غزنوی ان کے پاس آ بیٹھا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔اللہ تمھیں خوش رکھے، ڈھیروں ترقی سمیٹو۔"
خیرن بوا نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔
"آمین۔۔!"
غزنوی اٹھ کھڑا ہوا۔
"ایمان بھی جائے گی؟"
خیرن بوا نے خاموش کھڑی ایمان کی طرف دیکھا۔
"نہیں بوا۔۔میں کہہ تو رہا ہوں کہ چلے میرے ساتھ، لیکن۔۔۔"
ایمان نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ غزنوی بول پڑا۔
نہیں کسی کی نظر لگ گئی ہے۔"
وہ مسلسل اسے نشانہ بنائے ہوئے تھا۔
"اللہ میرے بچے کو نظر بد سے بچائے اور جلنے والوں کا منہ کالا ہو۔"
خیرن بوا کھڑے کھڑے تھکنے لگیں تھیں اس لیے صوفے کی جانب بڑھ گئیں۔
"آمین آمین۔۔! آپ بتائیے، کچھ کام تھا کیا؟"
غزنوی نے یاد آنے پر پوچھا۔
"ہاں تمھاری اماں بتا رہی تھیں کہ تم آج کل میں اسلام آباد جاؤ گے، تو میں سوچ رہی تھی کہ مجھے بھی ساتھ لے جانا۔بلقیس اور رقیہ بہت یاد آ رہی ہیں، سوچا مل آؤں، پھر تمھارے ساتھ ہی لوٹ آؤں گی۔"
انہوں نے کہا۔
"ٹھیک ہے تو کل تیار رہیئے گا۔"
غزنوی ان کے پاس آ بیٹھا۔
"وہ بوا۔۔۔وہ سو رہے ہیں۔تھوڑی دیر بعد بات کر لیجیئے گا۔"
ایمان نے بہانا بنایا۔
"کون سو رہا ہے؟"
وہ سیڑھیوں سے اترتا ان کے قریب آ کھڑا ہوا۔
💜
"اے لو تم تو کہہ رہی تھی کہ غزنوی سو رہا ہے؟"
خیرن بوا ٹھوڑی پہ انگلی جمائے سوالیہ نظروں سے ایمان کی طرف یوں دیکھ رہی تھیں جیسے اسکا جھوٹ پکڑ لیا ہو۔وہ سٹپٹا گئی۔
"چھوڑیں نا بوا یہ خود چلتے پھرتے سوئی رہتی ہے۔"
غزنوی نے کنکھیوں سے ایمان کی جانب دیکھا۔خیرن بوا ہنسنے لگیں جبکہ ایمان کڑے تیور لیے اسکی جانب دیکھ رہی تھی، غزنوی ہنسی دبائے خود کو سنجیدہ ظاہر کرنے کوشش میں تھا۔
"مرتضیٰ کی ہوا لگ گئی ہے تمھیں بھی۔"
"اففف۔۔۔اسے کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔"
وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتی بڑبڑائی۔
"ائے کیا بول رہی ہو؟"
خیرن بوا کان پہ ہاتھ رکھتی اسکے قریب ہوئیں۔
"کچھ نہیں بوا۔۔۔"
ایمان نے اپنی ہڑبڑاہٹ پہ قابو پایا۔
"آپ اوپر کہاں جا رہی تھیں؟"
ایمان نے پوچھا۔
"غزنوی کو بلا کر لاؤ، مجھے کچھ بات کرنی ہے اس سے۔"
وہ جہاں سے بھاگ کر آئی تھی وہ اسے وہیں بھجوا رہی تھیں۔
غزنوی نے اسکے ٹھنڈے ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھے جنھیں چھڑانے کی کوشش میں وہ ناکام ہوئی جا رہی تھی۔غزنوی کی آنکھوں سے لپٹی محبت کی شعاعیں اسکے وجود کا احاطہ کرنے لگیں تو وہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔
"اب آگے بڑھنے کا وقت ہے نہ کہ پیچھے قدم لینے کا۔"
غزنوی نے ایک جھٹکے سے اسے قریب کیا۔غزنوی کی محبت کا پیغام دیتی آنکھیں اسے کسی الارم سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔
"چھوڑیں۔"
اس سے پہلے کہ وہ اسکے ہاتھ اپنے لبوں تک لے جاتا ایمان نے اپنے ہاتھ چھڑائے اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی لیکن اپنے پیچھے اس نے غزنوی کا جاندار قہقہ ضرور سنا تھا۔دھڑکتے دل کے ساتھ سیڑھیاں اترتی وہ کسی سے ٹکرائی تھی۔
"ائے ہائے کہاں بھاگی جا رہی بہو؟"
خیرن بوا کو سامنے دیکھ کر وہ مزید ہواس باختہ ہو گئی۔
ایمان نے بناء پلٹے جواب دیا۔
"جو میں کروں تم بھی وہی کر لینا۔"
وہ بولا تو اسکے لہجے کی گھمبیرتا ایمان کو چونکا گئی مگر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور اپنا کام ختم کرنے کے بعد الماری بند کر دی۔
"مطلب؟"
اس نے پلٹ کر دیکھا۔
"مطلب یہ کہ میں اپنے ایفل ٹاور کو دیکھوں گا اور تم اپنے ایفل ٹاور کا دیدار کرنا۔"
غزنوی نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ایمان نے اپنے ہاتھ چھڑانا چاہے لیکن غزنوی کی گرفت مضبوط تھی۔
"اسلام آباد میں کون سا ایفل ٹاور ہے؟"
ایمان کو معلوم پڑ گیا تھا کہ اسکی رگِ ضرافت پھڑک رہی ہے۔
"یہ تو جب تم میرے ساتھ وہاں جاؤ گی تب ہی دکھا پاؤں گا نا تمھیں۔"
ہاں اس سنڈے کو آ جاؤں گا، تم کل مل لینا وکیل صاحب سے۔"
وہ فون پہ بات کر رہا تھا جب وہ کمرے میں داخل ہوئی۔اسکے ہاتھ میں اپنے اور غزنوی کے استری شدہ کپڑے تھے۔
"ٹھیک ہے ان شاء اللہ سنڈے کو ملیں گے۔"
غزنوی نے ایک گہری نظر ایمان پہ ڈالتے ہوئے کہا۔
ایمان خاموشی سے الماری کی طرف بڑھی اور اپنے کام میں مگن ہو گئی۔غزنوی بیڈ سے اتر کر اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔
"میں سنڈے کو اسلام آباد جا رہا ہوں، تم چلو گی ساتھ؟ دو تین دن کا کام ہے پھر واپس آ جائیں گے۔"
اس کی بات سن کر ایک پل کو ایمان کے ہاتھ تھمے تھے۔
"مجھے نہیں جانا۔۔ویسے بھی دو دن کے لئے جا رہے ہیں تو میں کیا کروں گی وہاں۔"
وہ اسے مزید چڑانے سے باز نہیں آیا۔
"ایک تو تم جو چاہتی ہو وہ کر رہا ہوں پھر بھی۔۔۔اچھا چھوڑو، آئسکریم کھاؤ گی؟"
غزنوی نے آئسکریم پارلر کے پاس گاڑی روکی۔
"زہر کھاؤں گی۔۔وہ لا دیں کہیں سے۔"
ایمان نے اسکی طرف سے رخ پھیرا۔
"کہیں سے کیوں۔۔یہیں سے منگوا دیتا ہوں۔۔یار ایک زہر بھری آئسکریم تو لانا۔"
اس کے اسطرح کہنے پہ ایمان نے فورا پلٹ کر اسکی طرف دیکھا۔وہاں کوئی نہیں تھا۔وہ ہنسنے لگا جبکہ وہ اسے قہر بھری نظروں سے گھور رہی تھی۔
"اب کیا سالم نگلو گی۔"
غزنوی نے گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی۔گاڑی مین روڈ تک لاتے لاتے غزنوی اسے آج کی سماعت کے مطلق بتانے لگا۔غزنوی نے اسکے چہرے پہ اطمینان و سکون کی ایک لہر دیکھی تو وہ بھی پرسکون ہو گیا۔
میں۔۔مجھ سے بڑھ کر بھی سیانا ہو گا؟"
غزنوی نے اسکے گال کو چھوتے ہوئے شرارت سے کہا۔ایمان نے اسکا ہاتھ جھٹکا جبکہ وہ ہنسنے لگا تھا۔
"اب ڈرامہ مت کرو۔۔تم بھی تو چاہتی تھی کہ میں تمھیں وہاں نہ رکنے دوں۔اب جب لے آیا ہوں تو نخرے آسمان کو چھو رہے ہیں۔"
غزنوی نے ایک بار پھر اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔
"ان فضولیات سے پرہیز کریں۔"
وہ پھر سے اسکا ہاتھ جھٹک گئی۔
"کون سی فضولیات؟ یہ۔۔۔۔؟؟"
غزنوی نے پھر سے کوشش کی۔
"غزنوی!!"
وہ غصے سے لال پیلی ہونے لگی۔
آپ بتا کیوں نہیں رہے۔۔۔کون آیا ہے گاؤں سے۔"
غزنوی کے ایک سیکنڈ کو جب دس منٹ ہو گئے تو وہ غصے میں بولی۔
"کوئی نہیں۔"
غزنوی کا لہجہ سادہ تھا۔
"مطلب۔۔۔آپ پھپھو سے جھوٹ بول کر مجھے وہاں سے لائے ہیں؟"
ایمان نے اسکے ٹھنڈے ٹھار لہجے پہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
"جھوٹ۔۔۔نہیں تو۔۔سیانے کہتے ہیں کہ مصلحتاً جو جھوٹ بولا جائے اسے جھوٹ نہیں کہتے، اسے مصلحت کہتے ہیں۔"
غزنوی نے اسکی طرف دیکھا۔
"اور یہ کس سیانے نے کہا ہے؟""
"نہیں بیٹا بری بات ہے۔وہ ایمان سے ملنے آئے ہیں تو اسکا جانا ضروری ہے۔"
غزنوی کی بجائے صائمہ بیگم نے جواب دیا۔
"چلیں؟"
غزنوی نے ایمان سے کہا تو ایمان بھی حیران پریشان ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"اچھا پھپھو اللہ حافظ۔۔!"
وہ پلٹ گیا۔ایمان بھی ان سے ملتی اسکے پیچھے آئی تھی۔
"کون آیا ہے؟"
ایمان نے بیٹھتے ساتھ ہی پوچھا۔
"ایک سیکنڈ۔"
غزنوی نے مصروف انداز میں کہتے ہوئے اگنیشن میں چابی گھمائی۔کھلے گیٹ سے گاڑی نکال کر اس نے اسپیڈ بڑھائی۔اس بیچ ایمان بالکل خاموش رہی۔
صائمہ بیگم نے بےزاری سے عنادل اور ارفع کی طرف دیکھا۔ایمان بھی مسکراتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
"لگتا ہے غزنوی بھائی نے بھی جانے کا ارادہ کینسل کر دیا ہے۔"
ارفع نے غزنوی کو ان کی جانب آتے دیکھ کر کہا۔صائمہ بیگم اور ایمان نے بھی اسے آتے دیکھ لیا تھا۔
"خیر ہے بیٹا؟"
صائمہ بیگم نے قریب آتے غزنوی سے پوچھا۔
"جی پھپھو۔۔وہ شاہ گل کا فون تھا۔گاؤں سے کوئی فیملی آئی ہے ایمان سے تعزیت کے لئے، وہ کہہ رہی تھیں کہ ایمان کو لے کر جلد آؤ کیونکہ انہوں نے واپس بھی جانا ہے۔"
غزنوی نے پہلے صائمہ بیگم اور پھر ایمان کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ حیرانی تھی۔
"اوہ۔۔۔! تو وہ کل تک نہیں رک سکتے؟"
موبائل پاکٹ سے نکالتے ہوئے وہ پلٹا تو ایمان اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں۔اسی لمحے ایمان نے نظروں کا زاویہ بدلا تو وہ بھی رخ پھیر گیا۔
"رات کے کھانے میں کیا بنائیں ایمان؟"
صائمہ بیگم نے اس سے پوچھا۔
"مما بریانی بنا لیں اور ساتھ میں کباب۔"
ایمان کی بجائے عنادل نے جواب دیا۔
"تم سے کس نے پوچھا ہے؟"
ارفع نے عنادل سے کہا تو وہ اسکی طرف دیکھ کر منہ بگاڑ کر بولی۔
"تمھیں کیا تکلیف ہے۔"
ایمان نے دیکھا کہ غزنوی اب فون پہ کسی سے بات کر رہا تھا۔ان کے بیچ کافی فاصلہ تھا جسکے باعث وہ اسے سن نہیں پا رہی تھی۔
"ارے بھئی۔۔اتنی بڑی ہو گئی ہو تم دونوں لیکن بچپنا نہیں گیا۔"
غزنوی تم اسے ہی اس کے پیچھے آ گئے، رہتی ایک دو دن ہمارے پاس۔"
صائمہ بیگم کین کی کرسیوں میں سے ایک پہ بیٹھ گئیں۔
"مجھے تو کوئی اعتراض نہیں اگر ایمان رکنا چاہتی ہے تو رک سکتی ہے۔"
اس نے ایمان کی طرف دیکھا۔
"ٹھیک ہے پھپھو میں رک جاوں گی، ویسے بھی ابھی عنادل اور ارفع بہت اسرار کر رہی تھیں اور پھر کل آپ لوگ بھی تو جائیں گے نا۔"
وہ صائمہ بیگم کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔عنادل اور ارفع خوش ہو گئی تھیں۔
"چلو اچھا ہے۔۔تم بھی رک جاتے غزنوی۔"
اب وہ غزنوی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
"نہیں پھپھو۔۔پھر کبھی سہی۔۔اللہ حافظ۔۔!"
وہ سسنجیدگی سے کہتا پورچ میں کھڑی گاڑی کیطرف بڑھ گیا۔ایمان کی نظریں اسکی پشت پہ ٹکی تھیں۔اب وہ گاڑی کا دروازہ کھولے چوکیدار کو گیٹ کھولنے کا اشارہ کر رہا تھا۔شاید اسی دوران اسکا موبائل بجا تھا۔
ایمان کو ہنسی آ گئی۔
"ویسے تم دونوں چلو نا میرے ساتھ۔"
ایمان کو غزنوی کے ساتھ جانے میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔اتنے دنوں سے وہ اسے مکمل اگنور کیے جا رہی تھی۔وہ بات کرنے کی کوشش کرتا تو اسے جھڑک دیتی یا وہاں سے اٹھ جاتی لیکن غزنوی نے ہار نہیں مانی تھی، بس وہ اسے موقع نہیں دیتی تھی اور یہی موقع آج اسے مل رہا تھا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔
"ہم کل آئیں گے۔ویسے بھی کل بابا اور فیروز بھائی کسی کام سے ایک دو دن کے لئے شہر سے باہر جا رہے ہیں۔"
عنادل نے بتایا تو وہ ٹھیک ہے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"کہاں؟"
اسے اندر کی طرف بڑھتا دیکھ کر ارفع نے پوچھا۔
"میں پھپھو سے مل لوں۔"
وہ دھیرے سے بولی اور پلٹی لیکن پھر وہیں رک گئی کیونکہ صائمہ بیگم اور غزنوی اسی جانب آ رہے تھے۔
پھپھو کہاں ہیں؟"
غزنوی اٹھ کھڑا ہوا اور بسکٹ اٹھا کر ایمان کی چائے میں ڈبوتے ہوئے پوچھا۔ایمان نے اسکی طرف بہت غصیلی نظروں سے دیکھا جبکہ وہ اسے شرارتی نگاہوں سے دیکھتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"چلو تیاری پکڑ لو۔۔۔تمھارا مسٹر تمھیں لینے آیا ہے۔"
ارفع نے بسکٹ ایمان کی چائے میں ڈبونا چاہا لیکن وہ ہاتھ پیچھے کر گئی۔
"ارفع۔۔۔!"
اب کی بار غصیلی نظروں سے ارفع کو نوازا گیا جبکہ وہ ہنسنے لگی۔
"بالکل اپنے بھائی پہ گئی ہو۔"
ایمان نے نروٹھے انداز میں کہا۔
"تو اور کس پہ جاوں؟"
ارفع نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔ا
ہاں یہ تو ہے، کافی وقت بعد آیا ہوں۔"
وہ چیئر ٹیبل کے قریب گھسیٹتے ہوئے بیٹھ گیا۔
"ویسے آپ آج بھی نہ آتے اگر آپ کی بیگم یہاں نہ ہوتی۔"
عنادل نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے غزنوی کی جانب دیکھا۔
"ہاں یہ تو ہے۔"
غزنوی کے منہ سے اتنا صاف اقرار سن کر وہ ہکا بکا رہ گئیں۔
"یعنی ہماری کوئی ویلیو ہی نہیں۔"
عنادل نے نروٹھے انداز میں کہا۔
"اب جب بیگم بیٹھی ہو تو اتنا تو خیال رکھنا ہی پڑتا ہے نا۔"
غزنوی نے دائیں آنکھ کا کونہ دباتے ہوئے عنادل کو دیکھا۔وہ دونوں اسکا اشارہ سمجھ کر ہنس دیں۔اس دوران ایمان بالکل خاموش رہی۔
عصر کی نماز پڑھ کر وہ ارفع کے ساتھ باہر لان میں آ گئی تھی۔عنادل کچن میں گھسی کوئی کارستانی کر رہی تھی۔موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔وہ دونوں باتوں میں مگن تھیں کہ گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔چوکیدار نے گیٹ کھولا تو غزنوی کی گاڑی دھیمی رفتار سے چلتی پورچ میں آ رکی۔اس دوران عنادل بھی وہیں آ گئی تھی۔
"ایسے ہونقوں کی طرح کیوں دیکھ رہی ہو مجھے، جیسے کسی ایلین کو دیکھ لیا ہو۔"
غزنوی نے کچھ فاصلے پہ کھڑی عنادل کے نیم وا منہ کو ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بند کیا۔ایمان نظریں اپنے پیروں پہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔ایمان کو دیکھکر وہ ایک دم ہشاش بشاش ہو گیا تھا۔لبوں پہ ایک جاندار مسکراہٹ آن ٹھہری تھی۔اسے لگا جیسے اسکے دل پہ چھائی بےچینی کہیں اڑنچھو ہو گئی ہو۔
"اللہ غزنوی بھائی آپ کتنے ٹائم بعد ہمارے گھر آئے ہیں۔"
ارفع اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔
مزاج بخیر ہیں ان کے یا گرم ہیں؟"
مرتضیٰ کی شرارتی رگ مزید پھڑکی۔
"مزاج تو گرم ہی لگ رہے ہیں، اب تم آ گئے ہو تو شاید ٹھنڈے ہو جائیں۔"وہ اسکے گال تھپتھپاتے ہوئے بولیں۔
"ابھی لیجیئے۔۔ایک دم کول کول کر دوں گا جا کر۔بس آپ کچھ کھانے کو بھیج دیں، بہت بھوک لگ رہی ہے۔"
وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ گیا جبکہ وہ سر ہلاتیں سیڑھیاں اتر گئیں۔ ______________________________________
کچھ دیر آرام کروں گا۔مرتضی اگر آئے تو اسے یہاں بھیج دیجیئے گا۔"
وہ بیڈ کی جانب بڑھا۔شمائلہ بیگم بھی ٹرے اٹھا کر کمرے سے نکل آئیں۔وہ انہیں کچھ خاموش سا لگا تھا۔
"السلام و علیکم چچی!"
وہ اسی سوچ میں گم چلی جا رہی تھیں کہ مرتضیٰ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ان کے سامنے آ گیا۔
"وعلیکم السلام بیٹا۔۔کیسے ہو؟"انہوں نے اسکے شانے پہ ہاتھ پھیرا۔
"بالکل ٹھیک۔۔آپ یہ بتائیے کہ آپ وہ کھڑوس برخوردار کہاں ہیں؟"
مرتضیٰ نے ان کے پیچھے جھانکتے ہوئے کہا۔
"شریر۔۔۔غزنوی اپنے کمرے میں ہے۔وہ بھی ابھی پوچھ رہا تھا تمھارے بارے میں۔"
شمائلہ بیگم نے اسکے غزنوی کو کھڑوس کہنے پہ ہنستے ہوئے کہا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain