کیا اس گلی کبھی تیرا جانا ہوا
جہاں سے زمانہ کو گزارے زمانہ ہوا
کتنی بے اعتبار تھی نا یہ زندگی
پل بھر میں جیتے شخص کو مرحوم لکھ گئی تھی
اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں
درد دریا کے کنارے تو نہیں ہوتے ناں
رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں
راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں
ہونٹ سینے سے کہاں بات چھپی رہتی ہے
بند آنکھوں سے اشارے تو نہیں ہوتے ناں
ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے
اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں
زین اک شخص ہی ہوتا ہے متاعِ جاں بھی
دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں
اور پھر اٹھ ہی گیا اُس کا دعاؤں سے یقیں
اب تو وہ شخص خدا سے بھی خفا لگتا ہے
میں کہ پھر روئے بنا رات نہیں کرتا ناں!
جب کوئی مجھ سے تری بات نہیں کرتا ناں!
میں اسے اس لئے ہر بات بتا دیتا ہوں
آئینہ مجھ سے سوالات نہیں کرتا ناں!
اس لیے اس کے سبھی جھوٹ بھی سچ مانے ہیں
وہ بنا روئے کوئی بات نہیں کرتا ناں!
آپ بھی ویسے ہی پامال کیا مت کیجے
جیسے میں آپ کے جذبات نہیں کرتا ناں!
اتنے لوگوں میں مجھے یوں نہ دکھاؤ آنکھیں
اچھا بابا میں کوئی بات نہیں کرتا ناں!
جو بھی آیا تھا فیصلہ بابا
کر لیا میں نے حوصلہ بابا
آپ تو بات بھی نہیں کرتے
کیا کروں آپ سے گلہ بابا
جانے کب تک مجھے نبھانا ہے
اک مروت کا سلسلہ بابا
کوئی بے سائباں ہے مدت سے
کیا یہی ہے یہاں صلہ بابا
آپ کے بعد کچھ سہارے تھے
کوئی کب آپ سا ملا بابا
کاٹتا ہوں جو کٹ نہیں سکتا
زندگی کا یہ مرحلہ بابا
سچ کہوں آپ یاد آتے ہیں
کہہ رہا ہوں یہ برملا بابا
یہ سنا تھا کہ بھر ہی جاتے ہیں
پر کوئی زخم نا سِلا بابا
جھوٹ ہیں نیتیں زمانے کی
جھوٹ ہے سارا سلسلہ بابا
آئینوں سے ڈر جائیں گے لوگ یہاں
کبھی کردار نظر آیا جو چہرے کی جگہ
خامشی کو ٹٹولتا ہوا تُو
بات میں زہر گھولتا ہوا تُو
آج بس غور سے سنا میں نے
میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو
میں پروتا ہوا تجھے ان میں
میرے الفاظ تولتا ہوا تُو
آج پھر سے مجھے نظر آیا
رنگ اُداسی میں گھولتا ہوا تُو
پھر وہی تھامتا ہوا اِک میں
پھر مسلسل ہے ڈولتا ہوا تُو
دے کے دستک میں کاش پھر دیکھوں
در کو چپ چاپ کھولتا ہوا تُو
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
یوں میرے ساتھ دفن دل بے قرار ہو
چھوٹا سا اک مزار کے اندر مزار ہو
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﯿﺎﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﺘﺎ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
تم سے عشق ہو رہا ہے، کیا کِیا جاۓ
خود کو روک لیا جاۓ، یا ہونے دیا جاۓ
ہجر دونوں کو مار ڈالے گا
دوست! فرصت نکال ملتے ہیں
تہمت اُتار پھینکی لبادہ بدل لیا
خُود کو ضرورتوں سے زیادہ بدل لیا
جی چاہتا تھا روؤں اُسے جاں سے مار کے
آنکھیں چھلک پڑیں تو ارادہ بدل لیا
یہ دعا ہے ایسی غزل کہوں، کبھی پیش جس سے میں کر سکوں
کوئی حرف تیرے حضور میں، کوئی شعر تیری جناب میں
وہ شہسوار بڑا رحم دل تھا میرے لئے
بڑھا کے نیزہ زمین سے اٹھا لیا مجھ کو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain