Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

سیّدِ عرب و عجم، ہادی اعظم، حضرت محمد ﷺ کی شخصیت و سیرتِ عظمٰی ازل سے ابد تک زمان و مکاں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کائنات کی ہر شے رسالتِ مآب ﷺ کی نبوّت و رسالت کے بے کراں جلال و جمال کی گرفت میں ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرکارِ دو جہاں، رحمۃ لّلعالمین، سیّد المرسلین، خاتم النبیین ﷺ کی مدحت و رفعت کا شاہد ہے۔ ’’اِنّا اعطیناک الکوثر‘‘ اور ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ کی دل آویز صداؤں سے زمین و آسمان گونج رہے ہیں۔
سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی، اسمِ گرامی ’’محمد رسول اﷲ‘‘ اور آپؐ کا ذکر اِتنا بلند ہُوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں اور تمام بلندیاں اس اسمِ مقدّس اور اِس عظیم ہستی کے سامنے پَست ہوکر رہ گئیں۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک سب آپؐ کے ذکرِ مبارک سے معمور ہیں۔ یہ رتبۂ بلند کُل کائنات میں آپؐ کے سِوا نہ کسی اور کو نصیب ہُوا اور نہ ہوگا۔
علّامہ س

MushtaqAhmed
 

تھے، صرف ایک مردِ مجاہد اس روایت کے خلاف تھا، فائز عیسیٰ جس نے ”فل کورٹ“ کو بحال کیا۔ آپ کے تعفن زدہ معاشرے نے اسی شخص کی نہ صرف ہتک کی بلکہ بڑھ چڑھ کر اس بیکری پہ پہنچنے لگے کہ جیسے وہاں شیرینی بٹ رہی ہو۔ ایک بارہویں فیل شخص جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باکردار شخص کے سامنے صرف ایک انتشاری جماعت کی حمایت میں زبان درازی کرے تو شاید یہ معاشرہ اسی قابل ہے کہ یہ اپنے جیسے منصفین کے ہاتھوں تاریخ پہ تاریخ بھگتتا رہے۔
✅✅✅

MushtaqAhmed
 

دوست احباب یا کسی دوسرے ادارے کا دباؤ نہیں ہوتا، ہمارے ہاں زوجہ ماجدہ کی دور کی ماسی کے تایا کے بیٹے کے دوست کا بھی انفلو اینس سیدھا جا کے سپریم کورٹ کے ججز پہ جتا رہا ہے۔ ادھر پاناما فیصلے کے وقت بنچ کے اہل و عیال سج دھج کر عدالت میں فیصلہ سننے بیٹھے تھے، جو کہ قانونی آئینی، اخلاقی اور شرعی لحاظ سے ایک شرمناک فعل تھا۔ 2016 سے اگلے چھ سات برس تک ”ہم خیال بنچوں“ کا تصور اپنے عروج پہ رہا، نثار اور بندیال دور میں بنچ بنتے ہی آپ فیصلے کا تعین کر لیتے تھے، صرف

MushtaqAhmed
 

ت الگ، گھر سرکاری، بجلی گیس پٹرول فری، اور یہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد بطور جہیز بھی لے جائیں گے، آپ اپنی چونچ ہسپتال میں پھنسانے کے بجائے کیس نبٹائیں، بھلا ہو جج صاحب کی غیر ضروری مداخلت کا پی کے ایل آئی پراجیکٹ اس طرح سے پھل پھول ہی نہیں پایا جیسا سوچا گیا تھا، قابل ڈاکٹر اس شاندار عزت افزائی پہ بستہ اٹھا کر واپس روانہ ہو گیا اور ہم آج بھی جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے براستہ دبئی انڈیا جا پہنچتے ہیں۔
پھر 2018 کے الیکشن کی رات ایک جج صاحب رات میں کورٹ کھول بیٹھے، شاہد خاقان عباسی کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کر دی، 2022 تلک تحریک انتشار کے علاوہ کسی اور پارٹی کا کیس سننا گوارا نہ کیا، سوال یہ ہے کہ تب الیکشن چوری کے علمبردار کہاں تھے؟ تب جمہوریت کے متوالے آخر کون سی بوٹی پھونک کر سو رہے تھے؟ دنیا کی کسی عدالت کے کسی منصف پر اس کے اہل خانہ، دوست

MushtaqAhmed
 

اور جج ماہانہ 2000 یونٹس بجلی بل سے مستثنیٰ ہو گا۔ میں تاحال کسی قانونی آرڈر میں وہ شق تلاش کرنے سے قاصر ہوں جس میں لکھا ہو کہ جج کا کام پرائیویٹ ہسپتال کی فیس کے تناسب کا تعین کرنا ہو یا ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنا ہو۔
جوڈیشل ایکٹوزم نام کی اصطلاح سے تقریباً سبھی واقف ہیں، لاکھوں کی تعداد میں پینڈنگ کیسز چھوڑ کر بیس لاکھ تنخواہ لینے والے جج صاحب کبھی ڈیم بنا رہے تھے تو کبھی ہسپتالوں پہ چھاپے مار رہے تھے، اور تو اور پی کے ایل آئی کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے باہر سے لائے گئے انتہائی قابل اور سینئر ڈاکٹر پہ برس پڑے کہ قوم فاقے کر رہی ہے آپ کو شرم نہیں آتی دس لاکھ تنخواہ لیتے ہوئے؟ بھلا مانس بول پڑا کہ صاحب جو میں باہر کماتا ہوں یہ اس کے مقابلے مونگ پھلی کے دانے بھی نہیں، اب کوئی منہ پھٹ ڈاکٹر ہوتا تو کہتا چچا آپ بیس لاکھ لیتے ہیں، مراعات الگ،

MushtaqAhmed
 

ن اور
پریشانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2 فروری سے 25 فروری 23 تک کل 24303 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مذکورہ مدت کے دوران 22018 نئے کیسز دائر کیے گئے۔ اگر معزز جج صاحبان کی مراعات اور کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو دونوں میں بہت حد تک تفریق نظر آتی ہے۔ مراعات کا تناسب نمٹائے جانے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، ایک چیف جسٹس کو ان کی آخری تنخواہ کے 85 فیصد پنشن ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بغیر کرائے کے سرکاری رہائش، مفت سہولیات (بجلی، پانی، گیس)، ایک ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ، 400 لٹر پیٹرول کے ساتھ ایک گاڑی، اعلیٰ عدالتی الاؤنس، انکم ٹیکس سے چھوٹ اور مفت ہوائی سفر۔ سپریم کورٹ کے ججز (پنشن اور استحقاق) آرڈر 1997 کے پیراگراف 25 (1) (سی) میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کا ہر سابق چیف جسٹس اور جج م

MushtaqAhmed
 

بیچارہ بھولا سا چاچا بولا نہ پتر اوس نے پنجی ورہے پہلے کیہا سی مینوں پنج سو ہزار دیوو میں مک مکا کرا دیناں، اوہی مک مکا کران وچ تسں ی پنجی ورہے وکھرے لائے، کچہری دے چکر وکھرے لوائے، وکیلاں دے خرچے وی کرائے تے فیصلہ اوہی سنا کے رولا مکایا جیہڑا ایس ایچ او موقع تے مکان لگا سی۔۔۔ یہ تو تھی ایک لوک داستان، لیکن دیکھا جائے تو یہ فقط لوک داستان نہیں کہانی گھر گھر کی ہے، کئی لوگ پیشیاں بھگتتے بھگتتے خود بھگت جاتے ہیں، کئی اپنی دسویں برسی پہ انصاف حاصل کرتے ہیں اور کئی تاحال اگلی پیشی پہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، انگریزی کا ایک مقولہ ہے ”جسٹس ڈیلیڈ از جسٹس ڈینائڈ“ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مقدمات کا التوا انصاف کے متمنی افراد پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے یہ اِلتوا متاثرہ افراد کے لیے طویل مدتی مایوسی، ڈپریشن اور

MushtaqAhmed
 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں کے ایک سیدھے سادھے زمیندار کا کچھ زمین کا مسئلہ بن گیا، فریقین کے مابین تو تو میں میں ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی اور پولیس بلا لی گئی، پولیس نے معاملہ رفع دفع کرانے کی ناکام کوشش کی اور پھر کیس عدالت میں چلا گیا، عدالت نے حسبِ عادت تاریخ پہ تاریخ دینا شروع کر دی، عمرِ رواں کے برس بیتتے گئے اور زمیندار لاٹھی پہ آ گیا تب جا کر کہیں فیصلہ ہو پایا، حضرت جج صاحب نے بڑے تفاخر سے زمیندار کو مخاطب کیا اور ارشاد مبارک فرمایا ”چاچا میں تہاڈا کیس حل کر دتا تسی کج کہنا چاہو گے؟“ چاچا نے ہلکا سا کھانس کے گلا صاف کیا اور گویا ہوئے ”تیری مہربانی پتر رب سوہنا تینوں وڈیاں ترقیاں دیووے، تینوں ایس ایچ او بھرتی کراوے“۔ جج صاحب اپنی شان میں اس گستاخی پہ تلملا اٹھے، کہنے لگے چاچا ایس ایچ او عہدے وچ میتھوں نکا اے، بیچارہ بھول

MushtaqAhmed
 

ے لگا جب آپ کو وقت اس پیالے میں پینے پر مجبور کرے گا اور بادشاہ سلامت وہ وقت آ گیا شاہ جہاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ آنسو اگر نہ بھی آتے تو بھی بادشاہ نے باقی زندگی پانی اسی ٹوٹے ہوئے پیالے میں پینا تھا کیوں؟ کیوں کہ یہ دنیا ایک وادی ہے اور اس وادی میں ہر شخص کو اپنی انا، اپنے تکبر اور اپنی حماقتوں کی بازگشت بہرحال سننا پڑتی ہے۔بہرحال جو حال ملک عزیز کا ان حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کر دیا ہے۔اس کی سزا انہیں ملنی ہے اور انہیں روزِ قیامت حساب دینا ہوگا مگر وقت گزر چکا ہو گا اور انہیں ٹوٹا ہوا پیالہ بھی میسر نہ ہوگا اور یہ لوگ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں اور خود کو کھلا دھوکہ دے رہے ہیں۔✅✅✅

MushtaqAhmed
 

اپنے والد کو قید میں ڈال دیا اور وہ تمام غلام اور ملازمین بوڑھے بادشاہ پر تعینات کر دیئے جنہیں کبھی شاہ جہاں نے سزائیں دی تھیں، وہ پانی پلانے والا غلام بھی ان ملازموں میں شامل تھا، بادشاہ کو قید میں پیاس محسوس ہوئی،پانی مانگا، غلام آیا اور پیالہ بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا، بادشاہ نے پیالے کو غور سے دیکھا، وہ شکستہ تھا اور کسی نے اس کی کرچیاں، اس کی ٹھیکریاں جوڑ کر اسے قابل استعمال بنایا تھا، بادشاہ نے حسرت سے پیالہ دیکھا اور پھر غلام کی طرف دیکھ کر پوچھا میرے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ غلام نے مسکرا کر عرض کیا حضور یہ وقت کا سلوک ہے۔یہ وہی پیالہ ہے جس کا ایک کونا بھرنے پر آپ نے اس میں پانی پینے سے انکار کر دیا تھا اور اسے زمین پر مار کر توڑ دیا تھا، میں نے اس ٹوٹے ہوئے پیالے کی کرچیاں اٹھا لی تھیں، میں نے انھیں جوڑا اور اس گھڑی کا انتظار کرنے لگا

MushtaqAhmed
 

بات یہ قرآن اور سنت نبوی ﷺپر کس قدر عمل کرتے اور کراتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے پاس ایک ترک غلام تھا، وہ بادشاہ کو پانی پلانے پر تعینات تھا، سارا دن پیالہ اور صراحی اٹھا کر تخت کے پاس کھڑا رہتا تھا، بادشاہ اس کی طرف دیکھتا تھا تو وہ فوراً پیالہ بھر کرپیش کر دیتا تھا، وہ برسوں سے یہ ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور بڑی حد تک بادشاہ کا رمز شناس ہو چکا تھا لیکن ایک دن اس سے غلطی ہو گئی۔بادشاہ کو پیالہ پیش کیا، بادشاہ گھونٹ بھرنے لگا تو شاہی پیالے کا ایک کنارہ جھڑا ہوا تھا اور ٹوٹے ہوئے پیالے میں پانی پینا ہندوستان کے بادشاہ کی توہین تھی، بادشاہ نے پیالہ نیچے دے مارا اور غلام کو بیس کوڑے لگانے کی سزا سنا دی۔بادشاہ کا حکم آخری حکم تھا، غلام کو کوڑے بھی لگ گئے اور وہ ڈیوٹی سے فارغ بھی ہو گیا، وقت بدلا، اورنگزیب عالمگیر نے اپنے و

MushtaqAhmed
 

بنانے میں ایک لمحہ لیتی ہے۔یہ بڑے بڑے بادشاہوں، حکمرانوں، شہ سواروں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور وقت کے فرعونوں کو ایک لمحے میں موت کی سرحد کے پار پھینک دیتی ہے۔ یہ ایک پلڑے میں ایک تولے کو دوسرے پلڑے میں موجود ہزاروں ٹن سے بھارا کردیتی ہے۔آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجیے کتنے کتنے لوگ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ نہ رہے تو شاید انکی مملکت کا نظام نہیں چل سکے گا؟اگر وہ ہاتھ کھینچ لیں گے تو انتظام و انصرام کا تختہ الٹ جائے گا؟ مگر یہ سب انکی خام خیالی تھی؟ انکا وہم تھا؟ کائنات یوں کی توں ہے اور اسکا اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات ہے۔
وہ ذات صرف انسانوں کو اقتدار دے کر آزماتا ہے کہ یہ مخلوق کا خیال کتنا رکھتے ہیں؟یہ ذمہ دار کتنے ہیں؟یہ محبِ وطن کتنے ہیں؟یہ امانت دار اور دیانت دار کتنے ہیں؟یہ اقربا پرور کتنے ہیں اور سب سے بڑی

MushtaqAhmed
 

ا ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
بہت کچھ حاصل کر کے اور بہت کچھ کھو کر انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ہر قدم اپنی منزل کی طرف اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ کبھی زندگی کا یہ سفر اتنا خوبصورت محسوس ہوتا ہے کہ انسان چاہتا ہے زندگی کے یہ خوبصورت لمحات ہمیشہ کیلئے یہیں تھم جائیں، مگر انسان ان خوبصورت لمحوں کو ہر قدم پیچھے چھوڑتے ہوئے بھی زندگی کے سفر پر گامزن رہتا ہے اور کبھی یہ سفر اتنا کٹھن ہو جاتا ہے کہ انسان اسے جلدی سے طے کر کے اپنی منزل کو پانے کی خواہش کرتا ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود زندگی بہت عجیب و غریب کرشمے دکھاتی ہے۔یہ بادشاہ کو قیدی بنا سکتی ہے اور قیدی کو بادشاہ بنا سکتی ہے۔یہ وقت کو ظالم اور انسان کو
مظلوم بنانے میں ایک

MushtaqAhmed
 

زندگی کیا ہے؟ یہ معدوم سے وجود اور وجود سے معدوم ہونے تک کرب و خوشی کے بے شمار لمحات، امیدوں اور مایوسیوں کے تسلسل، محبتوں اور نفرتوں کی داستان، خوش گمانیوں اور بدگمانیوں کے طویل سلسلے سے بھرپور محدود و متعین وقت کا نام ہے۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل (موت) تو متعین، لیکن راہیں جدا جدا ہیں۔
زندگی ایک طویل انتظار اور ہر گزرتے پل ایک نئے امتحان کا نام ہے۔ ایک چیلنج ہے جسے ہر کسی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ایک شمع ہے جسے پگھلتے پگھلتے آخر کار ختم ہونا ہے۔ ایک بلبلہ ہے جو ابھرتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ ایک چراغ ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ ایک ایسی عمارت ہے جو کبھی نہ کبھی مسمار ہو کر ہی رہتی ہے۔ ایک ایسی خواہش کا نام ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایسا فریب ہے جس کی حقیقت موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چکبست برج نرائن نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی کیا ہے عن

MushtaqAhmed
 

پورا معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ کام سارے یہ خود چوروں، ڈاکوئوں، فراڈیوں اور نوسربازوں والے کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں چوراورڈاکوکل بھی حکمران تھے اورآج بھی حکمران ہیں۔ان کی شکلیں دیکھ کرایسالگتاہے کہ ان سے بڑے فرشتے کوئی ہوں ہی نہ۔ وقت آگیاہے کہ ایسے حرام خوروں اوربے ایمانوں پرہاتھ ڈال کرانسانیت کوتباہ ہونے سے بچایاجائے نہیں تواس ملک میں ادویات اورکھانے پینے والی اشیاء کے نام پر زہربیچنے والے یہ درندے توہوں گے لیکن انسان پھرنہیں ملیں گے۔اس لئے انسانیت کوبچانے کے لئے ان درندوں کاقلع قمع کرنافرض ہی نہیں بلکہ اس قوم کا قرض بھی ہے۔

MushtaqAhmed
 

تھما دیا۔ دو تین دن بعد ہم نے پوچھا دوائیوں سے کوئی فرق پڑا۔کہنے لگے حرام بااللہ ذرہ بھی کوئی فرق پڑاہوا۔یہ کسی ایک راشدخان یاکسی ایک گاؤں،دیہات،شہراورصوبے کی بات اورمسئلہ نہیں۔اس وقت کراچی سے سیاچن،چترال سے مکران اورلاہورسے کشمیرتک پوراملک جعل سازوں،فراڈیوں اورنوسربازوں کے نرغے میں ہے۔ادویات کیا۔؟ان ظالموں سے تواس ملک میںعام کھانے پینے کی اشیاء اوردودھ تک محفوظ نہیں۔ہرگلی،چوک اورچوراہے پرصحت کے نام پرموت بانٹی جارہی ہے۔کاروبارسے وابستہ تقریباًپچانوے فیصدلوگ رزق کے نام پرزہربیچ رہے ہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ ان ظالموں اورچھپے قاتلوں پرہاتھ ڈالنے والاکوئی نہیں،کوالٹی چیک کے نام پراس ملک میں کئی محکمے اوردرجنوں افسران ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ قوم کے ان دشمنوں پرہاتھ ڈالیں۔ان مفادپرستوں کی حرص اورلالچ کی وجہ سے پورا معاشرہ تباہ ہو

MushtaqAhmed
 

موت سے کیاگلہ۔؟ مریض یامریضوں کولگنے والے انجکشن اوراسے منوں کے حساب سے دی جانے والی دوائیاں اصلی ہیں یاجعلی اس سوال کاجواب کسی کے پاس نہیں،خودڈاکٹروں کوبھی پتہ نہیں ہوتاکہ کونسی دوائی اصلی ہے اورکونسی جعلی۔اس ملک اورمعاشرے میںدونمبر،جعلی اور غیرمعیاری ادویات اوردیگراشیاء نے انسانیت کوتباہ کرکے رکھ دیاہے۔یہاںغریب لوگ بکری، گائے، بھینس اوردیگرمال مویشی بیچ کراپناعلاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دوائیوں پردوائیاں کھانے اورانجکشن لگانے کے باوجودانہیں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔پہلے پیراسٹامول اورپیناڈول کی ایک گولی کااثربھی کئی دن تک رہتالیکن اب لوگ گولیوں پرگولیاں کھانے اوردوائیاں پھونکنے کے باوجودمعمولی سافرق اوراثرتک محسوس نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست راشدخان شدیدبیمارہوئے،ڈاکٹرکے پاس گئے تواس نے بیس کلووالاپوراتھیلادوائیوں سے بھر کر تھم

MushtaqAhmed
 

سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں سب سے بڑا اور کامیاب تاجر، سرمایہ دار، کسان، زمیندار اور صنعتکار وہ ہے جس کے ہاتھ سے مارکیٹ، بازار اور دکان آنے والے لوگوں کوسب سے زیادہ نقصان اورتکلیف پہنچے۔ ہمارا کام اور مقصد صرف پیسے بٹورناہے آگے ہمارے ہاتھوں یاہماری حرص اور لالچ کی وجہ سے کوئی بھوک سے مرے یاغیرمعیاری اشیاء وادویات کھانے سے تڑپے۔ اس سے ہماراکوئی سروکار نہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے آبائی گاؤں جوزضلع بٹگرام میں ایک رشتہ دارخاتون زبیرگلالاکی اہلیہ کوباؤلے کتے نے کاٹاجسے فوری طورپرمہنگے انجکشن لگائے گئے اور پھر انجکشن کاکورس بھی مکمل کرایا گیا لیکن اس کے باوجود ان انجکشن کاکوئی اثرنہیں ہوا۔ ماناکہ موت اٹل حقیقت ہے ٹائم پورا ہو تویہ پھرانجکشن اور ادویات سے بھی نہیں رکتالیکن مریض کولگنے والے انجکشن اوردوائیاں ہی اگر دونمبر اور غیرمعیاری ہوں تو پھر موت سے ک

MushtaqAhmed
 

۔اصلی اورمعیاری چیزبنانے کاہمیں نہیں پتہ لیکن دونمبراورجعلی اشیاء بنانے کے توہم ماہر اور ماسٹرہیں۔ایسی کونسی چیزہے جس کی ہم نے کاپی مارکیٹ میں نہ لائی ہو۔ہماری مارکیٹیں،
دکان،بازاراورگھربارجعلی اشیائ، جھوٹ، فریب اور دھوکے سے بھرے پڑے ہیں۔ باہر کی دنیا میں تاجر، سرمایہ دار، صنعتکار اور بیوپاری کاروبارکے ذریعے انسانیت کی خدمت کا عزم، ارادہ اورنیت کرکے گھروں سے نکلتے ہیں اور ہم۔؟ ہم رات کو خواب میں بھی اپنے مجبور، لاچار اور بے بس مسلمان بھائیوں کولوٹنے،کاٹنے اور ڈسنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ ہمارا ارادہ، مقصد اور مشن ہی یہ ہوتاہے کہ گاہگ کوکیسے لوٹا اور ڈسا جائے۔؟ ایک غریب، مجبور اور لاچارانسان کو دس روپے کی شے پانچ سو اور ہزار میں پکڑانا یہ توہمارے ہاں عام بلکہ سرعام ہے۔ آنے والے گاہک اور سائل کوبڑے سے بڑاٹیکہ لگانے کو ہم ترقی اور کامیاب کاروبار

MushtaqAhmed
 

بے ایمان ہیں اورجھوٹے ونوسربازہیں بلکہ اس ملک میں ہرچور،بے ایمان اورڈاکودوسروں کی طرف انگلی کرکے کہتاہے کہ میرے سواسارے لوگ خراب ہیں۔کچھ دن پہلے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں یہ انکشاف کیا گیاکہ یہاں دودھ کے نام پر زہربیچاجارہاہے۔سومیں کوئی پندرہ بیس فیصدخالص دودھ کہیں بیچاجارہاہوگا،اسی پچاسی فیصددودھ کے نام پرکیمیکل اورپاؤڈرگول کرکے لوگوں کوپلایااورتھمایاجارہاہے۔یہ صرف ایک دودھ کی بات نہیں اس ملک میں تواب ہرچیزدونمبربکنے لگی ہے۔ سگریٹ، پتی، مصالحہ جات، صابن، سرف، شیمپو، چاکلیٹ اورکپڑوں وجوتوں سمیت انسانی زندگیاں بچانے والی ادویات تک مارکیٹ میں دونمبر اور غیرمعیاری سرعام فروخت ہو رہی ہیں۔ جس طرح اچھے برے اورایمانداروبے ایمان انسان کاپتہ نہیں چل رہااسی طرح اب مارکیٹ میں دستیاب اشیاء کے جعلی اوراصلی ہونے میں بھی فرق معلوم نہیں ہورہا۔اصلی اور