تجھے فرصت ہو جو منزل کے سوالوں سے کبھی
راستہ پوچھ مرے پاؤں کے چھالوں سے کبھی
نکل آگے بھی کتابوں کے حوالوں سے کبھی
آج کے عہد میں مل سوچنے والوں سے کبھی
شیخ نکلا نہیں جنت کے خیالوں سے کبھی
بات آگے نہ گئی چند مثالوں سے کبھی
پیاس بجھتی ہے امنگوں کے پیالوں سے کبھی
مشک ملتا ہے امیدوں کے غزالوں سے کبھی
میری تلوار تو ٹوٹی ہے تجھے یاد رہے
وقت رکتا نہیں فولاد کی ڈھالوں سے کبھی
سر پہ حق بیٹھ گیا وقت نے در چیر دیا
کچھ ہوا سوچ پہ ڈالے ہوئے تالوں سے کبھی
تنگ آئے ہو اناڑی کے اناڑی پن سے
عاجز آ جاؤ نہ تقدیر کی چالوں سے کبھی
ہم تفکر کے تو منکر نہیں لیکن راحیلؔ
کچھ سلجھتا بھی ہے الجھے ہوئے بالوں سے کبھی
میری خاموشی کا کچھ تو خیال کیجیئے
میرے ادب کا کچھ تو لحاظ کیجیئے
میرے لب عرضہء دراز سے ساکت
میرے اندر کا شور نہ تباہ کیجیئے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
اندر باہر شور ہے "مَیں" کا
مَیں تو "مَیں" سے ڈر بیٹھا ہوں!
پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈُھونڈ رہا ہے
پاگل ہے جو دُنیا میں وَفا ڈُھونڈ رہا ہے
خُود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر
اَب سر کو چُھپانے کی جگہ ڈُھونڈ رہا ہے
کل رات تو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا
کیوں دِن کے اُجالے میں دِیا ڈُھونڈ رہا ہے
شاید کے ابھی اُس پہ زوال آیا ہوا ہے
جُگنُو جو اندھیرے میں ضیا ڈُھونڈ رہا ہے
کہتے ہیں کہ ہر جا پہ ہی موجُود خُدا ہے
یہ سُن کے وہ پتَّھر میں خُدا ڈُھونڈ رہا ہے
اُسکو تو کبھی مُجھ سے محبت ہی نہیں تھی
کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈُھونڈ رہا ہے
کِس شہرِ مُنافِق میں یہ تُم آ گۓ ساغر
اِک دُوجے کی ہر شخص خطا ڈُھونڈ رہا ہے
مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں
جس شان سے آیا ہوں اسی شان سے جاؤں
بچوں کی طرح پیڑوں کی شاخوں سے میں کودوں
چڑیوں کی طرح اڑ کے میں کھلیان سے جاؤں
ہر لفظ مہکنے لگے، لکھا ہوا میرا
میں لپٹا ہوا یادوں کے لوبان سے جاؤں
مجھ میں کوئی ویرانہ بھی آباد ہے شائد
سانسوں نے بھی پوچھا تھا بیابان سے جاؤں
زندہ مجھے دیکھے گی تو ماں چیخ اٹھے گی
کیا زخم لئے پیٹھ پہ میدان سے جاؤں
کیا سوکھے ہوئے پھول کی قسمت کا بھروسہ
معلوم نہیں کب ترے گل دان سے جاؤں
دم سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
کوئی تو ہو کہ تری جس سے گفتگو کی جائے
یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہش نمو کی جائے
کشیدہ کار ازل تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے
میں یہ بھی چاہتا ہوں عشق کا نہ ہو الزام
میں یہ بھی چاہتا ہوں تیری آرزو کی جائے
محبتوں میں تو شجرے کا بھی نہیں مذکور
تو چاہتا ہے کہ مسلک پہ گفتگو کی جائے
مری طرح سے اجڑ کر بسائیں شہر سخن
جو نقل کرنی ہے میری تو ہو بہ ہو کی جائے
مفرور پرندوں میں یہ اعلان گیا ہے
صیاد نشیمن کا پتہ جان گیا ہے
یعنی جسے دیمک لگی جاتی ہے وہ میں ہوں
اب آ کے میرا میری طرف دھیان گیا ہے
شیشے میں بھلے اس نے میری نقل اتاری
خوش ہوں ! کوئی تو مجھے پہچان گیا ہے
اب بات تیری کن پہ ہے کچھ کر میرے مولا
اک شخص تیرے در سے پریشان گیا ہے
اور یہ نام و نسب جا کے زمانے کو بتاو
درویش تو دستک سے ہی پہچان گیا ہے
ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﮎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺟﻨﮕﻞ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺏ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ...!
وہ جو مرنے پر تلا ہے
اس نے جی کر بھی دیکھا ہو گا
اسے کہنا ثبوت مضبوط رکھنا
بات اب خدا تک جا پہنچی ہے
آ جاٶ گے اک دن حالات کی زد پر
ہو جاۓ گا معلوم تجھے خدا کیا ہے
آۓ ہو تو اک مُہر گداگر بھی لگا دو
اس چاند سے ماتھے پہ یہ جُھومر بھی لگا دو
اجداد کی خوشبو مجھے جینے نہیں دے گی
اس پیڑ کے نیچے میرا بستر بھی لگا دو
ممکن ہے میرے بعد کی نسلیں مجھے ڈھونڈیں
بنیاد میں اک نام کا پتھر بھی لگا دو
اس جنگ میں ہارے ہوۓ کہلاٶ گے تم ہی
چاہو تو نمائش میں میرا سَر بھی لگا دو
اب صرف جہازوں میں سفر کرتی ہے پگلی
بچپن میں جو کہتی تھی میرے پَر بھی لگا دو
یہ بازی تو میں ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا
تم داٶ پہ اس بار مقدر بھی لگا دو
دھنستی ہوئی قبروں کی طرف دیکھ لیا تھا
ماں باپ کے چہروں کی طرف دیکھ لیا تھا
دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
اس دن سے بہت تیز ہوا چلنے لگی ہے
بس میں نے چراغوں کی طرف دیکھ لیا تھا
اب تم کو بلندی کبھی اچھی نہ لگے گی
کیوں خاک نشینوں کی طرف دیکھ لیا تھا
تلوار تو کیا میری نظر تک نہیں اٹھی
اس شخص کے بچوں کی طرف دیکھ لیا تھ
اس دھوپ میں ہوتا رہوں تحلیل کہاں تک
اے عشق تیرے حکم کی تعمیل کہاں تک
بکھرا ہے بدن گردِراہِ شوق کی صورت
لے آئی مجھے خواہشِتکمیل کہاں تک
لو آنکھ کا یہ آخری قطرہ بھی ہوا خشک
صحراٶں سے بھلا لڑتی یہ جھیل کہاں تک
کندھاں کولوں ڈر لگدا اے
مقتل والا گھر لگدا اے
کوئی کھوج کُھرا نیئں لبدا
قاتل کاریگر لگدا اے
ایویں تاج محل نیئں بن دے
لُٹیا ہویا زر لگدا اے
موہ لیندا اے کر کے گلاں
پکا جادوگر لگدا اے
تم جو سمجھتے رہو بلا سے میری
دل نے سرکار خودکشی کر لی
اپنے دیے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے
میں اسے اس لئے ہر بات بتا دیتا ہوں
آئینہ مجھ سے سوالات نہیں کرتا ناں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain