Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

فریش ہو کر باہر آیا تو شگفتہ ٹرے لئے کھڑی تھی۔
"یہاں رکھ دو۔"
وہ تولیے سے بال رگڑتا ہوا قدرے سخت لہجے میں بولا۔شگفتہ اس کا خراب موڈ دیکھ کر ٹرے رکھتی فورا کمرے سے نکل گئی۔
"غزنوی کھانے کے لئے کچھ بھیجوں؟"
وہ بال برش کر رہا تھا جب شمائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
"نہیں امی بھوک نہیں ہے۔آفس میں لنچ کر لیا تھا۔"
اس نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔
"اچھا۔۔شام کو یاد سے ایمان کو لینے چلے جانا۔وہ جانا نہیں چاہتی تھی لیکن شاہ گل نے زبردستی بھجوا دیا کہ تھوڑی آب و ہوا تبدیل ہو گی تو وہ اِس اداسی سے باہر نکلے گی۔"
وہ آ کر اس کے پاس بیٹھ گئیں۔
"جی ٹھیک ہے۔"غزنوی نے چائے پی کر کپ ٹرے میں رکھا۔

Mirh@_Ch
 

اپنے کمرے میں گیا ہے، شگفتہ کے ہاتھ چائے وہیں بھیج دو۔تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔"
انہوں نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے کہا۔ان کی بات سن کر شمائلہ بیگم نے شگفتہ کو آواز دی۔عقیلہ بیگم انہیں بھی کیس کے متعلق بتانے لگی تھیں جبکہ اعظم احمد خاموشی سے اپنی چائے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ___________________________________
کمرے میں داخل ہوتے ہی گھپ اندھیرے اور خاموشی نے اسکا استقبال کیا۔آج کل یہی دو چیزیں اسے کمرے میں اپنا استقبال کرنے کو ملتی تھیں۔اس دن کے بعد سے دونوں کے بیچ کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی بلکہ اب وہ جہاں موجود ہوتا، ایمان وہاں سے ہٹ جاتی۔اس سے بات کرنا تو دُور اسکی کسی بات کا جواب تک نہیں دیتی تھی۔سب گھر والوں کو مطمئن رکھنے کے لئے بس خاموشی سے اسکے کام کیے جاتی۔غزنوی بھی بڑی خاموشی سے اسکی ناراضگی برداشت کر رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

"جی۔۔۔امی کہاں ہیں اور بابا بھی دکھائی نہیں دے رہے۔"
غزنوی کی نظریں اردگرد کا چکر لگاتی ان تک پلٹ آئیں۔
"تمھاری ماں تو کچن میں ہو گی اور ایمان کو صائمہ ساتھ لے گئی ہے۔وہ بچی بالکل بجھ کے رہ گئی ہے۔باپ کی اندوہناک موت نے اسے بیمار کر ڈالا ہے۔صائمہ آئی تھی میں نے ہی زبردستی بھیجا ہے کہ کچھ وقت گزار لے گی تو ہو سکتا ہے طبیعت کچھ بہل جائے۔شام تک تم جا کر لے آنا۔وہ کہہ کر گئی ہے کہ اسے وہاں رات نہیں رکنا اس لئے وقت پہ اسکے پیچھے ڈرائیور کو بھجوا دیں۔"
عقیلہ بیگم نے اسکی بے چین نظروں کو تاک لیا تھا اس لئے تفصیل سے بتایا۔
"جی۔"وہ سر اثبات میں ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں ذرا فریش ہو لوں۔"
وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسی دوران شمائلہ بیگم چائے لئے لاونج میں آئیں۔
"شاہ گل غزنوی کہاں گیا؟"
شمائلہ بیگم نے کپ عقیلہ بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔

Mirh@_Ch
 

۔عدالت میں کیس چل رہا تھا اور غزنوی کو امید تھی کہ عدالت کا فیصلہ بھی ایک دو اور پیشیوں کے بعد ان کے حق میں ہو جائے گا۔آج بھی پیشی تھی۔اس لئے وہ اور مصطفی عدالت سے کچھ لیٹ گھر آئے تھے۔اعظم احمد اور عقیلہ بیگم لاؤنج میں ہی ان کا انتظار کر رہے تھے جب وہ دونوں لاؤنج میں داخل ہوئے۔دونوں نے بیک وقت بلند آواز میں سلام کیا۔مصطفی تو معذرت کرتا اپنے پورشن کی طرف بڑھ گیا جبکہ غزنوی وہیں اعظم احمد کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"کیا بنا؟ اور کب تک فیصلہ آنے کی امید ہے؟"
اعظم احمد نے اس سے پوچھا۔
"انشاءاللہ۔۔! ایک دو پیشیوں میں فیصلہ آ جائے گا اور ہمارے حق میں ہو گا۔بادشاہ خان کا چیپٹر تو آپ کلوز ہی سمجھیں۔"غزنوی انہیں آج کی پیشی کے متعلق بتایا۔
"یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔"
اعظم احمد نے پرسکون ہو کر صوفے سے پشت ٹکائی۔

Mirh@_Ch
 

وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے رو دی۔غزنوی نے اسکی حالت کے پیش نظر مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور پیچھے ہٹ گیا جبکہ ایمان کتنی ہی دیر دبی دبی سسکیوں سے روتی رہی۔ ______________________________________
بادشاہ خان اور اسکے ساتھی جانس خان کے خلاف مضبوط کیس بنایا گیا۔بادشاہ خان کے وکیل نے بہت کوشش کی کہ بادشاہ خان کو بیل مل جائے لیکن عدالت نے ضمانت کی درخواست منسوخ کر دی اس وقت وہ جیل میں تھا۔فلحال وہ مسلسل وکیل کے کہنے پر اس جرم سے انکار کیے جا رہا تھا۔لیکن پھر جسمانی ریمانڈ نے بادشاہ خان اور جانس خان کو قبول کرنے پہ مجبور کر دیا۔غزنوی اور اعظم احمد کی کوششوں سے گاوں کے تھانے کا ایس ایچ او پہلے سسپینڈ ہوا اور پھر اسے گرفتار کیا گیا۔ساتھ ہی ساتھ اعظم احمد کے بتانے پہ ملک خاور علی کو بھی انٹیروگیٹ بھی کیا گیا۔

Mirh@_Ch
 

ایمان چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو رہی تھی۔
"مجھے تمھارا ہر الزام قبول ہے لیکن پلیز تم پرسکون ہو جاؤ۔مجھے احساس تھا کہ مجھے ان سے بات کرنی چاہیئے تھی۔بادشاہ خان کی باتوں سے اگر میرے دل میں شک کی کوئی ذرا سی پھانس بھی تھی تو اسے بیٹھ کر سلجھا دینا چاہیئے تھا۔میں شرمندہ ہوں، اپنے رویے پہ، ان الفاظ پہ جو میں نے ان کے لئے استعمال کیے۔میں انہیں واپس تو نہیں لا سکتا مگر تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ بادشاہ خان کو کڑی سے کڑی سزا دلاوں گا۔میرا یقین کرو۔"
غزنوی نے اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹانے چاہے جو ایمان نے ایک بار پھر جھٹک دیئے۔
"آپ کا یقین کروں۔۔۔آپ کا؟ جو جب چاہے تپتے صحرا میں گھسیٹ لے اور جب چاہے ٹھنڈی چھاوں بن جائے۔آپ کے اس دھوپ چھاوں جیسے رویے جھیلنے کی سکت اب مجھ میں نہیں ہے۔میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔

Mirh@_Ch
 

آپ کی تنگ نظری اور رویے نے انہیں بہت دکھی کر دیا اور وہ واپس جانے پہ مجبور ہو گئے۔وہ جان گئے تھے کہ آپ کو ان پہ اعتبار نہیں۔۔آپکی بےاعتباری نے میرے بابا کی جان لے لی، آپ قاتل ہیں میرے بابا کے اور میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔"
کمرے میں ایمان کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
"مجھے ان پہ شک نہیں تھا، میں صرف غصے میں تھا۔"
غزنوی نے اسکے ہاتھ تھامنے چاہے۔
"تھا آپ کو شک۔۔۔وہ بہت اداس تھے یہاں سے جاتے ہوئے۔اگر آپ اسطرح نہ جاتے، ان کی بات سنتے، ان کا اعتبار کرتے تو وہ آج میرے پاس ہوتے، میرے بابا میرا واحد رشتہ تھے، میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔آپ نے وہ بھی چھین لی۔"
وہ پھولی سانسوں کے ساتھ کہتی جا رہی تھی۔دھیرے دھیرے اسکی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی لیکن غزنوی نے اسے روکا نہیں، جو وہ کہنا چاہتی تھی اسے کہنے دیا اور جب وہ ریلیکس ہو جائے

Mirh@_Ch
 

کمر تک آتی چٹیا پہ انگلی پھیرتے ہوئے اسکے کان کے قریب آ کر بولا۔
"بالکل نہیں۔"اس نے بھیگے لہجے میں کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑ ڈالیں۔
"پلیز۔۔۔!"
غزنوی کو سمجھ نہیں آیا کہ کسطرح اس سے بات کرے۔
"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی، پلیز مجھ سے پرے ہٹئے۔آپ کی وجہ سے میں نے اپنے بابا کو کھو دیا ہے۔آپ نے کیسے ان پہ مورد الزام ٹھہرایا تھا۔آپ کے کہے گئے زہریلے الفاظ، جن سے میں پل پل مری ہوں۔وہ بہت دکھی ہو کر گئے تھے یہاں سے، انہیں لگتا تھا کہ آپ کو ان پہ اعتبار نہیں تو وہ کس حیثیت سے یہاں رہیں۔اس لئے وہ چلے گئے، یہ دنیا ہی چھوڑ کر چلے گئے۔وہ جانا نہیں چاہتے تھے، میرے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ گاوں والا گھر بیچ کر وہ یہاں اپنے لئے ایک گھر خریدیں گے،

Mirh@_Ch
 

پھر جب اسے تسلی دینے کے لئے وہ اسکے قریب جانے لگا تو وہ رخ پھیر گئی تھی۔
گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ بیڈ کی جانب آیا اور ایمان کے معصوم چہرے کو نگاہوں کے فوکس کرتا نیم دراز ہو گیا۔اب بھی سانس کے ساتھ ساتھ اسکی دبی دبی سسکیاں بھی سنائی دے رہی تھیں۔
"ایمان۔۔!"غزنوی نے دھیرے سے اسے پکارا اور قریب ہوا۔ایمان کی لرزتی بھیگی پلکیں اسے ایمان کے بیدار ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔
"ایمان۔۔!"غزنوی نے دوبارہ پکارا مگر وہ بےحس و حرکت لیٹی رہی۔
"میں جانتا ہوں کہ تم جاگ رہی ہو۔"
اس نے ایمان کے چہرے پہ بکھرے بالوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔آیمان نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پرے کیا اور رُخ پھیر کر لیٹ گئی۔
"میں جانتا ہوں کہ میری باتوں نے تمھارے دل کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے۔کیا مجھے معافی نہیں مل سکتی؟"

Mirh@_Ch
 

غزنوی کے چہرے سے بےسکونی چھلک رہی تھی۔مصطفی نے تسلی دینے کے انداز میں اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ سر جھکا کر رہ گیا۔اب سب سے مشکل کام ایمان کا سامنا کرنا تھا۔کمرے میں جاتے ہوئے اپنے کہے ہوئے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے۔ _________________________________________
وہ کمرے میں آیا تو ایمان سو رہی تھی۔اس نے بہت آہستگی سے دروازہ بند کیا اور وال کلاک کی جانب دیکھا۔وہ نارملی اس وقت جاگ رہی ہوتی تھی۔حقیقت تو یہ تھی کہ ایمان جاگ رہی تھی لیکن دروازے پہ ہوتی آہٹ سن کر اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔غزنوی الماری سے کپڑے لیتا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کے بعد طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس ہوا تھا مگر دل پہ جو بوجھ تھا وہ کیسے ہلکا ہو گا۔اب اسے یہ سوچنا تھا۔رہ رہ کر اے ایمان کی اپنی جانب اٹھی شکوہ کناں نگاہیں یاد آ رہی تھیں

Mirh@_Ch
 

یہ کہتے ہوئے غزنوی کی آنکھوں کی سرخی بڑھ گئی تھی۔
"میں نے تمھیں ہمیشہ کہا ہے کہ اپنے غصے پہ کنٹرول کرنا سیکھو۔کیا تم نے اس سے ان سارے الزامات کا ثبوت نہیں مانگا تھا؟"مصطفی نے اس سے پوچھا۔
"اس نے کہا کہ رشید خان نے ہی کیس واپس لیا جسکی وجہ سے اسے جیل سے رہائی ملی اور میں چاہوں تو تھانے فون کر کے معلومات کر سکتا ہوں۔اس کے سامنے تو میں نے یہی ظاہر کیا کہ مجھے اسکی باتوں کا رتی برابر بھی یقین نہیں لیکن اسکے جانے کے بعد میں نے تھانے کال کر کے پوچھا تھا۔ایس ایچ او نے بھی بادشاہ خان کی بات پہ سچ کی مہر لگا دی، بس پھر کیا تھا میرے اندر جیسے بھانبھڑ سے جلنے لگے، کچھ سمجھ میں نہ آیا اور اسلام آباد چلا آیا۔"غزنوی نے ساری بات بتانے کے بعد مصطفی کی طرف دیکھا۔وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

مصطفی اسکے چہرے پہ چھائی شرمندگی دیکھ کر افسوس ہوا۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کانوں کا اتنا کچا نکلے گا۔
"اسی بات کا تو دکھ ہے۔اگر میں یوں نہ جاتا تو رشید انکل اسطرح دلبرداشتہ ہو کر یہاں سے نہ جاتے اور نا ہی یہ سب ہوتا۔"غزنوی نے بے چینی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
"تم خود کو اس بات کے لئے موردِ الزام کیوں ٹھہرا رہے ہو؟ انہوں نے تو جلد یا بدیر یہاں سے جانا ہی تھا۔"
مصطفی نے اسکی بے چینی محسوس کرتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔۔۔میں نے انہیں یہاں رہنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ بادشاہ خان کی وجہ سے سے ان کی جان کو خطرہ تھا۔یہ بات میں نے ایمان کے سامنے نے ہی کی تھی۔جب عید کے دوسرے دن ہی انہوں نے واپس گاؤں جانے کی بات تھی۔ایمان بھی چاہتی تھی کہ وہ یہیں شہر میں رہیں، اس کے پاس، مگر سب الٹا ہوگیا

Mirh@_Ch
 

غزنوی ساری بات سن کر حسب معمول طیش میں آیا۔
"جنازے سے کچھ دیر پہلے جب داجی نے مجھ سے تمھیں انفارم کرنے کے بارے میں پوچھا تھا۔اس وقت وہ مجھ سے افسوس کرنے کے لئے میرے پاس ہی کھڑا تھا۔وہ شخص بادشاہ خان ہی تھا نا؟"
وہ مصطفی کی سوالیہ نظروں کے جواب میں گہری سانس خارج کر کے رہ گیا۔
"ہاں وہی تھا۔"
غزنوی نے اسکی بات کی تردید نہیں کی۔وہ چاہتا تو انکار کر سکتا تھا مگر انکار کرنے سے اسکی کی گئی اتنی سنگین غلطی درست تو ہو نہیں سکتی تھی۔
"تو اس نے تم سے ایسا کیا کہا کہ تم سیدھے اسلام آباد چلے گئے جبکہ تمھارا اسلام آباد جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔"
مصطفی کے پوچھنے پہ اس نے اپنے اور بادشاہ خان کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو کہہ سنائی۔مصطفی کو اسکے چہرے پہ شرمندگی صاف دکھائی دے رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے لاپرواہی سے کہا اور جانے کے کئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"یہ لاپروائی تم کسی اور کے سامنے ظاہر کرنا۔یہاں بیٹھو اور مجھے بتاو۔۔علیم صاحب کے چوکیدار نے مجھے بتایا کہ تمھاری گاڑی کافی دیر ان کے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔اب مجھے سچ سننا ہے۔"
مصطفی نے کہا تو وہ گہری سانس خارج کرتا بیٹھ گیا۔اسے یاد آیا کہ جب وہ گاڑی میں بیٹھا تھا تو چوکیدار باہر ہی کھڑا تھا۔
"اس نے یہ بھی بتایا کچھ دیر بعد ہمارے گھر کوئی شخص کڑے تیور لئے نکلا تھا اور اپنی جیپ جو ہمارے گھر کے گیٹ کے پاس کھڑی تھی، کی طرف جاتے جاتے تمھاری گاڑی میں بیٹھ گیا تھا اور کافی دیر تمھارے ساتھ گاڑی میں بیٹھا رہا۔پھر اس کے جانے کے بعد تم ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔"مصطفی نے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا۔
"اور یہ ساری کہانی اس نے تمھیں کب سنائی۔"

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے اسکی طرف دیکھا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے لیکن پھر چہرے پہ ایسے تاثرات سجائے جیسے وہ اسکی الفاظ کو معانی نہیں پہنا پایا ہو۔
"جسطرح تم یہاں سے اڑنچھو ہو گئے تھے اس بارے میں بات کر رہا ہوں۔"مصطفیٰ نے اسے گُھورا۔
"یار بتایا تو تھا کہ کمیل کا فون آ گیا تھا، مجھے جانا پڑا تھا۔تم یونہی بال کی کھال اتارنے میں اپنی توانائی ضائع کر رہے ہو۔"غزنوی نے اسکی بات کے جواب میں کہا۔
"مجھ سے جھوٹ مت بولو، کمیل سے بات ہوئی ہے میری، اس نے مجھے بتایا کہ تم یوں اچانک ہی وہاں پہنچ گئے جبکہ تمھاری پلاننگ دو دن بعد کی تھی۔"
غزنوی کے ایک بار پھر جھوٹ بولنے پہ مصطفیٰ کا لہجہ سخت ہوا۔
"جب پتہ چل گیا ہے تو دوبارہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔غصے میں تھا، یہاں رہتا تو مزید دماغ خراب ہوتا میرا، اس لئے میں نے منظر سے غائب ہونے کا فیصلہ کیا۔"

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد نے بیڈ کی جانب بڑھتے بڑھتے پلٹ کر ان سے پوچھا۔
"کیسے سنبھلے گی، باپ کو کھویا ہے اس نے۔۔ابھی تو دکھ تازہ ہے، وقت تو لگے گا نا۔"
عقیلہ بیگم ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولیں۔
"خیال رکھو اسکا۔"
وہ عقیلہ بیگم کو ہدایت دیتے بیڈ پہ لیٹ گئے جبکہ عقیلہ بیگم ایمان کے متعلق سوچنے لگیں پھر اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئیں۔ _______________________________________
"ویسے مجھے بہت افسوس ہوا،میں تو تمھیں بہت سمجھدار سمجھتا تھا لیکن تم نے مجھے بہت نا امید کیا۔"
وہ اس وقت لان میں بیٹھا سیگریٹ پھونک رہا تھا جب مصطفیٰ کرسی اسکے قریب کرتا بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ سے سیگریٹ لے کر ایش ٹرے میں مسل دی۔
"میں نے ایسا کیا کر دیا؟"

Mirh@_Ch
 

پہلے بھی تو گواہ تھے، لیکن کیا ہوا۔"
عقیلہ بیگم کے لہجے میں بےیقینی تھی۔
"ملک خاور علی نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ چلایا ورنہ وہ باہر نہ آ پاتا۔پھر گاؤں کے لوگ ڈرتے بھی تھے اس سے اس لئے اس نے دھمکیاں دے کر گواہوں کو یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ رشید خان نے اس پہ حملہ کیا تھا اور اس نے اپنے بچاؤ میں فائر کر دیا۔اس بار ملک خاور علی ایسا کچھ نہیں کرے گا۔وہ اپنی جان بچائے گا نا کہ بادشاہ خان کو بچانے کا جوکھم اٹھائے گا۔"
اعظم احمد نے تفصیل بتا کر انہیں مطمئن کیا اور مطمئن ہو بھی گئیں۔
"چلو اچھا ہوا۔۔اعظم صاحب آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں آرام کر لیجیئے۔"
وہ اعظم احمد کے چہرے پہ تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر بولیں۔وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ایمان کی طبیعت کچھ سنبھلی؟"
اعظم احمد نے بیڈ کی جانب بڑھتے بڑھتے پلٹ کر ان سے پوچھا۔

Mirh@_Ch
 

انہوں نے جیسے ہی فون رکھا عقیلہ بیگم نے پوچھا۔اعظم احمد نے اثبات میں سر ہلایا۔
"کیا کہہ رہے تھے؟"
عقیلہ بیگم مزید جاننا چاہتی تھیں۔
"بادشاہ خان اور اسکے ساتھی کو گاؤں کے قریب ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔۔یہی بتا رہے تھے۔"
اعظم احمد پاؤں پسار کر بیٹھ گئے۔
"یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔لیکن کہیں پہلے کی طرح چھوٹ نہ جائے۔"
وہ پریشانی سے بولیں۔
"نہیں اس بار ایسا نہیں ہو گا۔یہ شہر ہے اور پھر چند راہ گیروں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔گواہ ہیں وہ اس قتل کے۔"
اعظم احمد نے انہیں تسلی دی۔

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد ابھی کچھ لمحے پہلے مہمانوں کو رخصت کر کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔عقیلہ بیگم بیڈ پہ لیٹی تھیں۔انہیں آتے دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھیں۔اعظم احمد سست روی سے چلتے صوفے پہ آ کر بیٹھ گئے۔چہرے سے تھکن واضح تھی۔وہ جیسے ہی آ کر بیٹھے تھے ان کا موبائل فون بجنے لگا۔
"جی انسپیکٹر صاحب؟"
وہ فون کان سے لگاتے ہوئے بولے۔عقیلہ بیگم بیڈ سے اتر کر ان کے پاس آ بیٹھیں۔
"یہ تو بہت اچھا ہوا۔انسپیکٹر صاحب تگڑی چارج شیٹ فائل کیجیئے گا۔اب کی بار اسے وہ چھوٹنے نہ پائے۔ملک خاور علی کو بھی شاملِ تفتیش کیجیئے گا۔اس جیسے لوگ ہی ہمارے ملک کا ناسور ہیں۔اُس کی ہی وجہ سے یہ جیل سے چھوٹنے میں کامیاب ہوا اور اب دیکھیئے ہم نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا۔میں اسے کڑی سے کڑی سزا دلوانا چاہتا ہوں۔"
اعظم احمد بولے۔
"ٹھیک ہے میں کل پہلی فرصت میں آپ کے پاس ہونگا۔۔اللہ حافظ۔۔!"

Mirh@_Ch
 

جنازہ اٹھنے کے بعد بلقیس بیگم جو غزنوی کے ساتھ آئیں تھیں، ایمان کے پاس آ بیٹھیں اور اسکے ہچکیوں کی زد میں آئے وجود کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیا۔سب ہی باری باری اسے چپ کرانے کی کوشش کر چکے تھے مگر اسکی آنکھوں کی نمی بڑھتی جا رہی تھی۔
"میں اکیلی رہ گئی خالہ۔۔ایک ہی تو رشتہ تھا، جو میرا اپنا تھا اب اس ایک اپنے کی خوشبو کو کہاں تلاشوں گی۔"
وہ بلقیس بیگم کے سینے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔
"اکیلی کب ہو۔۔ہم سب ہیں تمھارے ساتھ۔"
اس کے دُکھ پہ بلقیس بیگم کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔وہ اسے دلاسا دے رہی تھی۔بہت زیادہ رونے سے اسکی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔بلقیس بیگم اسے کمرے میں لے آئیں۔شمائلہ بیگم نے اسکے لئے کھانا اور ٹیبلٹ بھجوائی۔جو بلقیس بیگم نے اسے زبردستی کھلایا۔