آج بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔لوگوں کے شورشرابے میں اسے وہ آواز بہت دور سے سنائی دیتی تھی ۔اس وقت وہ پرسکون تھا ۔
بچپن میں یہ آواز کسی بچی کی ہوا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ کسی کمسن لڑکی سے وہ آواز آج ایک نسوانی آواز بن گئی تھی ۔
وہ کون تھی۔۔۔۔۔۔؟
اس کا نام کیسے جانتی تھی۔۔۔۔۔۔؟
اسے کیوں پکارتی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کے ساتھ اس کا کیا رشتہ تھا۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ اس سے باہر آنے کی اجازت کیوں مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔؟
وہ کہاں تھی۔۔۔۔۔۔؟
کیا وہ کہیں قید تھی۔۔۔۔۔؟
شہریار کچھ نہیں جانتا تھا ۔اسے پتہ تھا تو بس اتنا کہ اس کی ماں نے اس بارے میں اس سے کوئی بھی سوال پوچھنے سے منع کیا ہے اسے اپنی قسم دی ہے کہ وہ کبھی بھی اس بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھے گا اور نہ ہی کبھی کسی کو کچھ بتائے گا ۔
شہریارنے اس بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا
بچپن میں ہی اسے اپنے ملک اور اپنےاپنوں سے دور کینیڈا آنا پڑا ۔
شاید وہ آٹھ سال کا تھا جب یہاں آیا اور تب سے بس یہی تھا بالکل تنہا ۔
اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔اس نے زندگی میں ایسی کوئی رات نہیں کاٹی تھی جب اس نے یہ آواز نہ سنی ہو اسے عجیب سی نفرت تھی اس خوبصورت آواز سے ۔جس نے اس کی زندگی کےہر پل کا سکون چین کر رکھا تھا ۔
وہ اٹھ کر واشروم میں آیا ۔ اس نے منہ دھونے کے لئے نل کھولا ہی تھا کہ آوازیں ایک بار پھر سے آنے لگی۔
اس نے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور اپنا جیکٹ اٹھا کر باہر نکل آیا ۔
ہر روز کی طرح آج بھی اس کا ارادہ کلب جانے کا تھا ۔ شاید شور شرابے میں کہیں یہ آواز دب جائیں وہ اکثر راتیں اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے کلب جایا کرتا تھا ۔
لیکن پھر بھی آوازیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔
عشق
#پہلی_قسط
💕
شہریار میں آجاؤں ۔۔۔۔۔۔۔؟
شہریار مجھے بلا لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہریار مجھے اجازت دیں ۔۔۔۔۔۔۔
شہریار مجھے باہر بلالیں۔ ۔۔۔۔۔۔
شہریار میں باہر آجاؤں۔ ۔۔۔۔۔۔۔؟
ہر ایک پکار کے ساتھ وہ کروٹ بدل رہا تھا ۔
لیکن یہ آواز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔آج سے نہیں بلکہ برسوں سے یہ آواز پل پل اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔
آج سارا دن ٹف روٹین کی وجہ سے وہ بہت تھک گیا تھا اس وقت اسے آرام کی شدید ضرورت تھی ۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی کہ ایک بار پھر سے ان آوازوں نے اسے بے بس کردیا ۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور کمرے کی لائٹ اون کی ۔
اب اسے ان آوازوں سے ڈر نہیں لگتا تھا اسے عادت ہوچکی تھی ۔
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آوازیں اسے کب سے آرہی ہیں ۔
جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ زندگی کی کسی بھی رات پرسکون ہو کر نہیں سویا تھا
*🌱مُخْـــتَصَـر پُــر اَثَـــر🌱*
جب تم *سکـون* کی کمی
*محسـوس* کرو تو *تـوبہ*
کرو کیونکہ *انسـان* کے
*گنـاہ* اسے *بـے چیـن* رکھتـے ہیں
*🍂اِرشَــــاد نُـــورِی🍂*
🍃💞 ﺧﻮﺑﺼـــــــﻮﺭﺕ ﻣـــــــﺮﺩ: 💞🌿
🍃💞 ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﺮﺩ ﻭﮦ ﮬﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﻄــﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﻣﻌـــــــﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ .
🌿💞 ﺟﻮ ﻭﺣﺸــﺖ ﮐﮯ ﮔﮭـــــــﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮬﻮ ﮐﺮ ﻋـــــــﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺩﮬﺠﯿﺎﮞ نہیں ﺍُﮌﺍ ﺩﯾﺘﺎ .
🌿💞 ﺟﻮ ﺑﻦ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﻋـﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻣﺤـﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ 💞🍃
🌿💞 ﺧﻮﺑﺼـــﻮﺭﺕ ﻣــــﺮﺩ ﻋـــــــﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯽ ﺗﭙﺶ ﺳﮯ ﺟﻼ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﻮہ ﻋــﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﻓــﻆ ﺑﻦ ﮐﮯ
🌿💞 ﺍﺳﮑﻮ ﺗﺤﻔـــﻆ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ،
🌿💞 ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﺑــﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻏﻠـﻂ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﮨــﺒﺮ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺭﮨﻨــﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ،
🌿💞 ﺍﺳﮑﯽ ﻋــﺰﺕ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧـﺪﮔﯽ ﻓـــﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﮧ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻟﺠﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،
🌿💞 ﺍﺳﮑﯽ ﮨﻨــﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧــﺪﮔﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﮯ ہمیشـــﮧ ﺍﺳﮯ ﮨﻨﺴـﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺭﮐﮭـــﺘﺎ ﮨـــے۔ 💞🌿
✍Mirha ✍ ❤️
نکالتے ہیں کوئی حل تمہاری اس فرمائش کا بھی وہ اس کے دونوں گال چومتا محبت سے بولا جبکہ اس کی بات سننے کے بعد دھڑکن نے منہ نکال کر اسے گھورا تھا ۔
ایک شیطان سنبھلتی نہیں ہے اور جناب چلے ہیں اس کی فرمائش پوری کر نے دھڑکن نے ایک بار پھر سے بلینکیٹ اپنے منہ پر اوڑ لی۔
جب کہ اس کے اس حرکت نے کردم کو قہقہ لگانے پر مجبور کر دیا۔
❤
The End Alhamadulillah❤
میری جان یہ آپ کو بھائی کا شوق کہاں سے آگیا کل تک تو آپ کو پنکی چاہیے تھا کردم نے دل کو اپنی گود میں اٹھاتے ہوئے پوچھا
میں نے آج زمل آپی کو بولنا کہ آپ کے پاش ایسا کیا ہے جو میرے پاش نی
تو انہوں نے بولا ان کے پاش دو بھائی ہیں ۔اس نے اپنے ہاتھوں کی ننھی سی دو انگلیاں الگ کر کے دکھائیں
اور پھر زیلہ آپی (حیدر اور نور کی بیٹی ) کے پاس بھی یاسم بھائی (حیدر اور نور کا بیٹا ) ہیں
پھرتائشہ پھوپھو سائیں نے بولا بھائی تو حورم کے پاش بھی ہے بہرام تو مجھے بھائی کہنے نہیں دیتے اسی لئے آپ مجھے الگ سے سپیشل والا بھائی کر دیں
جیسٹ میرا بھائی
وہ دونوں ہاتھ ہلاتے تیز تیز بول کے اپنی بات اسے سمجھا رہی تھی
جبکہ ان دونوں کی باتوں پر بالکل غور نہ کرتے ہوئے دھڑکن سر سے پاؤں تک بلینکیٹ لپیٹ چکی تھی
کردم نے مسکرا کر اسے دیکھا
وہ تو نہ جانے کیسے تمہیں اپنے بیٹے کا خیال آیا اور میری بیٹی اس دنیا میں آئی اب وہ حوریہ کو چھوڑ کر حورم کی طرف متوجہ ہو چکا تھا
جو باپ کی آواز سننے کے بعد جاگ چکی تھی ۔اب حوریہ کو پتا تھا ان دونوں باپ بیٹی کی یہ میٹنگ جلدی ختم نہیں ہونے والی اسی لیے وہ آہستہ سے ان کے قریب سے اٹھ کر باہر چلی گئی اس سے اماں سائیں کو بی پی کی میڈیسن دینی تھی
❤
دل تم سو رہی ہو یا میں جنگل سے شیر کو بلاؤں دھڑکن نے سے ڈراتے ہوئے کہا
آپ سیر کو بلا لو میرا پنکی اس کو کھا جائے گا ۔وہ اپنے بھالو کے دونوں ہاتھ آگے کرتے ہوئے دھڑکن کو ڈراتے ہوئے بولی
جب کردم کمرے میں داخل ہوا ۔
بابا مجھے بھائی چاہیے کردم کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ بیڈ پر اٹھ کر دونوں بازو کھول چکی تھی۔
جبکہ اس کے بات سن کر دھڑکن آںکھیں نکالیں اسے دیکھنے لگی
❤
اس نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ حورم کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی یہ جاننے کے باوجود بھی کے وہ مقدم کے بغیر نہیں سوتی
وہ آہستہ سے اس کے قریب آیا اور اس کی گود میں سے حورم کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھا
دونوں بچے بہت ضدی ہو گئے ہیں ایک وہ ہے جو وہاں بیٹھا اپنی ضد منواتا ہے اور یہ میڈم جو آپ کے بغیر سوتی بھی نہیں ۔
حوریہ اس کے قریب سے اٹھ کر اپنی سائیڈ جانے لگی جب مقدم نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا
تمہیں کیوں اتنی جلن ہو رہی ہے اب میرے بچے ہیں مجھ پر ہی جائیں گے ۔
دوتو سنبھالے نہیں جارہے یہ چلیں ہیں جناب تیسرے کی تیاری کرنے۔
حوریہ نے اس کے لبوں پے ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے دور کیا
جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہرام کے دل میں دل کے جذبات بڑھتے جارہے تھے
وہی دل کے اندر اس کا خوف وڈر بیٹھتا چلا جا رہا تھا
آج کردم گھر آیا اس کے ہاتھ میں دل کا فیورٹ بالو پنکی تھا کیسے دیکھتے ہی وہ ناچنے لگی۔
ہمیشہ کی طرح دل کے ساتھ لاڈ کرتے ہوئے وہ فون پر بہرام اور دل کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو جان چکا تھا بہرام جب بھی فون کرتا تھوڑی دیر کے لئے حوریہ سے بات کرتا اور اس کے بعد وہ ہوتا اور اس کی دل ۔
اس سب سے کردم کو کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ تو خوش تھا آنے والے حالات سے لیکن بہرام کی ضد اور جنون مقدم کو پریشان کر دیتا تھا
لیکن دادا سائیں ہمیشہ اس کی یہ ساری باتیں مقدم پر گیا ہے کہہ کر ٹال دیتے ۔
❤
حوریہ کو تو لگ رہا تھا کہ بہرام اکیلا ہے اس لیے وہ دل سے بہت زیادہ اٹیچ ہے لیکن حورم کے دو ماہ کے ہو جانے کے باوجود بھی بہرام کی ساری توجہ دل پر تھی یہ نہیں تھا کہ وہ حورم سے محبت نہیں کرتا تھا وہ اپنی بہن کو بے تحاشہ چاہتا تھا لیکن دل کے ساتھ اس کے الگ ہی وابستگی تھی
اور مقدم اور کردم کو اصل جھٹکا تب لگا تھا جب بہرام کے غصے سے ڈر کر دل اسے لالہ کہہ کر پکارنا چھوڑ چکی تھی بہرام کی ضد اور دل کے ساتھ سختی نے ہی مقدم کو بہرام کو دوسرے ملک بھیجنے پر مجبور کر دیا
اس فیصلے پر حوریہ بہت دن اس سے ناراض رہی لیکن پھر اسی میں ہی ان کی بہتری سمجھ کر خاموش ہوگئی
لیکن بہرام کے جانے کے بعد بھی اس کا ڈر دل کے اندر بنا رہا۔بہرام جس طرح سے کہتا تھا وہ ایسا ہی کرتی تھی بہرام کی مرضی کے خلاف کچھ بھی کر کے اسے غصہ دلانا دل کے بس سے باہر تھا
بس بہرام بہت ہوگیا تمہاری بدتمیز دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں
میں نے تمہیں آخری بار بار واڑن کیا تھا کہ اگر اب مجھے تمہاری شکایت ملی تو میں تمہیں یہاں سے ہمیشہ کے لئے لندن بھیج دوں گا ۔مقدم نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے چلا جاؤں گا لیکن دل کو بھی میرے ساتھ بھیجے وہ بے فکری سے بولا
کردم کی گود میں بیٹھی دل فیڈر سے اپنا دودھ پی رہی تھی چار سال کے ہو جانے کے باوجود بھی وہ فیڈر سےہی دودھ پیتی تھی۔
کچھ دھڑکن سے ضدکا اثر تھا تو کچھ کر دم کے بےجا لاڈکا ۔لیکن سچ یہی تھا کہ دل میں پورے خاندان کی جان بسی تھی۔
بہرام کے دل کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اٹیچمنٹ نے ہی مقدم کو دوسرے بچے پر فورس کیا تھا
لیکن حورم کے دنیا میں آجانے کے بعد بھی وہ بہرام کی توجہ دل سے ہٹا نہیں پائے تھے
یہ آپ کے بس کی بات نہیں ٹیچر نے ایک نظر زمل کو دیکھتے ہوئے کہا
ہاں تو آپ ہی سمجھائے یہ آپ کا ہی کام ہے میں تو بس چیک کر رہی تھی کہ میرے بھائیوں کو کچھ آتا بھی ہے یا نہیں زمل نے اپنے دائیں بائیں کھرے شازم جنید خان اور شازل جنید خان کو دیکھتے ہوئے کہا
وہ دونوں جڑواں تھے اور اس سے2سال چھوٹے تھے
لیکن زمل اپنے برے ہونے کا فرض خوب اچھے سے نبھاتی تھی خود وہ پڑھائئ میں اچھی ہو یا نہ ہو لیکن اپنے بھائیوں پر بڑا ہونے کا روعب ضرور جماتی تھی
خیر ٹیچر میں جارہی ہوں اپنی کلاس میں مجھے میرا سامان پیک کرنا ہے بابا آنے والے ہوں گے
اور تم دونوں جلدی سے اپنی اپنی بیگ پیک کرو زمل ان سے کہتی کلاس سے باہر نکل گئی
ٹیچر نے ایک نظر بچوں کی طرف دیکھا جن کی آنکھوں میں صاف پڑھ سکتی تھی کہ ان کی زمل آپی غلط ہو کر بھی کبھی غلط نہیں ہو سکتی
❤
یعنی کہ آج پھر بابا سائیں کی ڈانٹ کھانی ہوگی ٹیچر کو گھورتے ہوئے سوچ کر آگے بڑھ گیا ۔
❤
ٹیچر کیا میں اندر آ سکتی ہوں وہ دروازے پر کھڑی معصومیت سے پوچھ رہی تھی ٹیچر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سر کے اشارے سے اسے اندر بلایا
زمل جنید خان یہ جو سوال آپ نے اپنے بھائیوں کو سمجھآئے ہیں یہ غلط ہیں اور جب میں سمجھا رہی ہوں تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ذمل آپی نے جو سمجھایا ہے وہی صحیح ہے اب ذرا آپ ہی انہیں بتائیں کہ یہ سوال آپ نے غلط سمجائے ہیں اور مجھ سے ٹھیک طریقے سے سمجھے
ٹیچر نے ایک نظر زمل کو دیکھا اور پھر قریب کھڑے شازل اور شازم کو
لیکن بابا تو کہتے ہیں کہ زمل جنید خان کا بھی غلط نہیں ہو سکتی ۔اس سے پہلے کہ ٹیچر شازل اور شازم کو سمجھآتی ہے زمل خود بول اٹھی
لیکن آپ یہاں ہیں غلط زمل اور اب سے آپ کو یہ سوال آپ سے نہیں بلکہ مجھ سے سمجھنےہوںگے
بہرام بدتمیزی سے بولا ۔اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ایک سیکنڈ کے لئے ٹیچر بھی سہم سی گئی ۔
وہ نویں کلاس کا بچہ نرسری کلاس کی اس بچی کے لیے کس حد تک پوزیسو تھا یہ پورا اسکول جانتا تھا
چلو دل بہرام نے دل کا ننھا سا ہاتھ تھاما اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آیا
میں نہیں جاؤں گی آپ کے ساتھ ٹیچر کو مالا اب وہ ماما بابا سے سکایت لگائیں گی ۔اور پھر مجھے بہت زور سے داٹ پڑے گی وہ اپنا ہاتھ بہرام کے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے بولی
اور اگر تم میرے ساتھ نہیں آؤ گی تو چاکلیٹ کون کھائے گا بہرام نے چاکلیٹ اسکے سامنے کرتے ہوئے کہا جس سے دل کے منہ میں پانی آگیا
اور اگلے ہی سکینڈ وہ بہرام کا ہاتھ تھام چکی تھی۔
بہرام نے مسکراتے ہوئے اسے اپنی گود میں اٹھایا اور ایک نظر پلٹ کر کلاس روم کی طرف دیکھا جہاں ٹیچر اب بھی غصے سے اسے گھور رہی تھی
تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تم روز ہوم ورک نہ کر کے آؤ ٹیچر نے کاپی پر نوٹ لکھ دیتے ہوئے کردم اور دھڑکن کو سکول بلایا
جب کہ دل اپنا معصوم سا ہاتھ آگے کیے ہوئے دونوں آنکھیں زور سے بند کئے کھڑی تھی
ٹیچر نےآہستہ سے لکڑی کا فٹ اس کے ہاتھ میں مارا یہ سزا تھی کہ دوبارہ یہ حرکت نہ کرے
لیکن ٹیچر کو دل پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے بہرام دیکھ چکا تھا
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری دل پہ ہاتھ اٹھانے کی وہ جلدی سے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے ٹیچر کو دھکا مار کے پیچھے کر چکا تھا
بہرام یہ کیا بدتمیزی ہے تم دن با دن بدتمیز ہوتے جا رہے ہو اب اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت میں اسکول سے نکال دوں گی ٹیچر نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا جب کہ ٹیچر ٹیبل پر رکھا ڈسٹر اٹھا کر بہرام نے ٹیچر کے سر پر دے مارا
اور اگر تم نے آئندہ دل پہ ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا ۔
جب کہ بچی کے رونے میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ دھڑکن کے رونے میں بھی شدت آ رہی تھی اور کردم ایک طرف اسے اور دوسری طرف اپنی معصوم بچی کو چپ کروا رہا تھا ۔
کردم نے یہ سوچا تھا کہ جب تک دھڑکن میں میچیورٹی نہیں آ جاتی جب تک وہ اپنی اولاد کے بارے میں نہیں سوچے گا ۔
اور جب دھڑکن اسے میچیور لگنے لگی اپنی بچی کے دنیا میں آنے کے بعد اسے دھڑکن پھر سے ایک بچی لگنے لگی جب بھی دل روتی وہ بھی اس کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی اور بیچارا کردم ان کو چپ کرواتے ہوئے ہلکان ہوتا
❤
چارسال بعد
تمہارا ہوم ورک کہاں ہے دل ٹیچر نے غصے سے پوچھا
ماما نے بید میں نی دالا(ماما نے بیگ میں نہیں ڈالا )
دل معصومیت سے منہ بنا کر بولی
تو تم خود ڈال دیتی کوئی مشکل کام تھوڑی ہے نکالو ہاتھ اپنا اگر اس گاؤں کے سرپنچ کی بیٹی ہو
وقت کے حوالے کردیا جائے وہ خود ہی اپنا صحیح اور غلط سمجھ جائیں گے ۔
❤
آٹھ سال بعد
کردم سائیں دیکھیں نہ یہ چپ نہیں ہورہی دھڑکن نے روتے ہوئے کمرے کے اندر آتے کردم کو دیکھ کر کہا جبکہ اپنے کندھے سے لگی بچی کو مسلسل بہلاتے ہوئے وہ خود زاروقطار رو رہی تھی
دھڑکن تم خود روتی رہو گی تو یہ کیسے چپ ہو گئی کردم نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے بچی لی
میں نے چپ ہو کر بھی اس کو چپ کرانا چاہا لیکن یہ چپ نہیں ہو رہی پلیز اسے کہیں نہ چپ ہو جائے دھڑکن ایک بار پھر سے روتے ہوئے بولی
دیکھیں نہ کردم سائیں یہ اور زیادہ رونے لگی ہے بچی کو روتا دیکھ کر دھڑکن کو اور زیادہ رونا آنے لگا ۔
کردم نے بچی کو ایک کندھے پر اٹھاتے ہوئے دھڑکن کو اپنے دوسرے کندھے کے ساتھ لگایا
دھڑکن یہ بچی ہے روے گی ہمیں اسے چپ کروانا ہوگا وہ اس کی پیٹھ سہلاتا آہستہ آہستہ بول رہا تھا
جی داداسائیں میں بھی جنید کی بات سے بالکل ایگری کرتا ہوں بچپن کے رشتے صرف دوریاں پیدا کرتے ہیں بچوں میں بھی اور بڑوں میں بھی ۔بہرام بھی اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے گا فی الحال اسے وقت پر چھوڑ دیجئے اگر ہم بچپن میں ہی ان کے ہاتھوں میں انگوٹھیاں پہنا کر ان پر یہ فیصلہ تھوپ دیں گے کہ تم اس کی منگیتر ہو اسی کی رہو گی کبھی اپنی زندگی کو جی نہیں پائے گی ۔
ہمیں ہمارے بچوں کو وقت کے حوالے کر دینا چاہیے یہ خود اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کریں گے مقدم نے جنید کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو داداسائیں نے مسکراتے ہوئے انگوٹھی دوبارہ اپنی جیب میں ڈال دی
اور دونوں بچوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بہلانے لگے ۔
جبکہ دادا سائیں کے اس فیصلے پر تائشہ اور حوریہ بھی بہت خوش تھی۔
انہیں بھی نہیں لگتا تھا کہ بچوں کو زبردستی رشتے میں باندھنے سے بہتر ہے
ہائے یہ تو سچی میں بہت پیاری ہے ۔تائشہ نے دھڑکن کی گود میں دیکھتے ہوئے آہ بھر کر کہا
یہ کتنی پیاری ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے دادا سائیں نے اپنی جیب سے انگوٹھی نکالتے ہوئے حوریہ کی گود میں موجود دوماہ کے بہرام کو اٹھایا اور اس کے ننھے سے ہاتھ میں انگوٹھی تھما کر بچی کا ہاتھ تھاما لیکن اس سے پہلے کہ وہ بہرام کے ہاتھ سے انگوٹھی اسے پہناتے جنید نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا
خدا کے لئے شاہ سائیں یہ ظلم نہ کریں معاف کیجیے گا لیکن بچپن کے ان رشتوں پر یقین نہیں رکھتا میں اپنی بچی پر کسی قسم کی کوئی زور زبردستی نہیں کروں گا یہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے گی میں اس پر کوئی فیصلہ تھوپوں گانہیں
میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی آزادی اور خوشی سے جئے نہ کہ کسی ڈرو خوف کے زیر اثر ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain