ناولز کی دنیا سے نکل آؤ لڑکی۔۔۔ناولز کے ہیرو ہیروئن بیچارے ورائٹر کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں ورنہ حقیقت میں ایسے ہی ہوں۔۔نخریلے اور اکھڑ۔۔۔"
پرخہ کچھ سوچتے ہوئے بولی جبکہ سحرش اسے دیکھ کر رہ گئی۔ __________________________________________
ایمان نے جھٹ پٹ چائے بنائی۔پہلے تو اس نے سوچا کہ جسطرح اس نے اسے اگنور کیا تھا وہ بھی اگنور کرے مگر پھر چائے کی ٹرے شگفتہ کو دینے کی بجائے خود کمرے کی جانب آ گئی۔
دروازے میں دستک دیئے بنا وہ اندر داخل ہو گئی۔کمرے میں خاموشی تھی۔وہ پورے کمرے پہ طائرانہ نظر ڈالتی ٹیبل کیطرف آئی۔واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔وہ یقینا واش روم میں تھا۔وہ ڈریسنگ کے سامنے آئی۔ایک اچٹتی سی نظر خود پہ ڈالی۔۔ہلکے آسمانی رنگ کے پرینٹڈ سوٹ پہ کئی کئی سلوٹیں موجود تھیں۔صبح سے وہ اسی لباس میں تھی۔
پرخہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہمممم۔۔۔۔بلم تو بڑے ناراض لگ رہے ہیں۔"
سحرش نے ایمان کی طرف دیکھا۔۔انداز "اب سنبھالو" والا تھا۔ایمان ایک گہری سانس بھر کر کندھے اچکاتی چائے پینے لگی۔
"ایمان جاؤ چائے بنا کر لے جاؤ۔"
پرخہ نے ایمان کو دیکھا تو وہ کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"نجانے کب ان دونوں کے بیچ سب ٹھیک ہو گا۔"
"ہاں۔۔۔مجھے بھی انتظار ہے اس وقت کا جب یہ دونوں کسی ناول کے ہیرو اور ہیروئین کیطرح ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھ رہے ہونگے۔"
لاریب نے سحرش کی طرف دیکھا۔
"تم تو نا بس رہنے ہی دو۔"
فائقہ نے لاریب کے سر پہ ایک چپت رسید کی۔
الحمداللہ۔۔۔!! ہم سب بھی ٹھیک ہیں۔"
پرخہ آگے آئی۔
"تم لوگ آج یہاں کیوں ڈیرا جمائے ہوئے ہو۔۔"
غزنوی نے چیئر پہ بیٹھتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا۔
"کیا مطلب ہے غزنوی بھائی۔۔"
"ارے بھئی مذاق کر رہا تھا۔۔چلو تم سب اپنی چائے چائے انجوائے کرو۔۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اندر کیطرف بڑھ گیا۔
"آپی۔۔۔ذرا شگفتہ سے کہہ کر ایک کپ چائے میرے روم میں بھیج دیں۔۔"
وہ جاتے جاتے پلٹ کر پریشے سے بولا۔
منہ پہ انگلی ہونے کے باوجود وہ گنگنا رہی تھی۔۔اسکی آنکھوں میں رچی شرارت دیکھ کر ایمان نے پیر سے جوتا نکالا۔۔جسے دیکھ کر لاریب فوراً سے پیشتر دور ہٹی۔
اسی دوران گاڑی کے ہارن پہ سب کی نظریں گیٹ کی طرف اٹھیں۔گیٹ کھلتے ہی غزنوی کی گاڑی پورچ میں جا رکی۔۔سب کے ساتھ ساتھ ایمان کی نظریں بھی وہیں ٹکیں تھیں اور ساکت نظروں کیطرح اسکے دل کی دھڑکن بھی رک رک کر چل رہی تھی۔۔
ڈارک بلیو ڈریس شرٹ پہ بلیک ٹائی لگائے ہوئے تھا۔۔۔وہ گاڑی سے نکلا۔۔۔سن گلاسز اب ہاتھ میں پکڑے وہ ان سب کی طرف آ رہا تھا۔
"السلام و علیکم بھائی۔۔!!"
ملائکہ دوڑی گئی بھائی کے پاس۔۔
"کیسے ہیں بھائی۔۔؟"
ملائکہ اسکے سینے سے لگی پوچھ رہی تھی۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔تم سب ٹھیک ہو؟
غزنوی نے کنکھیوں سے ایمان کی طرف دیکھکر نگاہ پھیر لی۔وہ بھی اسی کیطرف دیکھ رہی تھی۔
ایمان نے اسکے گالوں پہ چٹکی کاٹی۔
"ویسے کیا خیال ہے آپکو چھیڑ لیا جائے۔"
ایمان نے شہادت کی انگلی اٹھا کر وارن کیا۔
پرخہ نے لاریب کو ٹوکا۔۔جس نے آج کل یہ وطیرہ اپنایا ہوا تھا کہ جہاں کہیں ایمان کو دیکھتی غزنوی کا نام لے لے کر اسکے ناک میں دم کیے رہتی۔
لاریب نے منہ پر انگلی رکھی۔
"لکھ دے کہ سانوریا کیا بیقرار ہے
انکھیوں میں بھیگے بھیگے کجرے کی دھار ہے۔۔
ہوتی نہیں صبح سے شام لکھ دے۔۔
چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔۔
حال میرے دل کا تمام لکھ دے۔۔"
اور گھر کے بزرگوں کا ارادہ تھا کہ عید کے بعد بات فائنل کی جائے گی۔
"ارے بھئی تم سب اسے کیوں چھیڑ رہی ہو؟"
ایمان ان پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"چائے کہاں ہے بہو رانی۔۔۔"
پرخہ اس کو اب اسی طرح پکارتی تھی۔
"آ رہی ہے۔۔۔"
وہ ہنسی۔
"کیسے آ رہی ہے۔۔۔خود چل کر۔۔؟"
عنادل نے غیر سنجیدگی سے کہا۔
"شگفتہ لا رہی نا۔"
پھر وہ واقعی ہی دو دن بعد آ گیا۔۔اس وقت وہ سبھی لان میں بیٹھی چائے کا انتظار کر رہی تھیں۔موسم صبح ہی سے ابر آلود تھا۔کالے بادلوں نے پورے آسمان کو ڈھک رکھا تھا اور سارا دن وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی تھی۔شمائلہ بیگم نے سب کو آج اپنے ہاں افطاری پہ انوائیٹ کیا تھا۔بڑے تو افطاری کے بعد ہال کمرے میں جمع ہو گئے تھے جبکہ وہ ساری لان میں آ گئی تھیں۔ایمان ان کے لئے چائے بنا رہی تھی۔سب سے پہلے اس نے چائے بنا کر شگفتہ کے ہاتھ ہال کمرے میں بھجوائی اور پھر ان کے لئے چائے لئے لان میں آ گئی۔وہ ساری خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔آجکل انکی باتوں کی تان عید اور عید کی شاپنگ پہ آ کر ٹوٹتی تھی۔ابھی بھی سب اپنے اپنے ڈریسز ڈسکس کر رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ فائقہ کو چھیڑنے میں مگن تھیں کیونکہ اسکا ایک بہت اچھا رشتہ آیا تھا
شمائلہ بیگم روہانسی ہو گئیں۔
"ٹھیک ہے صرف دو دن۔۔۔اللہ حافظ۔"
پھر اس نے روم سے نکلتے نکلتے شمائلہ بیگم کو کہتے سنا تھا۔
"کیا کہہ رہا تھا؟"
عقیلہ بیگم اب شمائلہ بیگم کیطرف متوجہ تھیں۔
"کہہ رہا تھا کہ پرسوں آ جائے گا۔"
شمائلہ بیگم نے فون دائیں جانب رکھا اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔عقیلہ بیگم نے بھی ان کی تقلید کی تھی جبکہ دروازے سے کان لگائے ایمان کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔
عقیلہ بیگم نے غزنوی سے بات کر کے فون شمائلہ بیگم کیطرف بڑھا دیا۔شمائلہ بیگم نے فون ان کے ہاتھ سے لے لیا اور ایک نظر دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی ایمان کو دیکھا۔وہ ٹرے ہاتھ میں لئے دھیرے دھیرے چلتی ان کے قریب آئی۔وہ دونوں بیڈ پہ آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ایمان نے ٹرے ان دونوں کے بیچ رکھ دی۔
"ایمان۔۔۔!! بیٹا تمھارے داجی آ گئے ہیں؟"
عقیلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔غزنوی کے کانوں تک بھی ان کا جملہ پہنچ گیا تھا۔
"نہیں۔۔ابھی تک نہیں آئے۔۔آپکو کچھ اور چاہیئے؟"
اس نے ان سے پوچھا اور پھر ان کے نفی میں سر ہلانے پر دروازے کیطرف بڑھ گئی۔
"کب آ رہے ہو تم۔۔۔سیدھے سیدھے دو دن میں واپس آؤ۔۔ایک تو اتنی دور جا کر بزنس شروع کرنے کی کیا تُک تھی۔۔شکل دیکھنے کو ترس گئی ہوں تمھاری اور تمھیں ماں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ماں کو ستانے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے تم نے۔"
آج بھی افطاری کے بعد جب ایمان نے اسے کال کی تو اس نے کال پک نہیں کی۔ایمان نے فون بند کر کے ڈراور میں ڈال دیا۔
پھر کچھ دیر بعد وہ عقیلہ بیگم کے لئے چائے لے کر ان کے کمرے میں آئی تو وہ غزنوی سے ہی بات کر رہی تھیں۔شمائلہ بیگم بھی وہیں موجود تھیں۔اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔
"بس اب کتنے کم دن رہ گئے ہیں۔۔اب بھی تمھیں کام کی ہی پڑی ہے۔"
عقیلہ بیگم اسکے بار بار انکار پہ ناراضگی ظاہر کرتی بولیں۔
"دو تین دن پہلے آ جاؤں گا شاہ گل۔۔ایک بہت ضروری کام نبٹا رہا ہوں۔۔جیسے ہی ختم ہو گا میں آپکے پاس ہوں گا۔"
وہ فوراً بولا۔
"لائیں شاہ گل مجھے دیں میں بات کرتی ہوں۔"
شمائلہ بیگم نے فون کیطرف ہاتھ بڑھایا۔
"ہاں یہ لو۔۔۔تمھاری ماں بات کرنا چاہ رہی ہے۔"
اب وہ دروازہ کھولے اندر جھانک رہی تھی۔۔چہرے پہ چھایا بناوٹی غصہ ان سے چھپ نہ سکا۔
"آ۔۔۔میں کہہ رہی تھی شکر ہے سب اچھے سے ہو گیا۔"
پرخہ نے چہرے پہ سنجیدگی سجائے کہا۔
"ویسے کتنی اچھی جوڑی ہے نا۔۔ایک بھولا اور دوسرا بُدھو۔۔۔"
فائقہ چٹکلہ چھوڑنے سے باز نہ رہ سکی۔۔اس کی بات سن کر کمرہ ایک بار پھر زعفران زار ہو گیا لیکن اس بار ان کے ساتھ ایمان بھی شامل تھی۔ ___________________________________________
رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا۔سبھی عبادتوں میں مشغول تھے۔ایمان نے ایک دو بار غزنوی کو کال کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس شدید ناراضگی ظاہر کر رہا تھا۔اسکی کال پک نہیں کر رہا تھا۔
ٹھیک ہے۔۔اب صبح کا بھولا جب گھر آ ہی گیا ہے تو میں اسے بھولا نہیں کہوں گی۔"
ایمان مسکراتے ہوئے بولی تو پہلے تو وہ سبھی ہنس دیں اور پھر اسکے پیچھے پڑ گئیں کہ اس نے ان کے بھائی کو بھولا کیوں کہا۔
"ارے ارے بھئی۔۔میں نے محاورہ بولا ہے۔"
وہ روہانسی ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی۔۔۔
"اتنی جلدی تم سب اپنے بھائی کی سائیڈ ہو گئیں۔۔جاؤ۔۔۔اپنے بھائی سے ہی کہنا کہ آئسکریم کھلائے تم لوگوں کو۔"
وہ دروازے کیطرف بڑھی اور اس سے پہلے کہ ان میں سے ایک بھی اسے پکڑتی وہ کمرے سے نکل گئی۔
"چلو شکر ہے۔۔لوٹ کر بُدھو گھر کو آئے۔"
پرخہ نے ان سب کی طرف دیکھا تو سبھی ایک بلند بانگ قہقہ فضا میں بلند ہوا جو باہر دروازے سے لگی ایمان تک بھی پہنچ گیا تھا۔
"کیا کہا۔۔۔؟؟"
عنادل نے کہا تو سب ہی ایمان کے سر ہو گئیں۔
"ارے بھئی روزہ ہے۔۔"
ایمان نے جان بچانی چاہی۔
"افطاری کے بعد تم ہمیں آئس کریم کھلاؤ گی۔"
ارفع جو آئس کریم کی دیوانی تھی جھٹ بولی۔۔باقی سبھی نے بھی اسکا ساتھ دیا۔
"اچھا بھئی ٹھیک ہے۔۔۔لیکن غزنوی۔۔۔۔کیا غزنوی بھی اس پلان میں تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔۔"
دل میں آئی بات وہ لبوں تک لائی۔
"نہیں۔۔۔غزنوی کو نہیں معلوم تھا۔۔ہاں لیکن وہ بھی چاہتا تھا کہ تم وہیں رک جاؤ اسکے ساتھ۔۔وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے ایمان۔۔میں نے اس آنکھوں میں تمھارے لئے عزت، پیار۔۔سب دیکھا ہے۔۔وہ اپنے پچھلے رویے پہ شرمندہ تھا اور تمھیں وہیں روک کر اپنی طرف سے دی گئی ہر تکلیف کا ازالہ کرنے کا خواہشمند تھا۔"
فائقہ نے ایمان کے چہرے کو فوکس کرتے ہوئے کہا۔
"تو کیا ہمارا مری جانا اور مری سے اسلام آباد جانا۔۔۔وہ سب ایک پلان تھا؟"
ایمان پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ سب پلاننگ تھی۔
"جی۔۔۔۔بالکل پلان تھا۔۔"
ارفع بھی میدان میں آئی۔
"یار حد ہے چالاکی کی۔۔۔تم لوگوں نے مجھے بَھنک تک نہیں لگنے دی۔"
ایمان کو اپنی بیوقوفی پہ ہنسی آنے لگی۔
"اور لڑکیوں پلان کامیاب ہونے پر ایک ٹریٹ تو ہونی چاہیئے ایمان کیطرف سے۔۔کیا خیال ہے؟"
فائقہ نے شرارتی انداز سے پہلے سحرش اور پھر فائقہ کو دیکھا۔جو اب وہی پیٹ دُکھنے والی ایکٹنگ کر کے سب کو بتا رہی تھی اور ان سب سے اپنی ہنسی روکنا محال ہو رہا تھا جبکہ ایمان ہونقوں کی طرح ان سب کے چہرے دیکھ رہی تھی۔
"ارے ہماری بہو رانی۔۔۔کچھ سمجھ آیا یا نہیں؟"
فائقہ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ایمان کے قریب آئی۔
"تو کیا وہ سب۔۔۔ڈرامہ۔۔"
ایمان نے حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"تو اور کیا۔۔ورنہ تم کس کے قابو کی تھی۔۔۔یہ میری لاجواب اداکاری ہی تھی جس نے آج ہمیں یہ دن دکھایا۔"
فائقہ نے اپنے فرضی کالر کھڑے کیے۔
"تم نے تو صرف ایکٹنگ کی تھی جبکہ پلان تو پریشے اور سحرش آپی کا تھا۔"
لاریب نے مزید پول کھولی۔
"لیکن یہ تو مانو گی نا کہ کیا زبردست ایکٹنگ کی تھی میں نے۔۔"
پھر جب شمائلہ بیگم نے سب کو بتایا تو سبھی یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ ایمان نے اپنا فیصلہ بدل لیا ہے اور اب وہ سبھی اسکے سر ہو رہی تھیں۔
"اوئے ہوئے۔۔۔یہ کرشمہ کب ہوا؟"
لاریب نے اسکے کندھے سے کندھا ٹکرایا۔
"کرشمہ ہوا نہیں ہوئی۔۔"
ملائکہ نے ہنستے ہوئے کہا۔وہ ایمان کے فیصلے سے بہت خوش تھی۔جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ ایمان نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے تو اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
"یہ کیا تم لوگ ہوا، ہوئی لگائے بیٹھے ہو۔۔ہٹو مجھے بات کرنے دو۔"
سحرش نے لاریب اور ملائکہ کو ہٹایا جو ایمان کو گھیرے بیٹھی تھیں۔
"ہمارے پلان نے آخر اپنا کمال کر ہی دیا۔"
ں۔۔اور اپنا بدلہ بھی لے لو
آخر میں وہ ہنستے ہوئے بولی۔
"شرارتی لڑکی۔۔۔اب تم میرے بیٹے سے بدلہ لو گی۔"
شمائلہ بیگم نے اسکا کان نرمی سے پکڑا۔۔
"اتنا تو میرا بھی حق بنتا ہے۔"
وہ شرارت سے بولی۔۔شمائلہ بیگم اسکے کھلے کھلے چہرے کو دیکھکر مسکرا دیں۔
"ویسے تم کہو تو یہ خوشخبری میں خود دے آؤں داجی اور شاہ گل کو۔"
شمائلہ بیگم کھڑے ہوتے ہوئے بولیں۔
"جی۔۔۔"
وہ انہیں اجازت دیتی اپنے باقی کپڑے الماری میں ہینگ کرنے لگی اور شمائلہ بیگم خوشی خوشی شاہ گل کو بتانے
ایمان نے ان کی ناراضگی ظاہر کرنے کے انداز پہ مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔شمائلہ بیگم نے فوراً اس کی جانب پلٹ کر دیکھا۔وہ اسے بےیقین نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
"سچ کہہ رہی ہوں۔۔میں یہاں آئی ہی اس لئے ہوں کہ داجی سے بات کر کے اس بات کو ختم کر دوں۔۔میں جانتی ہوں کہ ناصرف آپ بلکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ رشتہ ختم ہو۔سچ پوچھیں تو اسلام آباد جانے سے پہلے میں اپنے فیصلے پر قائم تھی اور اپنے فیصلے پر قائم بھی رہتی اگر میں وہاں غزنوی کے بدلے ہوئے رویے کو محسوس نہ کر لیتی۔وہ بالکل بدل گئے ہیں۔۔میرے ساتھ بالکل مختلف رویہ اختیار کر رکھا انہوں نے۔۔شروعات میں تو میں اسے ان کا ڈرامہ سمجھتی رہی کہ شاید وہ سب کی موجودگی کے باعث ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں مگر سب کے جانے کے بعد بھی وہ ویسے ہی تھے۔اس لئے میں نے سوچا کہ انھیں ایک اور موقع دے
"یونہی۔۔۔۔"
اس سے اور کوئی جواب نہ بن پڑا۔
"یونہی۔۔۔۔؟؟ اس کا مطلب ہے کہ تم ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم ہو؟"
شمائلہ بیگم کے الفاظ میں ناراضگی صاف چھلک رہی تھی۔ایمان خاموشی سے انہیں دیکھے گئی۔
"ابھی میں داجی کی بات سن کر آ رہی ہوں۔انہوں نے تمھارے لئے کہیں رشتے کی بات بھی کر رکھی ہے اور عید کے بعد اس کام کو انجام دینے کا سوچ رہے ہیں۔ان کے خیال میں اگر تم نے اپنا فیصلہ بدلنا ہوتا تو تم ان کے ساتھ یہاں نہ آتی بلکہ غزنوی کے ساتھ جاتی جبکہ وہ چاہتا بھی تھا کہ تم اس کے ساتھ جاؤ۔مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی ایمان۔۔"
وہ اسکی جانب سے رخ پھیر گئیں۔
"میں اپنا فیصلہ بدل چکی ہوں امی، اور جہاں تک کسی اور سے رشتے کی بات ہے تو میں غزنوی کے علاؤہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔"
روم میں آنے کے فوراً بعد اس نے حویلی فون کر کے ملازمہ سے غزنوی کے بارے میں پوچھا تھا۔ حویلی کی ملازمہ نے اسے بتایا کہ وہ ان کے نکلنے کے آدھے گھنٹے بعد اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔انھیں یہاں پہنچے تقریباً پینتالیس منٹ ہو گئے تھے۔وہ بار بار گھڑی پہ نظر ڈال رہی تھی۔
ابھی غزنوی کے اسلام آباد پہنچنے میں وقت تھا۔اس لئے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
"ایمان کیا کر رہی ہو بیٹا۔۔ارے رہنے دیتی۔۔شگفتہ کر لیتی یہ کام۔"
شمائلہ بیگم کمرے میں آئیں اور بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولیں۔
"کوئی بات نہیں امی۔۔۔میں کر لوں گی۔"
وہ الماری بند کرتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"غزنوی کے ساتھ کیوں نہیں گئی تم؟"
شمائلہ بیگم نے اسے بغور دیکھا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain