خی رحیم اس کو اپنے ساتھ محل میں لے آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔
مصاحبوں کے پوچھنے پر خان خاناں نے بتایا کہ ایک بوند پانی شیشی میں بھر کے شیشی کو جھٹکانے کا مطلب یہ تھا کہ:
’’صرف ایک بوند آبرو بچی ہے اور اب وہ بھی خطرے میں ہے!‘‘
خادم سے مصاحب
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خان خاناں اپنے مصاحبوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک خادم اچانک رونے لگا جو کہ اُسی روز ملازم ہوا تھا۔ خان خاناں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں ایک دولت مند باپ کا بیٹا ہوں۔ آج دسترخوان پر چنی ہوئی نعمتیں دیکھ کر مجھے اپنی امیری کا زمانہ یاد آگیا۔
اس پر خان خاناں نے امتحان لینے کے غرض سے اس سے پوچھا کہ بھنے ہوئے مرغ میں سب سے اچھی چیز کیا ہوتی ہے؟
خادم نے جواب دیا، ’’پوست۔‘‘
خان خاناں کو یقین ہوگیا کہ وہ کسی دولت مند کا بیٹا
بڑھیا آئی اور اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے توے کو خان خاناں کے جسم سے رگڑنے لگی۔ سب سپاہی ارے ارے کرکے دوڑے لیکن رحیم نے ان سب کو روک دیا اور حکم دیا کہ اس بڑھیا کو توے کے برابر سونا تول کردے دو۔ سبھی مصاحب اس فیصلے پر حیرت زدہ ہوئے اور بولے، ’’یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
اس پر رحیم نے اپنے خاص انداز میں کہا، ’’یہ بڑھیا پرکھ رہی تھی کہ بزرگوں کی یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ بادشاہ اور اس کے امیر ’’پارس‘‘ ہوتے ہیں اور کیا ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں!‘‘
ایک بوند آبرو
ایک روز کا ذکر ہے کہ خان خاناں کی سواری چلی جارہی تھی کہ راستے میں ایک پریشان حال شخص نظر آیا۔ اس نے ایک شیشی میں ایک بوند پانی ڈالتے ہوئے اس شیشی کو کچھ جھکایا۔ شیشی جھکانے پر جب وہ پانی کی بوند گرنے کو ہوئی تو اس نے شیشی کو سیدھا کرلیا۔
یہ دیکھ کر سخی
زندگی کے پانچ ایسے قصے پیش کریں گے جو ان کی دریا دلی، فیاضی اور سخاوت جیسی خوبیوں سے مالا مال ہیں اور جن کی وجہ سے وہ عوام میں سخی خان خاناں کہلائے۔
پھل دار درخت
ایک روز کی بات ہے کہ خان خاناں اپنی مخصوص سواری پر بیٹھے کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک شریر بچے نے ان کی سواری پر ایک پتھر مارا۔ سپاہی دوڑے اور اسے پکڑ کرلے آئے لیکن رحیم نے اسے سزا دینے کے بجائے کچھ چاندی کے سکے دینے کا حکم دیا۔
اس پر سب حیران ہوئے اور بولے کہ جو سزا کا مستحق تھا، اسے آپ نے انعام سے نوازا، اس میں کیا مصلحت ہے؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ سن کر رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’لوگ پھل دار درخت پر ہی پتھر مارتے ہیں!‘‘
توا اور پارس
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خان خاناں اپنی سواری سے اتر ہی رہے تھے کہ ایک غریب بڑھیا
رحیم اپنی خوبیوں کے باعث نہ صرف عوام میں ہر دلعزیز تھے بلکہ وہ اکبر کے بھی نور نظر تھے۔ اکبر ان کو پدرانہ شفقت سے فرزند برادر اور بے تکلفی میں یار وفادار کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ اکبر ان کی شخصیت اور علم سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے رحیم کو اپنے بیٹے جہانگیر کا اتالیق مقرر کیا۔ اس کے علاوہ اکبر نے ان کو خان خاناں کے خطاب سے نوازتے ہوئے ’’پنچ ہزاری‘‘ منصب عطا کیا اور بعد میں سپہ سالار اعظم اور وزیر بنایا۔ رحیم کا ۱۶۲۷ ء میں انتقال ہوا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان کی بیگم کے مقبرہ کے پاس دہلی میں دفن کیا گیا۔
یہ تھا اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک رتن، ہندی کے دوہا گو صوفی شاعر، فن تعمیرات کے باذوق برہانپور کے صوبہ دار، بہت سی زبانوں کے جانکار، سخاوت کے پیکر عبد الرحیم خان خاناں کا مختصر سا تعارف۔ اب ہم عبد الرحیم خان خاناں کی زندگی
عیسیٰ کا آستانہ عالیہ ان کی زیر نگرانی تعمیرات کا بہترین نمونہ ہیں۔
رحیم ایک ماہر سپہ سالار اور صوبہ دار کے علاوہ، عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، برج اور اودھی زبان کے زبردست عالم تھے۔ وہ فرانسیسی اور انگریزی زبان بھی جانتے تھے۔ وہ زبان ہندی کے مقبول عام صوفی شاعر تھے۔ وہ دوہے کہتے تھے۔ ان کو شری کرشن سے بہت عقیدت تھی۔ وہ رامائن، مہا بھارت، گیتا اور پُران سے اپنی من پسند باتوں کو آسان زبان میں شعری اظہار میں دھالتے تھے۔ ان کے دوہے انسانیت کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ اپنے دوہوں میں اکثر و بیشتر اپنا تخلص ’رحِمن‘ استعمال کرتے۔ وہ ہندی شاعروں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ گوسوامی تلسی داس سے ان کے بڑے اچھے مراسم تھے۔ ہندی میں ان کی شعری تخلیقات کا مکمل مجموعہ ’’رحیم رتناولی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
ی تھی کہ اکبر نے بیرم خاں کی خدمات کے پیش نظر، رحیم کی پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اپنے بہادر باپ کے نمایاں عکس نظر آنے لگے۔
رحیم نے جنگی تربیت کسی ملیٹری اسکول میں نہیں لی تھی لیکن اپنی ذاتی دلچسپی کے سبب وہ فن سپہ گری سے اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کافی ماہر ہوگئے تھے۔ جب اکبر نے گجرات پر چڑھائی کی تو ’’نشان ِ لشکر‘‘ یعنی فوجی پرچم اس چودہ برس کے لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ آگے چل کر، جب مغل بادشاہوں نے موجودہ مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر برہانپور کو اہمیت دی تو انہیں برہانپور کا صوبہ دار مقرر کیا گیا۔ برہانپور کی سماجی اور تعمیراتی تاریخ پر عبد الرحیم خان خاناں کے اثرات آج بھی قائم ہیں۔ نہر عبد الرحیم خان خاناں، جہانگیری حمام، باغ عالم آرا زین آباد، آہو خانہ، شاہ نواز خان کا مقبرہ اور حضرت شاہ
بہت کم ہندی اور اردو داں حضرات ایسے ہوں گے جو عبد الرحیم خان خاناں کے نام سے ناواقف ہوں۔ خصوصاً صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر برہانپور کے باشندے تو ان کے نام اور تعمیراتی کام سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ شہنشاہ اکبر کے ایک انمول رتن، شہر برہانپورکے فن تعمیرکے با ذوق صوبہ دار، شری کرشن کے عقیدت مند اور ہندی کے مقبول عام صوفی دوہا گو شاعر تھے۔ وہ بہت سخی بھی تھے۔ ان کی سخاوت کے چند قصے بھی مشہور ہیں۔
عبد الرحیم خان خاناں کی پیدائش ۱۷؍ دسمبر ۱۵۵۶ء کو لاہور میں ہوئی تھی۔ عبد الرحیم خان خاناں کے والد بیرم خاں مغل بادشاہ ہمایوں کے استاد اور اکبر کے بچپن کے دوست تھے۔ لیکن عبد الرحیم خان خاناں کے والد کو مکہ معظمہ جاتے ہوئے راستے میں قتل کردیا گیا اور اس طرح عبد الرحیم خان خاناں چار برس کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ اکب
و بڑوں میں کہیں سچاءنظر آتی ہے یا کہیں ان کے کلام میں جھوٹ کی آمیزش دکھاءدیتی ہے۔بول تول میں نرمی و اخلاقی بلندی نمایاں ہوتی ہے،یا کمی بیشی سے ناجئز پیسہ کماتے ہیں اور خود کو بدی کی لکیروں میں قید کر دیتے ہیں۔
الغرض لکیریں انسان کا مقدر نہیں،یہ مصنوعی آڑھی ترچھی ککیریں ہم خود اپنے اردگرد کھینچ لیتے ہیں اور پھر اللہ کی رضا کو اس میں شامل کر دیتے ہیان۔مولا منصف ہے،وہ ذرے ذرے کا حساب کرے گا اور جو ہم اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجتے ہیں،انہی لکیروں سے ہماری کسوٹی کا مقدمہ لکھا جائے گا۔ہم لکیروں کو مٹانے کے اہل ہیں،نءلکیریں بنا سکتے ہیں اور مصنوعی لکیروں کے جال کو توڑ کر ،نءلکیروں سے اپنی قسمت کا فیصلہ تقدیر کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
,✅✅✅
خاص تشخص کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ساری عمر نیک افراد ،ایک معمولی سی غلطی سے بدکردار بنا دیئے جاتے ہیں اور بدمعاش،محض ریاکاری و دکھاوے سے،نیک و پارسا کہلانے لگتے ہیں۔یہی حال احوال مسکراہٹ کے پیکر،ہنس مکھ و ملنسار افراد کا ہے اور کوءایک غلطی زندگی کی کایا پلٹ دیتی ہے۔تند خو اور خونخوار اشخاص دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں،ان کی عادات کے چرچے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور وہ لاکھ جتن کر لیں،پر انھیں اس خانے سے باہر نہیں آنے دیا جاتا ہے۔
کاروباری و بیوپاری لوگ اپنی بندشوں میں گرفتار رہتے ہیں،کوءقول کا پکا اور کوءکچا،کوءتول میں سخت اور کوءنرم،کوءنرم دل اور کوءسخت گیر۔ان صفات کی مشہوری ہو جاتی ہے،ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود،ان لکیروں کو وہ مٹا نہیں سکتے ہیں۔بسا اوقات یہ اطوار خاندانی وراثت کا حصہ بن جاتے ہیں،بچوں و بڑوں میں ک
صفات نہیں اپنا سکتی،ورنہ صنف نازک یا مردانگی کا ٹھپہ لگا دیا جائے گا،باقی عمر اس چوغے کو اتارنے میں صرف کریں۔چند مرد یا عورتیں ان لکیروں سے باہر آ کر سوچتے ہیں،اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ہمت کرتے ہیں اور اس قسم کا دم خم رکھتے ہیں۔ماں باپ کی لکیر بہت چوڑی ہے،جس ماں نے پتلون پہنے کی جرات کر لی ،وہ مرد مار کہلاءاور جو مرد ذرا کمزور دکھاءدیا،اسے زن مرید کے زمرے میں ڈال کر قید کر دیا۔دونوں لاکھ جتن کر لیں،پر ایک دفعہ جو ٹھپہ لگ گیا،اس لکیر کو مٹانا ناممکن امر ہے اور اسی جنگلے کے پیچھے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بہن بھاءمذکر مونث کے جال میں پھنسے زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں،مجال ہے کوءذرا ادھر ادھر قدم رکھے اور ساری دنیا کے سوال و جواب اور عذاب و جھنجال کا مستحق ٹھہرے۔
نیکی و بدی ازل سے چلی آ رہی ہے،ابد تک قائم رہے گی اور ہر شخص اپنے ایک خاص تشخص
جو انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔آخر اودے،پیلے، جامنی،سرمءرنگوں سے یہ جانبداری کیوں ،انھیں غیر جانبداری کا پرچم کیوں تھما دیا گیا اور وہ معصوم نہ شکوہ کریں اور نہ شکایت۔
اب ذرا ہم اپنی عام زندگی پر بھی، ایک عمیق نظر ڈالیں اور اس میں پوشیدہ لکیروں کو ڈھونڈ نکالیں۔گھریلو زندگی میں چھوٹے و بڑے،جوان و بزرگ ،عوام و خواص،مرد و عورت ،بھاءو بہن ،ماں و باپ ،نیک و بد،شریف و بدمعاش ،ہنس مکھ و خونخوار ، تند خو اور اسی قسم کی بیشمار لکیروں نے ہمیں قید کر رکھا ہے۔گر کوءبچہ عقل و فہم کی بات کرے،اسے گھاس تک نہیں ڈالی جاتی اور نہ ہی کوءاسے سراہتا ہے۔بزرگ بیوقوف کیوں نہ ہوں،اپنی بزرگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر،اول فول بک دیتے ہیں اور چھوٹے سر دھنتے ہیں۔مردوں و عورتوں کو الگ الگ لکیروں سے بنائے خانوں میں بند کر دیا گیا ہے،ایک صنف دوسرے کی
کھول دیئے اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی برداشت کا مادہ تفویض کیا۔سیاسی عمل کی لکیریں بغض و عناد کا سبب بن سکتی ہیں،ذہنی ارتقائی عمل ،مثبت سوچ اور معیانہ روی کی لکیریں، ذاتی کدورتوں پر حاوی آتی ہیں۔سیاست میں رنگت کا عنصر بھاری رہتا ہے،بس ایک لکیر پڑ جاتی ہے اور اسے اپنی زندگی میں معدودے چند ہی لوگ عبور کر پاتے ہیں۔ہرے رنگ پر مسلمانوں کی دینی جماعتیں قابض ہو گئیں ہیں،لال رنگ اشتراکیت کی بنیاد قرار پایا اور سارے کھلے ذہن ،آزاد منش افراد نے اس لکیر کے پیچھے پناہ لی۔
دوسری جانب مغرب کی لکیروں نے الگ کھیل تماشہ پیش کیا ، نیلے رنگ کو آزادی و روشن خیالی کا مظہر قرار دیا گیا،لال رنگ قدامت پسندی اور فرسودہ خیالات کا مظہر قرار پایا۔آخر ان لکیروں میں کس نے یہ رنگ بھرے،کیا رنگ بھی سیاست کر سکتے ہیں اور باقی رنگوں کا کیا قصور ،جو انھیں ر
گیا۔عام افراد ایک لکیر کو عبور کرنے کی سعی میں ساری عمر بھاگتے نظر آئے،جب وہ لکیر عبور کر لی ،تو سب سراب دکھاءدیا اور اپنی بے معنی زندگی پر کف افسوس ملتے رہ گئے۔
اگلا سنگ میل و مرحلہ تعلیم کے حصول نے پیدا کیا،تعلیم زندگی میں بیشمار تبدیلوں کا باعث بنی اور جہلا اس مثبت سوچ و طرز زندگی سے نا آسنا رہ گئے۔یہ لکیر پتھر میں ثبت ہو گئ،دنیا دو حصوں میں بٹ گءاور ایک حصہ ترقی کی راہ پہ گامزن اور دوسرا حصہ تاریکی و گھپ اندھیروں میں مقید۔تعلیم نے دلوں کو منور کر دیا،آگاہی کا راستہ صاف کر دیا اور ترقی و کامرانی قدم چومنے لگی۔جہلا تاریک پستیوں میں ٹپے ٹوئیاں مارت رہے،طاغوتی پردے ان کے دلوں،کانوں و آنکھوں پر پڑے رہے اور وہ پرانی روایتوں میں مقید،گہری کھاءمیں پڑے رہے۔
تعلیم کی لکیر نے دنیا بھر کو روشن کر دیا،اس اہم ترین لکیر نے ہمارے ذہن کھول د
لعون نے مغلظات بکیں،ان باتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور اس کا نام و نشان محض بدی و شر کی مثال بنا۔
زمانہ آگے بڑھتا چلا گیا،کاشتکاری کو دوام ہوا اور زمین پر لکیریں کھنچ گئیں۔خدا کی بناءزمین اچھی و بری قرار دی جانے لگی، اس کے حصول نے جھگڑے کی ایک بنیاد ڈالی اور قتل و غارت گری قابیل کی ریت،انسانوں نے بخوشی، چند سکوں کے عوض اپنا۔اس نے دوسری کءلکیروں کو جنم دیا،جن میں معاشی کروفر و دنیاوی سربلندی نے، عزت و وقار کا مصنوعی معیار قائم کیا اور نیکی، پارساءو عبودیت کو اپنانے والے بیچارے مسکین تصور کیئے جانے لگے۔اب گھروں کی تعمیرات کا وقت آیا،بڑھ چڑھ کر اونچے اونچے محل تعمیر ہوئے اور تعیشات زندگی سے انھیں لیس کر دیا گیا۔اس لکیر نے دنیا کی نظروں میں، امیر و غریب کی واضح تفریق پیدا کی اور عمارات کا جائے وقوع بھی اس مصنوعی لکیر کا اٹل حصہ بن گیا۔
سے قبول فرمایا اور قابیل کا رد فرمایا۔یہ ایک بھائیوں کے درمیان لکیر کھچ گ،یوسف کے بھائیوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔شاید اس سے پہلے جنت کے باسی،آدم و حوا خدا کے مقرب بندے بنے اور ان کو سجدے سے انکار پر شیطان معتوب ہوا ،اسے پہلی لکیر کہا جا سکتا ہے۔شیطان نے براءکا ٹھیکا لے لیا،وہ طاغوتی طاقتوں کا سربراہ و سرغنہ بن گیا اور اس نے اللہ تعالی کے نیک بہرہ ور بندوں کو راہ حق سے گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
حق و طاغوت کی لکیریں کھنچ گئیں،خدا و رسولوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ،لکیر کے ایک طرف اور شیطان کے چیلے دوسری طرف صف آراء ہو گئے۔یہ تفریق امر ہو ،ساری سچاءو اچھاءکو ایک سمت یکجا کر دیا گیا اور ساری براءو گندگی کو دوسری سمت دھکیل دیا گیا۔فنیا کی تاریخ میں جس عطیم انسان نے کلمہ حق بلند کیا،اس کی تعکیمات کو خدا نے محفوظ کر دیا اور جس بدکردار ملعون نے
قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا اور پہاڑوں ، دریاوں و سمندروں سےملکی علاقہ جات کا تعین ہوا کرتا تھا۔انسانی ذپن نے اپنے عروج و ترقی کا اظہار نقشوں پہ مصنوعی لکیریں کھینچ کر کیا،یہ قبائل کے درمیان فاصلے پیدا کرتیں،دین و مسلک کی آڑ میں نفرتوں کے بیچ بوتیں اور رنگ و نسل کو بنیاد بنا کر ،کدورتوں و رنجشوں کے جھنڈے گاڑتیں۔مصنوعی لکیریں ہر جگہ پاءجاتی ہیں،گھروں سے لے کر دفاتر تک ، مدرسوں و خانقاہوں کی اونچی فصیلوں تک اور کھیل کود کے ہرے بھرے میدانوں میں۔
اب طے یہ کرنا ہے،ان لکیروں کی بنیاد و ابتداءکب،کہاں اور کیسے ہوئی۔ہماری کتاب لوح محفوظ ایک عظیم سانحہ کا ذکر فرماتی ہے ،جس میں قابیل نے اپنے چھوٹے بھاءہابیل دشمنی مول لی ،اس کی وجہ تسمیہ بھاءکا نظرانہ تھا،خدا نے اسے قبول
بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلّا رائیاں
آل نبی اولادِ علی نوں، توں کیوں لیکاں لائیاں
چیہڑا سانوں سیّد سدّے، دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں
رائیں سائیں سبھنیں تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں
سوہنیاں پرے ہٹائیاں نیں تے، کوجھیاں لے گل لائیاں
جے توں لوڑیں باغ بہاراں، چاکر ہوجا رائیاں
بلھے شوہ دی ذات کہہ پچھنایں، شاکر ہو رضائیاں
(بلھے شاہ)
میں خواتین ہوں تو آپ جیسے کردار کو یہ بطور وزیراعلیٰ کے آپ ایک بڑے عہدے پر براجمان ہیں کم از کم بار بار اس فقرے کو دہرانا کیا پیغام دے رہے ہیں۔ آپ ہماری بچیوں کو کہ مجھے نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے۔
اور آخری بات…!
بقول وزیردفاع خواجہ آصف کے کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے جو گزشتہ روز علی امین گنڈاپور نے اتار دی۔ میرے نزدیک انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی کو سرعام داغدار کرو… یہ شاید ہمارے خاندان میں رواج ہوگا مت دو ایسا پیغام ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کو…
✅✅✅
نشہ آور بڑھکیں تھیں انہوں نے بے باک بڑھکیں ماریں اور اپنے قائد بانی تحریک انصاف کے انداز اور ان کی بڑھکوں کی یاد دلا دی۔ جہاں انہوں نے سیاستدانوں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ کو کھلی اور آزادانہ طور پر دھمکیاں دیں یہ کسی سیاست دان کا وطیرہ نہیں تھیں البتہ ہم گنڈا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے جلسے میں میڈیم نورجہاں کی یاد دلا دی اور انہوں نے ایک نشئی کے انداز میں نورجہاں کا مشہور زمانہ گیت
مینوں نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے
یوں بھی مجمع میں خ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain