Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئیں۔ان کے جاتے ہی ایمان نے شرٹ کو واش روم میں رکھا اور الماری کھول کر کپڑے نکالنے لگی۔وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں اسکے پاس گنتی کے چند ہی جوڑے تھے۔اس نے گہری سانس خارج کر کے الماری بند کی اور واش روم میں گھس گئی۔ ___________________________________________

Mirh@_Ch
 

عقیلہ بیگم پلٹ کر جانے لگیں۔
"جی۔۔۔"
وہ اتنا کہہ کر بیڈ کی چادر درست کرنے لگی۔
"اور ہاں۔۔"
وہ پلٹیں۔۔
"شرمانا مت۔۔ضرورت کی ہر چیز لینا۔۔ویسے تو شمائلہ ہے مگر پھر بھی تم انھیں بتاتی رہنا۔۔ٹھیک ہے؟"
عقیلہ بیگم نے اسے سمجھایا۔
"جی شاہ گل۔۔۔"
اس نے بیڈ سے شرٹ اٹھائی۔
"چھوڑ دو بیٹا۔۔۔یہ کام شگفتہ کر لے گی۔میں بھیجتی ہوں اسے۔"

Mirh@_Ch
 

"ایمان تمھاری ساس بازار جا رہی ہے۔تم بھی ان کے ساتھ جا کر کچھ خریداری کر لو۔۔کب سے دیکھ رہی ہوں کہ یہ کچھ ہی کپڑے ہیں تمھارے پاس جنھیں استعمال کر رہی ہو۔میں نے کتنی مرتبہ غزنوی سے بھی کہا ہے مگر وہ کام کا بہانا کر کے آج کل پہ ٹال جاتا ہے۔"
وہ اس کے قریب آئیں۔
"شاہ گل میرے پاس ہیں۔۔ضرورت نہیں ہے مجھے اور میں نے کہاں جانا ہوتا ہے گھر پہ ہی تو ہوتی ہوں۔"
اس نے انکار کیا۔
"ضروری نہیں ہے بیٹا۔۔چلو شاباش جلدی سے تیار ہو کر آ جاو نیچے۔۔شمائلہ انتظار کر رہی ہے۔میں نیچے جا رہی ہوں جلدی سے آ جاو۔"

Mirh@_Ch
 

شاید میری زندگی اب ایسے ہی گزرے گی۔"
وہ بیڈ سے تولیہ اٹھا کر باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے خود سے بولی تھی۔شاید وہ خود کو یہ باور کروانا چاہتی تھی کہ اب اسکی زندگی ایسے ہی گزرے گی۔واپس آ کر بیڈ سے غزنوی کی شرٹ اٹھائی۔۔۔اسکے پرفیوم کی ہلکی سی مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اس نے شرٹ کو ناک کے قریب لے جا کر گہری سانس لی اور اسکی مخصوص مہک کو اپنے اندر اتارا۔اسے لگا وہ اس کے آس پاس ہی کہیں موجود ہو۔ایک بےجان سی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چُھوا تھا۔
"ایمان۔۔۔!"
شاہ گل کی آواز پہ اس نے جھٹ شرٹ بیڈ پہ پھینکی۔یوں جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔شاہ گل کمرے میں داخل ہوئیں

Mirh@_Ch
 

ملائکہ بھی کالج جا چکی تھی۔کمرے کی بےترتیبی نے اسکا استقبال کیا۔ایسا تقریباً روز ہی ہوتا تھا۔شمائلہ بیگم نے اسے غزنوی کی ڈسپلنڈ پرسنیلٹی کے بارے میں بتایا تھا۔انہوں نے اسے بتایا تھا کہ جب وہ صبح صفائی کی غرض سے شگفتہ کے ساتھ کمرے میں آتی تھیں تو ہر چیز ترتیب سے اپنی جگہ پہ پڑی ہوتی تھی یوں جیسے اپنی جگہ سے ہلائی تک نہ گئی ہو مگر اسے تو وہ ان کی باتوں کے بالکل برعکس لگتا تھا۔جو چیز وہ اٹھاتا وہ اپنی جگہ کی بجائے کہیں اور ہی پڑی ملتی تھی۔پتہ نہیں وہ ایسا تھا یا جان بُوجھ کر ایسا کرتا تھا یہ سوچے بغیر وہ ایک ایک چیز اٹھا کر اپنی اپنی جگہ پہ رکھتی رہتی تھی۔

Mirh@_Ch
 

عائشہ تو بیاہی ہوئی تھی۔اس کی شادی شمائلہ بیگم کی بہن کے بیٹے محمد ولی سے ہو چکی تھی۔دونوں کا ایک پیارا سا بیٹا بھی تھا۔ایمان اب تک اس سے مل نہیں پائی تھی کیونکہ وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ نادرن ایریاز گئی ہوئی تھی۔ملائکہ تقریباً سارا دن اسکے ساتھ گزارتی تھی۔شاہ گل، شمائلہ بیگم اور مکرم احمد سبھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے مگر پھر بھی ناپسندیدگی کا دکھ اندر ہی اندر اسکی مسکراہٹوں کی جڑیں کاٹ رہا تھا اور خاموشی دھیرے دھیرے اسکی ذات کا حصہ بنتی جا رہی تھی۔اس وقت بھی غزنوی اور مکرم احمد کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔ناشتے کی ٹیبل پہ مکرم صاحب نے انھیں داجی کی آمد کے متعلق بتایا تھا۔شاہ گل اور شمائلہ بیگم سر جوڑے بیٹھی تھیں۔

Mirh@_Ch
 

کمرے میں ہوتا تو یوں ظاہر کرتا جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہ ہو۔وہ اسکے وجود سے قطعی لاپروائی برت رہا تھا۔اسکی کیا ضروریات ہیں۔۔یہاں کیسے رہتی ہے، غزنوی کو رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔صبح اٹھتا، ناشتہ کر کے آفس چلا جاتا۔ایک وہی تھی جو خاموشی سے اس کے سارے کام کیے جاتی۔سب کے الگ الگ پورشنز تھے اس لئے دن میں خاموشی کا راج ہوتا۔شام کی چائے سب مل کر پیتے تھے۔ملائکہ سے اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔ایک تو وہ اس کے ہم عمر تھی دوسرا غزنوی کی بہن بھی تھی۔
😃😃😃

Mirh@_Ch
 

دو دنوں میں وہ اچھی طرح گھر کے لوگوں سے واقفیت حاصل کر چکی تھی۔لڑکیاں تو سبھی اس سے اچھی خاصی دوستی گانٹھ چکی تھیں اور لڑکوں میں سے ابھی صرف وہ مصطفی سے ہی مل پائی تھی کیونکہ باقی سب لڑکے آؤٹنگ کے لئے مری گئے ہوئے تھے۔اتنی محبتوں کے باوجود وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پائی تھی۔سب اُوپرا اُوپرا سا لگ رہا تھا۔وہ خود کو اجنبی محسوس کرتی تھی۔جس کے لئے ذمہ دار غزنوی کا اُکھڑا رویہ تھا۔اس دن کے بعد سے وہ غزنوی کے روم میں رہنے لگی تھی۔اس نے اپنا چند پرانے کپڑوں پہ مشتمل سامان الماری میں ترتیب سے رکھ دیا تھا۔سارا دن تو باہر خود کو کسی نہ کسی کام میں مگن رکھتی تھی۔رات کو سونے کے لئے کمرے میں آتی تھی۔دوسری جانب غزنوی کا رویہ پہلے دن کی طرح ہی تھا۔وہ اس سے بات کرنا تو درکنار اسے مخاطب بھی نہیں ہوتا تھا۔

Mirh@_Ch
 

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔زرا یہ لڑکے آ جائیں پھر ہم سب آئیں گے۔"
عقیلہ بیگم نے عنادل اور ارفع سے ملتے ہوئے کہا۔
"جی ٹھیک ہے۔۔اپنا خیال رکھیئے گا اللہ حافظ۔۔۔"
وہ دونوں کو لئے لاؤنج سے باہر نکل گئیں۔ان کے جانے کے بعد باقی سب بھی اپنے اپنے کام سے اٹھ گئیں

Mirh@_Ch
 

"طاہرہ رک جاتی بیٹا۔۔۔بچے بھی کل آ جائیں گے۔۔کل چلی جاتیں۔"
شاہ گل نے بیٹی کو گھر کی طرف رخت سفر باندھتے دیکھ کر کہا۔فروز بھی گھر کے باقی لڑکوں کے ساتھ مری گیا ہوا تھا۔
"نہیں امی رضوان اکیلے ہوں گے۔آپ کو تو پتہ ہے ان کے مزاج کا۔۔۔اور ویسے بھی شادی کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔"
طاہرہ بیگم ان سے معانقہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔
"چلو جیسی تمھاری مرضی۔۔"
عقیلہ بیگم نے ان کا ماتھا چوما۔
"امی آپ آئیے گا نا بچیوں کو لے کر اور میں ایمان اور غزنوی کو ڈنر پہ انوائٹ کرنا چاہتی ہوں۔"
طاہرہ بیگم عقیلہ بیگم سے ملکر ایمان کی جانب آئیں اور اسے پیار سے گلے لگایا۔

Mirh@_Ch
 

عقیلہ بیگم نے دعا دی۔
"آمین آمین۔۔!! آپ کو بھی غزنوی میاں کی دلہن کی مبارک باد۔۔ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے۔"
خیرن بُوا نے ایمان کی طرف دیکھا۔پھر خاموشی سے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے سفید کرتے کی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر ایمان کی مٹھی میں دبا دیا۔
"خیرن بُوا۔۔۔یہ۔۔۔"
ایمان خیرن بُوا سے پیسے نہیں لینا چاہ رہی تھی۔۔اسکی نظریں شاہ گل پہ تھیں جو اسے پیسے لے لینے کا اشارہ کر رہی تھیں۔
"ائے دلہن رکھ لو۔۔"
خیرن بُوا نے پیسے واپس سے اسکی مُٹھی میں دبا دئیے۔اس نے شکریہ کہہ کر پیسے رکھ لیے۔
"ٹھیک ہے امی میں جا رہی ہوں۔۔چلو ارفع، عنادل۔۔"
طاہرہ بیگم چادر اوڑھتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئیں۔عنادل اور ارفع بھی اٹھ گئیں

Mirh@_Ch
 

سحرش کی بجائے فائقہ نے جواب دیا۔
"کیا ہو رہا ہے بھئی۔۔؟"
عقیلہ بیگم بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
"کچھ نہیں شاہ گل ہم تو بس بُوا سے باتیں کر رہے تھے۔"
سحرش نے شاہ گل سے کہا۔
"اور خیرن گاؤں میں سب ٹھیک تھا؟
شاہ گل نے خیرن بُوا سے پوچھا۔
"جی عقیلہ بیگم اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک تھا۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جو اس نے ہمیں یہ خوشی کا دن دکھایا۔"
خیرن نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔
"الحمدللہ۔۔! اللہ اور بھی خوشیاں دے اور بچے کے نصیب اچھے کرے۔"

Mirh@_Ch
 

"تو بُوا پھر آپ نے کیا کہا؟"
لاریب بھی درمیان میں کُود پڑی۔۔وہ سبھی اپنی مسکراہٹ بڑی مشکل سے روکے ہوئے تھیں۔جانتی تھیں کہ اگر غلطی سے بھی ہنس دی تو خیرن بوا ہاتھ منہ دھو کر ان کے پیچھے پڑ جائیں گی مگر پھر بھی اُن سے چھیڑ خانی کرنا ان سب کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
"ائے میرا کیا کُچھ ہونے والا ہے جو پلنگ توڑنے بیٹھ جاؤں۔۔موئے کا دماغ خراب تھا جو مجھے الٹے سیدھے مشورے دے رہا تھا۔"
خیرن بوا نے جی بھر کر ڈاکٹر کو صلواتیں سنائیں۔
"سہی کہا بوا۔۔۔اس موئے کو وہیں ٹھیک کر دیتیں۔"
ارفع نے بھی انھیں چھڑنا اپنا فرض سمجھا۔
"ائے دفع کرو۔۔۔یہ لونڈے کہاں ہیں؟
وہ ایک بار پھر ایمان کی طرف مڑیں۔ایمان نے مدد طلب نظروں سے سحرش کی جانب دیکھا۔
"بُوا سارے لونڈے۔۔۔۔سیر سپاٹا کرنے گئے ہیں۔صرف مصطفیٰ بھائی اور غزنوی بھائی ہی گھر پہ ہیں۔"

Mirh@_Ch
 

"خیرن بوا۔۔۔آپ کب آئیں؟"
پرخہ نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
"آئے میں تو صبح ہی آ گئی تھی لیکن سفر کی تھکاوٹ نے نیند کی وادیوں میں وہ جھولے جھلائے کہ اللہ کی پناہ۔"
پرخہ ان کا دھیان ایمان سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
"اور بوا آپ کے گھٹنوں کا درد کیسا ہے؟"
عنادل نے اپنے ہونٹوں پہ آتی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے پوچھا۔ایمان نے اسے اور پرخہ کو شکریہ ادا کرتی نظروں سے دیکھا۔
"ائے ہائے بٹیا کیا بتاؤں کمبخت جان سے چمٹ گیا ہے اور مجال ہے کسی بھی موئے ڈاکٹر کی وہ نیلی پیلی گولیاں جو اثر کرتی ہوں اور اس بار جو ڈاکٹر کے گئی تھی تو کمبخت مارا کہنے لگا اماں بیڈ ریسٹ کرو۔"
خیرن بوا نے گھٹنوں کو ہلکے ہلکے دباتے ہوئے کہا۔

Mirh@_Ch
 

"چلو لڑکیو۔۔!! جان چھوڑو بچی کی۔۔ائے ہائے غضب خدا کا ایسے بچی کو گھیرے بیٹھی ہو جسے کل قیامت ہو۔۔آئے ہٹو۔۔ذرا مجھے ملنے دو بچی سے۔"
خیرن بوا اونچا اونچا بولتی کمرے میں داخل ہوئیں۔وہ سب اس وقت لاونج میں بیٹھی تھیں کہ وہ ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئیں۔۔خیرن بوا اس گھر کی پرانی ملازمہ تھیں بلکہ اس گھر کا ایک حصہ تھیں۔کچھ دن وہ گاؤں اپنے بیٹے کے پاس رہنے گئی تھیں۔آج آئیں تو عقیلہ بیگم نے انھیں ایمان کے بارے میں بتایا اور اب وہ ان کے بیچ بیٹھی ایمان کو سر تا پیر گھور رہی تھیں۔ایمان خیرن بوا کی عقاب جیسی آنکھوں کو خود کے آر پار ہوتے محسوس کر کے کنفیوز ہو رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

اسی اثناء میں شگفتہ ناشتے کی ٹرے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔بغیر اِدھر اُدھر دیکھے شگفتہ نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور واپس پلٹ گئی۔وہ برش ڈریسنگ ٹیبل پہ پھینکتا صوفے پر آ بیٹھا۔خاموشی سے ٹرے اپنی جانب کھسکائی اور ناشتہ کرنے لگا۔وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے اس کے علاؤہ وہاں کوئی اور موجود نہیں۔ایمان کی تو ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ نظریں اٹھا کر اپنا مطالعہ کرتی نگاہوں کا مقابلہ کرتی۔
"اب کیا یونہی میرے سر پر سوار رہو گی؟"
وہ کپ ٹرے میں تقریباً پٹختے ہوئے بولا جبکہ وہ گھبرا کر کھڑی ہو گئی اور اس سے پہلے کہ وہ اسے مزید کچھ کہتا وہ کمرے سے نکل گئی۔غزنوی نجانے کیوں تادیر بند دروازے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ گئی تھی۔
___________

Mirh@_Ch
 

انھوں نے اس سے پوچھا۔ایمان کمرے کا جائزہ لینے میں مگن ہوگئی۔واش روم سے چیزوں کی اُٹھک پَھٹک کی آوازیں آ رہی تھیں۔وہ گہرا سانس لیتی اٹھ کھڑی ہوئی اور اِدھر اُدھر بکھری چیزوں کو ترتیب سے رکھنے لگی۔یہ کام کرتے ہوئے اس کی نظر واش روم کے بند دروازے پر بھی تھیں۔دل کی بڑھتی دھڑکن کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔وہ بیڈ کی چادر ٹھیک کرنے کے لیے آگے بڑھی ہی تھی کہ واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ جلدی سے واپس صوفے کی طرف آ گئی۔غزنوی باہر آیا تو وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسائے، نظریں ہاتھوں پہ جمائے بیٹھی تھی۔غزنوی نے بال خشک کئے اور تولیہ بیڈ پہ پھینک دیا۔منہ کا زاویہ یوں ٹیڑھا کر رکھا تھا جیسے کوئی کڑوی کسیلی گولی منہ میں ڈالے ہوئے ہو۔ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر بال برش کرنے لگا۔

Mirh@_Ch
 

"ایمان۔۔بیٹھو تم۔۔اب یہ تمھارا بھی کمرہ ہے۔میں شگفتہ کے ہاتھ تمھارا سامان بھجواتی ہوں۔اپنے کپڑے الماری میں لگا لینا۔"
ان کی بات سن کر غزنوی نے پلٹ کر دیکھا۔اس نے اورنج کلر کا خوبصورت سا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔گھبراہٹ میں لپٹا چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے عاری تھا۔وہ نظریں جھکائے صوفے پہ بیٹھی تھی۔وہ ایک سرسری سی نظر اس پہ ڈال کر واش روم میں گھس گیا۔
"میں ناشتہ بھجواتی ہوں تمھارے لیے۔۔جلدی فریش ہو کر باہر آؤ۔"
شمائلہ بیگم واش روم کے بند دروازے کو گھورتی کمرے سے چلی گئیں۔

Mirh@_Ch
 

شمائلہ بیگم نے پیروں کے قریب پڑا کشن اٹھایا۔
"اور میری زندگی کو جو بےترتیب کر دیا گیا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا آپکو۔"
وہ پلٹا۔۔اس وقت وہ خود بھی اپنے کمرے کی ہی طرح بکھرا ہوا لگ رہا تھا۔اس کی نظر ان سے پیچھے کھڑی ایمان پہ گئی۔وہ ایک ناراض نظر ماں پہ ڈالتا الماری کیطرف بڑھا۔اپنے کپڑے لئے اور تیز آواز سے الماری بند بند کی۔
"تمھاری زندگی کو کیا ہوا ہے۔۔اچھی بھلی تو ہے۔۔تم یونہی بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہے ہو۔"
ایمان کو دیکھ کر غزنوی کے چہرے پر جو تناؤ پھیلا تھا وہ ان کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکا۔

Mirh@_Ch
 

وہ دھیرے سے بڑبڑائی اور تصویر پہ ایک آخری بھرپور نظر ڈال کر آگے بڑھ گئی.شمائلہ بیگم دروازے پہ دستک دینے کے ساتھ اسے پکار بھی رہی تھیں۔وہ ان کے ایک جانب کھڑی ہوئی تاکہ دروازہ کھلنے پہ وہ سامنے دکھائی نہ دے۔تیسری بار پکارنے پہ دروازہ کھلا تھا۔
"غزنوی۔۔۔! بیٹا یہ کیا طریقہ ہے؟"
وہ دروازہ کھول کر پلٹ گیا تھا۔شمائلہ بیگم ایمان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی اندر داخل ہوئیں۔کمرے کی ابتر حالت کو شمائلہ بیگم حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔یہ ان کے اس بیٹے کا کمرہ تھا جو اپنی ہر چیز ترتیب سے رکھنے کا عادی تھا۔کبھی جو صفائی کے دوران چیزیں اپنی جگہ سے ادھر ادھر ہو جاتی تھیں تو پورا گھر سر پہ اٹھا لیتا تھا۔غصہ تو ہمیشہ اسکی ناک پہ دھرا رہتا تھا۔
"غزنوی۔۔۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔۔یا اللہ۔۔۔یہ بےترتیبی تمھاری مزاج کا حصہ تو نہیں تھی۔"