اس کے سلوک پر عدیمؔ اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
🖤
ختم ہونے کو ہے سفر شاید
پھر ملیں گے کبھی مگر شاید
🙂🖤
It's my birthday 🥳




کچھ حادثوں سے گِر گئے محسٓن زمین پر
ہم رشقِ آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے
🖤✨


ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشت شب میں ستاروں کی ہم سفر آنکھیں
🙂🖤🍂




ہونٹوں پہ ساحلوں کی طرح تشنگی رہى
میں چُپ ہوا تو میری انا چیختی رہی
اک نام کیا لکھا تیرا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
سڑکوں پہ سرد رات رہی میری ہمسفر
آنکھوں میں میرے ساتھ تھکن جاگتی رہی
یادوں سے کھیلتی رہی تنہائی رات بھر
خوشبو کے انتظار میں شب بھیگتی رہی
وہ لفظ لفظ مجھ پہ اترتا رہا محسٓن
سوچوں پہ اسکے نام کی تختی لگی رہی
❤️🪽
