Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

وہ اسکا ایک ماں کی طرح ہی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں اور ایمان کو بھی ان کی عادت ہوتی جا رہی تھی۔آج بھی انھوں نے ایمان کو بازار لے کر جانا تھا ولیمے کے لئے ڈریس خریدنا تھا۔دس بجنے والے تھے لیکن ایمان اب تک کمرے سے باہر نہیں آئی تھی حالانکہ روز تو ناشتہ بنانےمیں وہ ان کی مدد کیا کرتی تھی۔غزنوی تو کب کا ناشتہ کر کے مکرم احمد کے ساتھ آفس کے لیے نکل چکا تھا۔مرتضیٰ بھی یونیورسٹی جا چکا تھا۔ملائکہ کی آج چھٹی تھی۔

Mirh@_Ch
 

جیسے ہی شادی کی تاریخ رکھی گئی سبھی تیاری میں لگ گئیں۔ایمان کو بھی شمائلہ بیگم شاپنگ کے لئے ساتھ لے کر جاتیں تھیں۔غزنوی کو تو اسکی پرواہ ہی نہیں تھی۔بظاہر تو غزنوی کا رویہ نارمل تھا مگر وہ اس کی ہر ضرورت سے وہ لاپرواہ تھا اور شمائلہ بیگم اس بات سے واقف تھیں اس لئے وہ ایمان سے غزنوی کے رویے کے متعلق پوچھتی رہتی تھیں اور ایمان انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتی، لیکن وہ ماں تھیں غزنوی کی۔۔اپنے بیٹے کی مزاج آشنا تھیں۔غزنوی کے رشتے سے ایمان انھیں بہت عزیز ہو گئی تھی۔

Mirh@_Ch
 

ارے شاہ گل آپ خفا مت ہوں۔۔انھوں نے یقیناً چپکے چپکے کچھ پلان بنا رکھا ہو گا۔"
ارفع نے شاہ گل کے گلے میں بازو ڈالے۔
"پتہ نہیں اس نے کیا سوچ رکھا ہے۔۔خیر تم لوگ بتاؤ تیاری کب سے شروع کرنی ہے؟"
انھوں نے سر جھٹک کر پوچھا۔انھیں ایمان کے چہرے پہ اداسی چھاتی محسوس ہوئی تھی۔
"شاہ گل ہم آج سے ڈھولکی رکھیں گے۔"
فائقہ جلدی سے بولی۔
"نہیں بیٹا ابھی نہیں۔۔اگلے مہینے ڈھولکی رکھنا۔"
عقیلہ بیگم گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئیں۔ان کے جانے کے بعد وہ سب ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ایمان خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھ گئی۔
__________________________

Mirh@_Ch
 

فائقہ کے کہنے پہ وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔۔حیا اور پرخہ انھیں مشوروں سے نوازنے لگیں۔ایمان اُن کے ایک دوسرے کو دیتے اُوٹ پٹانگ مشوروں پہ اپنی ہنسی روک نہیں پا رہی تھی۔
"ارے بھئی کیا ہو رہا ہے؟"
عقیلہ بیگم کی آواز سن کر سبھی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
"شاہ گل۔۔۔!! مبارک ہو آپ کو۔۔۔"
وہ سب یک زبان ہو کر بولیں جبکہ پرخہ اور سحرش دل میں پھوٹتے لڈو چھپا کر شرافت کے ریکارڈ توڑنے لگی تھیں۔
"خیر مبارک میرے بچو۔۔! تم سب کو بھی مبارک ہو۔"
عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئیں۔انھوں نے باری باری سحرش اور پرخہ کا ماتھا چُوم کر دونوں کو دعائیں دیں۔
"میرا تو دل تھا کہ غزنوی اور ایمان کا ولیمہ بھی کر دیتے ہیں مگر غزنوی۔۔۔۔خیر چھوڑو۔"
ان کی نظر ایمان پر ٹھہر گئی جو غزنوی کے ذکر پہ نظریں جھکا گئی تھی

Mirh@_Ch
 

"ہونہہ۔۔! تمھاری بھونڈی آواز کو برداشت کرنے کی ہمیں قطعی کوئی ضرورت نہیں۔۔ہم اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر کسی سُریلے کو سُن لیں گے۔"
ارفع نے سب کو ایک آسان علاج بتایا۔
"او ہو۔۔۔آپ خود تو بڑی سُریلی ہو نا۔"
ملائکہ نے ارفع کے بے پرواہ انداز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا۔
"او ہو۔۔۔ایک تو تم لوگوں کو ایک دوسرے سے بِھڑنے کا موقع چاہئیے۔۔یہ بتاؤ شاپنگ کہاں سے اسٹارٹ کرنی ہے۔۔یااللہ کتنے کم دن ہیں ہمارے پاس۔۔"
لاریب نے سب کو متوجہ کیا۔
"ہاں بھئی لاریب بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔کیا لیں۔۔کیا پہنیں۔۔ڈیسائڈ کرتے ہیں۔"

Mirh@_Ch
 

سحرش نے مسکراتے ہوئے عنادل کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
"دولہے کا سہرا سہانا لگتا ہے۔۔
دولہن کا تو دل دیوانہ لگتا۔۔
پل بھر میں کیسے بدلتے ہیں رشتے
اب تو ہر اپنا بیگانہ لگتا ہے۔۔"
ملائکہ بھی لہک لہک کر اچھے بھلے گانے کی ٹانگیں توڑنے لگی۔ان سب نے کانوں میں انگلیاں ٹُھونس لیں۔
"میں تو خُوب گانے گاؤنگی چاہے کسی کو آگ لگے۔"
ملائکہ نے ان سب کو کانوں میں انگلیاں ٹھونستے دیکھکر اِٹھلاتے ہوئے کہا۔ایمان بھی ان کی نوک جھونک سے محظوظ ہو رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

ہُرّے۔۔۔!! ساڈا چڑیاں دا چمبا وے بابلا وے
ساڈا چڑیاں دا چمبا وے بابلا۔۔۔اساں اُڈ جانڑاں۔۔اساں اُڈ جانڑاں۔۔۔"
عنادل کا راگ شروع ہو چکا تھا۔
"ائے ہائے۔۔۔ظالم۔۔!! دل کے تار چھیڑ دیئے۔"
لاریب دل پہ ہاتھ رکھے ہائے ہائے کر رہی تھی۔
"ہماری پیاری بانسری بی بی۔۔۔۔زرا اپنی یہ پیں پیں بند کرو۔"

Mirh@_Ch
 

اُففف۔۔۔!! ایمان بتا بھی چُکو۔۔۔۔"
لاریب نے اسکا گھٹنا ہلایا۔
"اندر پرخہ آپی اور مصطفی بھائی اور اور۔۔۔۔۔"
ایمان نے ایک بار پھر تجسس پھیلانا چاہا۔
"اور۔۔۔۔۔؟؟"
ارفع نے آنکھیں پھیلائیں۔
"اور یہ کہ ہادی بھائی اور سحرش آپی کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی ہے۔۔۔۔اگلے ماہ کی چوبیس تاریخ۔۔۔"
ایمان نے آخر تھیلے میں سے بلی نکال ہی لی

Mirh@_Ch
 

"حملہ۔۔۔۔"فائقہ کے آواز لگاتے ہی وہ سب ایمان پر چڑھ دوڑنے کو آگے بڑھیں۔
"ارے ارے رکو رکو۔۔۔۔بتاتی ہوں۔"
ایمان نے ان سب کو آستینیں چڑھا کر خود پہ جھپٹتے دیکھا تو فوراً بولی۔ایک مرتبہ پہلے بھی وہ سب مل کر اسکا حلیہ بگاڑ چکی تھیں۔
"جلدی بولو۔۔۔"
عائشہ نے اپنی لمبی لمبی انگلیاں پستول کی ناب کیطرح اسکی کنپٹی پر رکھیں۔
"وہ اندر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جلد سے جلد۔۔۔۔"
وہ پھر خاموش ہوئی جبکہ وہ ساری منہ کھولے اس کے آگے بولنے کی منتظر تھیں۔

Mirh@_Ch
 

عنادل اسکے پاس بیٹھ گئی۔وہ چہرے پہ سنجیدہ تاثرات سجائے ان کا صبر آزما رہی تھی اور دل ہی دل میں ان کی بےصبری پہ مسکرا بھی رہی تھی۔
"اب بتا بھی دو ایمان۔۔"
پرخہ نے اسکا کندھا ہلایا۔
"لو۔۔۔پہلے بزرگ صاحبان کھچڑی پکاتے رہے اور اب ان کی بہو بھی کھچڑی کو مزید پکانے کے چکر میں ہے۔"
سحرش نے باقی سب کو دیکھا جن کی نظریں اس پہ جمی تھیں۔
"ارے میری پیاری سحرش آپی۔۔۔آپ کو اتنی بے چینی کیوں لگی ہوئی ہے۔میں ایسا کرتی ہوں کہ داجی سے ہی جا کر پوچھتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں کہ آپ کی لاڈلیاں آپ کا فیصلہ جاننا چاہتی ہیں۔"
وہ ایک دم سے اٹھ کر جانے لگی کہ سحرش نے اسکا ڈوپٹہ پکڑا، فائقہ نے دامن اور پرخہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ایمان کھلکھلا کر ہنس دی مگر وہ سب سنجیدہ چہرہ لیے اسے دیکھ رہی تھیں۔

Mirh@_Ch
 

"مبارک ہو آپ سب کو۔۔۔اور شاہ گل میں ضرور تائی امی کی مدد کروں گی۔میں ذرا یہ خوشخبری باقی سب کو بھی سنا دُوں۔"
وہ عقیلہ بیگم سے کہتی دروازے کی طرف بڑھی۔اسے یقین تھا کہ وہ اس کہنے کے باوجود دروازے سے ہی چپکی ہوں گی اور اسکا اندازہ صحیح تھا۔وہ جیسے ہی باہر آئی۔سب نے اسے گھیر لیا اور دبی دبی آوازوں میں اس سے پوچھنے لگیں۔
"بتاو نا ایمان۔۔"
ارفع نے ایمان سے پوچھا۔
"پتہ نہیں اندر کیا بات ہوئی۔۔جب میں اندر گئی تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے۔۔اس لئے میں جان ہی نہیں پائی کہ وہ کیوں اکٹھے ہوئے اور کیا بات ہوئی۔"
ایمان چہرے پہ سنجیدگی طاری کیے کندھے اُچکا کر لاؤنج میں آ گئی۔اس کے ہاتھ میں بھاپ اڑاتا کپ تھا جس سے وقفے وقفے سے وہ سِپ لے رہی تھی۔وہ سب بھی اسکے پیچھے آئیں۔
"یہ کیا بات ہوئی ایمان۔۔۔بتاؤ نا اندر کیا چل رہا تھا؟

Mirh@_Ch
 

"تم ساری چاغی کا پہاڑ بنی کھڑی رہو گی تو کیسے اندر کی خبر باہر لاؤں گی۔۔چلو ہٹو آگے سے قہوہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔"
ایمان نے ان سب کو دروازے سے ہٹانا چاہا۔
"ہائے ایمان۔۔میری جان جلدی جاؤ نا۔"
پرخہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر دروازے کے قریب کیا۔
"ٹھیک ہے آپ سب لاونج میں جا کر بیٹھو۔۔شگفتہ آپ سب کے لئے بھی قہوہ لا رہی ہے، میں آتی ہوں۔"
وہ ان سے کہتی کمرے میں داخل ہو گئی۔ان سبھی نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اندر داخل ہوئی تھی۔کمرے میں سبھی خوش گپیوں میں مگن تھے۔
"لگتا ہے تاریخ طے ہو گئی ہے۔"
وہ سبھی کو قہوہ سرو کر کے شاہ گل کے پاس آ بیٹھی۔
"جی بیٹا۔۔اگلے مہینے کی چوبیس تاریخ رکھ دی ہے۔اب تائی امی کی مدد کرنی ہے تم نے کیونکہ وقت بہت کم ہے۔"
عقیلہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

Mirh@_Ch
 

یہ کیا ہو رہا ہے بھئی۔۔؟
وہ قہوہ لئے داجی کے کمرے کی طرف آئی۔ساری لڑکیاں بند دروازے سے چپکی کھڑی تھیں۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اپنے کان کمرے کے اندر لے جائیں۔گھر کے سبھی بڑے اندر کمرے میں موجود تھے۔ایمان کی آواز سن کر ساری پیچھے ہوئیں اور اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
"ایمان ذرا اندر جا کر دیکھو۔۔کیا میٹنگ چل رہی ہے۔داجی نے سب کو بلایا ہے تو یقینا کوئی خاص بات ہو گی۔"
پرخہ نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لے لی۔باقی سب پھر سے کان لگائے مصروف ہو گئی تھیں۔
"تو آپ کو اتنا تجسس کیوں ہو رہا ہے؟
ایمان نے ٹرے اس سے واپس لی۔
"میری پیاری ایمان ذرا اندر سے پکی پکی خبریں تو باہر لاؤ۔"
فائقہ نے ایمان کے گالوں پہ چٹکی کاٹی۔ایمان مسکرا دی تھی۔
😉😉😉

Mirh@_Ch
 

۔ایمان نے ایک چور نظر غزنوی پہ ڈالی تھی جو مصطفی کی کسی بات پر ہنس رہا تھا۔کشادہ پیشانی،کھڑی ناک، سیاہ پراعتماد آنکھیں، عنابی لب اور شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والا۔۔۔غزنوی احمد اس کے دل کے بند کواڑوں پہ بنا دستک دئیے ہی اسکے دل کی دہلیز پار کر چکا تھا۔۔چوری چوری اسے دیکھنا آج کل ایمان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ایسا کام جسے کر کے وہ اپنے اندر پھول کھلتے محسوس کرتی تھی۔۔محبت کا جھرنا پھوٹ پڑا تھا جس کا شور ایمان کے دل و دماغ میں برپا تھا اور اب اس شور سے بھاگنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ _______________

Mirh@_Ch
 

وہ پرسکون ہوئے تھے۔۔گاوں میں بھی انھیں اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ نجانے ایمان کے ساتھ ان سب کا رویہ کیسا ہوا۔خاص طور پر غزنوی کی ماں شمائلہ کا۔۔۔اس نے ایمان کو غزنوی کی دلہن کے روپ میں قبول کیا ہو گا یا نہیں۔حالانکہ شاہ گل انھیں مطمئن کرتی رہتی تھیں مگر پھر بھی ایمان کا خیال ان کے اردگرد گھومتا رہتا تھا۔۔۔کبھی پچھتاوے انھیں گھیر لیتے کیونکہ اپنے لاڈلے پوتے کی ضدی طبیعت سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔لیکن اب واپس آ کر جو رویہ ان سب کا ایمان کے ساتھ انھوں نے دیکھا وہ انھیں مطمئن کرنے کے لئے کافی تھا اور ایمان نے خود کہہ کر انھیں اس پریشانی سے بھی آزاد کر دیا تھا۔
ایمان کے الفاظ سے غزنوی کا اٹکا ہوا سانس بحال ہوا۔اب اعظم احمد ایمان کو اسکے والد کے بارے میں بتا رہے تھے۔شمائلہ بیگم اور باقی خواتین دوپہر کے کھانے کا انتظام دیکھنے کے لئے اٹھ گئیں

Mirh@_Ch
 

صائمہ بیگم نے غزنوی کی طرف شرارتی انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔سب کے ہونٹوں پہ دبی دبی مسکراہٹ رینگ گئی۔غزنوی گلاس منہ سے لگائے گھونٹ گھونٹ پانی پی رہا تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر ایمان نے صاف صاف بتا دیا تو داجی اس سے سوال جواب کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیں گے۔
"ہاں غزنوی۔۔!! تم میری بیٹی کا خیال رکھتے ہو نا۔۔؟
اعظم احمد نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
"جی وہ بھی خیال رکھتے ہیں۔"
وہ جبراً مسکرائی تھی۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔"

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد کے چہرے پہ کئی سوال تھے۔
"ارے نہیں داجی۔۔۔سب بہت اچھے ہیں۔۔میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔۔مجھے اتنا مان دیا۔۔میں کہاں اس قابل تھی۔۔۔مگر۔۔۔۔"
اسکی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔
"ارے ارے۔۔۔کیا ہوا بیٹا۔۔جب سب اچھے ہیں تو پھر یہ رونا کیوں؟"
انھوں نے اسکے آنسو پُونچھے۔
"کیا غزنوی تمھارا خیال نہیں رکھتا؟"
غزنوی کا گلاس کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا۔اس نے ایمان کی طرف دیکھا جو اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔
"نہیں داجی۔۔۔سبھی میرا خیال رکھتے ہیں۔"
وہ جلدی نظروں کا رخ پھیر کر اعظم احمد سے بولی۔ایک طرح سے تو وہ بھی اسکا محسن ہی تھا چاہے کھڑوس اور اکڑو ہی سہی۔۔۔
"داجی غزنوی کا پوچھ رہے ہیں کہ وہ تمھارا خیال رکھتا ہے کہ نہیں۔" 😦

Mirh@_Ch
 

انھوں نے ہنستے ہوئے اسکے سارے سوالوں کے جواب دئیے۔
"سچ۔۔۔؟؟"
وہ بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ لئے انھیں دیکھ رہی تھی۔سبھی نے بڑی محبت سے یہ منظر دیکھا تھا۔وہ محسن تھے اسکے۔۔۔۔انھوں نے اسے بےحرمتی کی دلدل میں گرنے سے بچایا تھا۔۔اسے عزت دی تھی، اپنے خاندان کا نام دیا تھا۔۔وہ مر کر بھی ان کا احسان نہیں اتار سکتی تھی۔
"میری بیٹی خاموش کیوں ہو گئی؟"
اعظم احمد نے اسکے پُرسوچ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی۔
"کیا ان سب نے میری بیٹی کا خیال نہیں رکھا۔"
انھوں نے اس سے پوچھتے پوچھتے عقیلہ بیگم کی جانب دیکھا

Mirh@_Ch
 

اس کا خیال تھا کہ وہ جان بوجھ کر اپنے چہرے پہ معصومیت طاری کیے رکھتی ہے۔مگر آج اسے اپنا ہی اندازہ کہیں دور کھائی میں لڑکھتا دکھائی دیا۔
سبھی نے اسکے سلام کا جواب دیا سوائے غزنوی کے۔۔وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں میں مگن تھا۔
"ادھر آئے میری بیٹی۔۔میرے پاس۔۔۔"
اعظم احمد نے اپنے قریب اسکے لئے جگہ بنائی۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔عقیلہ بیگم بھی مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"کیسی ہے میری بیٹی۔۔؟؟"
انھوں نے بڑے پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔
"ٹھیک ہوں داجی۔۔آپ کیسے ہیں۔۔بابا سے ملے تھے آپ۔۔کیسے ہیں بابا۔۔؟"
ایمان نے ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھ ڈالے۔
"ہاہاہا۔۔۔میں بھی ٹھیک ہوں۔۔بابا سے بھی ملا ہوں۔۔وہ بھی بالکل ٹھیک ہیں۔۔وعدہ کر کے آیا ہوں اس سے کہ اگلی بار تمھیں ساتھ لے کر آوں گا۔"

Mirh@_Ch
 

اعظم احمد گاؤں سے واپس آ گئے تھے۔وہ نماز سے فارغ ہوئی تو لاؤنج میں کچھ شور سا محسوس ہوا۔جائے نماز طے کرتی وہ لاؤنج میں آئی۔سبھی وہاں موجود تھے۔اعظم احمد صوفے پہ براجمان عقیلہ بیگم سے کچھ بات کر رہے تھے۔
"السلام و علیکم۔۔!"
ایمان نے بلند آواز میں سلام کیا اسکے سلام کرنے پہ سبھی اسکی طرف متوجہ ہوئے۔دُھلا دُھلا معصوم چہرہ۔۔۔معصومیت اسکے چہرے کا خاصہ تھی۔ڈارک ریڈ کلر کے دیدہ زیب لباس میں ملبوس، نازک کلائیاں سرخ چوڑیوں سے سجی تھیں۔۔گلابی پنکھڑی نما لب۔۔بھوری آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر غزنوی کو اپنا دل کھینچتی محسوس ہوئی تھی۔یہ سب ایک لمحے کے لئے تھا، اگلے ہی پل وہ اپنی نظروں کا زاویہ بدل چکا تھا اور چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔