Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

غزنوی چھوڑو اسے۔۔"
اعظم احمد نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔شور سن کر گھر کے باقی مرد بھی وہاں آ گئے تھے۔مصطفی نے آگے بڑھ کر غزنوی کو پکڑا لیکن غزنوی کب قابو میں آ رہا تھا اب وہ لاتوں سے بادشاہ خان کی ہڈی پسلی ایک کرنے پہ تلا ہوا تھا جبکہ وہ اتنی مار کھانے کے باوجود مسلسل منہ سے مغالظات بک رہا تھا۔تبھی تو غزنوی کے ہاتھ نہیں رک رہے تھے۔وہاں موجود سبھی نے اس کے منہ سے نکلتے زہر کو سنا تھا۔اعظم احمد تو اسے روکنے کی کوشش میں ہانپنے لگے تھے۔رشید خان نے ان کی حالت غیر ہوتے دیکھ کر انہیں صوفے پہ بٹھایا۔
"غزنوی چھوڑو اسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔۔خود ہی سچ بول دے گا۔"
ہادی اور مصطفیٰ نے غزنوی کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑا۔وہ ہاتھ چھڑاتا وہاں سے باہر نکل گیا۔

Mirh@_Ch
 

اس نے اور اس کی بیٹی نے مجھے پھنسایا اور جب میرا پیسہ ہڑپ گئے تو آپ کو پھانس لیا اپنی چالبازی بیٹی کے ساتھ ملکر۔۔اسکی بیٹی تو یہی کام کرتی تھی۔۔۔گاؤں کے مردوں کو رجھانے کا۔۔۔۔"
"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ اپنی زبان سے مزید زہر اُگلتا غزنوی نہایت غضبناک انداز سے اسکی طرف لپکا اور گریبان سے پکڑ کر اسکے چہرے پر پے در پے تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی۔بادشاہ خان کو سنبھلنے تک کا موقع نہ مل سکا۔اعظم احمد اور رشید خان فوراً غزنوی کو روکنے کو آگے بڑھے جبکہ جانس خان تو بادشاہ خان کا تھپڑوں سے سرخ چہرہ دیکھ کر ہی پیچھے ہٹ گیا تھا حالانکہ وہ ابھی بادشاہ خان کی بات پہ مہر لگانے ہی والا تھا مگر بادشاہ خان کی حالت دیکھ کر چپ کر گیا۔اسے اس شہری لڑکے سے ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ یوں بپھر جائے گا۔بادشاہ خان نے تو اسے کہا تھا

Mirh@_Ch
 

بادشاہ خان سے دوبارہ مراسم بڑھائے، مجھے اطلاع ملتی رہی مگر میں خاموش رہا اور تم سے کوئی سوال و جواب نہیں کیا کہ تمھاری زندگی ہے تم اچھے برے میں تمیز کر سکتے ہو، لیکن تم تو وہیں کہ وہیں کھڑے ہو۔۔لوگ صحیح کہتے ہیں کہ جواری کبھی جوا کھیلنے سے باز نہیں آتا۔"
اعظم احمد افسوس بھرے لہجے میں بولے۔
"داجی یہ سب جھوٹ ہے۔۔میں نے اگلے دن ہی اسے پیسے واپس کر دیئے تھے۔"
رشید خان نے اعظم احمد کی آنکھوں میں اداسی کی لکیر دیکھی تو ان کی طرف بڑھا۔
"تو پھر یہ سب کیا ہے؟"
اعظم احمد نے اس سے سوال کیا۔
"داجی میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے پیسے دے دیئے تھے۔"
رشید خان نے ایک نفرت بھری نظر بادشاہ خان پہ ڈالتے ہوئے اعظم احمد سے کہا۔
"اچھا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔داجی اس بے غیرت شخص کی بات کا یقین نہ کریں۔

Mirh@_Ch
 

رشید خان نے جانس خان کو دیکھا جسکے تیور بھی بادشاہ خان سے کم نہیں تھے۔
"جھوٹ مت بولو رشید خان۔۔بادشاہ خان کی ساری وصولی میں کرتا ہوں اور کئی بار تمھارے پاس بھی آیا تھا پیسے لینے لیکن تم تو یہاں بھاگ آئے۔اس دن بھی اگر میں نہ روکتا بادشاہ خان کو تو تم اس وقت یہاں کھڑے جھوٹ نہ بول رہے ہوتے۔مجھے اس میں مت گھسیٹو، اور سچ بات تو یہ ہے کہ تم نے پیسے دیئے ہی نہیں۔"
جانس خان کہاں کم تھا، اس نے رشید خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔بادشاہ خان نے جانس خان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں شاباش دی جبکہ غزنوی اور اعظم احمد ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔
"رشید خان مجھے بہت افسوس ہوا کہ اتنی ٹھوکریں کھا کر بھی تم میں کوئی سدھار نہ پیدا ہوا۔میں نے تمھیں پیسے دیئے تھے کہ تم اس شخص سے اپنی جان چھڑاؤ۔۔تم نے زمین پہ جانا چھوڑا، م ،

Mirh@_Ch
 

کون سے پیسے؟ میں تمھیں تمھارے سارے پیسے لوٹا چکا ہوں۔"
رشید خان بیٹھتے بیٹھتے اٹھ کھڑا ہوا۔اسکے چہرے پہ حیرانی کی جگہ اب پریشانی نے لے لی تھی۔
"وہی پیسے۔۔جو تم جوے میں ہار گئے تھے۔جس کے بدلے تم نے اپنی۔۔۔۔"
بادشاہ خان نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔اس نے دیکھا غزنوی کے ماتھے پہ لکیر سی ابھر آئی تھی۔
"تم پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔میں تمھیں تمھارے سارے پیسے لوٹا چکا ہوں۔مجھ پہ تمھارا کوئی قرض نہیں۔داجی یہ جھوٹ بول رہا۔میں اسے پیسے دے چکا ہوں۔"
رشید خان نے پلٹ کر اعظم احمد کو دیکھا۔
"تمھارے پاس کیا ثبوت ہے؟"
بادشاہ خان نے ڈھٹائی کی حد کر دی جبکہ رشید خان تو حیران پریشان اسکا منہ تک رہا تھا۔
"بکواس مت کرو بادشاہ خان۔۔۔میرے پاس ثبوت نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھ پہ چڑھ دوڑو۔۔

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد نے غزنوی سے کہا تو وہ ایک غصیلی نظر بادشاہ خان پہ ڈالتا کمرے سے نکل گیا۔بادشاہ خان نے جانس خان کو دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔کچھ دیر بعد رشید خان غزنوی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
"ارے رشید خان۔۔۔کیسے ہو؟ بڑی صحت بنا لی ہے۔"
بادشاہ خان، رشید خان کی طرف یوں بڑھا جیسے دونوں میں بڑی گہری دوستی ہو لیکن رشید خان اس سے سرد انداز میں ملا۔
"تم یہاں کیسے؟"
رشید خان نے ایک نظر سنجیدہ بیٹھے اعظم احمد کو دیکھا اور پھر بادشاہ خان سے پوچھا۔اسے کمرے کی فضاء کچھ عجیب سی محسوس ہوئی۔
"میں اپنے پیسے لینے کے لئے آیا ہوں، پہلے تمھارے گھر گیا وہاں تالا لگا تھا۔وہیں لوگوں سے پتہ چلا کہ تم شہر گئے ہو تو میں یہاں آ گیا۔"
بادشاہ خان نے اپنی بات کے اختتام پر رشید خان کے چہرے کا رنگ اُڑتے دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

رشید خان نے مجھے کوئی پیسے نہیں دیئے۔وہ تو ہمیشہ ٹالتا رہا۔پچھلی بار بھی جب ملا تھا تو میں نے اپنے پیسے مانگے تھے، اس نے انکار کیا تو غصے میں آ کر مجھ سے وہ سب ہو گیا۔آپ اسے بلا کر پوچھ لیں۔"
بادشاہ خان نے ترچھی نظروں سے غزنوی کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا۔اسکے لبوں سے ایک پل کے لئے بھی طنزیہ مسکراہٹ الگ نہیں ہوئی تھی۔بادشاہ خان کو غزنوی کا سرخ چہرہ مزا دے رہا تھا۔
"داجی یہ بکواس کر رہا ہے۔آپ مجھے ڈیل کرنے دیں اسے۔ہم نے پیسے دیئے تھے اور مجھے یقین ہے کہ رشید انکل نے بھی پیسے دے دیئے ہوں گے۔"
غزنوی ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا۔اسکا جی چاہ رہا تھا کہ اسکے مزاج ٹھکانے لگا دے۔
"داجی اپنے پوتے کو سمجھاؤ۔۔میں زیادہ برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوں۔"
بادشاہ خان بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔

Mirh@_Ch
 

اس نے کہا تھا کہ وہ عید کے بعد میرے پیسے لوٹا دے گا۔"
بادشاہ خان نے صفائی سے جھوٹ بولا۔
"کون سے پیسے؟"
اعظم احمد نے حیرت سے بادشاہ خان کیطرف دیکھا۔
"وہی جن کے بدلے اس نے مجھ پہ اپنی بیٹی کو بیچا تھا۔"
بادشاہ خان نے ایک اچٹتی نظر اعظم احمد کے ساتھ بیٹھے غزنوی پر ڈالی اور طنزیہ انداز میں بولا۔غزنوی اسکے الفاظ سن کر فورا اسکی جانب لپکا تھا مگر اعظم احمد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے بڑھنے سے روکا۔برا تو ان کو بھی لگا تھا مگر برداشت کر گئے کیونکہ وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ پیسوں کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔
"زبان سنبھال کر بات کرو بادشاہ خان۔"
اعظم احمد نے سرد لہجے میں کہا۔
"میں نے وہ پیسے رشید خان کو دے دیئے تھے تاکہ تمھیں لوٹا دے، غزنوی بھی وہاں موجود تھا۔تو اب کون سے پیسے لینے آ گئے؟"
اعظم احمد نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

بادشاہ خان کی زبان کچھ اور ، اور آنکھیں کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔جانس خان بچہ تو تھا نہیں کہ اس کی حالت نہ سمجھ سکتا۔
ابھی انھیں وہاں بیٹھے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ وہی چوکیدار گھر کے اندر سے کھلتے دروازے سے اندر داخل ہوا۔اسکے ہاتھ میں ٹرے تھی جسے وہ خاموشی سے ان کے سامنے رکھ کر واپس چلا گیا تھا۔
چند منٹ بعد اعظم احمد کمرے میں داخل ہوئے غزنوی بھی ان کے پیچھے تھا۔اعظم احمد کو آتے دیکھ کر جانس خان اور بادشاہ خان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"کہو بادشاہ خان کیسے آنا ہوا؟"
اعظم احمد صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بولے۔ان کی نظریں بادشاہ خان کے چہرے پہ تھیں۔یہ ان کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔وہ کبھی یہاں نہیں آیا تھا مگر آج اسکا یہاں موجود ہونا انھیں کسی انہونی کا احساس دلا رہا تھا۔
"داجی۔۔! میں رشید خان سے ملنے آیا

Mirh@_Ch
 

اوئے جا کر اعظم احمد سے کہو کہ گاؤں سے بادشاہ خان آیا ہے۔"
بادشاہ خان نے چوکیدار کو ڈھیٹ بنے دیکھ کر تُند لہجے میں کہا۔
"ٹھیک ہے یہاں کھڑے رہو۔"
چوکیدار بادشاہ خان کے انداز سے زرا متاثر نہ ہوا اور دونوں کو کڑی نظروں سے گھورتا اندر چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد اسکی واپسی ہوئی۔اس نے انھیں کڑی نظروں کے گھیرے میں اندر آنے کا راستہ دیا۔پھر دونوں کو لئے گھر کے ساتھ ملحق ایک کمرے میں لے آیا۔یہ ایک مہمان خانہ تھا۔اعظم احمد شہر آنے کے باوجود اپنی روایات نہیں بھولے تھے۔کمرہ گھر والوں کی سادہ طبیعت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
"بیٹھو۔۔۔وہ آتے ہیں۔"
چوکیدار نے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور دروازہ بند کرتا وہاں سے چلا گیا۔
"گھر تو بڑا شاندار ہے۔"
جانس خان نے تائید طلب نظروں سے بادشاہ خان کی طرف دیکھا جو خود بھی کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

جانس خان بھی ساتھ بیٹھ گیا۔دونوں کھانا کھانے کے دوران منصوبہ بندی کرتے رہے کہ وہاں جا کر کیا کیا کہنا ہے۔کھانا کھانے کے کچھ دیر وہ دونوں چائے پینے اسی ہوٹل میں آئے جہاں سے جانس خان کھانا لاتا تھا۔وہاں سے اٹھے تو گھڑی چار بجے کا وقت بتا رہی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ اعظم ولا کے سامنے کھڑے تھے۔بادشاہ خان نے ایک نظر گھر پہ ڈالی اور پھر جانس خان کو اشارہ کیا۔وہ گاڑی سے اترا اور ڈور بیل بجائی۔کچھ دیر بعد چوکیدار باہر آیا۔
"کون ہو تم؟"
چوکیدار نے سر تا پیر جانس خان کو جانچتی نظروں سے دیکھا اور پوچھا۔
"جاؤ اپنے صاحب سے کہو کہ بادشاہ خان آیا ہے۔"
جانس خان نے جیپ کی طرف اشارہ کیا۔
"کون بادشاہ خان؟"
چوکیدار نے پوچھا۔اسی دوران بادشاہ خان جیپ سے اتر کر ان کی طرف آیا۔چوکیدار نے بادشاہ خان کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے اسکی پیشانی کو اپنے لبوں سے چُھوا تھا۔
آج چار دن ہو گئے تھے بادشاہ خان اور جانس خان کو شہر آئے ہوئے۔وہ دونوں شہر کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔جب سے آئے تھے دونوں زیادہ تر وقت ہوٹل میں ہی گزار رہے تھے، صرف کھانا کھانے کے لئے ہی باہر آتے یا پھر صرف جانس خان کھانا لینے آتا تھا۔
"خان ہم اور کتنے دن یہاں رہیں گے۔جس کام کے لئے آئے تھے وہ ابھی تک نہیں کیا۔"
جانس خان نے ہاتھ میں پکڑی کھانے کی ٹرے بادشاہ خان کے سامنے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔۔میں بھی سوچ رہا ہوں کہ جس کام کے لئے یہاں آئے وہ آج کر لیا جائے، چل کھانا کھا۔۔پھر چلتے ہیں اعظم احمد کے گھر۔۔۔اسے بھی تو پتہ چلے کہ کس چور کو گھر میں پناہ دے رکھی ہے اس نے۔"

Mirh@_Ch
 

ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی
تجھے میں پابندِ نگاہ کر لوں
نہ تُو کسی اور کو دیکھے
نہ ہی کوئی تجھکو دکھائی دے
جو تیری آنکھ کے آئینے میں
ذرا سا جھانک کر دیکھے
تو عکس میرا دکھائی دے
تُو بس مجھ کو ہی دیکھے
میں بس تُجھ کو دکھائی دوں۔۔۔"
غزنوی اسکی آنکھوں میں دیکھتا گنگنایا۔ایمان نظریں جھکا گئی تھی۔

Mirh@_Ch
 

ارے ارے میری بھولی بیگم۔۔"
غزنوی نے اسے روکا۔
"تم نے بھی تو مجھے آئسکریم نہیں کھلائی تھی۔"
وہ بھی چہرے پہ ناراضگی سجاتا گویا ہوا۔ایمان کو اسکی آنکھوں میں شرارت چمکتی صاف نظر آ رہی تھی۔وہ خاموشی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔
"تیری آنکھیں پسند مجھ کو
اکثر میں یہ کہتا ہوں
میرا دل یہی چاہتا ہے

Mirh@_Ch
 

غزنوی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا گھمبیر لہجے میں بولا۔اسکے لفظوں کی سچائی اسکی آنکھوں سے بھی بیاں ہو رہی تھی۔
"اور وہ جو بار بار سب کے سامنے آپ میری انسلٹ کرتے ہیں۔۔وہ کون سی محبت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔"
ایمان نے دو ٹوک انداز اپنایا۔
"میں نے کب کہا کہ مجھے تم سے محبت ہے؟"
وہ پھر سے پٹری سے اترا۔ایمان نے اسے ناراضگی بھری نظروں سے دیکھا۔
"ہاہاہاہا۔۔"
ایمان کے اسطرح دیکھنے پہ غزنوی کا قہقہ بلند ہوا۔ایمان کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔اس نے پلکیں جھپک جھپک کر اس نمکین پانی کو پیچھے دھکیلا۔
"بہت برے ہیں آپ۔۔"
ایمان نے اپنے کندھے سے اسکے ہاتھ جھٹکے سے پرے ہٹائے اور وہاں سے جانے لگی۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے اسکے کندھے پہ ٹھوڑی ٹکائی۔۔ایمان کے ملبوس سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو اسکی کی سانسوں کو معطر کیے دے رہی تھی۔
"یہی کہ میں داجی کی چوائس ہوں اور آپ کو۔"
ایمان نے کہا تو غزنوی نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا۔
"یار تمھیں اب بھی لگتا ہے کہ تم صرف داجی کی چوائس بن کر رہ گئی ہو۔ویسے کمال کی بات ہے اگر تم ایسا سمجھتی ہو۔"
وہ اسکی بھوری آنکھوں میں جھانکتا بولا۔ایمان کی ناراض آنکھوں میں دکھتا اپنا عکس اسکے لبوں پہ مسکراہٹ لے آیا۔
"ویسے اتنی بیوقوف لگتی تو نہیں ہو۔"
وہ پھر سے شرارتی موڈ میں آیا۔
"اب آپ مجھے بیوقوف کہہ رہے ہیں۔"
وہ دکھ سے بولی۔غزنوی کی صبح کہی گئی بات نے اسے واقعی تکلیف پہنچائی تھی۔جسکے باعث وہ اسکے سامنے آنے سے گریز برت رہی تھی۔
"تم میرے دل کے کسقدر قریب ہو، کیا تم یہ نہیں جانتی؟"

Mirh@_Ch
 

مگر میں تو چاہتا ہوں کہ تمھیں عیدی دوں۔"
ویسی ہ ساکت کھڑی رہی۔غزنوی کی یہ پیش قدمی اسکے لئے حیرانی کا باعث نہیں تھی اور دوسری جانب غزنوی کو ایمان کی خاموش رضامندی خوشگواریت کا احساس دلا رہی تھی۔
"اچھا۔۔۔یہ کایا پلٹ کیسے۔۔اس دن تو میرے انکار کو آپ نے ایک جانب ڈال دیا تھا۔"
ایمان نے اسے آئسکریم والا واقعہ یاد دلایا۔۔۔انداز نروٹھا تھا۔غزنوی کو اس کے انداز پہ ہنسی تو بہت آئی مگر کنٹرول کر گیا۔
"اور کوئی شکایت؟"
وہ اسکے کان کے قریب گنگنایا۔
"اور ابھی کچھ دیر پہلے کیا کہا تھا آپ نے۔"
ایمان کا انداز ابھی بھی ناراض ناراض سا تھا۔
"کچھ دیر پہلے کیا کہا تھا؟"

Mirh@_Ch
 

شمائلہ بیگم نے اس سے کہا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسکے لئے چائے بنانے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں زرا اس شگفتہ کو دیکھ لوں۔"
وہ اس سے کہتیں کمرے سے نکل گئیں۔چائے بنا کر وہ اوپر کمرے میں آئی تو غزنوی بیڈ پہ نیم دراز، موبائل میں مصروف تھا۔ایمان نے بنا اسے مخاطب کیے چائے کا کپ خاموشی سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور پلٹ کر جانے لگی۔
"رُکو۔۔۔!"
وہ بیڈ سے اتر کر اسکے سامنے آیا۔ایمان اسکی طرف دیکھتی اسکے بولنے کی منتظر رہی۔
"عیدی نہیں لو گی اپنی؟"
وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا قریب ہوا۔
"مجھے نہیں چاہیئے۔۔صبح جو سب کے سامنے عیدی ملی، وہی کافی ہے میرے لئے۔"
وہ رُوکھے پن سے کہتی رخ پھیر گئی۔

Mirh@_Ch
 

وہ قریب آیا اور ایمان پہ نظریں جمائے شمائلہ بیگم سے بولا۔ان کی پیٹھ تھی اسکی طرف۔اسے ماں کے سامنے اور کوئی بہانا نہ سُوجھا تو چائے کا ہی کہہ دیا۔
"یہ کوئی وقت ہے چائے کا۔۔لنچ کا وقت ہے۔"
شمائلہ بیگم نے پلٹ کر بیٹے کو دیکھا۔
"بھوک نہیں ہے مجھے اور کیا اس وقت چائے پینے پر ممانعت ہے؟"
وہ جلے کٹے انداز میں بولا۔نظریں لاپرواہ بیٹھی ایمان پہ مرکوز تھیں۔
"مجھے چائے پینی ہے۔۔شگفتہ کہاں ہے اس سے کہیں کہ وہ بنا دے گی، آپ لوگوں میں سے کوئی زحمت نہ کرے۔"
غزنوی تٗندہی سے کہتا کچن سے نکل گیا۔
"ارے اسے کیا ہو گیا؟"
شمائلہ بیگم نے غزنوی کے اسطرح کچن سے نکل جانے پر ایمان کی جانب حیرانی سے دیکھا جبکہ وہ جواب میں صرف کندھے اُچکا کر رہ گئی۔
"جاؤ بیٹا۔۔چائے بنا کر لے جاؤ، ورنہ مزید موڈ خراب ہو جائے گا۔عید کے دن بھی یہ لڑکا آگ کا گولا بنا ہوا ہے۔"

Mirh@_Ch
 

صبح سے شام ہونے کو آئی تھی۔ایمان کے انتظار میں وہ کمرے میں موجود تھا۔صبح بھی جب وہ کمرے میں آیا تھا تو وہ روم میں نہیں تھی۔شاید وہ اسکی صبح والی بات کو لے کر ناراض تھی۔اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا تھا کہ اسے سب کے سامنے ایمان سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیئے تھی۔نجانے کیوں وہ سب ٹھیک کرنے بجائے سب بگاڑتا چلا جا رہا تھا۔اسکی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑاتا وہ اپنے کمرے میں آ گیا تھا مگر کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی جب وہ کمرے میں نہیں آئی تو غزنوی کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آیا۔لیکن وہاں بھی ایمان کے سواء سبھی موجود تھیں۔وہ کچن کیطرف آیا۔ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ وہیں موجود تھی۔شمائلہ بیگم کی کسی بات پہ ایمان کے مسکراتے لب غزنوی کو دیکھ کر سکڑے تھے۔اس کے کانوں میں اس کا صبح والا جملہ گونجا تو وہ نگاہیں پھیر گئی۔
"امی ایک کپ چائے بنا دیں۔"