Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

مگر بازی اُلٹی ہو گئی تھی۔اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔
________________________________________
وہ آ تو گیا تھا مگر سارا راستہ پریشان رہا تھا۔نجانے ایسی کیا بات تھی کہ داجی نے اسے فوراً بلایا تھا۔گاؤں کے لیے نکلتے وقت ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔آفس میں ایک بہت اہم میٹنگ کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ نہیں آ سکا تھا ورنہ وہ ان کے اکیلے جانے کے حق میں نہیں تھا۔لیکن وہ اکرم علی کو ساتھ لئے گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے تھے اور اب ان کے اچانک بلانے پہ وہ پریشان تھا

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد نے رشید خان کو دیکھا جس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو چھلک پڑے تھے۔
"یہ تو میری اور میری بیٹی کی خوش قسمتی ہو گی داجی۔۔۔میں آپکا یہ احسان ساری عمر نہیں بُھولوں گا۔"
رشید خان نے اعظم احمد کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگا لئے۔
"تو بس ٹھیک ہے یہ نکاح کل ہی ہو گا۔۔اکرم علی تم غزنوی کو فون کرو اور اسے کہو جلد سے جلد گاؤں پہنچے۔۔نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہئیے۔"
اعظم احمد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اکرم علی سے کہا۔اکرم علی ہاتھ میں فون لے کر فوراً باہر چلا گیا اور باقی سبھی اعظم احمد اور رشید خان کو مبارکباد دینے لگے جبکہ بادشاہ خان اتنا اچھا موقع ہاتھ سے جانے پہ افسوس سے ہاتھ ملتا رہ گیا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ اعظم احمد اِس کے لئے راضی نہیں ہوں گے تو پیچھے وہی رہ جائے گا۔پھر اعظم احمد کے چلے جانے کے بعد وہ رشید خان کو منا لے گا ا

Mirh@_Ch
 

"داجی کے ماشاءاللہ سے جوان پوتے ہیں۔۔کسی ایک سے نکاح کروا لیں۔"
بادشاہ خان کی اچانک کی گئی بات سُن کر اعظم احمد سمیت سبھی لوگ حیران رہ گئے۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو بادشاہ خان۔۔۔ہوش میں تو ہو تم۔۔بھلا داجی اور رشید خان کا کیا مقابلہ۔۔۔اور وہ سبھی ماشاءاللہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ان کا رشید خان کی بیٹی سے کیا جوڑ۔۔۔"
جوہر خان کھڑا ہوا۔
"نہیں جوہر خان ایسا مت کہو۔۔۔اللہ کو یہ بات پسند نہیں۔۔میرے نزدیک یہ فرق معنی نہیں رکھتا۔۔مجھے منظور ہے اگر رشید خان ہاں کر دے تو۔۔کیوں رشید خان تم کیا کہتے ہو۔۔کیا تم میرے پوتے غزنوی احمد کو اپنی فرزندگی میں لینا چاہو گے۔۔؟

Mirh@_Ch
 

"لیکن رشید خان کیا تمھیں اپنی بیٹی اور بادشاہ خان کی عمروں میں زمین آسمان کا فرق دکھائی نہیں دیتا۔ایسا بھی کیا ہے کہ تم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کو تیار ہو۔رشید خان بیٹی کے باپ کو اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیئے۔"
اعظم احمد کو اسکا رونا دُکھی کر گیا تھا۔
"کون مجھ غریب کی بیٹی سے شادی کرے گا۔۔کوئی نہیں ہے۔"
رشید خان نے بادشاہ خان کو دیکھا جو قہر بھری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"ہاں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم اسے بادشاہ خان سے بیاہ دو۔۔یہ تو ظلم ہے۔"
"داجی بالکل درست کہہ رہے ہیں رشید خان۔"
اعظم احمد کی بات کی وہاں بیٹھے سبھی لوگوں نے تائید کی۔
"کون کرے گا پھر۔۔؟"
رشید خان نے سبھی سے سوال کیا۔

Mirh@_Ch
 

جوہر خان خواہ مخواہ اس بات کو بڑھا رہا ہے۔"
رشید خان کی بات سن کر سب کو سانپ سونگھ گیا۔انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ رشید خان اس طرح پینترا بدلے گا۔
"داجی دیکھ لیا آپ نے اسے کوئی اعتراض نہیں اور یہ جوہر خان یونہی میرے پیچھے پڑا ہے۔"
رشید خان کی بات نے جیسے بادشاہ خان کو ہمت دی۔وہ تیزی سے بولا تھا۔
"رشید خان تمھیں بادشاہ خان سے ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔میں تمھارے ساتھ ہوں۔تمھاری بیٹی سارے گاؤں کی بیٹی ہے۔۔میری بیٹی ہے اور اپنی بیٹی کی شادی میں خود کرواؤں گا۔"
اعظم احمد نے رشید خان کو مضبوط کرنا چاہا۔
"داجی میرے جیسے نشئی اور جواری کی بیٹی سے کون شادی کرے گا۔۔میں جہیز میں ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دے سکتا اپنی بیٹی کو۔۔کون کرے گا اس سے شادی۔"
رشید آنسو پونچھتے ہوئے بولا تھا۔

Mirh@_Ch
 

بادشاہ خان کیا جوہر خان ٹھیک کہہ رہا ہے؟"
اعظم احمد نے غصیلے لہجے میں بادشاہ خان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
"یہ جھوٹ ہے داجی۔۔۔یہ میرے خلاف اس جوہر خان کی سازش ہے۔"
بادشاہ خان نے ساری بات جوہر خان پہ ڈالنی چاہی۔
"مجھے کیا فائدہ یہ سب کر کے۔۔۔۔اپنی غلطیوں پہ پردہ مت ڈالو بادشاہ خان۔۔سارا گاؤں واقف ہے کہ تم کس قماش کے آدمی ہو۔"
جوہر خان غصے سے کھڑا ہو گیا۔
"بیٹھ جاؤ جوہر خان۔۔۔میں بات کرتا ہوں۔۔۔ہاں تم بولو رشید خان۔۔کیا جوہر خان سچ کہہ رہا ہے؟"
اعظم احمد نے جوہر خان کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب بٹھایا اور سر جھکائے بیٹھے رشید خان سے پوچھا۔
"داجی میں اپنی بیٹی کی شادی بادشاہ خان سے کروانے کے لئے تیار ہوں۔۔اس نے رشتہ دیا تھا جس پہ میں راضی ہوں۔۔بادشاہ خان پیسے والا ہے میری بیٹی کو خوش رکھے گا۔جہاں تک قرض کی بات ہے تو وہ اتار دوں گا۔

Mirh@_Ch
 

"ہاں ہاں اور وہ کاغذ کیسا ہے جس پہ تم نے بغیر رشید خان پہ واضح کیے اس سے انگوٹھا لگوایا ہے۔جسے تم لئے پھر رہے ہو اور جس کی بنیاد پہ تم اس کی بیٹی سے جو تمھاری بیٹی کی عمر کی ہے شادی کر سکتے ہو۔بولو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔؟ اور جس کاغذ کو ہمارے سامنے رکھنے کے لئے تم نے ہمیں یہاں جمع ہونے کے لئے کہا تھا۔۔لگتا ہے یاداشت کمزور ہو گئی ہے تمھاری۔"
جوہر خان کو اس کی حرکتوں پہ بہت غصہ تھا۔۔وہ گاؤں میں لوگوں کو سود پہ قرض دیتا تھا اور جو قرض واپس نہیں کر پاتے تھے ان کی زمین یا گھر ان سے ہتھیا لیتا تھا۔بیچارے غریب لوگ اس کی ان چالاکیوں کو سمجھ نہیں پاتے تھے اور اس کے جھانسے میں آ کر اپنا سب کچھ گنوا دیتے تھے۔اس بار اس نے نہایت گری ہوئی حرکت کی تھی جس پہ جوہر خان کا خون کھول رہا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان حرکتوں پہ وہ اسے جیل میں ڈال دیتا۔

Mirh@_Ch
 

جوہر خان انھیں بتانے لگا جبکہ بادشاہ خان چہرے پہ کرختگی لئے جوہر خان کو دیکھ رہا تھا اور رشید خان سر جھکائے اپنی تعریفیں سُن رہا تھا۔
"ہاں بالکل نشہ ایک لعنت ہے اور رشید خان جوان اکلوتی بیٹی کے باپ ہو۔۔تمھیں شرم نہیں آتی یہ سب کرتے ہوئے۔"
اعظم احمد رشید خان کیطرف افسوس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
"بیٹی کا ہی تو مسئلہ ہے داجی۔۔۔"
جوہر خان نے ان پہ واضح کرنا چاہا۔
"کیا مطلب جوہر خان۔۔؟"
اعظم احمد نے جوہر خان سے پوچھا۔
"داجی۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔یہاں لوگ ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ میرے خلاف محاذ کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔مجھے کیا پتہ تھا کہ رشید خان سارا پیسہ جُوے میں ہار جائے گا۔میں تو سمجھا کہ کاروبار کرنا چاہتا ہے اس لئے پیسے مانگ رہا ہے۔"
اس پہلے کہ جوہر خان سارا کچا چٹھا کھولتا بادشاہ خان بول پڑا

Mirh@_Ch
 

ان کی بارعب آواز میں کہی گئی باتیں ارد گرد موجود لوگوں کے چہروں پہ دبی دبی مسکراہٹ لے آئی تھی۔
"خیر چھوڑو۔۔یہ باتیں پھر کبھی سہی۔۔جوہر خان تم بتاؤ کیا معاملہ ہے؟"
انہوں نے گاؤ تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے جوہر خان سے پوچھا۔
"داجی۔۔رشید خان کو تو آپ جانتے ہیں۔۔وہ نشئی اور جواری۔"
جوہر خان اعظم احمد کے پوچھنے پہ ان کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
"ہاں ہاں بالکل جانتا ہوں۔۔۔کیا کیا ہے اس نے؟"
اعظم احمد سیدھے ہو بیٹھے۔
"داجی اس نے بادشاہ خان سے ایک لاکھ روپے قرض لئے تھے کہ ایک مہینے تک واپس کر دے گا۔بادشاہ خان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رشید خان واپسی نہیں دے پائے گا مگر پھر بھی اس نے اسے اتنے پیسے قرض دیئے۔سارا گاؤں جانتا ہے کہ رشید خان جُوا کھیلتا ہے اور نشے کی لت اسے ایسی لگی ہے کہ اچھے بُرے کی تمیز ہی بھول بیٹھا ہے

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد اچھی طرح جانتے تھے کہ کچھ وقت سے بادشاہ خان علاقے کے ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتا تھا۔وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی انھیں گاؤں کے حالات سے مطلع کرتا رہتا تھا۔ان کا آنا اس لئے بھی ناگزیر ہو گیا تھا کہ بادشاہ خان نے اپنی حکمرانی قائم کرنی شروع کر دی تھی۔اگر وہ ہر معاملے کو طریقے اور انصاف سے سلجھانے کی کوشش کرتا تو وہ خود اسے اجازت دے دیتے مگر وہ تو جہاں پلڑا بھاری ہوتا وہاں فیصلہ کر دیتا تھا۔
"ادھر میری طرف دیکھ کر بات کرو۔۔یہاں وہاں کیوں نظریں گھما رہے ہو۔تمھارے مردان خانے میں لوگ گپ شپ کے لئے کب سے اکٹھے ہونے لگے ہیں۔جہاں تک میرا خیال ہے تم تو نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ پانی پینے تک کے روادار نہیں کہاں یہ گپ شپ لگانا۔۔۔بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی کہ یہ تبدیلی کیونکر رُونما ہوئی۔"

Mirh@_Ch
 

کسی نے جواب نہیں دیا تو انھوں نے دوبارہ پوچھا تھا۔جب بھی وہ گاؤں آتے تو انھیں ہر چھوٹے بڑے معاملے میں شامل کیا جاتا تھا۔ان سے مشورہ لیے بنا کوئی فیصلہ تکمیل نہیں پاتا تھا۔وہاں موجود لوگ انھیں دیکھ کر بیک وقت خوش اور حیران ہو گئے تھے۔❤
"ارے داجی آپ کب آئے۔۔ہمیں اطلاع بھی نہیں دی۔"
بادشاہ خان انھیں دیکھ کر فوراً ان کے پاس آیا تھا۔
"اب تو آ گیا ہوں نا۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور سب لوگ یہاں کس لئے اکٹھے ہوئے ہیں؟"
وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے چارپائی کی طرف آئے تھے۔اکرم علی بھی ان کے ساتھ تھا۔
"کچھ نہیں داجی۔۔۔بس یونہی گپ شپ۔۔۔۔کوئی خاص بات نہیں ہے۔
بادشاہ خان ان کی جائزہ لیتی نگاہوں کو خود پہ گڑے دیکھ کر بغلیں جھانکنے لگا تھا۔اعظم احمد اچھی طرح جانتے تھے

Mirh@_Ch
 

"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"
اعظم احمد مردان خانے میں داخل ہوئے۔وہ کل ہی گاؤں آئے تھے۔زمینوں کے کچھ معاملات کے حل کیلئے ان کا آنا ضروری تھا۔حالانکہ شاہ گل نے انھیں اکیلے جانے سے منع بھی کیا تھا مگر وہ ناساز طبیعت کے باوجود اکرم علی کو ساتھ لئے حویلی آ گئے تھے۔ان کا دل تو یہاں گاؤں میں ہی رہنے کو چاہتا تھا لیکن بچوں کی پڑھائی کے باعث وہ شہر آ بسے تھے۔بچے پڑھ لکھ گئے اور شہر میں ہی سیٹلڈ ہو گئے۔اب تو بچوں کے بھی بچے جوان ہو گئے تھے۔زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے اعتباری لوگ رکھ کر وہ گاؤں سے بےغم ہو گئے تھے۔بس کبھی کبھی گاؤں کا چکر لگا لیتے تھے۔ایک دو دن تمام معاملات دیکھ کر واپس شہر ہو لیتے۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔"
انکی بارعب آواز سن کر حاضرین محفل پہ سکوت چھا گیا تھا

Mirh@_Ch
 

ا
⚡ *سنو لڑکی....!*
پیاسے کو پانی کی تلاش کھینچ لاتی ھے
تم وہ ندیا ھو جو ھر صحرا کو سراب بناتی ھے
⚡ *سنو لڑکی...!*
خود کو تم ہمیشہ چھپا کر رکھنا
لوگوں کا کام ھے بس تم کو تکنا
⚡ *سنو لڑکی...!*
نہ خوش ھونا کسی لڑکے سےتعریف سن کر
اس نے پھینکا ھے یہ جال تم پربھن کر

Mirh@_Ch
 

سنو لڑکی...!*
آنکھوں بالوں اور پاوں تک تم دنیا کی حور ھو
اپنی اہمیت کو سمجھو تم... تم خود سے ہی لا شعور ھو
⚡ *سنو لڑکی...!*
نا بات کرنا نا محرم سے یہ رشتہ حرام ھے
کہ ٹوٹا دل لیے گھومو گی یہی اس کا انجام ھے
⚡ *سنو لڑکی....!*
خیال رکھنا بس اپنا تم اس کی تمھیں ضرورت ھے
ورنہ پروا کی باتیں کر کے کوئی تمہارا دل جیت لے گا
⚡ **

Mirh@_Ch
 

لاریب بھی آگے آئی۔
"میرے بھی تو ہیں۔"
عنادل اچھل کر صوفے پہ چڑھی تھی۔۔وہ ان سب کے ساتھ یوں گھل مل گئی جیسے ان سب سے برسوں کی شناسائی ہو۔ان سب کے بیچ اسے اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہوا اور جو تھوڑی بہت ہچکچاہٹ تھی وہ بھی جاتی رہی۔ایمان گھر کے بزرگوں کے ساتھ ساتھ اس مسخروں کی ٹولی کے اخلاق سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
________________________________________
۔۔۔۔

Mirh@_Ch
 

کیا تمھیں بھی لگے ہیں۔۔زور سے۔۔۔؟؟"
فائقہ شرارتی نگاہوں سے اسے بغور دیکھ رہی تھی۔
"ہاں مجھے بھی بہت زور سے لگے ہیں۔"
ایمان نے ان سے رازداری سے کہا تو سبھی کا قہقہہ گونج اٹھا۔
"اور یہ تو بڑی اسپیشل ہیں انہیں تو ٹھاہ ٹھاہ کر کے لگنے چاہئیے۔"
پرخہ نے چہرے پہ سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا۔پرخہ کے سنجیدہ انداز کے باوجود وہ سبھی ہنس دیں۔
"کیوں نہیں میرے بھائی تو ہیں ہی بہت زبردست۔۔"
ملائکہ نے انگوٹھا اٹھا کر ایمان کو تھمزاپ کیا۔
"میرا بھی تو ہے۔۔۔"
۔

Mirh@_Ch
 

"ایمان تم تو اتنی چھوٹی سی ہو۔۔۔ہم۔تمھیں بھابھی نہیں کہیں گے۔"
پرخہ اس کے قریب کھسک آئی۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں پرخہ آپی۔"
ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اچھا یہ بتاو کہ تمھیں غزنوی بھائی کیسے لگے۔"
ارفع نے اپنی چھوٹی سی ناک پہ پھسلتی عینک کو درست کیا۔غزنوی کے ذکر پہ ایمان کو سرخ گھورتی آنکھیں اور قہر بھرا لہجہ یاد آ گیا۔
"وہ یقینا بڑے زور سے لگے ہونگے۔"
ملائکہ نے اس کی جھکتی نظروں کو فوکس کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں ایمان۔۔وہ تو ہمیں بھی کبھی کبھی بڑے زور سے لگ جاتے ہیں۔

Mirh@_Ch
 

سدا کی بےصبری پرخہ نے چپ کا کفل توڑا۔
"اسکا نام زنبوری ہے۔۔۔"
یہ لطیفہ فائقہ نے سنایا تھا۔پورا کمرا ایک مرتبہ پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔اس بار ایمان بھی ہنس دی تھی۔
"فائقہ۔۔۔!!"
شمائلہ بیگم نے فائقہ کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھا جبکہ لبوں پہ سجی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ بھی ان سبھی کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔پھر اسی ہنسی مذاق میں شمائلہ بیگم نے ان سب کا تعارف کروایا۔ایمان ان سے اور وہ سبھی ایمان سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔تعارف کا مرحلہ گزرنے کے بعد شمائلہ بیگم تو کام کی غرض سے کمرے سے چلی گئیں۔ان کے جانے کے بعد سبھی نے ایمان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور اس پہ سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔وہ بھی مسکراتی، گھبراتی ان کے اُوٹ پٹانگ سوالوں کے جواب دیتی رہی

Mirh@_Ch
 

ملائکہ۔۔۔بری بات عنادل بڑی ہے تم سے۔۔"
شمائلہ بیگم نے ملائکہ کو گھرکا۔
"ایمان یہ ہماری برتن دھونے والی ماسی ہے۔"
لاریب کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔۔اس نے اپنی طرف سے چٹکلا چھوڑا۔جسے سن کر ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔
"حد ادب۔۔۔گستاخی لڑکی۔۔۔"
عنادل اپنے کریکٹر سے باہر آنے کے لئے قطعی تیار نہیں تھی۔
"تم کون سی مہارانی ہو۔۔۔تمھارا بھی تو یہی کام ہے۔"
عنادل کو لاریب کا بیچ میں بولنا ایک آنکھ نہ بھایا۔
ایمان ان کی شرارتوں اور نوک جھونک کو انجوائے کر رہی تھی۔
"او ہو۔۔۔چپ کرو تم دونوں۔۔۔چچی جلدی سے تعارف کروائیں نا

Mirh@_Ch
 

عنادل ایک دم سے کھڑی ہوئی اور سب کی طرف دیکھتے ہوئے فرضی کالر کھڑے کیے۔
"ارے پہلے اپنے کرتوت تو بتا دو پھر کالر کھڑے کرنا۔"
ارفع نے عنادل سے کہا۔اس کی بات پہ قہقہہ پھوٹ پڑا۔
"خاموش۔۔۔۔گستاخ لڑکی۔۔۔ملکہ عالیہ کا اقبال بلند ہو۔۔"
عنادل نے ارفع کی طرف نروٹھے پن سے دیکھ کر مغرور انداز اپنایا اور اپنی ننھی سی ناک پھلائی۔۔ساتھ ہی ساتھ اپنا اقبال خود بلند کرنا نہ بھولی۔
"ہاں ہاں۔۔۔۔ملکہ عنادل کی شادی اقبال خاکروب سے جلد ہو۔۔"
ملائکہ کے ٹکڑا لگانے پہ یہ چھوٹی سی محفل ایک بار پھر ذعفران زار ہو گئی ۔