Damadam.pk
Murtaz.Jafri's posts | Damadam

Murtaz.Jafri's posts:

Murtaz.Jafri
 

تجھے فرصت ہو جو منزل کے سوالوں سے کبھی
راستہ پوچھ مرے پاؤں کے چھالوں سے کبھی
نکل آگے بھی کتابوں کے حوالوں سے کبھی
آج کے عہد میں مل سوچنے والوں سے کبھی
شیخ نکلا نہیں جنت کے خیالوں سے کبھی
بات آگے نہ گئی چند مثالوں سے کبھی
پیاس بجھتی ہے امنگوں کے پیالوں سے کبھی
مشک ملتا ہے امیدوں کے غزالوں سے کبھی
میری تلوار تو ٹوٹی ہے تجھے یاد رہے
وقت رکتا نہیں فولاد کی ڈھالوں سے کبھی
سر پہ حق بیٹھ گیا وقت نے در چیر دیا
کچھ ہوا سوچ پہ ڈالے ہوئے تالوں سے کبھی
تنگ آئے ہو اناڑی کے اناڑی پن سے
عاجز آ جاؤ نہ تقدیر کی چالوں سے کبھی
ہم تفکر کے تو منکر نہیں لیکن راحیلؔ
کچھ سلجھتا بھی ہے الجھے ہوئے بالوں سے کبھی

میری آنکھوں کے دام پورے دو
میں نے خوابوں سمیت بیچی ہیں
M  : میری آنکھوں کے دام پورے دو میں نے خوابوں سمیت بیچی ہیں - 
Murtaz.Jafri
 

میری خاموشی کا کچھ تو خیال کیجیئے
میرے ادب کا کچھ تو لحاظ کیجیئے
میرے لب عرضہء دراز سے ساکت
میرے اندر کا شور نہ تباہ کیجیئے

Murtaz.Jafri
 

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

Murtaz.Jafri
 

اندر باہر شور ہے "مَیں" کا
مَیں تو "مَیں" سے ڈر بیٹھا ہوں!

Murtaz.Jafri
 

پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈُھونڈ رہا ہے
پاگل ہے جو دُنیا میں وَفا ڈُھونڈ رہا ہے
خُود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر
اَب سر کو چُھپانے کی جگہ ڈُھونڈ رہا ہے
کل رات تو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا
کیوں دِن کے اُجالے میں دِیا ڈُھونڈ رہا ہے
شاید کے ابھی اُس پہ زوال آیا ہوا ہے
جُگنُو جو اندھیرے میں ضیا ڈُھونڈ رہا ہے
کہتے ہیں کہ ہر جا پہ ہی موجُود خُدا ہے
یہ سُن کے وہ پتَّھر میں خُدا ڈُھونڈ رہا ہے
اُسکو تو کبھی مُجھ سے محبت ہی نہیں تھی
کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈُھونڈ رہا ہے
کِس شہرِ مُنافِق میں یہ تُم آ گۓ ساغر
اِک دُوجے کی ہر شخص خطا ڈُھونڈ رہا ہے

Murtaz.Jafri
 

مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں
جس شان سے آیا ہوں اسی شان سے جاؤں
بچوں کی طرح پیڑوں کی شاخوں سے میں کودوں
چڑیوں کی طرح اڑ کے میں کھلیان سے جاؤں
ہر لفظ مہکنے لگے، لکھا ہوا میرا
میں لپٹا ہوا یادوں کے لوبان سے جاؤں
مجھ میں کوئی ویرانہ بھی آباد ہے شائد
سانسوں نے بھی پوچھا تھا بیابان سے جاؤں
زندہ مجھے دیکھے گی تو ماں چیخ اٹھے گی
کیا زخم لئے پیٹھ پہ میدان سے جاؤں
کیا سوکھے ہوئے پھول کی قسمت کا بھروسہ
معلوم نہیں کب ترے گل دان سے جاؤں

Murtaz.Jafri
 

دم سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
کوئی تو ہو کہ تری جس سے گفتگو کی جائے
یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہش نمو کی جائے
کشیدہ کار ازل تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے
میں یہ بھی چاہتا ہوں عشق کا نہ ہو الزام
میں یہ بھی چاہتا ہوں تیری آرزو کی جائے
محبتوں میں تو شجرے کا بھی نہیں مذکور
تو چاہتا ہے کہ مسلک پہ گفتگو کی جائے
مری طرح سے اجڑ کر بسائیں شہر سخن
جو نقل کرنی ہے میری تو ہو بہ ہو کی جائے

Murtaz.Jafri
 

مفرور پرندوں میں یہ اعلان گیا ہے
صیاد نشیمن کا پتہ جان گیا ہے
یعنی جسے دیمک لگی جاتی ہے وہ میں ہوں
اب آ کے میرا میری طرف دھیان گیا ہے
شیشے میں بھلے اس نے میری نقل اتاری
خوش ہوں ! کوئی تو مجھے پہچان گیا ہے
اب بات تیری کن پہ ہے کچھ کر میرے مولا
اک شخص تیرے در سے پریشان گیا ہے
اور یہ نام و نسب جا کے زمانے کو بتاو
درویش تو دستک سے ہی پہچان گیا ہے

Murtaz.Jafri
 

ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﮎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺟﻨﮕﻞ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺏ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ...!

Murtaz.Jafri
 

وہ جو مرنے پر تلا ہے
اس نے جی کر بھی دیکھا ہو گا

Murtaz.Jafri
 

اسے کہنا ثبوت مضبوط رکھنا
بات اب خدا تک جا پہنچی ہے

Murtaz.Jafri
 

آ جاٶ گے اک دن حالات کی زد پر
ہو جاۓ گا معلوم تجھے خدا کیا ہے

Murtaz.Jafri
 

آۓ ہو تو اک مُہر گداگر بھی لگا دو
اس چاند سے ماتھے پہ یہ جُھومر بھی لگا دو
اجداد کی خوشبو مجھے جینے نہیں دے گی
اس پیڑ کے نیچے میرا بستر بھی لگا دو
ممکن ہے میرے بعد کی نسلیں مجھے ڈھونڈیں
بنیاد میں اک نام کا پتھر بھی لگا دو
اس جنگ میں ہارے ہوۓ کہلاٶ گے تم ہی
چاہو تو نمائش میں میرا سَر بھی لگا دو
اب صرف جہازوں میں سفر کرتی ہے پگلی
بچپن میں جو کہتی تھی میرے پَر بھی لگا دو
یہ بازی تو میں ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا
تم داٶ پہ اس بار مقدر بھی لگا دو

Murtaz.Jafri
 

دھنستی ہوئی قبروں کی طرف دیکھ لیا تھا
ماں باپ کے چہروں کی طرف دیکھ لیا تھا
دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
اس دن سے بہت تیز ہوا چلنے لگی ہے
بس میں نے چراغوں کی طرف دیکھ لیا تھا
اب تم کو بلندی کبھی اچھی نہ لگے گی
کیوں خاک نشینوں کی طرف دیکھ لیا تھا
تلوار تو کیا میری نظر تک نہیں اٹھی
اس شخص کے بچوں کی طرف دیکھ لیا تھ

Murtaz.Jafri
 

اس دھوپ میں ہوتا رہوں تحلیل کہاں تک
اے عشق تیرے حکم کی تعمیل کہاں تک
بکھرا ہے بدن گردِراہِ شوق کی صورت
لے آئی مجھے خواہشِتکمیل کہاں تک
لو آنکھ کا یہ آخری قطرہ بھی ہوا خشک
صحراٶں سے بھلا لڑتی یہ جھیل کہاں تک

Murtaz.Jafri
 

کندھاں کولوں ڈر لگدا اے
مقتل والا گھر لگدا اے
کوئی کھوج کُھرا نیئں لبدا
قاتل کاریگر لگدا اے
ایویں تاج محل نیئں بن دے
لُٹیا ہویا زر لگدا اے
موہ لیندا اے کر کے گلاں
پکا جادوگر لگدا اے

Murtaz.Jafri
 

تم جو سمجھتے رہو بلا سے میری
دل نے سرکار خودکشی کر لی

Murtaz.Jafri
 

اپنے دیے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے

Murtaz.Jafri
 

میں اسے اس لئے ہر بات بتا دیتا ہوں
آئینہ مجھ سے سوالات نہیں کرتا ناں