جی بابا جان میں بالکل ٹھیک ہوں آپ نے اس وقت فون کیاشہریار کو اندازہ نہ تھا کہ اس وقت کینیڈا میں کیا وقت ہوا ہے ۔
تم آفس میں ہو کچھ ضروری کام کر رہے تھے کیا میں نے ڈسٹرب کر دیا راحیل صاحب نے بالکل نارمل ہو کر بات کی تھی تاکہ ان کے لہجے سے اسے کچھ محسوس نہ ہو ۔
جی بابا میں آفس میں تھا بس ایک ضروری میٹنگ تھی آپ بتائیں کچھ ضروری کام تھا کیا شہریار نے بات بناتے ہوئے کہا
ارے نہیں بس ایسے ہی دل کر رہا تھا تم سے بات کرنے کو اور تمہاری امی بھی تمہیں بہت مس کر رہی تھی انہوں نے فون آسیہ بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے انہیں رونے سے منع کیا تھا ۔
السلام علیکم امی کیسی ہیں آپ ۔اگر مجھے اتنا ہی مس کر رہی ہیں تو میرے پاس آ جائے کچھ دنوں کے لیے ۔کیونکہ میں بھی آپ کو بہت مس کر رہا ہوں آسیہ بیگم کہ بولنے سے پہلے ہی شہریار بول پڑا
نہیں راحیل میرا بیٹا مصیبت میں ہے ورنہ وہ اس طرح سے خوش نہیں ہوتی کچھ تو ہوا ہے پلیز آپ اسے فون کریں آسیہ کے رونے پر راحیل صاحب شہریار کو فون کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
وہ بار بار شہریار کے نمبر پر ٹرائی کر رہے تھے مگر اس کا فون بند جا رہا تھا کافی بار کوشش کرنے کے بعد بھی فون نہ لگا تو انہوں نے ایک نظر آسیہ کو دیکھا جو بہت بری طرح سے رورہی تھی
انہیں اس طرح سے روتے دیکھ کر وہ شہریار کا واٹس ایپ نمبر ملانے لگے جو پہلی بار میں ہی لگ گیا
❤
انہیں ہوٹل پہنچتے پہنچتے رات کا ایک بجا چکا تھا اس وقت وہ کھانا کھا رہے تھے جب شہریارکا فون بجا ۔
بابا کا فون آتے دیکھ کر وہ ایک پل کے لیے کنفیوز ہوا تھا
کیونکہ وہ ان سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا لیکن مجبور تھا فون اٹھانے کے بعد انہوں نے پہلا سوال یہ پوچھا شہریار تم ٹھیک ہو نا ۔
پورا گھر قہقہوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا ۔سب نوکر ابھی ابھی ہی چھٹی کر کے اپنے اپنے سرونٹ کوارٹر کی طرف گئے تھے ۔
اس کی خوشی سے چہکتے آواز باہر تک آ رہی تھی ۔
اور اس کی اس آواز کے ساتھ ساتھ آسیہ بی بی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔
راحیل صاحب نے انہیں بہت سمجھایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔جبکہ اندر سے وہ خود بھی بہت گھبرا چکے تھے
اس کمرے سے سسکیوں اور رونے کی آوازیں تو اکثر آتی تھی لیکن اس طرح کی آواز کبھی نہ آئی تھی ۔
آج اسے کس چیز کی خوشی ملی تھی وہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔
راحیل شہریار کو فون کریں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔آسیہ نے روتے ہوئے کہا ۔
آسیہ بیگم رونے والی کوئی بات نہیں ہے اس طرح سے گھبرانا بند کریں کینیڈا میں اس وقت ساڈے گیارہ بج رہے ہوں گے اس وقت وہ آفس میں ہوتا ہے ہمیں اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے ۔
#عشق
#تیسری_قسط
❤
وہ زیان کے ساتھ اس وقت فلائٹ میں موجود تھا ۔جیسے تھوڑی ہی دیر میں پاکستان ایئر پورٹ پر لینڈ ہونا تھا ۔
وہ آج تک اپنے والدین سے چھپ پر بہت جگہوں پر گیا تھا لیکن اتنے قریب کبھی نہ آیا تھا ۔
دل و دماغ میں ایک عجیب سا خوف تھا پکڑے جانے کا نہیں بلکہ کسی اور چیز کا یہ خوف کس چیز کا تھا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ۔
پاکستان پہنچتے ہی اس کا ڈر مزید بڑ گیا ۔اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے سینے کی دیوار توڑکر باہر آنا چاہتا ہو ۔
یہاں کا مینیجر انہیں لینے کے لیے ایئرپورٹ پر پہلے ہی موجود تھا وہ اس کے ساتھ ہی ہوٹل جانے والے تھے ۔
رات کے ساڈھے بارہ بج چکے تھے ۔ ان دونوں کا ارادہ اس وقت آرام کرنے کا تھا اسی لیے وہ دونوں پہلے ہوٹل کی طرف ہی گئے
❤
آپ نے کہا تھا آپ مجھے بلا لیں گے ۔آپ جانتے ہیں نا آپ کی اجازت کے بغیر میں باہر نہیں آسکتی
ہر جملے کے ساتھ شہریار کی نیند میں خلل پیدا ہو رہا تھا ۔
وہ کبھی ایک طرف کروٹ بدلتا تو کبھی دوسری طرف ۔
شہریار میں نہیں آ سکتی آپ کے پاس آپ تو ہو سکتے ہیں نہ ۔
آ جائیں خدا کے لئے آ جائیں آپ کی ساریسہ ساتھ آپ کے بنا ادھوری ہے ۔
آپ کی ساریسہ آپ کو پکار رہی ہے ۔
آجائیں میں آپ کا انتظار کر رہی ہوں ۔
شہریار کی نیند اچانک ٹوٹی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔
اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا ۔
وہ جلدی سے اٹھا ھاتھ منہ دھو کر اپنا جیکٹ اٹھا کر باہر نکل آیا اس آواز کو برداشت کرنا اس کے بس سے باہر تھا لیکن کلب پہنچتے پہنچتے اس نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان ضرور جائے گا کیوں یہ وجہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا
وہ وائی فائی سے کنیکٹ کر کے اپنا واٹس ایپ نمبر بھی اون رکھ سکتا تھا ۔
اس کا دل کبھی ہاں تو کبھی نہ کر رہا تھا فلحال ہو بہت کنفیوز تھا ۔وہ کالج اور یونیورسٹی میں کہیں بار اپنے ماں باپ سے چھپ کر گھومنے کہنے کیا تھا
آٹھ بجے گھر آنے کے بعد اسے نیند آنے لگی وہ رات 2 بجے سے پہلے جاگ جاتا تھا وہ جانتا تھا کہ انہیں آوازوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا جو اسے کبھی سونے نہیں دیتی تھی ۔
اسی لیے کھانا کھا کر وہ فورا ہی سونے کو لیٹ گیا تھا کہ اس کی نیند پوری ہوسکے ۔
سونے سے پہلے اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ سے جھوٹ بول کر پاکستان ہرگز نہیں جائے گا ۔اگر وہ لوگ اسے اپنے قریب نہیں بھلا رہے تو کوئی وجہ ہی ہے ۔
••••••••••••••
شہریار میں آجاؤں ۔۔۔۔۔؟
میں باہر آجاؤں شہریار ۔۔۔۔۔؟
یہاں کیا کر رہے ہو تمہیں منع کیا تھا میں نے اس طرف آنے سے وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا ۔
میں صفائی کر رہا تھا عاقب نے فوراً جواب دیا
جاؤ یہاں سے پرانا ملازم سرد لہجے میں بولا یقینا وہ کسی نہ کسی راز سے واقف تھا شاید وہ جانتا تھا کہ اس کے کمرے میں کیا ہے ۔
عاقب بنا کچھ بولے وہاں سے نکلتا چلا گیا
💕
وہ کب سے سوچ رہا تھا کہ اسے پاکستان جانا چاہیے یا نہیں 3 ماہ پہلے اس کے والدین اس سے مل کر یہاں گئے تھے ۔
ان کے ساتھ رہنے کو اس کا بہت دل کرتا تھا اپنی 26 سالہ زندگی میں بہت کم وقت اس نے اپنے والدین کے ساتھ گزارہ تھا ۔
اگر وہ پاکستان جاتا بھی تو بھی کبھی اپنے والدین سے نہیں مل پاتا ہاں لیکن وہ پاکستان جاسکتا تھا اپنے ماں باپ سے چھپ کر اور زیان نے تو اسے کنٹیکٹ کا بھی راستہ دکھا دیا تھا
جب شہریار کا فون آتا تھا ۔
وہ جو سارا دن خاموشی سے ادھر سے ادھر ٹہلتے رہتے تھے اپنے بچے کے فون آنے پر خوشی سے چہکے تھے ۔
آسیہ بیگم کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی ان کے چہرے پر ہمیشہ ہی اپنے بیٹے کے دور ہونے کا افسوس نظر آتا تھا ۔
جبکہ راحیل صاحب نے اپنا سب سے بڑا سہارا ہی خود سے دور کر رکھا تھا ۔
وہ تو دن رات اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے تڑپتا تھا ۔ناجانے کیا وجہ تھی جو اس کا یہاں آنا منع تھا وہ بس اتنا ہی جانتا تھا کہ شہریار کا اس حویلی میں آنا منع ہے آہستہ آہستہ فرش صاف کرتا ہوا وہ اسی کمرے کے قریب آ روکا ۔
اور بہت غور سے اس دروازے کو دیکھنے لگا اس وقت اس دروازے سے کسی قسم کے کوئی آواز نہیں آرہی تھی بالکل پر سکون سا ماحول تھا
وہ بہت غور سے اس دروازہ کو دیکھ رہا تھا جب اچانک ہی گھر کا پرانا ملازم اس کے قریب روکا
سوائے اس کے کہ پاکستان نہ بلانے کی کیا وجہ ہے ۔
وہ اپنے ماں باپ سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا لیکن پاکستان جانا اس کی خواہش تھی وہ اپنےملک کی سرزمین پر قدم رکھنا چاہتا تھا اس کی مٹی کو محسوس کرنا چاہتا تھا وہ تو کالج اور یونیورسٹی میں دوسرے ملکوں کے لڑکوں سے لڑتا تھا یہ کہہ کر کے اسکا پاکستان بیسٹ ہے وہ اپنے اس بیسٹ پاکستان میں جانا چاہتا تھا ۔
یار مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا شہریارنے اپنا دل مارتے ہوئے کہا ۔
صبح دس بجے کا وقت ہے صبح دس بجے سے پہلے میں تیرے گھر آؤں گا اگر تیرا دل راضی ہو تو میں تیری ٹکٹ بک کروا دوں گا ورنہ تیری مرضی زیان اس کی رگ رگ سے واقف تھا ۔
اسی لیے اسے ایک آفر دیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔
💕
حویلی بالکل سنسان پڑی تھی۔دن کے اجالے میں بھی یہاں بالکل خاموشی ہوا کرتی تھی یہاں پر شورشرابہ صرف اس وقت ہوتا تھا
میں اس سرزمین کا پیدا ہوا سچا پاکستانی ہوں ۔شہریار نے دل سے کہا
تو پھر ٹھیک ہے تو میرے ساتھ چل تین دن بہت انجوائے کریں گے صرف ایک گھنٹے کی تو میٹنگ ہے فٹافٹ ختم ہو جائے گی پھر گھومنے چلیں گے بہت مزہ آئے گا ویسے بھی تو تُو بالکل فری ہے آجکل کچھ زیادہ کام بھی نہیں ہے زیان نے آئیڈیا دیا ۔
نہیں یار میں نہیں آسکتا اسے اچانک ہی اپنے والدین یاد آگئیں جو اسے کسی قیمت پر پاکستان نہیں آنے دے رہے تھے ۔
تو اپنے موم ڈیڈ کی وجہ سے کہہ رہا ہے ڈونٹ وری یاران لوگوں کو کچھ بھی پتا نہیں چلے گا تو اپنا واٹس ایپ نمبر اون رکھنا وہ لوگ وہاں پر تجھ سے اسی نمبر پر کنٹیکٹ کرلیں گے باقی ہم لوگوں نے کونسا ان لوگوں کو پتہ چلنے دینا ہے تین دن کے بات ہے خوب انجوائے کر کے واپس آجائیں گے زیان اس کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا ۔
جو پاکستان کے بارے میں کچھ جانتا ہوں ۔
یار تو بھی حد کرتا ہے یہاں کون جانتا ہوگا پاکستان کے بارے میں
یہاں تو پاکستان کا ایک ہی عاشق ہے اور وہ ہے تو جو خود22 سال سے پاکستان نہیں گیا ۔زیان نے اپنا مسئلہ بتاتے ہوئے اسے بھی یاد دلایا کہ وہ بھی اب پاکستانی ہرگز نہیں ہے
تجھے کس نے کہا کہ میں پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا مجھے سب پتہ ہے ۔دن رات انٹرنیٹ پر پاکستان کا چپا چپا دیکھتا ہوں میں ۔وہاں رہنے والے بھی پاکستان کے بارے میں اتنا نہیں جانتے ہوں گے جتنے میں یہاں رہ کے جانتا ہوں ہم بے شک اپنے ملک سے دور چلے جائیں لیکن اسے بھلا تو نہیں سکتے ۔
میں دن رات اپنے ملک کی کامیابیاں دیکھ کر فخر محسوس کرتا ہوں ۔ہم پاکستانی چاہیے دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ آجائیں مگر اس دل سے پاکستان کبھی نہیں نکلتا
اب 3 دن میں ہوٹل کی خاک چھانوں گاکیا زیان نے اسے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی
ارے پاگل بتا تو رہا ہوں کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے تو گھومنے جانا پاکستان میں ہر شہر میں کوئی نہ کوئی تاریخی مقامات موجود ہیں تو وہاں بور نہیں ہوگا ۔
اور وہاں پر مجھے گھمانے کے لیے کوئی تو ساتھ ہونا چاہیے میں کیسے جاؤں گا یار کہیں۔ میں تو کسی کو جانتا تک نہیں ہوں ۔میں نے مینیجر کو بولا کہ کچھ اوپر نیچے کر کے ایک ہی دن کا اسٹے کر لے تو وہ کہتا ہے کہ سر اب کچھ نہیں ہوسکتا اور اوپر سے الو کا پٹھا خود بھی کچھ نہیں جانتا انڈیا سے ہے ۔
زیان نے ایک اور مسئلہ اسے بتایا ۔
اس سے بات کر رہا تھا تو وہ کہتا ہے سر پاکستان میں کچھ دیکھنے کے لائق نہیں ۔
چھوڑ نہ یار ہمارے پاکستان کی خوبصورتی سے جلتا ہے سالہ ایسا کر اپنے ساتھ راتیش کی جگہ کسی اور کو لے جا
#عشق
#دوسری_قسط
💕
ارے یہ تو بہت اچھی خبر ہے ۔پاکستان بہت خوبصورت ہے تم ایک بار وہاں جاؤ گے تو تمہارا واپس آنے کا دل ہی نہیں کرے گا ۔
زیان نے اسے ابھی آکر بتایا تھا کہ وہ پاکستان جا رہا ہے ۔زیان کی بہت امپورٹینٹ میٹنگ تھی جو پاکستان میں فکس کی گئی تھی ۔
جس کی وجہ سے کل صبح ان کو یہاں سے پاکستان کے لیے نکلنا تھا لیکن وہ پہلی بار پاکستان جا رہا تھا اسی لیے کافی کنفیوزن ہو رہا تھا ۔
اسے بس اپنا کام ختم کر کے واپس آ جانا تھا لیکن وہاں اسے تین دن کا اسٹے کرنا تھا وہ تین دن میں کیا کرے گا یہی سوچ کے کنفیوز ہو رہا تھا ۔
یار میں وہاں کیسی کو جانتا ہی نہیں ۔اوپر سے پہلی بار جا رہا ہوں مینیجر کو کہا تھا کہ ایک ہی دن میں ہماری واپسی ہوگی کہ اس نے تین دن کااسٹے رکھ لیا ۔
ٹھیک ہے بابا میں نہیں آرہا اس کے موڈ آف ہونے کے بارے میں بابا جان چکے تھے لیکن وہ کیا کرتے وہ مجبور تھے ۔
وہ اپنی اکلوتی اولاد کو خود سے دور جاتا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔
وہ دنیا میں سب کچھ کھونے کو تیار تھے سوائے اپنی اولاد کے ۔
شہریار کے لیے ہی تو انہوں نے یہ سب کچھ کیا تھا بے اختیار ان کی نظر بند دروازے پر پڑی ۔
بیڑیوں سے جھکڑا تالوں سے بھرا ہوا دروازہ ۔
میرا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ تمہارے حوالے کرکے اپنے آرام کروں ۔
بابا جان نے خوش ہوتے ہوئے اس کی تعریف کی تو وہ بے اختیار مسکرا یا
ہاں بالکل کیوں نہیں لیکن اس سے پہلے اگر آپ ایک بار مجھے پاکستان ۔۔۔۔۔
نہیں شہریار تم پاکستان نہیں آؤ گے ۔میرا مطلب ہے اب تو تم پر بزنس کی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں بیٹا اب تمہیں وہاں رہ کر سب کچھ سنبھالا ہوگا ۔
اب تو تم بہت بیزی رہنے لگے ہو اور میں نہیں چاہتا کہ تم بزنس میں لاپروائی سے کام لو ۔بابا جان نے ٹوٹی پھوٹی وجہ بنائی۔
پچھلے بائیس سالوں سے وہ ان کی وجہ ہی تو سنتا آ رہا تھا کبھی پرھائی تو کبھی پاکستان کا موسم ۔کبھی گرمی کا نام تو کبھی سردی ۔ہر بار ہی اس کے والدین اسے کسی طرح سے ٹال دیتے تھے ۔
اب تو وہ اتنا عادی ہو چکا تھا ان لوگوں کے بہانوں کاکہ وہ کم ہی اس بارے میں بات کرتا ۔
لیکن کل رات اس نے واضح اس کمرے سے رونے کی آواز سنی تھی ۔
اور اب جب وہ اپنے دوست کو یہ بات بتانے لگا تو اس نے اس کا مذاق بنا دیا ۔
مرد بن مرد کیا ڈرپوک لڑکیوں کی طرح باتیں کر رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔
اور نہ ہی ایسا کچھ ہوگا چل جلدی سے کھانا بنا ابھی بڑی بی بی آتی ہوں گی ۔طاہر نے اسے کام کی طرف لگایا ۔
جبکہ عاقب کا سارا دھیان اس وقت بھی صرف اور صرف اس کمرے کی طرف تھا
•••••••••••••
السلام علیکم بابا جان کیسے ہیں آپ ۔آج تین دن کے بعد اس نے بابا جان کو فون کیا تھا ۔
آپ کے بابا بلکل ٹھیک ہیں میرے شیر تم سناو کیا چل رہا ہے آج کل بزنس کے علاوہ ۔اکبر تمہاری بہت تعریفیں کرتا ہے ۔
کہہ رہا تھا کہ تمہیں کچھ بھی سکھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔اتنے کم وقت میں تم نے بزنس کو اتنے اچھے طریقے سے سنبھالا ہے
ابھی بھی سوچتا ہوں تو ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ۔عاقب نے طاہر کو بتایا
اچھا تو تیرا مطلب ہے اس کمرے میں چڑیل ہے طاہر کا انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا ۔
جبکہ اس کا انداز دیکھ کر عاقب کو غصہ آگیا وہ اسے اتنی خاص بات بتا رہا تھا اور یہ تھا اس کا مذاق اڑانے میں مصروف تھا ۔
ہاں مجھے یہی لگا کہ اس کمرے میں کوئی چڑیل ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا نا تو بڑے صاحب اس کمرے کو اتنے تالے کیوں لگا کے رکھتے ۔
ارے اس طرح تو کسی جیل کے قیدی کو بیڑیاں نہیں ڈالتے جس طرح اس کھڑے دروازے کو ڈالیں رکھی ہے ۔
جیسے دروازہ کہیں بھاگنے والا ہے میں بول رہا ہوں اس کمرے میں کچھ تو ہے ۔
طاہر اور عاقب کو یہاں نوکری کرتے ہوئے ابھی مشکل سے ایک ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا ۔
عاقب نے ایک دو بار پہلے بھی یہاں کچھ محسوس کیا تھا لیکن نظر انداز کر گیا
ایک بار اس نے پرانے ملازم سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ اپنے کام سے مطلب رکھو ہر چیز میں ٹانگ نہ اڑاؤ ۔
اس دروازے کو دیکھ کر ہی آسیب زدہ لگنے لگا وہ فورا ہی پلٹ آیا ۔اس کے اندر عجیب سا خوف پیدا ہوچکا تھا ۔
اسے یقین تھا کہ اس کمرے میں کچھ تو گڑبڑہے ۔
وہ جب تک حویلی سے باہر نہ نکل گیا اسی پیچھے سے رونے کی آواز سنائی دیتی رہی ۔
وہ جلدی سے کمرے میں آیا تو طاہر گہری نیند سو چکا تھا ۔
وہ اس کے ساتھ ہی اپنا بستر بچھا کر لیٹ گیا ۔
جبکہ سارا دھیان صرف اور صرف اس آواز پر تھا
••••••••••••
سنو طاہر یار رات کو ایک بہت عجیب واقعہ ہوا ۔
وہ دراصل میں اس تالوں والے کمرے کے باہر سے نکل رہا تھا کہ وہاں سے مجھے کسی لڑکی کے رونے کی آواز آئی ۔
یار میں تو اتنا خوفزدہ ہوگیا تھا کہ انتہا نہیں ۔
سارے برتن صاف کرکے اس نے کچن کا دروازہ بند کیا ۔
اور سرونٹ کوارٹر کی طرف جانے لگا ۔
جب اسے دبی دبی سسکیوں کی آواز سنائی دی ۔
اس نے ہر طرف دھیان دیا لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے ۔
لیکن غور سے سننے پر اس نے محسوس کیا کہ آواز اوپر کی طرف سے آرہی ہے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اوپر کی طرف جانے لگا ۔یہاں تو کوئی لڑکی نہیں رہتی تھی تو یہ روکون رہا ہے
اوپر کی طرف جاتے ہوئے آواز تیز ہونے لگی ۔
آواز کسی لڑکی کی لگ رہی تھی ۔جو بہت بری طرح سے رو رہی تھی
جیسے کہ بہت خوف زدہ ہو اس نے اپنی رفتار تیز کر لی
تیز تیز چلتے اچانک وہ ایک کمرے کے سامنے آکر کا جوتالوں اور بیڑیوں سے جھکڑا گیا تھا ۔
وہ ڈیڑھ مہینے سے اس گھر میں ملازم کے طور پر کام کر رہا تھا اس کمرے کو اس نے کہیں بار دیکھا تھا ۔
وہ کوئی ڈرپوک انسان نہ تھا ۔اور نہ ہی اسے آوازوں سے خوف آتا تھا مگر تجسس ضرور تھا اس کے بارے میں جاننے کا لیکن اس کی ماں نے اسے یہ بتایا تھا ۔
یہ آواز محبت کیے جانے کے قابل نہیں ہے اگر تم نے اس آواز کی طرف دھیان دیا تو تم ہم سے دور چلے جاؤ گے بہت دور اور وہ دور ہی تو تھا ۔
کتنا دور تھا اپنے ماں باپ سے اپنے ملک سے نجانے کونسے خوف کے تحت اس کے والدین نے اسے خود سے اتنا دور رکھا تھا ۔
چار بجے کے بعد وہ آوازیں اسے پکار پکار کر دم توڑ دیتی اور آج بھی یہی ہوا تھا دو گھنٹے کلب میں رہنے کے بعد وہ واپس اپنے گھر آیا تھا اسے آرام کی ضرورت تھی صبح 11 بجے کے قریب اس کی ایک میٹنگ تھی ۔
•••••••••••••
وہ اپنا سارا کام وقت پر ختم کر دیتا تھا لیکن آج اسے بہت وقت لگ گیا ۔
مہمانوں کی وجہ سے سارا کام ختم کرتے کرتے رات 12 بجے سے وقت اوپر جا چکا تھا ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain