Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

آج بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔لوگوں کے شورشرابے میں اسے وہ آواز بہت دور سے سنائی دیتی تھی ۔اس وقت وہ پرسکون تھا ۔
بچپن میں یہ آواز کسی بچی کی ہوا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ کسی کمسن لڑکی سے وہ آواز آج ایک نسوانی آواز بن گئی تھی ۔
وہ کون تھی۔۔۔۔۔۔؟
اس کا نام کیسے جانتی تھی۔۔۔۔۔۔؟
اسے کیوں پکارتی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کے ساتھ اس کا کیا رشتہ تھا۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ اس سے باہر آنے کی اجازت کیوں مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔؟
وہ کہاں تھی۔۔۔۔۔۔؟
کیا وہ کہیں قید تھی۔۔۔۔۔؟
شہریار کچھ نہیں جانتا تھا ۔اسے پتہ تھا تو بس اتنا کہ اس کی ماں نے اس بارے میں اس سے کوئی بھی سوال پوچھنے سے منع کیا ہے اسے اپنی قسم دی ہے کہ وہ کبھی بھی اس بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھے گا اور نہ ہی کبھی کسی کو کچھ بتائے گا ۔
شہریارنے اس بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا

Mirh@_Ch
 

بچپن میں ہی اسے اپنے ملک اور اپنےاپنوں سے دور کینیڈا آنا پڑا ۔
شاید وہ آٹھ سال کا تھا جب یہاں آیا اور تب سے بس یہی تھا بالکل تنہا ۔
اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔اس نے زندگی میں ایسی کوئی رات نہیں کاٹی تھی جب اس نے یہ آواز نہ سنی ہو اسے عجیب سی نفرت تھی اس خوبصورت آواز سے ۔جس نے اس کی زندگی کےہر پل کا سکون چین کر رکھا تھا ۔
وہ اٹھ کر واشروم میں آیا ۔ اس نے منہ دھونے کے لئے نل کھولا ہی تھا کہ آوازیں ایک بار پھر سے آنے لگی۔
اس نے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور اپنا جیکٹ اٹھا کر باہر نکل آیا ۔
ہر روز کی طرح آج بھی اس کا ارادہ کلب جانے کا تھا ۔ شاید شور شرابے میں کہیں یہ آواز دب جائیں وہ اکثر راتیں اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے کلب جایا کرتا تھا ۔
لیکن پھر بھی آوازیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔

Mirh@_Ch
 

عشق
#پہلی_قسط
💕
شہریار میں آجاؤں ۔۔۔۔۔۔۔؟
شہریار مجھے بلا لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہریار مجھے اجازت دیں ۔۔۔۔۔۔۔
شہریار مجھے باہر بلالیں۔ ۔۔۔۔۔۔
شہریار میں باہر آجاؤں۔ ۔۔۔۔۔۔۔؟
ہر ایک پکار کے ساتھ وہ کروٹ بدل رہا تھا ۔
لیکن یہ آواز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی ۔آج سے نہیں بلکہ برسوں سے یہ آواز پل پل اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔
آج سارا دن ٹف روٹین کی وجہ سے وہ بہت تھک گیا تھا اس وقت اسے آرام کی شدید ضرورت تھی ۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی کہ ایک بار پھر سے ان آوازوں نے اسے بے بس کردیا ۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور کمرے کی لائٹ اون کی ۔
اب اسے ان آوازوں سے ڈر نہیں لگتا تھا اسے عادت ہوچکی تھی ۔
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آوازیں اسے کب سے آرہی ہیں ۔
جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ زندگی کی کسی بھی رات پرسکون ہو کر نہیں سویا تھا

Mirh@_Ch
 

*🌱مُخْـــتَصَـر پُــر اَثَـــر🌱*
جب تم *سکـون* کی کمی
*محسـوس* کرو تو *تـوبہ*
کرو کیونکہ *انسـان* کے
*گنـاہ* اسے *بـے چیـن* رکھتـے ہیں
*🍂اِرشَــــاد نُـــورِی🍂*

Mirh@_Ch
 

🍃💞 ﺧﻮﺑﺼـــــــﻮﺭﺕ ﻣـــــــﺮﺩ: 💞🌿
🍃💞 ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﺮﺩ ﻭﮦ ﮬﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﻄــﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﻣﻌـــــــﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ .
🌿💞 ﺟﻮ ﻭﺣﺸــﺖ ﮐﮯ ﮔﮭـــــــﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮬﻮ ﮐﺮ ﻋـــــــﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺩﮬﺠﯿﺎﮞ نہیں ﺍُﮌﺍ ﺩﯾﺘﺎ .
🌿💞 ﺟﻮ ﺑﻦ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﻋـﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻣﺤـﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ 💞🍃
🌿💞 ﺧﻮﺑﺼـــﻮﺭﺕ ﻣــــﺮﺩ ﻋـــــــﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯽ ﺗﭙﺶ ﺳﮯ ﺟﻼ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﻮہ ﻋــﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﻓــﻆ ﺑﻦ ﮐﮯ
🌿💞 ﺍﺳﮑﻮ ﺗﺤﻔـــﻆ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ،
🌿💞 ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﺑــﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻏﻠـﻂ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﮨــﺒﺮ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺭﮨﻨــﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ،
🌿💞 ﺍﺳﮑﯽ ﻋــﺰﺕ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧـﺪﮔﯽ ﻓـــﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﮧ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻟﺠﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،
🌿💞 ﺍﺳﮑﯽ ﮨﻨــﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧــﺪﮔﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﮯ ہمیشـــﮧ ﺍﺳﮯ ﮨﻨﺴـﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺭﮐﮭـــﺘﺎ ﮨـــے۔ 💞🌿
✍Mirha ✍ ❤️

Mirh@_Ch
 

نکالتے ہیں کوئی حل تمہاری اس فرمائش کا بھی وہ اس کے دونوں گال چومتا محبت سے بولا جبکہ اس کی بات سننے کے بعد دھڑکن نے منہ نکال کر اسے گھورا تھا ۔
ایک شیطان سنبھلتی نہیں ہے اور جناب چلے ہیں اس کی فرمائش پوری کر نے دھڑکن نے ایک بار پھر سے بلینکیٹ اپنے منہ پر اوڑ لی۔
جب کہ اس کے اس حرکت نے کردم کو قہقہ لگانے پر مجبور کر دیا۔

The End Alhamadulillah❤

Mirh@_Ch
 

میری جان یہ آپ کو بھائی کا شوق کہاں سے آگیا کل تک تو آپ کو پنکی چاہیے تھا کردم نے دل کو اپنی گود میں اٹھاتے ہوئے پوچھا
میں نے آج زمل آپی کو بولنا کہ آپ کے پاش ایسا کیا ہے جو میرے پاش نی
تو انہوں نے بولا ان کے پاش دو بھائی ہیں ۔اس نے اپنے ہاتھوں کی ننھی سی دو انگلیاں الگ کر کے دکھائیں
اور پھر زیلہ آپی (حیدر اور نور کی بیٹی ) کے پاس بھی یاسم بھائی (حیدر اور نور کا بیٹا ) ہیں
پھرتائشہ پھوپھو سائیں نے بولا بھائی تو حورم کے پاش بھی ہے بہرام تو مجھے بھائی کہنے نہیں دیتے اسی لئے آپ مجھے الگ سے سپیشل والا بھائی کر دیں
جیسٹ میرا بھائی
وہ دونوں ہاتھ ہلاتے تیز تیز بول کے اپنی بات اسے سمجھا رہی تھی
جبکہ ان دونوں کی باتوں پر بالکل غور نہ کرتے ہوئے دھڑکن سر سے پاؤں تک بلینکیٹ لپیٹ چکی تھی
کردم نے مسکرا کر اسے دیکھا

Mirh@_Ch
 

وہ تو نہ جانے کیسے تمہیں اپنے بیٹے کا خیال آیا اور میری بیٹی اس دنیا میں آئی اب وہ حوریہ کو چھوڑ کر حورم کی طرف متوجہ ہو چکا تھا
جو باپ کی آواز سننے کے بعد جاگ چکی تھی ۔اب حوریہ کو پتا تھا ان دونوں باپ بیٹی کی یہ میٹنگ جلدی ختم نہیں ہونے والی اسی لیے وہ آہستہ سے ان کے قریب سے اٹھ کر باہر چلی گئی اس سے اماں سائیں کو بی پی کی میڈیسن دینی تھی

دل تم سو رہی ہو یا میں جنگل سے شیر کو بلاؤں دھڑکن نے سے ڈراتے ہوئے کہا
آپ سیر کو بلا لو میرا پنکی اس کو کھا جائے گا ۔وہ اپنے بھالو کے دونوں ہاتھ آگے کرتے ہوئے دھڑکن کو ڈراتے ہوئے بولی
جب کردم کمرے میں داخل ہوا ۔
بابا مجھے بھائی چاہیے کردم کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ بیڈ پر اٹھ کر دونوں بازو کھول چکی تھی۔
جبکہ اس کے بات سن کر دھڑکن آںکھیں نکالیں اسے دیکھنے لگی

Mirh@_Ch
 


اس نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ حورم کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی یہ جاننے کے باوجود بھی کے وہ مقدم کے بغیر نہیں سوتی
وہ آہستہ سے اس کے قریب آیا اور اس کی گود میں سے حورم کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھا
دونوں بچے بہت ضدی ہو گئے ہیں ایک وہ ہے جو وہاں بیٹھا اپنی ضد منواتا ہے اور یہ میڈم جو آپ کے بغیر سوتی بھی نہیں ۔
حوریہ اس کے قریب سے اٹھ کر اپنی سائیڈ جانے لگی جب مقدم نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا
تمہیں کیوں اتنی جلن ہو رہی ہے اب میرے بچے ہیں مجھ پر ہی جائیں گے ۔
دوتو سنبھالے نہیں جارہے یہ چلیں ہیں جناب تیسرے کی تیاری کرنے۔
حوریہ نے اس کے لبوں پے ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے دور کیا

Mirh@_Ch
 

جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہرام کے دل میں دل کے جذبات بڑھتے جارہے تھے
وہی دل کے اندر اس کا خوف وڈر بیٹھتا چلا جا رہا تھا
آج کردم گھر آیا اس کے ہاتھ میں دل کا فیورٹ بالو پنکی تھا کیسے دیکھتے ہی وہ ناچنے لگی۔
ہمیشہ کی طرح دل کے ساتھ لاڈ کرتے ہوئے وہ فون پر بہرام اور دل کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو جان چکا تھا بہرام جب بھی فون کرتا تھوڑی دیر کے لئے حوریہ سے بات کرتا اور اس کے بعد وہ ہوتا اور اس کی دل ۔
اس سب سے کردم کو کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ تو خوش تھا آنے والے حالات سے لیکن بہرام کی ضد اور جنون مقدم کو پریشان کر دیتا تھا
لیکن دادا سائیں ہمیشہ اس کی یہ ساری باتیں مقدم پر گیا ہے کہہ کر ٹال دیتے ۔

Mirh@_Ch
 

حوریہ کو تو لگ رہا تھا کہ بہرام اکیلا ہے اس لیے وہ دل سے بہت زیادہ اٹیچ ہے لیکن حورم کے دو ماہ کے ہو جانے کے باوجود بھی بہرام کی ساری توجہ دل پر تھی یہ نہیں تھا کہ وہ حورم سے محبت نہیں کرتا تھا وہ اپنی بہن کو بے تحاشہ چاہتا تھا لیکن دل کے ساتھ اس کے الگ ہی وابستگی تھی
اور مقدم اور کردم کو اصل جھٹکا تب لگا تھا جب بہرام کے غصے سے ڈر کر دل اسے لالہ کہہ کر پکارنا چھوڑ چکی تھی بہرام کی ضد اور دل کے ساتھ سختی نے ہی مقدم کو بہرام کو دوسرے ملک بھیجنے پر مجبور کر دیا
اس فیصلے پر حوریہ بہت دن اس سے ناراض رہی لیکن پھر اسی میں ہی ان کی بہتری سمجھ کر خاموش ہوگئی
لیکن بہرام کے جانے کے بعد بھی اس کا ڈر دل کے اندر بنا رہا۔بہرام جس طرح سے کہتا تھا وہ ایسا ہی کرتی تھی بہرام کی مرضی کے خلاف کچھ بھی کر کے اسے غصہ دلانا دل کے بس سے باہر تھا

Mirh@_Ch
 

بس بہرام بہت ہوگیا تمہاری بدتمیز دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں
میں نے تمہیں آخری بار بار واڑن کیا تھا کہ اگر اب مجھے تمہاری شکایت ملی تو میں تمہیں یہاں سے ہمیشہ کے لئے لندن بھیج دوں گا ۔مقدم نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے چلا جاؤں گا لیکن دل کو بھی میرے ساتھ بھیجے وہ بے فکری سے بولا
کردم کی گود میں بیٹھی دل فیڈر سے اپنا دودھ پی رہی تھی چار سال کے ہو جانے کے باوجود بھی وہ فیڈر سےہی دودھ پیتی تھی۔
کچھ دھڑکن سے ضدکا اثر تھا تو کچھ کر دم کے بےجا لاڈکا ۔لیکن سچ یہی تھا کہ دل میں پورے خاندان کی جان بسی تھی۔
بہرام کے دل کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اٹیچمنٹ نے ہی مقدم کو دوسرے بچے پر فورس کیا تھا
لیکن حورم کے دنیا میں آجانے کے بعد بھی وہ بہرام کی توجہ دل سے ہٹا نہیں پائے تھے

Mirh@_Ch
 

یہ آپ کے بس کی بات نہیں ٹیچر نے ایک نظر زمل کو دیکھتے ہوئے کہا
ہاں تو آپ ہی سمجھائے یہ آپ کا ہی کام ہے میں تو بس چیک کر رہی تھی کہ میرے بھائیوں کو کچھ آتا بھی ہے یا نہیں زمل نے اپنے دائیں بائیں کھرے شازم جنید خان اور شازل جنید خان کو دیکھتے ہوئے کہا
وہ دونوں جڑواں تھے اور اس سے2سال چھوٹے تھے
لیکن زمل اپنے برے ہونے کا فرض خوب اچھے سے نبھاتی تھی خود وہ پڑھائئ میں اچھی ہو یا نہ ہو لیکن اپنے بھائیوں پر بڑا ہونے کا روعب ضرور جماتی تھی
خیر ٹیچر میں جارہی ہوں اپنی کلاس میں مجھے میرا سامان پیک کرنا ہے بابا آنے والے ہوں گے
اور تم دونوں جلدی سے اپنی اپنی بیگ پیک کرو زمل ان سے کہتی کلاس سے باہر نکل گئی
ٹیچر نے ایک نظر بچوں کی طرف دیکھا جن کی آنکھوں میں صاف پڑھ سکتی تھی کہ ان کی زمل آپی غلط ہو کر بھی کبھی غلط نہیں ہو سکتی

Mirh@_Ch
 

یعنی کہ آج پھر بابا سائیں کی ڈانٹ کھانی ہوگی ٹیچر کو گھورتے ہوئے سوچ کر آگے بڑھ گیا ۔

ٹیچر کیا میں اندر آ سکتی ہوں وہ دروازے پر کھڑی معصومیت سے پوچھ رہی تھی ٹیچر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سر کے اشارے سے اسے اندر بلایا
زمل جنید خان یہ جو سوال آپ نے اپنے بھائیوں کو سمجھآئے ہیں یہ غلط ہیں اور جب میں سمجھا رہی ہوں تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ذمل آپی نے جو سمجھایا ہے وہی صحیح ہے اب ذرا آپ ہی انہیں بتائیں کہ یہ سوال آپ نے غلط سمجائے ہیں اور مجھ سے ٹھیک طریقے سے سمجھے
ٹیچر نے ایک نظر زمل کو دیکھا اور پھر قریب کھڑے شازل اور شازم کو
لیکن بابا تو کہتے ہیں کہ زمل جنید خان کا بھی غلط نہیں ہو سکتی ۔اس سے پہلے کہ ٹیچر شازل اور شازم کو سمجھآتی ہے زمل خود بول اٹھی
لیکن آپ یہاں ہیں غلط زمل اور اب سے آپ کو یہ سوال آپ سے نہیں بلکہ مجھ سے سمجھنےہوںگے

Mirh@_Ch
 

بہرام بدتمیزی سے بولا ۔اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ایک سیکنڈ کے لئے ٹیچر بھی سہم سی گئی ۔
وہ نویں کلاس کا بچہ نرسری کلاس کی اس بچی کے لیے کس حد تک پوزیسو تھا یہ پورا اسکول جانتا تھا
چلو دل بہرام نے دل کا ننھا سا ہاتھ تھاما اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آیا
میں نہیں جاؤں گی آپ کے ساتھ ٹیچر کو مالا اب وہ ماما بابا سے سکایت لگائیں گی ۔اور پھر مجھے بہت زور سے داٹ پڑے گی وہ اپنا ہاتھ بہرام کے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے بولی
اور اگر تم میرے ساتھ نہیں آؤ گی تو چاکلیٹ کون کھائے گا بہرام نے چاکلیٹ اسکے سامنے کرتے ہوئے کہا جس سے دل کے منہ میں پانی آگیا
اور اگلے ہی سکینڈ وہ بہرام کا ہاتھ تھام چکی تھی۔
بہرام نے مسکراتے ہوئے اسے اپنی گود میں اٹھایا اور ایک نظر پلٹ کر کلاس روم کی طرف دیکھا جہاں ٹیچر اب بھی غصے سے اسے گھور رہی تھی

Mirh@_Ch
 

تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تم روز ہوم ورک نہ کر کے آؤ ٹیچر نے کاپی پر نوٹ لکھ دیتے ہوئے کردم اور دھڑکن کو سکول بلایا
جب کہ دل اپنا معصوم سا ہاتھ آگے کیے ہوئے دونوں آنکھیں زور سے بند کئے کھڑی تھی
ٹیچر نےآہستہ سے لکڑی کا فٹ اس کے ہاتھ میں مارا یہ سزا تھی کہ دوبارہ یہ حرکت نہ کرے
لیکن ٹیچر کو دل پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے بہرام دیکھ چکا تھا
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری دل پہ ہاتھ اٹھانے کی وہ جلدی سے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے ٹیچر کو دھکا مار کے پیچھے کر چکا تھا
بہرام یہ کیا بدتمیزی ہے تم دن با دن بدتمیز ہوتے جا رہے ہو اب اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت میں اسکول سے نکال دوں گی ٹیچر نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا جب کہ ٹیچر ٹیبل پر رکھا ڈسٹر اٹھا کر بہرام نے ٹیچر کے سر پر دے مارا
اور اگر تم نے آئندہ دل پہ ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا ۔

Mirh@_Ch
 

جب کہ بچی کے رونے میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ دھڑکن کے رونے میں بھی شدت آ رہی تھی اور کردم ایک طرف اسے اور دوسری طرف اپنی معصوم بچی کو چپ کروا رہا تھا ۔
کردم نے یہ سوچا تھا کہ جب تک دھڑکن میں میچیورٹی نہیں آ جاتی جب تک وہ اپنی اولاد کے بارے میں نہیں سوچے گا ۔
اور جب دھڑکن اسے میچیور لگنے لگی اپنی بچی کے دنیا میں آنے کے بعد اسے دھڑکن پھر سے ایک بچی لگنے لگی جب بھی دل روتی وہ بھی اس کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی اور بیچارا کردم ان کو چپ کرواتے ہوئے ہلکان ہوتا

چارسال بعد
تمہارا ہوم ورک کہاں ہے دل ٹیچر نے غصے سے پوچھا
ماما نے بید میں نی دالا(ماما نے بیگ میں نہیں ڈالا )
دل معصومیت سے منہ بنا کر بولی
تو تم خود ڈال دیتی کوئی مشکل کام تھوڑی ہے نکالو ہاتھ اپنا اگر اس گاؤں کے سرپنچ کی بیٹی ہو

Mirh@_Ch
 

وقت کے حوالے کردیا جائے وہ خود ہی اپنا صحیح اور غلط سمجھ جائیں گے ۔

آٹھ سال بعد
کردم سائیں دیکھیں نہ یہ چپ نہیں ہورہی دھڑکن نے روتے ہوئے کمرے کے اندر آتے کردم کو دیکھ کر کہا جبکہ اپنے کندھے سے لگی بچی کو مسلسل بہلاتے ہوئے وہ خود زاروقطار رو رہی تھی
دھڑکن تم خود روتی رہو گی تو یہ کیسے چپ ہو گئی کردم نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے بچی لی
میں نے چپ ہو کر بھی اس کو چپ کرانا چاہا لیکن یہ چپ نہیں ہو رہی پلیز اسے کہیں نہ چپ ہو جائے دھڑکن ایک بار پھر سے روتے ہوئے بولی
دیکھیں نہ کردم سائیں یہ اور زیادہ رونے لگی ہے بچی کو روتا دیکھ کر دھڑکن کو اور زیادہ رونا آنے لگا ۔
کردم نے بچی کو ایک کندھے پر اٹھاتے ہوئے دھڑکن کو اپنے دوسرے کندھے کے ساتھ لگایا
دھڑکن یہ بچی ہے روے گی ہمیں اسے چپ کروانا ہوگا وہ اس کی پیٹھ سہلاتا آہستہ آہستہ بول رہا تھا

Mirh@_Ch
 

جی داداسائیں میں بھی جنید کی بات سے بالکل ایگری کرتا ہوں بچپن کے رشتے صرف دوریاں پیدا کرتے ہیں بچوں میں بھی اور بڑوں میں بھی ۔بہرام بھی اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے گا فی الحال اسے وقت پر چھوڑ دیجئے اگر ہم بچپن میں ہی ان کے ہاتھوں میں انگوٹھیاں پہنا کر ان پر یہ فیصلہ تھوپ دیں گے کہ تم اس کی منگیتر ہو اسی کی رہو گی کبھی اپنی زندگی کو جی نہیں پائے گی ۔
ہمیں ہمارے بچوں کو وقت کے حوالے کر دینا چاہیے یہ خود اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کریں گے مقدم نے جنید کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو داداسائیں نے مسکراتے ہوئے انگوٹھی دوبارہ اپنی جیب میں ڈال دی
اور دونوں بچوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بہلانے لگے ۔
جبکہ دادا سائیں کے اس فیصلے پر تائشہ اور حوریہ بھی بہت خوش تھی۔
انہیں بھی نہیں لگتا تھا کہ بچوں کو زبردستی رشتے میں باندھنے سے بہتر ہے

Mirh@_Ch
 

ہائے یہ تو سچی میں بہت پیاری ہے ۔تائشہ نے دھڑکن کی گود میں دیکھتے ہوئے آہ بھر کر کہا
یہ کتنی پیاری ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے دادا سائیں نے اپنی جیب سے انگوٹھی نکالتے ہوئے حوریہ کی گود میں موجود دوماہ کے بہرام کو اٹھایا اور اس کے ننھے سے ہاتھ میں انگوٹھی تھما کر بچی کا ہاتھ تھاما لیکن اس سے پہلے کہ وہ بہرام کے ہاتھ سے انگوٹھی اسے پہناتے جنید نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا
خدا کے لئے شاہ سائیں یہ ظلم نہ کریں معاف کیجیے گا لیکن بچپن کے ان رشتوں پر یقین نہیں رکھتا میں اپنی بچی پر کسی قسم کی کوئی زور زبردستی نہیں کروں گا یہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے گی میں اس پر کوئی فیصلہ تھوپوں گانہیں
میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی آزادی اور خوشی سے جئے نہ کہ کسی ڈرو خوف کے زیر اثر ۔