Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

اور گوپس کے رنگوں میں ساتھ لیے پھرتا ہوں کہ کہیں کوئی رنگ ایسا دکھائی دے جو تجھ سے بڑھ کر ہو، غذر کی مماثلت اور رتی گلی کے پھولوں نے بھی تو تیرے آنچل سے رنگ چرائے ہیں۔ تمام جھیلوں نے سارے رنگ تم سے مستعار لیے ہیں تم میرے لیے ہو اور یہ ساری وادیاں تمہارے لیے ہیں۔
رات بیت چکی ہے اس لیے نیند تمہاری آنکھوں پر وار کرنے کو بے تاب ہے اور مجھے بھی کئی خواب دیکھنے ہیں جن کی تعبیریں یہاں غذر میں کھینچ لائی ہیں۔ اس لیے اجازت چاہتا ہوں کہ تتلی کے نازک پروں پر مختصر بات ہی لکھی جا سکتی ہے۔
✅✅✅🥱

MushtaqAhmed
 

تم سے محبت ہے۔
اور یہ محبت کہیں قیام نہیں کرنے دیتی، کہیں رکنے نہیں دیتی۔ تمہیں فیری میڈو کی پاکیزہ خامشی میں، نانگا پربت کی چاندی میں، راما کی پُر اسرار تنہائی میں، راکا پوشی کے بیس کیمپ میں، دیوسائی کی وسعت میں، سکردو کے ٹھنڈے صحرا میں، ہنزہ کے متروک قلعوں میں، وادی یٰسین کی سنجیدگی میں، پھنڈر اور گوپس کے

MushtaqAhmed
 

میں ایک تمہیں سمیٹنے کی کوشش میں ذرہ ذرہ بکھرتا گیا اور تم نے سمجھا کہ میں تمہارے علاوہ کہیں غم جہان میں غرق ہوں۔ حالانکہ غم دنیا تو میرے ایک قہقہے کی مار تھے۔
میں گنگ تھا، بے ہنر تھا، بے نطق تھا مگر وہاں تھا جہاں چاروں اطراف میں پھیلے ہوئے مطلبی سائے مجھے مقید کیے ہوئے تھے۔ اب یہاں اک نئے جہان میں جب ایک لمحے کیلئے میں غم روزگار سے ماورا ہوں اور تتلیوں کے پر بھی میسر ہیں تو آخری محبت نامہ تمہاری نذر کرتا ہوں کیونکہ تتلیوں کے پروں کے لمس سے تو تمہارے ہاتھ پہلے ہی آشنا ہیں۔ تتلیوں کے پروں کا وزن بھی زیادہ دیر تمہیں اٹھانا نہیں پڑے گا کیونکہ ایک جملہ ہی میرے اظہاریے کے لیے کافی ہے سنو، اس وادی میں جہاں قوس قزح بھی مجسم ہو چکی ہے، شام کے سرمئی سائے نیلگوں پانی میں تحلیل ہو چکے ہیں وہ سارے رنگ تیری محبت کے رنگوں کے سامنے کم تر ہیں کیونکہ مجھے

MushtaqAhmed
 

وہ تتلیوں کے پروں کو ترتیب دے کر پڑھ تو سکتی ہو کہ جان سے جا چکی کوئی تتلی بھی اب اڑ نہیں پائے گی اور وہ جان سے نہ بھی جا چکی ہوتی تو بھلا تمہارے ہاتھوں سے نکل کر کہاں جا سکتی تھی کہ تمہاری نازک انگلیوں کی پوروں سے زیادہ کھردرا تو غذر کا پانی ہے۔
میں نے گزشتہ کئی برسوں سے، دسمبر کی نرم دھوپ اور چیت کی چاندی کے روبرو تمہیں بہت کچھ کہنا چاہا مگر کاروبار حیات نے گنگ کر دیا، کبھی انائیں آڑے آتی رہیں اور کبھی دو وقت کی روٹی نے آٹھویں پہر کی محبت کو دھندلا دیا۔ تم سے کبھی کچھ کہنا بھی چاہا تو خالی ہاتھوں میں مدھم ہو چکی لکیروں نے الفاظ کو مفہوم سے خالی کر دیا اور خالی ہاتھوں کے کشکول بھلا کون بھرتا ہے۔ میں اچھے لمحوں کے انتظار میں خود بُرا ہوتا گیا اور اپنا مدعا بیان نہ کر سکا کہ تمہاری ایک پل کی ناگواری میرے مدعا کے مقابلے میں بہت مہنگی تھی۔ می

MushtaqAhmed
 

خط خون سے لکھنے کی رسمیں تمام ہو چکی تھیں مگر جذبات اور احساسات کی وادی میں جمی ہوئی برف قطرہ قطرہ پگھلنے کو بے تاب تھی۔ ہم غذر دریا کے کنارے پر آباد پھنڈر تہذیب کے ثنا گر تھے اور ہوتی جاتی شام کے سرمئی سائے کی محبت میں گم ایک وجود بے عکس کو یاد کرتے تھے، ایک خط جو لکھا نہ جا سکا تھا اسے لکھنا چاہتے تھے کہ اپنے اظہاریے کے لیے اس وادی سے بہتر کوئی جا نہ تھی، اور جگنوؤں کے اترنے سے ذرا پہلے جو تتلیاں میسر تھیں ان کے پروں پر محبت نامہ لکھا جانا تھا۔ دریائے غذر کے مقدس پانی سے تیار شدہ روشنائی آخری محبت نامے میں حرف حرف نازل ہونے والی تھی۔۔۔
اے خوبصورت آنکھوں والی، سنو! آج تم سے مخاطب ہونے کا سمے آ چکا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم میرے سامنے ہو اور مجھے سن سکتی ہو مگر میں بہت کچھ جو کہہ نہیں سکتا وہ لکھ تو سکتا ہوں اور تم جو سن نہیں سکتی وہ تتلیوں

MushtaqAhmed
 

ہوتے ہیں نہ کرم کے۔ خود کچھ نہیں کر پاتے تو طعنے دے دے کر ماں باپ کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔
قانونی، مذہبی، انسانی حق ہونے کے باوجود پسند کی شادی کا یہ حق جانے کب ملے گا۔ یہ حق ہمارے سماج نے جانے کیوں اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان سے یہ حق سماج کے ٹھیکے دار لے کے بھاگے اور اپنے پروردہ غنڈوں کو اس کی پاسداری پہ لگا دیا۔
محبت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے، نفرت کرنے والے اور نفرت پھیلانے والے پہلے ہی بہت ہیں، محبت کرنے والوں کو تلاش کیجیئے اس سے پہلے کہ سب طرف صرف نفرت کرنے والوں کا راج ہو جائے۔🤚

MushtaqAhmed
 

ساتھ پوری عمر گزارنے کے لیے یہ کہہ کے روانہ کر دیتے ہیں کہ ہم کرم کے ساتھی نہیں۔
تربیت صرف لڑکیوں کی کی جاتی ہے اور یہ ہی کہہ کے کی جاتی ہے کہ اگلے گھر جا کے کیا کرو گی؟
لڑکے صرف اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد کوئی ان کا بکھرا ہوا کمرہ سنبھال کے ان کی ماں کی طنزیہ گفتگو سنے گی اور ان کی بری عادتوں کو نبھانے کے نام پہ آجائے گی۔ اس کی پسند یا ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ سماجی دوغلا پن اور دوسروں کی زندگی پہ اپنے اجارہ سمجھنے کا بخار اتنا عام ہے کہ محبتوں سے پالی بیٹیوں کو بھی اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میرے مشاہدے کے مطابق غیرت کا یہ بخار زیادہ تر چچاؤں، تایوں، بھائیوں، بہنوئیوں اور ان لوگوں کو چڑھتا ہے جو نہ تو جنم کے ساتھی ہوتے ہیں نہ کرم کے۔

MushtaqAhmed
 

سے ہے، یہ ہی ناک اپنی حدود سے تجاوز کر کے دوسروں کے معاملات میں گھستی ہے، یہ ہی ناک ’خبر ناک‘ کہلاتی ہے جو جگہ جگہ کی خبریں سونگھ کر آگے پہنچاتی ہے اور لوگوں کی ناک کٹوانے کا سبب بنتی ہے۔
یہ ہی ناک ہے جس سے پہلے لوگوں کی آزادی ختم ہو کے کسی کی اپنی ذات شروع ہو جاتی ہے اور اسی ناک کو کاٹنے کی غیر اعلانیہ اجازت جانے کیوں کچھ لوگوں کو مل جاتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے کئی برس پہلے یہ جنگ لڑی اور لڑکیوں کو پسند کی شادی کا حق قانونی طور پہ حاصل ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ حق قانونی طور پہ تو مل گیا تھا لیکن آج بھی ہم اپنی اولاد کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔
وہ بچیاں جنہیں ساری زندگی یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کسی اجنبی سے بات نہیں کرنی، ایک دن ہم انہیں ایک اجنبی کے ساتھ پوری عمر

MushtaqAhmed
 

کچھ عرصے بعد ماں باپ مر گئے، بھائی نے شادی کر لی پسند کی شادی، بھابھی نے کٹی ہوئی ناک والی نند کا جینا دوبھر کر دیا۔ دوبارہ پڑھائی شروع کی اور اب ملازمت کر رہی ہے شاید زندگی بھر کسی سے محبت کا سوچے گی بھی نہیں۔
یہ کہانی سن کے مجھ سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، کئی سال گزر گئے، آج تک مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہوں؟
جتنا سوچتی ہوں اتنا الجھتی ہوں۔ کسی کو پسند کرنا جرم ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ پسند کی شادی کرنا جرم ہے، یقینا نہیں۔ ذات پات کی بنا پہ کسی کو اعلی کسی کو ادنی سمجھنا درست ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
یہ ساری مساوات ہمارے سامنے کی ہے مگر سوال کا جواب وہی نکلتا ہے جو اس معاملے میں نکلا۔ ناک کاٹنے والے بھائی نے بھی وہی جرم کیا مگر وہ اپنی ناک سلامت لیے پھر رہا ہے۔
مسئلہ اسی ناک سے ہے،

MushtaqAhmed
 

محبت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے، نفرت کرنے والے اور نفرت پھیلانے والے پہلے ہی بہت ہیں، محبت کرنے والوں کو تلاش کیجیئے اس سے پہلے کہ سب طرف صرف نفرت کرنے والوں کا راج ہو جائے۔
میرے طلبا میں ایک بار ایک ایسی لڑکی تھی، جس کی ناک پہ زخم کا نشان تھا۔ لیکچر کے دوران سامنے بیٹھے طلبا کے چہرے اکثر توجہ بٹاتے ہیں مگر یہ چہرہ بات بھلا دیا کرتا تھا۔
سمسٹر ختم ہوا، دوبارہ کون کسی سے ملتا ہے لیکن میری اس لڑکی سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ ناک پہ زخم کا نشان پسند کی شادی کی پاداش میں ملا تھا۔ جس لڑکے سے محبت ہوئی وہ ہلکی ذات کا تھا۔
نتیجہ وہی ہوا جو ایسے موقعوں پہ ہوتا ہے۔ لڑکا لڑکی نے گھر سے بھاگ کے شادی کر لی، لڑکی کے گھر والوں نے پکڑ لیا، لڑکے کو جان سے مار دیا لڑکی کے بھائی نے لڑکی کی ناک کاٹنے کی کوشش کی ماں نے بڑھ کے بچا لیا۔
کچھ عرصے ب

Good night
M  : Good night ❣️ - 
MushtaqAhmed
 

۔ آج ایک اور ہمسایہ ملک میں دہشت گرد امریکی و دیسی روایتی اسلحہ سے مسلح اور تربیت یافتہ پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ نفرت، جانبداری، بدتمیزی، الزام تراشی عروج پر ہے۔ عدالتی اور حکومتی ایوانوں میں مولا جٹ اور نوری نت کے مکالمے چل رہے ہیں، کسی کو خبر ہے۔ یہودی، قادیانی، بھارتی، پاکستان مخالف امریکی اور دہشت گرد تنظیمیں کیا کر رہی ہیں۔ بھڑ ہمیشہ آگ سے بھاگتے ہیں، اب آگ اس ملک کا مقدر نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ کالی بھیڑوں سے تمام اداروں کو صاف ہونا چاہیے۔ اللہ جناب قاضی فائز عیسیٰ اور جنرل سید عاصم منیر سپہ سالار کو توفیق دے اور سلامتی عطا کرے۔
✅✅✅

MushtaqAhmed
 

ظہیرالاسلام، فیض حمید، باجوہ کے چھیڑنے سے چھڑے تھے۔ اب کی بار اگر خود دعویدار ہیں، کالی بھیڑوں کا غصہ تھا تو اپنی تشبیہ جگنوؤں سے ہی کر لیتے جو روشنی دیتے ہیںشمع سے کر لیتے ہیں مگر ہوں تو؟۔ اگر ہیں بھڑ تو پھر یہ اپنے کردار کا اقبال کرنا ہے۔ بہت افسوس ہے کہ یہ جانے بغیر کل بھارت میں مکتی باہنی پرورش پا کر ملک دولخت کر گئی۔ آج ایک اور ہمسایہ ملک میں

MushtaqAhmed
 

ی بھڑ تھے جو ایوب خان کے سامنے لیٹ گئے، یہی بھڑ تھے جو گریٹ بھٹو پر ٹوٹ پڑے، یہی بھڑ تھے جو نوازشریف کے خلاف مقدمات میں جج نہیں فریق بن گئے۔ یہی بھڑ تھے جو پانچ پانچ کے ٹولے اور ہم خیال کے نام سے جانے گئے، یہی بھڑ تھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نہ بخشا۔ پھر کیا ہوا،ایک جج فقید المثال جج نے 45 سال پہلے بھڑوں کے حملے جس نے گریٹ بھٹو کی جان لی، کو کالی بھیڑیں قرار دیا۔ ان کی اعلیٰ عدالتوں میں تصویریں آویزاں کرنے کی مخالفت کی۔ تاریخ نے ورق پلٹا اور خواجہ آصف نے ایوب خان کی لاش نکال کر باہر پھینکنے کی بات کی، جسٹس گلزار سیٹھ کے فیصلے کی بازگشت سنی۔ میں نے اس فیصلے پر لکھا تھا کہ ”وقار سیٹھ یاد آتے رہیں گے“، لہٰذا وہ یاد آئے۔ بھڑ کو چھیڑنے والے چھیڑ تو دیتے ہیں مگر نشانہ کبھی خود نہیں بنتے لہٰذا بھڑ ایوب، ضیا، یحییٰ، مشرف، پاشا، ظہیرالا

MushtaqAhmed
 

پھیلاتے ہیں۔
2008 میں جب کوئی جرأت نہیں کرتا تھا میرا کالم ہم شہری میگزین میں چھپا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ جنرل مشرف کے خلاف سازش تھی جو وکلا تحریک آزادی عدلیہ تحریک چلی اس کے پیچھے جنرل کیانی تھے، افتخار محمد مہرہ تھے اور موجودہ جج جو اپنے آپ کو بھڑ کہتے ہیں یہ ان کے ترجمان تھے۔ افتخار محمد سے نوکری کہیں نہ جانے کا وعدہ تھا وہ بالآخر میاں نوازشریف اور اعتزاز احسن کے نمائشی جلوس کے سیٹ اور ڈرامے میں پورا کر دیا گیا۔ اور ہاں عدلیہ بحال ہو گئی۔ سو کے قریب جج افتخار چودھری نے فارغ کیے جیسے دنیا قبل مسیح اور بعد از مسیح ہے، 9/11 سے پہلے اور 9/11 کے بعد ہے۔ دین اور انسانیت کے حوالے سے دنیا قبل از اسلام یعنی جہالت اور اسلام کے بعد میں تقسیم ہے۔ اسی طرح ہماری عدلیہ افتخار سے پہلے اور افتخار کے بعد اپنی روایات میں مخالف ہو گئی۔ یہی بھڑ تھے

MushtaqAhmed
 

ہی تباہی دکھائی دیتی ہے۔ آتے ہیں کالی بھیڑوں کی طرف تو کالی بھیڑیں سازش کرتی ہیں جرائم کا حصہ بنتی ہیں، بظاہر عام بھیڑوں میں چھپی ہوتی ہیں مگر کردار کی کالی ہوتی ہیں، کرتوت کالے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کالی بھیڑیں اور بھڑ بالکل مختلف مخلوق ہے۔ یہ کسی کے چھیڑنے پر اس پر حملہ آور ہوں نہ ہوں مگر بے گناہ ان کا نشانہ ضرور بنتے ہیں۔ یہ دشمن نہیں بے گناہوں، راہگیروں، پورے کے پورے علاقے کو عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ مگر یہ اکثر چھڑتے چھیڑنے پر ہیں۔ جو چھیڑتا ہے وہ اپنا منہ سر لپیٹ لیا کرتا ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا الاؤ ہوتا ہے۔ یہ بھڑ چھڑے تھے مولوی کی لاش پر، میرا ایک لڑکپن سے جاننے والا بعد میں ہائی کورٹ میں جج رہا ہے، کہتا ہے کہ ہماری یوں دوڑیں لگیں کہ مزنگ پہنچنے پر دم لیا۔ گویا کالی بھڑیں ٹارگٹ رکھتی ہیں اور بھڑ بربادی ہر سو پھیلا

MushtaqAhmed
 

کا پلڑا بھاری کر دیا جس کے پیچھے بھارت اور مکتی باہنی کا کلیدی کردار رہا۔ اگر جاننا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تو چند سال پہلے جنرل راحیل اور نوازشریف کے تیسرے دور سے پہلے تک کراچی میں خالی سڑکوں پر انتخابات کے دن نوجوان کرکٹ کھیلا کرتے تھے جبکہ ہزاروں نہیں لاکھوں ووٹ ایم کیو ایم کو پڑ جاتے۔ ایک دہشت اور وحشت کی علامت تنظیم سیاسی جماعت کا روپ اختیار کر گئی جب اس میں سے عسکری ونگ کو فارغ کیا گیا تو پھر انتخابات آپ کے سامنے ہیں۔ یہی صورتحال حالیہ انتخابات میں کے پی کے کے انتخابات کی ہے۔ افغانستان میں پلنے بڑھنے والے عناصر جو ایک تحریک کے نام سے وابستہ ہوئے، عمران نیازی کی حکومتوں میں ان کو خوب نوازا اور پالا گیا۔ آج وہ مسئلہ بن گئے۔ عمران نیازی کے سہولت کار کسی سے چھپے نہیں۔ اپنے ذاتی مقاصد کیلئے اتنا بڑا گھاؤ لگایا گیا کہ اب ہر سمت تباہی ہ

MushtaqAhmed
 

سے پہلے چھٹی کلاس کی کتاب جو بعد میں بھی نصاب کا حصہ رہی، انگریزی کتاب جس میں مسٹر جمیل مغربی پاکستان میں رہتا ہے اور کریم مشرقی پاکستان میں، جمیل اور اس کا بیٹا گرمیوں کی چھٹیاں لندن میں گزارتے ہیں۔ جمیل اور کریم دوست بھی ہیں، ان کے بیٹے علی اور اسلم ہیں۔ کریم اس کا بیٹا اسلم مشرقی پاکستان میں گرمیوں کی چھٹیوں میں چائے کے کھیت میں کام کرتے ہیں۔ اب اگر اس مضمون کو ہندو استاد پڑھا رہا ہو تو اقتصادی، طبقاتی ظلم کو بڑھاوا دینا کوئی راکٹ سائنس نہ تھی۔ یوں وہ بچے بڑے ہو گئے، پھر ہمارے حکمرانوں جن میں ایوب خان اور یحییٰ شامل ہیں، نے مشرقی پاکستانیوں کو نفرت، علیحدگی کے پیغامات ہی بھیجے ہیں۔ ہمارے زعما کے بیانات جگر کاٹنے والے تھے۔ بہرحال مکتی باہنی نے انتخابات میں خوف، بر بریت، تشدد اور دھاندلی تو دور کی بات ٹھپے پہ ٹھپہ خود لگا کر مجیب کا پلڑا

MushtaqAhmed
 

یہ دن بھی وطن عزیز کے مقدر میں لکھے تھے کہ صدیوں پرانا محاورہ کالی بھیڑیں جو کہ ہر محکمہ، ہر شعبہ زندگی میں ضرور ہوا کرتی ہیں کم از کم برصغیر تو کبھی ان سے پاک نہیں رہا۔ بڑے ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں۔ روس کے ٹوٹنے کی وجوہات بھی اس کے نظام کے اندر ان بھیڑوں کی افزائش تھی۔ جیسے مشرقی پاکستان میں یہ بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی میتھ Myth ایک تاریخی افسانہ ہے کہ مجیب الرحمان پاپولر رہنما تھا اور انتخابات جیت گیا تھا۔ مغربی پاکستان میں انتخابات درست ہوئے تھے، مشرقی پاکستان کے انتخابات میں بھارت کا کردار تھا۔ مکتی باہنی ایک چھاپہ مار تنظیم جس کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، سالہا سال بھارت نے تربیت دی، ہندو اساتذہ نے ہمارے ہی نصاب میں مضامین شامل کیے اور ان کی تشریح سے مشرقی پاکستان کے طلبہ کے ذہن مغربی پاکستان کے خلاف کیے۔ 1971 سے پہلے چھ

MushtaqAhmed
 

بڑی ہوئی شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ پھل ذیابطیس کے مریضوں کے لیے نعمت خداوندی ہے جو دل کھول کا اسے کھا سکتے ہیں۔
ملیریا بخار پر قابو پانے کے لیے:
ملیریا جو مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، ایسی صورت میں فالسہ بچوں بڑوں اور سبھی کا دوست ہے جو جسم سے اضافی گرمی کی لہریں، درد، بخار اور بے چینی کی کیفیت دور کر دیتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کے لیے:
فالسے میں پوٹاشیم اور فاسفورس کی موجودگی معجزاتی طور پر ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خون میں خراب کولیسٹرول کو کنٹرول کر کے خون کے بہاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فالسہ دل کے دورے سے بچانے کے ساتھ ساتھ دل کی کارکردگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔
زخموں کو ٹھیک کرنے کے لیے:
یہ زخموں اور ایگزیما کو ٹھیک کرنے میں معاون پھل ہے۔ اگر اس کے پتوں کو زخموں اور ایگزیما پر لگایا جائے