آپکو اور ایمان کو گھر چھوڑ آوں۔"کچھ دیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔"وہ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"میں ایمان کو بلاتا ہوں۔"
عقیلہ بیگم کے سر ہلانے پہ وہ کمرے میں داخل ہو گیا۔
وہ ان کے قریب کرسی گھسیٹے، ان کا ہاتھ ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔
"ایمان۔۔۔!"اس کے پکارنے پر ایمان نے پلٹ کر دیکھا۔ایمان نے رشید خان کا ہاتھ بہت نرمی سے واپس رکھا اور اسکی جانب متوجہ ہوئی۔
"چلو میں تمھیں اور شاہ گل کو حویلی چھوڑ آؤں۔"
وہ قریب آ کر دھیرے سے بولا۔
"مگر یہاں بابا اکیلے۔۔۔"وہ دھیرے سے کہتی کھڑی ہوئی۔
"میں ہوں نا۔"غزنوی نے اپنی طرف اشارہ کیا۔
اور اب کہاں ہے بادشاہ خان؟"
اس نے ان سے پوچھا۔۔اسی بیچ اعظم احمد روم سے باہر آئے۔
"وہ جیل میں ہے۔۔اتنی آسانی سے چھوٹے گا نہیں۔بہت سے لوگوں کے سامنے یہ سب ہوا۔۔کچھ تو گواہی دینے کو بھی تیار ہیں اور کچھ بادشاہ خان کے ڈر سے پیچھے ہٹ گئے۔پہلے پہل تو پولیس والے اسے گرفتار ہی نہیں کر رہے تھے یہ تو میں نے انسپیکٹر سے بات کی تو کوئی ایکشن لیا گیا۔"
وہ بینچ پہ بیٹھ گئے۔
"داجی مضبوط کیس جب تک نہیں بنے گا تو اس نے تو باہر آ ہی جانا ہے۔میں خود جاؤں گا تھانے۔"
وہ مضبوط لہجے میں بولا۔
"ہاں بالکل۔۔لیکن تم فکر مت کرو، بادشاہ خان پہ ایک کیس تھوڑی نا ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے کیس ہیں اس پہ۔۔پہلے تو کوئی ڈر کے مارے گواہی نہیں دیتا تھا اب دیکھنا سارے آگے آئیں گے۔"
اعظم احمد نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"شاہ گل مغرب کا وقت قریب ہے۔چلیں
غزنوی نے عقیلہ بیگم کو سلام کیا۔
"وعلیکم السلام بیٹا۔۔جیتے رہو۔۔تم تو جاتے ہو بیٹا تو پلٹ کر فون تک نہیں کرتے۔"عقیلہ بیگم نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا مگر اس سے شکوہ کرنا بھی نہیں بُھولیں تھیں۔وہ شرمندہ سا ہو گیا۔
"آؤ بیٹا میں تمھیں اندر لے جاوں۔"
اعظم احمد نے ایمان سے کہا تو وہ اٹھی اور ان کے ساتھ سامنے والے روم میں چلی گئی۔
"یہ سب ہوا کیسے شاہ گل۔۔؟"
ایمان کے جاتے ہی غزنوی نے عقیلہ بیگم سے پوچھا۔
"بس بیٹا۔۔۔عقل کا اندھا ہے رشید خان۔۔پہلے کتنی مشکل سے اسکے چنگل سے نکالنے کے لئے تمھارے داجی نے زمینوں پہ کام سے لگایا تھا۔بس کچھ ہی دن من لگا اور پھر سے وہی سب۔۔جُواری کب جُوا گری چھورتا ہے۔۔بادشاہ خان کے ساتھ پھر سے اڈے پر جانے لگا تھا۔آج بھی صبح وہیں گیا تھا۔اللہ معاف کرے اُس کمبخت نے اس مقدس مہینے میں بھی جوے کا اڈا کھول رکھا ہے۔
چلیں۔۔"وہ اسے ساتھ لئے آگے بڑھا۔ریسپشن پہ بات کرنے کے لئے وہ آگے ہوا ہی تھا کہ دائیں جانب سے آتے اعظم احمد نے اسے پکارا تو وہ وہیں رک گیا۔
"السلام علیکم داجی۔۔! بابا کیسے ہیں؟"
اُس سے پہلے ایمان ان کی طرف بڑھی۔
"پریشانی کی بات نہیں ہے بیٹا۔۔رشید خان اب بہتر ہے۔
بس ابھی دواوں کے زیر اثر سو رہا ہے۔آو میں تمھیں لے چلوں۔"وہ اس سے کہتے ہوئے غزنوی سے بغلگیر ہوئے اور پھر ان دونوں کو ساتھ لئے آگے بڑھے۔دائیں طرف مڑنے پر ایمان کو عقیلہ بیگم بینچ پہ بیٹھی دکھائی دیں۔وہ تیز قدموں سے چلتی ان کے پاس آئی اور ان کے سینے سے لگ گئی۔
"نا بچے۔۔۔اللہ نے اپنا کرم کیا ہے۔۔اللہ کے حضور شکرانے کے نوافل ادا کرو۔۔تمھارے بابا کو اللہ نے دوسری زندگی دی ہے۔"
وہ اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولیں۔وہ آنسو پونچھتی ان سے الگ ہوئی۔
"السلام علیکم شاہ گل۔۔!!"
غزنوی نے ان سے پوچھتے ہوئے چوکیدار کو جانے کا اشارہ کیا جو اسکا منتظر کھڑا تھا۔وہ اسکا اشارہ پاتے ہی چلا گیا۔
"وعلیکم السلام۔۔غزنوی ہم یہاں ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں ہیں۔تم گل شیر سے کہو وہ لے آئے گا تم لوگوں کو، اسے راستہ معلوم ہے۔"اعظم احمد کو معلوم تھا کہ وہ راستہ سمجھ نہیں پائے گا اس لئے اسے گل شیر کو ساتھ لانے کو کہا۔
"جی۔۔۔کیا شاہ گل بھی وہیں ہیں آپ کے پاس؟"
غزنوی نے عقیلہ بیگم کی بابت پوچھا۔
"ہاں بیٹا وہ یہیں ہیں۔۔آپریشن ہو گیا ہے لیکن رشید خان ابھی بےہوش ہے لیکن ڈاکٹر اس کی حالت اب خطرے سے باہر بتا رہے ہیں۔"اعظم احمد نے اس کے پوچھنے سے پہلے بتا دیا۔
"ٹھیک ہے داجی۔۔۔ہم آ رہے ہیں۔"اس نے موبائل ڈیش بورڈ پہ رکھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
"آپریشن ہو گیا ہے۔۔انکل ابھی بےہوش ہیں مگر خطرے سے باہر ہیں۔"
جب وہ حویلی پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ان کی گاڑی تیزی سے حویلی کا گیٹ پار کرتی گیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر رک گئی تھی۔
"مجھے ہاسپٹل جانا ہے۔۔آپ مجھے یہاں کیوں لے آئے ہیں؟"
ایمان نے اسکی جانب دیکھا۔ان کے رکتے ہی چوکیدار دوڑتا ہوا ان کے پاس آیا تھا۔
"مجھے نہیں معلوم وہ کون سے ہاسپٹل میں ہیں۔راستے میں بھی میں فون کرتا رہا ہوں داجی کو، مگر وہ فون نہیں ریسیو کر رہے ہیں۔یہاں پوچھ لیتے ہیں۔"
غزنوی نے اس سے کہا اور پھر چوکیدار کی طرف متوجہ ہوا۔
"خلیل خان۔۔۔داجی۔۔۔۔"ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ ڈیش بورڈ پہ رکھا اسکا موبائل بجنے لگا۔اس نے فون اٹھا کر دیکھا تو اعظم احمد کا نمبر دیکھکر کال ریسیو کی۔
"جی داجی۔۔۔!! السلام و علیکم۔۔۔ہم پہنچ گئے ہیں۔کون سے ہاسپٹل میں ہیں آپ لوگ۔۔؟"
وہ خاموشی سے اٹھی، الماری سے اپنے کپڑے لئے اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔غزنوی نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا اور کمیل کو کال کر کے اسے سارے بات بتائی۔
"یار کچھ پتہ نہیں۔۔۔کتنے دن لگ جائیں۔۔ویسے تو سہیل صاحب ہیں مگر ایک آدھ چکر لگا لینا تم بھی۔"
اس نے ایک ہاتھ سے بال سنوارتے ہوئے کہا۔
"فکر نہ کرو۔۔۔میں دیکھ لوں گا۔"دوسری جانب سے کمیل نے کہا۔
"تھینک یو یار۔۔"اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے موبائل جیب میں رکھ دیا۔اسی دوران ایمان بھی واش روم سے باہر آئی تھی۔اسے باہر آتے دیکھ کر غزنوی سوٹ کیس اٹھا کر باہر نکل گیا۔وہ بھی اسکے پیچھے آئی تھی۔ اسکے بیٹھتے ہی غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔گل خان گیٹ کھول چکا تھا۔اگلے چند لمحوں میں گاڑی ہوا سے باتیں کرتی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ _______________
یہ کہہ کر اس نے موبائل ٹیبل پہ رکھا اور ایمان کے پاس بیٹھ گیا جو چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
"ایمان حوصلہ کرو۔۔"اس نے ایمان کے چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔۔اسکا آنسوؤں سے تر سرخ چہرہ اسکے سامنے تھا۔
"اللہ نے چاہا تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔چلو شاباش آنسو پونچھو اور کچھ سامان رکھو ہم ابھی جائیں گے۔"
غزنوی نے اسکی پلکوں سے ٹوٹتے موتی اپنی پوروں سے چن لیے۔۔وہ فوراً اٹھی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔غزنوی بھی گل خان سے بات کرنے اٹھ کھڑا ہوا۔۔پہلے اس نے شاہدہ کو اپنے جانے کا بتایا اور پھر گل خان سے گاڑی نکالنے کو کہا۔
اسکے بعد وہ واپس کمرے میں آیا تو ایمان سوٹ کیس تیار کر چکی تھی۔
"تم چینج کر لو۔۔۔"غزنوی نے اسکے ملگجے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔۔
عقیلہ بیگم نے تفصیل بتانے کے ساتھ ساتھ اسے اعظم احمد کا پیغام بھی دے دیا۔
"جی میں لے جاتا ہوں۔"وہ دل میں آتے مزید سوال ترک کرتے ہوئے بولا۔
"ایمان کو حوصلہ دو۔۔اس کڑے وقت میں تمھارا ساتھ بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ ایک واحد رشتہ ہی رہ گیا اسکے پاس۔۔اللہ اپنا رحم کرے۔۔آمین۔۔!!"
عقیلہ بیگم ایمان کا دکھ اپنے دل پہ محسوس کر رہی تھیں۔
"آمین۔۔!!"غزنوی نے دھیرے سے کہا۔
"تمھارے داجی تھوڑی دیر میں نکل رہے ہیں۔۔اچھا اللہ حافظ۔۔!"عقیلہ بیگم نے الوادعی کلمات کہے۔
"شاہ گل۔۔!! کیا آپ بھی جا رہی ہیں؟"
غزنوی نے کچھ سوچ کر پوچھا۔
"ہاں بیٹا۔۔۔تمھارے داجی مجھے بھی چلنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔"عقیلہ بیگم نے گہری سانس خارج کی۔
"جی۔۔یہی مناسب رہے گا۔۔ہم بھی نکلتے ہیں۔۔اللہ حافظ۔۔!"
بابا۔۔۔۔!!"ایمان نے باپ کو پکارتے ہوئے بے طرح رو دی۔
"بیٹا یہاں سب ٹھیک ہے۔۔لیکن ایمان کے والد کو گولی لگی ہے۔ابھی کچھ دیر پہلے تمھارے داجی کو گاوں سے فون آیا تھا۔۔۔وہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔"
عقیلہ بیگم نے بہت دکھ سے بتایا۔۔ایمان کے رونے کی آواز ان کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھی۔
"اوہ۔۔!! کب ہوا یہ اور کس نے۔۔؟"
غزنوی نے ایمان کیطرف دیکھا جو روئے جا رہی تھی۔
"جس نے بھی فون کیا تھا اس نے بتایا کہ رشید خان کا پھر سے بادشاہ خان کے اڈے پر آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔بادشاہ خان کو ہی لوگوں نے دیکھا گولی چلاتے ہوئے۔باقی تفصیل تو وہاں جا کر ہی معلوم ہو گی۔تمھارے داجی بتا رہے تھے کہ رشید خان کی حالت کافی تشویشناک ہے۔تم ایمان کو لے جاؤ گاؤں۔۔اس کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔اگر تم فارغ نہیں ہو تو اسے گل خان کے ساتھ بھیج دو۔"
اور آنکھوں میں تیزی سے پانی جمع ہونے لگا تھا۔ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور خاموش لب۔۔۔اسے لگا وہ ابھی گر جائے گی۔وہ صوفے کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے بیٹھ گئی۔۔بھل بھل بہتے آنسوؤں سے اسکا چہرہ بھیگتا جا رہا تھا۔"کیا ہوا ایمان؟"وہ قریب آیا۔۔مگر وہ گم سم سی اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔کسی انہونی کا احساس غزنوی کی رگ و پے میں سرایت کر گیا۔اس نے فوراً اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر کان سے لگایا۔
"السلام و علیکم شاہ گل۔۔۔کیا ہوا ہے؟؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟"
غزنوی کی نظریں خاموش آنسو بہاتی ایمان پہ تھیں۔
"وعلیکم السلام۔۔بیٹا۔۔۔!! ایمان ٹھیک ہے؟"
عقیلہ بیگم نے اس سے ایمان کا پوچھا۔۔ان کے لہجے میں پریشانی تھی۔"وہ تو سُدھ بُدھ کھوئے بیٹھی ہے۔۔آپ بتائیں تو صحیح، آخر ہوا کیا ہے؟"
السلام وعلیکم شاہ گل۔۔!! کیسی ہیں آپ؟"
ایمان فون کان سے لگائے لاونج میں آئی۔غزنوی بھی وہیں صوفے پہ آنکھیں بند کیے محو استراحت تھا۔ایمان کی آواز سن کر آنکھیں کھول کر ایک نظر اسکی جانب دیکھا اور پھر دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔آج سنڈے تھا تو وہ گھر پہ ہی تھا۔
"وعلیکم السلام۔۔!! الحمداللہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم سناؤ۔۔"شاہ گل نے اس سے پوچھا تھا۔
"یہاں سب ٹھیک ہے۔۔شاہ گل آپ مصطفیٰ بھائی کو کب بھیجیں گی مجھے لینے۔"
وہ کنکھیوں سے غزنوی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔وہ جانتی تھی کہ اسکےکان اسی کی جانب لگے ہیں۔
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں شاہ گل۔۔کب ہوا یہ۔۔۔اور بابا۔۔بابا ٹھیک تو ہیں نا؟"اسکے سوال کے جواب میں شاہ گل نے اسے جو بتایا وہ سن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔غزنوی نے پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ایمان کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی
بہت شکریہ یار۔۔۔میں ہمیشہ تمھارا احسان مند رہوں گا۔"
احمد اس سے بغلگیر ہوا۔
"تم مجھے شرمندہ کر رہے ہو۔"
غزنوی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ مسکرا دیا۔
"چلیں اماں۔۔۔۔"
احمد نے بلقیس بیگم سے کہا تو وہ سر ہلا کر ایمان کے پاس آئیں۔
"اپنا اور غزنوی کا خیال رکھنا۔۔میں آتی رہوں گی تمھارے پاس۔۔۔"
وہ اس سے ملتے ہوئے بولیں۔اس نے سر اثبات میں ہلایا۔۔
"اچھا بچو۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔"
بلقیس بیگم نے الوادعی کلمات ادا کرتے ہوئے احمد کی سنگت میں قدم بڑھایا۔غزنوی اور رقیہ دونوں ان کے ساتھ گیٹ تک آئے تھے۔غزنوی ان کے ساتھ باہر چلا گیا جبکہ وہ وہیں سے پلٹ آئی
بس اماں۔۔۔چلیں آپ میرے ساتھ چلیں گھر۔۔"
وہ انہیں خود سے الگ کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بلقیس بیگم اور رقیہ بھی اٹھ گئیں۔
"یار اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔ابھی تو آئے ہو۔"
غزنوی نے قریب آتے ہوئے کہا۔
"نہیں یار۔۔۔تمھارا اور بھابھی کا بہت شکریہ کہ تم لوگوں نے اماں کا اتنا خیال رکھا۔"
احمد نے تشکر بھری نظروں سے ایمان اور غزنوی کو دیکھا۔
"کیس باتیں کرتے ہو یار۔۔خالہ میری ماں کی جگہ پر ہیں اور رقیہ بہن ہے۔۔"
غزنوی نے بلقیس بیگم کیطرف دیکھا تو وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتیں م
میرا لال۔۔۔میرا بچہ۔۔۔"
وہ روتے ہوئے احمد سے لپٹ گئیں۔
"ارے اماں۔۔۔۔روتے نہیں ہیں۔۔میں آ گیا ہوں نا۔۔اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
احمد انہیں ساتھ لپٹائے لپٹائے صوفے تک لے آیا۔رقیہ اور ایمان بھی آواز سن کر باہر آ گئیں تھیں۔رقیہ تو بھائی کو دیکھ کر خوشی سے اسکی طرف بڑھی۔بلقیس بیگم بیٹے کے سینے سے لگیں روئے جا رہی تھیں۔انہیں اسطرح روتے دیکھ کر ایمان کی آنکھیں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔احمد نے بلقیس بیگم کے آنسو پونچھے اور انہیں صوفے پہ بٹھایا۔
"السلام و علیکم بھائی۔۔!!"
رقیہ آنکھوں میں آنسو لئے احمد کے قریب آئی۔اس نے اسے ساتھ لگایا۔
"ارے اماں بس بھی کر دیں۔۔۔آپ اسطرح روئیں گی تو میں واپس چلا جاؤں گا۔"
ایمان بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
"وہ کہتا ہے شاہدہ جب تُو بولتی ہے تو لگتا ہے جیسے ڈھول بج رہا ہو۔"
وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔جبکہ وہ دونوں اپنی ہنسی پہ کنٹرول نہ رکھ پائیں۔
"ہا باجی۔۔۔"
شاہدہ بیچاری نروٹھے انداز میں کہتی دونوں کے ہنسنے کی وجہ سوچنے لگی۔
__________________________________
"خالہ دیکھیئے تو کون ملنے آیا ہے آپ سے۔۔؟"
وہ ابھی اپنے کمرے سے لاؤنج میں آ کر بیٹھی ہی تھیں کہ غزنوی کی آواز پہ انہوں نے لاونج کے دروازے کی سمت دیکھا۔وہاں غزنوی کے ساتھ اپنے بیٹے احمد کو کھڑے دیکھ کر وہ فورا اسکی طرف بڑھیں۔
آہستگی سے دروازہ بند کرتی نیچے آ گئی۔رقیہ کو ڈھونڈتی وہ کچن میں چلی آئی۔شاہدہ سبزی کاٹنے کے ساتھ ساتھ نجانے کون کون سے قصے رقیہ کی سماعت میں انڈیل رہی تھی اور وہ ایک ہاتھ کان پہ رکھے اسے یوں سن رہی تھی جیسے اس سے ضروری اور کوئی کام نہ ہو۔
"کیا ہو رہا ہے بھئی؟"
اسکی آواز پہ رقیہ نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا اور مسکرا دی جبکہ شاہدہ کی زبان کو تالا لگا اور ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔
"بھابھی۔۔!! یہ شاہدہ کتنا بولتی ہے اور وہ بھی نان اسٹاپ۔۔۔"
رقیہ ہنستے ہوئے بولی۔
"ہا باجی۔۔۔۔خود ہی تو کہہ رہی تھیں۔۔۔اور اور۔۔۔۔"
شاہدہ نروٹھے انداز میں بولی تو دونوں ہنس دیں۔
"کوئی بات نہیں شاہدہ۔۔۔یہ بھی تمھیں ایسے سن رہی تھی جیسے یہ ریڈیو پہ خبریں سن رہی ہو۔"
ایمان نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
"بی بی۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے میرا شوہر کیا کہتا ہے۔۔"
"تم جا کر تو دکھاؤ۔۔۔۔میں تو باز نہیں آنے والا۔"
ڈھٹائی کی حد تھی۔
"بھاڑ میں جائیں آپ۔۔"
وہ غصے سے کہتی کال کاٹ گئی۔۔اگلے ہی پل میسج کی ٹُون بجی۔اس نے میسج کھول کر دیکھا۔
"اچھا۔۔ابھی آتا ہوں۔"
اس کا میسج پڑھ کر وہ مسکرا دی اور موبائل سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔۔اسکے بعد خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اس نے موبائل اٹھا کر اپنا پہلا میسج ٹائپ کیا۔
"وہیں رہیئے۔۔"
ایک نرم سی مسکراہٹ نے اسکے گلابی کو چھوا تھا۔۔اس نے موبائل واپس ٹیبل پہ رکھ دیا۔کچھ لمحے یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے۔
ایمان نے موبائل کی جانب دیکھا۔۔وہ انجانے میں اسکے میسج کی منتظر تھی مگر خاموشی کا دورانیہ طویل ہوتا گیا۔
وہ موبائل وہیں چھوڑ کر باہر آ گئی۔۔اس نے ساتھ والے کمرے میں جھانکا۔بلقیس بیگم تلاوت کر رہی تھیں۔
ابھی بھی وہ اسکے بار بار کال کرنے پر اکتائی بیٹھی تھی۔آج اس نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا اسے تنگ کرنے کا۔۔وہ کال کرتا، وہ اٹھاتی تو ہیلو کہہ کر فون بند کر دیتا۔تنگ آ کر وہ موبائل سائلینٹ موڈ پر کرنے ہی والی تھی کہ اسی دوران پھر سے کال آ گئی۔اس نے کال ریسیو کی۔
"آپ کو کیا تکلیف ہے۔۔۔؟؟ آفس میں کوئی کام نہیں ہے آج۔۔کیوں میری جان کھا رہے ہیں؟"
وہ غضبناک انداز میں بولی۔۔۔دوسری جانب غزنوی اپنی ہنسی نہیں روک پا رہا تھا۔
"یار میرا روزہ ہے۔۔کیوں مجھ روزے دار پہ الزام لگا رہی ہو۔"
سنجیدگی سے کہا گیا۔
"افف۔۔۔!! غزنوی اگر آپ مجھے تنگ کرنے سے باز نہ آئے تو میں واپس چلی جاؤں گی۔"
وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی۔
اس کی طنز بھری آواز کمیل کو ہوش میں لے آئی۔مطلب وہ اسکی خود پہ مرکوز نظروں سے باخبر تھی۔وہ مسکرا دیا۔
"آپ مجھے بہت دلچسپ لگیں۔"
وہ بالکل اسکے سامنے بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"اللہ حافظ۔۔!!"
وہ اسے بیٹھتا دیکھ کر تیزی سے اٹھی اور ایک پل بھی رکے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔
"ہییم۔۔۔۔لڑکی دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔"
وہ خود سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔اسکے لبوں پہ ٹھہری مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی۔
______________________________________
دن سست روی سے گزر رہے تھے۔عقیلہ بیگم سے اسکی دو تین بار بات ہوئی تھی۔اسی دوران غزنوی نے اسے موبائل فون بھی لے دیا تھا۔اب وہ جس وقت فارغ ہوتا اسے کال کر لیتا یا پھر میسجز کر کر کے اسکی ناک میں دم کیے رکھتا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain