Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

مراطعنہ مرن اے مدعی طرزادا یم بین
تماشا مے کند خلق ومن ہربار می رقصم
ترجمہ۔ مجھے طعنہ مت دو اے مدعی ذرا میری طرز ادا تو دیکھو کہ لوگوں کے درمیان تماشا بن کر ناچ رہا ہوں
منم عثمان ہارونی مرید شیخ منصورم
ملامت می کندخلقے ومن بردار می رقصم
ترجمہ۔۔ میں عثمانی ہارونی اپنے شیخ منصور کامریدہوں ایک دنیا ملامت کررہی ہے لیکن میں ’’دار‘‘ پر ناچ رہا ہوں۔
اس ساری بحث میں باقی تو سب کچھ واضح ہے کہ صوفیانہ کلام ہے اورصوفیانہ اصطلاحات بیان کی گئی ہیں اوروہ بڑے طویل مباحث ہیں لیکن میں یہاں صرف ناچ یارقص کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں یہاں مراد وہ رقص نہیں ہے جسے آج کی دنیا میں عیاشی وفحاشی کاذریعہ بنایاگیا ہے بلکہ یہ وہ رقص ہے جس کاذکر پنجابی کے شاعر بابا بلھے شاہ نے بھی یوں کیا ہے

MushtaqAhmed
 

میری’’رندی‘‘ پر کہ سو پارسائیاں اس پر نچھاورکردیتا ہوں اورکیا تقویٰ ہے میرا کہ میں جبہ ودستار سمیت ناچتا ہوں
تو آں قاتل کہ بہربک تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیرخنجر خونخوارمی رقصم
ترجمہ۔ تو وہ قاتل ہے کہ صرف ایک تماشے کے لیے میرا خون بہاتے ہو اورمیں وہ بسمل ہوں جو خونخوار خنجر تلے ناچتا ہوں
سراپا برسراپائے خودم ازبے خودی قرباں
زگرد مرکزخود صورت پرکار می رقصم
ترجمہ ۔۔ میں بے خودی میں خود اپنے سراپا پر خود قربان ہوتا ہوں اورخود اپنے ’’مرکز‘‘ کے گرد پرکار کی طرح ناچتا ہوں
م

MushtaqAhmed
 

۔تم ہردم نغمہ سرا ہوکر مجھے نچاتے ہو اورمیں ہراس طرز پر ناچوں گا جس پر تم نچاوگے۔
بیاجاناں تماشا کس کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم
ترجمہ ۔ آؤ جاناں اوردیکھو کہ میں عشاق کی بھیڑ میں کس درجہ سامان رسوائی کے ساتھ سربازار ناچتا ہوں
اگرچہ قطرہ شبنم نہ پوئد برسر خارے
منم آں قطرہ شبنم بہ نوک خارمی رقصم
ترجمہ ۔ اس شعر میں نہایت کمال کی تشبیہہ استعمال کی گئی کہ اگرچہ شبنم کاقطرہ کانٹے کی نوک پرٹکتا نہیں لیکن میں وہ قطرہ شبنم ہوں جو کانٹے کی نوک پر ناچتا ہے
خوشاوندی کہ پامائش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم
ترجمہ ۔ شاباش ہے میری

MushtaqAhmed
 

کافی عرصہ پہلے ہم نے اس کالم میں ایک فارسی غزل کا ذکر کیاتھا ، ضرورت یوں پیش آئی تھی کہ اس وقت ایک بڑے کالم نگار نے اس غزل کوحضرت عثمان مروندی عرف لال شھباز قلندر سے منسوب کیا تھا جب کہ اصل میں یہ غزل حضرت عثمان ہارونی کی ہے ، غزل کا قافیہ یار، دیدار ، بازار وغیرہ ہے اور ردیف ’’می رقصم‘‘ ہے، ایک قاری کی فرمائش پر قند مکرر غزل کا مطلع ہے ،
نہ می دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
ترجمہ۔ میں نہیں جانتا کہ میں آخر ’’دیداریار‘‘ کے وقت ناچتا کیوں ہوں مگر اس بات پر مجھے ناز ہے کہ اپنے یار کے سامنے ناچتاہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ ہربار می رقصم
بہرطرزے کہ می رقصائی من اے یار می رقصم
ترجمہ ۔تم ہردم نغمہ سرا

MushtaqAhmed
 

،اس سے اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ لگا لیں کہ یہاں سے آئل ملنے کی صورت میں دنیا کو کتنا سستا کروڈ آئل میسر ہوگا اور پاکستان ایل این جی میں بھی خود کفیل ہوجائے گا ، اچھے دن آنے والے ہیں لیکن ہمیں اپنے بلوچستان کے ساحلوں اور علاقوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی ، بلوچستان میں غیر ملکی طاقتون کی سپانسرڈ دہشت گردی بلا وجہ نہیں ہے انہیں اندازہ ہے کہ پاکستان دفاعی طور پر تو خود کفیل ہے اگر معاشی طور پر بھی مضبوط ہوگیا تو دنیا کو ایک سپر پاور اور اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ کو بڑا دھچکہ پہنچے گا ، چین کو اپنے ہماسئے میں ایک مضبوط دوست میسر ہوگا جو اس کی تیز رفتار ترقی کی حفاظت اور ترسیل میں بڑی پیش رفت کا باعث بنے گا۔
end

MushtaqAhmed
 

کی ہے نہ تیل ظاہر ہے امریکا کاغذ کے نوٹ چھاپ کر یہ دونوں توانائیاں بیرونی دنیا سے خرید رہا ہے اور خود اسے اپنے مستقبل کے لیے بچا رہا ہے ، دنیا میں اس وقت جو بڑے آئل پروڈیوسر ممالک ہیں اُن میں وینزویلا پہلے نمبر پر ہے جس کے پاس اس سیال مادے کے ذخائر سے سالانہ تین چار ارب بیرل تیل نکلتا ہے جبکہ اس کے بعد سعودی عرب ، پھر ایران ، کینڈا اور عراق کا نمبر آتا ہے اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ پاکستان کے پاس چوتھے بڑے زکائر ہوں گے تو کون کس نمبر پر جائے گا ۔ملنے والے ذخائر کے لیے ابھی چار سے پانچ سال کا وقت درکار ہے اور چار سے پانچ ارب خرچ ہوں گے اس خزانے کو ملنے کو " بلیو واٹر اکانومی " کہا جارہا ہے اس سے اندازہ لگالیں کہ یہ ساحل کراچی کے نہیں اُن سمندروں میں چھپا ہوا ہے گوادر کے قریب ہے یہ وہ روٹ ہے جہاں سے دنیا کا چالیس فیصد آئل گزرتا ہے،اس سے

MushtaqAhmed
 

گیس نے کنفرم کیا ہے کہ ایک دوست ملک (چین ہوسکتا ہے ) کہ ساتھ مل کر پاکستان کے سمندروں کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان کے گہرے نیلے سمندروں میں وہ خزانہ دریافت ہوا ہے جو دنیا کا چوتھا بڑا آئل گیس فیلڈ ہے ۔
یہ خزانہ جسے " بلیو واٹر اکانومی" کہا گیا ہے اتنا بڑا ہے کہ اس سے نا صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ پاکستان آئل اور ایل این جی بیرون ملک بیچ بھی سکے گا ، تحقیقی اور بنیادی کام ہوچکا اب اسے نکالنے کا مرحلہ ہے،ایک اندازے کے مطابق اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے چار سے پانچ ارب ڈالر درکار ہوں گے اور چار سے پانچ سال ہی کا وقت درکار ہوگا جس کے بعد پاکستان سمندر سے تیل نکالنے اور اسے بیرون ملک بیچنے والا چوتھا بڑا ملک ہوگا ، اس وقت دنیا میں آئل گیس کے سب سے بڑے ذخائر امریکا کے پاس ہیں لیکن اُس نے ان سے نہ گیس حاصل کی ہے

MushtaqAhmed
 

اللہ جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کردیتا ہے اور یہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے بہت ہی موقر ذرائع نے اتنا بڑا انکشاف کیا ہے کہ خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔ وہ جو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ؎
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
کچھ ایسی ہی کیفیت ہے اس وقت میری کہ پاکستان کے سمندروں سے خزانہ ملا ہے اور خزانہ بھی کوئی کم نہیں دنیا کا چوتھا بڑا آئل گیس کاذخیرہ ملا ہے اور یہ خیالی کتابی بات نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ تین سال قبل جس دریافت کا آغاز کیا گیا تھا وہ مل گئی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف نے بھی ایک ایسا ہی دعویٰ کیا تھا لیکن پھر پتھر ہٹانے سے اُس دعوے کی ’ہوا ‘خارج ہوگئی تھی لیکن اب کے بار ایسا نہیں ہوا وزارت آئل و گیس نے

MushtaqAhmed
 

زمائش ہوتی ہے اور نفوس میں اخوت و بھائی چارہ کس قدر ہے اس لحاظ سے بھی۔ یہ ہر دوسرے مسلمانوں کیلئے آزمائش ہوتی ہے، ایسے وقت میں کوئی فرار نہیں اور ان جیسے حالات میں اور کوئی شے مقدم نہیں، اس وقت یہی لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے، مال خرچ کیا جائے، تعاون کیا جائے، ان کا ہاتھ بٹایا جائے اور بھائی چارہ کی ہر ممکن فضا قائم کی جائے۔ ان تمام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے جو تکلیفوں سے کراہ رہے ہیں، ان نفوس کو اطمینان اور تسلی دی جائے جو خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔
(مسجد نبویؐ میں دیئے گئے ایک خطبے سے ماخوذ)

MushtaqAhmed
 

جانا، ظلم وستم کا عام ہوجانا، قتل و غارت، بیماریوں اور وباؤں کا بڑھ جانا وغیرہ وغیرہ، بلاشبہ یہ حوادث بڑے مصائب میں سے ہیں اور جن پر نازل ہوتے ہیں ان کیلئے تو آزمائش اور ابتلا ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر مسلمانوں کیلئے بھی کسی آزمائش اور امتحان سے کم نہیں ہوتے جو خوشحال اور آزادانہ زندگی تو بسر کررہے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ ان کی گرد نوں کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن خرچ نہیں کرتے۔
مسلمانوں کے درمیان رحمت کے مقدار کے لحاظ سے بھی یہ آزمائش ہوتی ہے او

MushtaqAhmed
 

و رہا ہو۔ کبھی اس کے کچھ اسباب و اسرار سائنس کے ذریعے بھی معلوم ہو جاتے ہیں اور سائنس جہاں تک بھی پہنچ جائے پھر بھی وہ قاصر ہے اور جس قدر بھی ترقی کر جائے آخر یہ مخلوق ناتواں اور کمزور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘‘ ( بنی اسرائیل:۸۵)
کسی خاص قوم پر کسی خاص وقت میں ان حوادث کے نازل ہونے پر یہ کہنا کہ یہ ان پرعذاب اور سزا کے طور پر آئے ہیں، تخمینہ اور اٹکل ہے اور شریعت پر زبان درازی ہے کیونکہ ممکن ہے یہ آزمائش ان کے گناہوں کی پاکی، صفائی ستھرائی اور انتخاب و تکریم میں سے کسی ایک کا ذریعہ بن جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب ہی چیزیں اس آزمائش میں مقصود ہوں۔ آزمائش کی کئی اقسام اور احوال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگوں کو ان گزشتہ مصائب سے بھی سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً: امن و امان کا تباہ ہو

MushtaqAhmed
 

دیکھ رہے ہیں تو ان باطنی اشیاء کا کیا عالم ہو گا جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت سے زمین کیسے ہماری حفاظت کرتی ہے اور کیسے مستقر اور پرسکون ہے، یہ جاننے کیلئے ذرا زلزلوں ، آندھیوں اور طوفانوں کے آثار کو دیکھ لیجئے جو چند لمحوں کیلئے ہی رونما ہوتے ہیں۔ پھر زمین پر غورکیجئے کہ زمانے گزر چکے ہیں، پے در پے نسلیں بیت چکی ہیں . پھر بھی وہ تمام زندگی کے مدار میں ثابت اور قائم ہے۔ کس ذات نے اسے جھکنے اور مائل ہونے سے بچا رکھا ہے؟ کس نے اسے ثابت رکھا ہے کہ یہ مضطرب اور حرکت میں نہیں آتی؟
کائنات میں یہ زلزلے، آندھیاں اور طوفان اللہ کی سنتوں کے نظام کے تحت جاری ہوتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی ضرور حکمت ہوتی ہے مگر ان کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہوتی۔ یہ جہانوں کے پالنہار کی رحمت ہوتی ہے اگرچہ بظاہر مخلوق کو کچھ اور ہی محسوس ہو

MushtaqAhmed
 

تے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسلسل لوگوں کیلئے کائنات کے اسرار اور نشانیوں میں سے کچھ نہ کچھ دکھاتا رہتا ہے اور ہر دور میں، ہر امت میں اور ہر جگہ وہ اپنی خوبصورت کاریگری عیاں کرتا رہتا ہے تاکہ حجت قائم ہو سکے اور قیامت کے قائم ہونے تک صراط مستقیم نمایاں رہے۔
زمین کی عظیم تخلیق کو تو ہر وہ شخص دیکھتا ہے جو اس پر چلتا اور سکونت اختیار کرتا ہے کہ کتنی نرم، سازگار، وسیع اور مستقل ہے جس پر نہریں، چشمے، بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ ہیں، اس پر چلنے والی صاف شفاف ہوا ہے جس کے ذریعے سانس چلتی ہے۔ اگر کچھ لمحات کے لئے وہ رک جائے تو زندگی تباہی کا شکار ہو جائے، مخلوق تباہ و فنا ہو جائے لیکن یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت ہے جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے، جو ہماری نیند و بیداری میں ہماری حفاظت کرتی ہے۔ یہ تو وہ ظاہری اشیاء ہیں جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں تو ان باط

MushtaqAhmed
 

ہے، اسے سواریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیا ہے، انسان کو الہام کر دیا ہے کہ وہ ایسی سواریاں تیار کرے جو پانی کی موجوں میں غرق نہ ہو سکیں اور سفر میں انہیں سمندری طوفانوں اور موجوں سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ یہ اس قادر اور خالق کائنات کا نظام اور منصوبہ بندی ہے اور آنکھ اس خوبصورت اور سر سبز نظارے کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو خشک سالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
اس پختہ، انوکھی اور معجزانہ کاریگری کے سامنے انسانیت حیران و ششدر ہے۔ ریسرچ سینٹر، ریسرچ کرتے رہتے ہیں اور آئے روز ہمارے لئے اس کائنات کے عجوبے، عجائب و غرائب سے ہمیں آشنا کرواتے رہتے ہیں۔ انسان کے بنائے گئے روبوٹ جو فضا میں گردش کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غوطہ خور سمندروں کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو آپ تعجب خیز اشیاء سے متعارف ہوتے ہیں

MushtaqAhmed
 

عالی نے ارشاد فرمایا :’’اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں ) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو۔ ‘‘ (النحل:۱۴)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اﷲ کی نعمت سے چلتی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھا دے۔ بیشک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر کیلئے نشانیاں ہیں۔ ‘‘(لقمان:۳۱)
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لئے مسخر فرما دیا ہے اور کشتیوں کو (بھی) جو اس کے اَمر (یعنی قانون) سے سمندر (و دریا) میں چلتی ہیں۔ ‘‘ (الحج:۶۵)
کشتی کیسے اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم سے چلتی ہے؟ اس عظیم خوبی کے ساتھ اللہ تعالی نے سمندر کو پیدا کیا کہ اسے نفع حاصل کرنے کے لئے آسان و ہموار کر دیا ہے،

MushtaqAhmed
 

چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں جن سے وہ گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر میں کھجور کی پرانی پتلی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (یٰسین:۳۹)
چاند کی منزلیں اور اوقات مقرر کر دیئے گئے ہیں جن پر چلتا ہوا یہ اس قدر باریک ہو کر ہلال بن جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو بمشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اس کا چھوٹا بڑا ہونا پورے انتظام اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتا ہے تو کس نے اسے پیدا کیا ہے، اس میں نور و روشنی کی خاصیت رکھنے والا کون ہے، اس کے راستوں اور مدار کو متعین کرنے والا کون ہے، صبح و شام ان کے معاملے کی تدبیر کرنے والا کون ہے؟ کس قدر وہ عظیم ذات ہے جو پاک ہے۔ یہ اس اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ اس کائنات کے دوسری جانب کو بھی دیکھئے جس سے عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، جو حیرت میں ڈال دیتی ہیں اور سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ا

MushtaqAhmed
 

کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ ‘‘ (القصص: ۷۲)
رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف اور پرسکون اور پر نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے۔ سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے، کائنات کو حیات بخشتا ہے، کام کرنے اور معاش کے حصول کے لئے نفوس میں چستی اور حرکت پیدا کرتا ہے تاکہ زندگی خوشگوار ہو سکے اور لوگ سعادتوں کو سمیٹ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کیلئے (بغیر رکے) چلتا رہتا ہے۔ ‘‘ (یٰسین:۳۸)۔ کیا ہم ان باتوں پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں، وقت نکالتے ہیں ؟
سورج غیر محسوس طریقے سے انتہائی پرسکون حالت میں گردش کرتا ہے اس میں نہ تو کوئی اضطراب آتا ہے اور نہ ہی جنبش۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور چاند کی ہم نے

MushtaqAhmed
 

رات کو دین پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔ آپ ہر روز معجزات الٰہیہ اور پختہ کاریگری کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے۔ دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے جس میں کوئی تعطل و انقطاع نہیں آتا۔ تخلیق کائنات سے لے کر آج تک کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکا کہ رات اپنے وقت سے تاخیر کا شکار ہو گئی ہے یا سورج اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہو چکا ہے۔ تو کون ہے جو اس کی تدبیر کر رہا ہے اور کون ہے جو اس مرتب کارخانے کی تنظیم سازی کر رہا ہے اور بغیر انقطاع کے جگہوں کا تبادلہ کر رہا ہے؟ اگر ساری خلقت مل کر بھی رات کو دن کی جگہ اور دن کو رات کی جگہ لانا چاہے تو نہیں لا سکتی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’فرما دیجئے: ذرا یہ (بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا

MushtaqAhmed
 

رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف، پرسکون اور نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے۔ سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے، کائنات کو حیات بخشتا ہے۔
انسان جب اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی آنکھوں کو پھیرتا ہے تو اس وقت حیران و ششدر رہ جاتا ہے جب وہ اس کے جمال و کمال، جلالت، نظم و نسق اور توازن کو دیکھتا ہے جس کے عجائب ختم ہونے کو نہیں آتے۔ اس کے خفیہ راز اور اسرار، بے حد و بے انتہا ہیں ۔ تو قرآن مجید آسمان و زمین کی اس بادشاہت کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے بیان کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو

MushtaqAhmed
 

الرشید، اَلف لیلہ و لیلہ (1001 راتیں) کے خلیفہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خیزران اور زبیدہ کے مضبوط کردارہیں جو افسانوی شہر زاد کی حقیقی زندگی کی بنیاد تھے۔
آدم علی کہتے ہیں کہ خیزران ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔
’وہ اپنی مضبوط قوت ارادی، عزم، ذہانت، دانشمندی، استقامت اور بے رحمی کی بدولت غلام سے مادر ملکہ کے درجے تک پہنچیں۔ وہ تین خلفا کے تخت کی طاقت تھیں۔‘(پوری ہوگئی)