بیچارہ بھولا سا چاچا بولا نہ پتر اوس نے پنجی ورہے پہلے کیہا سی مینوں پنج سو ہزار دیوو میں مک مکا کرا دیناں، اوہی مک مکا کران وچ تسں ی پنجی ورہے وکھرے لائے، کچہری دے چکر وکھرے لوائے، وکیلاں دے خرچے وی کرائے تے فیصلہ اوہی سنا کے رولا مکایا جیہڑا ایس ایچ او موقع تے مکان لگا سی۔۔۔ یہ تو تھی ایک لوک داستان، لیکن دیکھا جائے تو یہ فقط لوک داستان نہیں کہانی گھر گھر کی ہے، کئی لوگ پیشیاں بھگتتے بھگتتے خود بھگت جاتے ہیں، کئی اپنی دسویں برسی پہ انصاف حاصل کرتے ہیں اور کئی تاحال اگلی پیشی پہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، انگریزی کا ایک مقولہ ہے ”جسٹس ڈیلیڈ از جسٹس ڈینائڈ“ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مقدمات کا التوا انصاف کے متمنی افراد پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے یہ اِلتوا متاثرہ افراد کے لیے طویل مدتی مایوسی، ڈپریشن اور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں کے ایک سیدھے سادھے زمیندار کا کچھ زمین کا مسئلہ بن گیا، فریقین کے مابین تو تو میں میں ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی اور پولیس بلا لی گئی، پولیس نے معاملہ رفع دفع کرانے کی ناکام کوشش کی اور پھر کیس عدالت میں چلا گیا، عدالت نے حسبِ عادت تاریخ پہ تاریخ دینا شروع کر دی، عمرِ رواں کے برس بیتتے گئے اور زمیندار لاٹھی پہ آ گیا تب جا کر کہیں فیصلہ ہو پایا، حضرت جج صاحب نے بڑے تفاخر سے زمیندار کو مخاطب کیا اور ارشاد مبارک فرمایا ”چاچا میں تہاڈا کیس حل کر دتا تسی کج کہنا چاہو گے؟“ چاچا نے ہلکا سا کھانس کے گلا صاف کیا اور گویا ہوئے ”تیری مہربانی پتر رب سوہنا تینوں وڈیاں ترقیاں دیووے، تینوں ایس ایچ او بھرتی کراوے“۔ جج صاحب اپنی شان میں اس گستاخی پہ تلملا اٹھے، کہنے لگے چاچا ایس ایچ او عہدے وچ میتھوں نکا اے، بیچارہ بھول
ے لگا جب آپ کو وقت اس پیالے میں پینے پر مجبور کرے گا اور بادشاہ سلامت وہ وقت آ گیا شاہ جہاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ آنسو اگر نہ بھی آتے تو بھی بادشاہ نے باقی زندگی پانی اسی ٹوٹے ہوئے پیالے میں پینا تھا کیوں؟ کیوں کہ یہ دنیا ایک وادی ہے اور اس وادی میں ہر شخص کو اپنی انا، اپنے تکبر اور اپنی حماقتوں کی بازگشت بہرحال سننا پڑتی ہے۔بہرحال جو حال ملک عزیز کا ان حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کر دیا ہے۔اس کی سزا انہیں ملنی ہے اور انہیں روزِ قیامت حساب دینا ہوگا مگر وقت گزر چکا ہو گا اور انہیں ٹوٹا ہوا پیالہ بھی میسر نہ ہوگا اور یہ لوگ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں اور خود کو کھلا دھوکہ دے رہے ہیں۔✅✅✅
اپنے والد کو قید میں ڈال دیا اور وہ تمام غلام اور ملازمین بوڑھے بادشاہ پر تعینات کر دیئے جنہیں کبھی شاہ جہاں نے سزائیں دی تھیں، وہ پانی پلانے والا غلام بھی ان ملازموں میں شامل تھا، بادشاہ کو قید میں پیاس محسوس ہوئی،پانی مانگا، غلام آیا اور پیالہ بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا، بادشاہ نے پیالے کو غور سے دیکھا، وہ شکستہ تھا اور کسی نے اس کی کرچیاں، اس کی ٹھیکریاں جوڑ کر اسے قابل استعمال بنایا تھا، بادشاہ نے حسرت سے پیالہ دیکھا اور پھر غلام کی طرف دیکھ کر پوچھا میرے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ غلام نے مسکرا کر عرض کیا حضور یہ وقت کا سلوک ہے۔یہ وہی پیالہ ہے جس کا ایک کونا بھرنے پر آپ نے اس میں پانی پینے سے انکار کر دیا تھا اور اسے زمین پر مار کر توڑ دیا تھا، میں نے اس ٹوٹے ہوئے پیالے کی کرچیاں اٹھا لی تھیں، میں نے انھیں جوڑا اور اس گھڑی کا انتظار کرنے لگا
بات یہ قرآن اور سنت نبوی ﷺپر کس قدر عمل کرتے اور کراتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے پاس ایک ترک غلام تھا، وہ بادشاہ کو پانی پلانے پر تعینات تھا، سارا دن پیالہ اور صراحی اٹھا کر تخت کے پاس کھڑا رہتا تھا، بادشاہ اس کی طرف دیکھتا تھا تو وہ فوراً پیالہ بھر کرپیش کر دیتا تھا، وہ برسوں سے یہ ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور بڑی حد تک بادشاہ کا رمز شناس ہو چکا تھا لیکن ایک دن اس سے غلطی ہو گئی۔بادشاہ کو پیالہ پیش کیا، بادشاہ گھونٹ بھرنے لگا تو شاہی پیالے کا ایک کنارہ جھڑا ہوا تھا اور ٹوٹے ہوئے پیالے میں پانی پینا ہندوستان کے بادشاہ کی توہین تھی، بادشاہ نے پیالہ نیچے دے مارا اور غلام کو بیس کوڑے لگانے کی سزا سنا دی۔بادشاہ کا حکم آخری حکم تھا، غلام کو کوڑے بھی لگ گئے اور وہ ڈیوٹی سے فارغ بھی ہو گیا، وقت بدلا، اورنگزیب عالمگیر نے اپنے و
بنانے میں ایک لمحہ لیتی ہے۔یہ بڑے بڑے بادشاہوں، حکمرانوں، شہ سواروں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور وقت کے فرعونوں کو ایک لمحے میں موت کی سرحد کے پار پھینک دیتی ہے۔ یہ ایک پلڑے میں ایک تولے کو دوسرے پلڑے میں موجود ہزاروں ٹن سے بھارا کردیتی ہے۔آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجیے کتنے کتنے لوگ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ نہ رہے تو شاید انکی مملکت کا نظام نہیں چل سکے گا؟اگر وہ ہاتھ کھینچ لیں گے تو انتظام و انصرام کا تختہ الٹ جائے گا؟ مگر یہ سب انکی خام خیالی تھی؟ انکا وہم تھا؟ کائنات یوں کی توں ہے اور اسکا اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات ہے۔
وہ ذات صرف انسانوں کو اقتدار دے کر آزماتا ہے کہ یہ مخلوق کا خیال کتنا رکھتے ہیں؟یہ ذمہ دار کتنے ہیں؟یہ محبِ وطن کتنے ہیں؟یہ امانت دار اور دیانت دار کتنے ہیں؟یہ اقربا پرور کتنے ہیں اور سب سے بڑی
ا ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
بہت کچھ حاصل کر کے اور بہت کچھ کھو کر انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ہر قدم اپنی منزل کی طرف اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ کبھی زندگی کا یہ سفر اتنا خوبصورت محسوس ہوتا ہے کہ انسان چاہتا ہے زندگی کے یہ خوبصورت لمحات ہمیشہ کیلئے یہیں تھم جائیں، مگر انسان ان خوبصورت لمحوں کو ہر قدم پیچھے چھوڑتے ہوئے بھی زندگی کے سفر پر گامزن رہتا ہے اور کبھی یہ سفر اتنا کٹھن ہو جاتا ہے کہ انسان اسے جلدی سے طے کر کے اپنی منزل کو پانے کی خواہش کرتا ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود زندگی بہت عجیب و غریب کرشمے دکھاتی ہے۔یہ بادشاہ کو قیدی بنا سکتی ہے اور قیدی کو بادشاہ بنا سکتی ہے۔یہ وقت کو ظالم اور انسان کو
مظلوم بنانے میں ایک
زندگی کیا ہے؟ یہ معدوم سے وجود اور وجود سے معدوم ہونے تک کرب و خوشی کے بے شمار لمحات، امیدوں اور مایوسیوں کے تسلسل، محبتوں اور نفرتوں کی داستان، خوش گمانیوں اور بدگمانیوں کے طویل سلسلے سے بھرپور محدود و متعین وقت کا نام ہے۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل (موت) تو متعین، لیکن راہیں جدا جدا ہیں۔
زندگی ایک طویل انتظار اور ہر گزرتے پل ایک نئے امتحان کا نام ہے۔ ایک چیلنج ہے جسے ہر کسی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ایک شمع ہے جسے پگھلتے پگھلتے آخر کار ختم ہونا ہے۔ ایک بلبلہ ہے جو ابھرتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ ایک چراغ ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ ایک ایسی عمارت ہے جو کبھی نہ کبھی مسمار ہو کر ہی رہتی ہے۔ ایک ایسی خواہش کا نام ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایسا فریب ہے جس کی حقیقت موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چکبست برج نرائن نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی کیا ہے عن
پورا معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ کام سارے یہ خود چوروں، ڈاکوئوں، فراڈیوں اور نوسربازوں والے کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں چوراورڈاکوکل بھی حکمران تھے اورآج بھی حکمران ہیں۔ان کی شکلیں دیکھ کرایسالگتاہے کہ ان سے بڑے فرشتے کوئی ہوں ہی نہ۔ وقت آگیاہے کہ ایسے حرام خوروں اوربے ایمانوں پرہاتھ ڈال کرانسانیت کوتباہ ہونے سے بچایاجائے نہیں تواس ملک میں ادویات اورکھانے پینے والی اشیاء کے نام پر زہربیچنے والے یہ درندے توہوں گے لیکن انسان پھرنہیں ملیں گے۔اس لئے انسانیت کوبچانے کے لئے ان درندوں کاقلع قمع کرنافرض ہی نہیں بلکہ اس قوم کا قرض بھی ہے۔
✅
تھما دیا۔ دو تین دن بعد ہم نے پوچھا دوائیوں سے کوئی فرق پڑا۔کہنے لگے حرام بااللہ ذرہ بھی کوئی فرق پڑاہوا۔یہ کسی ایک راشدخان یاکسی ایک گاؤں،دیہات،شہراورصوبے کی بات اورمسئلہ نہیں۔اس وقت کراچی سے سیاچن،چترال سے مکران اورلاہورسے کشمیرتک پوراملک جعل سازوں،فراڈیوں اورنوسربازوں کے نرغے میں ہے۔ادویات کیا۔؟ان ظالموں سے تواس ملک میںعام کھانے پینے کی اشیاء اوردودھ تک محفوظ نہیں۔ہرگلی،چوک اورچوراہے پرصحت کے نام پرموت بانٹی جارہی ہے۔کاروبارسے وابستہ تقریباًپچانوے فیصدلوگ رزق کے نام پرزہربیچ رہے ہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ ان ظالموں اورچھپے قاتلوں پرہاتھ ڈالنے والاکوئی نہیں،کوالٹی چیک کے نام پراس ملک میں کئی محکمے اوردرجنوں افسران ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ قوم کے ان دشمنوں پرہاتھ ڈالیں۔ان مفادپرستوں کی حرص اورلالچ کی وجہ سے پورا معاشرہ تباہ ہو
موت سے کیاگلہ۔؟ مریض یامریضوں کولگنے والے انجکشن اوراسے منوں کے حساب سے دی جانے والی دوائیاں اصلی ہیں یاجعلی اس سوال کاجواب کسی کے پاس نہیں،خودڈاکٹروں کوبھی پتہ نہیں ہوتاکہ کونسی دوائی اصلی ہے اورکونسی جعلی۔اس ملک اورمعاشرے میںدونمبر،جعلی اور غیرمعیاری ادویات اوردیگراشیاء نے انسانیت کوتباہ کرکے رکھ دیاہے۔یہاںغریب لوگ بکری، گائے، بھینس اوردیگرمال مویشی بیچ کراپناعلاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دوائیوں پردوائیاں کھانے اورانجکشن لگانے کے باوجودانہیں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔پہلے پیراسٹامول اورپیناڈول کی ایک گولی کااثربھی کئی دن تک رہتالیکن اب لوگ گولیوں پرگولیاں کھانے اوردوائیاں پھونکنے کے باوجودمعمولی سافرق اوراثرتک محسوس نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست راشدخان شدیدبیمارہوئے،ڈاکٹرکے پاس گئے تواس نے بیس کلووالاپوراتھیلادوائیوں سے بھر کر تھم
سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں سب سے بڑا اور کامیاب تاجر، سرمایہ دار، کسان، زمیندار اور صنعتکار وہ ہے جس کے ہاتھ سے مارکیٹ، بازار اور دکان آنے والے لوگوں کوسب سے زیادہ نقصان اورتکلیف پہنچے۔ ہمارا کام اور مقصد صرف پیسے بٹورناہے آگے ہمارے ہاتھوں یاہماری حرص اور لالچ کی وجہ سے کوئی بھوک سے مرے یاغیرمعیاری اشیاء وادویات کھانے سے تڑپے۔ اس سے ہماراکوئی سروکار نہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے آبائی گاؤں جوزضلع بٹگرام میں ایک رشتہ دارخاتون زبیرگلالاکی اہلیہ کوباؤلے کتے نے کاٹاجسے فوری طورپرمہنگے انجکشن لگائے گئے اور پھر انجکشن کاکورس بھی مکمل کرایا گیا لیکن اس کے باوجود ان انجکشن کاکوئی اثرنہیں ہوا۔ ماناکہ موت اٹل حقیقت ہے ٹائم پورا ہو تویہ پھرانجکشن اور ادویات سے بھی نہیں رکتالیکن مریض کولگنے والے انجکشن اوردوائیاں ہی اگر دونمبر اور غیرمعیاری ہوں تو پھر موت سے ک
۔اصلی اورمعیاری چیزبنانے کاہمیں نہیں پتہ لیکن دونمبراورجعلی اشیاء بنانے کے توہم ماہر اور ماسٹرہیں۔ایسی کونسی چیزہے جس کی ہم نے کاپی مارکیٹ میں نہ لائی ہو۔ہماری مارکیٹیں،
دکان،بازاراورگھربارجعلی اشیائ، جھوٹ، فریب اور دھوکے سے بھرے پڑے ہیں۔ باہر کی دنیا میں تاجر، سرمایہ دار، صنعتکار اور بیوپاری کاروبارکے ذریعے انسانیت کی خدمت کا عزم، ارادہ اورنیت کرکے گھروں سے نکلتے ہیں اور ہم۔؟ ہم رات کو خواب میں بھی اپنے مجبور، لاچار اور بے بس مسلمان بھائیوں کولوٹنے،کاٹنے اور ڈسنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ ہمارا ارادہ، مقصد اور مشن ہی یہ ہوتاہے کہ گاہگ کوکیسے لوٹا اور ڈسا جائے۔؟ ایک غریب، مجبور اور لاچارانسان کو دس روپے کی شے پانچ سو اور ہزار میں پکڑانا یہ توہمارے ہاں عام بلکہ سرعام ہے۔ آنے والے گاہک اور سائل کوبڑے سے بڑاٹیکہ لگانے کو ہم ترقی اور کامیاب کاروبار
بے ایمان ہیں اورجھوٹے ونوسربازہیں بلکہ اس ملک میں ہرچور،بے ایمان اورڈاکودوسروں کی طرف انگلی کرکے کہتاہے کہ میرے سواسارے لوگ خراب ہیں۔کچھ دن پہلے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں یہ انکشاف کیا گیاکہ یہاں دودھ کے نام پر زہربیچاجارہاہے۔سومیں کوئی پندرہ بیس فیصدخالص دودھ کہیں بیچاجارہاہوگا،اسی پچاسی فیصددودھ کے نام پرکیمیکل اورپاؤڈرگول کرکے لوگوں کوپلایااورتھمایاجارہاہے۔یہ صرف ایک دودھ کی بات نہیں اس ملک میں تواب ہرچیزدونمبربکنے لگی ہے۔ سگریٹ، پتی، مصالحہ جات، صابن، سرف، شیمپو، چاکلیٹ اورکپڑوں وجوتوں سمیت انسانی زندگیاں بچانے والی ادویات تک مارکیٹ میں دونمبر اور غیرمعیاری سرعام فروخت ہو رہی ہیں۔ جس طرح اچھے برے اورایمانداروبے ایمان انسان کاپتہ نہیں چل رہااسی طرح اب مارکیٹ میں دستیاب اشیاء کے جعلی اوراصلی ہونے میں بھی فرق معلوم نہیں ہورہا۔اصلی اور
یہاںاپنے دامن پرلگے داغ کسی کونظرآرہے ہیں اورنہ ہی کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیارہے۔دنیاترقی کرگئی یانہیں لیکن ہم اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں کہ اپنے سارے عیب،جرائم اورگناہ ہم نے دوسروں پرتنقیداورتضحیک کرنے اورانہیں گناہ گارومجرم کہنے کے پردے میں چھپادیئے ہیں۔آپ دورجانے کے بجائے محلے کی دکان،قریبی ریڑھی بان یاسبزی فروش اوردودھ فروش کے پاس چلے جائیں۔ محلے کا دکاندار، ریڑھی بان اور سبزی ودودھ فروش دو نمبر اشیائ، خراب فروٹ سبزی، کیمیکل، پاؤڈر اور پانی ملا دودھ آپ کو پکڑاتے ہوئے حکمرانوں، لیڈروں، سیاستدانوں اوردوسرے لوگوں کوبرابھلاکہتے اورگالیاں دیتے دکھائی دیں گے۔ اصل سے بھی زائد قیمت لیکرآپ کو دو نمبر اشیائ، خراب سبزی وفروٹ اوردودھ کے نام پرزہردینے والے پکے وٹکے مسلمان کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم حرام خور ہیں، فراڈی ہیں، بے ایم
میں سے 8 ٹکڑے کھا لئے اور باقی ایک ٹکڑا بچا جبکہ تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھائے تو باقی 7 ٹکڑے بچے، اس طرح تیسرے شخص نے تمہاری روٹیوں میں سے ایک ٹکڑا کھایا اور تمہارے ساتھی کی روٹیوں میں سے 7 ٹکڑے کھائے لہذاء انصاف کے مطابق تمھارا ایک درہم اور تمہارے ساتھی کے 7 درہم بنتے ہیں۔“ اس منصفانہ تقسیم پر دونوں متفق ہو گئے اور پانچ روٹی والے نے سات درہم اور تین روٹی والے نے ایک درہم لے لیا۔ (استیعاب).اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حصہ کا پورا پورا عدل و انصاف کی توفیق عطا فرمائے آمین
✅
اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپ نے ساری بات سننے کے بعد تین روٹی رکھنے والے شخص سے فرمایا کہ ”تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو کیونکہ انصاف کے مطابق تمھارے حصہ میں صرف ایک درہم آتا ہے۔“ یہ سن کر وہ شخص حیران ہو گیا اور عرض کیا ”آپ مجھے سمجھا دیں کہ کیسے میرا حق صرف ایک درہم بنتا ہے؟“ آپ نے فرمایا کہ ”روٹیوں کی کل تعداد آٹھ تھی اور کھانے والے تم تین آدمی تھے، اگر ایک روٹی کے تین ٹکڑے کیے جائیں تو 8 روٹیوں کے کل 24 ٹکڑے بنتے ہیں جو تینوں میں برابر تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصہ میں آٹھ روٹی کے ٹکڑے آتے ہیں، تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 ٹکڑوں میں
مشہور ہے۔ حکایت : دو شخص سفر پر نکلے ہوئے تھے، کھانا کھانے کے لئے کسی جگہ پر اکٹھے بیٹھ گئے۔ ایک کے پاس 5 روٹیاں اور دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں۔ اسی دوران وہاں سے ایک تیسرے شخص کا گزر ہوا۔ دونوں نے اس تیسرے شخص کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لیا اور مل کر روٹیاں کھانے لگے، کھانے کے بعد تیسرا شخص وہاں سے جاتے ہوئے دونوں کو روٹی کی قیمت کے طور پر آٹھ درہم دے گیا۔ اب ان دونوں میں آٹھ درہم کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہو گیا، جس کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اس کا کہنا تھا کہ روٹی کے حساب سے اس کے پانچ درہم بنتے ہیں اور دوسرے کے تین درہم، جبکہ دو سرا جس کے پاس تین روٹیاں تھیں وہ آٹھ درہم کو برابر تقسیم کرنے پر بضد تھا۔ آخر کار دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علی رضی اللہ
تاریخ میں ایک مستقل باب اور مستقل موضوع ہے، جن کے ہاں امیر و غریب ، آقا و غلام سب عدل کے ترازو میں برابر ہوتے تھے، عدل و انصاف میں دوست و دشمن، اپنوں اور غیروں کی کوئی تمیز نہیں ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی مگر زمین کی جنبش بدستور باقی تھی، آپ کے ہاتھ میں درّہ تھا، وہ زمین پر مارا اور زمین سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:اے زمین! اللہ کے حکم سے ساکت ہوجا ! ٹھہر جا! پھر فرمایا ” کیا عمر نے تجھ پر عدل و انصاف کو قائم نہیں کیا؟ ! بس یہ کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی، اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ یہ ہے عدل و انصاف کی طاقت اور اس کی برکت.
حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کا ایک دلچسپ واقعہ بہت مشہو
میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا یا نہیں پڑھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے. آج سے چودہ سو سال قبل جب دنیا ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی، طاقتور کمزوروں کو اپنا غلام بنایا کرتے تھے، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی تھی، کفر و ضلالت اور جہالت کی تاریکیوں میں پوری دنیا گھری ہوئی تھی تو بطحا کی وادی سے رشد و ہدایت اور عدل و انصاف کا ایک ایسا سورج نمودار ہوا جس نے اپنے نور کے کرنوں اور عدل و انصاف سے پوری دنیا کو روشن کر دیا اور پوری دنیا کے انسانیت کو عروج کے اس مقام پر فائز کر دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں نہیں نظر آتی۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف اسلامی تار
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain