اپنا اے سی‘ اپنا پنکھا‘ اپنا ہیٹر‘ پرفیوم کی اپنی بوتل یا بوتلیں‘ پارک میں واک‘ سردیوں میں گھنٹوں دھوپ میں بیٹھنا اور گرمیوں میں ٹھنڈا کمرہ‘ صاف پانی اور اپنی مرضی کا کافی کا کپ اور کسی بھی وقت کسی سے بھی ملاقات دنیا میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی اگر یقین نہ آئے تو آپ دس ماہ جیل میں گزار کر دیکھیں آپ کو ایک ایک چیز کی قدر ہو جائے گی‘ آپ یقین کریں جیل کے ان دس مہینوں کے بعد زندگی سے میرے سارے شکوے ختم ہو گئے ‘ میں اب کھانے پر اعتراض کرتا ہوں اور نہ اجنبیوں سے ملاقات سے‘ جیل جا کر معلوم ہوا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس کس نعمت سے نواز رکھا ہے‘ مجھے وہاں جا کر پتا چلا اپنی مرضی سے فٹ پاتھ پر چلنا بھی اللہ کا کتنا بڑا انعام ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
کریں میں جس دن جیل سے باہر آیا اس دن مجھے اللہ تعالیٰ کی ایک ‘ایک نعمت کا اندازہ ہوا‘ میں نے دس ماہ بعد جب سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں دیکھیں تو میں بچوں کی طرح خوش ہو گیا‘ میں فٹ پاتھ پر چلتا تھا‘ رکتا تھا‘ سڑک کراس کر کے دوسرے فٹ پاتھ پر جاتا تھا‘ وہاں چلتا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ کر خوش ہوتا تھا‘ مجھے کوئی شخص روک نہیں رہاتھا‘ میں نے گھر پہنچ کر جی بھر کر ٹی وی دیکھا‘ میں ریموٹ کنٹرول سے چینل بدلتا تھا اور خوشی سے قہقہہ لگاتا تھا‘ میں دن میں تین تین بار نہاتا تھا اور مجھے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرتا ہوا پانی محسوس کر کے بے انتہا خوشی ہوتی تھی‘ آپ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ ہی نہیں سکتے موبائل فون کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے‘
مرضی کا کھانا‘ مرضی کی چائے‘ اپنی فیملی اور دوست احباب سے ملاقات‘ مرضی کے کپڑے‘ مرضی کے جوتے‘ اپنا بستر‘ اپنا اے
کی اجازت دے دینی تھی اور میرا کیس معمول کے مطابق چلتا رہتا‘ اس دوران زیادہ سے زیادہ کیا ہو جاتا؟ عدالت میرا پانچ مرلے کا مکان ضبط کر لیتی‘ یہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن میں نے اپنی بے وقوفی‘حماقت اور غرور کی وجہ سے چھوٹے سے معاملے کو پھیلا دیا اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ پھیلتا چلا گیا اور میں ایک ایسی ڈھلوان پر آ گرا جس کا ہر قدم مجھے نیچے سے نیچے لے کر جا رہا تھا‘
میری زندگی جھنڈ ہو گئی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر مجھے جیل سے باہر آنے میں دس مہینے لگ گئے‘ ان دس مہینوں میں کبھی جج چھٹیوں پر چلا جاتا تھا‘ کبھی میرا وکیل‘ کبھی سرکاری وکیل اور اگر کسی دن یہ سب لوگ موجود ہوتے تھے تو شہر میں ہڑتال ہو جاتی تھی چناں چہ میرا کیس موخر ہو جاتا تھا‘ بہرحال بے شمار صدقوں‘ منتوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کے بعد میری ضمانت ہو گئی‘ آپ یقین کریں میں ج
نٹینٹ کے ساتھ مل کر میرا اکائونٹ خالی کر دیا‘ میں نے جس جس سے رقم لینی تھی وہ میرا پیسہ کھا گئے اور جس نے مجھ سے پیسے لینے تھے وہ آ کر میرے گھر بیٹھ گیا اور میری پراپرٹیز پر کرائے داروں نے قبضہ کر کے اسے آگے بیچ دیا‘ یہ سارے کام ایک آدھ مہینے میں ہو گئے یوں محسوس ہوتا تھا پوری دنیا چیل بن کر میرے گرنے کا انتظار کر رہی تھی بس میرے حوالات جانے کی دیر تھی اور یہ سب میرے اثاثوں میری کمائی پر پل پڑے‘‘۔
وہ رکا‘ لمبی سانس لی‘ آنسو پونچھے اور پھر بولا ’’جاوید صاحب میرا کیس چند منٹوں کا تھا‘ میں نے کسی کی ضمانت دی تھی‘ میرے پانچ مرلے کے ایک مکان کے کاغذات عدالت میں بطور ضمانت پڑے تھے‘ وہ شخص بھاگ گیا اور عدالت نے مجھے طلب کر لیا‘ مجھے عدالت سے نوٹس نہیں ملے‘ جج نے میرا ریمانڈ جاری کر دیا تھا‘ میں نے بس عدالت میں پیش ہونا تھا‘ جج نے مجھے وکیل کی اجا
ی مجھ سے کوئی دل چسپی نہیں تھی‘ وہ بھی اگلی تاریخ لے لیتے تھے اور یوں میری قید لمبی ہوتی چلی گئی‘ میری بیوی سے اس دوران کئی جعل ساز ججوں اور پولیس کے نام پر لاکھوںروپے لوٹ کر لے گئے‘
میرا دفتر اور بزنس تباہ ہو گیا‘ کمیونٹی میں بے عزتی اس کے علاوہ تھی‘ اس دوران میری والدہ علیل ہو گئیں اور ہسپتال پہنچ کر انتقال کر گئیں‘ میرے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا اور میری بیوی کے دن عدالتوں‘ وکیلوں کے چیمبرز اور پولیس کے پیچھے دوڑتے ہوئے گزرنے لگے‘ میرے دوست احباب نے شروع شروع میں میرا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بھی غائب ہوگئے‘ آخر کون کسی کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے‘ ہر شخص کی زندگی میں بیسیوں پھڈے ہوتے ہیں‘ میرے ملازمین اس دوران دفتر کی کرسیاں‘ میزیں اور کمپیوٹر تک اٹھا کر لے گئے‘ بینک کے ملازمین کو میری صورت حال کا پتا چلا تو انہوں نے میرے اکائونٹینٹ ک
چھوٹے سے سیل میں رہنا پڑا جس میں بیس لوگ رہ رہے تھے‘ میں کروٹ نہیں بدل سکتا تھا‘
میرے سر پر دوسرے قیدی کے پائوں ہوتے تھے‘ واش روم بھی سیل کے اندر تھا‘ اسے بیس لوگ استعمال کرتے تھے اور اس کی بو سے سر چکرا جاتا تھا‘ اس وقت میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد جیل سے باہر آنا تھا اور میں اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار تھا لیکن جب مصیبت آتی ہے تو یہ یاد رکھیں انسان کی مت ماری جاتی ہے اور یہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتا چلا جاتا ہے‘ میں بھی غلطی پر غلطی کرتا چلا گیا‘ میں نے بڑا اور مہنگا وکیل کر لیا‘ اس نے مجھ سے ڈیڑھ کروڑ فیس لے لی لیکن وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مصروف رہتا تھا‘ اس کے پاس میرے کیس کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا‘ اس کا جونیئر وکیل عدالت میں آتا تھا اور جج اسے دیکھتے ہی اگلی تاریخ دے دیتا تھا‘ پولیس اور سرکاری وکیل کو بھی مجھ
اور ڈسٹ کی وجہ سے میرے پورے جسم سے بو آ نے لگی‘ وہ تین دن میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے‘
میں سو سکا اور نہ لیٹ سکا‘ پولیس کے معمولی اہلکار مجھے جی بھر کر بے عزت کرتے تھے‘ مجھے محسوس ہوا شریف لوگوں کو ذلیل کر کے پولیس کو بہت تسکین ہوتی ہے‘ یہ شاید ان کی زندگی کی واحد انٹرٹینمنٹ ہے‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور پھر ہنس کر بولا ’’وہ ضمانت کا معمولی سا کیس تھا لیکن میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور بے وقوفی کی وجہ سے اسے پھیلا کر بڑا بنا دیا تھا‘مجھ پر تین اور مقدمات بن چکے تھے‘ بہرحال تین دن بعد مجھے عدالت میں پیش کیا گیا‘ میرا وکیل چیختا رہا مگر جج نے مجھے جیل بھجوا دیا‘ میں جوں ہی جیل کے پھاٹک کے اندر داخل ہوا وہاں دنیا ہی مختلف تھی‘ دروازے سے لے کر کوٹھڑی تک بے عزتی‘ اذیت‘ ذلت اور قلت‘ اللہ دشمن کو بھی وہ جگہ نہ دکھائے‘ مجھے ایک ایسے چھوٹے سے س
کانسٹیبل نے میرے ہاتھ سے اتار لی تھی‘ بہرحال میرے دوست آئے‘ انہوں نے وکیلوں کا بندوبست کیا‘ میں نے پولیس سے اپنے رویے پر معافی بھی مانگی لیکن پولیس راضی نہ ہوئی‘ اس نے اگلے دن جج سے میرے خلاف تین دن کا ریمانڈ لے لیا‘ پولیس نے ان تین دنوں میں مجھے جی بھر کر ذلیل کیا‘ وہ مجھے پورے دن میں آدھ گھنٹے کے لیے حوالات سے نکالتے تھے‘ میں نے اس آدھ گھنٹے میں واش روم بھی کرنا ہوتا تھا‘ فیملی اور وکیل سے ملاقات بھی اور ایس ایچ او کے منت ترلے بھی‘ مجھے کپڑے تک نہ دیے گئے اور غسل کرنے کی اجازت بھی نہ ملی‘ تین دنوں میں میرا پورا حلیہ بدل گیا‘ داڑھی بڑھ گئی‘ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے‘ مچھروں نے کاٹ کاٹ کر میرا پورا جسم سُجا دیا‘ میرا وہ سوٹ جس پر میں ناز کرتا تھا وہ چیتھڑا بن کر لٹک گیا‘ جرابیں گندی ہو گئیں اور پسینے اور ڈسٹ
خراب کر دیا گیا اور آخر میں وہ مجھے اور میرے سٹاف کو گھسیٹ کر تھانے لے گئے‘ پولیس نے میرے اوپر پولیس کی وردی پھاڑنے اور کارسرکار میں مداخلت کا پرچہ بھی کر دیا‘ مجھے اٹھا کر حوالات کے گندے فرش پر پھینک دیا گیا‘ میں نے اٹالین سوٹ پہنا ہوا تھا‘ میرا سوٹ بھی گندا ہو گیا اور مجھے بدبودار مکھیوں اور مچھروں سے بھری حوالات میں بھی بیٹھنا پڑ گیا‘ وہاں واش روم تھا‘ پنکھا تھا اور نہ پانی کا بندوبست ‘اوپر سے جولائی کا مہینہ‘ میں ڈیڑھ گھنٹے میں عرش سے فرش پر آ چکا تھا‘‘۔
وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور پھر تھرتھراتی آواز میں بولا ’’میرے لیے یہ صورت حال غیر متوقع تھی‘ مجھے معلوم ہی نہیں تھا ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ افراتفری میں میری دو کروڑ کی رولیکس گھڑی بھی کہیں گر گئی تھی یا کسی کانسٹیبل نے میرے ہاتھ سے اتار
عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا‘ اے ایس آئی نے مجھے تھانے چلنے کا حکم دے دیا‘اس کے لہجے میں رعونت تھی‘ اس کا کہنا تھا آپ اٹھیں‘ ہم نے ابھی آپ کوتھانے اور پھر عدالت میں پیش کرنا ہے‘ یہ صورت حال میرے لیے بالکل نئی تھی‘ مجھے معلوم نہیں تھا ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟مجھے اس کا لہجہ برا لگا چناں چہ میں نے اسے ڈانٹ دیا‘ میری ڈانٹ سن کر اے ایس آئی ناراض ہو گیا‘ اس نے کانسٹیبلز کو اشارہ کیا‘ وہ دونوں آگے بڑھے اور مجھے دونوں بازوئوں سے پکڑ لیا‘ میں بپھر گیا اور میری دونوں سے ہاتھا پائی ہو گئی‘ میرا سٹاف بھی اندر آ گیا ‘ وہ بھی پولیس والوں سے الجھ پڑا‘ اے ایس آئی نے وائرلیس پر پیغام دے دیا اور چند لمحوں میں پولیس نے میرے دفتر کو گھیر لیا‘ علاقے میں آدھ گھنٹے میں پولیس ہی پولیس تھی‘ میرے دفتر کے سارے شیشے توڑ دیے گئے‘ فرنیچر خراب کر دیا گیا او
پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں بیٹھا تھا‘ میری اس دن فارن کمپنی کے ساتھ میٹنگ تھی‘ میں تیار ہو کر آفس آیا تھا‘ اٹالین سوٹ پہن رکھا تھا‘ جوتے چمک رہے تھے اور کلائی پر رولیکس کی گھڑی تھی‘ میں میٹنگ کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک میری سیکرٹری بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور گھبرائے ہوئے لہجے میں مجھے بتایا‘ سر باہر پولیس آئی ہے اور وہ آپ کا پوچھ رہی ہے‘ میں حیران ہوگیا اور اسی حیرت میں پولیس کو اندر بلا لیا‘ وہ اے ایس آئی تھا اور اس کے ساتھ دو کانسٹیبل تھے‘ وہ مجھے گرفتار کرنے آئے تھے‘میں نے تفصیل پوچھی تو پتا چلا میں نے دو سال قبل کسی کی ضمانت دی تھی‘
وہ پہلے عدالت سے غائب ہوا اور پھر ملک سے بھاگ گیا‘ عدالت دو سال اسے اور مجھے بلاتی رہی لیکن نوٹسز مجھ تک نہیں پہنچے چناں چہ جج نے مجھے گرفتار کر کے عدالت میں پیش
اور گوپس کے رنگوں میں ساتھ لیے پھرتا ہوں کہ کہیں کوئی رنگ ایسا دکھائی دے جو تجھ سے بڑھ کر ہو، غذر کی مماثلت اور رتی گلی کے پھولوں نے بھی تو تیرے آنچل سے رنگ چرائے ہیں۔ تمام جھیلوں نے سارے رنگ تم سے مستعار لیے ہیں تم میرے لیے ہو اور یہ ساری وادیاں تمہارے لیے ہیں۔
رات بیت چکی ہے اس لیے نیند تمہاری آنکھوں پر وار کرنے کو بے تاب ہے اور مجھے بھی کئی خواب دیکھنے ہیں جن کی تعبیریں یہاں غذر میں کھینچ لائی ہیں۔ اس لیے اجازت چاہتا ہوں کہ تتلی کے نازک پروں پر مختصر بات ہی لکھی جا سکتی ہے۔
✅✅✅🥱
تم سے محبت ہے۔
اور یہ محبت کہیں قیام نہیں کرنے دیتی، کہیں رکنے نہیں دیتی۔ تمہیں فیری میڈو کی پاکیزہ خامشی میں، نانگا پربت کی چاندی میں، راما کی پُر اسرار تنہائی میں، راکا پوشی کے بیس کیمپ میں، دیوسائی کی وسعت میں، سکردو کے ٹھنڈے صحرا میں، ہنزہ کے متروک قلعوں میں، وادی یٰسین کی سنجیدگی میں، پھنڈر اور گوپس کے
وہ تتلیوں کے پروں کو ترتیب دے کر پڑھ تو سکتی ہو کہ جان سے جا چکی کوئی تتلی بھی اب اڑ نہیں پائے گی اور وہ جان سے نہ بھی جا چکی ہوتی تو بھلا تمہارے ہاتھوں سے نکل کر کہاں جا سکتی تھی کہ تمہاری نازک انگلیوں کی پوروں سے زیادہ کھردرا تو غذر کا پانی ہے۔
میں نے گزشتہ کئی برسوں سے، دسمبر کی نرم دھوپ اور چیت کی چاندی کے روبرو تمہیں بہت کچھ کہنا چاہا مگر کاروبار حیات نے گنگ کر دیا، کبھی انائیں آڑے آتی رہیں اور کبھی دو وقت کی روٹی نے آٹھویں پہر کی محبت کو دھندلا دیا۔ تم سے کبھی کچھ کہنا بھی چاہا تو خالی ہاتھوں میں مدھم ہو چکی لکیروں نے الفاظ کو مفہوم سے خالی کر دیا اور خالی ہاتھوں کے کشکول بھلا کون بھرتا ہے۔ میں اچھے لمحوں کے انتظار میں خود بُرا ہوتا گیا اور اپنا مدعا بیان نہ کر سکا کہ تمہاری ایک پل کی ناگواری میرے مدعا کے مقابلے میں بہت مہنگی تھی۔ می
خط خون سے لکھنے کی رسمیں تمام ہو چکی تھیں مگر جذبات اور احساسات کی وادی میں جمی ہوئی برف قطرہ قطرہ پگھلنے کو بے تاب تھی۔ ہم غذر دریا کے کنارے پر آباد پھنڈر تہذیب کے ثنا گر تھے اور ہوتی جاتی شام کے سرمئی سائے کی محبت میں گم ایک وجود بے عکس کو یاد کرتے تھے، ایک خط جو لکھا نہ جا سکا تھا اسے لکھنا چاہتے تھے کہ اپنے اظہاریے کے لیے اس وادی سے بہتر کوئی جا نہ تھی، اور جگنوؤں کے اترنے سے ذرا پہلے جو تتلیاں میسر تھیں ان کے پروں پر محبت نامہ لکھا جانا تھا۔ دریائے غذر کے مقدس پانی سے تیار شدہ روشنائی آخری محبت نامے میں حرف حرف نازل ہونے والی تھی۔۔۔
اے خوبصورت آنکھوں والی، سنو! آج تم سے مخاطب ہونے کا سمے آ چکا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم میرے سامنے ہو اور مجھے سن سکتی ہو مگر میں بہت کچھ جو کہہ نہیں سکتا وہ لکھ تو سکتا ہوں اور تم جو سن نہیں سکتی وہ تتلیوں
ہوتے ہیں نہ کرم کے۔ خود کچھ نہیں کر پاتے تو طعنے دے دے کر ماں باپ کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔
قانونی، مذہبی، انسانی حق ہونے کے باوجود پسند کی شادی کا یہ حق جانے کب ملے گا۔ یہ حق ہمارے سماج نے جانے کیوں اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان سے یہ حق سماج کے ٹھیکے دار لے کے بھاگے اور اپنے پروردہ غنڈوں کو اس کی پاسداری پہ لگا دیا۔
محبت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے، نفرت کرنے والے اور نفرت پھیلانے والے پہلے ہی بہت ہیں، محبت کرنے والوں کو تلاش کیجیئے اس سے پہلے کہ سب طرف صرف نفرت کرنے والوں کا راج ہو جائے۔🤚
ساتھ پوری عمر گزارنے کے لیے یہ کہہ کے روانہ کر دیتے ہیں کہ ہم کرم کے ساتھی نہیں۔
تربیت صرف لڑکیوں کی کی جاتی ہے اور یہ ہی کہہ کے کی جاتی ہے کہ اگلے گھر جا کے کیا کرو گی؟
لڑکے صرف اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد کوئی ان کا بکھرا ہوا کمرہ سنبھال کے ان کی ماں کی طنزیہ گفتگو سنے گی اور ان کی بری عادتوں کو نبھانے کے نام پہ آجائے گی۔ اس کی پسند یا ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ سماجی دوغلا پن اور دوسروں کی زندگی پہ اپنے اجارہ سمجھنے کا بخار اتنا عام ہے کہ محبتوں سے پالی بیٹیوں کو بھی اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میرے مشاہدے کے مطابق غیرت کا یہ بخار زیادہ تر چچاؤں، تایوں، بھائیوں، بہنوئیوں اور ان لوگوں کو چڑھتا ہے جو نہ تو جنم کے ساتھی ہوتے ہیں نہ کرم کے۔
سے ہے، یہ ہی ناک اپنی حدود سے تجاوز کر کے دوسروں کے معاملات میں گھستی ہے، یہ ہی ناک ’خبر ناک‘ کہلاتی ہے جو جگہ جگہ کی خبریں سونگھ کر آگے پہنچاتی ہے اور لوگوں کی ناک کٹوانے کا سبب بنتی ہے۔
یہ ہی ناک ہے جس سے پہلے لوگوں کی آزادی ختم ہو کے کسی کی اپنی ذات شروع ہو جاتی ہے اور اسی ناک کو کاٹنے کی غیر اعلانیہ اجازت جانے کیوں کچھ لوگوں کو مل جاتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے کئی برس پہلے یہ جنگ لڑی اور لڑکیوں کو پسند کی شادی کا حق قانونی طور پہ حاصل ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ حق قانونی طور پہ تو مل گیا تھا لیکن آج بھی ہم اپنی اولاد کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔
وہ بچیاں جنہیں ساری زندگی یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کسی اجنبی سے بات نہیں کرنی، ایک دن ہم انہیں ایک اجنبی کے ساتھ پوری عمر
کچھ عرصے بعد ماں باپ مر گئے، بھائی نے شادی کر لی پسند کی شادی، بھابھی نے کٹی ہوئی ناک والی نند کا جینا دوبھر کر دیا۔ دوبارہ پڑھائی شروع کی اور اب ملازمت کر رہی ہے شاید زندگی بھر کسی سے محبت کا سوچے گی بھی نہیں۔
یہ کہانی سن کے مجھ سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، کئی سال گزر گئے، آج تک مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہوں؟
جتنا سوچتی ہوں اتنا الجھتی ہوں۔ کسی کو پسند کرنا جرم ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ پسند کی شادی کرنا جرم ہے، یقینا نہیں۔ ذات پات کی بنا پہ کسی کو اعلی کسی کو ادنی سمجھنا درست ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
یہ ساری مساوات ہمارے سامنے کی ہے مگر سوال کا جواب وہی نکلتا ہے جو اس معاملے میں نکلا۔ ناک کاٹنے والے بھائی نے بھی وہی جرم کیا مگر وہ اپنی ناک سلامت لیے پھر رہا ہے۔
مسئلہ اسی ناک سے ہے،
محبت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے، نفرت کرنے والے اور نفرت پھیلانے والے پہلے ہی بہت ہیں، محبت کرنے والوں کو تلاش کیجیئے اس سے پہلے کہ سب طرف صرف نفرت کرنے والوں کا راج ہو جائے۔
میرے طلبا میں ایک بار ایک ایسی لڑکی تھی، جس کی ناک پہ زخم کا نشان تھا۔ لیکچر کے دوران سامنے بیٹھے طلبا کے چہرے اکثر توجہ بٹاتے ہیں مگر یہ چہرہ بات بھلا دیا کرتا تھا۔
سمسٹر ختم ہوا، دوبارہ کون کسی سے ملتا ہے لیکن میری اس لڑکی سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ ناک پہ زخم کا نشان پسند کی شادی کی پاداش میں ملا تھا۔ جس لڑکے سے محبت ہوئی وہ ہلکی ذات کا تھا۔
نتیجہ وہی ہوا جو ایسے موقعوں پہ ہوتا ہے۔ لڑکا لڑکی نے گھر سے بھاگ کے شادی کر لی، لڑکی کے گھر والوں نے پکڑ لیا، لڑکے کو جان سے مار دیا لڑکی کے بھائی نے لڑکی کی ناک کاٹنے کی کوشش کی ماں نے بڑھ کے بچا لیا۔
کچھ عرصے ب
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain