Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

گیا۔عام افراد ایک لکیر کو عبور کرنے کی سعی میں ساری عمر بھاگتے نظر آئے،جب وہ لکیر عبور کر لی ،تو سب سراب دکھاءدیا اور اپنی بے معنی زندگی پر کف افسوس ملتے رہ گئے۔
اگلا سنگ میل و مرحلہ تعلیم کے حصول نے پیدا کیا،تعلیم زندگی میں بیشمار تبدیلوں کا باعث بنی اور جہلا اس مثبت سوچ و طرز زندگی سے نا آسنا رہ گئے۔یہ لکیر پتھر میں ثبت ہو گئ،دنیا دو حصوں میں بٹ گءاور ایک حصہ ترقی کی راہ پہ گامزن اور دوسرا حصہ تاریکی و گھپ اندھیروں میں مقید۔تعلیم نے دلوں کو منور کر دیا،آگاہی کا راستہ صاف کر دیا اور ترقی و کامرانی قدم چومنے لگی۔جہلا تاریک پستیوں میں ٹپے ٹوئیاں مارت رہے،طاغوتی پردے ان کے دلوں،کانوں و آنکھوں پر پڑے رہے اور وہ پرانی روایتوں میں مقید،گہری کھاءمیں پڑے رہے۔
تعلیم کی لکیر نے دنیا بھر کو روشن کر دیا،اس اہم ترین لکیر نے ہمارے ذہن کھول د

MushtaqAhmed
 

لعون نے مغلظات بکیں،ان باتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور اس کا نام و نشان محض بدی و شر کی مثال بنا۔
زمانہ آگے بڑھتا چلا گیا،کاشتکاری کو دوام ہوا اور زمین پر لکیریں کھنچ گئیں۔خدا کی بناءزمین اچھی و بری قرار دی جانے لگی، اس کے حصول نے جھگڑے کی ایک بنیاد ڈالی اور قتل و غارت گری قابیل کی ریت،انسانوں نے بخوشی، چند سکوں کے عوض اپنا۔اس نے دوسری کءلکیروں کو جنم دیا،جن میں معاشی کروفر و دنیاوی سربلندی نے، عزت و وقار کا مصنوعی معیار قائم کیا اور نیکی، پارساءو عبودیت کو اپنانے والے بیچارے مسکین تصور کیئے جانے لگے۔اب گھروں کی تعمیرات کا وقت آیا،بڑھ چڑھ کر اونچے اونچے محل تعمیر ہوئے اور تعیشات زندگی سے انھیں لیس کر دیا گیا۔اس لکیر نے دنیا کی نظروں میں، امیر و غریب کی واضح تفریق پیدا کی اور عمارات کا جائے وقوع بھی اس مصنوعی لکیر کا اٹل حصہ بن گیا۔

MushtaqAhmed
 

سے قبول فرمایا اور قابیل کا رد فرمایا۔یہ ایک بھائیوں کے درمیان لکیر کھچ گ،یوسف کے بھائیوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔شاید اس سے پہلے جنت کے باسی،آدم و حوا خدا کے مقرب بندے بنے اور ان کو سجدے سے انکار پر شیطان معتوب ہوا ،اسے پہلی لکیر کہا جا سکتا ہے۔شیطان نے براءکا ٹھیکا لے لیا،وہ طاغوتی طاقتوں کا سربراہ و سرغنہ بن گیا اور اس نے اللہ تعالی کے نیک بہرہ ور بندوں کو راہ حق سے گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
حق و طاغوت کی لکیریں کھنچ گئیں،خدا و رسولوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ،لکیر کے ایک طرف اور شیطان کے چیلے دوسری طرف صف آراء ہو گئے۔یہ تفریق امر ہو ،ساری سچاءو اچھاءکو ایک سمت یکجا کر دیا گیا اور ساری براءو گندگی کو دوسری سمت دھکیل دیا گیا۔فنیا کی تاریخ میں جس عطیم انسان نے کلمہ حق بلند کیا،اس کی تعکیمات کو خدا نے محفوظ کر دیا اور جس بدکردار ملعون نے

MushtaqAhmed
 

قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا اور پہاڑوں ، دریاوں و سمندروں سےملکی علاقہ جات کا تعین ہوا کرتا تھا۔انسانی ذپن نے اپنے عروج و ترقی کا اظہار نقشوں پہ مصنوعی لکیریں کھینچ کر کیا،یہ قبائل کے درمیان فاصلے پیدا کرتیں،دین و مسلک کی آڑ میں نفرتوں کے بیچ بوتیں اور رنگ و نسل کو بنیاد بنا کر ،کدورتوں و رنجشوں کے جھنڈے گاڑتیں۔مصنوعی لکیریں ہر جگہ پاءجاتی ہیں،گھروں سے لے کر دفاتر تک ، مدرسوں و خانقاہوں کی اونچی فصیلوں تک اور کھیل کود کے ہرے بھرے میدانوں میں۔
اب طے یہ کرنا ہے،ان لکیروں کی بنیاد و ابتداءکب،کہاں اور کیسے ہوئی۔ہماری کتاب لوح محفوظ ایک عظیم سانحہ کا ذکر فرماتی ہے ،جس میں قابیل نے اپنے چھوٹے بھاءہابیل دشمنی مول لی ،اس کی وجہ تسمیہ بھاءکا نظرانہ تھا،خدا نے اسے قبول

MushtaqAhmed
 
MushtaqAhmed
 

بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلّا رائیاں
آل نبی اولادِ علی نوں، توں کیوں لیکاں لائیاں
چیہڑا سانوں سیّد سدّے، دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں
رائیں سائیں سبھنیں تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں
سوہنیاں پرے ہٹائیاں نیں تے، کوجھیاں لے گل لائیاں
جے توں لوڑیں باغ بہاراں، چاکر ہوجا رائیاں
بلھے شوہ دی ذات کہہ پچھنایں، شاکر ہو رضائیاں
(بلھے شاہ)

MushtaqAhmed
 

میں خواتین ہوں تو آپ جیسے کردار کو یہ بطور وزیراعلیٰ کے آپ ایک بڑے عہدے پر براجمان ہیں کم از کم بار بار اس فقرے کو دہرانا کیا پیغام دے رہے ہیں۔ آپ ہماری بچیوں کو کہ مجھے نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے۔
اور آخری بات…!
بقول وزیردفاع خواجہ آصف کے کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے جو گزشتہ روز علی امین گنڈاپور نے اتار دی۔ میرے نزدیک انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی کو سرعام داغدار کرو… یہ شاید ہمارے خاندان میں رواج ہوگا مت دو ایسا پیغام ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کو…
✅✅✅

MushtaqAhmed
 

نشہ آور بڑھکیں تھیں انہوں نے بے باک بڑھکیں ماریں اور اپنے قائد بانی تحریک انصاف کے انداز اور ان کی بڑھکوں کی یاد دلا دی۔ جہاں انہوں نے سیاستدانوں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ کو کھلی اور آزادانہ طور پر دھمکیاں دیں یہ کسی سیاست دان کا وطیرہ نہیں تھیں البتہ ہم گنڈا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے جلسے میں میڈیم نورجہاں کی یاد دلا دی اور انہوں نے ایک نشئی کے انداز میں نورجہاں کا مشہور زمانہ گیت
مینوں نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے
یوں بھی مجمع میں خ

MushtaqAhmed
 

پڑتے ہیں۔
ہمارے ایک نوجوان سیاست دان نے بڑی بڑھکیں ماریں اور خاص کر عدلیہ کے چیف کے بارے میں بڑھک ماری۔ عدلیہ نے بلایا موصوف نے معافی مانگی اور پھر اسی عدلیہ کی چوکھٹ پر سجدہ کر دیا… آج رات کو مختلف چینلز پر سیاسی عدالتیں دیکھتے ہیں ان عدالتوں میں لڑائی جھگڑوں کی باتیں تو بعد میں دیکھیں گے یہاں بھی بڑھکیں ہی بڑھکیں ماری جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا ہے پھر ان بڑھکوں کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک طویل عرصہ کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک جلسہ کیا اس جلسے میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر ہوگا جس نے اپنی اوقات سے بھی بڑھ کر بڑھکیں نہ ماری ہوں مگر اہم بڑھکیں وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کی تھیں۔ ان کی ہر بات میں ہر انداز میں نشہ آور

MushtaqAhmed
 

ذمہ دار بھی عمران خان ہے جو ہر بات پر بڑھک ضرور مارتا ہے ’’اوئے میں تجھے اندر کر دوں گا… برباد کر دوں گا… جیل میں ڈال دوں گا… فکس کر دوں گا… میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہیں یہ کردوں گا وہ کر دوں گا… اوئے سن لو… اوئے سنو… اگر تم نے یہ کیا تو میں وہ کر دوں گا… کسی کو نہیں چھوڑوں گا کسی کی نہیں سنوں گا نہیں جھکوں گا مر جاؤں گا، غلامی قبول نہیں کروں گا مجھے باہر نکالو… عوام تمہیں کھا جائیں گے… اب چونکہ عمران خان کی اپنی مونچھیں نہیں ہیں اور وہ ہر مونچھ والے چاہے اس کے سامنے رانا ثناء کی مونچھیں تھیں کہ میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر اندر کروں گا یہ ہوگا وہ ہوگا اب بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان تو بڑھکیں مارنے میں ایک فن رکھتا ہے مگر اس کے حواری ایک طرف بڑھک مارتے ہیں تو دوسری طرف اس بڑھک کا دفاع بھی نہیں کر پاتے اور تردید و تصدیق کے چکروں میں پڑتے

MushtaqAhmed
 

ان کی بڑھکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جب لیڈر بڑھکیں مارے گا تو پھر ان کی جماعت کہاں پیچھے رہ جانے والوں سے تھی اس نے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے بڑھک کو اپنی سیاست کا باقاعدہ حصہ بنا لیا اور زمانہ تو دیکھ رہا ہے کہ آج کون ہے جو بڑھک نہیں مار رہا۔ جلسہ ہو، بیان ہو، پریس کانفرنس ہو، میڈیا ٹاک ہو وہاں صرف بڑھکیں زیادہ ماری جاتی ہیں اور پھر خدا کی پناہ بڑھک بھی ایسی کے بعض اوقات عقل بھی دنگ رہ جائے، شرما جائے، سکڑ جائے کہ یار یہ کیا بڑھک مار دی ہے۔ یہاں ایک کے اوپر ایک نئی سے نئی بڑھک نے ہمیں کیا سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یار اگر میں نے بڑھک نہ ماری تو یہ میری تو کوئی سنے گا نہیں کیوں نہ کسی بھی بات پر بڑھک مار دوں ہم عرصہ دراز سے صرف بڑھکیں سنتے آ رہے ہیں۔ ہمیں دوسرے کو دباؤ میں لانے کے لیے بڑھک مارنے کی جو عادت پڑ گئی ہے اس کا ذمہ دار بھی عمران

MushtaqAhmed
 

توہین عدالت کے زمرے میں آ جاتی ہے اور حال کی بات کریں تو ہمارے کئی سیاستدان ان بڑھکوں کا شکار ہوئے اور پھر معافی مانگ کر عدالت سے باہر آئے کہ سر وہ تو بڑھک تھی ہمیں بھی تو سیاست میں رہنا ہے۔
سیاست تو اپنی جگہ اب پھر کوئی دوسرے کو بڑھک لگا دیتا ہے اس کا مطلب ہے کہ بڑھک نے باقاعدہ طور پر ہماری زندگی کو سائن کر لیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی اب ادھوری ہے کہ اگر بڑھک نہ ماری تو میری عزت خاک میں مل جائے گی۔ میں کون ہوں کیا ہوں جیسا ہوں مجھے بڑھک مارنا ہے اور وہ میں مار دیتا ہوں۔ ماضی اور حال اور آنے والے کل میں ہماری بڑھکوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے کوئی یہ بات مانے نہ مانے آج کے دور کے بڑھکوں کے سب سے بڑے موجد عمران خان بانی تحریک انصاف ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز بڑھکوں سے کیا تھا اور پھر اقتدار سے پہلے اقتدار کے بعد اب اڈیالہ جیل سے ان ک

MushtaqAhmed
 

یاسی بڑھکوں کی ایک روایت بنتی گئی بلکہ یہ روایت باقاعدہ طور پر اس وقت رجسٹرڈ کروا دی جب عمران خان نے تحریک انصاف کی سیاست کا آغاز کیا اور پھر ان کے ہر جلسے میں ان بڑھکوں نے دھمکیوں کی جگہ لے لی اور پھر یہ بڑھکیں تحریک انصاف کا سلوگن بن کر سوشل میڈیا پر آ گئیں اور ہر بات اور ہر معاملے کو ان بڑھکوں کے انداز میں دیکھا اور سنا جانے لگا۔ چلیں اچھا ہوا کہ ہماری سیاست میں ان بڑھکوں کے ذریعے لوگوں کو مزاج بھی ملا کہ یہ صرف بڑھکیں تھیں اب کسی بھی معاملے میں بڑھک مارنا آپ کا سب کا پیارا حق ہے کہ ہم نے کمزور معاشرے میں اپنی مردانگی کا بھی مظاہرہ کرنا ہے۔ بیمار معاشرے میں اور کچھ نہیں تو بڑھک مارنے کا حق تو محفوظ ہے اور یہ ایسی وباء ہے کہ اس پر قانون بھی کچھ نہیں کہتا البتہ جب کوئی سیاست دان عدلیہ کے بارے میں کوئی بڑھک مارتا ہے تو اس کی یہ بڑھک توہی

MushtaqAhmed
 

آپ نے یقینا پنجابی فلمیں دیکھی ہوں گی ان فلموں کی مقبولیت اور کامیابی میں زیادہ کردار ان بڑھکوں کا ہوتا تھا جو سین کے مطابق فلمائی جاتیں اس زمانہ میں ان بڑھکوں میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نمایاں تھے اگر آپ کو یاد ہو تو سلطان راہی کی مولے نوں مولا نہ مارے تے مولے نوں کوئی نہیں مار سکدا… اوئے بار آ… میں تینوں نئیں چھڈاں گا… روک سکو تو روک لو… میں آیا تے پنڈ ہلا دیاں گا… خیر یہ تو فلمی کہانیوں کی بڑھکیں تھیں اب یہ بڑھکیں ہماری سیاست کا بڑا مسئلہ بن گئی ہیں۔ پہلے پردہ سکرین پر ان کو سنا کرتے تھے آج جلسوں میں یہ بڑی اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور ان بڑھکوں کے موجد تو ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے اپنی سیاسی تحریک کے آغاز پر ایوب خان کو للکارا تھا پھر اتحادیوں کے شہنشاہ نواب زادہ نصراللہ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ان کے بعد سیاسی بڑھکوں

MushtaqAhmed
 

کیا زندگی ان پر بوجھ ہے۔ کیا پردے میں ان کا دم گھٹتا ہے ۔سوال احساس کی ہے ۔
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ ۔۔۔۔۔انچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی ۔۔۔۔۔چترالی کلچر میں دوپٹے کی بڑی اہمیت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ چترالی عورت کی پہچان ہے یاں اگر کوٸی اس سے انکاری ہے تو ڈھنکے کی چوٹ پر کہدے کہ میں نے چترالیت اپنے سر سے اتار پھینکا یے ۔۔۔حدیث شریف ہے ۔۔۔اگر کسی کی حیا مرجاۓ تب اس کی مرضی ہے جو بھی کرے ۔اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر مجبور ہیں تو ان حقیقتوں سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام کے متعین کردہ اصول ہماری اولین ترجیحات ہیں
✅✅✅

MushtaqAhmed
 

جو اقدار تھے وہ عین اسلامی تھے ان کی حیثیت ختم ہوتی جارہی ہے ۔دنیا کی ہرقوم اور تہذیب کے اندر عورت کا مقام اور عورت سے منسوب اقدار متعین ہیں عورت ان سے کبھی باغی نہیں ہوٸی ۔۔بغاوت اس وقت جنم لیتی ہے کہ بندہ اپنے اقدار چھوڑ کر بخوشی دوسروں کے اقدار اپناۓ۔۔۔ ہم فخر سے ایسا کر رہے ہیں ۔۔اگر ہماری کوٸی بچی یا بچہ پڑھنے کے لیے کسی دوسرے ملک پہنچتا ہے تو پہلے بچی کے سر سے دوپٹہ اور بچے کی شلوار قمیص بدلتی ہے ۔کیا یہ کلچر اور لباس تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔۔میں خود ہار چکا ہوں پہلے گھر میں عورت کے سر سے دوپٹا گرتا تو وہ گھر کے مردوں کے سامنے شرمندہ ہوتی اب ہم ان کو ننگا سر دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں ان کو احساس تک نہیں ہوتا ۔۔دارالعلوم کے بچے بچیاں مکمل شرعی پردہ کرتے ہیں کیا وہ زندہ نہیں ہیں ۔۔۔کیا زندگی

MushtaqAhmed
 

نہیں ہے جدید تعلیم اسلامی اور خالص چترالی ثقافت سے متصادم کیوں ہے ؟ ہم نےکالج یونیورسٹیوں میں بھی ایسی بچیوں کو دیکھا ہے جو مکمل پردے میں ہوتی ہیں ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت یاخاندان سے ہوتا ہے وہ بڑے بڑے عہدوں پر ہوتی ہیں تب بھی ان کا پردہ ان کی زندگی میں کوٸی رکاوٹ نہیں ۔۔ماننے والی بات ہے کہ وقت کے تقاضے بدلے ہیں لیکن جس اسلام کو ہم مانتے ہیں اس کے زرین اصولوں کو ماننا پڑتاہے ۔اگر پردے کا حکم قران میں ہے تو پھر ہمیں (justification ) کا حق نہیں پہنچتا ۔۔۔ہمیں یا تو طوغا کرہا مانا پڑے گا یا صاف انکار کرنا پڑے گا ۔اب قران کے کسی صریح حکم سے انکار کی صورت میں کیا ہم داٸرہ اسلام میں شامل رہ سکتے ہیں یا باہر ہوتے ہیں
یہ بھی واضح ہے ۔چترال بہت تیزی سے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں عریانی کی طرف جارہا ہے ۔ہم اپنی روایات کھوتے جارہے ہیں ۔۔ہمارے جو اق

MushtaqAhmed
 

وصف ہے اگرچہ چترال کی خواتین محنتی (working women) ہیں اس کے باوجود اپنے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہوٸی بھی کسی خاتون کو ننگا سرنہیں دیکھا جا سکتا ۔اپنے گھر کے اندر بھی اپنے دوپٹے کی اتنی حفاظت کرتی ہیں جتنی باہر جاتے ہوۓ کرتی ہیں ان کی روایتی برقعہ قبایا ان کے استعمال میں ہوتی یے ۔ابھی تک یہ پردہ چترالی عورت کی پہچان رہی ہے ۔آج کل جو عریانی آگئی ہے یہ یلغار لگتا ہے اور نہھلے پہ دہھلا جدید تعلیم یافتہ جوان جابجا اس کی حمایت کررہے ہیں ۔اس کو خاتون کی مرضی اور اس کے گھرانے کا کلچر کہتے ہیں ۔۔کہتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار باپ کی تعلیم یافتہ میچور بیٹی ہے ۔۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ اس کاخاندان اس کا باپ جو بھی ہےان کی سوچ جس طرح بھی ہے اس پرکلام نہیں کلام اس پر ہے کہ اس عریانی اور فحاشی کی گنجاٸش اسلام اور چترالی کلچر میں ہے کہ نہیں ہے جدید

MushtaqAhmed
 

کرو ۔۔۔سوال یہ ہے کہ قران نے پہلی والی عریانیت کو جاہلیت قرار دیا ۔ ۔پردے کو آگاہی اور علم قرار دیا ۔۔اسی کو ثقافت اور تہذیب کا درجہ دیا ۔۔
اب پھر سے جدید تعلیم کی بدولت بے پردگی اور عریانی “آگاہی” ہے اور “پردہ “جہالت ہے ۔۔ہم ماڈرن ہورہے ہیں سوال ہے کہ یہ تعلیم ہمیں آگاہی اورہنر دینے کی بجاۓ ہمارے اقدار(values) کو قتل نہیں کررہی ۔۔اس سوال کا جواب جدید تعلیم یافتوں کے پاس نہیں آیٸن باٸین شاٸین ضرور ہے ۔۔اسلام کے اصولوں میں اپنے اختیار کی کوٸی حیثیت نہیں اسلام میں لباس پر کوٸی قدغن نہیں مگر لباس کا مقصد پردہ ہے جس لباس سے پردے کا مقصدزاٸل ہوتا ہے وہ اسلامی لباس نہیں ۔۔چترال ایک ایسا خطہ رہا ہے کہ اس میں اسلام کے آنے کے بعد عین اسلامی کلچر ترقی کرگیا ۔۔خواتین اسلامی اصولوں کی پابندی اپنی تہذیب کے اندر کرتی ہیں ان میں پردہ بہت نمایان وصف ہے اگ

MushtaqAhmed
 

اسلام سے پہلے عورت آزاد تھی ۔۔ناچ گانے سے لے کرننگے سر پھرنے تک آزادی تھی بلکہ کٸ ہزار سال آگے جایا جاۓ تو مشہور مصری شہزادی قلوپطرہ جس نے کئی شاہوں شہزادوں کو اپنے حسن کا دیوانہ بنایاتھا اپنے سیزر جیسے جنرل کو ٹاسک دی کہ شام فتح کرو میں تم سے شادی کروں گی وہ شام فتح نہ کر سکا مگر بے چارہ ٹنشن میں مرگی کا مریض بن گیا تاریخ کہتی ہے کہ یہی قلوپطرہ کوٸی چاند چہرہ والی نہیں تھیں چہرے مہرے پر جابجا داغ تھے مگر وہ اس وقت بیوٹی کریم بناتی تھی خالص مکھن اور گلاب کے پھول کی پھنکڑیاں ابالتی تھیں کریم بناتی تھی اس کے حسن کا یہ راز کسی کو معلوم نہ تھا یہ خاتون کی پوزیشن تھی اسلام آیاتو قران عظیم الشان میں حکم دیاگیا کہ اپنے گھروں میں قرار پکڑوں اور پہلے والی جاہلیت اختیار نہ کرو ۔۔۔