Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاءاللہ یہی ہمارے قیام کی جگہ ہو گی۔ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جا سکے۔ دونوں بچوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفت طور پر قبول کرنے سے انکار کیا۔ زمین کی قیمت ادا کر کے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی۔
اس کی تعمیر کے وقت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ”یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں

MushtaqAhmed
 

دھوپ پڑنے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا۔ اس وقت سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عمرو بن عوف میں تقریباً دس راتوں تک قیام کیا اور وہ مسجد (قباء) جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہے وہ اسی دوران میں تعمیر ہوئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی پھر (جمعہ کے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے۔ آخر آپ کی سواری مدینہ منورہ میں اس مقام پر آ کر بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے۔ اس مقام پر چند مسلمان ان دنوں نماز ادا کیا کرتے تھے۔
یہ جگہ سہیل اور سہل (رضی اللہ عنہما) دو یتیم بچوں کی تھی اور کھجور کا یہاں کھلیان لگتا تھا۔ یہ دونوں بچے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی پرورش میں تھے جب آپ کی اونٹنی وہاں

MushtaqAhmed
 

آپ کے ساتھیوں کو دیکھا سفید سفید چلے آ رہے ہیں۔ (یا تیزی سے جلدی جلدی آ رہے ہیں) جتنا آپ نزدیک ہو رہے تھے اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریت کا چمکنا کم ہوتا جاتا۔ یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو! تمہارے یہ بزرگ سردار آ گئے جن کا تمہیں انتظار تھا۔
مسلمان ہتھیار لے کر دوڑ پڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حرہ پر استقبال کیا۔ آپ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ملنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے۔ انصار کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو سلام کر رہے تھے۔ لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ

MushtaqAhmed
 

عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید پوشاک پیش کی۔ ادھر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع ہو چکی تھی اور یہ لوگ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے لیکن دوپہر کی گرمی کی وجہ سے (دوپہر کو) انہیں واپس جانا پڑتا تھا۔
ایک دن جب بہت طویل انتظار کے بعد سب لوگ آ گئے اور اپنے گھر پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے چڑھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آ

MushtaqAhmed
 

وقت میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لیے پکارا۔ میری آواز پر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا۔ ان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا۔ اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غالب آ کر رہے گی۔
اس لیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے مارنے کے لیے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ پھر میں نے آپ کو قریش کے ارادوں کی اطلاع دی۔ میں نے ان حضرات کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا، مجھ سے کسی اور چیز کا بھی مطالبہ نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری سے کام لینا لیکن میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لیے ایک امن کی تحریر لکھ دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر ب

MushtaqAhmed
 

تھا۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی۔
پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لیے جا رہا تھا۔ آخر جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت سنی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار مڑ کر دیکھتے تھے، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے جب وہ ٹخنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر گر پڑا اور اسے اٹھنے کے لیے ڈانٹا میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا۔ بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا۔ میں نے تیروں سے فال نکالی لیکن اس مرتبہ بھی وہی فال آئی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا۔
اس وقت میں نے نبی کریم

MushtaqAhmed
 

ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا۔ (سراقہ یہ سب کچھ اس لیے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا) میں گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہوا اور ہوا کی رفتار کے ساتھ اسے لے چلا، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لیے ممکن تھا، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا۔
اسی وقت گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مجھے زمین پر گرا دیا۔ لیکن میں کھڑا ہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میں نے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں۔ فال (اب بھی) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا۔

MushtaqAhmed
 

حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیا اور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا سراقہ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی

MushtaqAhmed
 

محض سونگھنے ہی نہیں، دیکھنے سے بھی انسان پر بہت سے اچھےاثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کی خوبصورتی توجہ، ارتکاز اور ذہنی صلاحیت کو بڑھا سکتی ہے۔ چناچہ گھروں کے گلدان میں پھولوں کو سجانا ہمیشہ سے روایت رہی ہے ۔کیوں ان کو دیکھنے سے انسان میں اردگرد موجود نعمتوں کی قدر کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خود اعتمادی میں اضافہ اور مزاج میں ٹھہراؤ جیسے رویے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
end

MushtaqAhmed
 

لگتا ہے۔
خود کو پھول تحفہ کریں
محبت کے اظہار کے لیے پھول پیش کرنا صدیوں سے روایت رہی ہے لیکن ضروری نہیں کہ آپ دوسروں سے پھول وصول کرنے کے منتظر رہیں۔ اپنے آپ کو پھول آپ خود بھی تحفہ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کے فوائد مسلمہ ہیں۔ پھولوں کی خوشبو انسان کو سادہ زندگی کی جانب مائل کرتی ہے اور زندگی میں موجود نعمتوں کی شکر گزاری اور تعریفی جذبات ابھارتی ہے۔
شاید یہ پڑھنے والوں کے لیے حیران کن ہو مگر ان خوشبوں کا تعریف کے لفظوں اور شکریہ کے الفاظ سے گہرا تعلق ہے۔ محض سونگھ

MushtaqAhmed
 

کے لیے موضوع سمجھی جاتی ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پھول سونگنے سے انسان خود کو قدرت کے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے چناچہ اس کے جسم میں درد اور تکلیف کی شدت میں کمی دیکھی جاتی ہے۔ مختلف مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ پھول قریب رکھنے سے مریضوں کے جسم میں درد اور تناؤ میں کمی آتی ہے شاید اسی لیے عیادت میں پھولوں کا پیش کرنا ایک روایت ہے۔
کھانے کی میز پر پھولوں کا کیا کام؟
کیونکہ پھول دیکھنے، سونگھنے اور چھونے کی حس پر نہایت اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں، لہذا تین حسیات کے متحرک ہونے سے ہماری دیگر حسیات (سننے، چکھنے، چھٹی حس ) پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چناچہ اگر ایک ہی کھانے کو پھولوں کی موجودگی اور پھولوں کی غیر موجودگی میں کھایا جائے تو دونوں مرتبہ ذائقے میں نمایاں فرق محسوس ہو سکتا ہے۔ پھولوں کی موجودگی میں کھانے کا ذائقہ بہتر لگتا ہے۔

MushtaqAhmed
 

ائنس کہتی ہے کہ ہماری ان تین حسیات (دیکھنا، سونگھنا، چھونا) پھولوں سے قریب ہونے پر ان کی خوشبو، خوش نمائی اور نرمی کا سگنل دماغ کو بھیجتی ہیں۔ دماغ ان اشاروں کو وصول کرکے خوشی پیدا کرنے والے ہارمون ڈوپامین اور سکون کا باعث بننے والے ہارمون سیروٹونن کو پیدا کرتا ہے۔
چناچہ اگر یہ کہا جائے کہ پھول قریب ہونے سے انسان مسکراتا ہے، پرسکون محسوس کرتا ہے، اس کا ذہنی تناو کم ہوجاتا ہے اور مزاج بہتر ہوجاتا ہے، تو یہ محض لفاظی نہیں۔
کیا پھول جسمانی تکلیف کم کردیتے ہیں؟
یہ سچ ہے کہ مختلف پھول، مختلف ذہنی پریشانیوں سے نجات میں مدد دیتے ہیں مگر کچھ پھولوں کی خوشبو سے جسمانی امراض کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔ جیسے نیند کی کمی میں ڈاکٹر حضرات لوینڈر کی خوشبو کمرے میں پھیلانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسی طرح موتیا اور رات کی رانی کی لطیف خوشبو دن کے اوقات کے لیے مو

MushtaqAhmed
 

کیوں نہیں؟
خوشبو اور پھول
خوشبو کا سب سے پہلا ماخذ پھول ہی تھے۔ ان کی خوشبوؤں کو محفوظ کر کے عطر بنانے کا رواج قائم ہوا۔ مغل ملکہ نورِ جہاں کو ان کے پھولوں کے باغ اور نت نئی خوشبوؤں کو بنانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گلاب کا عطر انہی کی ایجاد ہے۔
کیونکہ پھولوں کی ایک عمر ہوتی ہے اور یہ اسی دوران خوشبو اور رنگ دکھا پاتے ہیں، چناچہ ان کی خوشبو کو زیادہ وقت تک اپنے ساتھ رکھنے کے لیے پرفیوم اور عطر ایجاد ہوا۔ آج بازار میں کئی پھولوں کی خوشبو کو ملاکر بنائے جانے والے عطر، تیل، لوبان اور بخور وغیرہ عام ہیں۔
پھول پریشانی کیسے کم کرتے ہیں؟
دراصل انسان کی نفسیات پر اس کا اثر جتنا لطیف اور صحت بخش ہوتا ہے، شاید کسی اور شے کا نہ ہو۔ محض دیکھنے، سونگھنے اور چھونے سے ہی انسان کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سائنس ک

MushtaqAhmed
 

M
شاید یہ پڑھنے والوں کے لیے حیران کن ہو مگر ان خوشبوں کا تعریف کے لفظوں اور شکریہ کے الفاظ سے گہرا تعلق ہے
تحریر: حذیفہ عاطف (کراچی)
خوش نما، خوش رنگ اور خوشبودار۔ پھول محبت، چاہت اور لگاؤ کے احساس کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یوں تو پھول کسی بھی پودے کے تولیدی اعضا ہیں۔ یعنی اس میں بیچ موجود ہوتے ہیں جو اگلے پودے کی پیدائش کا باعث بنتے ہیں۔ شاید اسی بنا پر اسے محبت کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ کائنات میں محبت ہی کائنات کو قائم رکھنے کا باعث ہے۔
پھول قدیم وقت سے محبت کا استعارہ
قدیم یونان میں پھول شاعری اور ادب میں بھی استعمال ہوتے رہے ہیں، جہاں وہ خوبصورتی اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے تھے اور قدیم دیوی دیوتاؤں کا تعلق پھولوں سے رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھول ہی کیوں؟ کچھ اور کیوں نہیں

MushtaqAhmed
 

نہ صرف انہیں بلکہ ان سے وابستہ تمام انسانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ خود بھی ایک دن اسی آگ میں جلتے ہیں۔ جادو ٹونے کا نظام ایسا ہے کہ ایک دن شکاری کو ہی خود شکار کر لیتا ہے۔ کالا علم کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی برباد ہو جاتی ہیں، دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے ان پر کہ وہ مر مر کر جیتے ہیں۔
end

MushtaqAhmed
 

اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ جذبات رکھتا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ مایا کے موہ کی حسرت میں گرفتار ہو کر فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور پھر اس روش پر چلنے کے منفی اثرات نہ صرف انہیں بلکہ ا

MushtaqAhmed
 

جس میں شیطان سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی غلامی کرتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان اعمال سے خوش ہوتا ہے جن سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوں بعض گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الزخرف) ہمارے ملک میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے وہیں کالے جادو جیسی بہت بڑی لعنت بھی اندھیر نگری کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریق

MushtaqAhmed
 

کے اثرات کسی حد تک انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تباہ کرنے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بچو۔ اس صورت میں کے جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے ہے، کا بین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں اور جنات میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں جن کا مقصد سادہ انسانوں کو تکلیف اور اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ بکثرت گناہوں کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جادو دنیا کی سب سے مؤثر قوت ہے جو غائبانہ بلا تجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ جادو دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالا جادو ایک ایسا علم ہے جس میں

MushtaqAhmed
 

) قدیم مصر، بابل، ہندوستان اور یونان کی تہذیبوں میں جادو کو ایک مؤثر ہتھیار، مذہبی روایت اور روحانی علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مصر کے پجاری مخصوص عملیات کے ذریعے دیوتائوں سے مدد لینے کے دعوے کرتے تھے، جبکہ بابلی جادوگر ستاروں کی چالوں اور تعویزات کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ برصغیر میں تنتر و منتر کو جادوئی اثرات سے جوڑا جاتا ہے جبکہ یونانی اور رومی فلسفی جادو کو فطری قوتوں پر قابو پانے کا فن قرار دیتے تھے۔ عیسائیت میں جادو کو شیطان سے منسلک کیا جاتا ہے، جبکہ یہودیت میں کبالہ کی روایات میں جادوئی اثرات کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ہندو مت میں جادو کو روحانی توانائی کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے مایا (وہم) یا ذہنی قوت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی جادو ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے اثرات کسی ح

MushtaqAhmed
 

ں بار بار ہر قسم کے جادو کی مذمت کی گئی ہے۔ دینِ اسلام میں جادو سیکھنا اور اس کے ذریعے جنات کا تعاون حاصل کر کے انسانوں کو تکلیف سے دوچار کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفریہ کام ہے جو شیاطین کے ذریعے سے شرک کے در وا کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا تھا، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز کو بھی جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘۔ (البقرہ: 102) قدیم مص