گا۔ سبحان اللہ نوٹ: (مختلف مکاتب فکر کی متفقہ رائے ہے کہ اذان دینے کا اولین مشورہ بار گاہ رسالت مآبe میں فاتح عرب و عجم امیر المومنین سیّدنا عمر فاروقؓ نے دیا تھا جسے شرف قبولیت بخشا گیا۔ ) دراصل دنیا میں اِس سے پہلے اور اِس کے بعد بڑا انقلاب نہیں آیا جو آقا کریمؐ کی قیادت میں دنیا کی تاریخ بنا۔ حضرت بلالؓ بن رباح سے اذان دلانا ہی بذات خود ایک انقلاب تھا۔ برابری، مساوات، سب انسان برابر اور فوقیت تقویٰ کے سبب کا اعلان تھا۔ حضرت بلالؓ بن رباح جن کے تن پر کپڑے بھی پورے نہ تھے کی آواز، اذان پر دولت مند، قوی، جری، بڑے حسب نسب والے، بے نام، مردِ میدان، غریب امیر سبھی آ رہے ہیں جب تک دنیا رہے گی اذان کی آواز پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں ہر وقت آتی رہے گی۔ جب تک دنیا رہے گی بلالؓ کی اذان رہے گی۔✅✅✅
کو اٹھا کر بلند کرنے کا کہہ رہے ہوں۔ اسی لمحے مجھے اپنی آواز سنائی دی۔ پہلے بہت دور سے اور پھر آہستہ آہستہ قریب آتی ہوئی۔ یہ ہماری پہلی اذان تھی۔ میں اذان دے کر نیچے اُترا تو حضورؐ نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کہاں اللہ کا رسولؐ اور کہاں ایک غلام زادہ۔ بلالؓ اپنی خوش قسمتی پر جتنا ناز کرتے کم تھا۔ چاروں طرف لوگ ادھر اُدھر آ جا رہے تھے۔بہت دیر تک حضورؐ نے کچھ نہیں فرمایا۔ میں بھی ایک عجیب سرور سے سرشار تھا۔ اتنے میں میں اُن کی آواز پر چونکا: ’’بلال، تم نے میری مسجد مکمل کر دی‘‘…ان الفاظ پر میں نے وہیں شکرانے کے دو نفل ادا کیے۔ بلال حبشیؓ نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا تھا۔ لوگ اگر میرے بارے میں سب کچھ فراموش کر دیں، اور ویسے بھی میرے پاس یاد رکھے جانے کی کیا بات ہے مگر پھر بھی میں اسلام کے پہلے مؤذن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جاؤں گا۔ سب
حبشی کے ذمہ یہ خدمت سپرد کی گئی تھی کہ میں مسلمانوں کو نماز کی سعادت کے لیے بلایا کروں۔ یہ خود میرے لیے کتنی بڑی سعادت تھی۔ انہی باتوں میں نماز کا وقت ہو گیا تو اللہ کے رسولؐ نے مجھے حکم دیا: ’’جاؤ اُس چھت پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤ‘‘۔ جس چھت کی طرف انہوں نے اشارہ فرمایا تھا وہ مسجد سے ملحق بنو نجار کی ایک خاتون کے کچے گھر کی کچی چھت تھی۔ میں حسب حکم جوں توں کر کے اُس چھت پر چڑھ گیا،سب میری طرف دیکھ رہے تھے اور منتظر تھے۔ مگر وہ الفاظ، پہلے کیا تھا کہ اللہ کی توصیف، پیغمبر اسلامؓ کی شہادت، نماز کی دعوت سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا تھا۔ سب مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ رسالت مآبؐ تیسرے ستون کے پاس کھڑے تھے اُن کی نظریں بھی مجھ پر تھیں۔ پھر نبی کریمؐ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور مجھے اس انداز سے اشارہ کیا گویا مجھے دونوں ہاتھوں ک
ا کیا کرو گے اس کا…؟ میں نے جواب دیا اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا۔ اس پر اس نے کہا نماز کے لیے بلانے کا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ بتاتا ہوں۔ تم یہ کہاکرو: اللہ اکبر اللہ اکبر… اللہ اکبر اللہ اکبر … اشہد ان لا الہ الا اللہ … اشہد ان لا الہ الا اللہ … اشہد ان محمد رسول اللہ … اشہد ان محمد رسول اللہ … حی علی الصلوۃ… حی علی الصلوۃ… حی علی الفلاح… حی علی الفلاح… اللہ اکبر اللہ اکبر… لا الہ الا اللہ میں نے رسول اللہؐ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے ایک دو روز قبل حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی قسم کا خواب حضورؐ کو سنایا تھا ۔یہ طے ہو گیا تو اب سوال یہ تھا کہ یہ الفاظ کس کی آواز انداز میں ادا کیے جائیں گے۔’’بلال تمہاری آواز میں‘‘۔ حضورؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا۔ مجھ نا چیز سیاہ فام حبشی کے
ی کا دین ہے‘‘۔ ’’قرنا مناسب رہے گا، اُس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے‘‘۔ ’’قرنے کی آواز سے مینڈھا ذہن میں آ جاتا ہے جس کے سینگ سے وہ بنتا ہے‘‘۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ جھنڈے، گھنٹیاں، نقارہ، قرنا کوئی بھی ان تجاویز سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ گھنٹیاں دیر تک کانوں میں جھنجھناتی رہتی ہیں، نقارہ دوران خون کو تیز کر دیتا ہے، جھنڈا ہوا کے رخ پر اڑتا ہے اور مخالف سمت سے نظر ہی نہیں آتا۔ پھر جھنڈا سوتے ہوؤں کو کیسے جگائے گا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن زیدؓ آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے کھسکتے ہوئے آگے آ رہے ہیں۔ عبداللہؓ انصار نے نہایت دھیمی آواز سے کہا: ’’یا رسول اللہؐ میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ سبز کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص ہاتھ میں ناقوس لیے جا رہا تھا۔ میں نے اُس سے کہا اے اللہ کے بندے کیا تم مجھے یہ ناقوس بیچ دو گے۔اُس سبز پوش نے پوچھا کیا
اور ساخت کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کر رہا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ اتنے میں جہاں تک مجھے یاد ہے علیؓ نے کہا: ’’میرے خیال میں مسجد میں ایک کمی ہے‘‘۔ سب اُن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے اوپر چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’وہاں کچھ ہونا چاہیے۔ کچھ ایسا انتظام جس سے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جا سکے‘‘۔ اس پر عمار ؓبولے:’’میرے خیال میں ہم وہاں ایک جھنڈا لگا دیں۔ نماز کے وقت لگا دیا، پھر اُتار لیا‘‘۔ اب سب اٹھ کر بیٹھ گئے اور گفتگو میں شامل ہو گئے۔ رسول کریمؐ یہ سب گفتگو نہایت دلچسپی سے سنتے رہے مگر خود کچھ نہیں بولے۔ ان کا انداز ایسا تھا گویا وہ گفتگو میں شریک ہیں بھی اور نہیں بھی۔ ’’ہم چھت پر گھنٹیاں کیوں نہ لگا دیں‘‘۔ ’’گھنٹیاں تو کلیساؤں میں لگاتے ہیں‘‘۔ ’’نقارہ لگانا چاہیے‘‘۔ ’’نقارہ جنگ اور خون کی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا دین امن اور سلامتی کا
مکہ پہنچتے ہی جب پہلی اذان سنی تو مجھے حضرت بلالؓ ابن رباح کا اذان سے متعلق کہا ہوا تاریخ ساز واقعہ یاد آ گیا جو مجھے چشم تصور اور روحانی طور پر مجھے اس محفل میں لے گیا جہاں یہ تاریخی ساعتیں قیامت تک کے لیے گواہ بن رہی تھیں۔ بقول حضرت بلالؓ بن رباح مدینے میں ہماری مسجد سے بہتر بنی ہوئی کئی عمارتیں تھیں کہ ہم لوگ کون سے فن تعمیر کے ماہر تھے۔ ہمیں تو یہ عمارت ساری دنیا کی عمارتوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی مسجد ایک دن اسلامی تمدن اور ریاست کا سرچشمہ بنے گی۔ مسجد جس دن مکمل ہوئی ہم لوگ تھک ہار کے مسجد کے فرش پر بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی دھوپ چھپر پر پڑے ہوئے کھجوروں کے پتوں کے درمیان سے چھن چھن کر نیچے آ رہی تھی۔ سبز پتوں کا سایہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ ہر شخص مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل پر اور ساخت
سیّد المرسلین، خاتم النبیّین ﷺ کا نامِ نامی بھی شامل تھا۔ سوال کے جواب میں ناظرین نے اپنے علم، مطالعے، معلومات، انسانی تاریخ اور انسانی تہذیب و تمدن کے تجزیے کی روشنی میں اپنی رائے انٹرنیٹ پر پیش کی کہ انسانی تاریخ کی وہ عظیم ترین اور بااثر شخصیت جس نے اپنی فکری، عملی اور اخلاقی قوت سے دنیا میں ایک عظیم اور مثالی انقلاب برپا کیا اور انسانی فکر و تاریخ کا دھارا موڑ کر سسکتی اور بلکتی انسانیت کو سعادت و فلاح کی راہ پر گام زن کیا، وہ پیغمبرِ اسلام، سرورِ کائنات، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ ✅✅✅
ر ہفت روزہ عربی جریدے ’’العالم الاسلامی‘‘ جون 2000ء میں ایک اہم خبر انٹرنیٹ سے متعلق شایع کی کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی “Microsoft” نے الفِ ثالث یعنی تیسرے ہزاریے (Millennium) کے موقع پر انٹرنیٹ پر دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ دنیا کی وہ عظیم ترین شخصیت کون ہے، جس نے اپنے فکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے اور دنیائے انسانیت اس کی فکر و اثر سے زیادہ متاثر ہوئی؟ کمپنی نے رائے دہی اور شخصیت کے انتخاب کے لیے امیدوار کے طور پر17شخصیات کے نام ذکر کیے تھے، جن میں انبیائے کرامؑ میں حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ سیّد ال
کہ ان کا تو دین و ایمان ہی رسول اﷲ، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت و محبّت میں مضمر ہے، غیروں اور غیر مسلموں کے کیمپ میں آئیے، وہ بھی آپ ﷺ کی عظمت اور رفعت کے قائل نظر آتے ہیں۔ مشہور مغربی مصنّف، ای ڈرمنگھم سیرتِ طیبہ پر اپنی کتاب: ’’دی لائف آف محمدؐ‘‘ میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتے ہیں: ’’محمد ﷺ اِس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں، جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں، بل کہ روشن اور منوّر ہے۔‘‘ مہارانی آرٹس کالج میسور (بھارت) کے پروفیسر راما کرشنا راؤ اپنی کتاب ’’محمدؐ، دی پرافٹ آف اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ محمد ﷺ میرے نزدیک ایک عظیم مفکّر ہیں۔ تمام اعلیٰ اور تمام انسانی سرگرمیوں میں آپؐ ہیرو کی مانند ہیں۔‘‘ 21 ویں صدی کے آغاز میں رابطہ عالمِ اسلامی، مکّۃ مکرمہ نے اپنے مشہور ہفت روزہ عر
ں سے سرورِ کائناتؐ کا اسمِ گرامی خالقِ کائنات کے نامِ نامی کے ساتھ پکارا جارہا ہے۔ دشت و جبل، صحرا و دریا، بحر و بر، شہروں اور دیہاتوں، آبادیوں اور ویرانوں، سمندروں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں ہمہ وقت آپؐ کے نامِ نامی ’’محمد رسول اﷲ‘‘ کی پکار ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ اور کرّۂ ارض کا چپّا چپّا، سیّدِ عرب و عجم، ہادی عالم، حضرت محمد ﷺ کے نامِ مبارک کی پکار سے گونج رہا ہے۔ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ بلندی ذکر کی یہ وہ تفسیر ہے، جو اوراقِ لیل و نہار پر 14 سو سال سے ثبت چلی آرہی ہے۔ چشمِ بینا اسے صدیوں سے پڑھتی چلی آرہی ہے۔ سرکارِ دو جہاں ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مقدسہ کا یہ تاریخی اور ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بے گانے، مسلم اور غیر مسلم سب ہی آپؐ کے ثناء خواں اور آپؐ کی عظمت و رفعت کے معترف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اِس وقت چھوڑ دیجیے ک
گاؤں اور ان سب مہذّب ملکوں سمیت لندن، پیرس اور برلن کی آبادیوں میں ہر سال نہیں، ہر ماہ نہیں، ہر روز پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کائنات کے نام کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے، وہ اسی عظیم اور مقدّس ہستی کا ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا، یہ معنیٰ ہیں، یتیم کے راج کے، یہ تفسیر ہے ’’ورفعنالک ذِکرک‘‘ کی۔ کسی ایک صوبے پر، کسی ایک جزیرے پر نہیں، دنیا پر، دنیا کے اربہا لوگوں کے دِلوں پر آج حکومت ہے، تو اسی یتیم کی، راج ہے تو اسی اُمّی کا۔ آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، وہ کون سی ساعت، وہ کون سا لمحہ ہے، جو ذکرِ حبیب ﷺ سے خالی ہے؟ اس عالم شش جہات کے گوشے گوشے میں، گردشِ زمین کے ساتھ ہر اذان میں ہمہ وقت آپ ﷺ کا نامِ نامی بلند ہو رہا ہے۔ بلند و بالا میناروں سے سرورِ
گا۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں: ’’آخر خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ جس کا نام زبانوں پر آتا ہے، اﷲ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے، وہ کسی قیصر و کسریٰ کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر و ادیب کا نہیں، کسی حکیم و فلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کا نہیں، کسی رشی کا نہیں، یہاں تک کہ کسی دوسرے پیغمبر کا بھی نہیں، بل کہ عبداﷲ کے لختِ جگر، آمنہ کے نورِ نظر، خاکِ بطحیٰ کے اسی اُمّی و یتیم ﷺ کا۔‘‘ کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیوں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیہ کی چوٹیوں میں، گنگا کی وادیوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، مِصر میں، ایران میں، عراق میں، فلسطین و عرب کی پوری سرزمین میں، تُرکیہ میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں ا
کا بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں خراجِ عقیدت پیش کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ اگر آپ اس وقت کے حالات کو پیشِ نظر رکھیں، جن میں یہ آیت نازل ہوئی اور پھر اِس آیت کو پڑھیں، تو پڑھنے کا لطف دوچند ہوجائے گا۔ کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی پوری دنیا مخالف ہے، مکّے کے نام وَر سردار چراغِ مصطفوی ﷺ بجھانے کے درپے ہیں۔ اِن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کون تصوّر کرسکتا تھا کہ مکّے کے اِس در یتیم ﷺ کا ذکرِ پاک دنیا کے ہر گوشے میں بلند ہوگا، آپ ﷺ کے دین کی روشنی سے مہذّب دنیا کا بہت بڑا علاقہ منوّر ہوگا اور کروڑوں انسان آپؐ کے نام پر جان دینے کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار و سعادت سمجھیں گے، لیکن جو وعدہ ربّ العالمین نے اپنے محبوب رسول اور برگزیدہ بندے حضرت محمد ﷺ سے کیا تھا، وہ پُورا ہوکر رہا اور قیامت تک ذکرِ محمد ﷺ کا آفتاب عالم تاب ضُوفشانیاں کرتا رہے گا۔ م
ل زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔ چوں کہ اذان میں خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی بھی بلند ہو رہا ہے، تو اسمِ محمد ﷺ کی عظمت و رفعت اس سے بھی نمایاں ہے کہ جب تک کرّہ ارض پر اذان کی آواز گونجتی رہے گی، اﷲ کے نام کے ساتھ اس کے محبوب پیغمبر، سیّدنا حضرت محمد ﷺ کا نامِ نامی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سماعتوں میں رَس گھولتا رہے گا۔ لادینیت کے اِس دَور میں بھی آپؐ کے دینِ متین کی تبلیغ اور آپؐ کی سیرت و پیغام عام کرنے کی کوششیں پورے خلوص کے ساتھ جاری ہیں۔ آپؐ کا اسم گرامی لے کر، آپؐ کا ذکرِ خیر کر کے اور آپؐ کے محاسن سن کر کروڑوں دِلوں کو جو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے، اس کا جواب نہیں۔ اپنے تو رہے ایک طرف، بے گانوں اور متعصّب مخالفین کا بھی بارگاہِ
نصیب ہُوا اور نہ ہوگا۔ علّامہ سیّد محمود آلوسی قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اِس سے بڑھ کر آپؐ کی عظمت و رفعت، آپؐ کی سیرتِ عظمٰی اور نامِ نامی کی بلندی کیا ہوگی کہ کلمۂ شہادت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نامِ نامی کے ساتھ اپنے محبوبؐ کا نام ملادیا، حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپؐ پر درود بھیجا اور اہلِ ایمان کو آپؐ پر درود بھیجنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا، معزز القابات سے مخاطب فرمایا۔ گزشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی آپؐ کا ذکرِ خیر فرمایا۔ تمام انبیائے کرامؑ اور اُن کی اُمّتوں سے عہد لیا کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے۔‘‘ آج کرّہ ارض پر آباد کوئی خطّہ زمین ایسا نہیں، جہاں شب و روز سرورِ دو عالم، رسول کریم حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ ہر پل زمین
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain