مہر خان آفریدی ۔۔۔۔۔تم سے تو ملنا پڑے گا ۔شہریار مسکراتا ہوا اس بار سیدھا ہو کر لیٹا اور چھت کو گھورنے لگا نا جانے کیوں آج اسے کمرے کے ہرایک کونے میں مہر کا عکس محسوس ہورہا تھا ۔
ابھی تک وہ مہر کو محسوس کر رہا تھا جب اسے خود اپنا آپ کسی کی نظروں کے حصار میں محسوس ہوا اس نے کمرے کے چاروں طرف نظریں گھمائیں لیکن وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا وہ اپنا وہم سمجھتا ہوا لائٹ آف کر کے لیٹ گیا ۔
پھر اسے محسوس ہوا کہ کوئی بہت قریب اس کے بیٹھا اسے گھور رہا ہے کوئی ہے اس کے کمرے میں اس کے علاوہ بھی ۔
اس نے لائٹ آن کی اور کمرے کو دیکھا لیکن کوئی بھی نہیں تھا ۔
کیا ہو رہا ہے مجھے وہ بڑبڑاتا ہوا واپس لیٹ گیا ۔
ابھی اسے لیٹے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک بار پھر سے اسے اپنے قریب کوئی محسوس ہوا ۔
یہی وجہ تھی کہ اب ان آوازوں کا خوف اس کے اندر ختم ہوچکا تھا ۔
اس نےڈاکٹر سے بھی اپنا چیک اپ کروایا تھا اور ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ صرف ایک وہم ہے اور کچھ نہیں ۔
اسی لئے شہریار نے بھی آہستہ آہستہ گھبرانا چھوڑ دیا ۔
وقت دو سے اوپر جا چکا تھا اسے اس وقت تک اس طرح کی کوئی آواز نہ آئی ۔
آج سے صحیح معنوں میں یقین ہوچکا تھا کہ وہ آوازیں صرف وہم ہے اور کچھ نہیں ۔
ورنہ آج جب وہ خود ان آوازوں کا منتظر ہے وہ انتظار کر رہا ہے کہ کب اسکی نیند خراب ہو تو وہ آوازاسے کیوں نہیں آ رہی کیونکہ وہ لاشعوری طور پر اس وہم کو حقیقت میں بدلتےدیکھنا چاہتا تھا
وہ اپنا سر جھٹکتا بیڈ پر آ گیا ۔
اور ایک بار پھر سے مہر اس کے چاروں طرف حاوی ہونے لگی
کیا چیز ہے وہ لڑکی اس نے ہنستے ہوئے کروٹ بدلی ۔
کچھ نہیں ۔۔۔مجھے لگا جیسے میں اپنے سگریٹ کی ڈبی وہاں گراآیا ہوں سکندر نے بہانہ بنایا نہ جانے کیوں علی کو اس بارے میں نہیں بتایا تھا ۔
بازار برا پڑا ہے مل جائیں گے اور چل یہاں سے علی نے اس بار خفگی سے کہا تو وہ مسکراتا ہوا اس کے ساتھ آیا
💕
وہ کافی دیر سے سونے کی کوشش کر رہا تھا کبھی اس طرف کروٹ بدلتا تو کبھی اس طرف اکثر اس وقت سے پہلے سو جاتا تھا لیکن نہ جانے کیوں آج مہر کی باتوں نے سونے نہ دیا
اس لڑکی کو دیکھے ہوئے ابھی مشکل سے اسے چند گھنٹے ہوئے تھے وہ اتنی خوبصورت تو نہ تھی کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی نیند خراب کر تا۔
کچھ ہی دیر میں ان آوازوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہونے والا تھا شہریار کو ہمیشہ سے لگتا تھا کہ وہ آواز صرف اس کا وہم ہے ورنہ ان آوازوں کو کوئی اور بھی تو سنتا صرف اسے ہی وہ آوازیں کیوں آتی ہیں ۔
لیکن ہر بار کی طرح اس بار سکندر کو کوئی مایوسی نہ ہوئی تھی اسی پہاڑی کی چوٹی پر اسے سفید لباس میں ایک خوبصورت لڑکی نظر آئی
اتنی دور سے وہ دیکھ نہیں سکتا تھا کہ وہ خوبصورت ہے یا نہیں لیکن سکندر کو ایسا لگا جیسے وہ اسے دل کی نظروں سے دیکھ رہا ہو۔
بے شک اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی سکندر نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھی ۔
اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اس کے لب مسکرائے تھے ۔
سکندر اب کیوں روکا ہے چل یہاں سے علی نے پھر سے پکارا تو سکندر نے پہاڑی کی چوٹی کی طرف اشارہ کیا
کیا ہے۔ ۔۔۔؟علی نے پہار دیکھتے ہوئے پوچھا
جبکہ سکندر کی نظروں نے اس بار وہاں کسی کو بھی نہ دیکھا تھا
ارے وہ ابھی ۔۔۔۔۔سکندر کچھ بولتے بولتے رک گیا
جبکہ علی پریشانی سے اسے دیکھنے لگا تھا
وہاں کیا سکندر۔۔۔۔۔؟ علی نے خوفزدہ انداز میں پوچھا ۔
یار کتنی خوبصورت جگہ ہے وہ بے ساختہ بولا تھا
خوبصورت سے کہیں زیادہ یہ پرسرار اور خطرناک جگہ ہے سکندر چلو یہاں سے علی اسے سمجھاتا ہوا آگے بڑھ چکا تھا جبکہ سکندر اس کے ڈر پر نفی میں گردن ہلا تا اس کے پیچھے آیا۔
جب اچانک اسے یوں محسوس ہوا کہ کوئی پیچھے سے اسے دیکھ رہا ہے وہ ایک بار پھر سے رکا پیچھے پہاڑی کی طرف دیکھنے لگا لیکن وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا ۔
وہ سر جھٹکتا آگے کی طرف جانے لگا
جب اسے پیچھے سے پھر اسی طرح سے نظروں کا حصار محسوس ہوا ۔
کیا ہوا چل نا علی نے اسے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اس کے پیچھے آیا ۔
آگے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے سکندر کو ایسے محسوس ہوا جیسے پیچھے کوئی بہت مایوسی سے اسے جاتا دیکھ کر ۔
کسی کی نظروں کے حصار نے اسے ایک بار پھر سے پیچھے دیکھنے پر مجبور کردیا ۔
جبکہ علیا سے کتنی بار اس طرف جانے سے منع کر چکا تھا
علی پہاڑی کے اس طرف ندی بہہ رہی ہیں وہ پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا علی کو آواز دے رہا تھا جو اس سے کافی فاصلے پر تھا وہ مزید اوپر نہیں جانا چاہتا تھا بلکہ اسے بھی واپس چلنے کے لئے کہہ رہا تھا لیکن سکندر نے کسی کی بات ماننا تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا ۔
بس سکندر بہت ہوگیا اندھیرا ہونے والا ہے میں جارہا ہوں اگر تجھے آنا ہے تو آعلی کے پاس بس یہی آخری راستہ تھا وہ جانتا تھا کہ وہ اکیلا یہاں نہیں رکے گا کیونکہ اسے واپسی کا راستہ ٹھیک سے پتا نہ تھا ۔
اوکے فائن چلو لیکن ہم صبح یہاں واپس آئیں گے سکندر نے شرط رکھتے ہوئے کہا تو علی نے گردن ہلائی اور شکر ادا کیا کہ کم ازکم کو اس کے ساتھ واپس آ رہا تھا ۔
پہاڑی سے اترتے وقت سکندر نے ایک نظر اس پہاڑی کی طرف دیکھا ۔
اس وقت وہ اس پرسرار پہاڑی کے قریب تصویریں بنا رہا تھا جب علی نے اسے واپس کرنے کے لئے کہا ۔
چلتے ہیں یار تھوڑی دیر میں کچھ فوٹو تو لینے دے سکندر نے اسے ٹالتے ہوئے کہا تو وہ اس کے ساتھ چل دیا ہم اور اوپر نہیں جائیں گے سکندریہ پہاڑی پرسرارہے ۔
ہمیں یہیں سے واپس جانا چاہئے
یہ علاقہ خطرناک ہونے کی وجہ سے علی کے والدین یہ علاقہ چھوڑ کر کافی سال پہلے ہی شہر شفٹ ہو چکے تھے اور وہیں پر سکندر اس کا دوست بنا تھا سکندر کو آگے پیچھے گھومنے کا شوق تھا اور علی بھی اس کے شوق میں اس کا بھرپور ساتھ دیتا تھا ۔
اس بار علی بہت عرصہ سے ہی اپنے آبائی گاؤں جانے کا پلان بنا رہا تھا جب سکندر بھی اس کے ساتھ ہی یہاں آگیا اور تب سے ہی اس کا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا یہ پراسرار پہاڑی اسے اپنی طرف کھینچتی تھی ۔
پریوں کو پریوں کی کہانی تک محدود رکھو ان کی خواہش اپنی زندگی میں مت کرو ورنہ پچھتاوگی ۔رابعہ نے اس کے ہاتھ سے کتاب چھین کر اپنے پاس رکھ لی
مما وعدہ کرتی ہوں میں یہ اینڈ سے پڑھ کر بس سو جاؤں گی بس تھوڑی دیر اور ۔
مہر میں نے کہا جا کر سو جاؤ بہت وقت ہوگیا ہے رابعہ نے غصے سے کہا تو مہر منہ بناتے ہوئے اپنے بیڈ پر آگئی
جب دھیان اچانک ہی دوپہر والے ان دو لڑکوں پر چلا گیا جو اس کا مزاق اڑا کر گئے تھے ۔
زندگی میں کبھی تو تم دونوں سے دوبارہ ملاقات ہوگی نہ دیکھنا اس بےعزتی کا بدلہ میں کیسے لیتی ہوں مہر دل ہی دل میں عہد کرتی نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی
💕
سکندر پہلی بار علی کے آبائی گاؤں آیا تھا یہ اتنی خوبصورت جگہ تھی کہ سکندر یہیں کا ہو کر رہ جانا چاہتا تھا ۔
وہ تین دن سے یہاں تھا اور واپس جانے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔
اوہو مما پلیز تھوڑی دیر کے بعد ہے ابھی رکھ دوں گی
تقریبا اینڈ پے ہوں اگر یہاں پر چھوڑ دیا تو سارا مزہ خراب ہو جائے گا ۔
مہر نے منت بھرے انداز میں کہا ۔
کچھ دن کے بعد تمہاری بہن کی شادی ہے اور تم ساری ساری رات جاگ کر یہ کتابیں پڑھتی رہتی ہو ۔
اگر کچھ سیکھنے والی کتابیں ہوں تو الگ بات ہے یہ پریوں کی داستان اس سے حقیقی دنیا کا کوئی تعلق نہیں ہوتا رابعہ نے بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں مما اصل زندگی میں پریاں ہوتی ہیں
اور وہ آج بھی دنیا میں موجود ہیں مجھے یقین ہے ۔
لیکن ہر کسی کے سامنے وہ نہیں آتی وہ صرف خوش قسمت لوگوں کو نظر آتی ہیں
میری تو خواہش ہے کہ میں کسی پری کو اپنی زندگی میں دیکھوں مہر نے حسرت سے کہا تو رابعہ نے نفی میں گردن ہلائی ۔
جتنی خوبصورت یہ کہانیاں ہوتی ہیں نہ مہر اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ۔
ایک بار لیا گیا نام اسے اکثر یادنہیں رہتا تھا لیکن نہ جانے کیوں مہر کا نام وہ بھلا بھی نہیں پایا تھا
مارکیٹ سے واپس آنے کے بعد زیان نے اسے کہا گھمونے چلو لیکن نہ جانے کیوں شہریار کا دل ہر چیز سے اٹھ چکا تھا
وہ صرف مہر کو سوچنا چاہتا تھا ۔
وہ تو اس کے نام کے علاوہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا تھا اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ شاید زندگی میں آگے کبھی اس کی اس لڑکی سے ملاقات بھی ہوگی یا نہیں ۔
لیکن سچ کہتے ہیں لوگ دل پر کسی کا زور نہیں چلتا ۔
اور اس وقت وہ اپنے دل کے ہاتھوں بےحد مجبور تھا ۔
وہ جتنا مہر کو اپنی سوچ سے نکالنے کی کوشش کرتا وہ اتنی ہی اس کی ہر سوچ پر سوار ہوگئی
۔
💕
مہر تم ابھی تک جاگ رہی ہو بیٹا ۔
آدھی آدھی رات تک جاگ کر کیا کرتی رہتی ہو تم ۔اس کے ہاتھ میں فیری ٹیل بک دیکھ کر امی نے اس کے ہاتھ سے کتاب لینا چاہیں
#عشق
#چوتھی_قسط
💕
جانے کیا وجہ تھی کہ شہریار آج پرسکون تھا اس کے ذہن میں صرف ایک ہی لڑکی کا خیال تھا ۔
رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا دل اور دماغ پر مہر بڑی طرح سے سوار تھی آج نہ تو اسے کسی چیز کا ڈر تھا اور نہ ہی کسی چیز کی فکر
آج تو اسے خیال بھی نہ آیا کہ وہ آواز کچھ ہی دیر میں ایک بار پھر سے اس کے ہر خیال پر سوار ہو جائے گی ۔
نا تو اسے نیند آ رہی تھی ۔اور نہ ہی آج وہ کسی بھیڑوالی جگہ پر جانا چاہتا تھا آج تو وہ تنہا رہ کر صرف مہر کو سوچنا چاہتا تھا
وہ اسے سوچے جا رہا تھا کیوں وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ۔
وہ کوئی اتنی خوبصورت بھی نہ تھی اس سے کہیں زیادہ حسین لڑکیاں وہ اپنی زندگی میں دیکھ چکا تھا لیکن نہ جانے مہر میں کیا تھا ۔
وہ اپنا دھیان آگے پیچھے کسی اور بات میں لگانے کی کوشش کرتا تو پھر سےمہر اس کے ذہن و دل پر سوار ہو جاتی
مہر نے لڑکی کو دیکھتے ہوئے لڑکوں کے حسن کو سراہا تھا ۔
جب لفٹ نیچے والے فلور پر آرکی ۔
شہریار اور زیان لفٹ سے باہر نکل چکے تھے جبکہ مہر اور دوسری لڑکی نے شاید ابھی مزید نیچے جانا تھا
ویسے آپ سے ایک بات کہنی تھی شہریار نےمڑتے ہوئے کہا جبکہ اسے اردو بولتے دیکھ کر مہر کا منہ کھل چکا تھا
لڑکے بیوٹیفل نہیں ہینڈسم ہوتے ہیں ۔لفٹ بند ہوتے وقت زیان کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔
جبکہ لفٹ میں موجود دونوں لڑکیوں کے منہ حیرت اور صدمے سے کھلے ہوئے تھے
اس میں اتنا پریشان ہونے والی کونسی بات ہے اور ایک اور بات یاد رکھنا مہرخان فریدی کبھی جھوٹ نہیں بولتی ۔
اور نجمہ خالہ کے بیٹے کا کیا نام ہے بتا مجھے ۔
وہ اس پر چڑھ دوڑی لڑکی نے سوچتے ہوئے شاہد نام لیا ۔
جی ہاں شاہد اور ہماری قوم کیا ہے آفریدی اور بلادری پٹھان تو کیا ہوا شاہد خان آفریدی ۔
مہر نے خاصی اونچی آواز میں اسے کسی میتھ کے سوال کی طرح سمجھایا تھا ۔
جبکہ دوسری لڑکی اسےخاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی کہ لفٹ میں دو لڑکے موجود ہیںں
ارے ان سے کیا گھبرا رہی ہیں انگریزوں کی اولاد ہیں شکل سے نہیں لگ رہا ۔مہر نے لاپروائی سے کہا جبکہ اپنے متعلق اس تبصرے پر شہریار اور زیان نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا
ویسے ایک بات ہے کہ انگریزہمارے پاکستان کا سارا حسن چرا کے لے گئے شکل دیکھ ان کی کتنے بیوٹیفل ہیں
آپ جو چاہے لے لے آپ کو بلا پیسوں کی کمی ہے کیا ۔آپ بس یہاں آتی رہیے گا بس ایک شاہد خان آفریدی کا آٹوگراف مل جائے تو بڑی مہربانی ہوگی آپ کی
دکاندار نے خوشامدی انداز میں موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑایا
جبکہ ساتھ کھڑی اس کی سہیلی پریشان ہو چکی تھی
مہر چلو ۔ہمیں دیر ہو رہی ہے لالا انتظار کر رہے ہوں گے ۔
لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جبکہ ان کے ساتھ زیان اور شہریار بھی باہر نکل آئے ۔
اور ان کے ساتھ ہی لفٹ کا بٹن دبا کر نیچے والے فلور میں جانے لگے
مہر تیرا دماغ خراب ہے کیا تو نے اسے جھوٹ کیوں بولا کہ تو شاہد خان آفریدی کی کزن ہے ۔تجھے پتا ہے اگر ہم پکڑے گئے تو کیا ہوگا اتنا مہنگا فون اٹھانے کی ضرورت کیا تھی ۔
وہ دھیمی آواز میں اس پر چیخ رہی تھی شاید لفٹ میں موجود دو لڑکوں کا لحاظ کر رہی تھی ۔
ہاں بالکل جانتا ہوں انہیں کون نہیں جانتا ۔
وہ میرے کزن ہیں دوکاندار کے ہاتھوں سے فون چھوٹتے ہو چھوٹتے بچا ۔
جبکہ زیان اور شہریار کی ہنسی نکل گئی ۔
کیا سچ میں ۔۔۔۔
اس میں جھوٹ بولنے والی کونسی بات ہے شاہد خان آفریدی کوئی دوسرے پلانٹ کا تھوڑی ہے جو اس کے رشتہ دار نہیں نکل سکتے میں اس کی کزن سسٹر ہوں اگر آپ چاہیں تو قسم لے لیں ۔
وہ والا فون دکھائیں وہ دکاندار کی ایکسپریشنز کو اگنور کرتے ہوئے بولی ۔لڑکی کا اتنی بڑی بات کو اس طرح سے اگنور کرنے پر دکاندار کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ شاہد خان آفریدی کی کزن سسٹر ہے
یہ والا کیوں آپ یہ والا لے دوکاندار نے سب سے مہنگا فون نکالا
ارے نہیں نہیں یہ میرے بچٹ سے باہر ہے لڑکی نے پریشانی سے کہا ۔
ارے ہمارا دماغ خراب ہے جوہم شاہد خان آفریدی کی بہن سے کچھ مانگیں گے ارے یہ تو پوری دکان آپ کی ہے
وہ کافی دیر سے کھڑی تھی شاید یہاں اسی لیے دوکاندار اس سے کافی مایوس لگ رہا تھا ۔
یہ بھی اچھا نہیں ہے کوئی اور دکھائیں کوئی اچھا سا دکھائیں وہ فون کو ٹٹولتے ہوئے ایک سائیڈ پر رکھ چکی تھی ۔
شہریار کافی دلچسپی سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا زیان نے بھی یہ بات نوٹ کرلی تھی ۔
آپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ کو میں نے کہیں دیکھا ہوا ہے وہ جو کب سے اس سے بیزار تھا اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا
اور شاید آپ نے مجھے دیکھا ہو گا میں آگے بھی اس مارکیٹ میں آتی رہتی ہیں ۔اس نے اگنور کرتے ہوئے دوسرا فون دیکھنے لگی ۔
نہیں میں نے کہیں دیکھا ہے آپ کو شاید میں آپ کو جانتا ہوں دکاندار شاید کوئی ٹھرکی آدمی تھا جو اس سے باتیں کرنے میں مصروف ہوگیا ۔
شاہد خان آفریدی کو جانتے ہیں آپ لڑکی نے چہرے پر معصومیت سجائے پوچھا دوکاندار کی آنکھیں کھل گئی
جورات کو بھی ان آوازوں کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی تھی ۔
ذیان میٹنگ اٹینڈ کر کے آیا تو شہریار بھی اپنی نیند پوری کر چکا تھا اب ان کا ارادہ کہیں باہر گھومنے پھرنے کے لئے جانے کا تھا ۔
اس وقت وہ مارکیٹ میں اپنے لئے کچھ خرید رہے تھے
یار سب سے پہلے تو ایک سم کارڈ لینا پڑے گا
کیونکہ وائی فائی سروسز ایشو کر رہی ہیں یہاں ۔
ذیان نے ایک دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو شہر یار بھی اس کے ساتھ ہی اندر آگیا ۔
سم کارڈ ایشو کرواتے ہوئے شہریار کی نظر اپنے بالکل قریب کھڑی ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی پر پڑی ۔
شکل سے وہ اتنی معصوم لگ رہی تھی کہ شہریار کو اپنے دل کے بہت قریب لگی ۔
نہیں بھیا یہ والا نہیں وہ والا موبائل فون دکھائیں ۔اس نے مسکراتے ہوئے سامنے دوسرے فون کی طرف اشارہ کیا تو آدمی نے بےزار سے شکل بناتے ہوئے فون اٹھا کر اسے دیا ۔
وہ اٹھ کر ہوٹل سے باہر نکل آیا سوائے ہوٹل مینیجر کے اس وقت یہاں اور کوئی نہ تھا ۔
سنو یہاں کوئی کلب وغیرہ کی جگہ ہے کیا اس نے مینیجر سے پوچھا تو وہ ذومعنی انداز میں مسکرایا ۔
کیوں نہیں سر بیسمینٹ میں آپ کو آپ کی خدمت کا ہر سامان ملے گا ۔
شہریار سمجھ چکا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے لیکن اس وقت وہ اس کی غلط فہمی دور کرنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتا تھا اس وقت وہ صرف اس آواز سے جان چھڑانے کے لئے کوئی جگہ تلاش کر رہا تھا ِ۔
وہ مینیجر کی بتائی ہوئی جگہ پر آگیا یہاں بالکل کلب سا ماحول تھا ۔
اور کافی شور شرابہ تھا وہ ایک طرف ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا ۔
شاید وہ دنیا کا پہلا انسان تھا جو پرسکون ہونے کے لئے لوگوں کے ہجوم کو ڈھونڈا کرتا تھا
❤
زیان صبح میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لیے جاچکا تھا جبکہ اس دوران شہریار نے اپنی نیند پوری کی تھی
شہریار میں آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔ مجھے باہر بلائیں
اپنے پاس
اب تو بہت ہوگیا ختم کریں یہ سزا ۔محبت کرنے کی بھی بھلا کوئی اتنی بڑی سزا دیتا ہے ۔
شہریار نے تکیہ ہٹا کر اپنے ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھے لیکن آواز پھر بھی بند نہ ہوئی ۔
شہریار محبت کا امتحان اتنا جان لیوا تو نہیں ہوتا ۔
میں کب تک انتظار کروں آپ کا تھک چکی ہوں نکالیں نے مجھے باہر ۔
اس سے پہلے کہ میرے عشق کی انتہاہوجائے ۔
اس سے پہلے کہ میرا عشق ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے ۔
مجھے اپنے قریب بلالیں مجھے باہر نکالیں یہاں سے مجھے اجازت دیں اپنے قریب آنے کی ۔
روز کی طرح آج اس آواز میں سیسکیاں اور آنسو شامل نہ تھے لیکن شہریار پھر بھی اس آواز سے اس حد تک بیزار تھا کہ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
دوسرے کمرے میں زیان شاید اس وقت گہری نیند سو رہا تھا ۔
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں ۔ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ کچھ دنوں کے لیے تمہارے پاس آ جاؤں آسیہ بیگم نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے بہلایا ۔
تو اس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے شہریار کی آواز کی خوشی وہ محسوس کر سکتی تھی تھوڑی دیر مزید اس سے باتیں کرنے کے بعد آیسہ بیگم کافی حد تک نارمل ہو چکی تھی ۔
فون بند کرتے ہوئے بھی انہوں نے سے بہت ساری ہدایات دی تھیں جن پر عمل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے شہریار نے فون بند کر دیا اپنے والدین کے اتنے قریب ہو کر بھی وہ ان سے مل نہیں سکتا تھا اس بات نے اسے اداس کر دیا تھا
❤
شہریارمجھے باہر بلا لیں ۔
آپ کو پتہ ہے آپ کی اجازت کے بغیر میں باہر نہیں آسکتی
مجھے اجازت دیں نا کہ میں باہر آجاؤں ۔
شہریار نے تکیہ اٹھا کر اپنے دونوں کانوں کے ساتھ دبایا ۔
لیکن اس کے باوجود بھی آواز بند نہ ہوئی ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain