Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

رات سے اسکے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔صبح بھی درد ویسے کا ویسے ہی تھا۔ناشتہ کرنے کے بعد اس نے ٹیبلیٹ بھی لی مگر درد میں کچھ فرق نہ پڑا۔چائے کی طلب نے اسے کچن میں لے آئی۔
"اچھا۔۔"
وہ ابلتے پانی کے نیچے آنچ دھیمی کرتی کچن سے نکل گئی۔سر کو ہلکے ہاتھ سے دباتے ہوئے وہ عقیلہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"آپ نے مجھے بلایا شاہ گل؟"
ایمان سست قدموں سے چلتی کمرے کے وسط میں آ کر رک گئی۔
"ہاں بیٹا۔۔یہاں آؤ۔۔"
انہوں نے اسکے لئے اپنے پاس جگہ بنائی۔وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"غزنوی سے بات ہوئی تمھاری؟"
شاہ گل نے اسکی سوجھی ہوئی آنکھوں کو بغور دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

رشید خان نے کیس واپس لے لیا ہے اور یہ جان کر وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔فون بند کرنے کے بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ہاں اور نہیں کی کشمکش میں وہ ریش ڈرائیونگ کرتا اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔اس وقت وہ ان دونوں باپ بیٹی کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔اسلام آباد پہنچنے کے بعد اسے گھر والوں کا خیال آیا تو اس نے مصطفیٰ کو فون کر کے اپنے اسلام آباد میں ہونے کا بتا دیا۔اس نے مصطفیٰ کو ایک ارجنٹ کام کا کہا تھا اور مصطفیٰ نے اس سے زیادہ باز پُرس نہیں کی۔
لیکن اب یہاں آ کر اسے افسوس ہو رہا تھا کہ وہاں رک کر وہ رشید خان سے پوچھ سکتا تھا کہ سچ کیا
ایمان باجی۔۔!! آپ یہاں ہیں؟ میں آپکے کمرے آپ کو تلاش رہی تھی۔وہ شاہ گل اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔"
وہ باورچی خانے میں اپنے لئے چائے بنا رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

تم نے سنا نہیں۔۔اس سے پہلے کہ میری برداشت ختم ہو اترو گاڑی سے۔"
بادشاہ خان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ دھاڑا۔
"چلتا ہوں۔"
بادشاہ خان گاڑی سے اتر گیا اور لنگڑاتا ہو اپنی جیپ میں سوار ہو گیا۔
"کیا ہوا خان۔۔؟ بڑی دیر بات ہوئی۔"
جانس خان نے جیپ اسٹارٹ کرتے ہوئے بادشاہ خان سے پوچھا۔
"بجھی ہوئی راکھ میں چنگاری اب بھی ہے۔میں ہوا دے آیا ہوں۔آگ بھڑکنے میں دیر نہیں اور وہ دونوں باپ بیٹی اس آگ میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔اب تماشا دیکھنا ہے کہ یہ غزنوی احمد ان کا کیا حال کرتا ہے۔"
بادشاہ خان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
جیپ وہاں سے جا چکی تھی اور وہ گاڑی میں ہی موجود تھا۔اسے یاد آیا کہ گاؤں کے تھانے کے ایس ایچ او کا نمبر اسکے پاس تھا۔ایک آخری امید پہ اس نے نمبر ڈائل کیا۔جہاں سے بادشاہ خان کی بات پر سچائی کی مہر لگا دی

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے اسکی جانب سے رخ پھیرا۔زبان سے تو اس نے کہہ دیا تھا کہ اسے اسکی بات کا یقین نہیں مگر دل و دماغ میں ایک جنگ سی چھڑ گئی تھی۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بادشاہ خان کا اس کیس سے چھوٹ جانا آسان نہیں تھا جبکہ اس کے گرفتار ہونے پہ اس کے خلاف گواہی دینے بہت سے لوگ آگے آئے تھے۔
"تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ جیل سے نکلنا اتنا آسان نہیں تھا۔"
بادشاہ خان نے نی طرف سے شک کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔
"نکلو یہاں سے۔"
غزنوی کی بھنویں اسکی بات سن کر غصے سے تن گئی تھیں۔وہ بولا تو اس کا انداز دوٹوک تھا۔
"جا رہا ہوں۔۔مگر اب تم مزید ان باپ بیٹی کے مکر و فریب میں مت آنا۔مجھے خود سے الگ کر کے اس نے اپنی بیٹی کو شامل کر لیا ہے کیونکہ بیٹی سے اسے کوئی دلی لگاؤ تو تھا نہیں اگر ہوتا تو وہ یوں اسے چند پیسوں کے عوض۔۔"

Mirh@_Ch
 

لیکن میں کیوں اسے عیش کرنے دیتا اور یہ جو تم میرے جیل سے چھوٹنے کی بات کر رہے ہو تو تمھاری اطلاع کے لئے بتا دوں کہ رشید خان کے ہی کہنے پر میں جیل سے آزاد ہوا۔"
اپنی بات کے اختتام پر بادشاہ خان نے غزنوی کے چہرے پہ پھیلتی حیرت دیکھ کر دل ہی دل میں خود کو شاباش دی۔
"میں تمھاری بات پہ کیوں یقین کروں؟"
غزنوی کی نگاہوں میں بے یقینی تھی۔
"تم چاہو تو ابھی میرے سامنے تھانے کال کر کے پوچھ سکتے ہو۔رشید خان نے نا صرف مجھے رہا کروایا بلکہ کیس بھی واپس لے لیا ہے یہ کہہ کر کہ وہ کوئی اور شخص تھا جس نے گولی چلائی جس کے ساتھ وہ اس دن جوا کھیل رہا تھا۔چاہو تو معلومات کر لو۔"
بادشاہ خان نے شک کی کنجی غزنوی کے ہاتھ میں تھمائی اور اپنا موبائل اسکی طرف بڑھایا۔
"اسکی ضرورت نہیں۔۔میں جانتا ہوں تم ہی نے اپنے آدمیوں کے ذریعے اس پہ دباؤ ڈالا ہو گا۔"

Mirh@_Ch
 

جھوٹ نہیں بولوں گا میں نے اور رشید خان نے ملکر تم لوگوں سے پیسے لینے کا پلان بنایا تھا۔پھر جب عمل کی باری آئی تو اس نے مجھے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا تبھی تو گرما گرمی میں میرے ہاتھ سے گولی چل گئی۔ایک تو مجھے میرے پیسے بھی نہیں لوٹائے اور اوپر لڑکی بھی ہاتھ سے۔۔۔"
بادشاہ خان اسکے تاثرات دیکھنے کے لیے ایک پل کو خاموش ہوا۔
"خبردار جو اپنی گندی زبان پہ اسکا نام بھی لایا۔"
اسکی بات سن کر غزنوی کا خون کھولنے لگا تھا۔
"ارے تم بیوقوف ہو۔۔وہ شامل ہے اپنے باپ کے ساتھ۔۔ساری عمر تمھیں لوٹنے کا پلان بنا رکھا ہے دونوں نے۔۔"
بادشاہ خان لوہا گرم دیکھکر مزید بولا۔اپنی بےعزتی کا بدلہ وہ کیونکر ہاتھ سے جانے دیتا۔
"میرا یہاں آنا اور پیسوں کی مانگ کرنا یہ سب ہمارے پلان کا حصہ تھا لیکن رشید خان نے مجھے دھوکہ دے

Mirh@_Ch
 

غزنوی احمد۔۔۔تمھارے اور تمھارے خاندان کے خلاف کتنی گہری سازش رچی گئی ہے تم سوچ بھی نہیں سکتے۔"
بادشاہ خان نے جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا۔
"تم نکلتے ہو یا میں پولیس کو فون کروں اور یہاں حوالات سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا تمھارے لئے اور نا ہی میں تمھیں نکلنے دوں گا۔"
غزنوی نے اسکی بات پہ کان نہ دھرے اور پولیس کی دھمکی دی۔
"کرو ضرور کرو فون لیکن میری پوری بات سننے کے بعد۔۔میں یہاں تم لوگوں کی آنکھوں سے معصومیت کی پٹی اتارنے آیا تھا، لیکن تم نے مجھے میری بات پوری کرنے ہی نہیں تھی۔میں تو حقیقت بتانے آیا تھا۔"
بادشاہ خان نے نہایت چالاکی سے اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنایا۔
"کیسی حقیقت؟؟"غزنوی چونک کر بولا۔
"اب کی ہے نا عقلمندوں والی بات۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ رشید خان ایک فراڈ اور نہایت چالباز شخص ہے۔یہ سارا پلان ہی اسکا تھا۔

Mirh@_Ch
 

"تم۔۔۔"
غزنوی قہر بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ بادشاہ خان نہایت پرسکون انداز میں بیٹھا اپنے دائیں ہاتھ سے بائی بازو دبا رہا تھا۔
"اس سے پہلے کہ میں اپنا آپا کھو دوں، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"غزنوی نے اس وارننگ دیتے ہوئے کہا۔
"مجھ سے تو جتنا نبٹ لیا اتنا کافی ہے، تم اب اپنے سسر اور بیوی سے نبٹو، جو تمھارے خلاف منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں۔انہیں کنٹرول کرو تو تمھارے لئے بہتر ہو گا۔"
بادشاہ خان نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔اس کا دماغ تیزی سے سازش کے تانا بانا بن رہا تھا۔پہلی ترکیب تو فیل ہو گئی تھی۔اب دوسرا وار کرنا تھا اور کاری وار کرنا تھا تاکہ دشمن اٹھنے کے قابل نہ رہ سکے۔
"بکواس بند کرو اپنی، مجھے تمھاری بکواس میں کوئی دلچسپی نہیں۔"
وہ ایک بار پھر بادشاہ خان پہ جھپٹا۔بادشاہ خان کا گریبان ایک بار پھر غزنوی کے ہاتھ میں تھا۔

Mirh@_Ch
 

کمرے میں بند تھا۔ایک ہی بات اسکے دماغ سے چپک گئی تھی۔اس نے آنے کے فوراً بعد ہی مصطفیٰ کو فون کر کے اپنے اسلام آباد آنے کے متعلق بتا دیا تھا۔جب وہ گھر سے نکلا تھا تو اس کا اسلام آباد آنے کا قطعی کوئی پلان نہیں تھا۔اس فیصلے کے پیچھے کی حقیقت کچھ اور ہی تھی اور وہ یہ تھی کہ جب وہ گاڑی لے کر باہر نکلا تھا تو گھر سے کچھ فاصلے پر ہی رک گیا تھا۔گھر سے دور جا ہی نہیں پایا تھا وہیں گھر سے کچھ فاصلے پر موجود تھا۔وہ وہاں خود کو کول ڈاؤن کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک گاڑی کا دروازہ کھلا اور کوئی گاڑی میں بیٹھا۔وہ آنکھیں بند کیے پرسکون بیٹھا تھا۔
"مصطفیٰ مجھے کچھ وقت چاہیئے۔اس وقت میرا دماغ بہت گھوما ہوا ہے۔"
یہ کہہ کر اس نے آنکھیں کھول کر ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھا۔وہ جو خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا،

Mirh@_Ch
 

انھیں یہاں سے ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملے گی۔"
"یہ جھوٹ ہے۔۔ایسا نہیں ہے۔"
ایمان اب بھی اسکی بات سے انکار کر رہی تھی۔ایک موہوم سی امید تھی اسے شاید وہ اسکی بات کا یقین کر لے مگر وہ تو کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھا۔
"ٹھیک ہے تو پھر تم خود ہی پوچھ لو جا کر اپنے باپ سے کہ کیسا ہے اور اب مجھے بار بار کالز کر کے تنگ مت کرنا۔"
وہ کال کاٹ چکا تھا۔
"بابا ایسا نہیں کر سکتے۔"
وہ خود سے کہتی وہیں ڈھے گئی تھی۔
کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا اور اس نیم تاریکی میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دی تھی۔اُسے اپنی ہی خاموشی سے وحشت ہو رہی تھی۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔جب سے آیا تھا اپنے کمرے میں بند تھا۔ایک ہی بات اسکے دماغ سے چپک گئی تھی۔

Mirh@_Ch
 

"یہی میں بھی سوچ رہا ہوں کہ وہ ایک جواری ہے لیکن تمھارا باپ بھی تو ایک جواری ہی ہے اور ابھی تم نے ہی کہا کہ جواری کا کیا بھروسہ۔۔"
غزنوی کے لہجے کی کاٹ اس نےا پنے دل پہ محسوس کی۔اسے لگا جیسے اسکا دماغ سُن ہو گیا ہو۔
"غزنوی۔۔۔"وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
"ٹھیک تو کہہ رہا ہوں۔۔کیا تمھارا باپ ایک جواری نہیں ہے۔داجی کے منع کرنے کے باوجود وہ اس شخص سے دوستانہ مراسم رکھ رہا تھا تو وہ اس سے الگ کیسے ہو گیا۔اپنے باپ سے کہہ دینا کہ اب اسے یہاں سے ایک روپیہ نہیں ملے گا۔"
غزنوی مزید کاٹ دار لہجے میں بولا۔
"یہ جھوٹ ہے بابا ایسا نہیں کر سکتے۔"
ایمان نے اسے یقین دلانا چاہا۔
"تم اچھی طرح واقف ہو اس بات سے کہ تمھارا باپ کیا کیا کر سکتا ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ یہ تمھارے باپ اور اس بادشاہ خان کی چال ہے ہم سے پیسے لینے کی۔لیکن میں سمجھ گیا

Mirh@_Ch
 

ایمان نے گھڑی کی طرف دیکھا جسکی سوئیاں آٹھ کا ہندسہ پار کر رہی تھیں۔اس کے ذہہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ اس وقت کون سا آفس اور کیا مصروفیت۔۔وہ یقیناً اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔پرخہ نے بھی اسکی نگاہوں کا پیچھا کیا۔اسے غزنوی پہ بہت غصہ آیا۔
"ٹھیک ہے تم آرام کرو۔۔میں اب چلوں گی۔۔"
پرخہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"جی۔۔"وہ صرف اتنا ہی بول سکی۔پرخہ دکھ سے اسکی طرف دیکھتی باہر آ گئی۔اسکے جانے کے بعد اس نے پھر فون اٹھا لیا۔اس بار کال ریسیو کر لی گئی۔
"کہو۔۔۔"نہایت ہی سرد مہری سے کہا گیا۔ایمان کے دل سے ایک ٹیس سی اٹھی۔
"وہ۔۔۔میں۔۔۔آپ ٹھیک ہیں؟"
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کسطرح سے شروع کرے۔
"ہاں ٹھیک ہوں۔۔"انداز جان چھڑانے والا تھا۔
"غزنوی۔۔۔!! وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے، بابا نے اسے پیسے دے دیئے تھے۔وہ ایک جواری ہے اسکا کیا بھروسہ۔۔"

Mirh@_Ch
 

بات ہوئی غزنوی سے؟"پرخہ کمرے میں داخل ہوئی۔
"نہیں۔۔وہ فون نہیں اٹھا رہے۔"
وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔
"چلو کوئی بات نہیں۔۔یقیناً مصروف ہو گا۔تم دل پر مت لو۔۔"
پرخہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا، وہ خاموش رہی۔
"تم ٹھیک ہو؟"پرخہ نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔
"میں ٹھیک ہوں۔"وہ سر جھکا گئی۔۔پرخہ نے اسے بغور دیکھا۔
"کیا غزنوی نے کچھ کہا ہے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھتی اس کے پاس بیٹھ گئی۔
"وہ فون نہیں اٹھا رہے۔۔تھوڑی دیر بعد پھر کروں گی کال۔شاید مصروف ا

Mirh@_Ch
 

مصطفیٰ اس کی جانب ایک مسکراہٹ اچھالتا کمرے سے نکل گیا۔
"دیکھ لیا آپ نے۔"
ایمان نے پرخہ کی جانب دیکھا۔اسکی آنکھوں کی سطح ایک بار پھر گیلی ہونے لگی تھی۔
"پریشان نہ ہو۔۔مصطفی نے کہا ہے نا کہ کام سے گیا ہے۔چلو تم اسے کال کرو، میں ذرا مصطفیٰ کے لئے چائے بناتی ہوں۔"
پرخہ نے اسے غزنوی کو کال کرنے کا کہا اور خود وہاں سے چلی گئی۔اس کے جانے کے بعد ایمان اٹھی اور غزنوی کو کال کرنے لگی۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
"بزی ہونگے۔"
خود کو دلاسہ دیتی وہ موبائل رکھتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔منہ ہاتھ دھونے کے بعد اسے کچھ بہتر محسوس ہوا۔اس نے غزنوی کا نمبر ملایا مگر اس بار بھی کال ریسیو نہیں کی گئی۔وہ اسکی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا یہ سوچ کر اسکی آنکھوں کی جلن بڑھنے لگی تھی۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔مصطفی بار بار اسے کال کر رہا تھا مگر اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔
"تمھیں پتہ تو ہے کہ وہ غصے کا کس قدر تیز ہے۔تھوڑی دیر تک آ جائے گا اور تمھارے یہ سارے شکوے سن کر ہنسے گا تمھارے پاگل پن پر۔"
پرخہ نے اسے سمجھایا۔اسی دوران مصطفیٰ کمرے میں داخل ہوا۔
"مصطفیٰ غزنوی آ گیا ہے کیا؟"پرخہ نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
"نہیں۔۔لیکن اس سے بات ہو گئی ہے وہ اسلام آباد میں ہے اور ٹھیک ہے بالکل۔"
مصطفیٰ نے دونوں کیطرف دیکھا۔ایمان نے پرخہ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا کہ پرخہ نظریں پھیر گئی۔
"پرخہ ایک کپ چائے بنا دو۔۔سر میں شدید درد ہو رہا ہے اور ایمان تم بالکل پریشان نہ ہو غزنوی بالکل ٹھیک ہے۔اس نے بتایا کہ اسے کمیل کی کال آ گئی تھی اس لئے اسے آفس کے کام سے ارجنٹ اسلام آباد جانا پڑا۔کہہ رہا تھا کہ دو روز میں آ جائے گا۔"

Mirh@_Ch
 

اسکی پرسکون زندگی میں بادشاہ خان نے پھر سے کنکر پھینک کر ارتعاش پھیلا دیا تھا۔
"پھر وہ اسطرح کیوں چلے گئے۔"
ایمان جو پرخہ کے سینے سے لگی تھی اس سے الگ ہوئی۔
"ایمان مرتضیٰ بتا رہا تھا نا کہ اس نے بادشاہ خان کو مار مار کر اسکی کیا حالت کر دی تھی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تمھارے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتا۔"
پرخہ نے اسکے آنسو پونچھے۔
"انہیں اعتبار نہیں آیا ہو گا تبھی تو اسطرح چلے گئے۔اگر انہیں شک تھا تو مجھ سے پوچھتے۔میں انہیں بتاتی۔۔بابا نے مجھے بتایا تھا جب انہوں نے اسے پیسے دیئے تھے۔بابا مجھ سے کیوں اتنا بڑا جھوٹ بولیں گے۔"
وہ آنکھوں میں آنسو لئے پرخہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔اسے اس بات نے بہت تکلیف دی تھی کہ وہ اسطرح چلا گیا تھا۔شام ہونے کو آئی تھی

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد بولے تو کیا کیا نہیں تھا ان کے لہجے میں۔۔دکھ، شرمندگی، تکلیف۔۔
"غزنوی کا فون بند جا رہا ہے۔"
اسی دوران مصطفیٰ واپس کمرے میں داخل ہوا۔اعظم احمد نے مکرم احمد کی طرف دیکھا۔
"وہ ٹھیک ہو گا۔۔اتنا کمزور نہیں ہے آپکا پوتا۔"
مکرم احمد نے انہیں تسلی دی۔
سبھی خاموش تھے۔۔رشید خان بھی خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھا __
"چپ ہو جاؤ ایمان۔۔کیوں اپنا خون جلا رہی ہو۔ہمیں پورا یقین ہے تم پہ اور غزنوی کو بھی تم پر اعتماد ہے۔تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔"
پرخہ ایمان کو ساتھ لگائے اسے خاموش کرا رہی تھی۔جب سے اسے پتہ چلا تھا وہ تب سے ہی روئے جا رہی تھی۔اوپر سے غزنوی کا یوں منظر سے غائب ہو جانا بھی اسے رلائے دے رہا تھا۔ابھی تو سب ٹھیک ہو رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

شمائلہ داجی کے لئے پانی لے کر آؤ، کہیں ان کی طبیعت نہ بگڑ جائے۔"
مکرم احمد نے بیوی سے کہا جو ابھی تک دروازے میں کھڑیں تھیں۔
"داجی۔۔! آپ ریلیکس رہیں۔یہ شخص ایک نمبر کا جھوٹا اور مکار ہے اور منشی سے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔اسے اب یاد آیا ہے پیسے لینا۔اتنا عرصہ اسے یاد نہیں تھا۔"
مکرم احمد نے ایک نظر رشید خان کے تاریک اور شرمندگی سے چُور چہرے کو دیکھا اور اعظم احمد کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"اعظم صاحب۔۔!! مکرم ٹھیک کہہ رہا ہے۔ہمیں اسکی باتوں پہ دھیان نہیں دینا چاہیئے۔رشید خان نے یقیناً پیسے دے دیئے ہونگے۔"
عقیلہ بیگم بھی اعظم احمد کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور انہیں تسلی دی۔
"مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لئے اس نے ہماری بیٹی کے لئے کیسے کیسے الفاظ استعمال

Mirh@_Ch
 

جا جا۔۔۔بہت دیکھے ہیں تیرے جیسے۔"
مصطفیٰ نے اس کی دھمکی سے ڈرے بغیر کہا۔
"دیکھ لوں گا تم سب کو۔"
وہ لڑکھڑاتا باہر نکل گیا۔جانس خان بھی اسکے پیچھے دوڑا تھا۔رشید خان شرمندہ نظروں سے سبھی کو دیکھ رہا تھا۔
"مصطفیٰ غزنوی کو فون کرو۔۔گاڑی لے کر نکلا ہے کچھ کر نہ بیٹھے غصے میں۔"
اعظم احمد کو غزنوی کی فکر لاحق ہوئی۔
"جی داجی۔"
مصطفیٰ کمرے سے باہر نکل گیا۔دروازے میں عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم کھڑیں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔
"کچھ نہیں ہے، سب ٹھیک ہے۔"
مصطفیٰ انہیں تسلی دیتا ان کے پاس سے گزر گیا۔عقیلہ بیگم اعظم احمد کو سر جھکائے بیٹھے دیکھکر اندر آئیں۔

Mirh@_Ch
 

ہادی۔۔۔۔!!"
ہادی کو بادشاہ خان کیطرف بڑھتا دیکھ کر اعظم احمد نے بلند آواز میں اسے پکارا۔وہ وہیں رک گیا۔
"بادشاہ خان دفع ہو جاؤ یہاں سے اور دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا۔گاوں جا کر ہمارے منشی سے مل لینا۔وہ تمھیں پیسے دے دے گا۔"
اعظم احمد نے زمین پہ بیٹھے بادشاہ خان کو دیکھا۔اسکا ہونٹ پھٹ چکا تھا جس سے اب خون رس رہا تھا۔گریبان کے بٹن ٹوٹ گئے تھے۔
"سنا نہیں تم نے۔۔اب دفع ہو یہاں سے، نہیں تو میں شروع ہو جاؤں گا۔"
مصطفیٰ نے غصے سے کہہ کر ایک قدم اسکی طرف بڑھایا۔بادشاہ خان لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کھڑا ہوا۔جانس خان اسے سہارا دینے کے لئے آگے ہوا مگر بادشاہ خان نےا سے دھتکار دیا۔
"اعظم خان۔۔!! میں چھوڑوں گا نہیں، اپنی بےعزتی کا بدلہ تو میں لے کر رہوں گا۔"بادشاہ خان نے دھمکی دی۔