گڑیا گڈے کو بیچا خریدا گیا
گھر سجایا گیا رات بازار سا
میرے زرد پتوں کی چادریں بھی ہوائیں چھین کر لے گئیں
میں عجب گلاب کا پھول ہوں، جو برہنہ سر ہے شباب میں
جب بھی چاہا سمیٹوں خود کو
کوئی شے مجھ میں بکھرتی چلی گئی
پہلے تو آسمان سر پر نہ رہا
پھر میرے پاؤں سے دھرتی چلی گئی
دن کو کرنیں رات کو جگنو پکڑنے کا شوق
جانے کس منزل پر لے جاۓ گا یہ پاگل پن
جہاں تک ہو سکے اپنی روش کو
طریق عام سے ملنے نہ دینا
کہانی کی اسی میں آبرو ہے
اسے انجام سے ملنے نہ دینا
دیکھ لو میں کیا کمال کر گیا ہوں
زندہ بھی ہوں اور انتقال کر گیا ہوں
ہم نے تیشے سے پہاڑوں کا بھرم رکھا ہے
ورنہ ان کے لئے اک آہ ہی کافی ہوگی
موت اپنی تو کئی بار مر چکے ہیں ہم
اب ہمیں موت جو آئی تو اضافی ہو گی
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
مرحلے شوق کے دشوار ہوا کرتے ہیں
ساۓ بھی راہ کی دیوار ہوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گنہگار ہوا کرتے ہیں
کبھی چھپاتی ہیں رازِ دل، کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت، ثواب آنکھیں عذاب آنکھیں
عجب تھا گفتگو کا عالم، سوال کوئی جواب آنکھیں
میری فطرت رہی ہے قتل ہونا
مگر مشہور قاتل ہو گیا ہوں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو، کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہوا کرتے ہیں
باہر سے نہیں ٹوٹ کے اندر سے گرا ہوں
اس بار میں اک دستِ ہنر سے گرا ہوں
یوں سرِ محفل تو نہ اعلان کیا جاۓ
احسان کیا جاۓ تو احسان کیا جاۓ
حادثے وقت کی کمان میں تھے
یہ بھی لمحے کہاں گمان میں تھے
احساس و مروت کے ہاتھوں روندے ہوۓ ہم
کچھ کہہ بھی پاۓ تو فقط اتنا کہ چلو خیر
میرے پیار پہ جو صدقہ میرے یار نے دیا
دیکھا جو غور سے تو میرا ہی سر گیا
مجھے قتل کر کے وہ رویا بے پناہ
کتنی ہی سادگی سے قاتل مُکر گیا
اے موت ! مجھے تُونے مُصِیبت سے نِکالا
صیّاد سمجھتا تھا رہا ہو نہیں سکتا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain