Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

۔اصلی اورمعیاری چیزبنانے کاہمیں نہیں پتہ لیکن دونمبراورجعلی اشیاء بنانے کے توہم ماہر اور ماسٹرہیں۔ایسی کونسی چیزہے جس کی ہم نے کاپی مارکیٹ میں نہ لائی ہو۔ہماری مارکیٹیں،
دکان،بازاراورگھربارجعلی اشیائ، جھوٹ، فریب اور دھوکے سے بھرے پڑے ہیں۔ باہر کی دنیا میں تاجر، سرمایہ دار، صنعتکار اور بیوپاری کاروبارکے ذریعے انسانیت کی خدمت کا عزم، ارادہ اورنیت کرکے گھروں سے نکلتے ہیں اور ہم۔؟ ہم رات کو خواب میں بھی اپنے مجبور، لاچار اور بے بس مسلمان بھائیوں کولوٹنے،کاٹنے اور ڈسنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ ہمارا ارادہ، مقصد اور مشن ہی یہ ہوتاہے کہ گاہگ کوکیسے لوٹا اور ڈسا جائے۔؟ ایک غریب، مجبور اور لاچارانسان کو دس روپے کی شے پانچ سو اور ہزار میں پکڑانا یہ توہمارے ہاں عام بلکہ سرعام ہے۔ آنے والے گاہک اور سائل کوبڑے سے بڑاٹیکہ لگانے کو ہم ترقی اور کامیاب کاروبار

MushtaqAhmed
 

بے ایمان ہیں اورجھوٹے ونوسربازہیں بلکہ اس ملک میں ہرچور،بے ایمان اورڈاکودوسروں کی طرف انگلی کرکے کہتاہے کہ میرے سواسارے لوگ خراب ہیں۔کچھ دن پہلے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں یہ انکشاف کیا گیاکہ یہاں دودھ کے نام پر زہربیچاجارہاہے۔سومیں کوئی پندرہ بیس فیصدخالص دودھ کہیں بیچاجارہاہوگا،اسی پچاسی فیصددودھ کے نام پرکیمیکل اورپاؤڈرگول کرکے لوگوں کوپلایااورتھمایاجارہاہے۔یہ صرف ایک دودھ کی بات نہیں اس ملک میں تواب ہرچیزدونمبربکنے لگی ہے۔ سگریٹ، پتی، مصالحہ جات، صابن، سرف، شیمپو، چاکلیٹ اورکپڑوں وجوتوں سمیت انسانی زندگیاں بچانے والی ادویات تک مارکیٹ میں دونمبر اور غیرمعیاری سرعام فروخت ہو رہی ہیں۔ جس طرح اچھے برے اورایمانداروبے ایمان انسان کاپتہ نہیں چل رہااسی طرح اب مارکیٹ میں دستیاب اشیاء کے جعلی اوراصلی ہونے میں بھی فرق معلوم نہیں ہورہا۔اصلی اور

MushtaqAhmed
 

یہاںاپنے دامن پرلگے داغ کسی کونظرآرہے ہیں اورنہ ہی کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیارہے۔دنیاترقی کرگئی یانہیں لیکن ہم اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں کہ اپنے سارے عیب،جرائم اورگناہ ہم نے دوسروں پرتنقیداورتضحیک کرنے اورانہیں گناہ گارومجرم کہنے کے پردے میں چھپادیئے ہیں۔آپ دورجانے کے بجائے محلے کی دکان،قریبی ریڑھی بان یاسبزی فروش اوردودھ فروش کے پاس چلے جائیں۔ محلے کا دکاندار، ریڑھی بان اور سبزی ودودھ فروش دو نمبر اشیائ، خراب فروٹ سبزی، کیمیکل، پاؤڈر اور پانی ملا دودھ آپ کو پکڑاتے ہوئے حکمرانوں، لیڈروں، سیاستدانوں اوردوسرے لوگوں کوبرابھلاکہتے اورگالیاں دیتے دکھائی دیں گے۔ اصل سے بھی زائد قیمت لیکرآپ کو دو نمبر اشیائ، خراب سبزی وفروٹ اوردودھ کے نام پرزہردینے والے پکے وٹکے مسلمان کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم حرام خور ہیں، فراڈی ہیں، بے ایم

MushtaqAhmed
 

میں سے 8 ٹکڑے کھا لئے اور باقی ایک ٹکڑا بچا جبکہ تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھائے تو باقی 7 ٹکڑے بچے، اس طرح تیسرے شخص نے تمہاری روٹیوں میں سے ایک ٹکڑا کھایا اور تمہارے ساتھی کی روٹیوں میں سے 7 ٹکڑے کھائے لہذاء انصاف کے مطابق تمھارا ایک درہم اور تمہارے ساتھی کے 7 درہم بنتے ہیں۔“ اس منصفانہ تقسیم پر دونوں متفق ہو گئے اور پانچ روٹی والے نے سات درہم اور تین روٹی والے نے ایک درہم لے لیا۔ (استیعاب).اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حصہ کا پورا پورا عدل و انصاف کی توفیق عطا فرمائے آمین

MushtaqAhmed
 

اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپ نے ساری بات سننے کے بعد تین روٹی رکھنے والے شخص سے فرمایا کہ ”تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو کیونکہ انصاف کے مطابق تمھارے حصہ میں صرف ایک درہم آتا ہے۔“ یہ سن کر وہ شخص حیران ہو گیا اور عرض کیا ”آپ مجھے سمجھا دیں کہ کیسے میرا حق صرف ایک درہم بنتا ہے؟“ آپ نے فرمایا کہ ”روٹیوں کی کل تعداد آٹھ تھی اور کھانے والے تم تین آدمی تھے، اگر ایک روٹی کے تین ٹکڑے کیے جائیں تو 8 روٹیوں کے کل 24 ٹکڑے بنتے ہیں جو تینوں میں برابر تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصہ میں آٹھ روٹی کے ٹکڑے آتے ہیں، تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 ٹکڑوں میں

MushtaqAhmed
 

مشہور ہے۔ حکایت : دو شخص سفر پر نکلے ہوئے تھے، کھانا کھانے کے لئے کسی جگہ پر اکٹھے بیٹھ گئے۔ ایک کے پاس 5 روٹیاں اور دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں۔ اسی دوران وہاں سے ایک تیسرے شخص کا گزر ہوا۔ دونوں نے اس تیسرے شخص کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لیا اور مل کر روٹیاں کھانے لگے، کھانے کے بعد تیسرا شخص وہاں سے جاتے ہوئے دونوں کو روٹی کی قیمت کے طور پر آٹھ درہم دے گیا۔ اب ان دونوں میں آٹھ درہم کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہو گیا، جس کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اس کا کہنا تھا کہ روٹی کے حساب سے اس کے پانچ درہم بنتے ہیں اور دوسرے کے تین درہم، جبکہ دو سرا جس کے پاس تین روٹیاں تھیں وہ آٹھ درہم کو برابر تقسیم کرنے پر بضد تھا۔ آخر کار دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علی رضی اللہ

MushtaqAhmed
 

تاریخ میں ایک مستقل باب اور مستقل موضوع ہے، جن کے ہاں امیر و غریب ، آقا و غلام سب عدل کے ترازو میں برابر ہوتے تھے، عدل و انصاف میں دوست و دشمن، اپنوں اور غیروں کی کوئی تمیز نہیں ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی مگر زمین کی جنبش بدستور باقی تھی، آپ کے ہاتھ میں درّہ تھا، وہ زمین پر مارا اور زمین سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:اے زمین! اللہ کے حکم سے ساکت ہوجا ! ٹھہر جا! پھر فرمایا ” کیا عمر نے تجھ پر عدل و انصاف کو قائم نہیں کیا؟ ! بس یہ کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی، اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ یہ ہے عدل و انصاف کی طاقت اور اس کی برکت.
حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کا ایک دلچسپ واقعہ بہت مشہو

MushtaqAhmed
 

میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا یا نہیں پڑھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے. آج سے چودہ سو سال قبل جب دنیا ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی، طاقتور کمزوروں کو اپنا غلام بنایا کرتے تھے، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی تھی، کفر و ضلالت اور جہالت کی تاریکیوں میں پوری دنیا گھری ہوئی تھی تو بطحا کی وادی سے رشد و ہدایت اور عدل و انصاف کا ایک ایسا سورج نمودار ہوا جس نے اپنے نور کے کرنوں اور عدل و انصاف سے پوری دنیا کو روشن کر دیا اور پوری دنیا کے انسانیت کو عروج کے اس مقام پر فائز کر دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں نہیں نظر آتی۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف اسلامی تار

MushtaqAhmed
 

علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلَّط کردیئے جاتے ہیں۔ کا ئنات کا نظام دراصل عدل و انصاف ہی سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ عادل حکمران کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمت ہے اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے، درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہامان اور شداد ونمرود کو جانے دیجئے، ماضی قریب میں ا

MushtaqAhmed
 

ہ و سلم کی حیات طیبہ کے سانچے میں نہ ڈھال لیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ہی میں انسان کی اصلاح اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ دنیا کے نظام کو بہتر اور صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے عدل و انصاف کا قیام نہایت ضروری ہے اور اگر اس سے منہ موڑ لیا جائے تو معاشرتی، سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی زندگی دشوار ترین ہو جائے گی جس سے ہر طرف انارکی پھیلے گی۔ دنیا میں قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب اور کسی مملکت کی تباہی و بربادی کے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی، (1)قوم کا فسق وفجور اور (2) حکمرانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، اور اللہ کے بنائے قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگت

MushtaqAhmed
 

کاٹ دیتا“۔(تحفة الاشراف) امام غزالی رحمۃاللہ علیہ عدل سے مراد برابری کرنا بیان کرتے ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ "عدل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خالق و مالک کے درمیان عدل کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کرے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس اور دنیا کی تمام مخلوقات کے درمیان عدل کرے”. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف ہی پر دین ودنیا کی فلاح کا دار و مدار ہے اور بغیر عدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔ سیاست شریعہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا”. بنی نوع انسان ایک پر امن اور اصلاحی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں کر سکتے جب تک دین اسلام کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی حیات کو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم

MushtaqAhmed
 

ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں. ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسامہ کے سوا کون (اس کی سفارش سے متعلق گفتگو کرنے کی) ہمت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ! بنی اسرائیل صرف اس وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی اونچے طبقے کا آدمی کسی حد(سزا) کا مستحق ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اس پر حد نافذ نہیں کرتے اور جب کوئی نچلے طبقے کا آدمی کسی حد کا مستحق ہوتا تو اسے نافذ کرتے، اگر (اس جگہ) فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کا

MushtaqAhmed
 

کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (1) عادل بادشاہ ۔ (2) وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو۔ (3) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے۔ (4) ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ (5) وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا مجھے خدا کا خوف ہے۔ (6) وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ (7) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں”. اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز و ناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل و انصاف کی ترازو

MushtaqAhmed
 

ہر مہذب قوم اور معاشرے میں نظام عدلیہ کے وجود کو ضروری اور مہتم بالشان سمجھا گیا ہے۔ دنیاوی نظام میں ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ اور فرائض کی ادائیگی کے لئے جو نظام متعارف کرایا گیا ہے وہ عدل و انصاف ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے عدل و انصاف کو اپنا لے تو معاشرہ کی اصلاح نہایت آسان ہے کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ دین اسلام نے عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت دی ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں خوشحالی، امن اور ارتقاء کے مراحل اسی وقت طے ہو سکتے ہیں جب وہاں عدل و انصاف موجود ہو. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے ک

MushtaqAhmed
 

ہو عدل و انصاف سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے لوٹ کھسوٹ، دنگا، فساد، افتراق و انتشار کی حالت کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھا ہو۔ اختلافات اور تنازعات انسانی طبعیت کا لازمی جزو ہیں، لیکن اس میں اگر کوئی ایسی طاقت کارفرماں نہ ہو جو طاقتور کو کمزور کا حق دبانے سے محفوظ رکھ سکے، اور ظالم کو اس کے ظلم سے نہ روک سکے تو اس کا نتیجہ یقیناً آپس کے انتشار و خلفشار اور بد نظمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنہ و فساد قومی زندگی کے ہر عضو میں سرائیت کر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے وحدت امت، ملکی سالمیت اور آپس میں ہم آہنگی کے لئے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی وضاحت کی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ہمیشہ عدل و انصاف کو بہت اہمیت دی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر مہ

MushtaqAhmed
 

کتب لغت میں عدل کے معنی انصاف، نظیر، برابری، معتبر جاننا، موازنہ کرنا، دو حصوں کو برابر کرنا، سیدھا ہونا، دو حالتوں میں توسط اختیار کرنا اور استقامت کے لکھے ہیں۔ جبکہ عام اصطلاح میں قضاء کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے مراد روز مرہ کے معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل و انصاف کے ساتھ حقوق عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو. اسلام دین فطرت ہے جس کے جملہ افکار و اعمال فطرت سلیمہ کے اصولوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی انفرادی اور اجتماعی امور سے عبارت ہے۔ ایک مثالی اور کامیاب معاشرے کی تکمیل میں اخوت و محبت، ایثار و قربانی، صلہ رحمی و بھائی چارگی، فیاضی و سخاوت، امانت داری و دیانتداری اور عدل و انصاف جیسے اہم عوامل شامل ہیں۔ کوئی قوم خواہ تہذیب و تمدن اور کلچر و سوسائٹی کے کسی بھی درجے میں ہو ع

MushtaqAhmed
 

تو اب جنت کے بالا خانے کا انتظار ہے۔۔۔۔ اللہ کریم نے قاری بشیر احمد صدیق کو تجوید و قرآت میں وہ ملکہ عطا کیا ہے کہ عرب بھی ان کا پانی بھرتے ہیں ہیں...رشک آتا ہے کہ جس استادگرامی قدر کے تین چار شاگرد مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب ہوں وہ خوش نصیبی کے کس اعلی درجے پر فائز ہو گا...۔..نا جانے میرا دل کیوں کہتا ہے کہ مدینہ منورہ کے یہی وہ بزرگ ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے اور قسمت سے ہی ملتے ہیں۔۔۔۔۔مل جائیں تو غنیمت جانیں۔۔۔۔آگے بڑھ کر ہاتھ چو میں اور جوتے سیدھے کریں۔۔۔اللہ کریم قاری صاحب کی زبان مبارک کرے۔۔۔۔ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہو اور پاکستان اڑان بھرے۔۔۔۔۔!!!

MushtaqAhmed
 

کہاں جنوبی پنجاب کے دور افتادہ گائوں کا مجھ سا دیہاتی اور کہاں شہر مدینہ.؟؟؟سوچتا ہوں تو سر شکر سے جھک جاتا ہے…...کہنے لگے پسماندہ سے گائوں میں کھیتی باڑی کرتا تھا کہ اللہ کریم نے قرآن مجید کے صدقے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بٹھادیا۔۔۔انہوں نے بتایا کہ کلام اللہ کی برکت سے بارہ سال مراکش کا شاہی مہمان بنا۔۔۔۔ایک دفعہ شاہ مراکش نے کہا کہ قاری صاحب بتائیں کیا چاہیے۔۔۔۔میں نے کہا کچھ نہیں چاہئیے بس ایک خواہش ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کا مستند مکین بن جائوں اور پھر مدینہ کی شہریت مل گئی۔۔۔۔یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے بنگلے کی چابیاں یہ کہہ کر واپس کردیں کہ ہمیں تو اب جنت ک

MushtaqAhmed
 

لگے ایک ایسی بھی "جامعہ"دیکھی جس میں صرف ایک طالب علم تھا اور مولوی صاحب" شیخ الحدیث "بنے درس بخاری دے رہے تھے۔۔۔۔انہوں نے غیر مسلموں کے ساتھ مکالمے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پڑوسی سے رابطہ بڑھائیں پھر دیکھیں کیسے کرشمے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔حدیث مبارکہ بھی ہے کہ تحفے دو اس سے محبت بڑھتی ہے۔۔۔یادش بخیر۔۔۔پچھلے سال برادرم قاری محمد علی عمرہ سے واپسی پر میرے پاس گھر آئے۔۔۔باتیں کرتے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔۔۔پھر بتایا کہ قاری بشیر صاحب نے آپ کے لیے عجوہ کھجور کے علاؤہ ایک خاص تحفہ بھیجا ہے۔۔۔۔۔کہنے لگے شیخ مدینہ نے یہ عطر دیتے ہوئے پیغام دیا تھا کہ یہ خوشبو بڑی برکت والی ہے کہ اس نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا بوسہ لیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔قاری بشیر صاحب نے کسی ایک نشست میں بتایا تھا کہ یہ سب قرآن کی برکت ہے ورنہ کہاں ج

MushtaqAhmed
 

۔۔۔۔۔"سب کچھ" جائز نہیں ہوتا۔۔۔حلال وحرام میں تمیز نہ رہے تو سب "کچھ اکارت" ہو جاتا یے۔۔۔۔۔۔کہنے لگے تنخواہ لیتا ہوں نہ ساری زندگی چندہ مانگا پھر بھی ایک ریال کا مقروض نہیں۔۔۔یہ سب قرآن کی برکت ہے۔۔۔انہوں نے نشاندہی کی کہ مسلمانوں میں بگاڑ کی وجہ نااہل قیادت۔۔۔۔دنیا دار مولوی اور جعلی پیر ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے واضح کیا کہ امت میں سدھار صرف وعظ سے نہیں آئے گا بلکہ تعلیم اور خدمت خلق سے قسمت بدلے گی۔۔۔۔۔بولے کہ سکول،کالج اور یونیورسٹی میں سرکاری نصاب کے ساتھ دینی نصاب پڑھانے سے بہترین رجال کار پیدا ہو سکتے ہیں۔۔۔۔علمائے کرام اس جانب توجہ دیں تو انقلاب آ سکتا ہے۔۔۔۔کہنے لگے عجب رسم چلی ہے ہر کوئی" شیخ الحدیث" بنا پھرتا ہے۔۔۔۔..شیخ القرآن خال خال ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ختم بخاری شریف ہوتے ہیں ختم قرآن شریف کا کسی کو خیال ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگے ایک ایسی