پڑا۔
اچھا ۔ اس احمق نے ایسی کون سی غلطی کردی تھی ؟
ارے بھیا اس بیچارے کا بھی کیا قصور ، ہم سبھی لوگ چارسو پار کے خمار میں تھے اس لیے نڈا نے کہہ دیا کہ اب ہمیں سنگھ پریوار کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم بالغ ہوگئے ہیں۔
طوطے نے کہا نڈا نے اپنی بلوغیت کا ذکر کرکے بتا دیا کہ دودھ کے دانت ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اور شاید کبھی نہ ٹوٹیں ۔
جی اس کی زبان درازی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا اور اب بھی اسی قرض کا سود ادا کررہے ہیں۔
طوطا بولا لیکن کہہ دیا تو کہہ دیا ۔ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنا تو ہمارے پریوار کا شعار رہا ہے ۔ یہ وہی تو زمانہ تھا جب خود آپ نے منگل سوتر، بھینس اور ٹونٹی وغیرہ کی بحث چھیڑ دی تھی ۔
جی ہاں مگر وہ باتیں تو ان مسلمانوں کے خلاف تھیں جو ہمیں ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کو برا بھلا کہنے پر خوش ہوکر ہمارے اندھے بھگت ہمیں ووٹ دیتے ہیں م
ہوگیا ؟ میں تو فلک کا بادشاہ ہوں ۔
یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ تم اپنے آپ کو غیر طبعی یا اوتار سمجھنے کے لیے آزاد ہو مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ارے تم تو اس بگلا بھاگوت کی زبان تو نہیں بول رہے ہو جس نے مجھ پر طنز کیا تھا کہ کچھ لوگ بھگوان بننے کی کوشش کررہے ہیں ؟
جی نہیں میں اس کی زبان کیوں بولوں بلکہ خود آپ ہی اس کا بھاو بڑھا رہے ہو۔
ہم اس کا بھاو بڑھا رہے ہیں ۔ ارے ہمارے بس میں ہو تو اس بحر ہند میں غرق کردیں ۔ نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟
اچھا اگر ایسی بات ہے تو اس کی سیکیورٹی کو زیڈ پلس سے بڑھا کر اپنے برابر کیوں کردی ؟
یار تم نے بڑ ا نازک سوال کردیا ۔ وہ دراصل انتخابی مہم کے دوران ہمارے نڈا نے پھڈا کر دیا تھا اس کا کفارہ ادا کرنا پڑا۔
اچھا
گدھ کے پنجوں میں جکڑا ہوا طوطا بولا ایک بات بتاوں بھیا ۔ میر ا زندہ رہنا آپ کے حق میں میرے مرنے سے بہتر ہے۔
بھوکے گِدھ کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا ۔ اس نے سوال کیا وہ کیسے؟ جلدی بتاو ۔
طوطے نے کہا ’ایسی بھی کیا جلدی ہے؟‘ دھیرج رکھو ابھی بتاتا ہوں۔
دیکھو بھیا میری بھوک بہت بڑھ گئی ہے اب صبر کرنا مشکل ہورہا ہے۔
طوطا بولا تم مجھے اپنا اقبال بنالو یقین رکھو میں تمہاری شبیہ بدل دوں گا ۔
میری شبیہ کو کیا ہوگیا
ے پیسے بڑھا سکتے ہم۔
جیرا رکھی کو سمجھانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ بابو کے قاتل کا باپ رات پیسے دے گیا، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے ہم نے بیٹے کے قاتل کو اللہ رسوؐل کے نام پہ معاف کیا۔ جیرا اور رکھی صبح عدالت میں بیان دینے کے بعد میڈیا کو بتا رہے تھے۔
✅✅✅
میں ہیں، چار دن سے زیادہ تیری خبر نہیں چلائیں گے۔ جس طرح باسی سالن کی اہمیت نہیں ہوتی اور اسے پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح دو دن پرانی خبر بھی اہمیت نہیں رکھتی ان کے لیئے، پرانے مسئلے چھوڑ کر نیا مصالحہ ڈھونڈ لاتے ہیں، چار دن بعد تو اور تیرا بیٹا کسی کو یاد بھی نہیں رہنے،بہتر ہے موقع سے فائدہ اٹھا، ورنہ بیٹے سے تو گئے ہیں پیسوں سے بھی جائیں گے، تیرے بیٹے کے بدلے اڑسٹھ لاکھ پچاس ہزار مل رہے، یہ چھوٹی رقم نہیں ہے، اتنے پیسے تو ہماری سات نسلیں نہیں کما سکتیں، تھوڑی سی حجت حیل کر کے
کروں گی، پھانسی چڑھاؤں گی، رکھی کا رو رو کے برا حال تھا۔
شور ڈالنے تک ٹھیک ہے جتنا ڈال سکتی ڈال لے لیکن معاملہ پیسے لیکر ہی ختم ہونا، یہ بات سمجھالے خود کو۔
تجھے شرم نہیں آتی بیٹے کی لاش کا سودا کرتے، رکھی تڑپ اٹھی۔زیادہ بک بک نہ کر۔ شکر کر پیسے مل رہے ہیں نہ ملیں، تو کیا کر لے گی، وہ پیسے والے لوگ ہیں جتنے پیسے ہمیں دے رہے ہیں اس سے آدھے پولیس والوں کو دے کر معاملہ دبا لیں گے اور یہ جو ٹی وی والوں کے پیچھے لگی ہے کہ وہ تجھے انصاف دلائیں گے، تو یاد رکھ یہ ہمارے لیئے نہیں اپنے لیئے کام کرتے ہیں۔ سب اپنی روٹی کمانے کے چکر میں ہیں، چا
نکلا تھا، کہ ایک بگڑے رئیس زادے نے اسے اپنی امارت کے نیچے روند ڈالا، رپورٹر چیخ چیخ کر ٹی وی پہ بتا رہی تھی۔
بابو کی لاش گھر آئی تو اس کے رشتے داروں سے زیادہ ٹی وی،اخبار کے رپورٹر آئے، خوب چرچا ہوا۔
مجرم موقع پر پکڑا گیا، مجرم کو ہر صورت سزا ملنی چاہیئے، مجرم کے والدین جیرے اور رکھی کے دکھ میں برابر کے شریک۔ انھوں نے ہر قسم کے تعاون کی یقین دیانی کرائی، مجرم کے والدین دیت دینے کو تیار، بااثر مجرموں کو دیت کے نام پر کسی صورت بچنے نہیں دیں گے، ہر صورت سزا دلوا کر رہیں گے۔ سماجی تنظیموں کا بیان ، ہر ٹی وی چینل پہ ایک ہی خبر تھی۔
میں اس امیر زادے کو معاف نہیں کرو
جماعتیں پاس کر ہی لی تھیں۔
رکھی بابو سے نوکری کرنے کا کہتی اور بابو اس موضوع سے جان چھڑاتا، اس کے سکول کا سیکورٹی گارڈ ایم اے پاس تھا، جس کی تنخواہ پچیس ہزار تھی۔ جس سے پانچ ہزار ہر ماہ کمپنی والے اپنی کمیشن رکھ لیتے، بابو کی تعلیم تو نہ ہونے کے برابر تھی، اسے کہاں نوکری ملتی۔
آج پھر لڑ جھگڑ کر رکھی نے بابو کو نوکری ڈھونڈنے بھیجا، وہ بکتا جھکتا گھر سے نکل گیا، کچھ ہی دور گیا تھا کہ تیز رفتار گاڑی سے کچلا گیا، گاڑی اوور سپیڈ تھی اور بابو خیالوں میں مگن۔ سو دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔
لیکن اسے قسمت کہیئے کہ ادھر سے کسی چینل کا رپورٹر گذررہا تھا، اسے ایک بڑی خبر مل گئی۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی بوڑھے ماں باپ کی امیدوں کا واحد مرکز نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا
تا بیٹا سکول جاتا۔ بیوی کالی رنگت پہ گہری لال سرخی لگا کر ڈھولک پکڑے کام پہ نکل جاتی۔ رکھی اور اس کی ساتھی خیراں محلے محلے جاتیں، جہاں پتہ لگتا شادی یا کاکا ہوا اس گھر کی دہلیز پکڑ لیتیں، گھر کے بند دروزے اکثر ان پر کم ہی کھلتے وہ گلی میں ہی ڈھولک بجا اور گا گا کر بدھائیاں مانگتی رہتیں، اکثر جھڑکیاں اور گالیاں بھی کھاتیں لیکن ڈھیٹ بنی رہتیں، ویلیں لے کر ہی اٹھتیں۔ اور پھر جا کر اپنے خصموں کو بھیج دیتیں، رات کو جیرا ایک تھیٹر میں کام کرتا۔ کبھی کبھی کوئی نئی جگت بھی لگا لیتا، جتنی فحش جگت لگاتا اتنی زیادہ داد ملتی، لیکن پیٹ داد سے نہیں روٹی سے بھرتا ہے، سارے دن کی خواری کے بعد مشکل سے دال روٹی نصیب ہوتی۔
رکھی اور جیرا بوڑھے ہورہے تھے اور ان کی امیدیں بیٹے کی صورت جوان، بابو نے فیل ہو ہو کر بارہ جماعتیں پاس
دونوں چیزیں نہیں، ہم جیسے ماڑے لوگ چھوٹے کاموں کے لیئے بنے ہیں۔ کسی دفتر میں چائے بنادی، فائلیں پکڑادیں یا پھر بلدیہ میں جمعدار بھرتی ہوگئے اور اب تو جمعداری کی نوکری کے لیئے بھی تگڑی رشوت چلتی ہے، نوکری نہ ملی تو ایویں کڑھتا رہے گا ساری عمر۔ پڑھ گیا تو زیادہ دماغ خراب ہوگا اس کا، باپ دادا کے کام سے نفرت کرے گا، دوکان ڈالنے کے ہمارے پاس پیسے نہیں۔ پیچھے کیا رہ جائے گا کرنے کو نشہ یا خود کشی،بہتر ہے عزت کے ساتھ اپنا ہی کام کرے۔
جیرے نے تو میراثی کا میراثی ہی رہنا ہے، میرا بابو چار بہنوں کا اکلوتا بھائی خیری صلا کیوں کرنے لگا نشہ یا خود کشی، منہ اچھا نہیں تو بات ہی اچھی کر لیا کر، لیکن تو نے قسم کھائی ہے اپنے منہ جیسی ہی بات کرنی ہے۔
جیرے میراثی کا اکلوتا بی
جیرے میراثی کا بیٹا مرا تھا لیکن وہ دل میں خوش تھا۔ عام حالات میں اگر بیٹا مرتا تو اسے شدید دکھ ہوتا کہ وہ اس کی زندگی کی واحد کمائی تھا جو اس کے پاس تھی، لیکن جس طرح بابو ایک امیرزادے کی تیز رفتار بے قابو گاڑی سے کچلا گیا تھا اور ٹی وی پہ اس کی بات ہورہی تھی، جیرا سمجھ گیا تھا اب زندگی کی ڈگر بدلنے والی ہے، اس کا بیٹا مرا تھا لیکن وہ اور باقی گھر والے بہت دیر تک بہتر زندگی جینے والے ہیں۔ بیٹے کے مرنے سے اس کے بھاگ جاگ گئے تھے، ورنہ جب سے بابو پیدا ہوا تھا گھر میں کل کل ہی ختم نہیں ہوتی تھی، اس کی بیوی رکھی کہتی بیٹے کو پڑھا لکھا کر بابو بناؤں گی اور جیرا کہتا میں اسے اپنے کام میں لگاؤں گا، پڑھ کے بھی اسے نوکری نہیں ملنی، مل بھی گئی تو افسر نہیں لگ سکتا، بڑا افسر لگنے کے لیئے بڑے تعلقات اور پیسہ چاہیئے ہوتا ہے اور ہم غریبوں کے پاس یہ دونو
اُتر رہے ہیں یہ سب کچھ بہت جلد باضابطہ طور پر سامنے آجائے گا۔ ہاں البتہ اب ایک ہوگا اور بہت جلد ہوگا کہ ملک میں سیاست کا نقشہ بدل رہا ہے۔ زبان کا استعمال بہتر ہونے لگے گا۔ فضول اور بے بنیاد دعویٰ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور اسی دوا کو اپنا اثر دکھانا ہے جو تواضع کے وقت دی گئی ہے۔ مستقبل میں جب بھی جلسہ ہوا، اس میں زبان بہت بہتر استعمال ہوگی اور امکان یہی ہے کہ اب مزید کسی تواضع کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ سب کی پگڑیوں کا سائز معلوم ہوچکا ہے۔
✅✅✅
ملتی ہے۔ ایسی خوراک کہ تادیر اثر رہتا ہے زبان درازی کی بیماری کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو‘ بس ایک حد دو خوراکیں کافی ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟ کچھ پتا نہیں تاہم یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ یہ کوئی کاغذی تفتیش نہیں ہورہی‘ یوں سمجھ لیجیے کہ سر تو کئی سال پہلے منڈھوایا تھا اولے اب آکر پڑے ہیں۔ سیاسی مصلحت سیاسی رشوت کا دوسرا نام ہے آج کل یہ کسی حد تک ناپید ہے۔ جھوٹ، فریب، فراڈ، حرص، سب کچھ باہر آرہا ہے۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ سامنے شمشیر برہنہ ہے؛ تلوار کی چمک ہی ایسی ہے کہ سارے نشے اُتر رہے ہیں یہ سب کچھ بہت
احتساب ہوگا‘ پھر کیا ہوا؟ مسلم لیگ کا ایک دھڑا الگ ہوا اور یہی دھڑا بعد میں حکومت میں آگیا‘ مشرف گئے تو یہ دھڑا بھی غائب ہوگیا لوگ جہاں سے آئے تھے وہیں واپس لوٹ گئے۔
اس بار ڈپٹی کمشنر کچھ ماضی سے بہت مختلف ہے اور لہجے کا دھیمہ پن رکھتا ہے مگر ہائی پوٹینسی ڈوز دیتا ہے اور واقعتا سخت مزاج کا ہے‘ اس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے‘ کوئی سیاسی سفارش نہیں مان رہا۔ ڈپٹی کمشنر نے تو اپنے ہی قبیلہ کے ایک اہم رکن کو پکڑ رکھا ہے، ایک نہیں پورے دو سو افراد اس وقت پوچھ گچھ کے مرحلے سے گزرے ہیں۔ اُف کس قدر یہ سخت تفتیش ہے کہ خدا پناہ‘ جو نکل رہا ہے
اپنا آدھا وزن تفتیشی کے پاس ہی چھوڑ کر نکل رہا ہے‘ دور سے ہی پتا چلتا ہے اور صاف صاف پتا چلتا ہے کہ بھائی صاحب تفتیش بھگتا کر آئے ہیں۔ تفتیش کے دوران بڑی تگڑی دوا کی خوراک ملتی
کے چند لوگ ہیں۔ اکثریت ایسی ہے کہ اپنے پائوں ہیں اور نہ سر نہ دھڑ‘ جیسا کسی نے بنا دیا صبر شکر کرکے اسی ڈھانچے کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا سیاست دان اصل میں خوش ہی تب ہوتا ہے جب وہ کسی کلے کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ ایوب خان ایبڈو لے کر آئے تھے اور اس وقت یہ اعلان ہوا تھا کہ کنے کنے جانا اے بلو دے گھر، ٹکٹ کٹائو لائن بنائو۔ یہ اعلان ہوتے ہی بہت بڑی تعداد اس گاڑی پر سوار ہوگئی جو انہیں سیدھا اسمبلی میں لے گئی‘ جو سوار نہیں ہوئے ان کا حشر دنیا نے دیکھا۔ ان کی سیاست تباہ ہوگئی اور کاروبار برباد اس کے بعد ضیاء صاحب آگئے۔ احتساب کا نعرہ لگایا اور سیاست دانوں کو سات سات سال تک نااہل قرار دے دیا لیکن جب سات سال کے بعد انتخابات کرائے تو اکثریت پھر اسمبلی میں آگئی یہی کچھ مشرف صاحب نے کیا‘ کہا کہ احت
۔ چلیے ہمیں کیا؟ ’’جناں کھادیاں گاجراں ٹڈ اینا دے پیڑ‘‘۔
خیر ہمیں تو ہمدردی ہے ہر اس شخص کے ساتھ جس کی بھی پگڑی کا سائز معلوم کیا گیا ہے اور ہاں جب کسی کی پگڑی کا سائز اسلام آباد میں معلوم کیا جاتا ہے تو یہ سودا بڑا ہی مہنگا ہوتا ہے۔ یہ سودا اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ نئی دنیا آباد ہوتی ہے، نئے نقوش ابھرتے ہیں، کسی کی زندگی بدل جاتی اور کسی کی سیاست کا انداز بدل جاتا ہے، کوئی دھیما لہجہ اختیار کرلیتا ہے اور کوئی سیاست ہی سے کنارا کش ہوجاتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار تواضع پر ہوتا ہے اس کا اسکیل کیا تھا؟ ریکٹر اسکیل پر اس تواضع کی شدت کیا تھی‘ ہمارے ملک میں کتنے سیاست دان ہیں جو اپنے قد پر کھڑے ہیں۔ گنتی کے
پگڑی باندھتے ہوئے نکلتا اور پوچھنے پر بتاتا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے ’’پگ‘‘ کی لمبائی پوچھی تھی اس لیے کھول کر بتانا پڑا۔ لوگ سمجھتے ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، مگر جو سیانے تھے انہیں معلوم ہوتا تھا کہ چودھری صاحب کی خوب ’’تواضع‘‘ ہوئی ہے۔
کچھ اس سے ملتا جلتا واقعہ اسلام آباد میں ہوا‘ آٹھ ستمبر کو تحریک انصاف کا اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر جلسہ تھا، مقررین خوب گرجے اور برسے، ایک راہنماء نے تو حد ہی کردی؛ کہا کہ لشکر لے کر پنجاب جائیں گے، جیل توڑ کر اپنے لیڈر کو رہا کرائیں گے اور بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن جس نے بھی جلسہ میں سخت زبان استعمال کی، حد سے باہر نکل کر کھیلے، ان سب کی خوب کلاس ہوئی ہے۔ مطلب ایسی کلاس کہ سر کی پگڑی اُتار کر اس ’’پگ‘‘ کا سائز پوچھا گیا ہے۔ اب کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانتا لیکن ہوا یہی کچھ ہے۔ چلیے ہمیں کیا؟ ’’ج
ڈپٹی کمشنر پورے ضلع کا مالک ہوتا ہے۔ انگریز دور میں تو ڈپٹی کمشنر کے اختیارات اور شان ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ فرق آگیا ہے تاہم آج بھی اگر ڈپٹی کمشنر چاہے تو کوئی شہری پر نہیں مار سکتا۔ ایک کہاوت ہے، سچی ہے یا کسی نے گھڑی ہے اس کا تو علم نہیں تاہم یہ کہاوت اکثر سنائی جاتی ہے، کسی زمانے میں ڈپٹی کمشنر صاحب کسی بات پر غصہ میں تھے انہوں نے شہر کے چودھریوں کو بلا بھیجا، جو بھی چودھری ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے بعد اس کے دفتر سے باہر نکلتا وہ اپنی پگڑی باندھتا ہوا نکلتا، مقصد یہ تھا کہ دفتر کے اندر ملاقات کے دوران ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس کی پگڑی اُتار کر اس کی تواضع کی ہوتی تھی۔ جو بھی نکلتا سب پگڑی باندھتے
کیا جائے ۔ لگتا ہے اس لحاظ سے رقص وموسیقی کی مخالفت کرنے والے بھی حق بجانب ہوتے ہیں کہ ان کی نظرمیں رقص وموسیقی کے الگ الگ پہلوہوتے ہیں ، اصل میں قدرت کی پیدا کی ہوئی کوئی بھی چیزبری نہیں ہوتی بلکہ برے لوگوں کے برے مقاصد ان کو برا بنادیتے ہیں ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
؎
ترے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا
مثلاً ہندی اساطیر کامشہوردیوتا ’’شیو‘‘اس وجہ سے نٹ راج اورنٹورلال بھی کہلاتا ہے کہ تانڈو نام کے ایک مشہور رقص کے لیے مشہورہے ۔
مولانا روم کے درویشوں کا رقص بھی ایک مشہور رقص ہے جس میں درویش ایک ہاتھ زمین اوردوسرا ہاتھ آسمان کی طرف کرکے ناچتے ہیں ۔
رقص اورموسیقی قطعی فطری چیزیں ہیں لیکن مسئلہ اس وقت پیداہوجاتا ہے جب ایک اچھی چیز کو برائی کے لیے استعمال کیا جائے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain