس کی شکایت لگانے عائشہ کے کمرے کی طرف جانے لگی
جب زاوق نے اس کا ہاتھ ایک جھٹکے سے تھامتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا
بیوی کیا کر رہی ہو میں تو تمہیں میتھ کے پیپر کی تیاری کروانے آیا تھا اچھی مصیبت ہے
اس لمحے کے لیے وہ بند آنکھوں سے پیچھے ہٹی جب اس کی خوشبو نے اسے قید کر لیا
اس نے نرمی سے نظروں کی جھالر اٹھائیں تو مسکراتا ہوا چہرہ ایسے نظر آیا
زاوق آپ آ گئے آپ کو پتہ ہے آج میں آپ کو کتنا مس کر رہی تھی وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی جب کہ اس کے الفاظ زاوق کا دل دھڑکا گئے تھے
کیا سچ میں میری جان مجھے اتنا مس کر رہی تھی وہ اس کے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولا
جب کہ اس کی بدلتی نظروں کا مطلب سمجھ کر احساس نے فورا اس کے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے ذرا فاصلے پر رکھا
اور نہیں تو کیا کل میرا میتھس سا پیپر ہے آپ خود آ گئے یہ تو اچھا ہو گیا آپ میتھ کی ٹیچر ہیں آج آپ نہیں یاد آئیں گے تو کیا مس انعم ائیں گی ۔
چلیں جلدی سے مجھے میرے پیپر کی تیاری کروائیں
اسی وجہ سے زاوق جب سے رحمان صاحب کے ساتھ اسے یہاں چھوڑ کر گیا تھا تب سے ہی اس کی شکل نہیں دیکھ پا رہا تھا
کیس مکمل ہو جانے کی وجہ سے اب بار بار کالج کے چکر لگانے کا بھی کوئی مقصد نہ تھا ۔
شام نے تو بہت ہاتھ پیر مارے لیکن زارا کی فیملی کی طرف سے آرڈر جاری ہوا کہ نکاح رخصتی والے دن ہی ہوگا
جس کی وجہ سے اب ان دونوں کا ملنا جلنا ان لیگل ہو چکا تھا ۔
جبکہ زاوق اپنی بے چینیوں کو دل میں سمیٹے اپنے گھر اور اپنی زندگی میں اپنی احساس کا انتظار کر رہا تھا
❤
ابھی مشکل سے اسے چند سوال ہی حل کیے تھے کہ اسے نیند آنے لگی ۔
صبح جلدی جاگ کر باقی کی تیاری کر لوں گی اسے اپنا سر بھاری ہوتا محسوس ہوا کتاب ایک طرف رکھتی وہ بیڈ پر لیٹ گئی
اس سے سوئے ہوئے بھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب اسے اپنے چہرے پر گرم سانسوں کا احساس ہوا
آپ جب چاہے جیسے چاہے اسے رخصت کریں آپ جب حکم کریں گے میں بارات لے کے آ جاؤں گا وہ مسکراتے ہوئے بولا
رحمان صاحب نے نم آنکھوں سے اپنے سینے سے لگا لیا
❤
ارے یار میں پکا میتھس میں فیل ہو جاؤں گی مجھ سے نہیں ہو رہا یہ سب کچھ وہ دائیں سے بائیں گھومتی زارا سے بول رہی تھی۔
آج سے ٹھیک سات دن کے بعد ایک ہی میرج ہال سے ان دونوں کی رخصتی ہونی تھی
اور یہاں وہ دونوں سنگھار کرنے کے بجائے اپنے پیپرز کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی
کل صبح میتھ کا پیپر تھا تین پیپرز گزر چکے تھے ۔جو ٹھیک ٹھاک ہوئے تھے دونوں کے پاسنگ مارکس آ ہی جانے تھے لیکن میتھس میں آکر ہمیشہ کی طرح وہ دونوں اٹک چکیں تھیں
عائشہ نے زاوق کو گھرانے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا کیونکہ ان دونوں کا پردہ چل رہا تھا
اللہ جتنا دے رہا تھا میں اس سے زیادہ مانگ رہا تھا ۔پھر اللہ نے مجھے احساس دلایا جتنا اللہ نےمجھے دیا ہے تو اسی میں خوش رہوں ۔ کیونکہ اللہ نے اتنا دیا ہے جتنا میں سنبھال سکتا ہوں ۔
مجھے معاف کردو زاوق میں نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا تمہاری کمپنی تمہارا گھر تمہاری دولت تم سے چھیننا چاہتا ہے ۔
لیکن اب اور نہیں اب میں اپنی بیٹی کو دھوم دھام سے تمہارے ساتھ رخصت کرکے اپنی غلطیوں کا ازالہ کروں گا میں چاہتا ہوں کہ میں خود اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے تمہارے ساتھ رخصت کروں ویسے تو عائشہ نے ایک اچھی ماں کا فرض نبھاتے ہوئے یہ کام کر دیا ہے
لیکن میں ایک بار پھر سے ۔وہ اجازت طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں تو زاوق مسکرا دیا
کیوں نہیں خا لو جان آپ کی بیٹی ہے
تو میں اس دولت کا کیا کروں گا
یہ سب کچھ تو میں اسی کے لئے کر رہا تھا اسے آسان زندگی دینے کے لیے کر رہا تھا اگر میری بیٹی ہی نہیں رہے گی تو میں اس دولت کا کیا کروں گا
میں نے اپنی زندگی کے بہت سارے سال غربت میں گزار دیے دوسروں کے ہاتھ میں پیسہ دیکھتے ہوئے گزار دیے لیکن میں چاہتا تھا کہ میری بیٹی ایک پرسکون زندگی جئے ایک بہت امیر شخص کے ساتھ میری بیٹی کسی چیز کی فرمائش کرے تو وہ فورا پوری کر دے
میری بیٹی کے پاس دنیا کی مہنگی کار ہو بڑے بڑے بنگلے ہوں لیکن زاوق میں بھول گیا تھا اللہ ہر انسان کو اس کے اوقات کے مطابق دیتا ہے اتنا ہی دیتا ہے جیسے وہ وہ سنبھال سکے ۔
دولت ۔محبت ۔زندگی ہر چیز کی ایک لمنٹ ہے میں اس لمیٹ کو کراس کرنے کی کوشش کر رہا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain