Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آد م عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرے۔(ابن عساکر، حرف القاف، ذکر من اسمہ قابیل، ۴۹ / ۴۰)
حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیاجاتا ہے،پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصل

MushtaqAhmed
 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ نے غیرُاللہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے حرام ہونے پر ایک عظیم کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ(غیرُ اللہ کیلئے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان)‘‘یہ کتاب فتاویٰ رضویہ کی 22ویں جلد میں موجود ہے اور اس کا مطالعہ کرنا انتہائی مفید ہے۔
تکبر کی مذمت:
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم

MushtaqAhmed
 

کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور’’ تعظیم کا سجدہ‘‘ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود(یعنی جسے سجدہ کیا جائے اس) کی تعظیم مقصود ہوتی ہے ۔
(2)…یہ قطعی عقیدہ ہے کہ’’ سجدۂ عبادت‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کسی اور کے لیے نہیں ہوسکتا اورنہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔
(3)… فرشتوں نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا اور وہ باقاعدہ پیشانی زمین پر رکھنے کی صورت میں تھا ،صرف سر جھکانا نہ تھا۔
(4)… تعظیمی سجدہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں منسوخ کردیاگیا اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا کسی پیر یا ولی یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے لیکن یہ یاد رہے کہ تعظیمی سجدہ کرنے والوں پر یہ بہتان باندھنا کہ یہ معبود سمجھ کر سجدہ کرتے ہیں یہ اس تعظیمی سجدہ سے بڑا جرم ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو مشرک و کافر کہنا ہے۔

MushtaqAhmed
 

بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیااور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے اوراس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے ۔ اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ قرآن پاک کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔
سجدہ سے متعلق چند شرعی احکام:
اس آیت میں سجدے کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہاں سجدے سے متعلق چند احکام بیان کئے جاتے ہیں :
(1)… سجدے کی دو قسمیں ہیں : (۱)عبادت کا سجدہ(۲) تعظیم کا سجدہ۔ ’’عبادت کا سجدہ‘‘ کسی کو معبود سمجھ

MushtaqAhmed
 

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوریاد کروجب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ۔اس نے انکار کیا اور تکبرکیا اور کافر ہوگیا۔

تفسیر: صراط الجنان
{اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ: آدم کو سجدہ کرو۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالَم روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایاتو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ’’اَتَجْعَلُ فِیْهَا‘‘ کی معذرت بھی ہے۔ بہرحال تمام فرشتوں

MushtaqAhmed
 

آدمی اس سے بالکل بےخبر رہتے ہیں ، ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، تو کیا اس کی یہ دلیل بنائی جا سکتی ہے کہ چاند گرہن ہوا ہی نہیں، اس لئے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی تکذیب نہیں ہو سکتی ، اس کے علاوہ ہندوستان کی مشہور و مستند ’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا ، اور اوپر ابوداؤ و طیالسی اور بیہقی کی روایات سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خود مشرکین مکہ نے بھی باہر کے لوگوں سے اس کی تحقیق کی تھی اور مختلف اطراف کے آنے والوں نے یہ واقعہ دیکھنے کی تصدیق کی تھی ، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

MushtaqAhmed
 

ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ میں رات کے وقت پیش آیا ہے ، اس وقت بہت سے ممالک میں تو دن ہوگا وہاں اس واقعہ کے نمایاں اور ظاہر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا اور بعض ممالک میں نصف شب اور آخر شب میں ہوگا، جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے ، زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی میں اس کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جس کی وجہ سے کسی کو اس طرف توجہ ہوتی، پھر یہ تھوڑی دیر کا قصہ تھا، روز مرہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں چاند گرہن ہوتا ہے ، اور آج کل تو پہلے سے اس کے اعلانات بھی ہو جاتے ہیں ، اس کے باوجود ہزاروں لاکھوں آدمی اس سے بالکل بےخبر رہتے ہیں ، ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، تو کیا اس کی ی

MushtaqAhmed
 

اس پر ایک شبہتو یونانی فلسفہ کے اصول کی بنا پر کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آسمان اور سیارات میں فرق اور التیام (یعنی شق ہونا اور جڑنا ) ممکن نہیں ، مگر یہ محض ان کا دعویٰ ہے اس پر جتنے دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب لچر اور بےبنیاد ہیں ، ان کا لغو و باطل ہونا متکلمین اسلام نے بہت واضح کردیا ہے ، اور آج تک کسی عقلی دلیل سے شق قمر کا محال اور ناممکن ہونا ثابت نہیں ہو سکا ، ہاں ناواقف عوام ہر مستبعد چیز کو ناممکن کہنے لگتے ہیں ، مگر یہ ظاہر ہے کہ معجزہ تو نام ہی اس فعل کا ہے جو عام عادت کے خلاف اور عام لوگوں کی قدرت سے خارج حیرت انگیز و مستبعد ہو، ورنہ معمولی کام جو ہر وقت ہو سکے اسے کون معجزہ کہے گا ؟۔
دوسرا عامیانہ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا عظیم الشان واقعہ پیش آیا ہوتا تو پوری دنیا کی تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے

MushtaqAhmed
 

مِثْلَ مَا رَأَيْتُمْ فَهُوَ سِحْرٌ سَحَرَكُمْ بِهِ. قَالَ: فَسُئِلَ السُّفَّارُ، قَالَ: وَقَدِمُوا مِنْ كُلِّ وُجْهَةٍ، فَقَالُوا: رَأَيْنَاهُ». (ابن کثیر)
مکہ مکرمہ (کے قیام کے زمانہ) میں چاند شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا ، کفار قریش کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ابن ابی کبشہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے تم پر جادو کردیا ہے ، اس لیے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا ، اگر انہوں نے بھی یہ دو ٹکڑے چاند کے دیکھے ہیں تو انہوں نے سچ کہا ہے اور اگر باہر کے لوگوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر یہ بیشک جادو ہی ہوگا، پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی جو ہر طرف سے آئے تھے ، سب نے اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دو ٹکڑے دیکھے ہیں ۔

MushtaqAhmed
 

فاخذت فرقة خلف الجبل فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیه وآله وسلم) اشھدوا اشھدوا»(عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ، اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ، اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلا گیا ، تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گواہی دو ، گواہی دو)۔
(3) حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی روایت سے ابو داؤد طیالسی نے اور بیہقی نے یہ بھی نقل کیا ہے :« انْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَكَّةَ حَتَّى صَارَ فِرْقَتَيْنِ، فَقَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ أَهْلُ مَكَّةَ: هَذَا سِحْرٌ سَحَرَكُمْ بِهِ ابْنُ أَبِي كَبْشَة، انْظُرُوا السُّفَّارَ، فَإِنْ كَانُوا رَأَوْا مَا رَأَيْتُمْ فَقَدْ صَدَقَ، وَإِنْ كَانُوا لَمْ يَرَوْا مِثْلَ مَا رَأَيْتُمْ فَهُوَ سِحْرٌ سَحَرَكُمْ بِهِ. قَالَ: فَسُئِلَ السُّفَّارُ، قَالَ: وَقَدِ

MushtaqAhmed
 

(معجزہ) دکھلائیں ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھلا دیا ، یہاں تک کہ انہوں نے جبل حراء کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔
(2) صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے : «انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِقَّتَيْنِ، حَتَّى نَظَرُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْهَدُوا».
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں چاند شق ہوا اور دو ٹکڑے ہو گئے جس کو سب نے صاف طور سے دیکھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو۔
اور ابن جر یر نے بھی اپنی سند سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ، اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ«کنا مع رسول اللہ (صلی اللہ علیه وآله وسلم) بمنی فانشق القمر فاخذت فر

MushtaqAhmed
 

بیہقی اور ابو داؤد طیالسی کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہے کہ بعد میں تمام اطراف سے آنے والے مسافروں سے ان لوگوں نے تحقیق کی تو سب نے ایسا ہی چاند کے دو ٹکڑے دیکھنے کا اعتراف کیا۔
بعض روایات میں ہے کہ یہ معجزہ شق القمر مکہ مکرمہ میں دو مرتبہ پیش آیا مگر روایات صحیحہ سے ایک ہی مرتبہ کا ثبوت ملتا ہے (بیان القرآن)
اس معاملہ سے متعلق چند روایاتِ حدیث یہ ہیں (جو تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں ):
(1 ) صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ:«أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ القَمَرَ شِقَّتَيْنِ، حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا» (بخاری ومسلم)
یعنی اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی (معج

MushtaqAhmed
 

ثابت ہے ۔
واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ کے مقام منیٰ میں تشریف رکھتے تھے ، مشرکین مکہ نے آپ سے نبوت کی نشانی طلب کی ، یہ واقعہ ایک چاندنی رات کا ہے ، حق تعالیٰ نے یہ کھلا ہوا معجزہ دکھلا دیا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو کر ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں پہاڑ حائل نظر آنے لگا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو ، جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے ، اس کھلے ہوئے معجزہ کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکتا تھا، مگر مشرکین کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہان پر جادو نہیں کرسکتے ، اطراف ملک سے آنے والے لوگوں کا انتظار کرو وہ کیا کہتے ہیں ، بیہقی

MushtaqAhmed
 

کفار مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی نبوت و رسالت کے لئے کوئی نشانی معجزہ کی طلب کی ، حق تعالیٰ نے آپ کی حقانیت کے ثبوت کے لئے یہ معجزہ شق القمر ظاہر فرمایا، اس معجزہ کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت میں بھی موجود ہےوانْشَقَّ الْقَمَرُ، اور احادیث صحیحہ جو صحابہ کرام کی ایک جماعت کی روایت سے آئی ہیں جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر ، جبیر بن مطعم، ابن عباس، انس بن مالک (رضی اللہ عنہم اجمعین) وغیرہ شامل ہیں ، اور حضرت عبداللہ بن مسعود خود اپنا اس وقت میں موجود ہونا اور معجزہ کا مشاہدہ کرنا بھی بیان فرماتے ہیں ، امام طحادیؒ اور ابن کثیرؒ نے واقعہ شق القمر کی روایات کو متواتر قرار دیا ہے ، اس لئے اس معجزہ نبوی کا وقوع قطعی دلائل سے ثابت ہے ۔
واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول

MushtaqAhmed
 

اور ایک صالح نظام سے اس کی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ پھر انسان خود شیطانی رہنمائی قبول کرکے بار بار تاریکی میں جاتا رہا اور اس صالح نظام کو بگاڑتا رہا اور خدا بار بار اپنے پیغمبر کو اس غرض کے لیے بھیجتا رہا کہ اسے تاریکی سے روشنی کی طرف آنے اور فساد سے باز رہنے کی دعوت دیں۔ (سورة براۃ، 230)
سورة الْاَعْرَاف 45
اس فقرے سے واضح ہوگیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کار ساز اور کار فرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہو جائے

MushtaqAhmed
 

بعد میں بتدریج اصلاح کی گئی ہوں، بلکہ فی الحقیقت انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظام حیات کو از سرنو درست کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہی دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آؤ۔ اس معاملہ میں قرآن کا نقطہء نظر ان لوگوں کے نقطہء نظر سے بالکل مختلف ہے جنہوں نے ارتقاء کا ایک غلط تصور لے کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ بنی اور بنتی جارہی ہے۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو پوری روشنی میں زمین پر بسایا تھا اور ایک

MushtaqAhmed
 

زمین میں فساد برپا نہ کرو، یعنی زمین کے انتظام کو خراب نہ کرو۔ انسان کا خدا کی بندگی سے نکل کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق، معاشرت اور تمدن کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرنا جو خدا کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کے بیشمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصود ہے۔ پھر قرآن اس حقیقت پر بھی متنبہ کرتا ہے کہ زمین کے انتظام میں اصل چیز فساد نہیں ہے، جس پر صلاح عارض ہوئی ہو بلکہ اصل چیز صلاح ہے ،جس پر فساد محض انسان کی جہالت اور سرکشی سے عارض ہوتا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر یہاں انسان کی زندگی کی ابتدا جہالت و وحشت اور شرک و بغاوت اور اخلاقی بدنظمی سے نہیں ہوئی ہے ،جس کو دور کرنے کے لیے بعد م

MushtaqAhmed
 

وہ افراط وتفریط میں مبتلا ہوگئے۔ جو لوگ قومی تعصب میں مبتلا رہے، انہوں نے ہمیشہ غالب قوم کے غلبہ کو اس کی چیرہ دستی پر محمول کیا، وہ اپنے تعصب کے سبب سے نہ تو اس اخلاقی برتری کو دیکھ سکے جو غالب قوم کے اندر موجود تھی اور نہ اس اخلاقی ضعف پر ان کی نظر پڑی جو ان کے اپنے اندر پایا جاتا تھا۔ اسی طرح جو لوگ مرعوب ذہن کے تھے انہوں نے ہر غالب کے غلبہ کو اس کے بر حق ہونے کی دلیل سمجھا اور اس کے ہاتھوں جو فساد و باطل بھی دنیا میں برپا ہوگیا، اسی کو نظام حق سمجھ کر اس کے گن گانے لگے۔ اس افراط وتفریط کا اثر قوموں کی تاریخ پر یہ پڑا کہ وہ بالکل غلط طریقہ پر مرتب ہوگئی جس سے صحیح نتائج نکالنا اور ان سے اجتماعی اصلاح میں فائدہ اٹھانا ناممکن ہوگیا۔ یہاں ہم اس اشارے پر کفایت کرتے ہیں۔ انشاء اللہ سورة روم کی تفسیر میں ہم اس پر شرح و بسط سے بحث کریں گے۔

MushtaqAhmed
 

جو قائم ہوتا ہے وہ حق ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج قوموں کے عروج وزوال کے معاملے میں قدرت کا قانون بدل گیا۔ آج بھی اگر کوئی قوم مٹتی ہے تو اتفاق سے نہیں مٹتی اور اگر کوئی قوم عروج پر آتی ہے تو اتفاق سے نہیں آجاتی بلکہ ایک کے زوال اور دوسرے کے عروج میں اصلاً اخلاقی عوامل ہی کام کرتے ہیں لیکن کسی قوم کا چند زندگی بخش عوامل اخلاق کے سہارے عروج پر آجانا ایک اور چیز ہے اور کسی نظام کا حق ہونا ایک دوسری چیز کسی قوم کا عروج اس بات کی دلیل تو ضرور ہے کہ اس کے اندر مغلوب و مفتوح قوم کے مقابل میں زندگی بخش عوامل اخلاقی زیادہ ہیں لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ یہ قوم اور اس کا نظام سو فی صد حق ہے۔ ہمارے بہت سے اجتماعی مصلحین کو یہ اصول سمجھنے میں سخت مغالطہ پیش آیا ہے جس کے سبب سے وہ افراط

MushtaqAhmed
 

by TaboolaSponsored Links
اس طرح یہ دنیا بار بار شیطان اور اس کی ذریات کی کوششوں سے بگڑی ہے اور بار بار انبیاء و مصلحین کے ذریعہ سے اس کی اصلاح ہوئی ہے۔ اس پہلو سے معاملہ پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں جس قوم کو بھی اپنے پچھلوں کی خلافت ملی ہے ایک فساد کو مٹا کر اس کی اصلاح کی شکل میں ملی ہے اور اگر خلافت پانے والی قوم نے خلافت پا کر اس میں فساد برپا کیا ہے تو یہ اس نے ایک بگڑی ہوئی چیز کو نہیں بگاڑا ہے، بلکہ ایک بنی ہوئی چیز کو بگاڑا ہے اور یہ چیز اس کے جرم کو سنگین سے سنگین تو بنا دیتی ہے۔
اجتماعی مصلحین کا ایک مغالطہ : جہاں تک رسولوں کا تعلق ہے ان کے اور ان کی امتوں کے باب میں مذکورہ بالا اصول بالکل اٹل ہے، ان کے ذریعہ سے حق سورج کی طرح چمکتا ہوا نمایاں ہوتا ہے اس وجہ سے ان کے ہاتھوں جو نظام مٹتا ہے وہ باطل ہوتا ہے، جو قائم