ظالم انسان۔۔۔کیا تھا جو میرے لئے بھی منگوا لیتا۔"
ایمان کو اپنی اس بے قدری پہ رونا آنے لگا۔۔غزنوی نے ساتھ بیٹھی ایمان کو دیکھا جو باہر عمارتوں کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس سے زیادہ ضروری کوئی دوسرا کام نہ ہو۔اس نے کندھے اُچکا کر گاڑی اسٹارٹ کی۔
سارا راستہ وہ کڑتی رہی جبکہ وہ مزے سے آئسکریم کھاتا رہا۔
"ندیدہ کہیں کا۔۔یوں آئسکریم کھا رہا ہے جیسے پہلے بار کھا رہا ہو۔"
ایمان نے کنکھیوں سے غزنوی کی جانب دیکھا۔
"ٹیسٹ تو کرو۔۔۔بہت مزے کی ہے۔"
غزنوی نے اسکی چور نظروں کو خود پہ مرکوز دیکھ کر کپ اسکی طرف بڑھاتا بولا۔
"اب آفر کر رہا ہے تو ایک۔۔۔"
ایمان نے سوچا۔
"چلو اچھا مت کھاؤ۔"
ایمان نے دل ہی دل میں سوچا مگر اسکے چہرے کے سنجیدہ تاثرات میں کوئی فرق نہیں آیا۔گاڑی رکتے دیکھ کر آئس کریم پارلر سے ایک لڑکا بھاگتا ہوا ان کی طرف آیا۔
"ایک چاکلیٹ۔۔۔"
غزنوی گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے بولا۔۔وہ اتنا دھیرے بولا کہ ایمان صرف چاکلیٹ ہی سن پائی۔
"ہائے۔۔چاکلیٹ۔۔۔مجھے تو اسٹابری فلیور پسند ہے۔۔چلو خیر چاکلیٹ ہی کھا لوں گی۔"
ایمان نے چاکلیٹ فلیور کا سن کر غزنوی کی جانب سے چہرہ موڑے برے برے منہ بنائے۔۔کچھ لمحوں بعد ایمان نے اس لڑکے کو واپس آتے دیکھا پھر اگلے ہی لمحے اس نے لڑکے کی جانب سے نظر گھمائی۔
"سر۔۔!! میڈم کے لئے کونسا فلیور؟"
لڑکے نے ٹرے سے آئسکریم کپ اٹھا کر غزنوی کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں میڈم کو آئسکریم نہیں پسند۔"
ایمان نے غزنوی کو کہتے سنا۔
پارکنگ میں پہنچ کر غزنوی نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر ہاتھ میں پکڑے شاپرز رکھے اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔ایمان بھی فوراً بیٹھی اور ہاتھ میں پکڑا چوڑیوں کا شاپر پچھلی سیٹ پہ رکھ دیا۔
"پہلے یہ دروازہ بند کریں محترمہ، پھر اسکے بعد باقی کاروائیاں کر لیجئیے گا۔"
غزنوی نے دروازہ کھول کر شاپر پیچھے رکھتی ایمان سے طنزیہ لہجے میں کہا۔اس نے فوراً گاڑی کا دروازہ بند کیا۔عید میں تین دن تھے اس لئے رش بڑھنے لگا تھا۔غزنوی نے پارکنگ سے گاڑی نکالی۔
"آئس کریم کھاؤ گی؟"
آئس کریم پارلر پہ نظر پڑی تو اس نے ایمان سے پوچھا۔
"نہیں۔۔"
جی تو چاہ رہا تھا مگر ناک چڑھا کر انکار کر گئی۔۔غزنوی نے گاڑی آئس کریم پارلر کے پاس روکی۔
"شکر ہے تھوڑی عقل سلامت ہے موصوف کی۔"
اچھا آؤ۔۔۔"
وہ پلٹ کر چوڑیوں کے اسٹالز کیطرف بڑھ گیا۔۔وہاں رش دیکھ کر ایمان نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ غزنوی کی غصہ چھلکاتی نظریں خود پہ جمے دیکھکر چپ کر گئی مبادہ وہ وہیں نہ شروع ہو جائے۔۔پہلے ہی وہ اپنے جان بُوجھ کر کیے جانے والے نخروں سے اسے اچھا خاصا تپا چکی تھی جو غزنوی کے چہرے پہ صاف دکھ رہا تھا۔اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے غصے کی جھلک دکھلاتا آگے بڑھ گیا۔
"نَک چڑا۔۔۔"
وہ بڑبڑائی اور اسکے پیچھے ہو لی۔
اب چوڑیوں کے اسٹالز پہ لڑکیوں کا ہجوم تھا۔۔وہ ان کے ہٹنے کے انتظار میں کوفت کا شکار ہونے لگا جبکہ ایمان اسکے تاثرات کا کچھ دیر مزا لیتی خود آگے بڑھی اور اپنے لئے میچنگ چوڑیاں خریدیں۔غزنوی نے شکر کا کلمہ پڑھ کر پیمنٹ کی اور تیز تیز قدم اٹھاتا مال کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
ایمان چڑ کر بولی۔
"بالکل تمھاری طرح۔"
وہ ہنسی روکتے ہوئے بولا۔ایمان نے اسکی طرف یوں دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔
"لگتا ہے کہ آج افطاری میں آپ نے کچھ زیادہ ہی کھا لیا ہے، تبھی الٹا سیدھا بول رہے ہیں۔۔گاڑی زرا تیز چلایئے۔۔ہمیں واپس بھی آنا ہے۔"
ایمان کے لہجے کا تیکھا پن غزنوی کو واضح محسوس ہوا مگر وہ اگنور کر گیا اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔اسکے بعد دونوں میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔شاپنگ کے دوران بھی ایمان کی عدم دلچسپی عروج پر تھی۔ہر ڈریس پہ لاپروائی سے ناک چڑھانا۔۔۔وہ ساری شاپنگ کے دوران یہی ایک کام بہت اچھے سے کر رہی تھی۔غزنوی نے اپنی پسند سے اسے تین ڈریسز اور میچنگ جوتے، جیولری دلائی۔اپنے لئے بھی اس نے کچھ شرٹس خریدیں۔
"بس کافی ہے۔"
غزنوی کو کاسمیٹکس کی شاپ کیطرف بڑھتے دیکھ کر ایمان جلدی سے بولی۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھی تو غزنوی نے اگنیشن میں چابی گھماتے ہوئے کہا۔
"میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔"
ایمان نے اسکی طرف دیکھے بناء کہا۔
"ہاں ہاں بیگم صاحبہ۔۔۔آپ نے تو کبھی کچھ نہیں کیا۔"
غزنوی ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔جواب میں وہ خاموش رہی۔
"وہ تمھارا گونگا فون کہاں ہے؟"
غزنوی نے ساتھ بیٹھی ایمان کو دیکھا جو اس سے لاپرواہ بھاگتے دوڑتے منظر میں گم تھی۔وہ اس سے بات کرتے رہنا چاہتا تھا۔۔شاید وہ اسے سنتے رہنا چاہتا تھا مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔
"جب بھی کال کرو کچھ بولتا ہی نہیں۔"
غزنوی نے بات کو مذاق کا رنگ دیا۔
"ظاہر ہے گونگا ہے تو کیسے بولے گا۔"
مگر اب وہاں خیرن بوا اور شمائلہ بیگم بیٹھی نجانے کیا راز و نیاز کر رہی تھیں۔ایمان پر نظر پڑی تو خیرن بوا نے گھڑی کی جانب دیکھا۔
"اے بہو۔۔۔یہ اس وقت کہاں کا قصد کیے بیٹھی ہو۔"
خیرن بوا نے ایمان کو سر سے پیر تک بغور دیکھا۔حالانکہ وہ بہت سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اسی دوران گاڑی کے ہارن کی آواز پہ تینوں نے بیک وقت لاؤنج کے دروازے کی سمت دیکھا۔
"جاؤ بیٹا۔۔غزنوی انتظار کر رہا ہے۔"
شمائلہ بیگم نے ایمان سے کہا تو وہ سر ہلاتی باہر کی جانب بڑھ گئی۔
وہ باہر آئی تو غزنوی گاڑی گیٹ کے قریب روکے اسکا انتظار کر رہا تھا۔وہ گاڑی کی طرف آئی۔اس کے قریب پہنچتے تھے فرنٹ ڈور کھولا گیا۔
"چلیئے نا محترمہ۔۔۔ایک تو آپ کو انتظار کروانے کا نجانے کیوں اتنا شوق ہے۔"
"بھائی۔۔۔ہم لاریب کیطرف جا رہے ہیں، اس نے بلایا تھا۔"
ملائکہ نے غزنوی کی سوال کرتی نگاہوں کے جواب میں کہا۔
"آپ نے تو شاپنگ پہ جانا تھا نا۔"
اب وہ سوالیہ نظریں ایمان پہ مرکوز کیے پوچھ رہا تھا۔ملائکہ تو فورا غزنوی کے سنجیدہ تیور دیکھ کر وہاں سے کھسک لی اور بناء پیچھے دیکھے سیدھی لاریب کے پورشن کی طرف بڑھ گئی۔
"میرا ارادہ بدل گیا ہے۔"
ایمان نے بھی جان چھڑا کر کھسکنا چاہا۔
"مگر مجھے تو جانا ہے۔"
غزنوی نے اسے بازو سے پکڑا اور اسے کمرے میں لے آیا۔
"چلو چینج کرو۔۔۔میں باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں۔"
اسے کپڑے تبدیل کرنے کا کہہ کر وہ خود کمرے سے نکل گیا۔ایمان نے ایک نظر اپنے ملگجے لباس پہ نظر ڈالی اور الماری کی طرف بڑھ گئی۔کچھ دیر میں لباس تبدیل کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آئی۔کچھ دیر پہلے تو لاؤنج خالی تھا
ایمان جھٹکے سے اٹھی اور تیزی سے باہر نکل گئی۔اسکے یوں باہر جانے پر وہ مسکرا دیا۔
"کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کہی کا بھید کھل جائے
اسی خدشے سے میں تم سے۔۔۔
مگر یہ کیا اذیت ہے
عجب انداز وحشت ہے
مجھے تم سے محبت ہے۔۔"
غزنوی دھیرے سے گنگنایا۔ _____________________________________
"کہاں جا رہی ہو تم دونوں؟"
ایمان اور ملائکہ، لاریب کے بلانے پر ان کے پورشن میں جا رہی تھیں کہ پیچھے سے آتی غزنوی کی آواز نے ان کے قدم روک دیئے۔دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔وہ ٹراؤزر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اب تیوری چڑھائے ان کے قریب آیا۔
یہ اور بات کہ آپ نے فری ہونے کی کافی کوشش کی جو میں نے کامیاب نہیں ہونے دی۔"وہ ایک ادا سے آنکھیں گھماتی بولی۔۔انداز ایسا تھا کہ تم سیر ہو تو میں سوا سیر۔۔
"یہ منہ اور مسور کی دال۔۔"غزنوی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔"کیا مطلب۔۔۔؟"
ایمان کو امید نہیں تھی کہ ایسا جواب دے گا۔وہ تو اسکے اپنی طرف قدم بڑھانے کی منتظر تھی مگر اس نے تو نہایت دھڑلے سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکی ذات کی نفی کر دی تھی۔
"مطلب یہ کہ تم اتنی اہم نہیں ہو کہ تم پہ میں اپنا قیمتی وقت ضائع کروں۔"
غزنوی اپنی بات کے اختتام پر اسکی رونے والی شکل پہ اپنی ہنسی نہیں روک پا رہا تھا اس لئے فورا بیڈ سے اترا۔
"افطاری کے بعد لے جاوں گا۔"وہ اسکی جانب سے کسی جواب کا منتظر بولا تھا۔
"نہیں جانا مجھے آپ کے ساتھ۔۔"
"آپ سن رہے ہیں یا نہیں؟"ایمان نے اسکی طرف بڑھایا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور تھوڑے دھیمی آواز میں بولی۔
"کیا مسئلہ ہے جو سر پہ کھڑی چلا رہی ہو۔دیکھ بھی رہی ہو کہ شوہر تھکا ہارا آفس سے آیا ہے۔۔یہ نہیں ہوتا کہ۔۔۔"
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا اور دبے دبے غصے سے ایمان کی طرف دیکھ کر بولا۔
"مجھے شاپنگ کے لئے جانا ہے۔"ایمان نے سینے پہ ہاتھ باندھتے ہوئے نروٹھے انداز میں کہا۔غزنوی نے اسکا نروٹھا انداز ملاحظہ کیا اور پھر اگلے ہی پل اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے بیٹھایا۔
"کچھ زیادہ فری نہیں ہو رہی تم۔۔"
غزنوی کی سنجیدہ نگاہیں اسکے سلونے چہرے پہ جمی تھیں۔
"میں کب فری ہو رہی ہوں۔۔ایک سیدھی سی بات کر رہی ہوں اور آپ کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔نجانے خود کو کیا سمجھتے ہیں۔۔مجھے کوئی شوق نہیں آپ سے فری ہونے کا۔۔
مگر نجانے کیوں ایمان کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اسے نظروں کے زاویے پہ رکھے ہوئے ہے۔۔اسے دیکھ رہا ہے اس خیال کے آتے ہی وہ اسکی جانب سے رخ پھیر گئی۔اسے مسلسل لگ رہا تھا کہ وہ غزنوی کی نظروں کے حصار میں ہے۔اگلے ہی لمحے وہ جھٹکے سے اٹھی اور اسکے سرہانے جا کھڑی ہوئی۔
"مجھے آج مارکیٹ جانا ہے۔۔عید کی شاپنگ کرنی ہے۔"
وہ اسکے سر پہ کھڑی یوں بول رہی تھی جیسے سامنے والا بہرہ ہو۔۔مگر اسکا اتنا اونچا اونچا بولنا بھی بیکار گیا۔وہ جوں کا توں لیٹا رہا۔ایمان کو سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔
اب وہ بھی اس سے کم ہی مخاطب ہوتی لیکن اندر ہی اندر وہ غزنوی کے اپنی طرف اٹھنے والے قدموں کی تہہ دل سے منتظر تھی۔۔
لیکن آج شمائلہ بیگم نے اسے پھر سے اسکے سامنے جا کھڑے ہونے کا کہہ دیا تھا اور یہ سوچتے ہی کچن کی گرمی اسے کچھ زیادہ ہی چھبنے لگی تھی۔اس نے ہاتھ دھوئے اور کچھ سے باہر آ گئی۔غزنوی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس سے آیا تھا۔وہ کمرے میں آئی تو وہ جوتوں سمیت بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔آنکھوں پہ بازو رکھے شاید سو رہا تھا۔ایمان نے سوچا آگے بڑھ کر اسکے شوز اتار دے مگر دونوں کے بیچ اتنی فرینکنیس تو تھی نہیں۔۔اس لئے وہ ارادہ ملتوی کرتی صوفے کی طرف بڑھ گئی۔اسکی آہہٹ سے بھی غزنوی کے ساکت وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔وہ کچھ دیر یونہی خاموشی سے صوفے پہ بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔بظاہر تو وہ سویا ہوا لگ رہا تھا
شمائلہ بیگم دو ٹوک انداز میں بولیں۔
"میں کہہ دوں گی۔"
تو وہ گہری سانس خارج کرتی انہیں یقین دلاتی بولی۔
"یہ شگفتہ کہاں رہ گئی۔۔کتنی دیر ہو گئی ہے، دس منٹ کا کہہ کر گئی تھی اور بیس منٹ سے اوپر ہو گئے۔۔میں دیکھتی ہوں۔۔بیٹا زرا یہ فریج میں رکھ دو۔"
شمائلہ بیگم اسے رائتہ فریج میں رکھنے کا کہتیں کچن سے نکل گئیں اور وہ سوچنے لگی کہ اب یہ بات وہ اُس اُکھڑ کو کیسے کہے گی۔وہ تو آج کل پَروں پر پانی تک نہیں پڑنے دیتا تھا۔وہ غزنوی کے پل میں تولہ اور پل ماشہ جیسے مزاج سے تنگ پڑ گئی تھی۔کمرے میں ہوتا تو اس قدر سخت تاثرات چہرے پر سجائے رکھتا کہ وہ بات تک نہیں کر پاتی تھی۔وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے ناراض ہے۔وہ یہ بھی مانتی تھی کہ غلطی اسکی تھی اور کئی بار اس نے غزنوی کو منانے کی بھی کوشش کی مگر سامنے سے اسکا رویہ ایسا ہوتا کہ وہ ہمت نہیں کر پاتی تھی
تمھاری شاپنگ مکمل ہوگئی؟"
ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ افطاری کی تیاری کروا رہی تھی۔تقریبا کام نبٹ گیا تھا۔
"جی مکمل ہے۔۔وہاں اسلام آباد میں کچھ ڈریسز خریدے تھے، ابھی تک پہنے نہیں۔۔وہی پہن لوں گی اور رہ گئے جوتے تو اس دن پرخہ آپی اور سحرش آپی کے ساتھ گئی تھی تو لے لئے تھے آپکو دکھائے بھی تو تھے۔"
ایمان نے مصروف انداز میں انہیں بتایا۔
"ارے وہ اتنے سمپل سے تھے۔۔شادی کے بعد تمھاری پہلی عید ہے۔ایک دو فینسی ڈریسز تو ہونے چاہیئے اور وہ جوتا بھی بہت سمپل سا تھا۔ایسا کرو آج غزنوی کے ساتھ چلی جاو۔"
شمائلہ بیگم نے اس پہ نظریں فوکس کرتے ہوئے کہا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ جان چھڑا رہی ہے۔
"ارے امی۔۔وہ ٹھیک ہیں اور فینسی بھی ہیں۔مزید کی ضرورت نہیں ہے۔وہ انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کر رہی تھی۔"تم اسے کہہ دو گی یا میں جا کر کہہ دوں۔"
ایمان نے کہا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ سج گئی۔۔ساڑھی ابھی بھی نئی کی نئی تھی۔۔جیسے کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا ہو۔۔
"اماں نے میرے اور بلقیس کے لئے بڑی محبت سے خریدی تھی۔۔بس رنگ مختلف تھا۔۔اسکے لئے سبز رنگ میں خریدی تھی۔۔مجھے یقین ہے، بلقیس نے بھی سنبھال رکھی ہو گی۔"
خیرن بوا ساڑھی کو تہہ لگاتے ہوئی بولیں۔۔ایمان نے ان کے چہرے پہ کھلتے رنگوں کو بہت محبت سے دیکھا۔
"بہت عمدہ ہے۔۔لیکن بوا یہ ڈیزائن پرانا نہیں ہے۔"
ایمان نے جھجھکتے ہوئے کہا کہ کہیں بُوا پھر سے غصہ نہ ہو جائیں۔
"ائے ہاں یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔بس میں تو دے آؤں گی پھر چاہے جو بھی کرے اسکا۔"
وہ اسکی سوچ کے برعکس دھیرے سے بولیں۔
"ہاں یہ سہی ہے۔۔بچی خود ہی اپنی پسند سے تراش خراش کروا لے گی۔"عقیلہ بیگم نے بھی تائید کی۔
"بس تو پھر سہی ہے۔۔گل خان کے ہاتھ بھجوا دوں گی۔"
شمائلہ بیگم اور عقیلہ بیگم کے لب بھی مسکرانے لگے۔
"اے تم لوگ بھی ٹھٹھول کرنے لگیں۔"
وہ اب شمائلہ بیگم کی طرف دیکھ رہیں تھیں۔
"ویسے خیرن۔۔تمھارے جہیز کی ہے۔۔پہننے میں کیا حرج ہے۔۔آخر کو ساس ہو۔۔"
عقیلہ بیگم نے ہنسی روک کر خیرن بوا سے کہا۔
"اے دفع۔۔۔بڈھی گھوڑی لال لگام۔۔۔عقیلہ بیگم تم تو کچھ عقل کی بات کرو۔"خیرن بوا ناراضگی سے ساڑھی سمیٹنے لگیں۔
"بوا۔۔مذاق کر رہے ہیں۔۔ایمان یہ ساڑھی بوا کے جہیز کی ہے۔۔انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے سنبھال رکھی تھی۔"
شمائلہ بیگم نے اسے بتایا۔
"سوچا تھا کہ اپنی بیٹی کو دوں گی۔۔بیٹی تو اللہ نے دی نہیں تو رقیہ کے لئے رکھ لی۔۔زرا بتانا تو کیسی لگے کی رقیہ پہ؟"خیرن بوا نے ساڑھی دوبارہ سے اسکے سامنے پھیلائی۔
"بہت خوبصورت ہے بوا اور رقیہ پہ تو بہت اچھی لگے گی۔"
آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔جب آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت قریب تھا۔فریش ہو کر وہ عقیلہ بیگم کے کمرے میں آ گئی۔شمائلہ بیگم اور خیرن بوا بھی وہیں موجود تھیں۔
"لو بہو بھی آ گئی۔۔"
خیرن بوا نے اسے دیکھ کر کہا۔۔ان دونوں نے بھی اسکی طرف مسکرا کر دیکھا تھا۔ایمان چہرے پہ دھیمی مسکان سجائے ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"یہ دیکھو یہ بنارسی ساڑھی کیسی ہے؟"
خیرن بوا نے سرخ بنارسی ساڑھی اس کے سامنے پھیلائی۔
"بہت پیاری ہے بوا۔۔۔کیا یہ آپ رقیہ کی شادی پہ پہنیں گی؟"
ایمان نے ساڑھی پہ نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔
"اے بہو۔۔۔کچھ ہوش کے ناخن لو۔۔اب میں چٹے چاٹے پہ یہ پہنتی ہوئی اچھی لگوں گی کیا۔"
خیرن بوا نے ٹھوڑی پہ شہادت کی انگلی جما کر حیران نظروں سے ایمان کی طرف دیکھا۔
موبائل اسکے ہاتھ میں تھا، وہ گل خان کو کال کرنے لگا۔۔پھر جتنی دیر وہ بات کرتا رہا ایمان وہیں کھڑی رہی۔
"آپکے لئے چائے۔۔۔"
غزنوی نے بات ختم کرنے کے بعد موبائل ٹیبل پہ رکھا تو ایمان نے اس سے چائے کا پوچھا۔
"چائے نہیں۔۔۔قہوہ پیوں گا۔۔اگر تم فارغ ہو تو۔۔"
غزنوی نے نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔۔ایمان کو اسکے لہجے میں اجنبیت صاف محسوس ہوئی۔وہ اس بارے میں بات کرنے کا ارادہ ترک کرتی کمرے سے نکل آئی۔ ________________________________________
رشید خان بھی آج افطاری تک پہنچنے والا تھا۔ایمان نے اعظم احمد کو بھی بتا دیا تھا کہ بادشاہ خان جیل سے چھوٹ گیا ہے۔انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ رشید خان کا وہاں رہنا مناسب نہیں۔شگفتہ کے ساتھ مل کر اس نے ان کے کمرہ صاف کروا دیا تھا۔کام ختم ہونے کے بعد شگفتہ تو اپنے کوارٹر میں چلی گئی تھی
یہ تو ہونا ہی تھا۔۔ہمارے آنے کے بعد گاؤں کے لوگ پیچھے ہٹ گئے ہونگے تو آسانی سے ضمانت ہو گئی ہوگی۔۔تم پریشان مت ہو میں بات کرتا ہوں۔"وہ اسے پریشان دیکھ کر بولا۔
"میں نے یہاں بلایا ہے۔۔عید بھی ہے اور پھر بادشاہ خان۔۔وہ دوبارہ بھی ایسی حرکت کر سکتا ہے۔میں ٹھیک کیا نا۔۔؟"
وہ ٹھہر ٹھہر کر بولی۔
"ہاں اچھا کیا۔۔ویسے بھی وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔پھر کب آنے کا کہا ہے انہوں نے؟"
غزنوی نے ٹیبل سے موبائل اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
"کہہ رہے تھے کہ ایک دو دن میں آ جائیں گے۔۔مان کب رہے تھے بڑی مشکل سے مانے ہیں۔"وہ مزید بولی۔
"دو دن تو بہت زیادہ ہیں۔۔گل خان وہیں گاؤں میں ہے صبح میں اسے کہہ دوں گا کہ وہ کل آ جائے اور جاتے جاتے انہیں یہیں ڈراپ کر جائے۔۔بلکہ میں ابھی کہہ دیتا ہوں۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain