ی کا دین ہے‘‘۔ ’’قرنا مناسب رہے گا، اُس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے‘‘۔ ’’قرنے کی آواز سے مینڈھا ذہن میں آ جاتا ہے جس کے سینگ سے وہ بنتا ہے‘‘۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ جھنڈے، گھنٹیاں، نقارہ، قرنا کوئی بھی ان تجاویز سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ گھنٹیاں دیر تک کانوں میں جھنجھناتی رہتی ہیں، نقارہ دوران خون کو تیز کر دیتا ہے، جھنڈا ہوا کے رخ پر اڑتا ہے اور مخالف سمت سے نظر ہی نہیں آتا۔ پھر جھنڈا سوتے ہوؤں کو کیسے جگائے گا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن زیدؓ آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے کھسکتے ہوئے آگے آ رہے ہیں۔ عبداللہؓ انصار نے نہایت دھیمی آواز سے کہا: ’’یا رسول اللہؐ میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ سبز کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص ہاتھ میں ناقوس لیے جا رہا تھا۔ میں نے اُس سے کہا اے اللہ کے بندے کیا تم مجھے یہ ناقوس بیچ دو گے۔اُس سبز پوش نے پوچھا کیا
اور ساخت کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کر رہا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ اتنے میں جہاں تک مجھے یاد ہے علیؓ نے کہا: ’’میرے خیال میں مسجد میں ایک کمی ہے‘‘۔ سب اُن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے اوپر چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’وہاں کچھ ہونا چاہیے۔ کچھ ایسا انتظام جس سے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جا سکے‘‘۔ اس پر عمار ؓبولے:’’میرے خیال میں ہم وہاں ایک جھنڈا لگا دیں۔ نماز کے وقت لگا دیا، پھر اُتار لیا‘‘۔ اب سب اٹھ کر بیٹھ گئے اور گفتگو میں شامل ہو گئے۔ رسول کریمؐ یہ سب گفتگو نہایت دلچسپی سے سنتے رہے مگر خود کچھ نہیں بولے۔ ان کا انداز ایسا تھا گویا وہ گفتگو میں شریک ہیں بھی اور نہیں بھی۔ ’’ہم چھت پر گھنٹیاں کیوں نہ لگا دیں‘‘۔ ’’گھنٹیاں تو کلیساؤں میں لگاتے ہیں‘‘۔ ’’نقارہ لگانا چاہیے‘‘۔ ’’نقارہ جنگ اور خون کی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا دین امن اور سلامتی کا
مکہ پہنچتے ہی جب پہلی اذان سنی تو مجھے حضرت بلالؓ ابن رباح کا اذان سے متعلق کہا ہوا تاریخ ساز واقعہ یاد آ گیا جو مجھے چشم تصور اور روحانی طور پر مجھے اس محفل میں لے گیا جہاں یہ تاریخی ساعتیں قیامت تک کے لیے گواہ بن رہی تھیں۔
بقول حضرت بلالؓ بن رباح مدینے میں ہماری مسجد سے بہتر بنی ہوئی کئی عمارتیں تھیں کہ ہم لوگ کون سے فن تعمیر کے ماہر تھے۔ ہمیں تو یہ عمارت ساری دنیا کی عمارتوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی مسجد ایک دن اسلامی تمدن اور ریاست کا سرچشمہ بنے گی۔ مسجد جس دن مکمل ہوئی ہم لوگ تھک ہار کے مسجد کے فرش پر بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی دھوپ چھپر پر پڑے ہوئے کھجوروں کے پتوں کے درمیان سے چھن چھن کر نیچے آ رہی تھی۔ سبز پتوں کا سایہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ ہر شخص مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل پر اور ساخت
سیّد المرسلین، خاتم النبیّین ﷺ کا نامِ نامی بھی شامل تھا۔ سوال کے جواب میں ناظرین نے اپنے علم، مطالعے، معلومات، انسانی تاریخ اور انسانی تہذیب و تمدن کے تجزیے کی روشنی میں اپنی رائے انٹرنیٹ پر پیش کی کہ انسانی تاریخ کی وہ عظیم ترین اور بااثر شخصیت جس نے اپنی فکری، عملی اور اخلاقی قوت سے دنیا میں ایک عظیم اور مثالی انقلاب برپا کیا اور انسانی فکر و تاریخ کا دھارا موڑ کر سسکتی اور بلکتی انسانیت کو سعادت و فلاح کی راہ پر گام زن کیا، وہ پیغمبرِ اسلام، سرورِ کائنات، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔
✅✅✅
ر ہفت روزہ عربی جریدے ’’العالم الاسلامی‘‘ جون 2000ء میں ایک اہم خبر انٹرنیٹ سے متعلق شایع کی کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی “Microsoft” نے الفِ ثالث یعنی تیسرے ہزاریے (Millennium) کے موقع پر انٹرنیٹ پر دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ دنیا کی وہ عظیم ترین شخصیت کون ہے، جس نے اپنے فکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے اور دنیائے انسانیت اس کی فکر و اثر سے زیادہ متاثر ہوئی؟
کمپنی نے رائے دہی اور شخصیت کے انتخاب کے لیے امیدوار کے طور پر17شخصیات کے نام ذکر کیے تھے، جن میں انبیائے کرامؑ میں حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ سیّد ال
کہ ان کا تو دین و ایمان ہی رسول اﷲ، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت و محبّت میں مضمر ہے، غیروں اور غیر مسلموں کے کیمپ میں آئیے، وہ بھی آپ ﷺ کی عظمت اور رفعت کے قائل نظر آتے ہیں۔
مشہور مغربی مصنّف، ای ڈرمنگھم سیرتِ طیبہ پر اپنی کتاب: ’’دی لائف آف محمدؐ‘‘ میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتے ہیں: ’’محمد ﷺ اِس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں، جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں، بل کہ روشن اور منوّر ہے۔‘‘
مہارانی آرٹس کالج میسور (بھارت) کے پروفیسر راما کرشنا راؤ اپنی کتاب ’’محمدؐ، دی پرافٹ آف اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ محمد ﷺ میرے نزدیک ایک عظیم مفکّر ہیں۔ تمام اعلیٰ اور تمام انسانی سرگرمیوں میں آپؐ ہیرو کی مانند ہیں۔‘‘
21 ویں صدی کے آغاز میں رابطہ عالمِ اسلامی، مکّۃ مکرمہ نے اپنے مشہور ہفت روزہ عر
ں سے سرورِ کائناتؐ کا اسمِ گرامی خالقِ کائنات کے نامِ نامی کے ساتھ پکارا جارہا ہے۔
دشت و جبل، صحرا و دریا، بحر و بر، شہروں اور دیہاتوں، آبادیوں اور ویرانوں، سمندروں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں ہمہ وقت آپؐ کے نامِ نامی ’’محمد رسول اﷲ‘‘ کی پکار ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ اور کرّۂ ارض کا چپّا چپّا، سیّدِ عرب و عجم، ہادی عالم، حضرت محمد ﷺ کے نامِ مبارک کی پکار سے گونج رہا ہے۔ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ بلندی ذکر کی یہ وہ تفسیر ہے، جو اوراقِ لیل و نہار پر 14 سو سال سے ثبت چلی آرہی ہے۔
چشمِ بینا اسے صدیوں سے پڑھتی چلی آرہی ہے۔ سرکارِ دو جہاں ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مقدسہ کا یہ تاریخی اور ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بے گانے، مسلم اور غیر مسلم سب ہی آپؐ کے ثناء خواں اور آپؐ کی عظمت و رفعت کے معترف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اِس وقت چھوڑ دیجیے ک
گاؤں اور ان سب مہذّب ملکوں سمیت لندن، پیرس اور برلن کی آبادیوں میں ہر سال نہیں، ہر ماہ نہیں، ہر روز پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کائنات کے نام کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے، وہ اسی عظیم اور مقدّس ہستی کا ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا، یہ معنیٰ ہیں، یتیم کے راج کے، یہ تفسیر ہے ’’ورفعنالک ذِکرک‘‘ کی۔ کسی ایک صوبے پر، کسی ایک جزیرے پر نہیں، دنیا پر، دنیا کے اربہا لوگوں کے دِلوں پر آج حکومت ہے، تو اسی یتیم کی، راج ہے تو اسی اُمّی کا۔
آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، وہ کون سی ساعت، وہ کون سا لمحہ ہے، جو ذکرِ حبیب ﷺ سے خالی ہے؟ اس عالم شش جہات کے گوشے گوشے میں، گردشِ زمین کے ساتھ ہر اذان میں ہمہ وقت آپ ﷺ کا نامِ نامی بلند ہو رہا ہے۔ بلند و بالا میناروں سے سرورِ
گا۔
مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں: ’’آخر خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ جس کا نام زبانوں پر آتا ہے، اﷲ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے، وہ کسی قیصر و کسریٰ کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر و ادیب کا نہیں، کسی حکیم و فلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کا نہیں، کسی رشی کا نہیں، یہاں تک کہ کسی دوسرے پیغمبر کا بھی نہیں، بل کہ عبداﷲ کے لختِ جگر، آمنہ کے نورِ نظر، خاکِ بطحیٰ کے اسی اُمّی و یتیم ﷺ کا۔‘‘
کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیوں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیہ کی چوٹیوں میں، گنگا کی وادیوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، مِصر میں، ایران میں، عراق میں، فلسطین و عرب کی پوری سرزمین میں، تُرکیہ میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں ا
کا بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں خراجِ عقیدت پیش کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ اگر آپ اس وقت کے حالات کو پیشِ نظر رکھیں، جن میں یہ آیت نازل ہوئی اور پھر اِس آیت کو پڑھیں، تو پڑھنے کا لطف دوچند ہوجائے گا۔
کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی پوری دنیا مخالف ہے، مکّے کے نام وَر سردار چراغِ مصطفوی ﷺ بجھانے کے درپے ہیں۔ اِن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کون تصوّر کرسکتا تھا کہ مکّے کے اِس در یتیم ﷺ کا ذکرِ پاک دنیا کے ہر گوشے میں بلند ہوگا، آپ ﷺ کے دین کی روشنی سے مہذّب دنیا کا بہت بڑا علاقہ منوّر ہوگا اور کروڑوں انسان آپؐ کے نام پر جان دینے کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار و سعادت سمجھیں گے، لیکن جو وعدہ ربّ العالمین نے اپنے محبوب رسول اور برگزیدہ بندے حضرت محمد ﷺ سے کیا تھا، وہ پُورا ہوکر رہا اور قیامت تک ذکرِ محمد ﷺ کا آفتاب عالم تاب ضُوفشانیاں کرتا رہے گا۔
م
ل زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔ چوں کہ اذان میں خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی بھی بلند ہو رہا ہے، تو اسمِ محمد ﷺ کی عظمت و رفعت اس سے بھی نمایاں ہے کہ جب تک کرّہ ارض پر اذان کی آواز گونجتی رہے گی، اﷲ کے نام کے ساتھ اس کے محبوب پیغمبر، سیّدنا حضرت محمد ﷺ کا نامِ نامی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سماعتوں میں رَس گھولتا رہے گا۔
لادینیت کے اِس دَور میں بھی آپؐ کے دینِ متین کی تبلیغ اور آپؐ کی سیرت و پیغام عام کرنے کی کوششیں پورے خلوص کے ساتھ جاری ہیں۔ آپؐ کا اسم گرامی لے کر، آپؐ کا ذکرِ خیر کر کے اور آپؐ کے محاسن سن کر کروڑوں دِلوں کو جو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے، اس کا جواب نہیں۔ اپنے تو رہے ایک طرف، بے گانوں اور متعصّب مخالفین کا بھی بارگاہِ
نصیب ہُوا اور نہ ہوگا۔
علّامہ سیّد محمود آلوسی قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اِس سے بڑھ کر آپؐ کی عظمت و رفعت، آپؐ کی سیرتِ عظمٰی اور نامِ نامی کی بلندی کیا ہوگی کہ کلمۂ شہادت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نامِ نامی کے ساتھ اپنے محبوبؐ کا نام ملادیا، حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپؐ پر درود بھیجا اور اہلِ ایمان کو آپؐ پر درود بھیجنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا، معزز القابات سے مخاطب فرمایا۔ گزشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی آپؐ کا ذکرِ خیر فرمایا۔ تمام انبیائے کرامؑ اور اُن کی اُمّتوں سے عہد لیا کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے۔‘‘
آج کرّہ ارض پر آباد کوئی خطّہ زمین ایسا نہیں، جہاں شب و روز سرورِ دو عالم، رسول کریم حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ ہر پل زمین
سیّدِ عرب و عجم، ہادی اعظم، حضرت محمد ﷺ کی شخصیت و سیرتِ عظمٰی ازل سے ابد تک زمان و مکاں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کائنات کی ہر شے رسالتِ مآب ﷺ کی نبوّت و رسالت کے بے کراں جلال و جمال کی گرفت میں ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرکارِ دو جہاں، رحمۃ لّلعالمین، سیّد المرسلین، خاتم النبیین ﷺ کی مدحت و رفعت کا شاہد ہے۔ ’’اِنّا اعطیناک الکوثر‘‘ اور ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ کی دل آویز صداؤں سے زمین و آسمان گونج رہے ہیں۔
سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی، اسمِ گرامی ’’محمد رسول اﷲ‘‘ اور آپؐ کا ذکر اِتنا بلند ہُوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں اور تمام بلندیاں اس اسمِ مقدّس اور اِس عظیم ہستی کے سامنے پَست ہوکر رہ گئیں۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک سب آپؐ کے ذکرِ مبارک سے معمور ہیں۔ یہ رتبۂ بلند کُل کائنات میں آپؐ کے سِوا نہ کسی اور کو نصیب ہُوا اور نہ ہوگا۔
علّامہ س
تھے، صرف ایک مردِ مجاہد اس روایت کے خلاف تھا، فائز عیسیٰ جس نے ”فل کورٹ“ کو بحال کیا۔ آپ کے تعفن زدہ معاشرے نے اسی شخص کی نہ صرف ہتک کی بلکہ بڑھ چڑھ کر اس بیکری پہ پہنچنے لگے کہ جیسے وہاں شیرینی بٹ رہی ہو۔ ایک بارہویں فیل شخص جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باکردار شخص کے سامنے صرف ایک انتشاری جماعت کی حمایت میں زبان درازی کرے تو شاید یہ معاشرہ اسی قابل ہے کہ یہ اپنے جیسے منصفین کے ہاتھوں تاریخ پہ تاریخ بھگتتا رہے۔
✅✅✅
دوست احباب یا کسی دوسرے ادارے کا دباؤ نہیں ہوتا، ہمارے ہاں زوجہ ماجدہ کی دور کی ماسی کے تایا کے بیٹے کے دوست کا بھی انفلو اینس سیدھا جا کے سپریم کورٹ کے ججز پہ جتا رہا ہے۔ ادھر پاناما فیصلے کے وقت بنچ کے اہل و عیال سج دھج کر عدالت میں فیصلہ سننے بیٹھے تھے، جو کہ قانونی آئینی، اخلاقی اور شرعی لحاظ سے ایک شرمناک فعل تھا۔ 2016 سے اگلے چھ سات برس تک ”ہم خیال بنچوں“ کا تصور اپنے عروج پہ رہا، نثار اور بندیال دور میں بنچ بنتے ہی آپ فیصلے کا تعین کر لیتے تھے، صرف
ت الگ، گھر سرکاری، بجلی گیس پٹرول فری، اور یہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد بطور جہیز بھی لے جائیں گے، آپ اپنی چونچ ہسپتال میں پھنسانے کے بجائے کیس نبٹائیں، بھلا ہو جج صاحب کی غیر ضروری مداخلت کا پی کے ایل آئی پراجیکٹ اس طرح سے پھل پھول ہی نہیں پایا جیسا سوچا گیا تھا، قابل ڈاکٹر اس شاندار عزت افزائی پہ بستہ اٹھا کر واپس روانہ ہو گیا اور ہم آج بھی جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے براستہ دبئی انڈیا جا پہنچتے ہیں۔
پھر 2018 کے الیکشن کی رات ایک جج صاحب رات میں کورٹ کھول بیٹھے، شاہد خاقان عباسی کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کر دی، 2022 تلک تحریک انتشار کے علاوہ کسی اور پارٹی کا کیس سننا گوارا نہ کیا، سوال یہ ہے کہ تب الیکشن چوری کے علمبردار کہاں تھے؟ تب جمہوریت کے متوالے آخر کون سی بوٹی پھونک کر سو رہے تھے؟ دنیا کی کسی عدالت کے کسی منصف پر اس کے اہل خانہ، دوست
اور جج ماہانہ 2000 یونٹس بجلی بل سے مستثنیٰ ہو گا۔ میں تاحال کسی قانونی آرڈر میں وہ شق تلاش کرنے سے قاصر ہوں جس میں لکھا ہو کہ جج کا کام پرائیویٹ ہسپتال کی فیس کے تناسب کا تعین کرنا ہو یا ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنا ہو۔
جوڈیشل ایکٹوزم نام کی اصطلاح سے تقریباً سبھی واقف ہیں، لاکھوں کی تعداد میں پینڈنگ کیسز چھوڑ کر بیس لاکھ تنخواہ لینے والے جج صاحب کبھی ڈیم بنا رہے تھے تو کبھی ہسپتالوں پہ چھاپے مار رہے تھے، اور تو اور پی کے ایل آئی کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے باہر سے لائے گئے انتہائی قابل اور سینئر ڈاکٹر پہ برس پڑے کہ قوم فاقے کر رہی ہے آپ کو شرم نہیں آتی دس لاکھ تنخواہ لیتے ہوئے؟ بھلا مانس بول پڑا کہ صاحب جو میں باہر کماتا ہوں یہ اس کے مقابلے مونگ پھلی کے دانے بھی نہیں، اب کوئی منہ پھٹ ڈاکٹر ہوتا تو کہتا چچا آپ بیس لاکھ لیتے ہیں، مراعات الگ،
ن اور
پریشانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2 فروری سے 25 فروری 23 تک کل 24303 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مذکورہ مدت کے دوران 22018 نئے کیسز دائر کیے گئے۔ اگر معزز جج صاحبان کی مراعات اور کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو دونوں میں بہت حد تک تفریق نظر آتی ہے۔ مراعات کا تناسب نمٹائے جانے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، ایک چیف جسٹس کو ان کی آخری تنخواہ کے 85 فیصد پنشن ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بغیر کرائے کے سرکاری رہائش، مفت سہولیات (بجلی، پانی، گیس)، ایک ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ، 400 لٹر پیٹرول کے ساتھ ایک گاڑی، اعلیٰ عدالتی الاؤنس، انکم ٹیکس سے چھوٹ اور مفت ہوائی سفر۔ سپریم کورٹ کے ججز (پنشن اور استحقاق) آرڈر 1997 کے پیراگراف 25 (1) (سی) میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کا ہر سابق چیف جسٹس اور جج م
بیچارہ بھولا سا چاچا بولا نہ پتر اوس نے پنجی ورہے پہلے کیہا سی مینوں پنج سو ہزار دیوو میں مک مکا کرا دیناں، اوہی مک مکا کران وچ تسں ی پنجی ورہے وکھرے لائے، کچہری دے چکر وکھرے لوائے، وکیلاں دے خرچے وی کرائے تے فیصلہ اوہی سنا کے رولا مکایا جیہڑا ایس ایچ او موقع تے مکان لگا سی۔۔۔ یہ تو تھی ایک لوک داستان، لیکن دیکھا جائے تو یہ فقط لوک داستان نہیں کہانی گھر گھر کی ہے، کئی لوگ پیشیاں بھگتتے بھگتتے خود بھگت جاتے ہیں، کئی اپنی دسویں برسی پہ انصاف حاصل کرتے ہیں اور کئی تاحال اگلی پیشی پہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، انگریزی کا ایک مقولہ ہے ”جسٹس ڈیلیڈ از جسٹس ڈینائڈ“ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مقدمات کا التوا انصاف کے متمنی افراد پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے یہ اِلتوا متاثرہ افراد کے لیے طویل مدتی مایوسی، ڈپریشن اور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں کے ایک سیدھے سادھے زمیندار کا کچھ زمین کا مسئلہ بن گیا، فریقین کے مابین تو تو میں میں ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی اور پولیس بلا لی گئی، پولیس نے معاملہ رفع دفع کرانے کی ناکام کوشش کی اور پھر کیس عدالت میں چلا گیا، عدالت نے حسبِ عادت تاریخ پہ تاریخ دینا شروع کر دی، عمرِ رواں کے برس بیتتے گئے اور زمیندار لاٹھی پہ آ گیا تب جا کر کہیں فیصلہ ہو پایا، حضرت جج صاحب نے بڑے تفاخر سے زمیندار کو مخاطب کیا اور ارشاد مبارک فرمایا ”چاچا میں تہاڈا کیس حل کر دتا تسی کج کہنا چاہو گے؟“ چاچا نے ہلکا سا کھانس کے گلا صاف کیا اور گویا ہوئے ”تیری مہربانی پتر رب سوہنا تینوں وڈیاں ترقیاں دیووے، تینوں ایس ایچ او بھرتی کراوے“۔ جج صاحب اپنی شان میں اس گستاخی پہ تلملا اٹھے، کہنے لگے چاچا ایس ایچ او عہدے وچ میتھوں نکا اے، بیچارہ بھول
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain