Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

کے کونے کونے میں شاگرد ہیں اور خود دنیا گھوم لی ہے۔۔۔۔۔یہ سب قرآن کی برکت ہے۔۔۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مجھے سورہ فاتحہ سیکھنے میں دو مہینے لگے۔۔۔سورہ فاتحہ سمجھ آ گئی تو پورا قرآن آسان ہو گیا۔۔۔اتنا آسان کہ عربوں کو پڑھاتے بھی کبھی مشکل نہیں آئی۔۔۔بتانے لگے کوٹ ادو۔۔۔مظفر گڑھ۔۔۔ملتان۔۔۔۔لاہور میں پڑھا پھر ساتھ کی دہائی میں مدینہ منورہ چلا گیا۔۔۔مدینہ جانے سے پہلے دو سال مفتی محمد شفیع کے دارالعلوم کراچی پڑھایا۔۔۔۔مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی نے بھی دو سال مجھے قرآن سنایا۔۔۔کہنے لگے افسوس ہم نے قرآن کو چھوڑ دیاہے۔۔۔۔تجوید کے ساتھ ناظرہ قرآن سیکھنا واجب ہے۔۔۔۔قرآن کا حفظ نہیں تجوید لازمی ہے۔۔۔ایک آہ بھری اور کہا کہ عرب وعجم گھوما ہوں نوے فیصد قاری حضرات کو تجوید کے ساتھ سورہ فاتحہ نہیں آتی۔۔۔۔کہنے لگے کہ لقمہ حلال بڑا ضروری مسئلہ ہے۔

MushtaqAhmed
 

ہیں۔۔۔سب خوایشیں پوری ہو گئی ہیں۔۔۔اب ایک ہی ارمان ہے کہ مدینہ میں زندگی کا انجام بخیر ہو جائے۔۔۔۔جناب قاری بشیر احمد کا تعارف یہ بھی ہے کہ مسجد نبوی کے امام وخطیب اور مدینہ منورہ کے جج جناب عبدالمحسن القاسم ان کے شاگرد رشید ہیں۔۔۔۔۔یہی نہیں امام حرم جناب حسین آل شیخ۔۔۔۔۔جناب علی جابر اور جناب محمد ایوب نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔۔۔۔قاری صاحب نے خود قاری فتح محمد پانی پتی۔۔۔شیخ حسن ابراہیم الشاعر اور شیخ محمود خلیل الحصری ایسے جلیل القدر اساتذہ سے قرآن کا فیض ہایا۔۔۔۔۔میں نے پوچھا قرآن سکھاتے ساٹھ سال ہوگئے کتنے شاگرد ہیں۔۔۔؟کہنے لگے تعداد کا تو اندازہ نہیں لیکن اس وقت پچاس ممالک میں میرے شاگرد فروغ قرآن کے لیے کوشاں ہیں۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی چالیس ممالک میں قرآن کا پیغام کا لیکر جا چکے ہیں۔۔۔کہنے لگے دنیا کے ک

MushtaqAhmed
 

یہ ہے کہ انسٹھ سال سے شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اقامت پذیر ہیں۔۔۔رہائش پذیر ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مدینہ کے شہری ہیں۔۔۔۔قاری صاحب کا تعارف یہ بھی ہے کہ اکتالیس سال سے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید پڑھا رہے ہیں۔۔۔۔قاری صاحب کا تعارف یہ بھی ہے کہ وہ اکیاون سال سے کسی تنخواہ کے بغیر کلام اللہ کی تعلیم دے رہے ہیں۔۔۔انہوں نے بتایا مدینہ میں قرآن پڑھاتے چھ دہائیاں ہونے کو ہیں۔۔۔۔ شروع کے چھ مہینے پیاز کے ساتھ بھی روٹی کھائی۔۔۔۔ابتدائی آٹھ سال مشاہرہ لیا پھر قرآن کی برکت سے کرم ہو گیا اور سعودی عرب کی شہریت مل گئی۔۔۔اب مدینہ منورہ میں اپنا گھر ہے جبکہ تیس سال سے مہمان خانہ بھی چل رہا ہے۔۔۔۔کہنے لگے دستر خوان خاص طور پر مدینہ منورہ کی روایت ہے۔۔۔مدینہ والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے۔۔۔۔گلے لگاتے اور کھانا کھلاتے ہیں

MushtaqAhmed
 

بیٹھنے کی سعادت ملی۔۔۔۔علالت کے باعث نقاہت تھی پھر بھی اٹھ کر گلے لگایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔۔مدینہ شریف کے بزرگ بھی قسمت سے ملتے ہیں۔۔۔صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کی بات یاد آ گئی۔۔۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں میں نے قدرت اللہ شہاب سے پوچھا یہ بتایے کہ مدینہ منورہ میں بزرگ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ بولے ہاں۔۔۔۔میں نے کہا مکہ معظمہ سے بھی زیادہ۔۔۔کہنے لگے ہاں غالبا زیادہ لیکن یہ لوگ ظاہر نہیں ہوتے۔۔۔۔۔میں نے بھی اس نشست میں مسجد نبوی شریف کے پچاسی سالہ شیخ القرآن کو بہت "ٹٹولا"مگر وہ کبھی مسکرادیتے تو کبھی بات ٹال دیتے۔۔۔۔وہ میرے سوالوں کے بڑی خندہ پیشانی سے بڑے جامع جواب دیتے رہے مگر کسی"بھید" کی خبر نہ ہونے دی۔۔۔۔۔ہاں بات بات پر ایک جملہ کہتے کہ میرا کوئی کمال نہیں جو کچھ بھی ہے یہ سب قرآن کی برکت ہے۔۔۔۔عزت مآب قاری بشیر احمد کا تعارف یہ ہ

MushtaqAhmed
 

حترام استاد گرامی فضیلتہ الشیخ قاری بشیر احمد صدیق کے ساتھ چودہ برس کے دورانیے میں یہ چوتھی مگر طویل نشست تھی۔۔۔پہلی ملاقات دو ہزار نو میں مال آف لاہور میں ہوئی…میں ایک اردو اخبار کے دینی ایڈیشن کے لئے انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔فوٹو گرافر کو لیکر نماز فجر کے بعد ہی ان کے کمرے کے باہر جا بیٹھا۔۔۔۔انہوں نے کچھ دیر بعد اندر بلایا۔۔۔کھجوریں کھلائیں اور مزیدار سا مشروب پلایا۔۔۔پہلے گفتگو سے گریزاں تھے مگر مختصر مجلس کے دوران ہی وہ میرے مہربان بن گئے۔۔۔تب سے اب تک ان کی دعائوں سے مستفیض ہورہا ہوں۔۔۔۔دو ہزار پندرہ میں مدینہ منورہ حاضری ہوئی تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔۔۔وہ اس شب بھی مسجد نبوی میں قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔۔۔بڑے تپاک سے ملے اور عربی قہوہ پلایا۔۔۔اب کی بار فروری دو ہزار تئیس میں ڈیفنس لاہور کے ایک گھر میں ان کے قدموں میں بیٹھنے ک

MushtaqAhmed
 

ے میں کل ہی آپ کو یاد کر رہا تھا۔۔۔۔میری آنکھیں چھلک پڑیں۔۔۔۔۔سلام دعا کے بعد پہلی بات یہ پوچھی کہ پاکستان کا کیا حال ہے؟میں نے کہا دعا کریں کہ اللہ کریم وطن عزیز پر کرم فرمائے۔۔۔۔کہنے لگے پاکستان پر کرم ہی کرم ہے۔۔۔۔اگلے چھ مہینے میں پاکستان اڑان بھرے گا اور منظرنامہ نامہ بدل جائے گا۔۔۔۔قاری صاحب کی پیش گوئی سن کر دل کو سکون سا آگیا۔۔۔۔۔دو سال ہونے کو ہیں جب قاری صاحب سے ایک سیر حاصل ملاقات کے بعد لکھا تھا کہ ہم فقیر عجم۔۔۔۔ہم امیر حرم کی بارگاہ اقدس کے وہ "کشکول بردار" ہیں کہ خاک مدینہ ہی نصیب ہو جائے تو زہے نصیب،چہ جائے کہ مدینہ منورہ کے روحانی نظام سے وابستہ کسی عالی قدر نمائندہ بزرگ سے مصافحہ اور معانقہ ہو جائے۔۔۔۔شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت" رتبے" بدل دیتی ہے۔۔۔۔اوج ثریا بخشتی ہے۔۔۔۔مسجد نبوی شریف کے قابل صد احترام ا

MushtaqAhmed
 

ڈاکٹر احمد علی سراج کا "خاک مدینہ" کی فضیلت بارے "شہد آمیز جملہ"ابھی کانوں میں رس گھول رہا تھا کہ شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل رشک بزرگ عزت مآب الشیخ قاری بشیر احمد صدیق نے یہ کہہ کر دل کے تار چھیڑ دیے کہ "کبھی مدینہ منورہ بھی آیا کریں"۔۔۔۔میں نے کہا حال دل کیسے کہوں؟خاکسار تو کب سے منظوری کے لیے "ماہی بے آب "کی طرح تڑپ رہا۔۔۔۔روضہ اقدس پرمیرا سلام کہیے گا اور میری طرف سے حاضری کی عرضی بھی گزار دیجیے گا۔۔۔۔۔!!آہ۔۔۔۔کبھی ایسا ہی دل نشین جملہ صحابہ کی بستی جنت البقیع میں آرام فرما مکہ مکرمہ کے بزرگ الشیخ مولانا عبد الحفیظ مکی کہا کرتے۔۔۔۔جب دل اداس ہو تو کبھی شیخ مدینہ قاری بشیر صاحب اور کبھی شیخ حرم کعبہ مولانا محمد مکی حجازی صاحب کو فون کر کے دعائیں لے لیتا ہوں۔۔۔زہے نصیب کہ گذشتہ شب بھی قاری صاحب سے بات ہو گئی۔۔۔۔کہنے لگے می

MushtaqAhmed
 

پس، اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا اور اپنے مصاحبوں میں شامل کرلیا۔
بڑا آدمی
ایک دن کا واقعہ ہے کہ جہانگیر بادشاہ کسی منہ پھٹ بھاٹ کی کسی بات پر ناراض ہوگئے اور اسے ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے کا حکم دیا۔
اتفاق سے اس وقت وہاں خان خاناں بھی موجود تھے۔
بھاٹ پہلے تو ان کو تکتا رہا اور پھر برجستہ بولا، ’’حضور! نواب خان خاناں بڑا آدمی ہے۔ اسے ہاتھی کا پیر چاہئے۔ میں تو چیونٹی سے بھی کمتر ہوں۔ میرے لئے تو چوہے کا ایک پیر ہی کافی ہے!‘‘
اس پر جہانگیر اور زیادہ خفا ہوگئے۔ لیکن خان خاناں مسکرا دئیے اور اس کی جان بخشی کروائی۔
اس کے علاہ، سخی رحیم نے اسے یہ کہتے ہوئے سونے کے سکے بھی دیئے، ’’اس نے مجھے بڑا آدمی سمجھا، تو کہا۔ بڑا آدمی نہ سمجھتا تو وہ کیوں کہتا مجھے بڑا آدمی!‘✅

MushtaqAhmed
 

خی رحیم اس کو اپنے ساتھ محل میں لے آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔
مصاحبوں کے پوچھنے پر خان خاناں نے بتایا کہ ایک بوند پانی شیشی میں بھر کے شیشی کو جھٹکانے کا مطلب یہ تھا کہ:
’’صرف ایک بوند آبرو بچی ہے اور اب وہ بھی خطرے میں ہے!‘‘
خادم سے مصاحب
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خان خاناں اپنے مصاحبوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک خادم اچانک رونے لگا جو کہ اُسی روز ملازم ہوا تھا۔ خان خاناں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں ایک دولت مند باپ کا بیٹا ہوں۔ آج دسترخوان پر چنی ہوئی نعمتیں دیکھ کر مجھے اپنی امیری کا زمانہ یاد آگیا۔
اس پر خان خاناں نے امتحان لینے کے غرض سے اس سے پوچھا کہ بھنے ہوئے مرغ میں سب سے اچھی چیز کیا ہوتی ہے؟
خادم نے جواب دیا، ’’پوست۔‘‘
خان خاناں کو یقین ہوگیا کہ وہ کسی دولت مند کا بیٹا

MushtaqAhmed
 

بڑھیا آئی اور اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے توے کو خان خاناں کے جسم سے رگڑنے لگی۔ سب سپاہی ارے ارے کرکے دوڑے لیکن رحیم نے ان سب کو روک دیا اور حکم دیا کہ اس بڑھیا کو توے کے برابر سونا تول کردے دو۔ سبھی مصاحب اس فیصلے پر حیرت زدہ ہوئے اور بولے، ’’یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
اس پر رحیم نے اپنے خاص انداز میں کہا، ’’یہ بڑھیا پرکھ رہی تھی کہ بزرگوں کی یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ بادشاہ اور اس کے امیر ’’پارس‘‘ ہوتے ہیں اور کیا ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں!‘‘
ایک بوند آبرو
ایک روز کا ذکر ہے کہ خان خاناں کی سواری چلی جارہی تھی کہ راستے میں ایک پریشان حال شخص نظر آیا۔ اس نے ایک شیشی میں ایک بوند پانی ڈالتے ہوئے اس شیشی کو کچھ جھکایا۔ شیشی جھکانے پر جب وہ پانی کی بوند گرنے کو ہوئی تو اس نے شیشی کو سیدھا کرلیا۔
یہ دیکھ کر سخی

MushtaqAhmed
 

زندگی کے پانچ ایسے قصے پیش کریں گے جو ان کی دریا دلی، فیاضی اور سخاوت جیسی خوبیوں سے مالا مال ہیں اور جن کی وجہ سے وہ عوام میں سخی خان خاناں کہلائے۔
پھل دار درخت
ایک روز کی بات ہے کہ خان خاناں اپنی مخصوص سواری پر بیٹھے کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک شریر بچے نے ان کی سواری پر ایک پتھر مارا۔ سپاہی دوڑے اور اسے پکڑ کرلے آئے لیکن رحیم نے اسے سزا دینے کے بجائے کچھ چاندی کے سکے دینے کا حکم دیا۔
اس پر سب حیران ہوئے اور بولے کہ جو سزا کا مستحق تھا، اسے آپ نے انعام سے نوازا، اس میں کیا مصلحت ہے؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ سن کر رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’لوگ پھل دار درخت پر ہی پتھر مارتے ہیں!‘‘
توا اور پارس
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خان خاناں اپنی سواری سے اتر ہی رہے تھے کہ ایک غریب بڑھیا

MushtaqAhmed
 

رحیم اپنی خوبیوں کے باعث نہ صرف عوام میں ہر دلعزیز تھے بلکہ وہ اکبر کے بھی نور نظر تھے۔ اکبر ان کو پدرانہ شفقت سے فرزند برادر اور بے تکلفی میں یار وفادار کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ اکبر ان کی شخصیت اور علم سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے رحیم کو اپنے بیٹے جہانگیر کا اتالیق مقرر کیا۔ اس کے علاوہ اکبر نے ان کو خان خاناں کے خطاب سے نوازتے ہوئے ’’پنچ ہزاری‘‘ منصب عطا کیا اور بعد میں سپہ سالار اعظم اور وزیر بنایا۔ رحیم کا ۱۶۲۷ ء میں انتقال ہوا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان کی بیگم کے مقبرہ کے پاس دہلی میں دفن کیا گیا۔
یہ تھا اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک رتن، ہندی کے دوہا گو صوفی شاعر، فن تعمیرات کے باذوق برہانپور کے صوبہ دار، بہت سی زبانوں کے جانکار، سخاوت کے پیکر عبد الرحیم خان خاناں کا مختصر سا تعارف۔ اب ہم عبد الرحیم خان خاناں کی زندگی

MushtaqAhmed
 

عیسیٰ کا آستانہ عالیہ ان کی زیر نگرانی تعمیرات کا بہترین نمونہ ہیں۔
رحیم ایک ماہر سپہ سالار اور صوبہ دار کے علاوہ، عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، برج اور اودھی زبان کے زبردست عالم تھے۔ وہ فرانسیسی اور انگریزی زبان بھی جانتے تھے۔ وہ زبان ہندی کے مقبول عام صوفی شاعر تھے۔ وہ دوہے کہتے تھے۔ ان کو شری کرشن سے بہت عقیدت تھی۔ وہ رامائن، مہا بھارت، گیتا اور پُران سے اپنی من پسند باتوں کو آسان زبان میں شعری اظہار میں دھالتے تھے۔ ان کے دوہے انسانیت کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ اپنے دوہوں میں اکثر و بیشتر اپنا تخلص ’رحِمن‘ استعمال کرتے۔ وہ ہندی شاعروں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ گوسوامی تلسی داس سے ان کے بڑے اچھے مراسم تھے۔ ہندی میں ان کی شعری تخلیقات کا مکمل مجموعہ ’’رحیم رتناولی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

MushtaqAhmed
 

ی تھی کہ اکبر نے بیرم خاں کی خدمات کے پیش نظر، رحیم کی پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اپنے بہادر باپ کے نمایاں عکس نظر آنے لگے۔
رحیم نے جنگی تربیت کسی ملیٹری اسکول میں نہیں لی تھی لیکن اپنی ذاتی دلچسپی کے سبب وہ فن سپہ گری سے اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کافی ماہر ہوگئے تھے۔ جب اکبر نے گجرات پر چڑھائی کی تو ’’نشان ِ لشکر‘‘ یعنی فوجی پرچم اس چودہ برس کے لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ آگے چل کر، جب مغل بادشاہوں نے موجودہ مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر برہانپور کو اہمیت دی تو انہیں برہانپور کا صوبہ دار مقرر کیا گیا۔ برہانپور کی سماجی اور تعمیراتی تاریخ پر عبد الرحیم خان خاناں کے اثرات آج بھی قائم ہیں۔ نہر عبد الرحیم خان خاناں، جہانگیری حمام، باغ عالم آرا زین آباد، آہو خانہ، شاہ نواز خان کا مقبرہ اور حضرت شاہ

MushtaqAhmed
 

بہت کم ہندی اور اردو داں حضرات ایسے ہوں گے جو عبد الرحیم خان خاناں کے نام سے ناواقف ہوں۔ خصوصاً صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر برہانپور کے باشندے تو ان کے نام اور تعمیراتی کام سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ شہنشاہ اکبر کے ایک انمول رتن، شہر برہانپورکے فن تعمیرکے با ذوق صوبہ دار، شری کرشن کے عقیدت مند اور ہندی کے مقبول عام صوفی دوہا گو شاعر تھے۔ وہ بہت سخی بھی تھے۔ ان کی سخاوت کے چند قصے بھی مشہور ہیں۔
عبد الرحیم خان خاناں کی پیدائش ۱۷؍ دسمبر ۱۵۵۶ء کو لاہور میں ہوئی تھی۔ عبد الرحیم خان خاناں کے والد بیرم خاں مغل بادشاہ ہمایوں کے استاد اور اکبر کے بچپن کے دوست تھے۔ لیکن عبد الرحیم خان خاناں کے والد کو مکہ معظمہ جاتے ہوئے راستے میں قتل کردیا گیا اور اس طرح عبد الرحیم خان خاناں چار برس کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ اکب

MushtaqAhmed
 

و بڑوں میں کہیں سچاءنظر آتی ہے یا کہیں ان کے کلام میں جھوٹ کی آمیزش دکھاءدیتی ہے۔بول تول میں نرمی و اخلاقی بلندی نمایاں ہوتی ہے،یا کمی بیشی سے ناجئز پیسہ کماتے ہیں اور خود کو بدی کی لکیروں میں قید کر دیتے ہیں۔
الغرض لکیریں انسان کا مقدر نہیں،یہ مصنوعی آڑھی ترچھی ککیریں ہم خود اپنے اردگرد کھینچ لیتے ہیں اور پھر اللہ کی رضا کو اس میں شامل کر دیتے ہیان۔مولا منصف ہے،وہ ذرے ذرے کا حساب کرے گا اور جو ہم اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجتے ہیں،انہی لکیروں سے ہماری کسوٹی کا مقدمہ لکھا جائے گا۔ہم لکیروں کو مٹانے کے اہل ہیں،نءلکیریں بنا سکتے ہیں اور مصنوعی لکیروں کے جال کو توڑ کر ،نءلکیروں سے اپنی قسمت کا فیصلہ تقدیر کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
,✅✅✅

MushtaqAhmed
 

خاص تشخص کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ساری عمر نیک افراد ،ایک معمولی سی غلطی سے بدکردار بنا دیئے جاتے ہیں اور بدمعاش،محض ریاکاری و دکھاوے سے،نیک و پارسا کہلانے لگتے ہیں۔یہی حال احوال مسکراہٹ کے پیکر،ہنس مکھ و ملنسار افراد کا ہے اور کوءایک غلطی زندگی کی کایا پلٹ دیتی ہے۔تند خو اور خونخوار اشخاص دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں،ان کی عادات کے چرچے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور وہ لاکھ جتن کر لیں،پر انھیں اس خانے سے باہر نہیں آنے دیا جاتا ہے۔
کاروباری و بیوپاری لوگ اپنی بندشوں میں گرفتار رہتے ہیں،کوءقول کا پکا اور کوءکچا،کوءتول میں سخت اور کوءنرم،کوءنرم دل اور کوءسخت گیر۔ان صفات کی مشہوری ہو جاتی ہے،ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود،ان لکیروں کو وہ مٹا نہیں سکتے ہیں۔بسا اوقات یہ اطوار خاندانی وراثت کا حصہ بن جاتے ہیں،بچوں و بڑوں میں ک

MushtaqAhmed
 

صفات نہیں اپنا سکتی،ورنہ صنف نازک یا مردانگی کا ٹھپہ لگا دیا جائے گا،باقی عمر اس چوغے کو اتارنے میں صرف کریں۔چند مرد یا عورتیں ان لکیروں سے باہر آ کر سوچتے ہیں،اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ہمت کرتے ہیں اور اس قسم کا دم خم رکھتے ہیں۔ماں باپ کی لکیر بہت چوڑی ہے،جس ماں نے پتلون پہنے کی جرات کر لی ،وہ مرد مار کہلاءاور جو مرد ذرا کمزور دکھاءدیا،اسے زن مرید کے زمرے میں ڈال کر قید کر دیا۔دونوں لاکھ جتن کر لیں،پر ایک دفعہ جو ٹھپہ لگ گیا،اس لکیر کو مٹانا ناممکن امر ہے اور اسی جنگلے کے پیچھے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بہن بھاءمذکر مونث کے جال میں پھنسے زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں،مجال ہے کوءذرا ادھر ادھر قدم رکھے اور ساری دنیا کے سوال و جواب اور عذاب و جھنجال کا مستحق ٹھہرے۔
نیکی و بدی ازل سے چلی آ رہی ہے،ابد تک قائم رہے گی اور ہر شخص اپنے ایک خاص تشخص

MushtaqAhmed
 

جو انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔آخر اودے،پیلے، جامنی،سرمءرنگوں سے یہ جانبداری کیوں ،انھیں غیر جانبداری کا پرچم کیوں تھما دیا گیا اور وہ معصوم نہ شکوہ کریں اور نہ شکایت۔
اب ذرا ہم اپنی عام زندگی پر بھی، ایک عمیق نظر ڈالیں اور اس میں پوشیدہ لکیروں کو ڈھونڈ نکالیں۔گھریلو زندگی میں چھوٹے و بڑے،جوان و بزرگ ،عوام و خواص،مرد و عورت ،بھاءو بہن ،ماں و باپ ،نیک و بد،شریف و بدمعاش ،ہنس مکھ و خونخوار ، تند خو اور اسی قسم کی بیشمار لکیروں نے ہمیں قید کر رکھا ہے۔گر کوءبچہ عقل و فہم کی بات کرے،اسے گھاس تک نہیں ڈالی جاتی اور نہ ہی کوءاسے سراہتا ہے۔بزرگ بیوقوف کیوں نہ ہوں،اپنی بزرگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر،اول فول بک دیتے ہیں اور چھوٹے سر دھنتے ہیں۔مردوں و عورتوں کو الگ الگ لکیروں سے بنائے خانوں میں بند کر دیا گیا ہے،ایک صنف دوسرے کی

MushtaqAhmed
 

کھول دیئے اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی برداشت کا مادہ تفویض کیا۔سیاسی عمل کی لکیریں بغض و عناد کا سبب بن سکتی ہیں،ذہنی ارتقائی عمل ،مثبت سوچ اور معیانہ روی کی لکیریں، ذاتی کدورتوں پر حاوی آتی ہیں۔سیاست میں رنگت کا عنصر بھاری رہتا ہے،بس ایک لکیر پڑ جاتی ہے اور اسے اپنی زندگی میں معدودے چند ہی لوگ عبور کر پاتے ہیں۔ہرے رنگ پر مسلمانوں کی دینی جماعتیں قابض ہو گئیں ہیں،لال رنگ اشتراکیت کی بنیاد قرار پایا اور سارے کھلے ذہن ،آزاد منش افراد نے اس لکیر کے پیچھے پناہ لی۔
دوسری جانب مغرب کی لکیروں نے الگ کھیل تماشہ پیش کیا ، نیلے رنگ کو آزادی و روشن خیالی کا مظہر قرار دیا گیا،لال رنگ قدامت پسندی اور فرسودہ خیالات کا مظہر قرار پایا۔آخر ان لکیروں میں کس نے یہ رنگ بھرے،کیا رنگ بھی سیاست کر سکتے ہیں اور باقی رنگوں کا کیا قصور ،جو انھیں ر