Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

اچھا ٹھیک ہے میں صبح خود وہاں لیٹر بھیج دوں گا۔۔تم بس صبح آفس جا کر سہیل صاحب سے بات کر لینا اور فائل ان کے حوالے کر دینا۔۔باقی میں خود دیکھ لوں گا۔"
غزنوی بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
"ہاں ٹھیک ہے میں کر لوں گا۔۔اگر کال ریسیو کر لیتا تمھاری تو آفس میں ہی یہ کام کر لیتا۔۔خیر ابھی دو دن ہیں ڈیل فائنل کرنے کے لئے۔۔انشاءاللہ کور اپ ہو جائیگا۔۔"
غزنوی نے بائیں ہاتھ سے گیلے بال سنوارتے ہوئے کہا اور الوداعی کلمات کہہ کر فون ٹیبل پہ رکھ دیا۔اب وہ ایمان کی طرف متوجہ تھا جو اس کی بات ختم ہونے کی منتظر تھی۔
"کچھ کہنا تھا؟"غزنوی بیڈ کراؤن سے پشت ٹکا کر بیٹھ گیا۔
"جی۔۔۔وہ بابا سے بات ہوئی تھی ابھی۔۔وہ بتا رہے تھے کہ بادشاہ خان جیل سے چھوٹ گیا ہے۔"
ایمان قریب آتے ہوئے بولی۔۔اسکے چہرے پہ پریشانی تھی۔

Mirh@_Ch
 

ارے بھابھی۔۔۔آپ بھی۔۔۔آپ کے شوہر محترم کیا کم تھے اس کام کے لئے جو آپ بھی شروع ہو گئیں۔ویسے یہ آپکے محترم ہیں کہاں؟ صبح سے کوئی بیسیوں بار کال کر چکا ہوں مگر محترم کال ریسیو ہی نہیں کر رہے۔"
کمیل نے اس کی شرارت پہ مسکرا کر بات کا رخ بڑی عمدگی سے غزنوی کی جانب موڑ دیا۔
"وہ۔۔۔۔یہ لیں بات کریں۔۔۔کمیل کا فون ہے۔"
وہ بتا ہی رہی تھی کہ غزنوی واش روم سے باہر آیا۔۔ایمان نے قریب آ کر فون اسکی طرف بڑھایا۔غزنوی نے فون اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
"ہاں یار بابا کے ساتھ ایک بہت اہم میٹنگ اٹینڈ کر رہا تھا اس لئے کال پک نہیں کر پایا۔"
غزنوی نے کمیل کو کال پک نہ کرنے وجہ بتائی۔
"ویسے میں ابھی تمھیں کال کرنے ہی والا تھا۔۔خیریت تھی۔۔؟؟"اس نے ایک نظر پاس ہی کھڑی ایمان کو دیکھتے ہوئے کمیل سے پوچھا۔ایمان نے بھی اسے رشید خان کی آمد کے متعلق بتانا تھا

Mirh@_Ch
 

لیکن غزنوی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسے ہیں اور آنٹی کیسی ہیں۔۔میں نے سوچا تھا ان سے دوبارہ بات کرنے کا مگر مصروفیت کے باعث ذہن سے نکل گیا۔"
ایمان نے اسکی اور اسکی والدہ غزالہ بیگم کی خیریت دریافت کی۔
"الحمداللہ۔۔!! یہاں سب خیریت ہے۔۔امی بھی آپکو فون کرنے کا کہہ رہی تھیں مگر گھر میں مہمان آئے تھے اس لئے نہیں کر پائیں۔۔"کمیل نے اسے بتایا۔
"اور بتائیے۔۔آپ تو چھپے رستم نکلے۔۔یہ ہمارے گھر بار بار اسی مقصد سے آیا جا رہا تھا۔۔"
ایمان نے شرارتی انداز اپنایا۔۔اسے یاد تھا کہ جب تک بلقیس بیگم وہاں اس کے پاس تھیں کمیل ہر دوسرے دن چکر لگایا کرتا تھا، حالانکہ پہلے کبھی اسطرح نہیں آتا تھا۔اب جب رشتے کی بات چلی تو اسے کمیل کی رقیہ کے اردگرد چکر لگاتی نظروں کا مفہوم سمجھ میں آ گیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے بنا کچھ کہے الماری سے اپنے کپڑے لئے اور واش روم میں گھس گیا۔اتنے میں غزنوی کا فون بجنے لگا جو اس نے ایک سیکنڈ پہلے ٹیبل پہ رکھا تھا۔ایمان نے کبھی اس کے فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اس لئے ابھی بھی اگنور کیے اٹھ کھڑی ہوئی۔فون بجتے بجتے خاموش ہو گیا تھا۔اپنا فون اس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا اسی دوران غزنوی کے فون کی رنگ ٹون دوبارہ سے بجنے لگی۔ایمان نے واش روم کے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر ٹیبل کیطرف آ کر موبائل اٹھایا۔بلنک ہوتے کمیل کے نام پہ نظر پڑی تو کال ریسیو کی۔
"ہیلو۔۔!! السلام علیکم۔۔!!"
اس سے پہلے کہ کمیل کچھ بولتا ایمان نے سلام کیا۔۔کمیل ایمان کی آواز سن کر سنبھل گیا۔
"وعلیکم السلام بھابھی۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔؟"
کمیل جو ابھی غزنوی کی اچھے سے خبر لینے والا تھا سنبھل کر بولا۔دراصل وہ صبح سے اسے کالز کر رہا تھا

Mirh@_Ch
 

ایمان کو لگتا تھا جیسے غزنوی کو سوائے اسکے سبھی دکھائی دیتے ہیں۔
اوپر سے گھر والوں کے سامنے وہ اسکے ساتھ بالکل مختلف رویہ اختیار کیے ہوئے تھا۔۔اسکی پرواہ کرتا۔۔کسی نہ کسی بہانے سے اسے پکارتا۔۔اس لئے سب اسکا نارمل بی ہیور دیکھ کر قدرے مطمئن ہو چکے تھے۔ایمان بھی اپنے رویے سے ان پہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
ابھی بھی وہ بالکل گم سم سی بیٹھی تھی۔تھوڑی دیر پہلے رشید خان نے اسے فون کیا تھا۔انہوں نے اس سے ملنے کا عندیہ ظاہر کیا تو ایمان نے انہیں عید پہ اعظم ولاء آنے کی دعوت دی تھی اور رشید خان نے ایک دو دن تک آنے کا وعدہ کیا تھا۔فون ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھا اسی دوران غزنوی کمرے میں داخل ہوا۔ایمان پہ نظر پڑی تو وہ اسے کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دی۔غزنوی نے دروازہ تیز آواز سے بند کیا تو ایمان نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے ایمان سے بالکل بات چیت بند کر رکھی تھی۔وہ پہلے بھی کب اس سے بات کرتا تھا مگر اسلام آباد میں گزرا وقت اس یہ یقین دلانے پہ مجبور کر گیا تھا کہ غزنوی بدل گیا ہے۔۔اسکے آگے پیچھے پھرنا، اسے فون کالز کر کر کے تنگ کرنا، اسکے لئے شاپنگ کرنا، اسے چھیڑنا۔۔غزنوی کا کہا گیا ہر ایک جملہ ایمان کو محبت کا احساس دلانے لگا تھا۔ابھی تو وہ ٹھیک سے اس احساس کو جی بھی نہیں پائی تھی کہ وہ پھر سے ویسا ہی کٹھور ہو گیا تھا۔
پہلے کی بات اور تھی۔۔وہ اپنے دل میں پنپتے اس جذبے کو خود پہ حاوی ہونے نہیں دیتی تھی مگر اب غزنوی کی بےاعتنائی اور لاپروائی کو شدت سے محسوس کر رہی تھی۔
اس نے غزنوی کو کئی بار منانے کی کوشش کی، ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہا مگر وہ تو جیسے آنکھیں کان دونوں بند کیے ہوئے تھا۔ایمان کو لگتا تھا

Mirh@_Ch
 

خان ایسا کیا ہے اس لڑکی میں جو تم اسکا خیال جھٹک نہیں پاتے۔جانس خان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"اوئے تُو نہیں سمجھے گا۔۔"بادشاہ خان چارپائی سے اتر کر مردان خانے سے نکل کر گھر میں داخل ہو گیا۔
"خان۔۔۔! رشید خان نے تو تمھارے سارے پیسے لوٹا دیئے تھے تو پھر تم کونسے پیسوں کی بات کر رہے ہو؟"
جانس خان کے دل میں کھلبلی سے مچ گئی تھی اسکا انداز دیکھ کر۔۔وہ اسکے پیچھے آیا تھا۔
"تُو نے دیکھا رشید خان کو مجھے پیسے دیتے ہوئے۔۔۔یا پھر گاؤں کے کسی شخص کے سامنے اس نے مجھے پیسے لوٹائے۔۔نہیں نا۔۔؟ تو پھر اس نے کب دیئے اور میں نے کب لئے۔۔"وہ جانس خان کو دیکھتا، مکروہ ہنسی ہنستا آگے بڑھ گیا۔جبکہ جانس خان ہنستا ہوا اپنے خان کے چَلتر دماغ کو دل ہی دل میں داد دیتا اسکے پیچھے ہو لی۔

Mirh@_Ch
 

"یہ ہوئی نا بات خان۔۔۔خان آپکا جگر تو شیر کا جگر ہے شیر کا۔۔میں نے وہ کھری کھری سنائی کہ اب کچھ بھی کہنے سے پہلے دس بار سوچیں گے۔۔لیکن خان ایک بات سمجھ نہیں آئی۔۔رشید خان سے تو اچھی خاصی بنتی تھی آپکی۔۔۔پھر یہ سب کیونکر۔۔۔؟"
وہ بادشاہ خان کے چہرے کے تاثرات کا بغور مطالعہ کرتا قریب آیا مگر تھوڑا بہت فاصلہ اب بھی برقرار رکھا تھا۔
"میرے ساتھ چالاکی کر رہا تھا۔۔اپنی رشتے داری کی تڑی لگا رہا تھا مجھے۔۔میری منگیتر کو کسی اور کے سپرد کر دیا۔۔کہا تھا میں نے اسے کہ چھڑا کر لائے بیٹی کو اور میری امانت میرے حوالے کرے۔۔ورنہ میں تو اسکے منہ سے نوالہ چھین لوں یہ تو اسکی بیٹی ہے۔"
بادشاہ خان بےشرمی سے ہنستا جانس خان کو دیکھ رہا تھا۔جو بےشرمی میں اس سے دس ہاتھ آگے تھا۔گاوں کی عورتیں ہوں یا لڑکیاں۔۔کوئی بھی اسکی غلیظ نگاہوں سے بچ نہیں پاتی تھی۔

Mirh@_Ch
 

خان۔۔۔!! خان شکر ہے کہ تم واپس آ گئے ہو۔۔سارا گاؤں تمھارے خلاف ہو گیا ہے اور ہر کوئی گواہی دینے کو بھی تیار کھڑا ہے۔اِن سب کو اعظم احمد کی پشت پناہی حاصل ہے۔میں تو سب کے منہ بند کر کر کے تھک گیا ہوں۔"
جانس خان جیسے ہی مردان خانے میں داخل ہوا، بادشاہ خان کو چارپائی پہ لیٹا دیکھ کر اسکے پاس بھاگا آیا تھا اور ساتھ ہی اسے گاؤں کی خبریں بھی دینے لگا تھا۔جانس خان، بادشاہ خان کا خاص بندہ تھا۔چوبیسوں گھنٹے اسکے ساتھ ہی رہتا تھا۔اسکے ہر برے کام میں اسکے ساتھ شامل رہتا تھا۔بادشاہ خان سود پہ قرض دیتا تھا اور جب وصولی کا وقت آتا تو جانس خان ہی جاتا تھا۔بادشاہ خان اس پہ اندھا اعتماد کرتا تھا۔ابھی بھی بادشاہ خان کے کہنے پر وہی ملک خاور علی کے پاس گیا تھا۔
"او کرنے دے باتیں۔۔۔بادشاہ خان کسی سے خائف نہیں ہے اور نہ کبھی ہو گا۔۔"

Mirh@_Ch
 

اسے ملک خاور علی کے چہرے کے تاثرات اور اسکی اکڑی گردن اسکے غصے پہ جلتی پہ تیل کا کام کر رہی تھی۔۔اوپر سے اس کے گن مین کی تمسخر اڑاتی نظریں بادشاہ خان کے تلوں پہ لگ کر سر پہ بجھ رہی تھیں۔جیل سے وہ خود باہر آ سکتا تھا مگر اس بار اسکے خلاف گواہی دینے والے پیدا ہو گئے تھی اور یہ سب اعظم احمد اور غزنوی احمد کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ ایس ایچ او کرم داد کے لئے اسے آزاد کرنا آسان تھا۔وہ اس کا دوست تھا اور اسکے ہر گناہ پہ جلد سے جلد مٹی ڈالنے کا اہم کام کرتا تھا۔اس بار بھی اس نے بہت کوشش کی تھی مگر اعظم احمد کے بیچ میں پڑ جانے سے وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا اور اعظم احمد کی وجہ سے لوگ بھی اسکے خلاف گواہی دینے کو تیار کھڑے تھے۔ایس ایچ او کرم داد نے شروعات میں ہی اس معاملے سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔اس نے کئی بار بادشاہ خان کو سمجھانے کی کوشش کی تھی

Mirh@_Ch
 

بادشاہ خان گھگھیاتا ملک خاور علی کے پیچھے دوڑا تھا لیکن ملک خاور علی نے ایک بار بھی پیچھے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔فوراً سے پیشتر اپنی جیپ میں سوار ہوا اور ڈرائیور سے چلنے کے لئے کہا۔اس کا گن مین بھی سرخ آنکھوں سے بادشاہ خان کو دیکھ رہا تھا۔
گاڑی دُھول اڑاتی جا چکی تھی اور بادشاہ خان وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔
وہ وہاں سے سیدھا اپنے مردان خانے آیا تھا۔دل و دماغ غصے کی شدت سے تپ رہے تھے۔اسے اپنی توہین بھلائے نہیں بھول رہی تھی۔دل تو چاہ رہا تھا کہ وہیں سب کے سامنے اسکی بےعزتی کر کے اسکی اکڑ کو اسکے منہ دے مارتا مگر ملک خاور علی سیاسی اثرورسوخ رکھتا تھا وہ منٹوں میں اسے واپس حوالات میں ڈال سکتا تھا، جب چاہتا اسے چیونٹی کی طرح مسل سکتا تھا۔اس سے بیر پالنا اسے مہنگا پڑ سکتا تھا اس لئے غصہ پی گیا۔

Mirh@_Ch
 

ملک خاور علی تمسخر اڑاتے لہجے میں بولا۔ایس ایچ او کرم داد کی نگاہیں بھی کچھ ایسا ہی نظارہ پیش کر رہی تھیں۔
"ملک صاحب غلطی ہو گئی۔"
وہ ملک خاور علی کی بےتحاشا سرخ آنکھیں خود پہ جمے دیکھکر بغلیں جھانکنے لگا۔
"او بس کر غلطی پہ غلطی کیے جا رہا ہے۔۔لڑکی نہ ہو گئی۔۔۔اور مر گئیں ہیں کیا جو تُو ایک ہی پیچھے دیوانہ ہو رہا ہے؟"ملک خاور علی بادشاہ خان کو منمناتے دیکھ کر تیش میں آ گیا۔
"میری طرف سے فارغ سمجھ خود کو۔۔تیری وجہ سے میں اپنی کرسی نہیں چھوڑ سکتا۔۔جی تو چاہتا ہے کہ رکھ کے لگاؤں تیرے اس تھوبڑے پہ۔۔کتے سے بدتر ہو گیا ہے تُو۔۔"
ملک خاور علی اس پہ دھاڑتا باہر نکل گیا۔
"ملک صاحب۔۔ملک صاحب۔۔معاف کر دیں اس بار۔۔آئیندہ ایسا نہیں ہو گا۔"

Mirh@_Ch
 

آؤ آؤ بادشاہ خان۔۔ملک صاحب تمھاری ضمانت کے کاغذات لائے ہیں۔"
ایس ایچ او کرم داد نے جیسے ہی بادشاہ خان کو آتے دیکھا تو مونچھوں کو تاؤ دیتا بولا۔اسکے سامنے ہی کرسی پہ ملک خاور علی بیٹھا سیگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔
"شکریہ ملک صاحب مجھے پتہ تھا کہ آپ مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔اتنے دن میں نے اس قید خانے میں کیسے گزارے یہ میں ہی جانتا ہوں۔"
بادشاہ خان داڑھی کھجاتا آیا اور ہاتھ باندھے ملک خاور علی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ملک خاور علی فوراً اٹھا اور کچھ دیر اسکی طرف غصیلی نظروں سے دیکھتا رہا۔
"یہ آخری بار ہے بادشاہ خان۔۔اس کے بعد میں تیری کوئی مدد نہیں کرنے والا۔۔مجھے اور بھی مسئلے مسائل سے نبٹنا ہوتا ہے۔۔تیری طرح فارغ نہیں ہوں کہ زنانیوں کے پیچھے بھاگتا رہوں۔۔تجھ جیسے نمک حرام پالنے کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا ہے میں نے۔"

Mirh@_Ch
 

"خیرن یہ تو بہت بڑی خوشخبری ہے۔۔کمیل بہت اچھا اور شریف لڑکا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر ہمارے غزنوی کا دوست ہے۔میں تو کہتی ہوں کہ دیر نہ کرو۔۔آج ہی بلقیس بہن سے بات کرو۔"
عقیلہ بیگم بھی یہ سن کر بہت خوش ہوئی تھیں۔
"ائے ہاں۔۔ابھی بات کرتی ہوں۔۔ٹھہرو زرا میں نمبر لے کر آتی ہوں۔نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔"
وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
"ارے خیرن تم بیٹھو۔۔۔جاؤ ایمان تم لے آؤ بوا کی ڈائری۔۔"
ایمان اٹھ کر تیز تیز قدموں سے لاؤنج سے باہر چلی گئی۔اسے پتہ تھا کہ بوا کے پاس ایک چھوٹی سی ڈائری ہے جس سارے رشتے داروں کے نمبر انہوں نے فائقہ سے لکھوا رکھے تھے۔وہ جلدی سے ڈائری کے آئی اور بلقیس بیگم کے بیٹے احمد کا نمبر ڈائل کیا۔پہلے رقیہ کے پاس بھی موبائل تھا لیکن پھر بہو کی شکی طبیعت کے باعث انہوں نے اس سے موبائل کے کر بیٹے کو دے دیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

کمیل کی بات کر رہی ہو؟"
عقیلہ بیگم نے کہا تو ایمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ابھی کچھ دیر پہلے کمیل کی والدہ کا فون آیا تھا مجھے۔۔شاید غزنوی نے ان کو میرا نمبر دیا ہو گا۔دراصل وہ اپنے بیٹے کمیل کے لئے آپکی بھانجی رقیہ کا رشتہ مانگا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر بلقیس خالہ راضی ہوں تو وہ باقاعدہ رشتہ لے کر آئیں گی۔میں نے سوچا کہ پہلے آپ سے بات کر لوں پھر یہ خوشخبری بلقیس خالہ کو بھی دے دوں گی۔ویسے تو کمیل بہت اچھا لڑکا ہے لیکن آپ غزنوی سے اسکے متعلق پوچھ سکتی ہیں۔"
ایمان نے تفصیل سے انہیں بتایا۔۔یہ سن کر تو خیرن بوا کے چہرے پہ خوشی کے رنگ چَھلکے پڑ رہے تھے۔
"اے بہو۔۔۔تم نے کتنی بڑی خوشی کی خبر سنائی ہے۔۔اللہ تمھیں خوشیاں دے۔سدا اپنے میاں کے دل پہ راج کرو۔"
خیرن بوا نے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

Mirh@_Ch
 

وہ پیشانی پہ ہاتھ مارتی ہوئی غزنوی سے بولیں۔
"جی بوا۔۔۔"
اندھا کیا جانے دو آنکھیں کے مصداق وہ کچن کیطرف بڑھا۔
"بوا مجھے آپ سے اور شاہ گل سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔"
ایمان اپنا موبائل فون گود میں رکھتے ہوئی ان کے قریب ہوئی۔
"ہاں ہاں کہو۔۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"
خیرن بوا اور عقیلہ بیگم کے چہرے پہ حیرانی کے ساتھ ساتھ پریشانی کے رنگ بھی نمایاں ہوئے۔ایمان کبھی اسطرح بات کی نہیں تھی اس لئے وہ پریشان ہو گئی تھیں۔
"ارے بوا۔۔۔سب خیر ہے۔۔آپکو اگر یاد ہو تو شادی میں غزنوی کا ایک دوست آیا تھا۔وہ اونچا لمبا سا۔۔"
ایمان نے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی۔
"ائے ہاں۔۔۔وہ نٹ کھٹ سا۔۔ہاں ہاں یاد ہے۔"

Mirh@_Ch
 

عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں۔
"ہاں بھئی یہ کل کے چھورے اب ہم سے شرارت کریں گے۔۔ائے یہ ہنسی ٹھٹھول اپنی بیوی سے کیا کرو۔بیوی کے سامنے تو ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے اور ہمارے سامنے زبان کسی بڑوے کیطرح چلنے لگتی ہے۔"
خیرن بوا کی توپوں کا رخ اب غزنوی کی جانب ہو چکا تھا جبکہ ایمان سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔
"یہ کیا بوا۔۔۔میں اپنا کیس آپکے پاس لے کر آیا ہوں اور آپ مجھ پہ ہی۔۔۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔جانتا تھا بوا کے چُنگل سے خود کو چھڑانا مشکل ہو جائیگا۔
"اے لو۔۔۔اے بیٹا۔۔پردہ پوشی درست است۔۔(پردہ پوشی اچھی ہوتی ہے)۔"
وہ اپنی پھسلتی ہوئی عینک کو واپس اپنی چھوٹی سی گول ناک پہ جماتے ہوئے بولیں تو غزنوی سر کھجانے لگا۔
"ائے کو میں تو بھول ہی گئی۔۔کس کام سے آئی تھی اور کیا کر بیٹھی۔۔ائے تمھاری ماں باورچی خانے میں بلا رہی ہیں تمھیں۔۔"

Mirh@_Ch
 

اس سے پہلے کہ عقیلہ بیگم کچھ کہتیں خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔غزنوی کے ساتھ ساتھ عقیلہ بیگم بھی ہنس دیں۔
"اور کیا بوا۔۔۔شرافت کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔اور وہ آپکی بہو۔۔۔جن کے دل میں سارے جہاں کا درد تو سمایا ہے لیکن شوہر کا درد ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔"
غزنوی نے ایمان کو آتے دیکھکر شرارت پہ آمادہ دکھائی دیا۔
"ہائے۔۔۔یہ میں کیا سن رہی ہوں۔۔اے بہو ذرا ادھر آنا۔"
خیرن بوا نے بھی ایمان کو لاؤنج میں آتے دیکھ لیا تھا۔ایمان نے ایک غصیلی نظر غزنوی پہ ڈالی اور عقیلہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"جی بوا۔۔"
ایمان نے یہ ظاہر کیا کہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں ورنہ غزنوی کی فلک پھاڑ آواز اسکے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔
"خیرن شرارت کر رہا ہے۔"
عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں۔

Mirh@_Ch
 

زیرِ بحث تھا۔اسے بھی یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی۔
"امی۔۔۔بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو ملے گا۔۔افطاری میں ایک سینڈوچ ہی کھا پایا تھا۔"
وہ شمائلہ بیگم اور عقیلہ بیگم کے درمیان آ کر بیٹھ گیا تھا۔
"اچھا۔۔۔میں لے کر آتی ہوں کچھ۔"
شمائلہ بیگم اٹھ کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں۔
"تمھارے داجی کہہ رہے تھے کہ تم بزنس یہاں شفٹ کر رہے ہو۔"
عقیلہ بیگم کے لہجے میں چھلکتی خوشی پہ وہ مسکرا دیا۔
"جی شاہ گل۔۔۔میری بیگم مجھ سے زیادہ آپ لوگوں کے پاس رہنا پسند کرتی ہے اور جب دیکھو آپ لوگ ظالم سماج بن کر میرے اور میری بیوی کے بیچ آ جاتے ہیں۔"
وہ شرارت کرنے سے باز نہ آیا۔
"ائے لو۔۔۔یہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے۔"

Mirh@_Ch
 

اس نے ہاتھ پھیر کر سلوٹیں دور کرنے کی کوشش کی اور چہرے کے گرد بکھری لٹوں کو سنوارا۔اسی دوران کھٹکے کی آواز نے اسے الرٹ کیا۔اس نے نہایت پھرتی دکھاتے ہوئے ٹرے ہاتھ میں اٹھائی۔غزنوی باہر آیا تو وہ ٹرے لئے کھڑی تھی۔وہ لاپروائی ظاہر کرتا ڈریسنگ کیطرف آیا اور بال برش کرنے لگا۔
"چائے۔۔۔۔"
ایمان نے اسکی لاپروائی پہ کُڑتے ہوئے کہا۔
"ہاں تو رکھ دو۔۔۔"
غزنوی کی بےپروائی عروج پہ تھی۔۔اس نے بھی دو حرف بھیجتے ہوئے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور باہر نکل گئی۔غزنوی برش ٹیبل پر رکھا اور چائے کا کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا۔
"میری محترمہ۔۔۔کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی ہیں۔"
خود سے کہتا وہ مسکرا دیا تھا۔
چائے ختم کرتا وہ اسکی تلاش میں باہر آیا تھا۔۔لاونج میں عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم بیٹھی تھی۔فائقہ کی شادی زیرِ بحث تھی۔