سپردِخاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
دل پتھر،باتیں فالتو
انسان جانور،جانور پالتو
اونچی عمارتوں سے میرا گَھر، گر گیا
کچھ لوگ میرے حصے کا سورج بھی کھا گئے
کچھ نہ کچھ تو ہے چُھوٹنے والا
مجھ سے دنیا یا دنیا سے میں
*_کیا خاک میری خاک پر وہ خاک بھرےگا_*
*_خود خاک کا ہے خاک مجھے یاد کرے گا_*
”یہ جو ماں کی محبت ہوتی ہے نا،یہ محبت کی بھی ماں ہوتی ہے“
الفاظ جو بھی ہوں..... جیسے بھی ہوں...
لوگ مطلب ہمیشہ اپنی مرضی کا نکالتے ہیں...
”کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا سننے والے کمال کرتے ہیں“
ہے عجب لفظ یہ چائے بھی
جس میں چاہ بھی ہے اور ہائے بھی☕
ہوا کا تلخ لہجہ ہے چراغوں کی پریشانی
چمکتے چاند سورج ہیں ستاروں کی پریشانی
کناروں میں بھی شاید ڈوب جانے کی طلب ہوگی
پتہ کیسے کریں گے ہم کناروں کی پریشانی
مرے پیارے ہماری زندگی میں اور بہت غم ہیں
محبت ہجر یہ تو ہیں ہزاروں کی پریشانی
یہ صحرا بھی تو شاید دھوپ ہی سے تلملاتا ہے
سمندر دور کر ان ریگزاروں کی پریشانی
نہ جانے کیسے کیسے نقش پا کو سر پہ لیتے ہیں
یہ کوئی کم نہیں ہے یار پتوں کی پریشانی
وہی بچے کہ جس کو بولنا چلنا سکھایا تھا
وہی بچے ہی کیوں ہیں آج ماؤں کی پریشانی
درختوں کو بھی شاید ہجرتوں کے رنگ چکھنے ہیں
ٹہلتی ڈالیاں کہتی ہیں پیڑوں کی پریشانی
ہوائیں چل رہی ہیں ان کو رکنا ہو کہیں شاید
پتا کرتے چلو کیا ہے ہواؤں کی پریشانی
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
Wo pochty hein k tum muhabat ki batein q nahi krty,
Hum ne ka jo muhabat lafzon mein byan ho jaye wo muhabat hum nahi krty...
فائدہ کیا ہے زمانے میں، خسارہ کیا ہے
خاک ہو جائیں گے ہم لوگ، ہمارا کیا ہے
جیتنےوالوں کا ہم کو نہیں کچھ علم کہ ہم
ہار کر سوچتے رہے کہ ہرا کیا ہے
ابھی یہ لوگ مگن ہیں حروف تولنے میں
ابھی تو شہر نے لہجہ مرا سنا ہی نہیں
وہ شخص ایک عمر سے ماتم کناں ہے اور
اُس نے سیاہ رنگ بھی پہنا نہیں ہوا
کچھ نہ کچھ تو ہے چھوٹنے والا
مجھ سے دنیا یا دنیا سے میں
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں ایک حسین خواب ہے
کہیں جان لیوا عذاب ہے
کبھی کھو لیا، کبھی پا لیا
کبھی رو لیا، کبھی گا لیا
کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں
کہیں تشنگی بے حساب ہے
کہیں چھاؤں ہے، کہیں دھوپ ہے
کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی
کہیں مہربان بے حساب ہے
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
میں کہہ چکا تھا مجھے تیرنا نہیں آتا
بہت ہی دور، تبھی تو کنارے رکھے گئے
ہزاروں عیب تھے مجھ میں مگر
میری ماں مجھے انمول کہتی ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain