حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیا اور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا سراقہ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی
محض سونگھنے ہی نہیں، دیکھنے سے بھی انسان پر بہت سے اچھےاثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کی خوبصورتی توجہ، ارتکاز اور ذہنی صلاحیت کو بڑھا سکتی ہے۔ چناچہ گھروں کے گلدان میں پھولوں کو سجانا ہمیشہ سے روایت رہی ہے ۔کیوں ان کو دیکھنے سے انسان میں اردگرد موجود نعمتوں کی قدر کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خود اعتمادی میں اضافہ اور مزاج میں ٹھہراؤ جیسے رویے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
end
لگتا ہے۔
خود کو پھول تحفہ کریں
محبت کے اظہار کے لیے پھول پیش کرنا صدیوں سے روایت رہی ہے لیکن ضروری نہیں کہ آپ دوسروں سے پھول وصول کرنے کے منتظر رہیں۔ اپنے آپ کو پھول آپ خود بھی تحفہ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کے فوائد مسلمہ ہیں۔ پھولوں کی خوشبو انسان کو سادہ زندگی کی جانب مائل کرتی ہے اور زندگی میں موجود نعمتوں کی شکر گزاری اور تعریفی جذبات ابھارتی ہے۔
شاید یہ پڑھنے والوں کے لیے حیران کن ہو مگر ان خوشبوں کا تعریف کے لفظوں اور شکریہ کے الفاظ سے گہرا تعلق ہے۔ محض سونگھ
کے لیے موضوع سمجھی جاتی ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پھول سونگنے سے انسان خود کو قدرت کے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے چناچہ اس کے جسم میں درد اور تکلیف کی شدت میں کمی دیکھی جاتی ہے۔ مختلف مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ پھول قریب رکھنے سے مریضوں کے جسم میں درد اور تناؤ میں کمی آتی ہے شاید اسی لیے عیادت میں پھولوں کا پیش کرنا ایک روایت ہے۔
کھانے کی میز پر پھولوں کا کیا کام؟
کیونکہ پھول دیکھنے، سونگھنے اور چھونے کی حس پر نہایت اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں، لہذا تین حسیات کے متحرک ہونے سے ہماری دیگر حسیات (سننے، چکھنے، چھٹی حس ) پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چناچہ اگر ایک ہی کھانے کو پھولوں کی موجودگی اور پھولوں کی غیر موجودگی میں کھایا جائے تو دونوں مرتبہ ذائقے میں نمایاں فرق محسوس ہو سکتا ہے۔ پھولوں کی موجودگی میں کھانے کا ذائقہ بہتر لگتا ہے۔
ائنس کہتی ہے کہ ہماری ان تین حسیات (دیکھنا، سونگھنا، چھونا) پھولوں سے قریب ہونے پر ان کی خوشبو، خوش نمائی اور نرمی کا سگنل دماغ کو بھیجتی ہیں۔ دماغ ان اشاروں کو وصول کرکے خوشی پیدا کرنے والے ہارمون ڈوپامین اور سکون کا باعث بننے والے ہارمون سیروٹونن کو پیدا کرتا ہے۔
چناچہ اگر یہ کہا جائے کہ پھول قریب ہونے سے انسان مسکراتا ہے، پرسکون محسوس کرتا ہے، اس کا ذہنی تناو کم ہوجاتا ہے اور مزاج بہتر ہوجاتا ہے، تو یہ محض لفاظی نہیں۔
کیا پھول جسمانی تکلیف کم کردیتے ہیں؟
یہ سچ ہے کہ مختلف پھول، مختلف ذہنی پریشانیوں سے نجات میں مدد دیتے ہیں مگر کچھ پھولوں کی خوشبو سے جسمانی امراض کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔ جیسے نیند کی کمی میں ڈاکٹر حضرات لوینڈر کی خوشبو کمرے میں پھیلانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسی طرح موتیا اور رات کی رانی کی لطیف خوشبو دن کے اوقات کے لیے مو
کیوں نہیں؟
خوشبو اور پھول
خوشبو کا سب سے پہلا ماخذ پھول ہی تھے۔ ان کی خوشبوؤں کو محفوظ کر کے عطر بنانے کا رواج قائم ہوا۔ مغل ملکہ نورِ جہاں کو ان کے پھولوں کے باغ اور نت نئی خوشبوؤں کو بنانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گلاب کا عطر انہی کی ایجاد ہے۔
کیونکہ پھولوں کی ایک عمر ہوتی ہے اور یہ اسی دوران خوشبو اور رنگ دکھا پاتے ہیں، چناچہ ان کی خوشبو کو زیادہ وقت تک اپنے ساتھ رکھنے کے لیے پرفیوم اور عطر ایجاد ہوا۔ آج بازار میں کئی پھولوں کی خوشبو کو ملاکر بنائے جانے والے عطر، تیل، لوبان اور بخور وغیرہ عام ہیں۔
پھول پریشانی کیسے کم کرتے ہیں؟
دراصل انسان کی نفسیات پر اس کا اثر جتنا لطیف اور صحت بخش ہوتا ہے، شاید کسی اور شے کا نہ ہو۔ محض دیکھنے، سونگھنے اور چھونے سے ہی انسان کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سائنس ک
M
شاید یہ پڑھنے والوں کے لیے حیران کن ہو مگر ان خوشبوں کا تعریف کے لفظوں اور شکریہ کے الفاظ سے گہرا تعلق ہے
تحریر: حذیفہ عاطف (کراچی)
خوش نما، خوش رنگ اور خوشبودار۔ پھول محبت، چاہت اور لگاؤ کے احساس کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یوں تو پھول کسی بھی پودے کے تولیدی اعضا ہیں۔ یعنی اس میں بیچ موجود ہوتے ہیں جو اگلے پودے کی پیدائش کا باعث بنتے ہیں۔ شاید اسی بنا پر اسے محبت کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ کائنات میں محبت ہی کائنات کو قائم رکھنے کا باعث ہے۔
پھول قدیم وقت سے محبت کا استعارہ
قدیم یونان میں پھول شاعری اور ادب میں بھی استعمال ہوتے رہے ہیں، جہاں وہ خوبصورتی اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے تھے اور قدیم دیوی دیوتاؤں کا تعلق پھولوں سے رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھول ہی کیوں؟ کچھ اور کیوں نہیں
نہ صرف انہیں بلکہ ان سے وابستہ تمام انسانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ خود بھی ایک دن اسی آگ میں جلتے ہیں۔ جادو ٹونے کا نظام ایسا ہے کہ ایک دن شکاری کو ہی خود شکار کر لیتا ہے۔ کالا علم کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی برباد ہو جاتی ہیں، دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے ان پر کہ وہ مر مر کر جیتے ہیں۔
end
اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ جذبات رکھتا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ مایا کے موہ کی حسرت میں گرفتار ہو کر فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور پھر اس روش پر چلنے کے منفی اثرات نہ صرف انہیں بلکہ ا
جس میں شیطان سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی غلامی کرتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان اعمال سے خوش ہوتا ہے جن سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوں بعض گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الزخرف) ہمارے ملک میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے وہیں کالے جادو جیسی بہت بڑی لعنت بھی اندھیر نگری کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریق
کے اثرات کسی حد تک انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تباہ کرنے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بچو۔ اس صورت میں کے جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے ہے، کا بین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں اور جنات میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں جن کا مقصد سادہ انسانوں کو تکلیف اور اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ بکثرت گناہوں کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جادو دنیا کی سب سے مؤثر قوت ہے جو غائبانہ بلا تجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ جادو دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالا جادو ایک ایسا علم ہے جس میں
) قدیم مصر، بابل، ہندوستان اور یونان کی تہذیبوں میں جادو کو ایک مؤثر ہتھیار، مذہبی روایت اور روحانی علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مصر کے پجاری مخصوص عملیات کے ذریعے دیوتائوں سے مدد لینے کے دعوے کرتے تھے، جبکہ بابلی جادوگر ستاروں کی چالوں اور تعویزات کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ برصغیر میں تنتر و منتر کو جادوئی اثرات سے جوڑا جاتا ہے جبکہ یونانی اور رومی فلسفی جادو کو فطری قوتوں پر قابو پانے کا فن قرار دیتے تھے۔ عیسائیت میں جادو کو شیطان سے منسلک کیا جاتا ہے، جبکہ یہودیت میں کبالہ کی روایات میں جادوئی اثرات کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ہندو مت میں جادو کو روحانی توانائی کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے مایا (وہم) یا ذہنی قوت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی جادو ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے اثرات کسی ح
ں بار بار ہر قسم کے جادو کی مذمت کی گئی ہے۔ دینِ اسلام میں جادو سیکھنا اور اس کے ذریعے جنات کا تعاون حاصل کر کے انسانوں کو تکلیف سے دوچار کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفریہ کام ہے جو شیاطین کے ذریعے سے شرک کے در وا کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا تھا، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز کو بھی جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘۔ (البقرہ: 102) قدیم مص
اس کے جواز پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں جادو کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے وہیں اسے شیطانی عمل قرار دے کر اس سے باز رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک، کفر، برائی اور گناہ پر رکھی گئی۔ واقعات کو غیر فطری طور پر ظہور پذیر میں لانے کا فن ہی جادو کہلاتا ہے۔ سحر اور جادو برحق ہے اور قرآن و سنت کے دلائل کی رو سے جادو، ٹونہ انسانی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ مکروہ عمل ہے جو کسی کو دنوں میں طاقتور بنا سکتا ہے، کسی کے خوابوں کو سراب میں بدل سکتا ہے، کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔ سحر الاسود یا کالے جادو کی تکمیل کے لیے مافوق الفطرت طاقتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن و احادیث میں بار
دنیا میں دو قسم کے نظام بیک وقت چل رہے ہیں، ایک مادی نظام جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سائنسی بنیادوں پر پرکھتے ہیں جبکہ دوسرا روحانی یا مخفی نظام، جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق میں جادو ایک پُرکشش مگر پُراسرار حقیقت کے طور پر روزِ اول سے موجود رہا ہے۔ یہ محض کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں کا حصہ نہیں بلکہ قدیم تہذیبوں، مذاہب اور سائنسی تحقیقات میں بھی اس کے اثرات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اولادِ آدم ہمیشہ سے ہی پراسرار قوتوں کی کشش میں مبتلا رہی ہے، اور سحر ان پراسرار رازوں میں سے ایک راز ہے جس نے صدیوں سے انسانی ذہن کو مسحور کیے رکھا ہے۔ کبھی یہ طاقت و اختیار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور کبھی خوف اور بربادی کی علامت۔ تقریباً تمام مذاہب ہی جادو کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے
نے جتنے دن جیل میں گزارا، اگر میں گزارا ہوتا تو میں فورا رہائی کی خبر کو قبول کرتے ہوئے باہر آجاتا(مسلم: ۱۵۱)حالانکہ خود آپ ﷺ حلم وبردباری اور صبر واستقلال کے سراپا پیکر تھے۔
بہر حال آپ افضل الانبیاء ہونے کے باوجود اپنی افضلیت کا اظہار نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تعریف میں غلو کیا تم لوگ میرے بارے میں اس طرح غلو مت کرنا، مجھے تم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو(صحیح بخاری : ۳۴۴۵)
یقینا آپ ﷺکی ذات خوبیوں کا حسین گلدستہ تھی اور آپﷺ اعلی صفات ، عمدہ اخلاق کے پیکر مجسم تھے۔
فَصَلَّی اللہُ عَلَی سَیِّدِنَا محمدٍ وَّعَلی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَبَارَکَ وَسَلَّم تَسْلِیْماکثیراً
بڑھاتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۲۲۰۹)
کمالات کی تمام تر بلندی کو پیچھے چھوڑنے اور افضل الانبیاء ہونے کی باوجود اپنے بارے میں یہ کہتے کہ کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ میرے بارے میں یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں(بخاری: ۳۳۹۵) بلکہ کئی موقع پر آپ ﷺنے دیگر انبیاء کی بعض صفات کی تعریف فرمائی اور ان کو بہتر بتایا، مثلا حضرت یوسف علیہ السلام کو جب طویل عرصہ جیل میں گزارنے کےبعد رہائی کی خبر ملی تو وہ جیل سے فوراباہر نہیں آئے، بلکہ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلےاپنی انگلیاں کاٹنے والی عورتوں کے بارے میں بتاؤ، یعنی کیا اس مقدمہ میں ان کی غلطی اور میری پاکبازی ظاہر ہوئی یا نہیں؟ رسول اللہ ﷺ حضرت یوسف علیہ السلام کے اس حلم اورصبر واستقلال کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے جتنے
وجہ سے )دھوپ میں سکھایا ہوا گوشت کھاتے تھے(مستدرک حاکم: ۴۳۶۶)
اسی فتح مکہ کے موقع پر جب آپﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہورہے تھے تو آپ ﷺ کے مکہ میں داخل ہونے کا انداز شاہانہ نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک جھکارکھا تھا۔
اسی طرح آپ ﷺ کے تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ غریبوں،کمزوروں اور غلاموںکی عیادت کیا کرتے تھے،ان کے گھروں کو جایا کرتے تھے، اور جب کسی سے مصافحہ کرتے تو جب تک سامنے والا خود اپنا ہاتھ آپ ﷺکے ہاتھ سے نہ کھینچنا آپ ﷺ بھی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے، جب تک بات کرنے والا خود چہرہ نہ پھیرتا آپ ﷺ بھی اس کی طرف متوجہ رہتے اور اس سے چہرہ نہ پھیرتے ، کبھی بھی آپ ﷺ کو اپنے بازو میں بیٹھے ہوئے شخص سے آگے بڑھ کربیٹھتے ہوئے اور اس کے گھٹنے سے اپنے گھٹنوں کو آگے بڑھاتے ہوئے
کرتے ہیں آپ ﷺ بھی کیا کرتے تھے(مسند احمد: ۲۵۳۴۱)
آپ ﷺ کے تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ کی نظر میں امیر وغریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا، اور آپ ﷺ محتاج اور غریبوں کی دعوت بھی قبول کرتے تھے اور خود آپ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ اگر مجھے جانور کے کھر کی بھی دعوت دی جائے یا اسے ہدیہ میں پیش کیا جائے تو میں قبول کروں گا۔(بخاری: ۲۵۶۸)
اور جب کوئی شخص آپ ﷺسے بات کرنے میں گھبراتا تو اس کی گھبراہٹ کو دور کرتے اور اس کی پوری بات سنتے ، کسی کی بات سننے میں جلد بازی یا اکتاہٹ کا اظہار نہ فرماتے ، فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص آپ ﷺ سے کچھ باتیں کرنے کے لئے آپ کی مجلس میں حاضر ہوا، جب آپ ﷺسے وہ مخاطب ہوا تو ہیبت کے مارے کانپنے لگا،تو آپ ﷺ نے اس کو سمجھایا اور فرمایا کہ ڈرو مت ، میں تواسی قبیلہ قریش کی ایک خاتون کا بیٹا ہوں جس قبیلہ کے لوگ (غربت کی وجہ
ہوئی تھی اور جس زین پر آپ ﷺ بیٹھے تھے وہ بھی کھجور کی چھال سے بنا ہوا تھا (سنن ابن ماجہ: ۴۱۷۸) حالانکہ مالدار صحابہ جس طرح آپ ﷺپر جاں نثار تھے اور فتوحات کی وجہ سے بیت المال میں جو دولت کی کثرت تھی اس سے آپ قیمتی جوڑے زیب تن کرسکتے تھے اور اس زمانہ کے سب سے قیمتی اونٹ کو سواری بنا سکتے تھے۔
گھریلو زندگی میں آپ ﷺاس قدر متواضع تھے کہ گھر کے کام کاج میں گھر والوں کے ساتھ شریک رہتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جتنی دیر رسول اللہ ﷺ گھر میں رہتے گھر کے لوگوں کے کام انجام دینے میں مصروف رہتے، اور جب اذان ہوجاتی تو آپ چلے جاتے(بخاری: ۶۷۶)
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول منقول ہے کہ آپ ﷺ اپنے جوتے اور کپڑے خود سل لیتے، جس طرح عام لوگ اپنے گھروں میں کام
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain