تھینک یو پرخہ آپی۔۔یہ میری چوائس ہے لیکن اعظم احمد کی چوائس کو نجانے کیا ہو گیا تھا۔"
غزنوی نے کنکھیوں سے ایمان کو دیکھا جسکے چہرے کا رنگ اس کی بات سن کر پھیکا پڑا تھا۔جبکہ باقی سبھی اسکی بات کو مذاق کے اینگل سے دیکھکر ہنسنے لگیں تھیں۔
ایمان نے غزنوی کو دیکھا، وہ اب ان سب کو عیدی دے رہا تھا۔ان سب کو مصروف دیکھ کر ایمان خاموشی سے اٹھ گئی۔
ایمان تمھارا شوہر تو ایک نمبر کا کنجوس ہے۔"
فائقہ تھک ہار کر ایمان کو با آواز بلند مخاطب کیا۔
"تمھیں آج پتہ لگا یے؟ یہاں تو کنجوسی کی کوئی حد نہیں ہے۔"
ایمان طنز کرنے سے خود کو روک نہ پائی۔اسے آئسکریم والا واقعہ یاد آیا۔
"اووووووووو۔۔۔یہ کون بولا؟"
سحرش نے ایمان کی طرف دیکھا۔ایمان کو سحرش کی آنکھوں میں حیرانی دکھائی دی تو وہ جھینپ گئی۔
"یہ جو انہوں نے اتنا خوبصورت ڈریس، میچنگ جیولری اور جوتے پہن رکھے ہیں یہ میرے کنجوس ہونے کی بھرپور گواہی دے رہے ہیں۔"
غزنوی کہاں باز آنے والا تھا، اس نے اپنا بدلہ چکانے میں دیر نہیں کی۔
"ہاں بھئی ایمان۔۔تمھارا ڈریس تو بہت خوبصورت ہے۔"
پرخہ نے اسکے تیز گلابی اور سیاہ رنگ کے خوبصورت لباس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
غزنوی رومال اسکے ہاتھ سے لیتا کمرے سے نکل گیا۔ایمان نے جلدی جلدی ادھر ادھر بکھری چیزیں سمیٹنے لگی۔
"ایمان۔۔۔!"
اسی دوران شمائلہ بیگم اسے پکارتیں کمرے میں داخل ہوئیں۔
"جی؟"
وہ جو بیڈ شیٹ ٹھیک کر رہی تھی، سیدھی ہوئی۔
"بیٹا یہ سب چھوڑ دو۔۔شگفتہ دیکھ لے گی، تم تیار ہو جاؤ۔۔میں بھیجتی ہوں اسے۔"
وہ اسے ہدایت دیتی کمرے سے چلی گئیں۔ایمان نے جلدی سے بیڈ کی چادر درست کی پھر الماری سے کپڑے لیتی واش روم میں گھس گئی۔
وہ تیار ہو کر باہر آئی تو گھر کے مرد نماز پڑھ کر آ چکے تھے۔سبھی لاؤنج میں موجود تھے۔اس نے سب کو سلام کیا اور عقیلہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد اعظم احمد اور رشید خان کو لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔شمائلہ بیگم شیر خورمہ لانے کچن میں چلی گئیں۔باقی خواتین بھی ان کی مدد کرنے کے لئے اٹھ گئیں تھیں۔
وہ داجی آپ کو بلا رہے ہیں۔"
وہ پلٹ کر جانے لگی جو تیزی سے آگے آ کر اسکا راستہ روک گیا اور اسکا موبائل اسکے آنکھوں کے سامنے کیا۔موبائل وال پہ لگی غزنوی کی پکچر ایمان کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
"لو اپنا فون۔"
غزنوی نے فون اسکی بڑھایا۔ایمان نے فون اسکے ہاتھ سے لے لیا اور اسکے سائیڈ سے ہو کر بجلی کی سی تیزی سے وہاں سے نکلی۔غزنوی اسکی گھبراہٹ سے محظوظ ہوتا اسکے پیچھے کمرے سے نکلا۔اسکا رخ اعظم احمد کے کمرے کی طرف تھا۔ ________________________________________
عید کا دن تھا اور غزنوی نے اسے گھن چکر بنانے میں کوئی نہیں چھوڑی تھی۔ہر چیز میں کیڑے نکالتا وہ اسکے ہاتھ پاؤں پُھلائے دے رہا تھا۔
"آپ تو ایسے ری۔ایکٹ کر رہے ہیں جیسے پہلی بار عید کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں۔"
ایمان رومال اسکی جانب بڑھاتی بولی۔
"تم سے تو میں آ کر نبٹوں گا۔"
مگر جسے ڈھونڈتا آیا تھا وہ وہاں نہیں تھی۔۔اس نے موبائل پاکٹ سے نکال کر ایمان کا نمبر ڈائل کیا۔اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجنے لگی۔۔سائیڈ ٹیبل کی طرف آیا جسکی اُوپری دراز تھوڑی سے کھلی ہوئی تھی۔موبائل وہی پڑا تھا۔اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا لیا۔
یہ دیکھ کر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ موبائل کی اسکرین پہ اسکی تصویر جگمگا رہی تھی۔اگلے ہی پل ایک جاندار مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا گھیراؤ کیا۔
"آپ یہاں ہیں۔۔۔میں اوپر چھت پہ گئی تھی۔"
ایمان کمرے میں آئی۔۔اپنا موبائل اسکے ہاتھ میں دیکھ کر اسکے دل کی دھڑکن بڑھی۔غزنوی کے چہرے کی دھیمی مسکان ایمان کو بہت کچھ سمجھا رہی تھی۔
"خیریت تھی۔۔۔؟؟ آپ مجھے ڈھونڈ رہی تھیں۔"
غزنوی معنی خیزی سے کہتا قریب آیا۔۔"آپ" کا صیغہ ایمان سے ہضم نہ ہوا۔
"وہ داجی آپ کو بلا رہے ہیں۔"
وہ کچھ کہنے کے لئے دل ہی دل میں الفاظ ترتیب دے رہا تھا کہ پرخہ ان کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔وہ جو ایمان کیطرف تھوڑا جھک کر بیٹھا تھا سیدھا ہوا۔
"جی آپی۔۔۔لیکن ابھی کچھ وقت لگے گا۔"
غزنوی نے ایمان کو اٹھ کر نیچے جاتے دیکھا۔
"سب ٹھیک ہے نا غزنوی؟"
پرخہ نے اسکی نظروں کا پیچھا کیا۔
"جی آپی سب ٹھیک۔۔"
وہ مسکرایا۔۔
"بہت اچھا فیصلہ ہے۔۔۔مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔پتہ نہیں یہ شگفتہ ابھی تک چائے کیوں نہیں لے کر آئی۔۔میں دیکھتی ہوں۔"
پرخہ نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے اٹھی اور سیڑھیاں اتر گئی۔۔غزنوی نے ایک نظر ان سب پہ ڈالی جو سر جوڑے کسی پلاننگ میں مصروف تھے۔۔ہادی اور مصطفیٰ وہاں موجود نہیں تھے۔وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر کر اپنے کمرے میں آ گیا۔
اسی لمحے ملائکہ اعلان کرتی چھت پہ آئی۔اسکے پیچھے ایمان، سحرش اور پرخہ بھی تھیں۔وہ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔۔
"چاند مبارک ہو محترمہ۔۔"
غزنوی سب کو باتوں میں مصروف دیکھ کر کرسی پہ بیٹھی ایمان کیطرف آیا۔
"آپکو بھی مبارک ہو۔"
ایمان نے اسے بھی مبارکباد دی۔۔غزنوی کرسی اسکے قریب گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
"انکل کہاں ہیں؟"
غزنوی کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا بات کرے تو اس نے رشید خان کے متعلق پوچھا۔
"وہ داجی کی کمرے میں ہیں۔"
وہ اپنے ہاتھوں پہ نظریں جمائے بولی۔
"غزنوی میں نے سنا ہے کہ تم بزنس یہیں سیٹل کرنے سوچ رہے ہو؟"
بھائی میں تو آہستہ ہی بول رہا تھا۔"
وہ اپنے اونچا بولنے پر پچھتایا۔۔مصطفی واپس سے ہادی اور غزنوی کی طرف متوجہ ہو گیا۔فیروز ان کے مصروف ہونے پر مرتضیٰ کے پیچھے آیا۔
"ویسے کیا گفتگو ہو رہی ہے؟"
مرتضیٰ نے لاریب سے پوچھا۔
"آپ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی۔"
لاریب کو مرتضیٰ کی مداخلت پسند نہیں آئی۔
"وہ دن کب آئے گا جب تم میرے بارے میں گفتگو کرو گی۔"
"کبھی نہیں۔۔"
وہ رخ پھیر گئی۔
"اوئے اعلان ہو گیا ہے کل عید ہے۔"
مرتضیٰ نے فیروز کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔"
فیروز بھی شکل پہ بیچارگی سجاتے ہوئے بولا۔
"بس حد ہوگئی۔۔میں تو چاند کے پاس جا رہا ہوں۔"
مرتضیٰ نے فیروز کو آنکھ ماری اور کچھ فاصلے پہ کھڑی فائقہ اور لاریب کی طرف بڑھ گیا۔
"او تُو اتنا خبیث ہو گا، مجھے اندازہ نہیں تھا۔"
فیروز نے با آواز بلند کہا تو لاریب اور فائقہ نے، جو نجانے کیا کھسر پھسر کر رہی تھیں اسکی طرف دیکھا۔
"فیروز تم تھوڑا آہستہ نہیں بول سکتے ہو، جب دیکھو حلق پھاڑتے رہتے ہو۔"
وہیں کچھ فاصلے پہ غزنوی، مصطفی اور ہادی بیٹھے ہوئے تھے۔۔غزنوی نے اپنا بزنس یہیں سیٹل کرنے کا سوچ لیا تھا اور وہ ہادی سے ساتھ چلنے کے لئے کہہ رہا تھا۔فیروز کے اونچا بولنے پہ مصطفیٰ جو بغور غزنوی کی بات سن کر اسے مشورہ دے رہا تھا، اسکی طرف دیکھ کر بولا۔
کہہ تو تُو ٹھیک رہا ہے۔جب وہ وہاں ہے تو ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔"
بادشاہ خان اٹھ کھڑا ہوا۔
"خان ابھی؟"
جانس خان نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔
"نہیں۔۔۔صبح آ جانا۔"
یہ کہہ کر بادشاہ خان اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔اسکے جانے کے بعد جانس خان وہیں چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ ______________________________________________
افطاری کے بعد وہ ساری ٹولی چھت پہ چاند تلاش کرنے پہنچ چکی تھی، لیکن چاند کی تلاش کم اور ایک دوسرے پہ فقرے زیادہ کَسے جا رہے تھے۔
"یار لگتا ہے کل بھی روزہ ہے۔"
مرتضیٰ نے فیروز کے کندھے پہ ہاتھ ہوئے بولا۔
"خان خان۔۔۔!"
جانس خان دوڑتا ہوا چارپائی کے پاس پہنچا، جس پہ بادشاہ خان لیٹا ہوا تھا۔اسکی سانس پھولی ہوئی تھی۔
"کیا آفت آ گئی ہے۔"
بادشاہ خان ناگواری سے اسکی جانب دیکھتا اٹھ بیٹھا۔
"خان گیدڑ شہر میں ہی چھپا بیٹھا ہے۔۔اعظم احمد کے گھر میں اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔وہیں رہے گا۔"
جانس خان نے کچھ دیر اپنی پھولی سانسوں پہ قابو پایا اور پھر گل شیر کی بتائی ساری بات بادشاہ خان کو بتا دی۔
"پکی خبر ہے؟ یہ نہ ہو کہ وہ حویلی میں چھپا بیٹھا ہو۔"
بادشاہ خان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"خان ایک دم پکی خبر ہے۔گل شیر نے بتایا کہ رشید خان گل خان کے ساتھ گیا ہے۔اب حویلی کے اندر کی خبر ہے، جھوٹ کیسے ہو سکتی ہے۔"
جانس خان نے بادشاہ خان کے چہرے پہ سوچ کی گہری ہوتی لکیروں کو دیکھکر کہا۔
"بہت اچھے بھئی بہت اچھے۔۔"
لاریب نے فائقہ کی طرف دیکھ کر آنکھیں گھماتے ہوئے کہا تو فائقہ نے اسکے کندھے پہ مکا جڑ دیا۔شگفتہ بھی دونوں کی شامت آنے پر ہنس رہی تھی۔
"شگفتہ بیگم۔۔۔تمھارے دانت کیوں اتنے نکل رہے ہیں۔"
لاریب اور فائقہ اب شگفتہ کے سر پہ کھڑی تھیں۔
"باجی۔۔۔آپ دونوں بوا جی سے پنگا نہ لیا کرو۔۔۔پتہ بھی ہے آپ کو ان سے پنگا چنگا نہیں ہوتا۔"
شگفتہ نے دونوں کو باری باری دیکھا۔
"تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔ہم سے پنگا نہ لو ورنہ چنگا نہیں ہو گا اور زرا یہ اپنے پیلے دانتوں کی نمائش بند کرو، جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ۔"
فائقہ نے اسکے ہاتھ سے چمچہ لیا۔
"ہا ہائے باجی۔۔"
شگفتہ نے منہ بنایا تو وہ دونوں ہنس دیں۔
ایمان آنچ دھیمی کرتے ہوئے بولی۔
"ائے میں آرام کرنے کا کہہ رہی ہوں۔۔جاؤ شاباش اپنے کمرے میں جاؤ۔۔یہ دونوں ہیں شگفتہ کی مدد کرنے کے لئے۔۔کیوں بہو میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟"
خیرن بوا نے ساتھ بیٹھتی شمائلہ بیگم سے پوچھا۔
"جی بوا۔۔۔ایمان بوا ٹھیک کہہ رہی ہیں کچھ دیر ریسٹ کر لو۔۔"
شمائلہ بیگم نے خیرن بوا کی تائید کی۔
"جی۔۔۔"
ایمان مختصراً کہتی کچن سے نکل گئی۔
"میں بھی تھوڑا آرام کر لوں۔"
لاریب بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم اور فائقہ، شگفتہ کی مدد کرو۔۔چلو بہو باہر چلتے ہیں، اس موئی کرسی پہ بیٹھے بیٹھے میری کمر اکڑ گئی ہے۔"
"بُوا مجھے سارے کام کرتی ہوں۔"
فائقہ نروٹھے انداز میں خیرن بوا کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔
"ائے ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا تمھیں کام کرتے۔جب بھی ہم گئے موئی کتاب ہی منہ کو لگا رکھی ہوتی ہے تم نے۔"
بوا مصروف انداز میں بولیں۔۔شمائلہ بیگم اور ایمان نے فائقہ کے یوں پکڑے جانے پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
"آپکو کیا پتہ بوا۔۔آپ تو یہاں ہوتی ہیں۔"
فائقہ روٹھی روٹھی بولی جبکہ اس کے سامنے بیٹھی لاریب نے اپنی جان چھوٹنے پر شکر کا کلمہ پڑھا۔
"ایمان تم جا کر تھوڑا آرام کر لو۔۔باقی کا کام فائقہ دیکھ لے گی۔"
بوا نے فائقہ کا امتحان لینا ضروری سمجھا۔۔جبکہ فائقہ منہ کھولے بوا کو دیکھنے لگی۔
"بوا میں کر لوں گی۔"
ایمان آنچ دھیمی کرتے ہوئے بولی۔
خیرن بوا نے اسکے ہاتھ سے ٹہنی لے کر ٹوکری میں رکھی۔
"اسے آپ لونڈی کہا کریں بُوا۔۔"
لاریب نے منہ کھولا ہی تھا کہ کچن میں داخل ہوتی فائقہ نے کہا اور بوا کے کرسی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔
"اے بی بی تم تو رہنے ہی دو۔۔۔اور ہاتھ بٹاؤ آ کر۔۔ڈھیسلا کی ڈھیسلا کبھی وہاں گری تو کبھی یہاں۔۔پرائے گھر جا کر ہماری ناک ہی کٹواو گی۔"
خیرن بوا نے فائقہ کو گھورا۔۔لاریب ہنسنے لگی جبکہ فائقہ اس عزت افزائی پہ منہ ٹیڑھا کرتی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
آج آخری روزہ تھا۔افطاری میں اچھا خاصا اہتمام کیا گیا تھا۔سبھی ایک بار پھر مکرم احمد کے پورشن میں جمع تھے اس لئے آج کافی چہل پہل تھی۔ایمان، ملائکہ اور شمائلہ بیگم افطاری کی تیاری کر رہی تھیں۔خیرن بوا بھی وہیں موجود دھنیا صاف کر رہی تھیں۔وہ بڑی توجہ سے دھنیے کی ایک ایک ٹہنی سے ایک ایک پتی الگ کر کے پاس رکھی چھوٹی سی نیلی ٹوکری میں ڈالتی جا رہی تھیں۔ساتھ ہی ساتھ زبان پہ کسی کلمے کا ورد بھی جاری تھا۔
"ہائے بوا آج آخری روزہ ہے۔"
لاریب دھم سے آ کر خیرن بوا کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
"ائے ہائے۔۔۔لونڈیاء۔۔۔کیا ہر وقت اچھل کود کرتی رہتی ہو۔۔"
خیرن بوا نے لاریب کو ناگواری سے دیکھا۔
"اُفففف بوا۔۔میں نے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے لونڈیا مت کہا کریں۔"
لاریب نے ٹوکری سے دھنیے کی ٹہنی اٹھائی۔
"اے ہے۔۔لونڈیا نہ کہوں تو کیا لونڈا کہوں؟"
تو کسی کو تو پتہ ہو گا مگر کوئی بھی زبان نہیں کھول رہا۔"
جانس خان، بادشاہ خان کے قریب آیا۔
"تو پھر کہاں دفعان ہو گیا ہے۔"
بادشاہ خان بجلی کی طرح جانس خان پر جھپٹنے کو آگے ہوا مگر جانس خان نے فوراً پیچھے ہٹ کر اپنا بچاؤ کیا۔
"خان ایک خیال آیا ذہن میں۔۔۔کہیں وہ حویلی میں تو چھپا نہیں بیٹھا۔"
جانس خان کے دماغ میں حویلی کا خیال آیا۔
"ہو سکتا ہے۔۔جا معلومات کر جا کے۔۔۔اور ہاں پکی خبر نہ لایا تو وہیں مردان خانے میں زندہ گاڑ دوں گا۔"
بادشاہ خان نے جانس خان کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکے سے چھوڑا۔وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور کچھ فاصلے پہ جا گرا۔۔بادشاہ خان نے کندھے پہ پڑا سفید صافہ جھاڑ کر دوبارہ کندھے پہ جمایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔اسکے جانے کے بعد جانس خان کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔ن
بادشاہ خان اب غصے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہیں سے بھی رشید خان کو پکڑ کر اپنے سامنے لا کھڑا کرے اور اس کے ہوش ٹھکانے لگا دے۔
دو دن سے لگاتار وہ دونوں رشید خان کے گھر کے چکر پہ چکر لگا رہے تھے، کبھی رات گئے اور کبھی دن چڑھے۔۔مگر رشید خان ان کے ہاتھ نہ آیا۔جیل سے چھوٹتے ہی وہ رشید خان کو سبق سکھانا چاہتا تھا، جس کی وجہ سے وہ دو دن جیل کی ہوا کھا کر آیا تھا، مگر ایس ایچ او کرم داد نے اسے منع کر دیا تھا کہ ابھی کچھ دن گاؤں والوں کی نظروں سے اوجھل رہے اور نا ہی اپنا جُوے کا اڈا کھولے۔۔ایک دو دن جیسے تیسے صبر کے گھونٹ پی کر اس نے جانس خان کو رشید خان کے بلانے بھیجا مگر رشید خان کے گھر پہ تالا لگے دیکھ کر جانس خان واپس آ گیا۔۔
"کسی سے پوچھ تو سہی۔۔۔آخر کہاں غائب ہو گیا ہے، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ہے۔۔
"خود ہی کھائے۔۔۔اب میں اسکے یہ نخرے بھی اٹھاؤں۔"
وہ جو پہلے ہی جلی بھنی بیٹھی تھی کپ ڈیش بورڈ پہ رکھ کر بڑبڑائی۔
"ارے۔۔۔کھلاو بھی پگھل جائے گی۔"
وہ اسے کپ ڈیش بورڈ پہ رکھتے دیکھ کر بولا۔۔ایمان غصے سے اسکی طرف دیکھکر رخ پھیر گئی۔وہ ڈرائیونگ کی طرف متوجہ تھا مگر اسکے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔ایمان کو ڈھیٹ بنے بیٹھے دیکھ کر وہ دل میں ابھری خواہش کو دباتا۔۔۔گاڑی کی رفتار دھیمی کرتا کپ اٹھا کر بقیا آئسکریم کھانے لگا۔
"کمبخت کہاں مر گیا؟"
بادشاہ خان نے بند دروازے پہ اپنے جوتے کی چھاپ چھوڑی۔
"خان میں تو کہتا ہوں۔۔دفع کرو اس کمینے کو۔۔ڈرپوک تھا۔۔جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ شیر پنجرے سے باہر آ گیا ہے تو سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گیا۔۔جگر والا ہوتا تو یوں دُم دبا کر نہ بھاگتا۔۔مجھے تو لگتا ہے شہر بھاگ گیا ہے۔"
اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ بڑھاتی غزنوی نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔۔وہ دل مسوس کر رہ گئی۔
"اففف ۔۔۔کسقدر ٹریفک ہے۔۔سنو۔۔۔!!"
تھوڑی دیر بعد غزنوی کی آواز گاڑی میں گونجی۔۔وہ جو ابھی آئسکریم پہ فاتحہ پڑھ کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ غزنوی کے پکارنے پر اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
"یار یہاں سے گاڑی فوراً نکالنی ہے۔۔اب میں آئسکریم کھاؤں یا ٹریفک سے گاڑی نکالوں۔۔تمھارے ہاتھ فری ہیں آئسکریم ہی کھلا دو۔"
غزنوی نے کپ اسکی طرف بڑھایا جبکہ ایمان اسے حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
"پکڑو نا یار۔۔۔تم مت کھانا، مجھے کھلاؤ۔"
غزنوی نے اسے ساکت بیٹھے دیکھ کر کہا۔۔ایمان نے کپ اسکے ہاتھ سے لے لیا۔۔اس نے کپ میں جھانکا۔۔
"ساری تو چٹ کر گیا ہے۔"
ایمان نے تھوڑی سی بچی ہوئی آئسکریم کو دیکھکر سوچا۔غزنوی نے گاڑی کی رفتار بڑھائی۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain