علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلَّط کردیئے جاتے ہیں۔ کا ئنات کا نظام دراصل عدل و انصاف ہی سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ عادل حکمران کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمت ہے اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے، درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہامان اور شداد ونمرود کو جانے دیجئے، ماضی قریب میں ا
ہ و سلم کی حیات طیبہ کے سانچے میں نہ ڈھال لیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ہی میں انسان کی اصلاح اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ دنیا کے نظام کو بہتر اور صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے عدل و انصاف کا قیام نہایت ضروری ہے اور اگر اس سے منہ موڑ لیا جائے تو معاشرتی، سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی زندگی دشوار ترین ہو جائے گی جس سے ہر طرف انارکی پھیلے گی۔ دنیا میں قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب اور کسی مملکت کی تباہی و بربادی کے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی، (1)قوم کا فسق وفجور اور (2) حکمرانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، اور اللہ کے بنائے قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگت
کاٹ دیتا“۔(تحفة الاشراف) امام غزالی رحمۃاللہ علیہ عدل سے مراد برابری کرنا بیان کرتے ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ "عدل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خالق و مالک کے درمیان عدل کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کرے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس اور دنیا کی تمام مخلوقات کے درمیان عدل کرے”. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف ہی پر دین ودنیا کی فلاح کا دار و مدار ہے اور بغیر عدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔ سیاست شریعہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا”. بنی نوع انسان ایک پر امن اور اصلاحی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں کر سکتے جب تک دین اسلام کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی حیات کو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم
ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں. ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسامہ کے سوا کون (اس کی سفارش سے متعلق گفتگو کرنے کی) ہمت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ! بنی اسرائیل صرف اس وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی اونچے طبقے کا آدمی کسی حد(سزا) کا مستحق ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اس پر حد نافذ نہیں کرتے اور جب کوئی نچلے طبقے کا آدمی کسی حد کا مستحق ہوتا تو اسے نافذ کرتے، اگر (اس جگہ) فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کا
کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (1) عادل بادشاہ ۔ (2) وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو۔ (3) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے۔ (4) ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ (5) وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا مجھے خدا کا خوف ہے۔ (6) وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ (7) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں”. اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز و ناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل و انصاف کی ترازو
ہر مہذب قوم اور معاشرے میں نظام عدلیہ کے وجود کو ضروری اور مہتم بالشان سمجھا گیا ہے۔ دنیاوی نظام میں ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ اور فرائض کی ادائیگی کے لئے جو نظام متعارف کرایا گیا ہے وہ عدل و انصاف ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے عدل و انصاف کو اپنا لے تو معاشرہ کی اصلاح نہایت آسان ہے کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ دین اسلام نے عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت دی ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں خوشحالی، امن اور ارتقاء کے مراحل اسی وقت طے ہو سکتے ہیں جب وہاں عدل و انصاف موجود ہو. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے ک
ہو عدل و انصاف سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے لوٹ کھسوٹ، دنگا، فساد، افتراق و انتشار کی حالت کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھا ہو۔ اختلافات اور تنازعات انسانی طبعیت کا لازمی جزو ہیں، لیکن اس میں اگر کوئی ایسی طاقت کارفرماں نہ ہو جو طاقتور کو کمزور کا حق دبانے سے محفوظ رکھ سکے، اور ظالم کو اس کے ظلم سے نہ روک سکے تو اس کا نتیجہ یقیناً آپس کے انتشار و خلفشار اور بد نظمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنہ و فساد قومی زندگی کے ہر عضو میں سرائیت کر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے وحدت امت، ملکی سالمیت اور آپس میں ہم آہنگی کے لئے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی وضاحت کی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ہمیشہ عدل و انصاف کو بہت اہمیت دی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر مہ
کتب لغت میں عدل کے معنی انصاف، نظیر، برابری، معتبر جاننا، موازنہ کرنا، دو حصوں کو برابر کرنا، سیدھا ہونا، دو حالتوں میں توسط اختیار کرنا اور استقامت کے لکھے ہیں۔ جبکہ عام اصطلاح میں قضاء کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے مراد روز مرہ کے معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل و انصاف کے ساتھ حقوق عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو. اسلام دین فطرت ہے جس کے جملہ افکار و اعمال فطرت سلیمہ کے اصولوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی انفرادی اور اجتماعی امور سے عبارت ہے۔ ایک مثالی اور کامیاب معاشرے کی تکمیل میں اخوت و محبت، ایثار و قربانی، صلہ رحمی و بھائی چارگی، فیاضی و سخاوت، امانت داری و دیانتداری اور عدل و انصاف جیسے اہم عوامل شامل ہیں۔ کوئی قوم خواہ تہذیب و تمدن اور کلچر و سوسائٹی کے کسی بھی درجے میں ہو ع
تو اب جنت کے بالا خانے کا انتظار ہے۔۔۔۔ اللہ کریم نے قاری بشیر احمد صدیق کو تجوید و قرآت میں وہ ملکہ عطا کیا ہے کہ عرب بھی ان کا پانی بھرتے ہیں ہیں...رشک آتا ہے کہ جس استادگرامی قدر کے تین چار شاگرد مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب ہوں وہ خوش نصیبی کے کس اعلی درجے پر فائز ہو گا...۔..نا جانے میرا دل کیوں کہتا ہے کہ مدینہ منورہ کے یہی وہ بزرگ ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے اور قسمت سے ہی ملتے ہیں۔۔۔۔۔مل جائیں تو غنیمت جانیں۔۔۔۔آگے بڑھ کر ہاتھ چو میں اور جوتے سیدھے کریں۔۔۔اللہ کریم قاری صاحب کی زبان مبارک کرے۔۔۔۔ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہو اور پاکستان اڑان بھرے۔۔۔۔۔!!!
✅
کہاں جنوبی پنجاب کے دور افتادہ گائوں کا مجھ سا دیہاتی اور کہاں شہر مدینہ.؟؟؟سوچتا ہوں تو سر شکر سے جھک جاتا ہے…...کہنے لگے پسماندہ سے گائوں میں کھیتی باڑی کرتا تھا کہ اللہ کریم نے قرآن مجید کے صدقے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بٹھادیا۔۔۔انہوں نے بتایا کہ کلام اللہ کی برکت سے بارہ سال مراکش کا شاہی مہمان بنا۔۔۔۔ایک دفعہ شاہ مراکش نے کہا کہ قاری صاحب بتائیں کیا چاہیے۔۔۔۔میں نے کہا کچھ نہیں چاہئیے بس ایک خواہش ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کا مستند مکین بن جائوں اور پھر مدینہ کی شہریت مل گئی۔۔۔۔یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے بنگلے کی چابیاں یہ کہہ کر واپس کردیں کہ ہمیں تو اب جنت ک
لگے ایک ایسی بھی "جامعہ"دیکھی جس میں صرف ایک طالب علم تھا اور مولوی صاحب" شیخ الحدیث "بنے درس بخاری دے رہے تھے۔۔۔۔انہوں نے غیر مسلموں کے ساتھ مکالمے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پڑوسی سے رابطہ بڑھائیں پھر دیکھیں کیسے کرشمے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔حدیث مبارکہ بھی ہے کہ تحفے دو اس سے محبت بڑھتی ہے۔۔۔یادش بخیر۔۔۔پچھلے سال برادرم قاری محمد علی عمرہ سے واپسی پر میرے پاس گھر آئے۔۔۔باتیں کرتے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔۔۔پھر بتایا کہ قاری بشیر صاحب نے آپ کے لیے عجوہ کھجور کے علاؤہ ایک خاص تحفہ بھیجا ہے۔۔۔۔۔کہنے لگے شیخ مدینہ نے یہ عطر دیتے ہوئے پیغام دیا تھا کہ یہ خوشبو بڑی برکت والی ہے کہ اس نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا بوسہ لیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔قاری بشیر صاحب نے کسی ایک نشست میں بتایا تھا کہ یہ سب قرآن کی برکت ہے ورنہ کہاں ج
۔۔۔۔۔"سب کچھ" جائز نہیں ہوتا۔۔۔حلال وحرام میں تمیز نہ رہے تو سب "کچھ اکارت" ہو جاتا یے۔۔۔۔۔۔کہنے لگے تنخواہ لیتا ہوں نہ ساری زندگی چندہ مانگا پھر بھی ایک ریال کا مقروض نہیں۔۔۔یہ سب قرآن کی برکت ہے۔۔۔انہوں نے نشاندہی کی کہ مسلمانوں میں بگاڑ کی وجہ نااہل قیادت۔۔۔۔دنیا دار مولوی اور جعلی پیر ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے واضح کیا کہ امت میں سدھار صرف وعظ سے نہیں آئے گا بلکہ تعلیم اور خدمت خلق سے قسمت بدلے گی۔۔۔۔۔بولے کہ سکول،کالج اور یونیورسٹی میں سرکاری نصاب کے ساتھ دینی نصاب پڑھانے سے بہترین رجال کار پیدا ہو سکتے ہیں۔۔۔۔علمائے کرام اس جانب توجہ دیں تو انقلاب آ سکتا ہے۔۔۔۔کہنے لگے عجب رسم چلی ہے ہر کوئی" شیخ الحدیث" بنا پھرتا ہے۔۔۔۔..شیخ القرآن خال خال ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ختم بخاری شریف ہوتے ہیں ختم قرآن شریف کا کسی کو خیال ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگے ایک ایسی
کے کونے کونے میں شاگرد ہیں اور خود دنیا گھوم لی ہے۔۔۔۔۔یہ سب قرآن کی برکت ہے۔۔۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مجھے سورہ فاتحہ سیکھنے میں دو مہینے لگے۔۔۔سورہ فاتحہ سمجھ آ گئی تو پورا قرآن آسان ہو گیا۔۔۔اتنا آسان کہ عربوں کو پڑھاتے بھی کبھی مشکل نہیں آئی۔۔۔بتانے لگے کوٹ ادو۔۔۔مظفر گڑھ۔۔۔ملتان۔۔۔۔لاہور میں پڑھا پھر ساتھ کی دہائی میں مدینہ منورہ چلا گیا۔۔۔مدینہ جانے سے پہلے دو سال مفتی محمد شفیع کے دارالعلوم کراچی پڑھایا۔۔۔۔مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی نے بھی دو سال مجھے قرآن سنایا۔۔۔کہنے لگے افسوس ہم نے قرآن کو چھوڑ دیاہے۔۔۔۔تجوید کے ساتھ ناظرہ قرآن سیکھنا واجب ہے۔۔۔۔قرآن کا حفظ نہیں تجوید لازمی ہے۔۔۔ایک آہ بھری اور کہا کہ عرب وعجم گھوما ہوں نوے فیصد قاری حضرات کو تجوید کے ساتھ سورہ فاتحہ نہیں آتی۔۔۔۔کہنے لگے کہ لقمہ حلال بڑا ضروری مسئلہ ہے۔
ہیں۔۔۔سب خوایشیں پوری ہو گئی ہیں۔۔۔اب ایک ہی ارمان ہے کہ مدینہ میں زندگی کا انجام بخیر ہو جائے۔۔۔۔جناب قاری بشیر احمد کا تعارف یہ بھی ہے کہ مسجد نبوی کے امام وخطیب اور مدینہ منورہ کے جج جناب عبدالمحسن القاسم ان کے شاگرد رشید ہیں۔۔۔۔۔یہی نہیں امام حرم جناب حسین آل شیخ۔۔۔۔۔جناب علی جابر اور جناب محمد ایوب نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔۔۔۔قاری صاحب نے خود قاری فتح محمد پانی پتی۔۔۔شیخ حسن ابراہیم الشاعر اور شیخ محمود خلیل الحصری ایسے جلیل القدر اساتذہ سے قرآن کا فیض ہایا۔۔۔۔۔میں نے پوچھا قرآن سکھاتے ساٹھ سال ہوگئے کتنے شاگرد ہیں۔۔۔؟کہنے لگے تعداد کا تو اندازہ نہیں لیکن اس وقت پچاس ممالک میں میرے شاگرد فروغ قرآن کے لیے کوشاں ہیں۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی چالیس ممالک میں قرآن کا پیغام کا لیکر جا چکے ہیں۔۔۔کہنے لگے دنیا کے ک
یہ ہے کہ انسٹھ سال سے شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اقامت پذیر ہیں۔۔۔رہائش پذیر ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مدینہ کے شہری ہیں۔۔۔۔قاری صاحب کا تعارف یہ بھی ہے کہ اکتالیس سال سے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید پڑھا رہے ہیں۔۔۔۔قاری صاحب کا تعارف یہ بھی ہے کہ وہ اکیاون سال سے کسی تنخواہ کے بغیر کلام اللہ کی تعلیم دے رہے ہیں۔۔۔انہوں نے بتایا مدینہ میں قرآن پڑھاتے چھ دہائیاں ہونے کو ہیں۔۔۔۔ شروع کے چھ مہینے پیاز کے ساتھ بھی روٹی کھائی۔۔۔۔ابتدائی آٹھ سال مشاہرہ لیا پھر قرآن کی برکت سے کرم ہو گیا اور سعودی عرب کی شہریت مل گئی۔۔۔اب مدینہ منورہ میں اپنا گھر ہے جبکہ تیس سال سے مہمان خانہ بھی چل رہا ہے۔۔۔۔کہنے لگے دستر خوان خاص طور پر مدینہ منورہ کی روایت ہے۔۔۔مدینہ والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے۔۔۔۔گلے لگاتے اور کھانا کھلاتے ہیں
بیٹھنے کی سعادت ملی۔۔۔۔علالت کے باعث نقاہت تھی پھر بھی اٹھ کر گلے لگایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔۔مدینہ شریف کے بزرگ بھی قسمت سے ملتے ہیں۔۔۔صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کی بات یاد آ گئی۔۔۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں میں نے قدرت اللہ شہاب سے پوچھا یہ بتایے کہ مدینہ منورہ میں بزرگ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ بولے ہاں۔۔۔۔میں نے کہا مکہ معظمہ سے بھی زیادہ۔۔۔کہنے لگے ہاں غالبا زیادہ لیکن یہ لوگ ظاہر نہیں ہوتے۔۔۔۔۔میں نے بھی اس نشست میں مسجد نبوی شریف کے پچاسی سالہ شیخ القرآن کو بہت "ٹٹولا"مگر وہ کبھی مسکرادیتے تو کبھی بات ٹال دیتے۔۔۔۔وہ میرے سوالوں کے بڑی خندہ پیشانی سے بڑے جامع جواب دیتے رہے مگر کسی"بھید" کی خبر نہ ہونے دی۔۔۔۔۔ہاں بات بات پر ایک جملہ کہتے کہ میرا کوئی کمال نہیں جو کچھ بھی ہے یہ سب قرآن کی برکت ہے۔۔۔۔عزت مآب قاری بشیر احمد کا تعارف یہ ہ
حترام استاد گرامی فضیلتہ الشیخ قاری بشیر احمد صدیق کے ساتھ چودہ برس کے دورانیے میں یہ چوتھی مگر طویل نشست تھی۔۔۔پہلی ملاقات دو ہزار نو میں مال آف لاہور میں ہوئی…میں ایک اردو اخبار کے دینی ایڈیشن کے لئے انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔فوٹو گرافر کو لیکر نماز فجر کے بعد ہی ان کے کمرے کے باہر جا بیٹھا۔۔۔۔انہوں نے کچھ دیر بعد اندر بلایا۔۔۔کھجوریں کھلائیں اور مزیدار سا مشروب پلایا۔۔۔پہلے گفتگو سے گریزاں تھے مگر مختصر مجلس کے دوران ہی وہ میرے مہربان بن گئے۔۔۔تب سے اب تک ان کی دعائوں سے مستفیض ہورہا ہوں۔۔۔۔دو ہزار پندرہ میں مدینہ منورہ حاضری ہوئی تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔۔۔وہ اس شب بھی مسجد نبوی میں قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔۔۔بڑے تپاک سے ملے اور عربی قہوہ پلایا۔۔۔اب کی بار فروری دو ہزار تئیس میں ڈیفنس لاہور کے ایک گھر میں ان کے قدموں میں بیٹھنے ک
ے میں کل ہی آپ کو یاد کر رہا تھا۔۔۔۔میری آنکھیں چھلک پڑیں۔۔۔۔۔سلام دعا کے بعد پہلی بات یہ پوچھی کہ پاکستان کا کیا حال ہے؟میں نے کہا دعا کریں کہ اللہ کریم وطن عزیز پر کرم فرمائے۔۔۔۔کہنے لگے پاکستان پر کرم ہی کرم ہے۔۔۔۔اگلے چھ مہینے میں پاکستان اڑان بھرے گا اور منظرنامہ نامہ بدل جائے گا۔۔۔۔قاری صاحب کی پیش گوئی سن کر دل کو سکون سا آگیا۔۔۔۔۔دو سال ہونے کو ہیں جب قاری صاحب سے ایک سیر حاصل ملاقات کے بعد لکھا تھا کہ ہم فقیر عجم۔۔۔۔ہم امیر حرم کی بارگاہ اقدس کے وہ "کشکول بردار" ہیں کہ خاک مدینہ ہی نصیب ہو جائے تو زہے نصیب،چہ جائے کہ مدینہ منورہ کے روحانی نظام سے وابستہ کسی عالی قدر نمائندہ بزرگ سے مصافحہ اور معانقہ ہو جائے۔۔۔۔شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت" رتبے" بدل دیتی ہے۔۔۔۔اوج ثریا بخشتی ہے۔۔۔۔مسجد نبوی شریف کے قابل صد احترام ا
ڈاکٹر احمد علی سراج کا "خاک مدینہ" کی فضیلت بارے "شہد آمیز جملہ"ابھی کانوں میں رس گھول رہا تھا کہ شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل رشک بزرگ عزت مآب الشیخ قاری بشیر احمد صدیق نے یہ کہہ کر دل کے تار چھیڑ دیے کہ "کبھی مدینہ منورہ بھی آیا کریں"۔۔۔۔میں نے کہا حال دل کیسے کہوں؟خاکسار تو کب سے منظوری کے لیے "ماہی بے آب "کی طرح تڑپ رہا۔۔۔۔روضہ اقدس پرمیرا سلام کہیے گا اور میری طرف سے حاضری کی عرضی بھی گزار دیجیے گا۔۔۔۔۔!!آہ۔۔۔۔کبھی ایسا ہی دل نشین جملہ صحابہ کی بستی جنت البقیع میں آرام فرما مکہ مکرمہ کے بزرگ الشیخ مولانا عبد الحفیظ مکی کہا کرتے۔۔۔۔جب دل اداس ہو تو کبھی شیخ مدینہ قاری بشیر صاحب اور کبھی شیخ حرم کعبہ مولانا محمد مکی حجازی صاحب کو فون کر کے دعائیں لے لیتا ہوں۔۔۔زہے نصیب کہ گذشتہ شب بھی قاری صاحب سے بات ہو گئی۔۔۔۔کہنے لگے می
پس، اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا اور اپنے مصاحبوں میں شامل کرلیا۔
بڑا آدمی
ایک دن کا واقعہ ہے کہ جہانگیر بادشاہ کسی منہ پھٹ بھاٹ کی کسی بات پر ناراض ہوگئے اور اسے ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے کا حکم دیا۔
اتفاق سے اس وقت وہاں خان خاناں بھی موجود تھے۔
بھاٹ پہلے تو ان کو تکتا رہا اور پھر برجستہ بولا، ’’حضور! نواب خان خاناں بڑا آدمی ہے۔ اسے ہاتھی کا پیر چاہئے۔ میں تو چیونٹی سے بھی کمتر ہوں۔ میرے لئے تو چوہے کا ایک پیر ہی کافی ہے!‘‘
اس پر جہانگیر اور زیادہ خفا ہوگئے۔ لیکن خان خاناں مسکرا دئیے اور اس کی جان بخشی کروائی۔
اس کے علاہ، سخی رحیم نے اسے یہ کہتے ہوئے سونے کے سکے بھی دیئے، ’’اس نے مجھے بڑا آدمی سمجھا، تو کہا۔ بڑا آدمی نہ سمجھتا تو وہ کیوں کہتا مجھے بڑا آدمی!‘✅
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain