"ایمان یہ سب تمھاری نندیں ہیں اور یہ سبھی تمھاری آمد اور تم سے ملنے کے لئے بےقرار تھیں۔دیکھو ان سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔
شمائلہ بیگم نے ہنستے ہوئے اسے بتایا۔ایمان مسکرا دی۔
"چلیئے تائی امی ہمارا تعارف کروائیے۔"
سحرش نے کشن اٹھا کر گود میں رکھا اور اسکے گرد بازو لپیٹتے ہوئے کہا۔
"ہاں ممانی جلدی جلدی بتائیے۔۔میرے پاس وقت کی بہت کمی ہے۔"
ارفع نے اپنی چھوٹی سی ناک سکوڑ کر کہا۔
"ارے بھئی تم لوگ خاموش ہو گی تو تعارف کرواؤں گی نا۔"
شمائلہ بیگم نے کہا اور پھر ایمان کیطرف دیکھا۔وہ سب اپنا تعارف ہونے کے لئے بہت بےقرار تھیں اور منتظر نگاہوں سے کبھی ایمان کو دیکھتی تو کبھی شمائلہ بیگم کو۔
"ایمان یہ تم اتنی ساری لڑکیوں کو دیکھ رہی ہو نا یہ سب تمھاری۔۔۔۔"
"ٹھہریں ممانی میں اپنا تعارف خود کرواوں گی۔"
"ریلیکس ہو کر بیٹھو ایمان بیٹا۔۔اسے اپنا گھر ہی سمجھو۔"
مکرم احمد نے ایمان کی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے اس سے کہا۔وہ ان کی طرف شکریہ ادا کرتی نظروں سے دیکھ کر مسکرا دی۔خوش گپیوں کے دوران بہت خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا۔ناشتے کے بعد شمائلہ بیگم اسے اپنے کمرے میں لے آئیں اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔اس سے اسکے خاندان اور تعلیم کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ابھی وہ اس سے باتیں کر ہی رہی تھیں کہ دھڑام سے دروازہ کھلا اور ہنستی کھلکھلاتی لڑکیوں کا ایک جمِ غفیر اندر داخل ہوا۔شمائلہ بیگم ان سب کی اس قدر دھانسو انٹری پہ ہنسنے لگی تھیں۔ایمان حیرانی سے سبھی کو دیکھ رہی تھی۔شمائلہ بیگم اور ایمان صوفے پہ بیٹھی تھیں تو وہ سب ان کے سامنے نیچے کارپٹ پہ پُھسکڑا مار کر بیٹھ گئیں۔ملی جُلی آوازوں سے کمرے میں ہلکا سا شور پیدا ہو گیا تھا۔
عقیلہ بیگم نے سب سے تعارف کروایا۔سبھی نے مسکراتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا تھا۔۔کچھ دیر بعد وہ سب اس سے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے وہ انہی کی فیملی کا حصہ ہو۔۔خاص طور پر غزنوی کے والد اور والدہ اس سے بہت محبت سے پیش آ رہے تھے۔شاہ گل نے بھی ان سب کے رویوں کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔حالانکہ جب شمائلہ کو معلوم ہوا تھا تو وہ خاموش ہو گئیں تھیں مگر اب ان کے چہرے کے سکون نے شاہ گل کو بھی پرسکون کر دیا تھا۔شمائلہ بیگم کو یہ نازک سی موہنی صورت والی لڑکی بہت پسند آئی تھیں۔گھر کے بڑوں کو عقیلہ بیگم نے ایمان کو درپیش حالات کے بارے میں بتا دیا تھا اور یہ بھی کہ کن وجوہات کی بناء پر انھیں یہ نکاح کروانا پڑا تھا۔شمائلہ بیگم ایک بہت نرم دل کی مالک خاتون تھیں مگر بیٹے کے مزاج اور پسند ناپسند سے اچھی طرح سے واقف بھی تھیں۔
شاہ گل نے اپنے پاس والی کرسی کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھا۔وہ دھیرے دھیرے چلتی ان کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔جہاں سب کی حیران نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں وہیں ان کے مسکراتے لبوں نے اسے کچھ حوصلہ بھی دیا تھا۔اس وقت یہاں صرف گھر کے بڑے موجود تھے۔
"یہ غزنوی کے والد اور تمھارے سُسر مکرم احمد۔۔تمھاری ساس شمائلہ، میرے سب سے بڑے بیٹے معظم احمد اور شریک حیات صدیقہ اور ان کے ساتھ غزنوی کے چھوٹے چچا مظفر احمد اور غزنوی کی چچی صائمہ ہیں۔"
"وہ دیکھو۔۔۔میری بیٹی بھی آ گئی۔"
شاہ گل نے اسے آتے دیکھا تو "میری بیٹی" کہہ کر اسکا حوصلہ بڑھایا۔وہ مسکراتے ہوئے ان کی طرف بڑھی۔
"یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔"
انھوں نے اپنی قریبی کرسی پہ ہاتھ رکھا۔
"السلام وعلیکم۔۔!!"
اس نے گھبراہٹ سے خشک پڑتے لبوں پہ زبان پھیری اور وہاں بیٹھے سبھی لوگوں کو سلام کیا۔وہ سب اسے حیران نظروں اور مسکراتے لبوں سے دیکھ رہے تھے۔
"وعلیکم السلام۔۔"
سبھی نے ایک آواز میں اسکے سلام کا جواب دیا تھا۔
"یہاں بیٹھو میرے پاس۔"
۔۔آج نہیں تو کل سب کا سامنا کرنا ہی تھا۔
"آپ رک کیوں گئیں۔۔چلیں نا۔۔"
شگفتہ نے دروازہ کھول کر پیچھے دیکھا تو وہ وہیں کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
"جی۔۔آ رہی ہوں۔"
اس نے اچھے خاصے ٹھیک دوپٹے کو ایک بار پھر سر پہ اچھے سے جمایا اور قدم بڑھائے۔دھڑکتا دل لیے وہ شگفتہ کے پیچھے پیچھے ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی تھی۔جھکی نظروں کے باوجود وہ خود پہ اٹھتی نظروں کو محسوس کر سکتی تھی۔اٹھتے قدموں کے ساتھ ساتھ اسکی دھڑکن بھی بڑھ رہی تھی۔
"وہ دیکھو۔۔۔میری بیٹی بھی آ گئی
۔ایک نظر آئینے میں خود پہ ڈالی۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے یہ لباس خاص اسی کے لئے بنایا گیا ہو۔اسکی دودھیا رنگت پہ لباس بہت اٹھ رہا تھا۔اس نے کبھی اسقدر ڈارک کلر نہیں پہنا تھا۔اسکے پاس تو گنتی کے چار پانچ جوڑے تھے جنھیں وہ ساتھ لے آئی تھی حالانکہ ان میں سے تو کچھ اپنی اصلی رنگت بھی کھو چکے تھے۔ایک تسلی بخش نظر اس نے اپنے عکس پہ ڈالی اور گیلے بالوں میں برش کرنے لگی۔
"ماشاءاللہ جی۔۔آپ تو کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔"
شگفتہ اسکے پاس آ کھڑی ہوئی تھی۔
"بہت شکریہ۔۔"
اس نے مسکرا کر اسکا شکریہ ادا کیا اور گیلے بالوں کا ہی ہلکا سا جُوڑا بنا کر کیچر لگا لیا۔بیڈ پہ دھرا ڈوپٹہ اٹھا کر اچھے سے پھیلا کر اوڑھا۔
"چلیں چلتے ہیں۔۔سب انتظار کر رہے ہوں گے۔"
شگفتہ دروازے کی طرف بڑھی مگر ایمان وہیں کھڑی رہی۔وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی مگر جانا تو تھا۔۔
اچھا نا اٹھتی ہوں۔"
وہ وقفے وقفے سے آتی اباسیوں کو ہاتھ سے روکتے ہوئے بیڈ سے اتر کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
"آپ نے تو کہا تھا کہ کپڑے واش روم میں لٹکائے ہیں مگر یہاں تو میرے کپڑے نہیں ہیں۔"
وہ واش روم کے دروازے میں کھڑی شگفتہ سے پوچھ رہی تھی۔
"او ہو۔۔۔۔ٹھہریں میں آتی ہوں۔"
وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتی اس کے پاس آئی اور واش روم کی الماری میں سے اسے ڈریس نکال کر ایمان کی طرف بڑھایا۔
"یہ تو میرا نہیں ہے۔"
اس نے شاکنگ پنک کلر کے سادہ مگر خوبصورت ڈریس کی طرف ہاتھ بڑھانے سے احتراز برتا۔
"بی بی یہ آپکا ہی ہے۔۔شاہ گل نے دیا ہے مجھے کہ آپکو دے دوں۔"
شگفتہ نے ڈریس اسکے ہاتھ میں دیا اور واش روم سے باہر نکل گئی۔اس نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے لباس کو دیکھا اور پھر شگفتہ کو جو اس کے انتظار میں صوفے پہ بیٹھ گئی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی۔
اسکی آنکھ کھلی تو وہی ملازمہ اسے آواز دے رہی تھی۔۔کچھ دیر تو وہ اسے گھورتی رہی پھر جب آنکھیں اس ماحول سے مانوس ہوئیں تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔
"تم۔۔۔۔"
اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو بچوں کے سے انداز میں رگڑتے ہوئے پوچھا۔
"جی میں شگفتہ۔۔۔شاہ گل کہہ رہی ہیں کہ آپ جلدی سے فریش ہو کر نیچے آ جائیں۔۔وہاں سب ڈائننگ ہال میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔"
شگفتہ فُل اسپیڈ میں بولی تھی۔۔۔اس کی بات سن کر وہ سر ہلا کر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
"او جی اٹھ بھی جائیں۔۔میں نے آپکے کپڑے واش روم میں لٹکا دئیے ہیں۔"
شگفتہ اسے سستی سے بیٹھے دیکھکر اپنی چادر کا پلّو مروڑتے ہوئے بولی تھی
کہ غزنوی اس نکاح کے لئے راضی نہیں تھا۔۔انہوں نے اسے اس نکاح کے لئے مجبور کیا ہے۔انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ان کے فون بند کرنے بعد سب گھر والوں کو اکٹھا کر کے اس نکاح کے متعلق بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ ایمان غزنوی کے ساتھ ہی آئے گی۔ایک دو دن میں وہ خود بھی واپس آ جائیں گے پھر ولیمے کی تقریب رکھی جائے گی۔
"ایمان بیٹا۔۔۔اگر نیند آ رہی ہے تو تم آرام کر لو۔۔"
انہوں نے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"جی۔۔۔"
وہ فوراً اٹھ کر بیڈ کی سمت بڑھ گئی۔شاہ گل حکم کی اس تعمیل پہ مسکرا دی تھیں۔
________________________________________
"ایک کپ غزنوی کو بھی دے آتی۔۔"
انھوں نے شگفتہ کے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے کہا۔
"میں نے پوچھا تھا لیکن کوئی آواز نہیں دی۔"
شگفتہ نے کپ ایمان کی طرف بڑھاتے ہوئے ان سے کہا۔
"ہاں سو گیا ہو گا۔۔نیند کا شیدائی ہے۔"
آخری جملہ انھوں نے ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا اور ہنس دیں۔ایمان بھی سر ہلا کر دھیرے دھیرے چائے کی چسکیاں لینے لگی۔پہلے تو اس دلدل سے نکل جانے کی خوشی نے اسے کچھ سمجھنے نہیں دیا تھا۔وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ اچانک سے یہ سب ہونے کی وجہ سے وہ غصے میں ہے مگر یہاں آنے کے بعد کے رویے نے اب اسے پریشان کر دیا تھا۔شاہ گل بھی اسے بغور دیکھتے ہوئے غزنوی کے متعلق ہی سوچ رہی تھیں۔انھیں اعظم احمد(داجی) نے فون پہ سب بتا دیا تھا کہ کن حالات میں انھیں غزنوی اور ایمان کا نکاح کرنا پڑا اور یہ بھی کہ غزنوی اس نکاح کے لئے راضی نہیں تھا۔۔
کی ڈیکوریشن میں سادگی کا خاص دھیان رکھا گیا تھا۔
"تمھارے داجی آئیں گے تو ہم ولیمے کا فنکشن کریں گے اور یہ غزنی کو دیکھو وہاں سے کیسے بھاگ گیا۔۔شرما گیا تھا میرا بچہ۔۔تم خفا مت ہونا اچانک سے یہ سب ہو گیا نا اس لئے ایسا کیا اس نے ورنہ تو میرا بچہ بہت خیال رکھنے والا ہے۔"
وہ اسے ساتھ لیے صوفے تک آئیں اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ شاید اس خِفت کو مٹانے کے لئے اس کے سامنے یہ سب کہہ رہی تھیں جو انہوں نے غزنوی کے یوں وہاں سے جانے پہ محسوس کی تھی۔وہ اس کے پاس بیٹھ کر اسکے گھر والوں کے بارے میں پوچھنے لگیں تھیں۔تھوڑی دیر بعد شگفتہ چائے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔ٹرے اس نے ٹیبل پہ رکھا اور پھر باہر سے اسکا سفری بیگ بھی لے آئی۔
"آ جاؤ بیٹا اندر چلیں تم تھک گئی ہو گی۔۔تھوڑا آرام کر لو تب تک باقی گھر والے بھی جاگ جائیں گے ابھی تو سب سو رہے ہیں ورنہ رات گئے تک تمہارے انتظار میں بیٹھے رہے تھے۔میں نے ہی زبردستی سب کو بھیجا۔غزنوی نے فون کر کے بتا دیا تھا کہ تم لوگ صبح پہنچو گے۔وہ سب تو صبح تک تم دونوں کا انتظار کرنا چاہتے تھے مگر۔۔۔۔۔چلو خیر تھوڑی دیر تک مل ہی لو گی سب سے۔۔"
وہ اسے ساتھ لیے ایک کمرے کی طرف بڑھیں۔لاؤنج میں داخل ہوتے ہیں شگفتہ نے اُس سے اُس کا بیگ لے لیا تھا۔
"شگفتہ تم میرے لئے اور میری بیٹی کے لیے چائے بنا کر لاؤ۔۔ناشتہ ہم باقی سب کے ساتھ کریں گے۔"
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے شاہ گل نے شگفتہ سے کہا۔وہ سر ہلا کر وہیں سے پلٹ گئی۔وہ دونوں کمرے میں داخل ہو گئیں۔یہ کمرہ شاید انہی کا تھا۔کمرہ بہت کھلا اور صاف ستھرا تھا۔ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود تھی۔
ا ۔سامنے دیکھا تو وہ ان بزر گ خاتون کے گلے لگا ہوا تھا۔اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اسے خود پہ ہوا ظلم یاد کروا گئی۔وہ لکڑی کے خوبصورت نقش و نگار والے دروازے سے اندر چلا گیا جبکہ اب وہ بزرگ خاتون اس کے قریب آ رہی تھیں۔وہ اپنا چھوٹا سا بیگ سینے سے لگائے وہیں کھڑی تھی۔
"السلام وعلیکم۔۔!!"
ان کے قریب آنے پہ اس نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔۔جیتی رہو۔۔دیکھو شگفتہ کیسی موہنی صورت ہے میرے غزنوی کی دلہن کی۔"
انہوں نے اسے ساتھ لگا کر سامنے کھڑی شگفتہ سے کہا۔
"جی شاہ گل۔۔بہت پیاری ہے ماشاءاللہ۔۔سورج چاند کی جوڑی ہے۔اللہ جوڑی سلامت رکھے۔"
شگفتہ نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔اسے ڈر تھا کہ نجانے باقی گھر والوں کا رویہ کیسا ہوگا مگر ان دونوں خواتین سے مل کر اسے تھوڑا سکون ہوا۔
وہ دوبارہ آنکھیں بند کرنے کے چکروں میں تھی کہ اُس چنگیزخان نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی چنگیز خانی دکھائی۔وہ آنکھیں مسلتے ہوئے گاڑی سے اتری۔دن کے اجالے نے اسکی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا۔صبح ہو چکی تھی۔سورج کی نرم گرم کرنیں اس پہ پڑیں تو اسے نجانے کیوں سکون کا احساس ہوا۔اس کے باہر نکلتے ہی غزنوی نے گاڑی کا دروازہ دھاڑ کی آواز کے ساتھ بند کیا جس کی آواز یقیناً اندر تک گئی ہو گی کیونکہ چند لمحوں بعد اندر سے ایک بزرگ خاتون آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی برآمد ہوئیں۔ان کے ساتھ شاید ایک ملازمہ بھی تھی۔اس کی نظریں ان بزرگ خاتون پر تھیں کہ اچانک اسکے پیروں کے قریب کوئی چیز گری۔وہ ڈر کر ایک قدم پیچھے ہوئی۔یہ اسکا چھوٹا سا سفری بیگ تھا۔اس نے کھا جانے والی نظروں سے اُس چنگیز خان کی پشت کو گھورا اور پھر جھک کر اپنا بیگ اٹھا لیا۔
"ایمان تمھیں جاگنا ہے ورنہ یہ سڑیل کریلا تمھیں یہیں کہیں پھینک کر خود چلا جائے گا۔۔۔تمھیں اس لمبو پہ نظر رکھنی ہے۔"
وہ دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں مسلتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔نیم خوابیدہ آنکھیں اس ظلم پہ دہائیاں دے رہی تھیں مگر وہ ان کی ایک سننے کو تیار نہیں تھی۔۔
"میری بھولی۔۔پیاری اور معصوم آنکھوں۔۔۔ہوش میں آؤ۔"
وہ انگلیوں سے بند آنکھوں کو پیار سے تھپتھپاتے ہوئے دل میں بولی تھی مگر اس لڑائی میں بِلاآخر نیند سے بھری آنکھوں نے اسے مات دے ہی دی تھی۔
"اٹھو۔۔۔۔"
کسی کے غصیلے انداز نے اسے آنکھیں کھولنے پہ مجبور کیا۔وہی چنگیزخان اس کے سر پہ کھڑا کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔
"افففف۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔اٹھو۔۔گھوڑے بیچنے کا وقت گیا۔"
وہ دوبارہ آنکھیں بند کرنے کے چکروں میں تھی
چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے بونٹ کے بند ہونے کی آواز سنی تو پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔وہ تیزی سے آ کر گاڑی میں بیٹھا اور ہاتھ میں پکڑی خالی بوتل ڈیش بورڈ پہ پھینکی جو ڈیش بورڈ سے ٹکرا کر نیچے آ رہی تھی۔اس نے اگنیشن میں چابی گھمائی۔گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔اب پھر سے وہی رفتار تھی اور وہ تھا۔
"اِس کا بس چلے تو گاڑی کو پلین بنا کر اڑا لے جائے۔۔۔ہونہہ نام محمود غزنوی اور حرکتیں چنگیز خان جیسی۔"
اس نے کنکھیوں سے اسکے گھنے بالوں والے سر کو دیکھا۔
"میری بلا سے جہنم میں جائے۔۔"
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے ریلکیس انداز میں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گئی۔نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر طویل سفر نے اس پہ سستی طاری کر دی تھی۔آنکھیں بند ہونے کی خواہش مند تھیں لیکن وہ سو کر سب کچھ کھونا نہیں چاہتی تھی۔
"
وہ تیزی سے اسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔
"یا اللہ۔۔مجھے بچا لے۔"
ایمان نے اُسے کڑے تیور لئے اپنی طرف آتا دیکھ کر آنکھیں سختی سے میچ لیں۔
"جلِ جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو۔۔۔"
آنکھیں بند کیے وہ دل ہی دل میں ورد کر رہی تھی کہ اسے ڈگی کھلنے کی آواز آئی۔اس نے دائیں آنکھ کو زرا سے کھول کر دیکھا۔سامنے کوئی ہوتا تو دکھائی دیتا۔۔۔آواز پیچھے سے آ رہی تھی۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں وہ شاید کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ڈگی بند کر کے وہ آگے آیا۔۔شاید اسے اسکی مطلوبہ چیز مل چکی تھی۔۔اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ایک بار پھر وہ بونٹ کے پیچھے غائب ہو چکا تھا۔
"یا اللہ گاڑی جلدی سے ٹھیک ہو جائے ورنہ یہ چنگیزخان مجھے یہیں کہیں زندہ گاڑ کر خود چلا جائے۔"
ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر وہ آنکھیں بند کیے گاڑی ٹھیک ہونے کی دعا کر رہی تھی۔
"یااللہ خیر۔۔۔۔"
گاڑی کے رکنے پہ اس نے گھبرا کر اسے دیکھا۔۔وہ دروازہ کھول کر جھٹکے سے باہر نکلا اور دروازہ بند کیے بغیر چہرے پہ گلیشئیر جیسے تاثرات لئے گاڑی کا بونٹ کھول کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔وہ اپنی کالی شال جو بار بار دُھلنے کی وجہ سے اپنی رنگت کھو چکی تھی، بےوجہ ہی کھول کر ایک بار پھر سے اپنے گرد لپیٹنے لگی۔سردی اتنی نہیں تھی مگر اسے بہت لگ رہی تھی۔ہاتھ پیر ٹھنڈے برف ہو رہے تھے۔
"یا اللہ یہ تو وہی محاورہ ہو گیا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔۔اب مجھے اسے کانٹے دار کھجور کے درخت سے کون بچائے گا۔آسمان سے زمین پہ آنے سے تو اس کھجور کے درخت نے بچا لیا تھا مگر اب اس سے کیسے بچوں گی۔"
وہ بونٹ پہ نظریں جمائے سوچ رہی تھی۔۔ ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain