"کیا مطلب۔۔۔؟"
وہ ناسمجھی سے بولی۔
"میرا مطلب ہے کہ۔۔۔"
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پاس آ بیٹھا۔
"بھائی۔۔۔امی آپکو بلا رہی ہیں۔"
اسی دوران ملائکہ لاونج میں داخل ہوئی اور غزنوی کو مخاطب کیا۔وہ جو ایمان کیطرف قدرے جھکا ہوا تھا فورا سیدھا ہوا۔
"تم کیا اچانک سے وارد ہونے کی ڈگری لینے کی کوششوں میں ہو؟"
غزنوی نے پلٹ کر ملائکہ کو دیکھا۔وہ بیچاری ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی جبکہ ایمان اپنی ہنسی کو بمشکل دبا پائی تھی۔
"جایئے۔۔۔"
چلو یار میں بھی چلتا ہوں۔امی نے بازار جانا تھا، انہیں لے جاوں ورنہ نجانے کب تک یہ سننا پڑے گا۔"
مرتضی نے غزنوی کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا جو غزنوی نے تھام لیا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔لیکن سونے سے پہلے ہادی سے مل لینا۔"
غزنوی نے کہا تو وہ سر ہلاتا باہر نکل گیا۔
"امی بھوک لگی ہے کھانا گرم کروا دیں۔"
غزنوی سامنے بیٹھی شمائلہ بیگم سے بولا تو وہ اچھا کہتیں کچن کیطرف بڑھ گئیں۔
"آہم۔۔۔"
ان کے جاتے ہی غزنوی نے گلا کھنکھار کر ایمان کو متوجہ کیا جو کسی گہری سوچ میں گم تھی۔اس نے چونک کر غزنوی کیطرف دیکھا۔
"کیا خیال ہے ہم نے جہاں پہ ختم کیا تھا وہیں سے شروع کریں؟"
وہ لہجے میں مزاح کا رنگ اور آنکھوں میں شرارت کی چمک لئے اسے دیکھ رہا تھا۔
اور اب بغور اسے سن رہے تھے۔
"یہ تو اچھا ہوا کہ وہ پکڑا گیا۔"
اعظم احمد نے کہا۔ایمان نے سکھ کا سانس لیا۔
"لیکن کیس کا فیصلہ اگلی پیشی تک ٹل گیا ہے۔"
مرتضی نے مزید بتایا۔
"اللہ غارت کرے۔۔کیسا شخص ہے۔جرم پہ جرم کرتا جا رہا ہے۔بڑا ہی چلتر آدمی ہے لیکن خیر اچھا ہوا کہ پکڑا گیا، خس کم جہاں پاک۔"
عقیلہ بیگم ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"آپ کہاں چلدیں۔۔میرے ساتھ ذرا معظم کی طرف چلیں۔"
اعظم احمد عقیلہ بیگم کو اٹھتے دیکھکر خود بھی کھڑے ہو گئے اور پھر باہر کی سمت بڑھ گئے۔
وعلیکم السلام۔۔۔کہاں رہ گئے تھے بیٹا؟ کہہ رہے تھے کہ جلدی آئیں گے اور اتنا ٹائم لگا دیا۔۔۔اور یہ غزنوی کہاں ہے؟"
عقیلہ بیگم نے دروازے کیطرف دیکھکر پوچھا۔
"آ رہا ہے۔۔۔لیجیئے آ گیا۔"
مرتضی نے لاونج میں داخل ہوتے غزنوی کو دیکھکر کہا۔غزنوی با آواز بلند سلام کرتا عقیلہ بیگم کے سامنے آ بیٹھا۔
"بادشاہ خان نے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس کے الرٹ ہونے کی وجہ سے وہ جلدی دھر لیا گیا۔کسی کو اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ ہتھکڑیوں سمیٹ بھاگنے کی کوشش کرے گا اور تو اور اسکا وہ ساتھی۔۔۔کیا نام تھا اسکا؟؟ وہ جو یہاں بھی آیا تھا اسکے ساتھ۔"
غزنوی نے مرتضی کی جانب دیکھا۔
"جانس خان۔"
مرتضی نے اسے نام بتایا۔
"ہاں۔۔۔وہ عدالت کے باہر گاڑی لئے اس کا ویٹ کر رہا تھا کہ جیسے ہی بادشاہ خان آئے اور وہ دونوں رفو چکر ہوں۔۔
وہ سب لاونج میں موجود مرتضی اور غزنوی کا انتظار کر رہے تھے۔انہیں کافی دیر ہو گئی تھی۔وہ پریشان تو تھی ہی مگر مقررہ وقت سے جب وقت اوپر ہونے لگا تو اسکی پریشانی میں مزید اضافہ ہونے لگا۔بار بار پلکیں بھیگ جاتیں، عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم اسکی دلجوئی میں لگے تھے لیکن نجانے کیوں اس جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا اسکی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔
"انشاءاللہ اچھی خبر آئے گی بیٹا، تم کیوں پریشان ہو رہی ہو۔"
عقیلہ بیگم نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے اسے تسلی دی۔
"شاہ گل کب آئیں گے غزنوی۔۔اب تک تو آ جانا چاہیئے تھا نا۔"
ایمان نے گھڑی کی جانب دیکھا۔
"آ جائیں گے۔۔کوئی ضروری کام پڑ گیا ہو گا۔"
شمائلہ بیگم بھی اسے دلاسا دیا۔
"السلام و علیکم۔۔۔!!"
مرتضی لاونج میں داخل ہوا دھم سے صوفے پر آ بیٹھا۔
آہاں۔۔۔!! تو پھر اسکا کوئی عملی ثبوت بھی دیں نا۔"
وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اپنے اور اسکے بیچ معمولی سے فاصلے کو بھی مٹا گیا۔وہ بھی تو اسکی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔نہ جھجکی، نہ گھبرائی۔۔۔یہ یقینا اس محبت کی طاقت تھی جو وہ یوں بنا جھجکے اس سے نظریں ملا رہی تھی۔غزنوی سے خود پہ قابو پانا مشکل ہوا۔
"بھائی مرتضی بھائی کب سے ویٹ کر رہے ہیں۔"
اسی دوران ملائکہ نے دروازے پہ دستک دی۔
"ہاں۔۔۔آ رہا ہوں۔"
وہ اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکراتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"اللہ حافظ۔۔!"
وہ الوداعی کلمات ادا کرتا کمرے سے نکل گیا جبکہ ایمان کی نظریں اپنی شفاف ہتھیلی کی لکیروں میں کھو گئیں۔اسکا رواں رواں اپنے اللہ کے حضور دعا گو تھا۔
نہیں۔۔۔ٹھیک ہے۔تم بھی ناشتہ کرو اور پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
وہ اس کے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے بولا اور پھر کپ اسکی طرف بڑھایا۔ایمان نے کپ اسکے ہاتھ سے لے کر لبوں سے لگایا۔
"ویسے کیا ہم میں صلح ہو گئی ہے؟"
غزنوی نے شرارتی نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔اس کا اشارہ سمجھ کر ایمان کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
"ہم میں لڑائی کب تھی؟"
ایمان کی آنکھوں میں بھی شرارت چمک رہی تھی۔اسکے سنہرے چہرے پہ رنگ یوں بکھرے تھے جیسے موسلادھار بارش کے بعد مطلع صاف ہو جائے۔
"اچھا۔۔؟؟ کیا نہیں تھی؟"
غزنوی قریب ہوا۔
"نہیں۔۔۔۔وہ صرف آپکے نخرے تھے۔"
ایمان نے بھی جواب میں وہی انداز اپنایا۔ ۔"
اسے سزا ہو جائے گی نا۔۔کہیں وہ پہلے کی طرح چھوٹ تو نہیں جائے گا۔ہمارا معاشرہ توا یسے مجرموں کے لئے پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔اگر اس وقت اسے چھوڑا نہ جاتا تو آج بابا میرے پاس ہوتے۔"
آنسو ایک بار پھر اسکی آنکھوں سے بہنے کو بیتاب تھے۔وہ اپنے دل کا ڈر زبان پہ لے آئی تھی۔
"ایسا کچھ نہیں ہو گا۔اب ایسی بھی اندھیر نگری نہیں ہے۔ہمارا کیس مضبوط ہے۔وہ اپنے بیان پھر گیا تو کیا، ہمارے پاس اس کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں۔انشاء اللہ وہ ضرور آج اپنے کیفرِ کردار تک پہنچے گا۔"
غزنوی نے اسے بھروسہ دلایا۔
"ہیم۔۔۔! آپ ناشتہ کریں۔۔چائے ٹھنڈی ہو گئی ہو گی۔میں دوسری بنا لاتی ہوں۔"
دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو اسے اپنے اور غزنوی کے بیچ نا ہونے کے برابر فاصلہ دکھائی دیا۔چائے کا بہانا کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ایمان کچھ تو بتاؤ، آخر بات کیا ہے؟
اسکی شرٹ ایمان کے آنسوؤں سے بھیگنے لگی تھی۔اس نے اسے خود سے الگ کر کے اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کیا۔وہ یونہی روتی رہی۔
"اب کچھ بتاؤ گی تو پتہ چلے نا کہ یہ بن موسم برسات کیوں ہو رہی ہے۔"
وہ اسکی بھیگی آنکھوں میں جھانکتا پوچھ رہا تھا جو بار بار نمکین پانیوں سے بھر جاتی تھیں۔
"داجی بتا رہے تھے کہ آج ہو سکتا ہے کیس کی آخری پیشی ہو اور شاید آج فیصلہ ہو جائے گا۔"
وہ آنسوؤں کے بیچ بولی۔
"ہاں میں اور مرتضیٰ کورٹ جا رہے ہیں لیکن اس میں ساون بھادوں کی کیا ضرورت تھی۔یہ تو خوشی کی خبر ہے کہ آج وہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔"
غزنوی نے اسکے بہتے آنسوؤں کو اپنی پُوروں سے چُن لیا۔
"بس یونہی بابا یاد آ گئے تو دل بھر آیا تھا۔داجی بتا رہے تھے کہ پچھلی پیشی میں بادشاہ خان اپنے بیان سے پھر گیا تھا
"کیا بات ہے؟"
غزنوی نے ہاتھ میں پکڑا سلائس واپس پلیٹ میں رکھا اور اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔جسے ایمان نے بناء پس و پیش کے تھام لیا۔شاید وہ اسکے ساتھ کی یقین دہانی چاہتی تھی۔غزنوی کو اسکا خودسپردگی کا انداز پل بھر کو حیران کر گیا۔اس نے ایمان کو اپنے پاس بٹھایا اور سلائس اسکے منہ کے قریب لے گیا۔دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔غزنوی کو اسکی آنکھیں نم ہوتی محسوس ہوئیں۔
"کیا ہوا ہے، تمھاری آنکھوں میں نمی کیوں ہے؟"
اس نے سلائس واپس پلیٹ میں رکھا اورا سکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔غزنوی کے لہجے کی نرمی پا کر ایمان اسکے چوڑے سینے سے آ لگی۔وہ اسے ایک بار پھر ورطہ حیرت میں ڈال گئی تھی لیکن پھر اپنی حیرت کو ایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اسکے گرد اپنے مضبوط بازوؤں جا حصار باندھ گیا۔وہ اسکے سینے سے لگی بےطرح روئے جا رہی تھی۔
وہ ناشتہ لے کر کمرے میں آئی تو غزنوی جانے کے لئے بالکل کھڑا تھا۔اس نے خاموشی سے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور واپس جانے کے لئے پلٹنے لگی۔
"مرتضیٰ آیا ہے یا نہیں؟"وہ کالر ٹھیک کرتا قریب آیا۔
"جی وہ نیچے انتظار کر رہا آپکا۔"
وہ سادہ سے لہجے میں کہتی پلٹ گئی۔
"رُکو۔۔۔"غزنوی نے اسے پکارا۔ایمان کے قدم رکے اور پلٹ کر اس نے غزنوی کی طرف دیکھا۔
"تم ناشتہ نہیں کرو گی؟"
وہ کف بند کرتا صوفے کی جانب بڑھا اور ٹرے اپنی جانب کھینچتے ہوئے بولا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔چائے پی لی تھی میں نے شاہ گل کے ساتھ۔"وہ کہہ کر جانے لگی۔
"یہاں آؤ۔۔۔"
غزنوی بظاہر تو ناشتے میں مگن تھا مگر دھیان کی ہوا ایمان کے گرد ہی منڈلا رہی تھی۔وہ دروازہ واپس بند کرتی اسکے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
غزنوی نے اسکا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھا۔ایمان کو اسکی لفظوں میں ہلکے طنز کی آمیزش مگر آنکھوں میں نرمی محسوس ہوئی۔
"میں حقیقت میں جیتی ہوں۔"ایمان نے اپنا ہاتھ کھینچا۔
"اچھا ہاتھ کیوں پیچھے کر لیا۔سر دباؤ نا، اسی بہانے تمھارا یہ خوشبو بھرا لمس ہی محسوس کر رہا ہوں۔"
"جی۔۔۔؟؟"وہ جو اسکی بات سن نہیں پائی تھی اس لئے بولی۔
"کچھ نہیں۔۔میرا سر۔۔۔"
غزنوی نے ااندیکے لئے اپنے ہاتھ اسکی طرف بڑھائے۔ایمان نے اسے گھوری سے نوازا اور ہاتھ اسکی قید میں دینے کی بجائے اسکی پیشانی پر رکھا اور اپنا پورا زور لگا کر اسکا سر دبانے لگی۔ایمان کا انداز غزنوی کے لبوں پہ ایک جاندار مسکراہٹ لے آیا۔ ________________________________________________
غزنوی دھیرے سے بولا تو وہ خاموش ہو گئی۔اسکا ہاتھ ابھی بھی غزنوی کے ہاتھ کے نیچے دبا تھا۔اسے لگا جیسے اسکا دل غزنوی کے ہاتھ میں دھڑک رہا ہو۔
"چائے بنا لاؤں؟"ایمان نے سر دباتے اس سے پوچھا۔
نہیں تم یہیں رہو۔"وہ اسکی گود میں چہرہ چھپا کر بولا۔
"تم کیا مجھ سے خوفزدہ ہو؟"غزنوی نے اس سے پوچھا۔
"یہ کیسا سوال ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔"
ایمان پہلے تو اسکے سوال پہ حیران رہی پھر بولی۔
"تو پھر تمھارے ہاتھ میں لرزش کیوں ہے۔"
وہ اس کی گود میں سر رکھے رکھے سیدھا ہوا تھا۔ایمان نے سر جھکا کر اسکی جانب دیکھا۔
"نہیں تو۔"ایمان نے اس پر سے نظر ہٹائی۔غزنوی مسکرایا اور اپنے ماتھے سے اسکا ہاتھ ہٹا کر لبوں سے لگایا۔ایمان نے اپنا ہاتھ کھینچا مگر غزنوی کی گرفت مضبوط تھی۔
"حقیقت سے بھاگنا تمھاری عادت بن چکی ہے یا حقیقت سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہے۔"
پھر اسکے ہاں یا ناں کہنے سے پہلے وہ اسکے قریب کھسک آئی اور اسکی گرم پیشانی پہ ہاتھ رکھا اور ہلکے ہاتھوں سے دبانے لگی۔غزنوی نے آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں موند لیں۔غزنوی نے اسکے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کر دباؤ بڑھایا۔ایمان کے ہاتھوں کی نرماہٹ اور ٹھنڈک اسے اپنے خون میں رچتی محسوس ہوئی۔غیر ارادی طور پر غزنوی نے اسکی گود میں سر رکھ دیا۔ایمان کا ہاتھ تھم گیا۔
ایمان کا کومل احساس ملتے ہی غزنوی کو لگا اسکا درد کہیں دور جا سویا ہے اور دوسری جانب
ایمان کو لگا اسکی سانسیں وہیں اسکی گود میں کہیں اٹک گئیں ہوں۔اسکے سرد ساکت ہاتھ ابھی بھی غزنوی کے بھاری ہاتھوں کے نیچے دبے تھے۔
"اگر زیادہ درد ہو رہا ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔"
ایمان کو اسکی پیشانی دہکتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ بولی۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں۔"
ایمان کے دو ٹوک انکار پہ غزنوی نے مزید کچھ نہ کہا اور اپنی توجہ ڈرائیونگ کی طرف مرکوز کر دی۔
_______________________________________
جب وہ گھر پہنچے تو رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔غزنوی تو سب سے مل کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ باقی سب کے ساتھ لاؤنج میں ہی تھی۔عنادل اور ارفع کے علاوہ سبھی موجود تھے۔
"جاو بیٹا آرام کرو۔۔"
عقیلہ بیگم نے ایمان کے تھکن زدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔وہ بھی تھک گئی تھی اس لئے کمرے میں آ گئی۔غزنوی آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹا ہوا تھا۔ایمان واش روم کی طرف بڑھ گئی۔کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی تو غزنوی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی کنپٹی کو دبا رہا تھا۔
"میں دبا دوں سر؟"
ایمان نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا
غزنوی کے پکارنے پر ایمان نے آسمان سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھا۔
"گل خان تمھارا گاوں والا گھر خریدنا چاہتا ہے۔وہ خود تم سے بات کرنا چاہتا تھا مگر ہچکچاہٹ کا شکار تھا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگے۔آتے ہوئے اس نے مجھے پھر سے یاد دلایا ہے کہ میں اس بارے میں تم سے بات کروں۔"
غزنوی نے یاد آنے پر کہا۔
"مجھے نہیں بیچنا اس گھر کو، وہاں اماں کی اور میرے بچپن کی یادیں ہیں۔میں کیسے ان یادوں کو بیچ سکتی ہوں۔ہاں اگر وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں۔چابی وہاں حویلی میں ہی ہے شفیقہ کے پاس۔"
ایمان نے گھر بیچنے سے انکار کیا۔
"میں نے بھی کہا تھا مگر وہ۔۔۔"
"میں نہیں بیچنا چاہتی۔"
ایمان اسکے بات مکمل کرنے سے پہلے ہی بول پڑی۔
لیکن تم اداس لگ رہی ہو۔"غزنوی نے مزید کہا۔
"رشیدہ کے لئے اچھا نہیں لگ رہا۔۔"
اس نے اپنی اداسی کو کسی اور پیراہن میں ڈھالا۔
"فکر کی کوئی بات نہیں۔۔سہیل صاحب بہت ملنسار اور سلجھی طبیعت کے مالک ہیں اور میں ان کی فیملی سے بھی مل چکا ہوں، بہت اچھے لوگ ہیں اور سہیل صاحب نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ ان کو کام سے نہیں نکالیں گے۔ہاں گل خان گاوں جانا چاہتا ہے۔حویلی میں اسکی ضرورت ہے۔وہ وہاں کام کرے گا۔"
غزنوی نے اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی تو ایمان سر سیٹ کی پشت سے ٹکائی اور نظریں دور افق پہ پھیلتے خوبصورت رنگوں پہ جما دیں۔شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔
گاڑی تیزی رفتاری سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔
"ایمان۔۔۔!"
ایمان اسے خیرن بوا کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتی باہر آ گئی۔غزنوی ابھی کچھ لمحے پہلے اسے چلنے کا اشارہ کرتا وہاں سے نکل کر باہر گیا تھا۔
"آپ بھی اپنا خیال رکھنا۔"رشیدہ اسکے ساتھ باہر تک آئی۔
"تم بھی۔۔۔اللہ حافظ۔۔!"
ایمان اس سے معانقہ کرتی گاڑی میں آ بیٹھی۔اسکے بیٹھتے ہی غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
"وہ لفافہ رشیدہ کو دے دیا تم نے؟"
گاڑی مین روڈ پہ ڈالتے ہوئے غزنوی نے اسکی طرف دیکھا۔
"جی۔۔"
وہ مختصرا جواب دیتی تیزی سے گزرتے منظر میں کھو۔اسے صحیح معنوں میں یہاں سے جانے کا دکھ ہو رہا تھا۔اس گھر سے اسکی بہت سی اچھی بری یادیں وابستہ تھیں۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس گھر کے لئے اتنی اداس ہو سکتی ہے۔
"کیا بات ہے؟"غزنوی نے اسکی اداس سی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
"کچھ نہیں۔"ایمان نے اسکی طرف دیکھا۔
غزنوی عصر سے کچھ دیر پہلے آیا تھا۔خیرن بوا دونوں سے مل کر واپس چلی گئی تھیں۔گل خان ان کے ساتھ ان کا سامان لے گیا تھا۔غزنوی نے اپنا اور ایمان کا سوٹ کیس بھی گاڑی میں رکھوا دیا تھا۔
"رشیدہ تم بالکل پریشان مت ہو۔غزنوی کہہ رہے تھے کہ رضا صاحب کی فیملی بہت اچھی ہے۔تمھیں یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔"
ایمان نے رشیدہ کا پریشان اور اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر اسے تسلی دی۔
"پر باجی آپ مجھے بہت یاد آئیں گی۔پتہ نہیں وہ لوگ میرا کام پسند کریں گے بھی یا نہیں۔"
رشیدہ کی پریشانی اسکے تسلی دینے کے باوجود جوں کی تُوں تھی۔
"ایسا کچھ نہیں ہو گا اور پھر تم تو بہت اچھے سے سب سنبھال لیتی ہو، انہیں تمھارا کام ضرور پسند آئے گا اور ویسے بھی وہ کوئی اتنی بڑی فیملی نہیں ہے۔دو میاں بیوی، ایک بوڑھی ماں اور تین بچے۔۔۔کتنی چہل پہل ہو گی۔
خیرن بوا کے مسکراتے چہرہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ گیا۔رشیدہ ناک پُھلاتی کچن میں چلی گئی۔
"بوا آج ہم نے واپس لوٹنا ہے۔اگر آپ رکنا چاہتی ہیں تو رک سکتی ہیں۔"ایمان ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
"ہاں بلقیس بھی کہہ رہی تھی کہ رک جاو کچھ دن، پھر احمد لے جائے گا۔میرا بھی جی چاہ رہا ہے۔"
خیرن بوا نے کہا۔
"ٹھیک ہے بوا، میں آپکا سامان رکھ دیتی ہوں۔"
وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
"ارے نہیں تم بیٹھو میرے پاس، رشیدہ کر لے گی۔جاو رشیدہ میرے کپڑے الماری سے نکال کر میرے اٹیچی میں ڈال دو۔"
انہوں نے رشیدہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے اس سے کہا۔وہ سر اثبات میں ہلاتی واپس پلٹ گئی جبکہ ایمان انھیں عقیلہ بیگم کی کال کے بارے میں بتانے لگی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain