جیت ہی نہ لوں میں اس چنگیز خان کا دل۔۔"
دل ہی دل میں سوچتی اس نے صرف مسکرانے پہ اکتفاء کیا اور کمرے سے نکل آئی۔شمائلہ بیگم سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ان کے پیچھے آئی۔انھوں نے پیچھے مڑ کر ایمان کو دیکھا۔۔اس کے چہرے پہ گھبراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔وہ واپس پلٹ گئیں۔راہداری سے گزرتے ہوئے اس کے دل کی اُتھل پُتھل میں اضافہ ہوا تھا۔دیوار پہ لگی خوبصورت فریمز میں سجی تصویریں اس کی توجہ کا مرکز بنی تھیں۔وہ ہر ایک تصویر پہ نظر ڈالتی آگے بڑھ رہی تھی۔ایک تصویر کے سامنے اس کے قدم رک گئے۔تصویر میں غزنوی اور داجی ایک دوسرے کے کندھے پہ بازو پھیلائے مسکرا رہے تھے۔یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہے ہوں۔
"کھڑوس۔۔۔ہنستے ہوئے اچھا لگ رہا ہے
😊😊
۔۔۔۔کچھ دن تک خود ہی اس حقیقت کو تسلیم کر لے گا۔تم ایسا کرو بچی کو تو لے جاؤ کمرے میں۔"
عقیلہ بیگم نے شمائلہ بیگم سے کہہ کر ایمان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔جو دل ہی دل میں جلِ جلال تُو کا ورد کرنے لگی تھی۔وہ بھی تو اسکے مزاج کی تمام کڑیوں واقف ہو چکی تھی۔
"آؤ ایمان۔۔۔"
شمائلہ بیگم ایمان سے کہتی کمرے سے نکل گئیں۔
"جاؤ بیٹا۔۔گھبراؤ نہیں۔۔میں مانتی ہوں کہ غزنوی کا مزاج زرا اوکھا ہے۔۔مگر وہ دل کا بہت اچھا ہے۔۔بہت خیال رکھنے والا۔۔مجھے یقین ہے تم اپنی نرم طبیعت سے اسکا دل جیت لو گی۔"
عقیلہ بیگم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تھپتھپایا
شاہ گل کی سنجیدہ گفتگو سن کر تمام لڑکیاں کمرے میں داخل ہونے لگی تھیں ان کی بات سن کر واپس کھسک لیں۔وہ سب بھی جانتی تھیں کہ غزنوی کو داجی کا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔غزنوی کی اپنی ترجیحات تھیں۔۔اپنی پسند تھی اور اوپر سے وہ اپنی ضد کا پکا تھا۔ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرنے کا عادی تھا۔اسکے ساتھ کے باقی لڑکے اس سے قدرے مختلف اور مزاج میں لچک رکھتے تھے مگر غزنوی احمد ان سے بہت مختلف تھا۔
"اماں آپ جانتی تو ہیں اسکے مزاج کو۔۔۔اور اماں میری بات پہ خفا مت ہوئیے گا آپ کے اور داجی کے لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑا ہے۔"
"ارے بہو۔۔۔تم نے بھی خُوب کہی۔۔۔لاڈ پیار ہم نے سبھی بچوں سے کیا ہے۔ مگر غزنوی زرا اَتھرے مزاج کا ہے۔آج تک اپنا ہر فیصلہ وہ اپنی مرضی سے کرتا آیا ہے۔اب شادی جیسا اتنا بڑا فیصلہ ہم نے اس پہ تھوپ دیا ہے تو
مگر ہر صبح وہ خود کو مزید تھکا ہوا محسوس کرتی تھی۔
________________________________________
"شمائلہ غزنوی نہیں اٹھا ابھی تک۔۔"
شاہ گل نے شمائلہ بیگم سے پوچھا جو الماری کھولے کچھ ڈھونڈنے میں مگن تھیں۔
"اماں میں صبح سے تین چار مرتبہ آواز دے چکی ہوں۔دروازہ بھی اندر سے بند کر رکھا ہے۔"
شمائلہ بیگم نے الماری کے پٹ بند کیے اور ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ایمان بھی ان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔غزنوی کا نام سن کر پریشانی اسکے چہرے پہ چھا گئی تھی۔جب سے وہ ایمان کو لے کر آیا تھا اپنے کمرے میں بند تھا۔اس سے دوبارہ سامنا نہیں ہوا تھا مگر وہ اپنے روکھے رویے سے اس پہ اپنی دھاک بٹھا چکا تھا۔
"وہ تو اتوار کے دن بھی کبھی اتنی دیر تک نہیں سوتا۔۔ایمان بھی کبھی اِدھر کبھی اُدھر بیٹھ رہی ہے۔اسے کمرے میں لے جاتیں۔۔تھوڑا آرام ہی کر لیتی بچی۔" 😦
جسطرح گھر کے بڑے محبت کی ڈور سے ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے اسی طرح ان کے بچے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔اس وقت مصطفی اور غزنوی پڑھائی ختم کرنے کے بعد فیملی بزنس سنبھال رہے تھے۔ہادی کی تعلیم بھی مکمل ہو چکی تھی اور باقی سب بھی کالج اور یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے۔زندگی پرسکون انداز میں اپنی ڈگر پہ چل رہی تھی۔ان کی پرسکون زندگی میں ہلچل ایمان کے ان کے خاندان کا حصہ بننے سے پیدا ہوئی۔باقی سبھی نے خوشی خوشی اسے قبول کر لیا تھا سوائے غزنوی کے۔۔۔جس کے لئے یہ ایک زبردستی کا بندھن تھا اور جسے نبھانے کے لئے وہ نہ تیار تھا اور نا ہی رضامند۔۔۔غزنوی کے روکھے رویے نے چنچل سی ایمان کو اداسیوں میں دھکیل دیا تھا۔وہ خاموشی سے اس بندھن کو نبھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ہر رات وہ طے کرتی کہ جیسے بھی ہو وہ اس رشتے کو نبھائے گی
۔ان کے بیٹے ہر فیصلے میں اپنے ماں باپ کو شامل رکھتے تھے۔اب تو ان کے پوتے پوتیاں، نواسا نواسیاں بھی جوان تھے۔معظم احمد اور صدیقہ بیگم کے پانچ بچے تھے۔مصطفی،احد اور فائقہ۔۔مکرم احمد اور شمائلہ بیگم کے چار۔۔۔غزنوی، مرتضی، عائشہ اور ملائکہ۔۔پھر تھے مظفر احمد اور صائمہ بیگم۔۔جن کی اولاد بالترتیب پرخہ، طہٰ، ولی، حیا اور لاریب تھیں۔۔۔طاہرہ آفریدی کی شادی رضوان علی سے ہوئی تھی۔ان کے تین بچے تھے۔۔ارفع، عنادل اور فروز علی۔۔۔
اعظم احمد اور عقیلہ بیگم نے اپنے خاندان کو بہت محبت سے سینچا تھا۔وہ دونوں ہی بہت نرم مزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھا۔اپنی نرم اور محبت سے بھرپور گرفت میں انھوں نے اپنے چاروں بچوں کو پالا تھا۔جب تک بچے چھوٹے تھے وہ بچوں کے ساتھ اپنے آبائی گھر میں ہی رہتے تھے مگر بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے شہر میں آ بسے تھے۔ان کے بچوں میں بالترتیب معظم احمد، مکرم احمد، مظفر احمد اور طاہرہ احمد تھے۔سبھی بچے مزاجاً اپنے ماں باپ کا پرتو تھے۔پُرخلوص اور ملنسار۔۔۔
اعظم احمد نے شہر میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔۔جسے ان کے تینوں بیٹوں نے مل کر ترقی دی اور کاروبار کی دنیا اپنا نام بنایا۔تینوں اپنے باپ کے ساتھ شانہ بشانہ رہے۔بچوں کی شادیوں کے بعد انھوں نے اپنے بیٹوں کو الگ الگ پورشنز بنا کر دئیے مگر الگ الگ رہنے کے باوجود ان کے دل جڑے ہوئے تھے ♥~♥~
غزنوی نے اس کی اس حرکت پہ غصے سے اسکی طرف پلٹ کر دیکھا۔لمبی 😠لمبی خمدار پلکیں سرخ چہرے پہ سایٔہ فگن تھیں۔اس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھا کر دروازہ بند کیا۔
"اب نجانے کب تک گلے میں پڑے اس زبردستی کے ڈھول کو بجانا پڑے گا۔"
بلند آواز میں کہتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کی یہ جانے بغیر کہ اس کے اتنے تحقیر بھرے الفاظ نے ایک نازک سے دل کو چھلنی کر دیا تھا۔
________________________________________
غزنوی کا جی چاہا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے اٹھا کر باہر پھینک دے۔وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی وہ اسکی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ اسے گاڑی سے نکلنے کو کہہ رہا تھا اسے اتنا ہی سمجھ آ رہا تھا۔اسکی اگلی بات پہ اس نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ایمان کی بھوری آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔غزنوی کا ہاتھ اسٹیئرنگ سے پھسلا تھا۔
"سُنا نہیں کیا۔۔۔نکلو۔۔۔"
اس بار آواز مدھم تھی مگر الفاظ میں سختی موجود تھی۔اس سے پہلے کہ اسکی آنکھیں چھلک پڑتیں وہ فوراً گاڑی سے نکلی اور دروازہ بند کیے بغیر پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی اور اتنی ہی تیزی سے اپنی چادر سے آنکھیں رگڑ ڈالیں۔
"یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔؟؟" 😕
اور اسکے اگلے ہی لمحے گاڑی ہوا سے باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔وہ اس کی جانب دیکھ تو نہیں رہی تھی مگر اندازہ لگا سکتی تھی کہ اسقدر شرافت کا مظاہرہ گیٹ کے بند ہونے تک تھا۔ابھی وہ کچھ سوچ ہی نہیں پائی تھی کہ اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔ایمان نے اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو کنکھیوں سے دیکھا۔
"نکلو گاڑی سے۔۔۔"
وہ دھاڑا۔۔ایمان اچھل کر پیچھے ہوئی۔
"جی۔۔۔؟؟"
اس نے حیرانی سے اپنے مجازی خدا کو دیکھا جو اسے کڑے تیور لئے گھور رہا تھا۔خون چھلکاتی آنکھیں ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گئیں۔۔وہ وہیں جمی رہی۔
"کیا جی جی۔۔۔نکلو گاڑی سے۔۔۔اور پیچھے جا کر بیٹھو
چوکیدار ڈگی کی طرف بڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ اسے دروازے سے برآمد ہوتی دکھائی دی۔داجی جو کہ وہیں کھڑے تھے اس کی طرف بڑھے اور پھر اسے لئے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے گاڑی کی طرف آنے لگے۔
"غزنوی ایمان میری بیٹی ہے۔۔دھیان رہے اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔"
وہ ایمان کے لئے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولے ایمان کو بیٹھنے کا کہتے غزنوی کی طرف دیکھنے لگے۔جس کا چہرہ اس وقت کسی بھی قسم کے تاثرات سے عاری تھا۔غزنوی نے ان کی بات پہ صرف سر ہلانے پہ اکتفاء کیا۔ان کے خداحافظ کہتے ہی غزنوی نے اگنیشن میں چابی گھما کر گاڑی اسٹارٹ کی۔ایمان اپنے دائیں جانب تیر کی سیدھ میں بیٹھے شخص کو دیکھنے کی ہمت خود میں نہیں پا رہی تھی۔آہستہ رفتار سے چلتی گاڑی لوہے کے گیٹ سے باہر نکلی۔ان کے نکلتے ہی چوکیدار نے گیٹ بند کیا۔گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی
ان کے کہنے پہ وہ سر ہلا کر واپس پلٹ گئی۔غزنوی نے غور کیا کہ جتنی دیر وہ وہاں موجود رہی اس نے ایک بار بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا جبکہ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔
"جاو بیٹا تم گاڑی نکالو۔۔۔دلہن آتی ہے۔"
اعظم احمد اس کی طرف پلٹے۔وہ سر ہلا کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔چوکیدار سے کہہ کر پانی کی بوتل منگوائی اور خود گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔
"کیا مصیبت گلے پڑ گئی۔"
وہ غصے اور کوفت سے اسٹیئرنگ پہ مکا مارتے ہوئے خود سے بولا۔
"جی چھوٹے صاحب۔۔مجھ سے کچھ کہا۔"
چوکیدار بوتل ہاتھ میں لئے اس کی جانب قدرے جھک کر بولا۔
"نہیں۔۔۔یہ بوتل ڈگی میں رکھ دو۔"
وہ کوفت سے بولا۔
"جی صاحب۔۔۔"
جی۔۔۔میں گاڑی میں۔۔۔"
"جی داجی آپ نے بلایا۔"
وہ بات کر ہی رہا تھا کہ اپنے عقب سے آتی آواز کی سمت مڑا۔ہلکے سرخ رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں بلیک چادر اوڑھے وہ داجی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور غزنوی اسے دیکھ رہا تھا۔سیاہ چادر میں اسکی سپید رنگت اور بھی واضح ہو رہی تھی۔ان دونوں کے بیچ فاصلہ اتنا نہیں تھا کہ وہ اسکے تیکھے نقوش نہ دیکھ پاتا۔
"جی میں نے بلایا ہے۔۔آپ اپنا سامان لے آئیں۔آپ غزنوی کے ساتھ جائیں گی۔"
انھوں نے قریب آ کر پدرانہ شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
"جی داجی۔۔۔"
"شفیقہ بی بی دلہن کو لے آؤ غزنوی جا رہا ہے۔"
اعظم احمد نے دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑی ملازمہ سے کہا۔غزنوی جو ان سے ملکر جانے ہی والا تھا ان کی بات سن کر رک گیا۔
"داجی وہ آپ کے ساتھ یہاں رہے کچھ دن۔۔پھر جب آپ آئیں تو ساتھ لے آئیے گا۔"
وہ ان سے بولا۔۔چہرے کے تاثرات نارمل رکھے تھے مگر اندر ہی اندر ناپسندیدگی کا جوار بھاٹا ابلنے لگا تھا۔
"نہیں بیٹا میں نے گھر میں بتا دیا ہے کہ ایمان تمھارے ساتھ ہی آئے گی۔وہ تمھاری ذمہ داری ہے اور پھر ہمیں تو یہاں کچھ وقت لگ جائے گا۔وہاں سب اسکے انتظار میں ہیں۔ایمان تمھارے ساتھ ہی جائے گی۔"
انھوں نے اسے تذبذب شکار دیکھ کر سمجھایا
۔
"ہاں بیٹا وقت پہ نکلو۔۔۔سفر لمبا ہے تاکہ وقت پہ پہنچ جاؤ اور ہاں گھر پہنچتے ہی مجھے اطلاع دے دینا۔"
وہ اسے لے کر حویلی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھے۔
"کیا مطلب داجی۔۔۔کیا آپ میرے ساتھ نہیں جا رہے؟"
وہ چلتے چلتے رک گیا۔
"نہیں بیٹا میں ابھی نہیں جا سکتا۔۔یہاں کچھ کام ہیں اور ابھی کل ہی تو میں آیا ہوں۔۔پھر سفر کی تھکان کی وجہ سے زمینوں پر بھی نہیں جا سکا۔اس لئے ابھی میں یہیں رہوں گا۔"
انھوں نے اسے اس کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتائی۔
"ٹھیک ہے داجی پھر میں نکلتا ہوں۔"
وہ ان سے بغلگیر ہوا۔
"شفیقہ بی بی دلہن کو لے آؤ غزنوی جا رہا ہے۔"
اس کے ہاں کرنے پہ داجی کے چہرے پہ جو خوشی دکھائی دی تھی اسے دیکھ کر وہ ایک پل کو وہ اپنی خوشی بھول گیا۔انھوں نے اسے سینے سے لگایا۔
"مجھے فخر ہے تم پہ۔۔۔"
وہ اسے کندھوں سے تھامے مسکرا رہے تھے۔
پھر انا فانا نکاح کے انتظامات کیے گئے۔داجی نے رشید خان کو پیسے بھی دئیے تاکہ وہ بادشاہ خان کو دے دے اور اس سے کہا کہ اگر وہ چاہے تو تھوڑے تھوڑے کر کے یہ پیسے منشی احمد گل کو دیتا جائے اور اسے زمینوں پہ کام کرنے کے لئے بھی رکھ لیا۔رشید خان کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ ان کا شکریہ ادا کرتا۔
"چلیں داجی۔۔میں گاڑی میں آپکا انتظار کر رہا ہوں آپ آ جائیں۔"
نکاح کے کچھ دیر بعد جب سب مہمان چلے گئے تو وہ ان کے پاس آیا۔
"غزنوی مجھے پتہ ہے اچانک اتنا بڑا فیصلہ وہ بھی تمھاری زندگی کا جو تمھارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے تمھارے لئے قبول کرنا مشکل ہے اور مجھے بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ پہلے تو میں تمھاری مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کروں اور پھر تمھیں پابند بھی کروں۔۔اگر تم مان جاؤ گے تو میرا مان رہ جائے گا اور اگر تمھاری طرف سے انکار ہے تو میں تم پہ زبردستی نہیں کروں گا۔۔میرے لئے زبان سے زیادہ تمھاری رضامندی معنی رکھتی ہے۔"
انھوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"داجی مجھے منظور ہے۔۔میرے لئے آپکی زبان اہمیت رکھتی ہے۔"
اس نے ایک پل کے لئے ان کی آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں التجاوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔اسے ایک پل لگا فیصلہ کرنے میں اور وہ ایک انجان لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنے پہ رضامند ہو گیا تھا جس کے نام تک سے وہ انجان تھا۔ 😦
"داجی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔آپ حکم کیجیئے۔"
غزنوی نے ان کا ہاتھ تھام کر انھیں اپنے ساتھ کا احساس دلایا۔اعظم احمد مسکرا دئیے اور پھر جو کچھ انھوں نے بتایا وہ اسکے چودہ طبق روشن کرنے کے لئے کافی تھا۔ان کا فیصلہ اسے قبول نہیں تھا مگر اس کے لئے انکار کرنا بھی بہت مشکل تھا۔وہ اس کے سامنے سوال رکھ کر اب اسکے جواب کے لئے منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔
"مگر اسطرح داجی۔۔۔"
وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔
ا۔
"ارے آؤ آؤ۔۔۔"
اعظم احمد نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو اس سے ملنے کے لئے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے تھے۔وہ آگے بڑھ کر ان سے بغلگیر ہوا۔
"داجی آپ آ گئے تھے تو مجھے جگا دیتے۔آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔اتنی ایمرجنسی میں آپ نے بلایا۔۔میں تو پریشان ہو رہا تھا۔"
"الحمداللہ۔۔!! میں بالکل ٹھیک ہوں۔سفر کی تھکان ہو گی اس لئے میں نے سوچا تم آرام کر لو۔اس لئے تمھیں جگایا نہیں۔"
وہ اسے ساتھ لے کر صوفے کی طرف بڑھے۔
"خیریت تو ہے نا داجی۔۔؟"
غزنوی بغور ان کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
"ہاں ہاں بیٹا سب خیریت ہے۔۔تمھارا ساتھ چاہئیے تھا اس لئے تمھیں بلا لیا۔ایک کام تھا۔۔کیا تم میری مدد کرو گے؟"
غزنوی نے دیکھا وہ اسے اعتماد بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے
اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود تھا گاؤں آئے اسے بیس منٹ سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا مگر یہاں کوئی موجود نہیں تھا سوائے دو تین ملازماؤں کے۔۔جنھیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔اس کے داجی کے متعلق پوچھنے پہ انھوں نے اسے بتایا تھا کہ داجی بالکل ٹھیک ہیں اور اکرم علی کے ساتھ کہیں باہر گئے ہیں۔اعظم احمد کی طبیعت کا سن کر وہ پرسکون ہو گیا تھا اور اپنے کمرے میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔سفر کی تھکان تھی اس لئے کچھ دیر آرام کی غرض سے وہ لیٹ گیا تھا۔آنکھ کھلی تو گھڑی کی سوئیاں تین بجے کا وقت بتا رہی تھیں۔وہ بیڈ سے اتر کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔شاور لینے کے بعد وہ کمرے سے باہر آیا تو ملازمہ نے اسے داجی کا پیغام دیا۔وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain