خیرن بوا کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی، جو رشیدہ کو دیکھ کر مزید گہری ہو جاتی تھی۔
"کیا بات ہے بوا، بہت خوش دکھائی دے رہی ہیں۔"
ایمان بوا کے پاس آئی اور ان کا ہاتھ تھام کر انہیں صوفے تک لے آئی۔بوا نے کوئی بھی جواب نہیں دیا بس ہنسے جا رہی تھیں۔
"باجی بوا مجھ پہ ہنس رہی ہیں۔"
رشیدہ منہ بنا کر بولی۔اس کا یہ کہنا نہیں تھا کہ خیرن بوا ہنسنے لگیں۔
"ائے میں کیوں ہنسوں گی تم پہ؟"
بوا نے ٹھوڑی پہ انگلی رکھی۔
"نہیں بوا جی۔۔میں کوئی بچی تھوڑی نا ہوں۔"
رشیدہ کا انداز نروٹھا تھا۔
وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اس کے چہرے پہ جھکا تھا۔ایمان کا سر اپنے سینے سے جا لگا تھا۔غزنوی نے اپنے سر کو اسکے سر سے ہلکے سے ٹکرایا۔
"آج شام ہم واپس چلیں گے، میں جلدی واپس آ جاوں گا۔"
پھر وہ اسکی پیشانی پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا کمرے سے نکل گیا۔
ایمان نے سر اٹھا کر اسے کمرے سے نکلتے دیکھا تھا۔اس نے نرمی سے اپنی پیشانی کو چھوا تھا بالکل وہیں جہاں وہ اپنا لمس چھوڑ گیا تھا۔
_______________________________________
پھر سارا دن انہی رنگوں کی نظر ہو گیا جو وہ محبت کے لبادے میں سمو کر اس پہ بکھرا گیا تھا۔اس ایک لمس میں۔۔محبت، احترام۔۔وہ سب تھا جو اسے چاہیئے تھا۔اب اسے انتظار تھا اسکے آنے کا، اس لئے اسکی بےچین نظریں بار بار دروازے تک جا کر لوٹ آتیں یا وہیں کہیں ٹھہر جاتیں۔اس نے رشیدہ کو خیرن بوا کو بلانے بھیج دیا تھا۔
وہ نہایت سنجیدگی سے کہتا اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ایمان نے اسکی پوسٹ مارٹم کرتی نگاہوں سے گھبرا کر نگاہیں پھیریں۔
"کون سی چیز؟ میں نے تو آپکی ضرورت کی ساری چیزیں ٹیبل پہ رکھ دیں تھیں۔"
ایمان نے ذہہن پہ ذور ڈالتے ہوئے پوچھا۔
"وہ سب تو مل گئی ہیں لیکن ایک سب سے اہم چیز وہاں موجود نہیں تھی تو میں اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گیا۔"
غزنوی نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔
"کیا؟"ایمان اپنے بھولپن میں پوچھ گئی۔
"آپ۔۔۔"غزنوی نے مسکراہٹ لبوں پہ سجاتے ہوئے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کیا۔ایمان نے اسکی گہری سیاہ آنکھوں کو خود پہ محسوس کیا تو دھڑکنیں پھر سے اس سے دغا کر گئیں۔وہ نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
"میں تو یہیں ہوں۔"
ایمان نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن غزنوی کی اسکی اس کوشش کو ناکام کیا۔
"کہاں ہو؟"
غزنوی نے کمرے میں ہی ناشتہ منگوایا تھا۔اس نے خود جانے کی بجائے ناشتے کی ٹرے بنا کر رشیدہ کو دی اور خود خیرن بوا کے کمرے میں آ گئی۔وہ غزنوی کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔اس لئے جب تک وہ گھر میں تھا وہ اسکی نظروں سے اوجھل رہنا چاہتی تھی۔وہ وہیں کمرے میں رہ کر غزنوی کے جانے کا انتظار کرنے لگی۔
بار بار گھڑی پہ نظر ڈالتی وہ کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی اور غزنوی روم میں داخل ہوا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
وہ پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتا قریب آیا۔
"وہ۔۔۔مم۔۔میں یہاں اپنا فون ڈھونڈنے آئی تھی۔"
غزنوی کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔
"یوں؟؟ ٹہل ٹہل کر۔۔۔اسطرح ٹہلنے سے اگر چیزیں مل جاتی ہیں تو میری بھی ایک شے کھو گئی ہے۔جب تک میں آفس سے آوں گا تب تک تم ڈھونڈ دو۔"
سائیڈ پہ رکھے ڈوپٹے سے یوں آہستگی سے پونچھا کہ کہیں اسکی زرا سی بھی حرکت سے غزنوی کی نیند نہ کھل جائے۔پھر اسی آہستگی سے اس نے خود کو اسکی قید سے آزاد کیا اور بنا اسکی طرف دیکھے کمرے سے باہر آئی لیکن دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے ایک بار غزنوی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تھا۔وہ اسی پوزیشن میں سویا ہوا تھا۔وہ شکر کا کلمہ پڑھتی خیرن بوا کے روم میں آ گئی جو کل بلقیس بیگم کی طرف رک گئی تھیں۔
کچھ پل اسے اپنی دھڑکنوں کی لگامیں تھامنے میں لگے تھے پھر وضو بنانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔نماز پڑھنے کے بعد اس نے تلاوت کی۔دل کی بے چینی کو کچھ قرار ہوا تو وہ وہیں بیڈ پہ لیٹ گئی۔ابھی غزنوی کے اٹھنے میں کافی وقت تھا۔نیند تو آنی نہیں تھی اس لئے لایعنی سوچیں پھر سے اس پہ حاوی ہونے لگیں۔رہ رہ کر اسے یہی بات کھائے جا رہی تھی کہ غزنوی اسکے متعلق کیا سوچتا ہو گا۔
ایمان کی آنکھ کھلی تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔پہلے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیا لیکن جب ذہہن نے بیداری کی سرحد پار کی تو اپنے بالکل پیچھے کسی کے وجود کا احساس اسے سیکنڈز میں ہوش میں لایا۔وہ ابھی بھی اسی کے تکیے پہ سر رکھے لیٹا سو رہا تھا۔اسکی نیند میں گھلی سانسوں کی آواز ایمان کو اپنے کانوں کے بالکل پاس سنائی دے رہی تھی۔اسکا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔غزنوی کا بازو اسکے گرد کسی قلعے کی مضبوط فصیل کی طرح اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔یہ بات اسکی دھڑکنیں بےترتیب کرنے کے لئے کافی تھی کہ اس نے ساری رات اسی حصار میں گزار دی تھی۔رات جب وہ اس سے قریب ہوا تھا تو کسی اندیکھی قوت نے اسکے جیتے جاگتے حواسوں کو سلب کر لیا تھا جس کے باعث وہ خود سپردگی کے عالم میں خود کو غزنوی سے الگ نہیں کر پائی تھی۔ماتھے پہ پھوٹتے پسینے کے ننھے ننھے قطروں کو اس نے سائیڈ پہ رک
میں تھک گیا ہوں اور تم وہ درخت ہو جسکے سائے میں میں اپنی تھکن اتارنا چاہتا ہوں۔"
غزنوی نے ہاتھ بڑھا کر اسے قریب کیا تھا۔تھکاوٹ تو اسکے بھی روم روم میں بسی ہوئی تھی۔غزنوی کا وجود تو اسکے لیے بھی چھاؤں جیسا ہی تھا لیکن اسکا رخ اب بھی مخالف سمت میں تھا۔
"ایمان۔۔۔"
ان کے بیچ وقت خاموشی سے سرکنے لگا تھا کہ غزنوی نے اسے پکارا تھا۔ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا مگر اسکی خاموشی نے غزنوی کا حوصلہ بڑھایا تھا۔اس نے ایمان کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا کر آنکھیں موند لیں۔ ________________________
"ہم واپس کب جا رہے ہیں، دو دن کا کہا تھا آپ نے؟"
ایمان نے اسے مصروف دیکھکر پوچھا۔
"ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا کہ کب واپسی ہو گی کیونکہ یہاں کچھ کام پینڈنگ ہیں۔"
غزنوی لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے بولا۔
"آپ یہ گھر بیچ رہے ہیں؟ رشیدہ کے بارے میں کیا سوچا؟"
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی قریب آئی تھی۔
"ہاں جب ہم یہاں رہیں گے نہیں تو کیا کرنا ہے اس گھر کا، جہاں تک رشیدہ کا معاملہ ہے تو اس بارے میں میں نے سوچ رکھا ہے۔وہ یہیں رہیں گے۔"
غزنوی نے لیپ ٹاپ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ایمان نے لیپ ٹاپ ٹیبل پہ رکھ کر دیا۔
"لائٹ آف کر دو۔"
وہ ٹیبل لیمپ آن کرتا بولا اور آنکھوں پہ بازو رکھتا لیٹ گیا۔اس نے اٹھ کر لائٹ آف کی اور واپس آ کر اپنی جگہ پہ لیٹ گئی۔نیند ابھی اسکی آنکھوں میں بسنے سے انکاری تھی۔
رات وہ روم میں آئی تو غزنوی جاگ رہا تھا۔غزنوی نے ایک پل کو لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔وہ صوفے کیطرف بڑھ گئی۔ان کے بیچ دوری کی یہ ڈور ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اوپر اوپر سے "سب اچھا ہے" کا سائن بورڈ لگائے دونوں زندگی گزار رہے تھے۔۔۔نہ غزنوی اپنی انا کا بوجھ اٹھانے سے تھک رہا تھا نا وہ ہار مان رہی تھی۔دو دن ہو گئے تھے انہیں اسلام آباد آئے۔ یہاں آ کر غزنوی بہت مصروف ہو گیا تھا۔
"بوا کہاں ہیں؟"
اس نے مصروف انداز میں ایمان سے پوچھا۔
"آج بلقیس خالہ نے لنچ پہ بلایا تھا۔آپ تو مصروف تھے اس لئے ہم چلے گئے۔یہی بتانے کے لئے میں نے دوبار آپ کو کال بھی کی تھی لیکن آپ نے ریسیو نہیں کی۔خالہ نے انہیں آج اپنی طرف روک لیا۔"
ایمان نے بناء اسکی طرف دیکھے بتایا۔
"بوا باقی میں کر لوں گی، آپ تھک گئی ہونگی۔"
ایمان نے ان کے لہسن چھیلتے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا، جن میں ہلکی سی لرزش سے محسوس ہو رہی تھی۔
"ائے نہیں بیٹا۔۔میں کون ایک جوا چھیلنے کے لئے پہاڑ پہ چڑھتی ہوں اور پھر دوسرا جوا لینے کے لئے پہاڑ سے نیچے آتی ہوں جو تھک جاوں گی۔"
وہ ہنستے ہوئے بولیں تو ایمان مسکرا دی۔
"اچھا پہلے قہوہ پی لیں، ٹھنڈا ہو جائے گا۔"
ایمان نے کپ اٹھا کر ان کی طرف بڑھایا جو انہوں نے تھام لیا۔
"گھنٹہ ہو گیا ہے اس رشیدہ کو اوپر کمرے میں گئے۔"
خیرن بوا کی نظر وال کلاک پر پڑی تو اس کی طرف دیکھکر بولیں۔
"جی میں دیکھتی ہوں جا کر۔"
ایمان نے کپ ٹیبل پہ رکھا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔
خیرن بوا نے تیز نگاہوں سے اسے گھورا۔
"ائے کیا بول رہی ہے؟ ذرا اونچا بول۔"
خیرن بوا نے رشیدہ کو منہ ہی منہ بڑبڑاتے دیکھ کر پوچھا۔
"کچھ نہیں بوا، وظیفہ پڑھ رہی ہوں۔"
رشیدہ جل کر بولی۔
"ائے تُو بڑی آ گئی، ملانی بیگم۔۔۔جو وظیفے پڑھ رہی ہے۔"
خیرن بوا کو اسکی بات پہ تو جیسے تپ چڑھ گئی۔
"رشیدہ۔۔۔بوا سے بحث مت کرو اور تم یہ رہنے دو، میں کر لوں گی۔تم ذرا بیگ سے کپڑے نکال کر الماری میں لگا دو اور دو شلوار سوٹ بیڈ پہ رکھے ہیں، انہیں استری کر دینا۔"
ایمان لاؤنج میں آئی اور رشیدہ کی رونے بدتر صورت دیکھکر اسے وہاں سے بھیجا اور رشیدہ اندھا کیا چاہے دو آنکھوں کے مصداق وہاں سے یوں بھاگی جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر اسے غائب کر دیا ہوا۔
غزنوی ناشتہ کر کے جا چکا تھا۔خیرن بوا لاؤنج موجود تھیں اور رشیدہ سے اپنی نگرانی میں صفائی کروا رہی تھیں۔ایمان کچن میں تھی۔اسے لاونج میں ہوتی پریڈ کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔
"ائے ہائے۔۔ستیا ناس مار دیا ہے پورے گھر کا، ہر چیز دھول مٹی سے اٹی پڑی ہے۔ائے بی بی۔۔! کیا تم نے گھر کو کباڑ خانہ سمجھ رکھا تھا۔"
خیرن بوا نے رشیدہ کو بے دلی سے جھاڑ پونچھ کرتے دیکھ کر کہا۔
"بوا میں روز صفائی کرتی تھی۔"
رشیدہ نے منہ بسورا۔
"ہاں ہاں دکھ رہا ہے۔۔کتنی صفائی کر رہی تھی تم، ایسے ہی کرتی ہو گی جیسے ابھی ٹوٹے ہاتھوں سے لگی ہو۔ائے کیا دم نہیں ہاتھوں میں، کھاتے پیتے یہ حال ہے۔ائے ایک ہم تھے ایک ایک چیز کو رگڑ رگڑ کر یوں صاف کرتے تھے کہ اپنی شکل دکھائی دینے لگتی تھی۔
اللہ آپ کو اور صاحب کو ہمیشہ ہنستا بستا اور خوشحال رکھے، ہمارا اتنا خیال رکھا، کبھی نوکر نہیں سمجھا ہمیں۔آپ مجھے بہت یاد آئیں گی۔"
رشیدہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"مجھے بھی۔۔۔کل کہاں تھیں تم، آئیں ہی نہیں۔"
ایمان نے گل خان کو دیکھتے ہوئے رشیدہ سے پوچھا، جو اپنے کمرے سے نکل کر گیٹ کھول کر باہر نکل گیا تھا۔
"وہ باجی ہم گاوں گئے تھے، میری ساس کی طبیعت اچانک بگڑ گئی تھی، بس اچانک جانا پڑ گیا۔آج صبح ہی آئے ہیں۔گل خان نے بتایا تھا کہ صاحب آئے ہیں میں سمجھی وہ صرف اکیلے آئے ہیں۔آپ نے اچھا کیا جو آپ بھی آ گئیں۔میں آپ کے چائے بنا کر لاتی ہوں۔"
رشیدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کے چائے کا نام لینے پر ایمان کو یاد آیا کہ اس نے چولھے پر چائے کا پانی رکھا تھا۔
ہائے باجی آپ کو دیکھکر مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے۔"
وہ چہل قدمی کرتے کرتے گلاب کے پھولوں کے پاس آ کر رک گئی اور ایک ایک پھول کو نرمی سے چھو رہی تھی کہ پیچھے سے رشیدہ کی خوشی سے چہکتی آواز پہ پلٹی۔
"السلام و علیکم رشیدہ۔۔!"
ایمان نے سلام پہ زور دیتے ہوئے اسے یاد دلانا چاہا۔
"واعلیکم السلام باجی۔۔!!"
رشیدہ کے نہایت معصومیت سے جواب دینے پر وہ مسکرا دی۔
"کیسی ہیں آپ باجی؟"
رشیدہ کا جوش ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو اور بچے؟"
ایمان کرسیوں کی طرف آ گئی۔
صبح فجر کے وقت اسکی آنکھ کھلی تھی۔نماز پڑھ کر وہ روم سے باہر آئی۔خیرن بوا کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو وہ نماز کے بعد تلاوت میں مصروف تھیں۔اس نے انھیں ڈسٹرب نہ کیا اور خاموشی سے پلٹ آئی۔اپنے لئے چائے بنانے کے لئے وہ کچن میں آئی، پانی ابلنے کے لئے رکھنے کے دوران اسے یاد آیا کہ وہ کل سے آئے ہیں اور اس نے ایک بار بھی رشیدہ کو نہیں دیکھا۔آنچ دھیمی کرتی وہ باہر آئی۔اسکا رخ سرونٹ کوارٹر کی جانب تھا۔گھر کی دائیں دیوار سے ملحق قدیم طرز کے لکڑی کے دروازے کے باہر کھڑی وہ سوچ رہی تھی کہ دستک دے یا وہاں سے واپس چلی جائے۔ابھی اندھیرا پوری طرح سے چھٹا نہیں تھا۔اس لئے اس نے پلٹ جانا ہی مناسب سمجھا اور لان میں آ گئی۔کچھ دیر تازہ فضاء میں چہل قدمی کرتی رہی۔اسکے ذہہن سے نکل گیا کہ وہ کچن میں چائے کا پانی چڑھا کر آئی ہے۔
رات کو وہ سفر کی شدید تھکان کے باعث وقت پہ سو گیا تھا۔کھانا کھانے کے فورا بعد وہ روم میں آیا تو نیند نے مزید جاگنے کی مہلت نہیں دی۔جب ایمان کچن سمیٹ کر کمرے میں آئی تو وہ سو چکا تھا۔اس نے ایک بھرپور نظر گہری نیند سوئے ہوئے غزنوی پہ ڈالی۔وہ بھی ہلکا پھلکا لباس زیب تن کرتی بیڈ پہ آ گئی۔کافی دیر کروٹ پہ کروٹ لیتی رہی۔کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا۔روم میں مدھم روشنی ہونے کے باوجود غزنوی کے چہرے کا ایک ایک نقش اس کے سامنے تھا۔کمان کی طرح تنے ہوئے ابرو جن کی ہی وجہ سے وہ بہت اکھڑ نا صرف دکھتا تھا بلکہ اکھڑ تھا بھی، چہرے پہ سجی مونچھیں۔۔۔
"مونچھیں دیکھو ذرا اس کھڑوس کی۔"
یہ سوچ ایمان کے لبوں پہ مسکراہٹ لے آئی۔اسے اس بات سے انکار نہیں تھا کہ وہ اوپر سے جتنا بھی اس سے لاپرواہی برتتی وہ اس سے کہیں زیادہ اس کے دل میں بسا تھا۔
میں تو بہت شوق سے کھاتی ہوں، میری اماں بھی بہت مزے کے کریلے گوشت بنایا کرتی تھیں۔لیکن یہ تمھارے غزنوی بھائی جو ہیں نا، وہ ہیں تو اسی سبزی جیسے لیکن یہ کھانی انہیں پسند نہیں اور پھر میں چاول بھی بھگو چکی تھی۔تم بتاو شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی؟"
ایمان نے اس سے پوچھا۔
"نہیں ابھی نہیں، دراصل کمیل کی بڑی بہن بیرون ملک رہائش پذیر ہیں اور ایک دو مہینے تک وہ پاکستان آ رہی ہیں۔ان کے آنے کے بعد کی تاریخ رکھی جائے گی۔"
رقیہ نے بتایا تو ایمان نے بغور اسکی جانب دیکھا۔رقیہ کے چہرے پہ ایک چمک سی تھی اور لبوں پہ کھلی کھلی مسکراہٹ۔۔ایمان نے بےاختیار اسکی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا کی۔
"چلو اچھا ہے۔مجھے بلاو گی نا اپنی شادی میں؟"
ایمان نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
"بھابھی آپ کیسی بات کر رہی ہیں، بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ ہم آپ کو نہ بلائیں۔
آپ کے چائے لاؤں یا ٹھنڈا؟"
ایمان اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ارے نہیں بیٹا۔۔اس وقت میں چائے نہیں پیتی، بس اب گھر جا کر کھانا کھاوں گی۔یہ تو گل خان نے آ کر خیرن اور تم لوگوں کی آمد کا بتایا تو رہا نہیں گیا، دوڑی چلی آئی۔حالانکہ رقیہ کہتی رہی کہ وہ لوگ ابھی آئے ہیں، لمبا سفر تھا۔۔تھک گئے ہونگے، صبح مل لیجیئے گا مگر مجھ سے کہاں صبح تک صبر ہونا تھا، اس لئے چلی آئی ملنے۔"
بلقیس بیگم نے اسے روکا تو وہ واپس بیٹھ گئی۔
"بہت اچھا کیا آپ نے، اب کھانا ہمارے ساتھ کھائیے گا۔کیوں بوا؟
ایمان نے خاموش بیٹھی بوا سے پوچھا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔"
خیرن بوا نے تسبیح گود میں رکھی اور بلقیس بیگم کی جانب دیکھا۔
"ارے نہیں، کھانا گھر میں ہی کھائیں گے اور تم بھی تھکی ہوئی ہو میں بھجوا دوں گی کھانا، آج رقیہ نے کریلے گوشت بنائے ہیں۔تم تھک گئی ہوگی۔"
آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا انہیں اسلام آباد آئے۔خیرن بوا صوفے پہ براجمان لاؤنج کا جائزہ لینے میں مگن تھیں۔ایمان کچن میں تھی اور غزنوی آتے ہی اپنے روم میں بند ہو گیا تھا۔ایمان نے چائے بنا کر پہلے خیرن بوا کو دی اور غزنوی کو دینے کے لئے روم میں آئی۔وہ واش روم میں تھا۔اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیبل پہ رکھ دی اور نیچے آ گئی۔بلقیس بیگم اور رقیہ کو لاؤنج میں موجود پا کر وہ نہایت گرم جوشی سے ان کی طرف بڑھی۔
"کیسے مزاج ہیں خالہ۔۔! احمد بھائی اور بھابھی اور وہ شرارتی ٹیپو کیسا ہے؟"
ایمان دونوں سے ملتی خیرن بوا کے پاس آ بیٹھی۔
"شکر ہے اللہ ہے، ہمارے مزاج بالکل بخیر ہیں۔تم سناو، عقیلہ بیگم اور باقی سب کیسے ہیں؟"
بلقیس بیگم بڑی محبت سے اسکی جانب دیکھ رہی تھیں۔
عینک کے پیچھے سے دو تجربہ کار نگاہیں ایمان پہ جم گئیں۔
"بوا صرف دو دن کے لئے ہی تو جا رہے ہیں، میں جا کر کیا کروں گی۔"
وہ منمنائی۔
"ائے یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔تم بھی ساتھ چلنا۔"
خیرن بوا نے اسے نظروں سے تولنے کی کوشش کی۔
"جی۔"
وہ اتنا ہی کہہ پائی جبکہ غزنوی اپنا کام ہوتے دیکھ کر وہاں سے کھسک لیا۔غزنوی کے جانے کے بعد خیرن بوا نے شوہر کی منشاء کا خیال رکھنے پہ اسے ایک لمبا چوڑا لیکچر جو دینا شروع کیا تو پھر خاموش ہونے کا نام نہ لیا جبکہ ایمان نے لیکچر سنتے ہوئے دل ہی دل میں غزنوی کو خوب صلواتیں سنائیں۔
___________________________________
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain