پڑتے ہیں۔
ہمارے ایک نوجوان سیاست دان نے بڑی بڑھکیں ماریں اور خاص کر عدلیہ کے چیف کے بارے میں بڑھک ماری۔ عدلیہ نے بلایا موصوف نے معافی مانگی اور پھر اسی عدلیہ کی چوکھٹ پر سجدہ کر دیا… آج رات کو مختلف چینلز پر سیاسی عدالتیں دیکھتے ہیں ان عدالتوں میں لڑائی جھگڑوں کی باتیں تو بعد میں دیکھیں گے یہاں بھی بڑھکیں ہی بڑھکیں ماری جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا ہے پھر ان بڑھکوں کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک طویل عرصہ کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک جلسہ کیا اس جلسے میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر ہوگا جس نے اپنی اوقات سے بھی بڑھ کر بڑھکیں نہ ماری ہوں مگر اہم بڑھکیں وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کی تھیں۔ ان کی ہر بات میں ہر انداز میں نشہ آور
ذمہ دار بھی عمران خان ہے جو ہر بات پر بڑھک ضرور مارتا ہے ’’اوئے میں تجھے اندر کر دوں گا… برباد کر دوں گا… جیل میں ڈال دوں گا… فکس کر دوں گا… میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہیں یہ کردوں گا وہ کر دوں گا… اوئے سن لو… اوئے سنو… اگر تم نے یہ کیا تو میں وہ کر دوں گا… کسی کو نہیں چھوڑوں گا کسی کی نہیں سنوں گا نہیں جھکوں گا مر جاؤں گا، غلامی قبول نہیں کروں گا مجھے باہر نکالو… عوام تمہیں کھا جائیں گے… اب چونکہ عمران خان کی اپنی مونچھیں نہیں ہیں اور وہ ہر مونچھ والے چاہے اس کے سامنے رانا ثناء کی مونچھیں تھیں کہ میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر اندر کروں گا یہ ہوگا وہ ہوگا اب بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان تو بڑھکیں مارنے میں ایک فن رکھتا ہے مگر اس کے حواری ایک طرف بڑھک مارتے ہیں تو دوسری طرف اس بڑھک کا دفاع بھی نہیں کر پاتے اور تردید و تصدیق کے چکروں میں پڑتے
ان کی بڑھکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جب لیڈر بڑھکیں مارے گا تو پھر ان کی جماعت کہاں پیچھے رہ جانے والوں سے تھی اس نے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے بڑھک کو اپنی سیاست کا باقاعدہ حصہ بنا لیا اور زمانہ تو دیکھ رہا ہے کہ آج کون ہے جو بڑھک نہیں مار رہا۔ جلسہ ہو، بیان ہو، پریس کانفرنس ہو، میڈیا ٹاک ہو وہاں صرف بڑھکیں زیادہ ماری جاتی ہیں اور پھر خدا کی پناہ بڑھک بھی ایسی کے بعض اوقات عقل بھی دنگ رہ جائے، شرما جائے، سکڑ جائے کہ یار یہ کیا بڑھک مار دی ہے۔ یہاں ایک کے اوپر ایک نئی سے نئی بڑھک نے ہمیں کیا سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یار اگر میں نے بڑھک نہ ماری تو یہ میری تو کوئی سنے گا نہیں کیوں نہ کسی بھی بات پر بڑھک مار دوں ہم عرصہ دراز سے صرف بڑھکیں سنتے آ رہے ہیں۔ ہمیں دوسرے کو دباؤ میں لانے کے لیے بڑھک مارنے کی جو عادت پڑ گئی ہے اس کا ذمہ دار بھی عمران
توہین عدالت کے زمرے میں آ جاتی ہے اور حال کی بات کریں تو ہمارے کئی سیاستدان ان بڑھکوں کا شکار ہوئے اور پھر معافی مانگ کر عدالت سے باہر آئے کہ سر وہ تو بڑھک تھی ہمیں بھی تو سیاست میں رہنا ہے۔
سیاست تو اپنی جگہ اب پھر کوئی دوسرے کو بڑھک لگا دیتا ہے اس کا مطلب ہے کہ بڑھک نے باقاعدہ طور پر ہماری زندگی کو سائن کر لیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی اب ادھوری ہے کہ اگر بڑھک نہ ماری تو میری عزت خاک میں مل جائے گی۔ میں کون ہوں کیا ہوں جیسا ہوں مجھے بڑھک مارنا ہے اور وہ میں مار دیتا ہوں۔ ماضی اور حال اور آنے والے کل میں ہماری بڑھکوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے کوئی یہ بات مانے نہ مانے آج کے دور کے بڑھکوں کے سب سے بڑے موجد عمران خان بانی تحریک انصاف ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز بڑھکوں سے کیا تھا اور پھر اقتدار سے پہلے اقتدار کے بعد اب اڈیالہ جیل سے ان ک
یاسی بڑھکوں کی ایک روایت بنتی گئی بلکہ یہ روایت باقاعدہ طور پر اس وقت رجسٹرڈ کروا دی جب عمران خان نے تحریک انصاف کی سیاست کا آغاز کیا اور پھر ان کے ہر جلسے میں ان بڑھکوں نے دھمکیوں کی جگہ لے لی اور پھر یہ بڑھکیں تحریک انصاف کا سلوگن بن کر سوشل میڈیا پر آ گئیں اور ہر بات اور ہر معاملے کو ان بڑھکوں کے انداز میں دیکھا اور سنا جانے لگا۔ چلیں اچھا ہوا کہ ہماری سیاست میں ان بڑھکوں کے ذریعے لوگوں کو مزاج بھی ملا کہ یہ صرف بڑھکیں تھیں اب کسی بھی معاملے میں بڑھک مارنا آپ کا سب کا پیارا حق ہے کہ ہم نے کمزور معاشرے میں اپنی مردانگی کا بھی مظاہرہ کرنا ہے۔ بیمار معاشرے میں اور کچھ نہیں تو بڑھک مارنے کا حق تو محفوظ ہے اور یہ ایسی وباء ہے کہ اس پر قانون بھی کچھ نہیں کہتا البتہ جب کوئی سیاست دان عدلیہ کے بارے میں کوئی بڑھک مارتا ہے تو اس کی یہ بڑھک توہی
آپ نے یقینا پنجابی فلمیں دیکھی ہوں گی ان فلموں کی مقبولیت اور کامیابی میں زیادہ کردار ان بڑھکوں کا ہوتا تھا جو سین کے مطابق فلمائی جاتیں اس زمانہ میں ان بڑھکوں میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نمایاں تھے اگر آپ کو یاد ہو تو سلطان راہی کی مولے نوں مولا نہ مارے تے مولے نوں کوئی نہیں مار سکدا… اوئے بار آ… میں تینوں نئیں چھڈاں گا… روک سکو تو روک لو… میں آیا تے پنڈ ہلا دیاں گا… خیر یہ تو فلمی کہانیوں کی بڑھکیں تھیں اب یہ بڑھکیں ہماری سیاست کا بڑا مسئلہ بن گئی ہیں۔ پہلے پردہ سکرین پر ان کو سنا کرتے تھے آج جلسوں میں یہ بڑی اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور ان بڑھکوں کے موجد تو ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے اپنی سیاسی تحریک کے آغاز پر ایوب خان کو للکارا تھا پھر اتحادیوں کے شہنشاہ نواب زادہ نصراللہ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ان کے بعد سیاسی بڑھکوں
کیا زندگی ان پر بوجھ ہے۔ کیا پردے میں ان کا دم گھٹتا ہے ۔سوال احساس کی ہے ۔
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ ۔۔۔۔۔انچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی ۔۔۔۔۔چترالی کلچر میں دوپٹے کی بڑی اہمیت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ چترالی عورت کی پہچان ہے یاں اگر کوٸی اس سے انکاری ہے تو ڈھنکے کی چوٹ پر کہدے کہ میں نے چترالیت اپنے سر سے اتار پھینکا یے ۔۔۔حدیث شریف ہے ۔۔۔اگر کسی کی حیا مرجاۓ تب اس کی مرضی ہے جو بھی کرے ۔اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر مجبور ہیں تو ان حقیقتوں سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام کے متعین کردہ اصول ہماری اولین ترجیحات ہیں
✅✅✅
جو اقدار تھے وہ عین اسلامی تھے ان کی حیثیت ختم ہوتی جارہی ہے ۔دنیا کی ہرقوم اور تہذیب کے اندر عورت کا مقام اور عورت سے منسوب اقدار متعین ہیں عورت ان سے کبھی باغی نہیں ہوٸی ۔۔بغاوت اس وقت جنم لیتی ہے کہ بندہ اپنے اقدار چھوڑ کر بخوشی دوسروں کے اقدار اپناۓ۔۔۔ ہم فخر سے ایسا کر رہے ہیں ۔۔اگر ہماری کوٸی بچی یا بچہ پڑھنے کے لیے کسی دوسرے ملک پہنچتا ہے تو پہلے بچی کے سر سے دوپٹہ اور بچے کی شلوار قمیص بدلتی ہے ۔کیا یہ کلچر اور لباس تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔۔میں خود ہار چکا ہوں پہلے گھر میں عورت کے سر سے دوپٹا گرتا تو وہ گھر کے مردوں کے سامنے شرمندہ ہوتی اب ہم ان کو ننگا سر دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں ان کو احساس تک نہیں ہوتا ۔۔دارالعلوم کے بچے بچیاں مکمل شرعی پردہ کرتے ہیں کیا وہ زندہ نہیں ہیں ۔۔۔کیا زندگی
نہیں ہے جدید تعلیم اسلامی اور خالص چترالی ثقافت سے متصادم کیوں ہے ؟ ہم نےکالج یونیورسٹیوں میں بھی ایسی بچیوں کو دیکھا ہے جو مکمل پردے میں ہوتی ہیں ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت یاخاندان سے ہوتا ہے وہ بڑے بڑے عہدوں پر ہوتی ہیں تب بھی ان کا پردہ ان کی زندگی میں کوٸی رکاوٹ نہیں ۔۔ماننے والی بات ہے کہ وقت کے تقاضے بدلے ہیں لیکن جس اسلام کو ہم مانتے ہیں اس کے زرین اصولوں کو ماننا پڑتاہے ۔اگر پردے کا حکم قران میں ہے تو پھر ہمیں (justification ) کا حق نہیں پہنچتا ۔۔۔ہمیں یا تو طوغا کرہا مانا پڑے گا یا صاف انکار کرنا پڑے گا ۔اب قران کے کسی صریح حکم سے انکار کی صورت میں کیا ہم داٸرہ اسلام میں شامل رہ سکتے ہیں یا باہر ہوتے ہیں
یہ بھی واضح ہے ۔چترال بہت تیزی سے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں عریانی کی طرف جارہا ہے ۔ہم اپنی روایات کھوتے جارہے ہیں ۔۔ہمارے جو اق
وصف ہے اگرچہ چترال کی خواتین محنتی (working women) ہیں اس کے باوجود اپنے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہوٸی بھی کسی خاتون کو ننگا سرنہیں دیکھا جا سکتا ۔اپنے گھر کے اندر بھی اپنے دوپٹے کی اتنی حفاظت کرتی ہیں جتنی باہر جاتے ہوۓ کرتی ہیں ان کی روایتی برقعہ قبایا ان کے استعمال میں ہوتی یے ۔ابھی تک یہ پردہ چترالی عورت کی پہچان رہی ہے ۔آج کل جو عریانی آگئی ہے یہ یلغار لگتا ہے اور نہھلے پہ دہھلا جدید تعلیم یافتہ جوان جابجا اس کی حمایت کررہے ہیں ۔اس کو خاتون کی مرضی اور اس کے گھرانے کا کلچر کہتے ہیں ۔۔کہتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار باپ کی تعلیم یافتہ میچور بیٹی ہے ۔۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ اس کاخاندان اس کا باپ جو بھی ہےان کی سوچ جس طرح بھی ہے اس پرکلام نہیں کلام اس پر ہے کہ اس عریانی اور فحاشی کی گنجاٸش اسلام اور چترالی کلچر میں ہے کہ نہیں ہے جدید
کرو ۔۔۔سوال یہ ہے کہ قران نے پہلی والی عریانیت کو جاہلیت قرار دیا ۔ ۔پردے کو آگاہی اور علم قرار دیا ۔۔اسی کو ثقافت اور تہذیب کا درجہ دیا ۔۔
اب پھر سے جدید تعلیم کی بدولت بے پردگی اور عریانی “آگاہی” ہے اور “پردہ “جہالت ہے ۔۔ہم ماڈرن ہورہے ہیں سوال ہے کہ یہ تعلیم ہمیں آگاہی اورہنر دینے کی بجاۓ ہمارے اقدار(values) کو قتل نہیں کررہی ۔۔اس سوال کا جواب جدید تعلیم یافتوں کے پاس نہیں آیٸن باٸین شاٸین ضرور ہے ۔۔اسلام کے اصولوں میں اپنے اختیار کی کوٸی حیثیت نہیں اسلام میں لباس پر کوٸی قدغن نہیں مگر لباس کا مقصد پردہ ہے جس لباس سے پردے کا مقصدزاٸل ہوتا ہے وہ اسلامی لباس نہیں ۔۔چترال ایک ایسا خطہ رہا ہے کہ اس میں اسلام کے آنے کے بعد عین اسلامی کلچر ترقی کرگیا ۔۔خواتین اسلامی اصولوں کی پابندی اپنی تہذیب کے اندر کرتی ہیں ان میں پردہ بہت نمایان وصف ہے اگ
اسلام سے پہلے عورت آزاد تھی ۔۔ناچ گانے سے لے کرننگے سر پھرنے تک آزادی تھی بلکہ کٸ ہزار سال آگے جایا جاۓ تو مشہور مصری شہزادی قلوپطرہ جس نے کئی شاہوں شہزادوں کو اپنے حسن کا دیوانہ بنایاتھا اپنے سیزر جیسے جنرل کو ٹاسک دی کہ شام فتح کرو میں تم سے شادی کروں گی وہ شام فتح نہ کر سکا مگر بے چارہ ٹنشن میں مرگی کا مریض بن گیا تاریخ کہتی ہے کہ یہی قلوپطرہ کوٸی چاند چہرہ والی نہیں تھیں چہرے مہرے پر جابجا داغ تھے مگر وہ اس وقت بیوٹی کریم بناتی تھی خالص مکھن اور گلاب کے پھول کی پھنکڑیاں ابالتی تھیں کریم بناتی تھی اس کے حسن کا یہ راز کسی کو معلوم نہ تھا یہ خاتون کی پوزیشن تھی اسلام آیاتو قران عظیم الشان میں حکم دیاگیا کہ اپنے گھروں میں قرار پکڑوں اور پہلے والی جاہلیت اختیار نہ کرو ۔۔۔
ہا ہے؟؟
نہیں جناب میں یہ جرأت کیسے کرسکتا ہوں۔ میرا مقصد یقین دہانی کرانا تھا لیکن جب سے آپ نے گارنٹی کی اصطلاح استعمال کی ہے ہر کوئی اسے دوہرا رہا ہے ۔ اور میں بھی ان میں شامل ہوں ۔
گِدھ بولا پھر تو ٹھیک ہے۔ میراے خیال میں بگلے کا علاج تم کرتے ہو ۔ وہ کہتا لوگوں کو سمجھنا چاہیے اور تم انہیں سمجھانے کا عزمِ جوان اپنے اندر رکھتے ہو۔ بہت خوب، اب میں تھک گیا ہوں ۔ آگے کی منصوبہ بندی کل کرتے ہیں ۔ شب بخیر۔
✅✅✅
بولا لیکن سارےنخرے اٹھانے کے باوجود اب بگلا کہہ رہا ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو بھگوان نہ کہے بلکہ اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دے کہ لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں؟
گِدھ نے نادانستہ طوطے کے من کی بات کہہ دی۔ وہ فوراً بولا جناب عالی وہی تو میں کہہ رہا تھا کہ عوام اپنے دماغ سے کچھ نہیں سوچتے بلکہ ہم جیسے لوگ انہیں جو سجھاتے ہیں وہ اسی کو دوہراتے رہتے ہیں۔ آپ مجھے اپنا اقبال بنا لیجیے میں آپ کا اقبال بلند کرنے کی گارنٹی لیتا ہوں۔
گدھ چونک کر بولا گارنٹی! میری نقل اتار رہا ہے یا مذاق اڑا رہا ہے؟؟
نہیں
ہے؟
بھیااس میں ہمارے شاہ اور نڈا کی غلطی ہے۔ ان دس سالوں میں ہم وادی کے حوالے سے ایک بھی آدمی تیار نہیں کرسکے۔
لیکن آپ نے اپنے خاص آدمی منوج سنہا کو وہاں کا لیفٹننٹ گورنر بنا کر ساری اختیارات دے دئیے ۔ اس نے کیا کیا؟
ارے بھائی وہ بھی اس محاذ پر پوری طرح ناکام رہا ۔ پچھلے قومی انتخاب میں ہمیں وادی کے اندر نہ صرف کوئی امیدوار نہیں ملا بلکہ کوئی ایسا فردبھی میسر نہیں آیاجس کی حمایت کی جاسکے۔
وہ بیچارہ بھی کیا کرے؟ کشمیر کے لوگ نہ کسی کے جھانسے میں آتے ہیں اور نہ خوف کھاتے ہیں مگر پھر ایک بدعنوان کو آگے بڑھابا ٹھیک نہیں لگتا ۔
ارے میرے طوطے تم کس زمانے میں جیتے ہو۔ بدعنوانی عام ہوچکی ہے۔ ہم سب کرپٹ ہیں اس لیے اب یہ عیب نہیں بلکہ خوبی ہے۔
طوطا بولا لیکن
کھیل میں بھاگوت کا کردار سمجھ میں نہیں آیا۔
اوہو سمجھتے کیوں نہیں ۔ سنگھ کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہونے والا تھا ۔ اس سے قبل ہم نے اسے خوش کرکے مذکورہ مردم شماری کی حمایت کروالی۔ اب کم از کم کوئی سنگھی تو اس کے خلاف راگ نہیں الاپے گا۔
چلو مان لیا مگر پھر پرانے سنگھی رام مادھو کو کشمیر کا نگراں بنا نے کی کیا حکمت ہے؟ جبکہ اس پر سابق گورنر ستیہ پال ملک کے ذریعہ بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے ہیں اور وہ مشکوک کردار کا حامل ہے۔
جی ہاں مجھے معلوم ہے۔ اس بیوقوف نے 2019؍ انتخاب سے قبل صرف220نشستوں کی پیشنگوئی کرکے میرا بلڈ پریشر بڑھا دیا تھا اور اسی لیے میں نے اس کا حقہ پانی بند کردیا تھا ۔
جی ہاں مجھے معلوم ہے ۔ اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں کہ اس پر یہ مہربانی کیوں ہورہی
نہیں آتا تھا ۔
ارے بھیا ہم نے کیمرے والوں کو سخت ہدایت کردی تھی کہ اس کو بالکل نہ دکھائیں ۔ ہمارے ساتھ کہیں ناگزیر ہو جائے تو نظر آجائے بس۔
طوطا بولالیکن اب تو الیکشن ختم ہوچکا پانچ سال کے لیے آپ نے جوڑ توڑ کر سرکار بناہی لی ہے اس لیے اس کے نخرے اٹھانے سے کیا حاصل؟
ارے بھیا وہ جو ذات پات کی مردم شماری ہے نا اس کے لیے یہ سودے بازی کرنی پڑی۔
طوطے نے پوچھا سرکار ان دونوں کےدرمیان کا تعلق سمجھ میں نہیں آیا ۔
اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے؟ تم تو جانتے ہی ہو کہ سماجی مساوات کی خاطر مردم شماری سنگھ پریوار کے لیے سمِ قاتل ہے لیکن اس کی مخالفت کا مطلب سیاسی خودکشی بھی ہے اس لیے بھاگوت کو چنے کے جھاڑ پر چڑھا کر خوش کرنا مجبوری بن گیا۔
طوطے نے پوچھا لیکن اس کھیل
کرکے انتقام لینے لگا ہے ۔
طوطے نے پھر دُم ہلا کر کہا جی ہاں آج کل تو اس چونچ مجھ سے بھی زیادہ تیز ہوگئی ہے۔
گدھ نے کہا ایسی تمہاری زبان سے پھول کھلتے ہیں اور وہ کم بخت تو آگ اگلتا ہے۔ ہم سے کہتا ہے کہ ہمارے اندر رعونت نہیں ہونی چاہیے ۔ گھمنڈ بہت بری چیز ہے حالانکہ وہ خود سرتاپا اس میں ڈوبا ہوا ہے۔
طوطا بولا لگتا ہے وہ آپ کی مجبوری کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔
جی اس کا علاج کرنا پڑے گا مگر ذرا سنبھال کر۔ فی الحال تو ہمیں کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے ۔
اچھا یہ بتاو کہ اس کی سیکیورٹی بڑھا دینا کون سا علاج ہے ۔ اس سے یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا ؟
ارے بھیا اس سے انا کو مطمئن کیا جائے گا جیسے پران پرتشٹھان میں اپنے بغل میں بیٹھا کر کیا گیا تھا۔
طوطے نے کہا لیکن وہ وہاں موجود ہونے کے باوجود چند تصاویر کے سوا کہیں نظر ہی نہیں آت
ہیں مگر یہ سنگھ کی ضرورت نہیں والا معاملہ ذرا مختلف ہوگیا اس لیے کہ سویم سیوک تو ہم پر جان نچھاور کرتے ہیں۔
طوطا بولا تب تو بگلا بھاگوت کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ بلوغیت کا دعویٰ غلط ہے ورنہ کوئی بالغ اور سمجھدار انسان اپنے پیروں پر کلہاڑی کیسے مار سکتا ہے؟
جی ہاں وہ تو ہےلیکن اگر یہ بات کسی نجی محفل میں ہوئی ہوتی تو اسے سنبھالا جاسکتا تھا لیکن اس نے انڈین ایکسپریس سے کہہ دی جسے ہمارے مخالفین خوردبین لگا کر پڑھتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا وہ لے اڑے۔
طوطے نے تائید کی اور بولا جی ہاں موقع بھی غلط تھا الیکشن کے بعد کہتا تو بگلا بھاگوت کیا کرلیتا مگر یہ تیر تو بالکل دورانِ مہم نکلا اور اس کے قلب میں پیوست ہوگیا۔
جی ہاں اور بگلا بھگت کو دیکھو اس وقت تو کچھ نہیں بولا مگر جب ہم لوگ دو سو چالیس پر آگئے تو اب کھلے عام طنز کرکے انتقام لینے ل
پڑا۔
اچھا ۔ اس احمق نے ایسی کون سی غلطی کردی تھی ؟
ارے بھیا اس بیچارے کا بھی کیا قصور ، ہم سبھی لوگ چارسو پار کے خمار میں تھے اس لیے نڈا نے کہہ دیا کہ اب ہمیں سنگھ پریوار کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم بالغ ہوگئے ہیں۔
طوطے نے کہا نڈا نے اپنی بلوغیت کا ذکر کرکے بتا دیا کہ دودھ کے دانت ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اور شاید کبھی نہ ٹوٹیں ۔
جی اس کی زبان درازی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا اور اب بھی اسی قرض کا سود ادا کررہے ہیں۔
طوطا بولا لیکن کہہ دیا تو کہہ دیا ۔ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنا تو ہمارے پریوار کا شعار رہا ہے ۔ یہ وہی تو زمانہ تھا جب خود آپ نے منگل سوتر، بھینس اور ٹونٹی وغیرہ کی بحث چھیڑ دی تھی ۔
جی ہاں مگر وہ باتیں تو ان مسلمانوں کے خلاف تھیں جو ہمیں ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کو برا بھلا کہنے پر خوش ہوکر ہمارے اندھے بھگت ہمیں ووٹ دیتے ہیں م
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain