Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

ایمان نے اس کے غصے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا۔۔
"ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔ایمان اسکے جانے کے بعد سر جھٹک کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔
پھر غزنوی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اعظم احمد اور عقیلہ بیگم کے ساتھ اعظم ولاء آ گئی۔ _______________________________________
اعظم ولاء میں سبھی اسے ان کے ساتھ دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔شمائلہ بیگم اسے بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی۔وہ ان کی جانب دیکھنے سے کترا رہی تھی کیونکہ انکی آنکھیں جو سوال اس سے پوچھ رہی تھیں انکا جواب اسکے پاس نہیں تھا۔خیرن بوا نے خلاف مزاج اسے گلے سے لگا کر اسکا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے ان کی بہن اور بھانجی کا خیال رکھا۔اس وقت وہ اپنے کمرے میں اپنے کپڑے ترتیب سے الماری میں لگا رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

جو اس نے اسکے ساتھ شروعات میں روا رکھا تھا۔
"میں آپ کے ساتھ نہیں جا رہی۔۔اسی لئے تو انہیں کہا۔"
ایمان نے اسکے ہاتھ سے شرٹ کھینچی۔
"تم میری نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو، میں تمھیں کچھ کہہ نہیں رہا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم میرے سر پہ چڑھ جاؤ۔۔میں نے کہہ دیا ہے کہ تم میرے ساتھ اسلام آباد جا رہی ہو اینڈ ڈیٹس اِٹ۔"
غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے چھوڑا۔۔وہ اسکا ٹھنڈا ٹھار رویہ دیکھ کر وہ مزید تپ گیا تھا اور اپنے غصے پہ قابو نہ رکھ سکا۔
"میں ان کے ساتھ جاؤں گی اور آپ مجھے نہیں روک سکتے۔"
وہ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے ضدی لہجے میں بولی۔
"کیا ایک بات سمجھ میں نہیں آ رہی؟"
غزنوی بغور اسکا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
"آپ پلیز جائیں یہاں سے اور مجھے میرا کام کرنے دیں۔"

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد نے اس سے کہا تو وہ سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔وہاں سے اپنے روم میں آئی اور الماری میں سے اپنے کپڑے نکال کر اپنے سفری بیگ میں ڈالنے لگی۔اپنا سامان رکھنے کے بعد اس نے سوچا کہ غزنوی کا سامان بھی پیک کر دیتی ہے اس لئے وہ غزنوی کے کپڑے الماری سے نکالنے لگی۔ابھی وہ کپڑے نکال کر سوٹ کیس میں ڈال ہی رہی تھی کہ غزنوی تن فن کرتا کمرے میں داخل ہوا۔
"تم نے یہ کیوں کہا کہ تمھیں ان کے ساتھ جانا ہے جبکہ تم میرے ساتھ جاؤ گی۔"
غزنوی نے اسکے ہاتھ سے جھٹکے سے اپنی شرٹ کھینچی جو وہ ابھی سوٹ کیس میں رکھنے جا رہی تھی۔ایمان کو معلوم تھا کہ وہ ابھی اس سے سوال و جواب کرنے آئے گا۔اس لئے وہ پرسکون دکھائی دے رہی تھی۔وہ بہت جلد اپنا ٹیمپر لوز کر لیتا ہے اوپر سے وہ مسلسل اسکی ذات کی نفی کر رہی تھی۔اسکے ساتھ وہی رویہ اپنائے ہوئے

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد نے اسے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ایمان نے شاہ گل کیطرف دیکھا جو اس کے جواب کی منتظر تھیں۔
"ٹھیک ہے داجی میں آپ لوگوں کے ساتھ جاؤں گی۔ویسے بھی میں نے تو آنا ہی تھا۔شاہ گل سے کہا تھا کہ وہ مصطفیٰ بھائی کو بھیج دیں جب انہوں نے بابا کے بارے میں بتانے کے لیے فون کیا تھا۔"
وہ شاہ گل کیطرف ہی دیکھ رہی تھی۔
"لیکن غزنوی چاہتا ہے کہ تم اسکے ساتھ اسلام آباد چلو۔۔"
شاہ گل نے ساتھ بیٹھے غزنوی کی طرف دیکھا۔
"نہیں شاہ گل میں اسلام آباد نہیں جاننا چاہتی۔"
ایمان نے انکار کیا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔تو ہم تھوڑی دیر میں نکل رہے ہیں۔۔تم اپنا سامان رکھ لو۔"

Mirh@_Ch
 

"آپ نے مجھے بلایا داجی۔۔۔!"
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ صوفے پہ بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے سر کے اشارے سے اسے اجازت دی۔وہ اندر آئی تو سائیڈ والے صوفے پہ عقیلہ بیگم اور غزنوی بیٹھے تھے۔
"جی داجی۔۔؟"
وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"بیٹا اب تمھارے والد صحت یاب ہو گئے ہیں اور اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔میں اور تمھاری شاہ گل بھی تھوڑی دیر تک واپس چلے جائیں گے۔میرا خیال ہے کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔۔۔یہ کچھ آخری روزے ہیں، ہمارے ساتھ گزار لو۔۔"
اعظم احمد نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح ایک جانب رکھتے ہوئے کہا۔
"جی داجی۔۔۔بابا مجھ سے بھی کہہ رہے تھے کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں۔میں تو سوچ رہی تھی کہ کچھ دن ان کی دیکھ بھال کے لئے انکے پاس رک جاتی ہوں مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہیں اور مجھے اپنے گھر جانا چاہیئے۔"

Mirh@_Ch
 

اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"کیا۔۔۔۔؟"
غزنوی کے لب مسکرائے تھے۔
"یہی کہ آپ سے چھٹکارا کب ملے گا۔"
اس نے غزنوی کی آنکھوں میں جھانک کر بےرحمی سے کہا۔غزنوی کے لبوں کی مسکراہٹ پل میں غائب ہوئی تھی۔ایمان اسی سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ایک پل کو بھی نگاہیں نہیں پھیریں تھی۔
"مجھ سے چھٹکارا تو تمھیں مر کر ہی ملے گا۔"
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا جبکہ ایمان اسے نگاہوں سے اوجھل ہونے تک دیکھتی رہی۔ __________________________________________

Mirh@_Ch
 

وہ اسکے اتنے صحیح اندازے پہ حیران ہوئی تھی مگر اپنے تاثرات چھپا گئی۔
"یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔"
وہ اسکے نگاہیں پھیر لینے پر اس کے سامنے آیا۔
"بتاؤ اب۔۔۔"
وہ دونوں ہاتھ اسکے کندھے پہ رکھتے ہوئے تھوڑا سا جھکا۔۔ایمان نے اسکی آنکھوں میں انتظار کو ٹھہرتے دیکھا۔
"اتنی آسانی سے تو نہیں۔۔۔"
ایمان نے دل ہی دل سوچا اور یہ سوچتے ہی اسکے دل میں شگوفے پھوٹنے لگے تھے مگر اس نے اپنے چہرے سے کچھ بھی ظاہر ہونے نہیں دیا۔
"ہاں میں آپ ہی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔"

Mirh@_Ch
 

بالکل بھی نہیں۔"
وہ اٹھ کر جانے لگی۔
"مجھ سے بھاگنا چھوڑ دو۔"
سنجیدگی میں لپٹی گھمبیر آواز ایمان کے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے پلٹ کر غزنوی کو دیکھا۔
"خوش فہمی ہے آپکی۔"
وہ مسکراہٹ روک کر بولی۔
"اچھا۔۔۔تمھیں کس نے کہا کہ مجھے خوش فہمی ہے۔۔مجھے تو پورا یقین ہے کہ تم میرے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔"
غزنوی نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
"اور بھی اہم کام ہیں میرے پاس۔"
وہ اسکے اتنے صحیح اندازے پہ حیران ہوئی تھی مگر اپنے تاثرات چھپا گئی۔

Mirh@_Ch
 

شاہ گل نے پھر دوبارہ اس سے غزنوی کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔لیکن کسی نہ کسی بات کو یہی پیراہن پہنا کر اس کے سامنے کر دیتی تھیں۔وہ بھی جانتی تھی کہ برف پگھلنے لگی ہے مگر وہ چاہتی تھیں کہ ایمان خود فیصلہ لے۔انہوں نے اسے آج صبح ہی بتایا تھا کہ اعظم احمد نے طلاق کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں اور یہ کہ وہ اسکے فیصلے کو عزت دینا چاہتے ہیں۔
یہ سن کر وہ خاموش رہ گئی تھی۔عقیلہ بیگم نے اسے فیصلہ کرنے کے لئے کہا تھا۔وہ تب سے سوچ رہی تھی کہ کیا کرے۔۔
اب بھی وہ اسی ایک بات کو لئے خیالوں میں گم تھی کہ کسی نے اسکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی۔
اس نے چونک کر اپنے سامنے کھڑے غزنوی کو دیکھا۔
"کیا میرے بارے میں سوچ رہی تھی؟"
وہ مسکرایا۔

Mirh@_Ch
 

عقیلہ بیگم نے اسکا چہرہ اونچا کیا۔۔وہ خاموشی سے ان کی آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھکا گئی۔
"ظہر کا وقت ہو گیا ہے میں نماز پڑھ لوں۔"
وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتیں کمرے سے نکل گئیں۔
"اتنی آسانی سے تو نہیں۔۔۔جب تک چیخ چیخ کر نہیں کہے گا تب تک تو نہیں۔"
ایمان کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی۔۔یقیناً وہ بھی غزنوی کی نگاہوں میں چھپے راز کو پا چکی تھی۔ _____________________________________________

Mirh@_Ch
 

"مگر سزا کی حقدار ہمیشہ عورت ہی ٹھہرتی ہے۔۔میں نے تو ایسا ہی دیکھا ہے شاہ گل۔"وہ شاید اس اندیکھی گرہ کو کھولنا چاہتی تھی جو اس کے دل و دماغ میں بندھی تھی۔
"ایسا تھوڑی ہے۔۔کبھی کبھی عورت بھی مرد کو سزا دیتی ہے۔۔خاموشی کی سزا۔۔"انہوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکا تو وہ ان کی بات سمجھ کر نظریں جھکا گئی۔
"میں نے کب سزا دی ہے۔"ان کا مطلب سمجھ کر وہ نروٹھے لہجے میں بولی۔
"کیا تمھیں غزنوی کے لہجے میں نرمی اپنا احساس نہیں دلاتی۔۔؟ بولو۔۔۔۔"
انہوں نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔
"اس میں بدلاؤ میں محسوس کر رہی ہوں تو یقیناً تم بھی محسوس کر رہی ہو گی۔۔اس لئے اب جب کہ وہ اپنی انا کے خول سے نکل آیا ہے تو تم بھی اس خاموشی کو توڑ دو۔۔۔"

Mirh@_Ch
 

شاہ گل۔۔۔یہ مرد کی کون سی قسم ہے۔۔کبھی باپ بن کر ظالم بن جاتا ہے تو کبھی شوہر۔۔۔تو کبھی بھائی بن کر اپنے غصے کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔۔یہ کیوں اپنی نام نہاد انا کو ہمارا خون پلاتے رہتے ہیں۔کیوں عزت عزت کہہ کر ہمارے ماتھے پہ بےعزتی کا داغ لگا دیتے ہیں۔۔کیا سکون ملتا ہے انہیں معصوم چہروں کو تاریکی کی چادر میں چھپا کر۔۔۔کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم عورتیں بھی انسان ہیں، نرم احساسات رکھنے والی مخلوق۔۔۔تیز لہجوں سے مر جانے والی۔۔۔یہ مرد کیوں ایسا کرتا ہے؟"
عقیلہ بیگم کی بات سن کر اسکے زخم ہرے ہو گئے تھے۔
"سب ایک جیسے نہیں ہوتے بیٹا۔۔۔اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔۔کہیں عورتیں سمجھنے سے قاصر ہو جاتی ہیں تو کہیں مرد سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتا۔"
وہ اسکی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے بولیں۔

Mirh@_Ch
 

"شاہ گل ان کا کیا مسئلہ تھا؟"
ایمان نے عقیلہ بیگم سے پوچھا۔۔۔وہ ابھی اور باتیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ شاید جلدی میں تھی اس لئے رکی نہیں۔
"اس کی بیٹی کی شادی کا مسئلہ ہے۔بچپن میں اپنی رضامندی سے رشتہ طے کر دیا تھا۔اب لڑکے والے منکر ہو گئے ہیں۔رشتے کی بات پورے خاندان کو پتہ تھی اس لئے اب خاندان سے کوئی بھی آگے نہیں آ رہا۔۔بیٹی ابھی کم عمر ہے مگر یہ جلد سے جلد اسکی شادی کرنا چاہتی ہے۔اسکی بہن اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگ رہی ہے مگر اسکا شوہر اس رشتے کے لئے راضی نہیں کہ شادی صرف اسکے خاندان میں ہو گی ورنہ وہ بیٹی کی شادی برادری سے باہر نہیں کرے گا۔اب یہ کوئی بات ہے بھلا۔۔وہ بھی اسی کی بہن ہے۔۔زات برادری کے چکر میں پڑ کر اتنے اچھے رشتے کو ٹھکرا رہا ہے۔"
عقیلہ بیگم نے افسوس سے کہا۔

Mirh@_Ch
 

ہم دونوں میں بڑی گہری دوستی تھی۔پھر میری شادی ساتھ والے گاؤں میں ہوگئی تو ملنا ملانا کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔تمھاری پیدائش کے بعد میں اس سے کوئی تین چار بار ہی ملی ہوں گی، پھر تمھارے باپ کیوجہ سے وہ بھی ختم ہو گیا۔"
وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولی۔اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔۔ماں کے ذکر پر ایمان کی آنکھیں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔
"تم سے ملنے تو میں کئی بار آئی تھی مگر تمھارے باپ نے ملنے ہی نہیں دیا۔"یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"اچھا شاہ گل۔۔۔اب میں چلتی ہوں۔اگر ہو سکے تو۔۔۔۔"
وہ عورت کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئی۔
"ہاں ہاں تم فکر مت کرو۔۔میں آج ہی بات کروں گی۔۔انشاءاللہ کچھ نہ کچھ حل نکل آئے گا۔"
عقیلہ بیگم نے اس تسلی بھرے الفاظ کہے تو وہ شکریہ ادا کرتی وہاں سے چلی گئی۔

Mirh@_Ch
 

"شاہ گل۔۔۔کیا میں آ جاؤں؟"
اندر داخل ہونے سے پہلے ایمان نے ان سے اجازت لینا ضروری سمجھا کیونکہ جو عورت ان کے ساتھ بیٹھی تھی وہ بہت دھیرے بات کر رہی تھی جیسے اسے کسی دوسرے کے اسکی بات سن لینے کا خدشہ ہو۔
"آ جاؤ بیٹا۔۔"عقیلہ بیگم نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر اندر آنے کی اجازت دی۔وہ عورت اب کچھ فاصلے پہ ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ایمان اس عورت کو سلام کرتی عقیلہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔وہ عورت اب مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"ماشاءاللہ۔۔۔بہت سنا تھا ایمان کے بارے میں۔۔۔آج دیکھ بھی لیا۔۔بالکل اپنی ماں جیسی ہے۔بڑے صبر والی عورت تھی اسکی ماں۔"وہ عورت ایمان کو دیکھتے ہوئے بولی۔
"آپ اماں کو جانتی ہیں؟"
اپنی ماں کے متعلق سن کر اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
"ہاں بالکل جانتی ہوں۔۔تمھاری ماں تو میری سہیلی تھی۔بیاہ کر ہمارے گھر کے قریب ہی آئی تھی۔

Mirh@_Ch
 

"روزہ تو ہے مگر۔۔۔۔۔کھانے پینے کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے جسکی چاہ کی جا سکتی ہے۔"وہ معنی خیزی سے کہتا قریب آیا۔
"شرم تو نہیں آتی روزے میں بھی۔۔۔۔"
ایمان نے آگے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا اور پلٹ کر اندر کی جانب بڑھ گئی جبکہ غزنوی کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ _______________________________________________
انہیں گاؤں آئے کافی دن ہو گئے تھے۔اعظم احمد تو جب سے آئے تھے روز کہیں نہ کہیں نکل جاتے، آج وہ زمینوں پہ گئے تھے اور اپنے ساتھ غزنوی اور رشید خان کو بھی لے گئے تھے۔ایمان اور عقیلہ بیگم حویلی میں ہی تھیں۔جب سے گاؤں والوں کو پتہ چلا تھا کہ عقیلہ بیگم بھی آئی ہیں تو روز کوئی نہ کوئی ان سے ملنے آ جاتا۔عقیلہ بیگم سب سے ہی بہت شفقت اور ملنساری سے ملتی تھیں۔
آج بھی کوئی خاتون ان سے ملنے آئی ہوئی تھی اس لئے وہ مہمان خانے میں تھیں۔

Mirh@_Ch
 

ماں سے سوال کرتی تو وہ بہلا پھسلا کر اسکا دھیان کسی اور جانب کر دیتی تھیں۔۔پھر ماں کے جانے کے بعد تو وہ اسے بھول ہی گئے تھے۔۔لیکن آج سب کچھ بدل گیا تھا۔۔جو محبت اور شفقت اسے چاہئیے تھی وہ اسے مل رہی تھی۔۔
"کیا سوچ رہی ہو بیٹا۔۔؟"
رشید خان نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے دیکھ کر پوچھا۔
"کچھ نہیں بابا۔۔۔میں آپ کے لئے کچھ کھانے کو لاؤں؟"
وہ اپنے خیالات جھٹکتی بولی۔
"نہیں۔۔۔بس تھک گیا ہوں۔۔کچھ دیر آرام کروں گا۔"
رشید خان نے اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے، شاید وہ بیٹی کے چہرے پہ پھیلتی حیرانی سے اب مانوس ہو چکا تھا۔
"ہماری طرف بھی کچھ نظر کرم ہو جائے۔۔ہم سے پوچھا جائے کہ ہمیں کیا چاہیئے؟"غزنوی جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا تھا، رشید خان کے جاتے ہی بولا۔۔انداز میں شرارت چھلک رہی تھی۔
"کیوں آپ کا روزہ نہیں ہے؟"ایمان نے اسکی طرف حیرانی سے دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

کیا کہا ڈاکٹر نے۔۔؟"وہ باپ کے سینے سے لگی پوچھ رہی تھی۔
"ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اب زخم کافی حد تک ٹھیک ہو گیا ہے۔بس ایک دو بار اور پٹی بدلوانے جانا پڑے گا۔"
رشید خان نے اس کے سر کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔وہ باپ کے رویے میں اسقدر تبدیلی دیکھکر حیران ہوتی تھی۔بچپن میں جب وہ ان کے قریب جاتی تھی تو وہ اسے دھتکار کر پرے کر دیا کرتے تھے مگر ان کے اتنے روکھے رویے کے باوجود وہ ان کے پاس جانا نہیں چھوڑتی تھی۔اس نے دیکھا تھا کہ اسکی سہیلیوں کے بابا ان سے کتنا پیار کرتے، ان کے لئے کھلونے لاتے، وہ بھی چاہتی تھی کہ جب وہ کھیل رہی ہو تو اسکے بابا آ کر اسے گود میں اٹھائیں، اسے پیار کریں۔۔مگر ایسا ہونا تو دور کی بات رشید خان اسے قریب تک آنے نہیں دیتا تھا۔وہ بارہا اپنے رویے سے جتاتا رہتا تھا کہ اسے بیٹے کی چاہ تھی اور وہ بیٹی تھی۔

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد اور بیٹی کے سامنے یہ اعتراف اسے شرمسار کر گیا کہ وہ پھر سے جوا کھیلنے لگا تھا۔انسپیکٹر صاحب نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ بادشاہ خان کو کڑی سے کڑی سزا دلوائیں گے۔
ڈاکٹرز کی بھرپور توجہ کی بدولت رشید خان تیزی سے صحت یاب ہو رہا تھا۔تین دن بعد اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔غزنوی رشید خان کو حویلی لے آیا تھا اور اب ایمان باپ کی تیمارداری میں لگی رہتی۔غزنوی بھی رشید خان کی میڈیسن کا خیال رکھتا، اسے ڈریسنگ کے لئے ہاسپٹل لے کر جاتا۔رشید خان اور غزنوی کے بیچ جو تھوڑی بہت جھجھک تھی وہ اب ختم ہو گئی تھی۔آج بھی معمول کے مطابق جب وہ رشید خان کو ڈریسنگ کروانے کے بعد واپس آیا تو ایمان وہیں لان میں ان کا انتظار کر رہی تھی۔گاڑی سے نکلتے ہوئے ان دونوں نے بھی ایمان کو دیکھ لیا تھا۔۔وہ دونوں کسی بات پہ مسکراتے ہوئے اسکی جانب آ رہے تھے۔

Mirh@_Ch
 

آپ چلے جائیں۔۔میں رک جاتی ہوں بابا کے پاس۔"
وہ جانا نہیں چاہتی تھی اس لئے پلٹ کر اپنی جگہ پہ جا بیٹھی۔
"چلو اٹھو۔۔۔افطاری کے بعد آ جانا۔۔تم تھک گئی ہو گی اور پھر وہاں شاہ گل اور داجی بھی اکیلے ہونگے۔"
غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا۔ایمان نے اسے ناراضگی بھری نظروں سے دیکھا تو اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چلنے کا اشارہ کیا۔
"جب انہیں ہوش آ جائے گا تو میں آ جاؤں گا تمھیں لینے۔"
اسکے کندھے پہ بازو پھیلائے وہ اسے لئے دروازے کی طرف کیطرف بڑھتے ہوئے بولا۔ایمان نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر ایک بار پلٹ کر رشید خان پہ ایک نظر ڈالتی باہر نکل گئی۔غزنوی اسے، عقیلہ بیگم اور اعظم احمد کو حویلی لے آیا۔مغرب کا وقت قریب تھا اس لئے وہ آرام کرنے کی بجائے کچن میں آ گئی۔اعظم احمد اور شاہ گل نے غزنوی کو بھی کچھ دیر کے لئے روک