اللہ کی یہی مرضی تھی بیٹا۔سنبھالو خود کو۔"
اعظم احمد نے قریب آ کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا۔آپ ایمان کو لے کر گھر چلی جائیں، میں ذرا انسپکٹر صاحب سے مل لوں۔ڈرائیور بھی ان کے پاس ہے۔مرتضی کو کال کر دی ہے میں نے وہ آ رہا ہے۔"
اعظم احمد، عقیلہ بیگم سے کہتے وہاں سے چلے گئے۔
ایمان کی تو ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔وہ اسے حوصلہ دیتی گھر لے آئیں۔کچھ وقت بعد اعظم احمد اور ڈرائیور
گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔غزنوی کو بھی اطلاع کر دی گئی تھی۔سبھی اسے احساس دلا رہے تھے کہ وہ اسکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔لیکن سامنے پڑی باپ کی میت اسے یہ احساس دلا رہی تھی کہ وہ بالکل اکیلی ہو گئی ہے۔
اسکا رونا سب کی آنکھوں میں آنسو لے آیا تھا۔سبھی اسے حوصلہ دے رہے تھے۔
"بیٹا بس کرو۔۔ان کے لئے دعا کرو کہ اللہ آگے کی منزل آسان کرے۔"
نہیں۔۔کچھ نہیں لینا۔"
وہ پلٹ کر مین ڈور کی طرف بڑھ گیا۔کمیل بھی کندھے اچکاتا اسکے ساتھ قدم اٹھاتا مال سے نکل آیا تھا۔
"آئی ایم سوری۔۔!! ہم نے اپنی پوری کوشش کی مگر بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہم انہیں بچا نہیں پائے۔"
ڈاکٹر صاحب نے اعظم احمد کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
اعظم احمد نے سر جھکا لیا اور ان سے کچھ فاصلے پہ کھڑی عقیلہ بیگم نے دل تھام لیا۔انہوں نے اپنے ساتھ کھڑی ایمان کو دیکھا۔اس کی ساکت آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی سن چکی ہے۔ان کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دھم سے ہاسپٹل کے فرش پہ بیٹھی تھی۔
"ایمان۔۔!"
عقیلہ بیگم نے اسے بازو سے پکڑ کر سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نے اسے بینچ پہ بیٹھایا۔
"حوصلہ کرو بیٹا۔"
عقیلہ بیگم نے اسے سینے سے لگایا۔اسکی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
ایمان اسکی طرف دیکھتے دیکھتے چوڑیاں اتارنے لگی۔
"ابھی ناشتہ کرو۔۔یہ کام بعد میں کر لینا۔"
غزنوی نے اسے چوڑیاں اتارتے دیکھ کر کہا۔
"جی۔۔"
وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی جبکہ غزنوی اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔اسے اس سیدھی لڑکی پہ غصہ آنے لگا تھا کہ وہ کہتا کچھ تھا اور وہ سمجھتی کچھ اور تھی۔
مگر یہ بھی سچ تھا کہ ایمان کی یہی سادگی اسکے لبوں پہ مسکراہٹ لے آتی تھی۔
اسکے لب ابھی بھی مسکرا رہے تھے۔
"کچھ لینا ہے یہاں سے؟"
کمیل اسکے پیچھے آیا تھا۔وہ چونک گیا۔
کیا مطلب؟"
ایمان نے اسکی طرف ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ تم مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کیا کیا حربے نہیں آزماتی ہو۔"
غزنوی کا انداز سنجیدہ تھا اور اسکے سنجیدہ چہرے سے کوئی اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی مگر غزنوی کی آنکھوں کی چمک اسے اسکی شرارت کا پتہ دے رہی تھی۔
"بھول ہے آپکی کہ میں ایسا کرتی ہوں ہاں یہ اور بات ہے کہ آپ میرے پیچھے پیچھے رہتے ہیں۔"
ایمان اسکے سائیڈ سے نکلتی صوفے پہ جا بیٹھی اور ریلیکس انداز میں غزنوی کے لئے کپ میں چائے ڈالنے لگی۔
"میں اتنا بیوقوف نہیں اور تمھاری چالاکی تو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔یہ تمھاری چوڑیاں رات بھر مجھے بیدار رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔"
غزنوی نے اسکی کلائی میں سجی چوڑیوں کو اپنی انگلی سے چھیڑا۔
"آپ ڈسٹرب ہوتے ہیں تو نہیں پہنوں گی۔"
ایمان کا معصوم چہرہ اسکے سامنے تھا۔غزنوی اس کے چہرے پہ جھکا اور ایمان کی چمکتی پیشانی کی نرمی کو اپنے لبوں میں سموتا مسکرا دیا۔
ایمان کی پلکوں میں ہلکی سی جُنبش ہوئی تو وہ جلدی سے پیچھے ہٹا۔
اپنے تکیے پہ سر رکھتے ہوئے اسکی گہری نظریں ایمان کے چہرے کو گھیرے میں لئے ہوئیں تھیں اور پھر نیند آنے تک وہ اسی کام میں مصروف رہا تھا۔اگلی صبح وہ آفس کے لئے تیار ہو رہا تھا جب ایمان اسکے لئے ناشتہ لائی۔اندر آنے کے بعد ایمان نے نک سک سے تیار غزنوی پہ ایک نظر ڈالی اور پھر ٹیبل کیطرف بڑھ گئی۔غزنوی نے آئینے میں دکھتے اپنے عکس پہ ایک نظر ڈالی اور پھر ٹیبل کے پاس اسکے انتظار میں کھڑی ایمان کے پاس آیا۔
"ویسے یہ اچھا طریقہ ہے شوہر کو ساری رات جائے رکھنا۔"
غزنوی گھمبیر لہجے میں کہتا اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
مگر رات میں بھی اسکی چوڑیوں کی کھنک سے بار بار اسکی نیند کھل جاتی تھی۔وہ ویسے بھی بیدار نیند سوتا تھا اور ایمان نیند میں کروٹ بدلتی رہتی تھی جس سے ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں کھنک کر خاموشی میں ارتعاش پیدا کرتی تھیں۔پرسوں رات بھی ایمان کی چوڑیوں کی آواز سے اسکی نیند ٹوٹی تھی۔پھر لاکھ کوشش کے باوجود وہ سو نہیں پا رہا تھا۔
اس نے ایمان کیطرف دیکھا جو اس کی طرف پیٹھ کیے سو رہی تھی۔وہ لیٹے لیٹے اسکے قریب کھسک آیا اور اپنے دائیں بازو پہ وزن ڈالتا اس کے کندھے سے جھانک کر اسے دیکھا۔ستواں ناک میں چمکتی لونگ نیم تاریکی میں بھی چمک رہی تھی۔گلابی لب سختی سے جڑے ہوئے تھے۔اسی وقت ایمان نے نیند میں رخ غزنوی کی جانب کیا اور اس حرکت سے ایمان کی کھنکتی چوڑیاں غزنوی کو اپنی جانب متوجہ کر گئیں۔سیاہ چوڑیاں اسکی سپید نازک کلائی پہ سجی ہوئیں تھیں۔
نہیں۔"
اتنا سیدھا جواب۔۔اسکی لاپروائی پہ کمیل نے اسکی طرف حیرت سے دیکھا۔
"چلیں یا کچھ اور لینا ہے تم نے؟"
غزنوی نے اسکی حیران نگاہوں کو خود پہ جمے دیکھکر پوچھا۔کمیل نے نفی میں سر ہلایا تو وہ شاپرز اٹھاتا دکان سے نکل گیا۔سیڑھیوں سے اترتے ہوئے غزنوی کی نظر ایک جیولری شاپ میں لگے چوڑیوں کے اسٹالز پر پڑی۔اسکے قدم خود بخود دکان کی طرف اٹھے۔
سیاہ چوڑیاں دیکھکر پرسوں صبح والا واقعہ اپنی تمام جزیات کے ساتھ اسے یاد آیا۔ایمان کو چوڑیاں بہت پسند تھیں۔ہر لباس کے ساتھ میچنگ کانچ کی چوڑیاں پہننا اس کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔یہ بات شروع ہی سے اسکے نظروں میں آئی یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ انجانے میں ایمان نے اپنی کلائیوں میں کھنکتے کانچ سے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔دن میں تو یہ چوڑیاں اسکی ڈسٹربنس کا باعث تھیں
میں شکریہ کی کیا بات سہیل صاحب۔۔یہ سب آپکی محنت ہے اور مجھے بہت خوشی ہے کہ میں آپکے کسی کام آ سکا۔"
غزنوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے تو مجھے اب اجازت۔"
وکیل نے غزنوی کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔جو اس نے تھام لیا۔پھر وکیل صاحب، سہیل صاحب کے ساتھ چلے گئے۔ان کے جانے کچھ دیر بعد وہ دونوں بھی آفس سے نکل آئے۔وہاں سے وہ سیدھے مارکیٹ آ گئے تھے۔
"کیا لینا ہے؟"
وہ دونوں مال میں داخل ہوئے تو غزنوی نے پوچھا۔
"کچھ شرٹس لینی ہیں۔"
کمیل ایک دکان میں داخل ہوا۔غزنوی بھی اسکے پیچھے ہی تھا۔پھر دونوں نے اپنے لئے کچھ شرٹس خریدیں۔
"بھابھی کے لئے کچھ لینا ہے؟"
کمیل نے شاپنگ بیگز اُٹھاتے ہوئے غزنوی سے پوچھا جو اپنے لئے گھڑی پسند کر رہا تھا۔
وعلیکم السلام ینگ مین۔۔کیا حال چال ہیں؟"
وکیل صاحب بھی اسی گرمجوشی سے اس سے اور پھر کمیل سے ملے۔
"سب ٹھیک آپ کہیٔے۔"
غزنوی انھیں بائیں جانب رکھے صوفے کی جانب لے آیا۔
"الحمداللہ۔۔!"
وکیل صاحب بیٹھے تو وہ ٹیبل سے فائل اٹھا کر لے آیا۔پھر انہوں نے سہیل صاحب کو بھی بلوا لیا۔پھر ڈیڑھ گھنٹے کی میٹنگ میں تینوں نے وکیل صاحب کے مشورے سے تمام معاملات سیٹل کیے۔
"چلیئے مبارک ہو آپ کو سہیل صاحب۔۔میں انشاللہ کل تک پیپرز ریڈی کروا لوں گا۔"
وکیل صاحب نے ٹیبل سے فائل اٹھاتے ہوئے خود بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
"خیر مبارک وکیل صاحب اور غزنوی بیٹا بہت شکریہ کہ تم نے مجھے یہ موقع دیا۔"
سہیل صاحب نے غزنوی کی طرف دیکھا۔
غزنوی نے سنجیدگی سے کہا۔
"وکیل صاحب کس وقت تک آئیں گے؟"
کمیل نے فائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا۔
"گیارہ بجے تک آنے کا کہا ہے۔۔کیوں تمھیں کہیں جانا ہے کیا؟"
غزنوی نے فائل سے نظر ہٹا کر اسکی جانب دیکھا۔
"ہاں مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔"
کمیل فائل بند کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔
"ٹھیک ہے وکیل صاحب سے مشورہ کر کے دونوں چلیں گے۔"
غزنوی نے کہا۔اسی دوران وکیل صاحب کیبن میں داخل ہوئے۔
"السلام و علیکم وکیل صاحب۔۔!"
نے پیپر ویٹ اٹھاتے ہوا کہا۔
"بس اچانک پروگرام بن گیا۔"
وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا بولا۔
"بھابھی کیسی ہیں؟"
کمیل نے اس سے ایمان کی بابت دریافت کیا۔
"ٹھیک ہے۔۔تم یہ بتاؤ کہ کام کہاں تک پہنچا؟"
غزنوی نے فائل اسکی طرف بڑھا کر بڑی صفائی سے بات کا رخ بدلا۔
"سب ٹھیک ہے، سہیل صاحب سے بات ہو گئی تھی۔وہ بھی تمھارا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے بات کر تو لی ہو گی تم سے؟"
کمیل نے پوچھا۔
"ہاں میری بات ہو گئی ہے۔بس وکیل صاحب آ رہے ہیں تو پھر ملکر سب فائنل کر لیتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ایک ہی بار سب سیٹل ہو جائے کیونکہ میں بار بار نہیں آ پاؤں گا۔"
"اچھا ہوا تم آ گئے۔"
غزنوی کے کال پہ بتانے پہ وہ اس وقت آفس میں ہے کمیل اس سے ملنے آ گیا تھا۔
"ہاں آنا تو تھا ہی۔کیسا ہے؟"
غزنوی اس سے گرمجوشی سے بغلگیر ہوا۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔تم سناؤ۔۔گھر میں سب ٹھیک؟"
کمیل نے پوچھا۔
"الحمداللہ۔۔! سب ٹھیک ہیں۔"
غزنوی اسے بیٹھنے کا اشارا کرتا اپنی چیئر کی طرف بڑھا۔
"ویسے اس بار کافی دن لگا دیئے، تم تو کہہ رہے تھے کہ عید کے تین دن بعد ہی آ جاؤں گا۔"
کمیل نے پیپر ویٹ اٹھاتے ہوا کہا۔
"
وہ ان کے پاس بیٹھ گئی۔ابھی اسے وہاں بیٹھے کچھ لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ اعظم احمد کے موبائل کی رنگ ٹون نے عقیلہ بیگم اور ایمان کو متوجہ کیا۔
"کیا۔۔۔؟؟ کیا کہہ رہے ہو، کیسے ہوا یہ سب؟"
فون کان سے لگائے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ٹھیک ہے تم فوراً ہاسپٹل لے کر جاؤ، میں اور مکرم آتے ہیں۔"
فون بند کر کے انہوں نے سامنے بیٹھی خواتین کو دیکھا جو ان کا پریشان چہرہ دیکھ کر خود بھی پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
"کیا ہوا ہے اعظم صاحب؟؟ خیر تو ہے نا؟"
عقیلہ بیگم نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
"رشید خان پہ دوبارہ حملہ ہوا ہے۔ڈرائیور نے بادشاہ خان اور اس کے ساتھ والے شخص کو پہچان لیا۔"
اعظم احمد نے کہا تو وہ دونوں ہکا بکا انہیں دیکھ رہی تھیں۔
ایمان نے ان پہ اعتماد ظاہر کیا۔
"اللہ تعالیٰ تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔میں چلتا ہوں، تم اپنا خیال رکھنا۔۔اللہ حافظ۔۔!"
رشید خان نے اسکی پیشانی چومی اور اسے ساتھ لئے کمرے سے نکل آیا۔رشید خان تو خود جانا چاہتا تھا مگر اعظم احمد نے ڈرائیور کو اسے گاؤں چھوڑ کر آنے کا کہہ دیا تھا۔ڈرائیور باہر گاڑی میں انتظار کر رہا تھا۔ایمان بیرونی دروازے تک اس کے ساتھ آئی تھی۔رشید خان کے جانے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔رشید خان کی باتوں سے اس کے دل پہ ایک بوجھ سا آن ٹھہرا تھا۔وہ کمرے کی خاموشی اس پہ گھبراہٹ طاری کیے دے رہی تھی۔وہ عقیلہ بیگم کے پاس آ گئی جو لاؤنج میں بیٹھیں تھیں۔ان کے ساتھ اعظم احمد بھی موجود تھے۔
"چلے گئے تمھارے والد؟"
عقیلہ بیگم اسکا اترا چہرہ دیکھ کر اسے اپنے پاس بلایا۔
وہ ان کے سینے سے لگی کہہ رہی تھی۔
"فکر نہیں کرو۔۔مجھے وہاں کوئی خطرہ نہیں۔۔بس تم اپنے باپ کو غلط مت سمجھنا، میں مانتا ہوں کہ میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔تمھیں کوئی سکون نہیں دے سکا، یہ میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے تمھارے نصیب میں اتنے اچھے اور ملنسار لوگوں کا ساتھ لکھا ہے ورنہ تمھارے باپ نے تو تمھیں تباہی کے دہانے تک لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔کوشش کروں گا کہ خود کو مزید تمھارا گناہگار نہ ہونے دوں۔"
رشید خان کا چہرہ اداسی کی ایک داستان پیش کر رہا تھا۔
"بابا ایسا مت کہیں۔۔میری آپ سے محبت میں کبھی کمی نہیں آئی اور نہ مجھے آپ سے کوئی شکوہ ہے۔آپ ایک طرف اور ساری دنیا ایک طرف۔۔مجھے آپ کا یہ اداس چہرہ تکلیف دے رہا ہے۔آپ اپنا خیال رکھیں۔۔میں آپکو دُکھی نہیں دیکھ سکتی۔"
جی چھوٹی بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ اگر دوا سے آرام نہ آئے تو پھر وہ ڈاکٹر۔۔۔"
"نہیں میں ٹھیک ہوں جاؤ تم۔"
ایمان نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
"میں آپکا سر دبا دوں؟"
شگفتہ جاتے جاتے پلٹی۔
"نہیں۔۔"
اس نے نفی میں سر ہلایا تو وہ کمرے سے چلی۔اس نے پہلے ٹیبلٹ لی اور پھر چائے پینے کے لئے کپ اٹھا ہی تھا کہ شگفتہ کے ساتھ رشید خان کمرے میں داخل ہوا۔
"اچھا بیٹا میں چلتا ہوں۔"
وہ ایمان کی طرف بڑھے جبکہ شگفتہ دروازے سے ہی پلٹ گئی۔ایمان بیڈ سے اتر کر ان کے پاس آئی۔
"بابا اپنا خیال رکھیئے گا۔"
شمائلہ بیگم اٹھتے ہوئے بولیں۔
"میں تمھارے لئے چائے اور ٹیبلٹ بھجواتی ہوں۔"
یہ کہہ کر شمائلہ بیگم کمرے سے چلی گئیں۔
"جاؤ بیٹا تم بھی آرام کرو۔"
عقیلہ بیگم نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اسکا دماغ مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔غزنوی کی باتیں، اسکا کٹھور لہجہ، بےلچک انداز۔۔۔وہ سہل نہیں کر پا رہی تھی۔اپنے کمرے میں آ کر سب سے پہلے اس نے موبائل اٹھا کر غزنوی کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر وہ کال نہیں پک کر رہا تھا۔ایک بار، دو بار، تین بار۔۔۔مگر دوسری طرف وہی کہر میں لپٹی خاموشی تھی۔اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور موبائل سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا تھا۔
"اب میں کال نہیں کروں گی۔"
اسکی انا نے سر اٹھایا۔اسی بیچ شگفتہ اسکے لئے چائے اور دوا لے آئی۔
شمائلہ بیگم نے ایمان کیطرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
"تمھارے داجی نے گاؤں فون کیا تھا یہی معلوم کرنے کے لئے کہ اسکی ضمانت کیسے ہوئی جبکہ اسکے خلاف کیس مضبوط تھا۔وہیں سے معلوم ہوا کہ کسی ملک خاور علی نے بادشاہ خان کی ضمانت کروائی ہے۔بادشاہ خان اسکا خاص کارندہ تھا۔تمھارے داجی جانتے ہیں اس ملک خاور علی کو۔۔کہہ رہے تھے سیاسی اثرورسوخ رکھتا ہے اسی بناء پہ چھڑا لیا اسے۔"
عقیلہ بیگم نے انہیں بتایا۔
"جی بابا نے بھی مجھے یہی بتایا تھا جب میں نے ان سے بادشاہ خان کے متعلق پوچھا تھا۔اسی لیے تو میں نے ان کو کچھ دن کے لئے یہاں بلا لیا تھا۔مجھے خوف تھا کہ کہیں بادشاہ خان پھر سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔اب دیکھ لیں آپ وہ یہاں بھی آ گیا۔"
ایمان نے ان کی بات کی تصدیق کی۔
"ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔"
اچھا۔۔تمھارے والد جا رہے ہیں کیا؟ میں نے شگفتہ کے ہاتھ چائے بھجوائی تھی تو وہ واپس آنے پر بتا رہی تھی کہ رشید خان تمھارے والد پیکنگ کر رہے تھے۔"
شمائلہ بیگم نے مطمئن ہو کر پوچھا کیوں کہ ان کے غزنوی کا اسطرح اسلام آباد چلے جانا انہیں نارمل نہیں لگ رہا تھا۔
"جی وہ جا رہے ہیں۔"
ایمان نے یہ کہہ کر سر جھکا لیا۔
"ایمان ہمیں ان پہ پورا بھروسہ ہے۔ہمارے لیے وہ قابل بھروسہ ہیں نا کہ بادشاہ خان۔"
عقیلہ بیگم نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔
"میں جانتی ہوں شاہ گل۔۔لیکن وہ اس وجہ سے نہیں جا رہے، جانا تو تھا واپس انہوں نے۔"
ایمان نے کہا تو عقیلہ بیگم سر ہلا کر رہ گئیں۔
"لیکن وہ تو جیل میں تھا، چھوٹ کیسے گیا؟"
"جی بات ہوئی تھی۔"
وہ سر جھکائے بولی۔
"کیا تم روتی رہی ہو؟"
شمائلہ بیگم نے عقیلہ بیگم کے دل میں آئی بات کو زبان سے کہا۔
"شاہ گل دراصل کل رات سے میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔جسکی وجہ سے میں رات کو ٹھیک سے سو نہیں سکی اسی لئے آنکھوں میں سوزش ہو رہی ہے۔"
اس نے وجہ بتائی۔
"تو بیٹا مجھے بتانا تھا نا۔"
"بس صرف سر میں درد ہے۔"
وہ لبوں پہ مسکان سجا کر بولی۔وہ انہیں اس بات کی بھنک بھی نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی کہ غزنوی کا رویہ اسکے ساتھ ٹھیک نہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain