آسٹیوپروسس اور آرتھرائٹس کا مسئلہ ہو وہ اپنی روزمرہ خوراک میں فالسہ کا استعمال لازمی کریں۔ یہ ذہنی سکون دینے کے ساتھ ساتھ بیماری میں بھی نمایاں کمی کر دیتا ہےفالسہ قدرتی طور پر ٹھنڈک کا احساس مہیا کرتا ہے۔
جن لوگوں کے جسم میں حرارت زیادہ ہوتی ہے وہ گرمیوں میں اس کا استعمال کرکے حدت کم کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں اکثر موسم گرما میں بخار کی شکایت رہتی ہو وہ اس کا استعمال لازمی کریں۔
نظام تنفس کے امراض:
فالسہ نظام تنفس کے بہت سے امراض کو ٹھیک کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اس میں وٹامن سی کی موجودگی مختلف انفیکشنز، دمہ، نزلہ زکام اور کھانسی کو ٹھیک کر دیتی ہے۔
بلڈ شوگر کنٹرول کرنے کے لیے:
فالسے میں قدرتی طور پر پولی فینل (Polyphenal) کی موجودگی اور اینٹی اوکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے یہ بہت بابرکت ہے۔ یہ بڑی ہوئی
رام، پروٹین 1.57 گرام، کاربوہائیڈریٹس 21.1 گرام، ڈائٹری فائبر 5.53 گرام، کیلشیم 136 ملی گرام، آئرن 1 ملی گرام، پوٹاشیم 372 ملی گرام، وٹامن اے 16.11 گرام، فاسفورس 24.2 ملی گرام، سوڈیم 173 ملی گرام، وٹامن B 1 تھایا مین 0 ملی گرام، وٹامن B 2 رائبو فلیون 0.264 ملی گرام، وٹامن سی 4.385 ملی گرام موجود ہوتا ہے۔
اس کے کچھ طبی فوائد پر روشنی ڈالتے ہیں۔
خون کی کمی:
فالسے میں آئرن کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جو خون کے بہاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ آر گن اور ٹشوز کو طاقت دیتا ہے۔ آئرن کی کمی سے جن لوگوں کو سستی اور چکر آنے کی شکایت ہو۔ ان کے لیے فلسفہ بہت مفید ہے جو خون کی کمی کو کافی حد تک ٹھیک کر دیتا ہے۔
جوڑوں کے درد میں کمی:
چوںکہ یہ پھل اینٹی اوکسیڈنٹ ہے جو جوڑوں کی سوزش کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو آسٹیوپرو
اب کے تمام اضلاع میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ تاہم جنوبی پنجاب میں یہ زیادہ کاشت کیا جاتا ہے۔ فروری سے جون تک اسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پھل خشک سرد تاثیر کا حامل ہے۔
یہ سائز میں جتنا زیادہ چھوٹا ہے اس کے طبی فوائد اسی قدر زیادہ ہیں۔ یہ مختلف بیماریاں دور کرنے کی استعداد رکھتا ہے: مثلاً معدے کی گرمی، سینے کی جلن، مسوڑھوں سے خون آنا، ذیابطیس، دست، قے اور لو لگنے کی صورت میں مفید ہے۔ یہ اینٹی اوکسیڈنٹ پھل ہے جو جسم سے غیرفاسد مادوں کو خارج کر کے جسم کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
فالسہ پاکستان سمیت سری لنکا، بنگلادیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویت نام، کمبوڈیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کی غذائی افادیت کچھ یوں ہے۔
کلوریز 90.5، فیٹ 0.1 گرام، پروٹین
فالسہ ایک پھل کا نام ہے جس کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں۔ مثال کے طور پر اسے عربی میں فالسہ، فارسی میں پالسہ، سندھی میں پھاروان، بنگالی میں پھالسہ جب کہ انگریزی اور لاطینی میں (Grewia asiatica) کہا جاتا ہے۔
یہ براعظم ایشیا کا مقبول ترین پھل ہے۔ یہ اپنے ذائقے اور فرحت بخش اثرات کی بدولت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا سائز مٹر کے دانے جتنا ہوتا ہے۔ یہ ابتدا میں سبز پھر سرخ اور آخر میں سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔ اس کا پودا 4 سے 8 میٹر تک اونچا ہوتا ہے۔ پتے دل کی شکل جیسے ہوتے ہیں جن کی لمبائی 20 سینٹی میٹر اور چوڑائی 16.26 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ ان پر موسم بہار میں چھوٹے چھوٹے پیلے رنگ کے پھول نکلتے ہیں۔ جن کی پتیوں کی لمبائی 2 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔
گول ہونے کی وجہ سے اس میں 5 ملی میٹر تک چوڑا بیج پایا جاتا ہے۔ اس کے پودے پنجاب کے تمام ا
واصفؒ فرماتے ہیں: ’’ایک روشن روحانی زندگی کا حصول بھی ہم پر فرض ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے کہ ہم کسی روحانی تجربے سے گزریں اور اگر ممکن نہ ہو تو کم اَز کم کسی روحانی بزرگ سے آشنائی تو ہونا چاہیے۔ رُوح زندہ تو انسان زندہ، نہیں تو نہیں‘‘۔
صرف سننے سنانے کی حد تک محدود رہنے والوں کو ان کی زندگی اور ایمان مبارک، لیکن جو لوگ لامحدود فضا میں پرواز کرنا چاہتے ہیں، اپنے اسلام کو ایمان اور احسان کے دائروں تک وسیع کرنا چاہتے ہیں … اَن دیکھے اور اَن سنے تجربات سے گذرنا چاہتے ہیں، سیر و فی الارض میں بلیک اینڈ وائٹ تصویر کو رنگین دیکھنا چاہتے … نیرنگ میں رنگ اور رنگ میں بے رنگ دیکھنا چاہتے ہیں … ان پر ہر وقت اعتراض کا گنڈاسہ لہراتے رہنا، انسانی شعور کے بنیادی آداب کی خلاف ورزی ہے۔
✅✅✅
تو یہ ایک خوش قسمتی کا مقام ہوتا ہے … یہ مقامِ مشاہدہ ہوتا ہے۔ اسلام اور ایمان کا تعلق سننے کے ساتھ … سمعنا و اطعنا… سننے کے بعد زبان سے تصدیق اسلام ہے، قلب سے تسلیم ایمان ہے، اور ایمان کو حسیات کی سطح پر محسوس کرتے ہوئے، اس کا ذائقہ چکھنا محسنین کا نصیبہ ہوتا ہے۔
اسلام، ایمان اور احسان کی درجہ بندی قرآن و حدیث میں واضح طور پر قائم ہے۔ معروف حدیثِ جبریل میں درجہ احسان کی تعریف یوں فرمائی گئی ہے کہ مقامِ احسان یہ ہے کہ تو اپنے رب کی اس طرح عبادت کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے۔ دیکھنا بلا واسطہ اور بلا شبہ مشاہدے کا مقام ہے۔ قرآنی اصطلاح میں صوفیاء کو محسنین اور مخلصین کہتے ہیں، سورۃ فرقان میں عبادالرحمٰن بھی ان ہی کے کردار کا تذکرہ ہے۔ اقبالؒ نے تصوف کی تعریف میں یہی کہا تھا کہ یہ مذہبی تجربہ ہے، Religious experience ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی
شہرت اور دیگر چکاچوند والے شعبے ہو سکتے ہیں، لیکن عزت سے یہ تہی رہتے ہیں اور رہیں گے … یہ کائنات بنانے والے کا فیصلہ ہے۔ فیصلے کے دن سب کچھ واضح ہو جائے گا، فیصلے کے دن سے پہلے چیزوں کو جاننے کے لیے ماننا پڑے گا۔ انبیاء و رسل کے فکر کو ماننا پڑے گا، اور انبیاء و رسل کے ماننے والوں … مومنین و محسنین … کی تعلیم کو تسلیم کرنا پڑے گا … ان کی بات پر یقین کرنا پڑے گا۔ جس قدر یہ یقین مستحکم ہوتا جائے گا، اسی قدر ایمان کا ذائقہ چکھنے کی صلاحیت بیدار ہوتی چلی جائے گی۔ احادیث میں متعدد مقامات پر ایمان کا ذائقہ چکھنے کی بات کی گئی ہے۔ ذائقہ حسیات سے تعلق رکھتا ہے۔ بولنا، سننا، دیکھنا، چکھنا اور محسوس کرنا … بنیادی حسیات ہیں۔ اگر کوئی روحانی حقیقت … نظروں سے اوجھل رہنے والی … غیب سے تعلق رکھنے والی حقیقت، ہماری جسمانی حسیات سے تعامل کر لے تو یہ ایک خو
ن پیغام بروں کے ماننے والے، ان پر یقین کرنے والے، مومنین کہلاتے ہیں۔ مومنین اسی فکر پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں تعلیماتِ انبیاء سے موصول ہوا۔ وہ اپنے عمل کو فکرِ رحمانی کے مطابق ڈھالنے میں مصروف رہتے ہیں، اس میں استقامت انہیں کردار کی پختگی عطا کرتی ہے۔ ان کا کردار خوشبو دار ہو جاتا ہے اور اس جہانِ تغیر میں تغیر سے نجات پا لیتا ہے۔ وہ قابلِ ذکر ہو جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کو خوشبودار کرنے میں معاون ہو جاتے ہیں۔ خوشبو کا تذکرہ بھی ماحول کو خوشگوار کر دیتا ہے۔ عزت، خوشبو اور ذائقہ قابل ذکر ہوتے ہیں۔
فکر رحمانی عزت کی حامل ہوتی ہے، اور اس کے برعکس کی فکر پر چلنے والے شیطانی فکر کا فائق جانتے ہیں، قرآنی الفاظ میں ’’وہ طاغوت پر ایمان لاتے ہیں‘‘، ایسے لوگ کسی عزت کے مستحق نہیں ہوتے۔ قانونِ مشیت کے تحت ان کے پاس دولت ہو سکتی ہے، شہرت اور دیگر
ہوتی ہے۔ شہرت صرف صفات کی ہوتی ہے، عزت ذات کا اثاثہ ہے۔ صفات کے زائل ہو جانے پر شہرت زائل ہو جاتی ہے، عزت صفات میں کمی بیشی سے بالاتر ہوتی ہے۔ عزت وہی ذات دیتی ہے جو خود عزت والی ہے۔ … وہ جس کو چاہتا ہے، عزت دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں عزت کے بارے مرحلہ وار کچھ ارشاداتِ باری یوں ہیں: ’’بے شک عزت سب کی سب اللہ کے لیے ہے‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’اور عزت اللہ کے لیے ہے، اور اس کے رسولوں کے لیے ہے اور پھر مومنین کے لیے ہے‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’جو کوئی عزت چاہتا ہے، وہ جان لے کہ عزت تو بس خدا ہی کے لیے ہے‘‘۔ غور کریں، عزت جس کا مالک وحدہُ لاشریک اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے، یہ رسولوں کے پاس بھی ہے اور پھر رسولوں کے ماننے والوں کے پاس بھی۔ رحمان کے فرستادہ پیغمبر جو پیغام مخلوق کے نام لے کر آئے، وہ رحمانی فکر کا ابلاغ ہے۔ ان پیغام بروں کے م
ں۔ یہیں سے انسان کی بے پایاں عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک انسان، ایک اور انسان پر یقین کر لیتا ہے اور اس یقین کے سبب وہ اپنے دائرہِ شعور سے باہر دنیاؤں کی سیر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ عظیم انسان، انسان کو عظیم تسلیم کرتا ہے۔ وہ شخص جو انسان کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر یقین کیا جائے، وہ عظمت کے راستوں سے آشنا نہیں ہوتا۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک انسان جب قابلِ یقین ہوتا ہے تو لوگ اس پر یقین کرتے ہی
چلے جاتے ہیں، جبکہ دوسرا اپنی چرب زبانی اور لفظوں کی ارزانی کے باوجود خود کو قابلِ یقین ثابت نہیں کر پا رہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مخلوق کے دلوں میں کسی انسان کے لیے عزت کا پیدا ہو جانا ایک خدائی راز ہے۔ عزت اور چیز ہے، شہرت اور چیز۔ شہرت عارضی ہوتی ہے، پراپیگنڈہ اور اشتہارات کی محتاج ہوتی ہے۔ عزت خاموش لیکن بارعب ہوتی
خوب سے خوب تر کر دیتا ہے۔ انسانی ہاتھ میں کیا کیا کمالات ہیں، اسے قوتِ یزداں سے کیا نسبت ہے، اقبالؒ سے بہتر کون جانتا ہو گا۔۔۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
اب یقین کا تعلق ایمان سے ہے۔ یقین اور ایمان بھی انسان کو قدرت اور فطرت سے براہ راست میسر نہیں آتے۔ ایمان اور یقین کی دولت بھی اسے کسی انسان کے توسط سے میسر آتی ہے۔ یقین کسی فارمولے پر نہیں ہوتا، کسی کلیے کو جان لینے کا نام یقین نہیں ہے۔ ’’سورج مشرق سے نکلتا ہے‘‘، ’’پانی کا بہاؤ نشیب کی طرف ہوتا ہے‘‘، زمین کی کششِ ثقل نو اعشاریہ آٹھ میٹر فی سیکنڈ ہے‘‘، پینسلین جراثیم کش ہوتی ہے… یہ سب فارمولے ہماری تحقیق کا نتیجہ ہیں، ان کا تعلق تسلیم سے نہیں ہے۔ تسلیم ان چیزوں کی ہوتی ہے، جو انسان کی تحقیق کے دائرے میں نہ آ سکیں۔ یہیں
خوشبو کردار کی ہوتی ہے، ذائقہ ایمان کا ہوتا ہے۔ اس شخص کا اس دنیا میں آنا اور جانا کچھ معنی نہیں رکھتا، جس نے ایمان کا ذائقہ نہیں چکھا اور جسے کردار کی خوشبو میسر نہ آئی۔ اس مادی جہان میں روحانی جہت کی حامل اگر کوئی چیز ہے تو وہ ذائقہ اور خوشبو ہی ہے۔ کہتے ہیں جانوروں کی زبان میں ذائقہ کی حس نہیں ہوتی، وہ اپنی بھوک کی وجہ سے خوراک کھاتے ہیں، ذائقوں سے لطف لینے کے لیے نہیں۔ انسان کا حال اس کے برعکس ہے، وہ عموماً ذائقوں کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اسے کارخانہِ قدرت میں پیدا کی گئی خوارک زیادہ خوش نہیں آتی، وہ گندم، چاول اور گوشت کو یوں ہی نہیں کھا سکتا۔ جب تک اس کی خوراک کے ساتھ کسی انسانی ہاتھ کا تمسک اور تصرف شاملِ حال نہیں ہوتا، خوراک اس کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ تناول نہیں ہوتی۔ انسانی ہاتھ کا تصرف جب قدرت کے ہمراہ ہو جاتا ہے تو اسے خوب سے
گا۔ سبحان اللہ
نوٹ: (مختلف مکاتب فکر کی متفقہ رائے ہے کہ اذان دینے کا اولین مشورہ بار گاہ رسالت مآبe میں فاتح عرب و عجم امیر المومنین سیّدنا عمر فاروقؓ نے دیا تھا جسے شرف قبولیت بخشا گیا۔ )
دراصل دنیا میں اِس سے پہلے اور اِس کے بعد بڑا انقلاب نہیں آیا جو آقا کریمؐ کی قیادت میں دنیا کی تاریخ بنا۔ حضرت بلالؓ بن رباح سے اذان دلانا ہی بذات خود ایک انقلاب تھا۔ برابری، مساوات، سب انسان برابر اور فوقیت تقویٰ کے سبب کا اعلان تھا۔ حضرت بلالؓ بن رباح جن کے تن پر کپڑے بھی پورے نہ تھے کی آواز، اذان پر دولت مند، قوی، جری، بڑے حسب نسب والے، بے نام، مردِ میدان، غریب امیر سبھی آ رہے ہیں جب تک دنیا رہے گی اذان کی آواز پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں ہر وقت آتی رہے گی۔ جب تک دنیا رہے گی بلالؓ کی اذان رہے گی۔✅✅✅
کو اٹھا کر بلند کرنے کا کہہ رہے ہوں۔ اسی لمحے مجھے اپنی آواز سنائی دی۔ پہلے بہت دور سے اور پھر آہستہ آہستہ قریب آتی ہوئی۔ یہ ہماری پہلی اذان تھی۔ میں اذان دے کر نیچے اُترا تو حضورؐ نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کہاں اللہ کا رسولؐ اور کہاں ایک غلام زادہ۔ بلالؓ اپنی خوش قسمتی پر جتنا ناز کرتے کم تھا۔ چاروں طرف لوگ ادھر اُدھر آ جا رہے تھے۔بہت دیر تک حضورؐ نے کچھ نہیں فرمایا۔ میں بھی ایک عجیب سرور سے سرشار تھا۔ اتنے میں میں اُن کی آواز پر چونکا: ’’بلال، تم نے میری مسجد مکمل کر دی‘‘…ان الفاظ پر میں نے وہیں شکرانے کے دو نفل ادا کیے۔ بلال حبشیؓ نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا تھا۔ لوگ اگر میرے بارے میں سب کچھ فراموش کر دیں، اور ویسے بھی میرے پاس یاد رکھے جانے کی کیا بات ہے مگر پھر بھی میں اسلام کے پہلے مؤذن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جاؤں گا۔ سب
حبشی کے ذمہ یہ خدمت سپرد کی گئی تھی کہ میں مسلمانوں کو نماز کی سعادت کے لیے بلایا کروں۔ یہ خود میرے لیے کتنی بڑی سعادت تھی۔ انہی باتوں میں نماز کا وقت ہو گیا تو اللہ کے رسولؐ نے مجھے حکم دیا: ’’جاؤ اُس چھت پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤ‘‘۔ جس چھت کی طرف انہوں نے اشارہ فرمایا تھا وہ مسجد سے ملحق بنو نجار کی ایک خاتون کے کچے گھر کی کچی چھت تھی۔ میں حسب حکم جوں توں کر کے اُس چھت پر چڑھ گیا،سب میری طرف دیکھ رہے تھے اور منتظر تھے۔ مگر وہ الفاظ، پہلے کیا تھا کہ اللہ کی توصیف، پیغمبر اسلامؓ کی شہادت، نماز کی دعوت سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا تھا۔ سب مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ رسالت مآبؐ تیسرے ستون کے پاس کھڑے تھے اُن کی نظریں بھی مجھ پر تھیں۔ پھر نبی کریمؐ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور مجھے اس انداز سے اشارہ کیا گویا مجھے دونوں ہاتھوں ک
ا کیا کرو گے اس کا…؟ میں نے جواب دیا اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا۔ اس پر اس نے کہا نماز کے لیے بلانے کا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ بتاتا ہوں۔ تم یہ کہاکرو:
اللہ اکبر اللہ اکبر… اللہ اکبر اللہ اکبر … اشہد ان لا الہ الا اللہ … اشہد ان لا الہ الا اللہ … اشہد ان محمد رسول اللہ … اشہد ان محمد رسول اللہ … حی علی الصلوۃ… حی علی الصلوۃ… حی علی الفلاح… حی علی الفلاح… اللہ اکبر اللہ اکبر… لا الہ الا اللہ
میں نے رسول اللہؐ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے ایک دو روز قبل حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی قسم کا خواب حضورؐ کو سنایا تھا ۔یہ طے ہو گیا تو اب سوال یہ تھا کہ یہ الفاظ کس کی آواز انداز میں ادا کیے جائیں گے۔’’بلال تمہاری آواز میں‘‘۔ حضورؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا۔ مجھ نا چیز سیاہ فام حبشی کے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain