ھے، ایک مرتبہ ایک پاگل عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ آپ ﷺ سے مجھے ایک کام ہے ، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ بتاؤ میں تمہارے کام انجام دینے کے لئے کدھر اور کہاں چلوں؟ چناں چہ آپ ﷺ کسی راستہ پر اس کے ساتھ گئے اور اس کی ضرورت پوری کردی (مسلم: ۲۳۲۶)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے دست مبارک سے برکت لینے کی خاطر اپنے پانی میں دست مبارک ڈالنے کی درخواست کرتے تو اسے رسول اللہ ﷺ قبول کرلیتے حتی مدینہ کے خدام سخت سردی کے موسم میں پانی لے کر آجاتے اور آپ ﷺ پانی میں دست مبارک ڈال دیتے(مسلم: ۲۳۲۴)
آپ ﷺ نے بڑوں کی تعظیم کے حوالے سے یہ تعلیم دی ہےکہ ان کے استقبال میں ان کی تعظیم کرتے ہوئے مجلس میں موجود افراد کھڑ ے ہوجائیں ، لیکن آپ ﷺ نے خود اپنے لئے اس تعظیم کو پسند نہیں
ہوتا ہے ، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ اس کو ذلیل کردیتا ہے ، چناں چہ تکبر کرنے والا شخص گرچہ کہ خود کو بڑا سمجھتا ہے لیکن وہ لوگوں کی نظر میں کم تر بلکہ خنزیر یا کتے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘
نبی اکرم ﷺ نے جن خوبیوں کی تعلیم دی ہے آپ کی ذات میں وہ تمام خوبیاں کامل درجہ پر موجود تھیں ، چناں چہ آپ ﷺ محبوب رب العالمین ، سید الانبیاء والمرسلین ، شاہ کونین ہونے کے باوجود اعلی درجہ کے منکسر المزاج اور متواضع تھے،اور آپ کی مجلس ، لوگوں سے آپ کی ملاقات، آپ کی نشست وبرخاست ، آپ کی گفتگو وغیرہ میں کوئی شاہانہ نخرے نہ تھے،جیسا کہ بہت سے واقعات اس پر شاہد ہیں،آپ ﷺ صحابہ کرام سے مزاح فرمایا کرتے تھے ،بلکہ کئی بار صحابہ کرام بھی آپ ﷺسے مزاح فرماتےتھے،آپﷺ تک رسائی آسان تھی، اور آپ ﷺ ہر ایک کے کام آیا کرتے تھے،
میں اعتدال (میانہ روی )کو اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے غنی بنادیتا ہے ، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ اس کو فقیر بنادیتا ہے ، جو تواضع (انکساری) اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو بلندی عطافرمادیتا ہے ، اور جو ظلم زیادتی اور تکبر کرتا ہے اللہ اسے توڑدیتا ہے‘‘
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے:
من تواضع لله رفعهُ اللهُ، فهو في نفسِه صغيرٌ، وفي أَعْيُنِ الناسِ عظيمٌ، ومن تكبر وضعهُ اللهُ، فهو في أَعْيُنِ الناسِ صغيرٌ، وفي نفسِه كبيرٌ ؛ حتى لَهُوَ أَهْوَنُ عليهم من كَلْبٍ أو خِنْزيرٍ .(شعب الایمان للبیقہی: ۷۷۹۰)
’’جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر توا ضع اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے بلند کردیتا ہے ، اور ایسا شخص اگرچہ کہ خود کو کم تر سمجھتا ہے ،لیکن وہ لوگوں کی نگاہ میں باعظمت ہوتا ہے ، اور ج
تواضع : ایک انسانی صفت ہے کہ جب انسان میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے تو انسان خود کو دوسروں سے اعلی اور افضل وبرتر سمجھنے کے بجائے دوسروں کو بہتر و برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کااحترام واکرام اپنا فریضہ سمجھتا ہے ۔
اسلام میں یہ صفت بہت ہی محبوب ہے اور یہ انسان کو اللہ کی قربت سے ہمکنار کرنے والی صفت ہے ، اور جب انسان اس صفت سے خود کو آراستہ کرتا ہے تو گرچہ کہ وہ خود کو دوسروں سے حقیر سمجھتا ہے لیکن اللہ اس صفت کی وجہ سے اس کو خلائق کا محبوب بناکر بلند مرتبہ پر فائز کردیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:
من اقتصدَ أغناهُ اللهُ، و منْ بَذَّرَ أفقرَهُ اللهُ، و منْ تواضعَ رفعهُ اللهُ، و منْ تجبر قصمهُ اللهُ (الجامع الصغیر:۸۵۰۱)
’’جوخرچ میں اعتدال (میانہ
دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی کے ٹکڑوں پہ پلنے والے جب اپنی بھوک مٹانے کے لئے جیسے ہی ان کی حکمرانی جاتے دیکھتے ہیں تو مٹھائیاں تقسیم کرتے اور بھنگڑے ڈالتے فوٹو شوٹ کرانے کے لئے ادھار مٹھائیاں بھی خریدتے ہیں پھر ان کی جگہ آنے والے حکمرانی میں حصہ بقدر اپنی جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اور آنے والے کے ساتھ بھی اپنے سابقہ کردار ادا کرنے کے لئے عوام میں ان کی مقبولیت کھونے کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔
سن تو سہی جہاں میں تیرا افسانہ ہے کیا
کہہ رہی ہے مخلوق خدا تجھے غائبانہ کیا
end
یں بھی کم تر نہیں ہوتے۔ اب ان خوشامدیوں کا ذکر کرتے چلیں جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں تو بڑے نامور خوشامد تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بھی اپنی شاہانہ خوشامدی گفتگو کے ساتھ رات کو لگنے والی عدالتوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور جس ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ وہ اپنے لیڈر کی شان میں ایسی ایسی گفتگو فرماتے ہیں کہ خدا کی پناہ اللہ تیری شان اور ایسے قصیدے اور دفاع کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر عام آدمی بھی شاید پانی پانی ہو جاتا ہوگا مگر مجال ہے کہ ان کے چہرے پر ایک لمحہ بھی شرمندگی آئے اور تو اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جہاں تاریخ کو ادھیڑتے نظر آتے ہیں وہاں جھوٹ اس قدر بولتے ہیں کہ بعض اوقات وہ سچ نظر آنے لگتا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی ہو یا سیاسی قد کاٹھ والے بونے خوشامدی در اصل ملک و ملت کو ہی نہیں بلکہ ہماری تھوڑی بہت بچی کھچی جمہوریت کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہ
ل مشہور ہے کہ جہاں دو خوشامدی اکھٹے ہوتے ہیں تو وہاں شیطان رخصت پہ چلا جاتا ہے۔ آج کے دور میں ان خوشامدی حضرات کو بڑا واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے بڑے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں اگر میں غلط نہ کہوں تو ہر سیاسی جماعت کے اندر ایک ریاست موجود ہے اور اس ریاست پر بڑے بڑے خوشامدی براجمان ہیں جو ظل سبحانی، عالی جناب ، عالی مرتبت، عالم پناہ، جہاں پناہ اور جان کی امان پاؤں تو عرض کرنے کے لئے ہمہ تن آپ کی اجازات کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ان خوشامدی، مداری ، اور خاص کر نامور درباریوں نے تو اقتدار کے ایوانوں تک کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو حاکموں کو سب اچھا ہے کہہ کر تمام حالات سے بے خبر اور بے خوف کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی، شاہانہ طعام و جام اور شاہانا جاہ و جال پرانے بادشاہوں اور شہزادوں سے کہیں بھی کم تر ن
نسلوں کے اندر بھی اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان کی خوشامدیوں کی قسموں کو دیکھیں تو ان میں ایک ہوتے ہیں ’’ویلے‘‘ جن کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا اور اپنے کام نکلوانے کے لئے مکھن کی فیکٹری ساتھ رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ خوشامدی جو دفتر کے اندر عہدے کے مطابق اپنے افسران کی قربت حاصل کرنے کے لئے پورے آفس میں ان کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں۔ خاص کر چھوٹے سٹاف کی شکل میں تو بڑے خوشامدی نظر آئیں گے۔ وہ آفس کے کام کم تو افسران کے ذاتی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے بڑے خوش نظر آتے ہیں اور بعض ان کے بچوں اور بیگمات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کو افسران کے آنے اور جانے یعنی ہر وقت ان کے وقت پر گہری نظر ہوتی ہے اور جس دن صاحب دفتر نہیں آتے تو دوسرے لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ صاحب لاہور سے باہر گئے ہیں اور مجھے پتہ ہے کیوں گئے ہیں۔
ایک مثل مشہور ہ
کس مکھن کی تاثیر کتنی اچھی ہے اگر اب مکھن کا ذکر چلا ہے تو وہ کون کس کو نہیں لگاتا آپ نامور ہیں، آپ کا شمار بڑے لوگوں میں ہوتا ہے یا بڑے لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں یا دوسروں کی نظر میں بڑے پن کے طور پر جب آپ کو لے لیا جاتا ہے تو پھر مان جایئے کہ آپ کے اردگرد دوستی کی آڑ میں خوشامدی اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو آپ کا دماغ خراب نہ ہونے کے باوجود خراب کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ کریں نہ کریں وہ آپ کو ایسا مکھن لگائیں گے کہ انسان سوچتا ہے کہ یہ تو میری اوقات ہی نہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ خوشامدی لوگ کون ہوتے ہیں یا کبھی ہم ان کو ’’چمچے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کون اور کہاں سے آ جاتے ہیں۔ خاص کر سرکاری افسران بالا کے اردگرد گھومنے والی کلاس کے اندر ان کی بڑی کلاسز ہوتی ہیں اور جب تک آپ سے ان کے مفاد پورے نہیں ہو جاتے وہ آپ کی نسلو
کسی آفس، تقریب، خوشی مرگ کے مواقع، چھوٹے گروپس سے بڑے اداروں تک، سرکاری دفاتر سے ہر ماحول میں آپ نے ان لوگوں کو ضرور اپنے اردگرد پایا ہوگا جو خود کسی کام کے تو نہیں ہوتے مگر وہ کھانے پینے سے لے کر اپنی دیہاڑی لانے اور مفادات کی خاطر آپ کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں وہ اس قدر آپ کے بارے بول بولتے ہیں کہ آپ زمین نہیں آسمان پر ہیں۔ آپ کے اس قدر گن گاتے ہیں کہ بعض اوقات شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ آپ کے یہ دوست لوگ کون ہیں؟ کبھی آپ نے ان کو پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہمارے اردگرد کے ماحول میں یوں تو بڑے بڑے ایکٹر کریکٹر صبح سے رات گئے تک کہیں ایک دوسرے کی مخالفتیں کرتے تو کہیں اپنے مفادات کے لئے آپ کی خاطر خوشامدی باتیں کرتے ہوئے آپ کو بڑا مکھن لگاتے ہیں۔ یوں تو اب مارکیٹ میں اتنے برینڈ کے مکھن آ گئے ہیں کہ نہیں پتہ کہ کس مکھن کی ت

ہو گیا۔
ہمارے ساتھ دوسرا درویش بھی بیٹھا تھا‘ وہ یہ کہانی سن کر سیدھا ہوا اور بولا ’’لو پھر میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بڑی کہانی سناتا ہوں‘‘۔
اپنا اے سی‘ اپنا پنکھا‘ اپنا ہیٹر‘ پرفیوم کی اپنی بوتل یا بوتلیں‘ پارک میں واک‘ سردیوں میں گھنٹوں دھوپ میں بیٹھنا اور گرمیوں میں ٹھنڈا کمرہ‘ صاف پانی اور اپنی مرضی کا کافی کا کپ اور کسی بھی وقت کسی سے بھی ملاقات دنیا میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی اگر یقین نہ آئے تو آپ دس ماہ جیل میں گزار کر دیکھیں آپ کو ایک ایک چیز کی قدر ہو جائے گی‘ آپ یقین کریں جیل کے ان دس مہینوں کے بعد زندگی سے میرے سارے شکوے ختم ہو گئے ‘ میں اب کھانے پر اعتراض کرتا ہوں اور نہ اجنبیوں سے ملاقات سے‘ جیل جا کر معلوم ہوا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس کس نعمت سے نواز رکھا ہے‘ مجھے وہاں جا کر پتا چلا اپنی مرضی سے فٹ پاتھ پر چلنا بھی اللہ کا کتنا بڑا انعام ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
کریں میں جس دن جیل سے باہر آیا اس دن مجھے اللہ تعالیٰ کی ایک ‘ایک نعمت کا اندازہ ہوا‘ میں نے دس ماہ بعد جب سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں دیکھیں تو میں بچوں کی طرح خوش ہو گیا‘ میں فٹ پاتھ پر چلتا تھا‘ رکتا تھا‘ سڑک کراس کر کے دوسرے فٹ پاتھ پر جاتا تھا‘ وہاں چلتا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ کر خوش ہوتا تھا‘ مجھے کوئی شخص روک نہیں رہاتھا‘ میں نے گھر پہنچ کر جی بھر کر ٹی وی دیکھا‘ میں ریموٹ کنٹرول سے چینل بدلتا تھا اور خوشی سے قہقہہ لگاتا تھا‘ میں دن میں تین تین بار نہاتا تھا اور مجھے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرتا ہوا پانی محسوس کر کے بے انتہا خوشی ہوتی تھی‘ آپ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ ہی نہیں سکتے موبائل فون کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے‘
مرضی کا کھانا‘ مرضی کی چائے‘ اپنی فیملی اور دوست احباب سے ملاقات‘ مرضی کے کپڑے‘ مرضی کے جوتے‘ اپنا بستر‘ اپنا اے
کی اجازت دے دینی تھی اور میرا کیس معمول کے مطابق چلتا رہتا‘ اس دوران زیادہ سے زیادہ کیا ہو جاتا؟ عدالت میرا پانچ مرلے کا مکان ضبط کر لیتی‘ یہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن میں نے اپنی بے وقوفی‘حماقت اور غرور کی وجہ سے چھوٹے سے معاملے کو پھیلا دیا اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ پھیلتا چلا گیا اور میں ایک ایسی ڈھلوان پر آ گرا جس کا ہر قدم مجھے نیچے سے نیچے لے کر جا رہا تھا‘
میری زندگی جھنڈ ہو گئی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر مجھے جیل سے باہر آنے میں دس مہینے لگ گئے‘ ان دس مہینوں میں کبھی جج چھٹیوں پر چلا جاتا تھا‘ کبھی میرا وکیل‘ کبھی سرکاری وکیل اور اگر کسی دن یہ سب لوگ موجود ہوتے تھے تو شہر میں ہڑتال ہو جاتی تھی چناں چہ میرا کیس موخر ہو جاتا تھا‘ بہرحال بے شمار صدقوں‘ منتوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کے بعد میری ضمانت ہو گئی‘ آپ یقین کریں میں ج
نٹینٹ کے ساتھ مل کر میرا اکائونٹ خالی کر دیا‘ میں نے جس جس سے رقم لینی تھی وہ میرا پیسہ کھا گئے اور جس نے مجھ سے پیسے لینے تھے وہ آ کر میرے گھر بیٹھ گیا اور میری پراپرٹیز پر کرائے داروں نے قبضہ کر کے اسے آگے بیچ دیا‘ یہ سارے کام ایک آدھ مہینے میں ہو گئے یوں محسوس ہوتا تھا پوری دنیا چیل بن کر میرے گرنے کا انتظار کر رہی تھی بس میرے حوالات جانے کی دیر تھی اور یہ سب میرے اثاثوں میری کمائی پر پل پڑے‘‘۔
وہ رکا‘ لمبی سانس لی‘ آنسو پونچھے اور پھر بولا ’’جاوید صاحب میرا کیس چند منٹوں کا تھا‘ میں نے کسی کی ضمانت دی تھی‘ میرے پانچ مرلے کے ایک مکان کے کاغذات عدالت میں بطور ضمانت پڑے تھے‘ وہ شخص بھاگ گیا اور عدالت نے مجھے طلب کر لیا‘ مجھے عدالت سے نوٹس نہیں ملے‘ جج نے میرا ریمانڈ جاری کر دیا تھا‘ میں نے بس عدالت میں پیش ہونا تھا‘ جج نے مجھے وکیل کی اجا
ی مجھ سے کوئی دل چسپی نہیں تھی‘ وہ بھی اگلی تاریخ لے لیتے تھے اور یوں میری قید لمبی ہوتی چلی گئی‘ میری بیوی سے اس دوران کئی جعل ساز ججوں اور پولیس کے نام پر لاکھوںروپے لوٹ کر لے گئے‘
میرا دفتر اور بزنس تباہ ہو گیا‘ کمیونٹی میں بے عزتی اس کے علاوہ تھی‘ اس دوران میری والدہ علیل ہو گئیں اور ہسپتال پہنچ کر انتقال کر گئیں‘ میرے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا اور میری بیوی کے دن عدالتوں‘ وکیلوں کے چیمبرز اور پولیس کے پیچھے دوڑتے ہوئے گزرنے لگے‘ میرے دوست احباب نے شروع شروع میں میرا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بھی غائب ہوگئے‘ آخر کون کسی کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے‘ ہر شخص کی زندگی میں بیسیوں پھڈے ہوتے ہیں‘ میرے ملازمین اس دوران دفتر کی کرسیاں‘ میزیں اور کمپیوٹر تک اٹھا کر لے گئے‘ بینک کے ملازمین کو میری صورت حال کا پتا چلا تو انہوں نے میرے اکائونٹینٹ ک
چھوٹے سے سیل میں رہنا پڑا جس میں بیس لوگ رہ رہے تھے‘ میں کروٹ نہیں بدل سکتا تھا‘
میرے سر پر دوسرے قیدی کے پائوں ہوتے تھے‘ واش روم بھی سیل کے اندر تھا‘ اسے بیس لوگ استعمال کرتے تھے اور اس کی بو سے سر چکرا جاتا تھا‘ اس وقت میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد جیل سے باہر آنا تھا اور میں اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار تھا لیکن جب مصیبت آتی ہے تو یہ یاد رکھیں انسان کی مت ماری جاتی ہے اور یہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتا چلا جاتا ہے‘ میں بھی غلطی پر غلطی کرتا چلا گیا‘ میں نے بڑا اور مہنگا وکیل کر لیا‘ اس نے مجھ سے ڈیڑھ کروڑ فیس لے لی لیکن وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مصروف رہتا تھا‘ اس کے پاس میرے کیس کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا‘ اس کا جونیئر وکیل عدالت میں آتا تھا اور جج اسے دیکھتے ہی اگلی تاریخ دے دیتا تھا‘ پولیس اور سرکاری وکیل کو بھی مجھ
اور ڈسٹ کی وجہ سے میرے پورے جسم سے بو آ نے لگی‘ وہ تین دن میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے‘
میں سو سکا اور نہ لیٹ سکا‘ پولیس کے معمولی اہلکار مجھے جی بھر کر بے عزت کرتے تھے‘ مجھے محسوس ہوا شریف لوگوں کو ذلیل کر کے پولیس کو بہت تسکین ہوتی ہے‘ یہ شاید ان کی زندگی کی واحد انٹرٹینمنٹ ہے‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور پھر ہنس کر بولا ’’وہ ضمانت کا معمولی سا کیس تھا لیکن میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور بے وقوفی کی وجہ سے اسے پھیلا کر بڑا بنا دیا تھا‘مجھ پر تین اور مقدمات بن چکے تھے‘ بہرحال تین دن بعد مجھے عدالت میں پیش کیا گیا‘ میرا وکیل چیختا رہا مگر جج نے مجھے جیل بھجوا دیا‘ میں جوں ہی جیل کے پھاٹک کے اندر داخل ہوا وہاں دنیا ہی مختلف تھی‘ دروازے سے لے کر کوٹھڑی تک بے عزتی‘ اذیت‘ ذلت اور قلت‘ اللہ دشمن کو بھی وہ جگہ نہ دکھائے‘ مجھے ایک ایسے چھوٹے سے س
کانسٹیبل نے میرے ہاتھ سے اتار لی تھی‘ بہرحال میرے دوست آئے‘ انہوں نے وکیلوں کا بندوبست کیا‘ میں نے پولیس سے اپنے رویے پر معافی بھی مانگی لیکن پولیس راضی نہ ہوئی‘ اس نے اگلے دن جج سے میرے خلاف تین دن کا ریمانڈ لے لیا‘ پولیس نے ان تین دنوں میں مجھے جی بھر کر ذلیل کیا‘ وہ مجھے پورے دن میں آدھ گھنٹے کے لیے حوالات سے نکالتے تھے‘ میں نے اس آدھ گھنٹے میں واش روم بھی کرنا ہوتا تھا‘ فیملی اور وکیل سے ملاقات بھی اور ایس ایچ او کے منت ترلے بھی‘ مجھے کپڑے تک نہ دیے گئے اور غسل کرنے کی اجازت بھی نہ ملی‘ تین دنوں میں میرا پورا حلیہ بدل گیا‘ داڑھی بڑھ گئی‘ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے‘ مچھروں نے کاٹ کاٹ کر میرا پورا جسم سُجا دیا‘ میرا وہ سوٹ جس پر میں ناز کرتا تھا وہ چیتھڑا بن کر لٹک گیا‘ جرابیں گندی ہو گئیں اور پسینے اور ڈسٹ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain