Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

میں لکھتے ہیں کہ ان کے نام پر سکے ڈھالے گئے، محلات ان کے نام سے منسوب کیے گئے اور جس قبرستان میں بعد کے عباسی حکمرانوں کو سپرد خاک کیا گیا، اس میں بھی ان کا نام موجود ہے۔
’یہ سب نہ صرف ان کی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں بلکہ یہی میراث اَمت العزیز تک پہنچتی ہے جنھیں تاریخ میں زبیدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘
زبیدہ سلسال کی بیٹی اور خیزران کی بھانجی اور ہارون الرشید کی بیوی ہونے کے باعث ان کی بہو تھیں۔ جہاں ہارون الرشید، اَلف

MushtaqAhmed
 

کی وفات ہوئی، ہارون الرشید خلیفہ ہوئے اور مامون الرشید پیدا ہوئے۔‘
ہارون الرشید 14 ستمبر 786 کو خلیفہ بنے تو خلافت مغربی بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھیخلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بھائی کے برعکس اپنی والدہ کے امور مملکت میں حصہ لینے کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کی سیاسی قابلیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور ان کے شانہ بشانہ حکومت کی۔
مرنیسی کے مطابق وہ یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے کہ انھیں خیزران جیسی قابلیت اور ذہانت کی کسی عورت کے ساتھ اپنی طاقت سانجھی کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں۔
جب خیزران کی 789 میں وفات ہوئی تو ان کے بیٹے ہارون الرشید نے قواعد کو توڑتے ہوئے عوامی طور پر اپنے دُکھ کا اظہار کیا اور ان کے جنازے میں شرکت کی۔
تاریخ میں خیزران کے سیاسی کارناموں کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی لیکن ٹام وردے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان

MushtaqAhmed
 

نے انھیں زہر دینے کی کوشش کی۔
وہ لکھتے ہیں کہ الہادی نے ایک دن اپنی ماں کو پکے ہوئے چاول بھیجے۔ وہ چاول امتحان کے طورپر کتے کو کھلائے گئے تو اس کا تمام گوشت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرپڑا۔
ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ خیزران کو معلوم ہوا کہ الہادی اپنے بھائی ہارون الرشید کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ اپنے مختصر دورِ حکومت میں الہادی نے اپنے بھائی ہارون الرشید کے حق وراثت کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔
طَبَری میں فضل بن سعید سے روایت ہے کہ خیزران نے قسم کھائی تھی کہ وہ موسیٰ الہادی سے بات نہیں کریں گی۔
’جب الہادی کی موت کا وقت قریب آیا اور قاصد نے اطلاع دی تو انھوں نے کہا میں کیا کروں۔ وضو کے لیے پانی لاؤ تاکہ نماز پڑھ لوں۔ آج رات ایک خلیفہ مرے گا، دوسرا برسرِ خلافت ہوگا اور تیسرا پیدا ہوگا۔ موسیٰ الہادی کی وف

MushtaqAhmed
 

مالک کے حق میں سفارش کی اور کھلے عام اپنے بیٹے سے جواب طلب کیا۔‘
’الہادی غصہ میں کھلم کھلا ان پر چلائے اور کہا: ’میری بات کان کھول کرسنیں۔۔۔ میرے لوگوں میں سے جو کوئی آپ کے پاس درخواست لے کر آئے گا اس کا سر کاٹ دیا جائے گا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔ آپ کے پاس یہ جمگھٹا کیوں لگا رہتا ہے؟ اللہ اللہ کریں۔ خبردارجو کسی کے بھی حق میں منہ کھولا۔‘
ولیم منٹگمری واٹ کے مطابق جب الہادی ستمبر 786 میں پراسرار طور پر وفات پا گئے تو افواہ تھی کہ موت کے پیچھے خیزران کا ہاتھ ہے۔
ابوجعفرمحمد بن جریر الطَبَری نے تاریخ طبَری میں لکھا ہے کہ بعض ارباب نے بیان کیا ہے ان کے پیٹ میں ایک دنبل (پھوڑا) ہوا تھا وہی وجہ ہلاکت ہوا۔ دوسرے ارباب یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں خیزران کے اشارے اور حکم سے بعض لونڈیوں نے ان کو ہلاک کیا کیوں کہ الہادی نے انھیں زہ

MushtaqAhmed
 

عزیتِ عام طلب کی جس پر اعتراض اٹھا کیوں کہ تب بیٹی کی وفات پر عوامی تعزیت کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘
دس سال ڈیڑھ ماہ کی حکومت کے بعد المہدی کی وفات اگست 785 میں سرکاری طور پر جانشین مقرر کیے بغیر ہو گئی۔ الہادی خلیفہ ہوئے اور ہارون نے رضامندی ظاہر کی۔
مرنیسی لکھتی ہیں کہ خیزران نے وزیروں کو حکم دیا کہ وہ فوج کی اجرت ادا کریں تاکہ امن و امان قائم رہے۔ پھر ان سے اپنے بیٹے کی غیر موجودگی میں نئے خلیفہ کے طور پر بیعت لی۔
خیزران اپنے بیٹے موسیٰ الہادی کے دورِ حکومت میں بھی ویسا ہی غلبہ چاہتی تھیں جیسا کہ اپنے شوہر المہدی کے دور میں حاصل تھا۔
’وہ (الہادی) سے مشورہ کیے بغیر فیصلے کرنے لگیں۔ تاہم، الہادی نے ریاستی امور میں ان کی شرکت کی مخالفت کی۔‘
’یہ تنازع بالآخر عوام کے سامنے اس وقت کھلا جب خیزران نے ایک درخواست گزار عبداللہ بن مالک کے ح

MushtaqAhmed
 

تک انھیں شاہی سرپرستی حاصل رہی۔‘
جیسے جیسے ان کے شوہر کی عمر بڑھتی گئی، دربارمیں ان کی طاقت بڑھتی گئی اور انھوں نے اپنے کچھ رشتہ داروں کو بھی عہدوں سے نوازا۔
مرنیسی لکھتی ہیں کہ جب المہدی بغداد سے دور ہوتے تو وہ ان کی طرف سے حکومتی معاملات کو سنبھالتی تھیں۔
’اپنی والدہ، دو بہنوں اور دو بھائیوں کو بھی بلوا لیا اور اپنی ایک بہن، سلسال، کی شادی المہدی کے بھائی جعفر سے کی، اور اپنے بھائی کو یمن کا گورنر نامزد کیا۔‘
دو بیٹوں کے علاوہ المہدی اور خیزران کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام بانوقہ تھا۔
بینسن بورک نے اپنی کتاب ’دی کیلفس سپلینڈر: اسلام اینڈ دی ویسٹ ان دی گولڈن ایج آف بغداد‘ میں لکھا ہے کہ المہدی ان سے اتنا پیار کرتے تھے کہ انھیں لڑکوں کا لباس پہناکر سفر میں ساتھ لے جاتے۔
’جب 16 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تو المہدی نے تعزیتِ عام

MushtaqAhmed
 

تھا۔ ان کے پاس سینکڑوں غلام تھے اور کئی خواتین ملازمائیں تھیں۔ ایک پرتعیش طرزِ زندگی تھا۔‘
ان کی سالانہ آمدن خلافت کی آمدن کا ایک تہائی تھی، جو ان کے بیٹوں الہادی اور ہارون الرشید کی خلافت کے دوران دوگنا ہو کر خلافت کی کل آمدنی کے نصف سے زیادہ ہوگئی۔‘
نبیہ ایبٹ لکھتی ہیں کہ خیزران کی ذاتی دولت نے انھیں ’بلاشبہ، (ان کے بیٹے خلیفہ ہارون الرشید) کے بعد، اپنے دور کی مُسلم دنیا کی سب سے امیر ترین شخصیت بنا دیا تھا۔‘
لیکن وہ خیرات بھی اسی نسبت سے کرتی تھیںخیزران کو مکہ میں اور اس کے راستوں کے ساتھ کنویں کھودنے اور پینے کے پانی کے چشمے لگانے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔
طالب ہاشمی کے مطابق ایک دفعہ خیزران کو ایک نوکر نے اطلاع دی کہ اموی خلیفہ مروان دوم کی بیوہ مزنہ دروازے پر ہے۔
’مزنہ کے حالات نے خیزران کے دل کو اس قدر متاثر کیا کہ پھر موت تک ان

MushtaqAhmed
 

برمکیوں سے ان کا اتحاد تھا۔ خالد برمکی تب ساتھ تھے جب خیزران کو المہدی نے خریدا تھا اور ان کے ملکہ بننے کی پیش گوئی کی تھی۔ ان کے بیٹے اورہارون الرشید کے استاد یحییٰ برمکی کی بیوی ام فضل نے ہارون کو اپنا دودھ پلایا تھا اور ہارون کی والدہ خیزران نے یحییٰ کے بیٹے فضل کو اپنا دودھ پلایا تھا۔
مرنیسی کے مطابق وہ تمام فوجی اور ریاستی امور پر تبادلہ خیال کرتیں اور فیصلہ میں مدد دیتیں۔ وہ درخواست گزاروں، مرد اور خواتین، دونوں سے ملاقات کرتیں۔ انھیں غیر ملکی سفیروں سے ملنے، سیاسی طاقت استعمال کرنے اور امورِِ سلطنت چلانے کے لیے سرکاری کاغذات پر دستخط کی اجازت بھی تھی۔‘
’خیزران کے محل کی حفاظت سپاہی کرتے اور ان کی زمینیں دارالحکومت بغداد کے مضافات میں پھیلی ہوئی تھیں۔متعدد کاروباری ادارے اور کارخانے بھی چلاتیں اور بیرونِ ملک بھی بڑا کاروبار تھا۔ ان

MushtaqAhmed
 

پر، خیزران اب خلیفہ کے حرم میں بھی اعلیٰ اختیار رکھتی تھیں اور سلطنت کی بھی سب سے طاقت ور اور بااثر خاتون تھیں۔عربی اور اسلامی علوم کے ماہر ولیم منٹگمری واٹ کی انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ خیزران ایک مضبوط شخصیت کی حامل خاتون تھیں جن کا اپنے شوہر اور پھر بیٹوں کے دورِِ حکومت میں امورِ مملکت میں بہت اثر تھا۔
مرنیسی لکھتی ہیں کہ جب بھی المہدی دربار میں آتے وہ ان کے ساتھ ہوتیں۔
’وہ ایک پردے کے پیچھے چھپی ہوتیں اور اگر کسی بات سے متفق نہیں ہوتی تھیں، تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیتی تھیں۔ انھیں ہر وقت خلیفہ تک براہِ راست رسائی حاصل تھی۔ ان کی تجاویز کو ہمیشہ قبول کیا جاتا تھا۔ ان کی سفارش سے انعام یا ترقی اور سزا میں معافی ملتی۔‘
دربارمیں برمکیوں سے ان کا اتحاد

MushtaqAhmed
 

بھی کرتیں۔
سنہ 775 میں المہدی خلیفہ بنے تو خیزران نے انھیں آزاد کر کے شادی کرنے پر راضی کرلیا۔
مورخ ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب خلیفہ سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اشرافیہ میں شادی کریں گے، خیزران کو ملکہ بنانا ’جرات مندانہ طور پر روایت سے ہٹ کر تھا۔‘
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ المہدی کی زندگی میں خیزران حج پر گئیں تو انھیں مکہ میں خط لکھا کہ وہ ان کے بغیر وحشت محسوس کرتے ہیں اور کچھ اشعار کے ذریعے اپنے شوق کا اظہار کیا۔
یوں پہلی بیوی ریطہ کے بیٹوں کی بجائے خیزران کے بیٹوں، موسیٰ الہادی اور ہارون الرشید، کو اپنے تخت کا وارث بنایا۔
تاریخ ریطہ اور خیزران کے درمیان براہ راست کشیدگی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتی ہے۔ لیکن ایبٹ کا قیاس ہے کہ ریطہ نے جان لیا ہوگا کہ خیزران کی مخالفت کا کوئی فائدہ نہیں۔
ملکہ کے طور پر، خیزران

MushtaqAhmed
 

بغداد: مدراینڈ وائف آف ہارون الرشید‘ میں لکھتی ہیں کہ خیزران نے اپنی کامیابی کے لیے شاید ہی کبھی خوبصورتی پر انحصار کیا ہو۔
’وہ ذہین تھیں، آزادانہ طور پر شاعری کا حوالہ دیتی تھیں اور معروف علما سے قرآن، حدیث اور قانون کا مطالعہ کرتی تھیں۔‘
مراکشی ماہرسماجیات فاطمہ مرنیسی اپنی کتاب ’اسلامز فارگاٹن کوئینز‘ (اسلام کی بھولی ہوئی ملکائیں) میں لکھتی ہیں کہ حرم کی لونڈیاں، جنھیں جاریہ یا جواری کہا جاتا تھا، اپنے مالک کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے موسیقی، علمِ نجوم، ریاضی اور علم الٰہیات سیکھتیں اور خیزران نے تو فقہ کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔‘
المہدی کی زندگی میں خیزران سے پہلے بھی کچھ لونڈیاں آئیں لیکن، مرنیسی کے مطابق، وہ بالآخر المہدی کی پسندیدہ بن گئیں۔
وہ دونوں عملی لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے۔ کئی بار المنصور کے غصّے کی نقل بھی کرتی

MushtaqAhmed
 

خیزران نے المہدی سے تحفے میں ملے دارالارقم کے ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے بھی مسجد بنوا دیا تھا۔
یہ وہ گھر تھا جہاں اسلام کی ابتدا میں پیغمبراسلام دعوتِ دین دیتے اور ابتدائی مسلمان خفیہ نماز پڑھتے تھے۔ (دوسرے عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے یہ گھر خرید کر اپنے بیٹے المہدی کو دیا تھا۔ انھوں نے اسے اپنی بیوی خیزران کوتحفہ میں دے دیا جن سے منسوب ہوکر یہ مکان دارالخیزران مشہورہوا)۔
یہ مقام اب مسجدِ حرام کا حصہ ہے اور باب دار الارقم کے پاس ہے۔
تاریخِ کوکن‘ میں مومن محی الدین لکھتے ہیں کہ بانس جسے عربی زبان میں خیزران کہتے ہیں نزاکت حسن اور قامت محبوب کا معیار پایا تھا۔ بغداد کے عشرت کدوں میں نازک اندام حسیناؤں کو خیزران سے تشبیہ دی جاتی تھی اور یہی نام مہذب سوسائیٹی کی خواتین میں بھی مقبول تھا۔
لیکن نبیہ ایبٹ اپنی کتاب ’ٹو کوئینز آف بغداد:

MushtaqAhmed
 

, صحافی و محقق
مسلمانوں کے لیے مکہ میں وہ گھربہت خاص تھا کہ اس میں پیغمبراسلام پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے بعد سے یہ ایک (عقیل بن ابی طالب) کے بعد دوسرے (محمد بن یوسف الثقفی) خاندان کی ملکیت میں چلا آرہا تھا۔ سنہ 788 میں خیزران حج پر گئیں تو اسے خرید لیا۔
اسی مکہ میں حج ہی کے موقعے پر عباسی خلیفہ المہدی نے انھیں غلاموں کے ایک تاجر سے خریدا تھا اور بعد میں اپنی ملکہ بنایا تھا۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کے استاد آدم علی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اس گھر میں خیزران نے چھوٹی سی مسجد بنوائی اور پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش کو زیارت کا مقام بنایا۔‘
بیسویں صدی کے وسط میں اسے دو منزلہ لائبریری میں بدل دیا گیا۔ اب یہ مسجد حرام کے پاس ہی واقع ہے۔
اس سے پہلے خیزران نے

MushtaqAhmed
 

حت کے بہ جائے واقعی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں، تو اسے مناسب جوڑ کی راہ نمائی کے ساتھ اسے نکاح کی ترغیب دیجیے، تو آپ کا یہ عمل ان شاء اﷲ ضرور بالضرور صدقۂ جاریہ ہوگا۔ کیوں کہ نیکی صرف وہی نہیں، جسے ہم اپنی سمجھ میں نیکی سمجھتے ہیں، بل کہ قرآن و احادیث میں جس خیر کا بھی صراحتاً یا اشارتاً ذکر آیا ہے، اسے انجام دینا، اس پر راہ نمائی کرنا اور اس میں تعاون پیش کرنا نیکی ہے، اور جسے کوئی نعمت میسر نہ ہو، اس کے سامنے بار بار محض اس کا ذکر کرنا، اس کا دل دکھانا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین

MushtaqAhmed
 

ابوذر رضی اﷲ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ابنِ آدم کے جسم کے ہر جوڑ پر صبح ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، پس ہر ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ اسے نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے۔ اسے برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے۔ اپنی بیوی سے جماع کرنا صدقہ ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! وہ تو اپنی شہوت پوری کرتا ہے، تو کیا یہ شہوت کی تکمیل اس کے لیے صدقہ ہوگی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ یہ شہوت غلط مقام میں پوری کرتا تو کیا گناہ گار نہ ہوتا ؟ ‘‘ (ابوداؤد)
اس آخری الذکر حدیث سے بھی نکاح کرنا اور کروانا دونوں کا کارِ ثواب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو کسی کے حالات سے پوری واقفیت ہے اور آپ اس کی فضیحت کے بہ جائے واقعی

MushtaqAhmed
 

حج کی تشویق اور ترغیب کے مضامین بیان کرنا جائز نہیں۔‘‘ (اغلاط العوام)
عرض یہ کرنا ہے کہ جب کسی کو نکاح کے اسباب و وسائل میسر ہی نہیں، تو بار بار اسے چھیڑنا چہ معنی؟ کیا آپ کو اس سے وحشت نہیں ہوتی کہ بار بار آپ کے اس ذکر کے باعث اس کے دل میں ارمان مچلنے لگیں اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگے اور پھر وہ شہوت کے غلبے میں کسی ناجائز اور غلط طریقے کو اختیار کر لے؟
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے امتِ محمدیہؐ! جس وقت تم میں سے کوئی مرد یا عورت زنا کرتا ہو، اس وقت اﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر غیرت کسی کو نہیں آتی۔ اے امت محمدیہؐ! جو کچھ میں جانتا ہوں، تم بھی جان لو تو ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
حضر

MushtaqAhmed
 

کب کر رہے ہو؟ بریانی کب کھلا رہے ہو؟ جو کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے یا کم از کم ایسے ارمان جگانے کے مترادف ہے، جن کو پُورا کرنا ان کے بس میں نہیں، اس لیے زیادتی ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حج کے تعلق سے لکھا ہے: ’’اکثر لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ حج کے بعد ہر مجلس میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، حالاں کہ جن پر حج فرض نہیں ہے اور ان کا جانا بھی جائز نہیں، اس وجہ سے کہ ان کی نہ مالی استطاعت ہے اور نہ مشقت پر صبر و تحمل ہو سکے گا، ان کے سامنے تشویق و ترغیب (شوق دلانے اور رغبت پیدا کرنے والے) قصّے اور مضامین بیان کرنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے ان کو حج کا شوق پیدا ہوگا اور سامان ہے نہیں، نہ ظاہری، نہ باطنی، تو خواہ مخواہ وہ دقت اور پریشانی میں مبتلا ہوں گے، جس سے ناجائز امور کے ارتکاب کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں کے سامنے حج کی تشویق اور

MushtaqAhmed
 

اوّل تو مناسب جوڑ نہیں ملتا، اور کوئی ملتا ہے تو اس کے مطالبات کی فہرست خاصی طویل ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ میریج بیورو اور نکاح کروانے والے دلال جیسی اصطلاحیں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں، جنہیں مناسب جوڑ سے کہیں زیادہ جلد از جلد دلالی اینٹھنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔
نکاح کروانے کی جانب لوگوں کی غفلت کی وجہ دنیوی زندگی میں انتہائی انہماک و مشغولی اور کسی حد تک خود غرضی ہے کہ کوئی کیوں کسی کی پریشانی اپنے سر لے۔ اس رجحان نے بہت سے ضرورت مند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نکاح جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھا ہے، جس کا نتیجا فحاشی و حرام کاری کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے میں اصلاحِ معاشرہ کے نام پر محض جلسے جلوس کرنا کیسے سود مند ہو سکتا ہے ؟
طرّہ یہ کہ ان نوجوانوں سے لوگ یہ پوچھتے نہیں تھکتے کہ شادی کب کر

MushtaqAhmed
 

کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے اور ان کے حوالے سے ضرورت مند کا نکاح کروانے کا باعثِ ثواب ہونا خصوصی طور پر معلوم ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے سماج کے بڑے بوڑھے اور اہلِ فہم و شعور اس طرف بہت متوجہ رہتے تھے، جس کا مشاہدہ پندرہ بیس سال قبل تک خُوب ہوتا تھا۔ اردو زبان میں اس قبیل سے ایک کہاوت بھی موجود ہے کہ چھان (چھپّر) کو ہاتھ لگانا بھی ثواب کا کام ہے، جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی کی اولاد نکاح کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نکاح میں جو بن پڑے، تعاون پیش کرے۔
ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت شدید تر ہو گئی ہے، اور اس سے غفلت بھی۔ ضرورت بڑھنے کی وجہ تو یہ ہے کہ جب سے ’’انفرادی خاندان‘‘ کا تصور آیا ہے، اور لوگ خاندان و رشتے داروں سے کٹناشروع ہوئے ہیں، تب سے اچھا و مناسب رشتہ ملنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگیا ہے۔ اوّل تو م

MushtaqAhmed
 

شامل ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سے وہ شخص کہ جس کے دین اور خلق سے تم خوش ہو، نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کر دو، ورنہ زمین پر بڑا فتنہ اور سخت فساد ہوگا۔ علماء کے نزدیک یہ امر مندوب و استحباب کے لیے ہے، بعض کہتے ہیں وجوب کے لیے فیصلہ یہ ہے کہ جہاں زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو اور نکاح کرنے پر قادر بھی ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، ورنہ مستحب ہے۔ نیز فرمایا گیا کہ اپنے غلام لونڈیوں میں سے بھی جن کو نیک دیکھو، ان کے بھی نکاح کردو۔ کیوں کہ نیک ہی نکاح اور خدمتِ مولیٰ کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں، یا صالحین سے مراد وہ کہ جن کو نکاح کی صلاحیت ہو۔(تفسیرِ حقانی)
اس سے معلوم ہُوا نکاح کرنا حکمِ خدا اور رسول ﷺ کی تعمیل اور ثواب کا باعث ہے، اس لیے نکاح کروانا بھی یقیناً کارِ ثواب ہوگا۔
نیکی کے کاموں میں