Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

ے ساتھ تھے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص نکاح کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ نکاح کرلے، اس لیے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرم گاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے، اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے۔‘‘
(بخاری ، مسلم)
باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اﷲ اپنے فضل سے انھیں بے نیاز کردے گا، اور اﷲ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔‘‘ (النور) مطلب یہ ہے کہ جو تم میں مجرد ہیں خواہ عورت، خواہ مرد، خواہ بیوہ، خواہ ناکتحذا، ان کا نکاح کر دو۔ لفظ ایا میں سب شامل ہیں، اور رسول کریم

MushtaqAhmed
 

اسلام میں نکاح کو ایک عظیم عبادت کی حیثیت حاصل ہے، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نکاح سنتِ رسول ﷺ بھی ہے اور توالد و تناسل نیز نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ بھی۔ انسانی طبیعت میں جو جنسی تقاضا و میلان فطری طور پر رکھا گیا ہے، اسے پورا کرنے کا واحد ذریعہ شریعت کی رُو سے نکاح ہی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے، تو اس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے۔ پس! اسے باقی نصف دین کے متعلق خدا سے ڈرنا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘ (الترغیب)
حضرت علقمہؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا، انہوں نے کہا: ہم حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے

MushtaqAhmed
 

کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فور اََصاف کر لینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے۔اس گمان میں قطعی نہیں رہنا چاہیے کہ اولا دادا کرے گی۔ جائیداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی پر تہمت لگائی ہے، کسی کو پریشان کیا ہے ، کسی کی غیبت کی ہے، کسی کی دل آزاری کی ہے،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معافی تلافی کر لینی چاہئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے اور حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی کماحقہ توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
************

MushtaqAhmed
 

اس سے حق معاف کروائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف تو بہ واستغفار کے لیے رجوع کریں۔
لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں ہمیں ہمیشہ اپنے معاملات کا جائزہ لیتے رہنا ۔ہمیں ہمیشہ الرٹ رہنا چاہئے کہ کہیں جانے یا انجانے ہماری طرف سے حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کمی تو نہیں ہو رہی ہے؟ہم کسی کا حق تو نہیں مار رہے ہیں؟ کسی کا قرض لیکر اسے بھولنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں ؟ ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے۔ خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ، اگر کوئی حق کسی کا

MushtaqAhmed
 

غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ، والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آسائش (آرام) ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں۔ جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جیسے نماز ، روزہ، زکوۃ اور حج کی ادائیگی میں کو تاہی ، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادے گا (انشاء اللہ )۔ لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد ( بندوں کے حقوق ) سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، یاکسی شخص کو کوئی تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، کسی کی زمین جائداد پر ناجائز قبضہ کیاتو قرآن وحدیث کی روشنی میں اکثر علما وفقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے ، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق

MushtaqAhmed
 

پابند ہیں ) مگر وہ معاملات زندگی میں کھوئے ہیں ، اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ۔اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو باقاعد ہ دھیان نہیں دیتے ( یعنی نماز روزے وغیر ہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے) لیکن اخلاق وکردار کے اچھے ، معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بھرے ہوتےہیں۔ جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہو گی۔
حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر ذات و نسل ، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ،اگر ہم اپنے عزیزوں ، دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں ، غلام اگر مالک

MushtaqAhmed
 

دیے جائیں گے۔پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا۔‘‘
مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضروری ہے۔ ان میں کوتاہی سے ہماری عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقوق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں ( یعنی نماز ، روزے کے پابند ہیں ) مگر وہ معاملات زندگی میں کھوئے ہیں ، اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ۔اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو باقاعد ہ دھیان نہیں دیتے ( یعنی نماز روزے

MushtaqAhmed
 

پوچھا ، ’’تم جانتے ہو ، مفلس کون ہے ؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: ’’اللہ کے رسول ! مفلس وہ شخص ہے، جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو۔‘‘ آپ نے فرمایا،’’ نہیں ! بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہو گا جو قیامت کے دن بارگاہ الہٰی میں حاضر ہوگا، دُنیا میں وہ نماز پڑھتارہاہو گا، روزے رکھتار ہا ہو گا، زکوۃ ادا کرتارہا ہو گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا پیٹا ہو گا، تو یہ سب مظلومین اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد) دائر کریں گے۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی ، یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گے ، تو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے

MushtaqAhmed
 

بندے کے جو حقوق ہیں ، اُن کی ادائیگی کا نام ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ دونوں حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے، کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیوں نہیں رکھتے؟
جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز ، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے باوجو درحمت و مغفرت الٰہی سے محرومی ہمارامقدر بن جائے۔ اس ایک حدیث شاہد ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا ، ’’تم

MushtaqAhmed
 

اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا، نماز پڑھنا، روز درکھنا، حج وزکوۃ ادا کرناوغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے ، وہ کسی باشعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے۔
حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کر دہ دوسرے بندے کے جو حقوق

MushtaqAhmed
 

گدھے اور گھوڑے میں بحث چل رہی تھی گھوڑا کہہ رہا تھا آسمان نیلا ہے جبکہ گدھے کا کہنا تھا آسمان کالا ہے دونوں اپنی جگہ پر اٹل تھے فیصلہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کے پاس چلا گیا شیر نے گھوڑے کو سزا سنا دی گھوڑے نے کہا بادشاہ سلامت آپ جانتے ہیں میں صحیح ہوں بادشاہ نے کہا تمہیں سزا اس بات کی نہیں دی بلکہ سزا اس بات کی دی گئی ہے کہ تم نے گدھے سے بحث کی۔

MushtaqAhmed
 

سب سے پریشان کن بیل یہی ثابت ہوئی، کوئی مہربان چوزے کا گلا چھوڑنے پہ ہی نہیں آتا تھا، جب تک دروازہ نہیں دیکھیں گے تب تک چوں چوں چوں چلتی رہے گی۔ وہ بیل جلدی نکلوا دی گئی۔ اِس کے بعد اُسی ’ٹِنگ ٹانگ‘ کا ایک مہذب سا نعم البدل لگوایا گیا جو آج تک چل رہا ہے۔
میں یہاں جس فلیٹ پہ رہتا ہوں اس کی گھنٹی پہلے دن فارغ کر دی تھی۔ نئے لوگ بہت کم اتنا اوپر آتے ہیں، پرانے آنے والے فون پر پوچھ لیتے ہیں پہلے ہی، باقی اگر کوئی آتا ہے اور فقیر نیند میں ہو تو کم از کم گھنٹی کی آواز پہ آنکھ نہیں کھولنا پڑتی، اس سے بڑی نعمت خدا کوئی دے سکتا ہے؟
(پوری ہوگئی)

MushtaqAhmed
 

ہمارے گھر غالباً ستاسی اٹھاسی میں گھنٹی لگی تھی، اس کی آواز ’ٹِنگ ٹانگ‘ تھی۔ ابا نے شاید اُسی ٹرررر والی کرختگی سے بچنے کے لیے نسبتاً مہذب آواز کی گھنٹی لگوائی ہو گی لیکن، آواز اس کی زیادہ تھی اور لگی بھی ڈیوڑھی میں ہوئی تھی اور دروازے پہ آنے والے شاید میوزک خود بھی انجوائے کرنا چاہتے ہوں گے، اب جو اسے بجاتا تھا تو کم از کم تین بار ضرور بجاتا، اور تین کا نمبر کم از کم ہے، دس مرتبہ بجانے والے مہربان آج تک موجود ہیں، فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پولیس ہمیں اٹھانے آئی ہے یا وہ کسی چھاپے سے پناہ مانگنے کے لیے گھنٹی پیٹ رہے ہیں۔
وہ خراب ہوئی تو چوں چوں چوں چوں والی گھنٹی لگوائی مگر سب سے

MushtaqAhmed
 

ہمیشہ چونکہ مجھ جیسے ہوتے اس لیے دستک کے ساتھ ایک ’اوئے‘ کی آواز آتی، انہیں پتہ ہوتا تھا میں دروازے کے ساتھ والی بیٹھک میں ہوں گا اس لیے ہلکی سی ’اوئے‘ دراصل کنفرمیشن سائن ہوتا تھا کہ بھائی تُو خود باہر آ، ابا اماں کے سامنے پیش ہونے والا حلیہ نہیں ہے ہمارا۔فقیر تک مہذب ہوا کرتے تھے یار، دروازے پہ رکتے، اونچی ایک آواز لگاتے، پانچ منٹ دیکھتے، کوئی باہر نہ آتا تو بڑھ جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لیکن دروازے پہ آواز لگانے والا خالی بھی تو نہیں جاتا تھا۔
خیر، اب یقین کرنا مشکل ہو گا آپ لوگوں کے لیے مگر پہلی مرتبہ پیچھے پڑ کے بھیک مانگنے والے فقیر بھی میں نے کوئی تیرہ چودہ برس کی عمر میں دیکھے تھے۔ خدا رحم کرے، نوے کی دہائی تھی، راوی بے چینی لکھنا شروع ہو چکے تھے

MushtaqAhmed
 

باہر سے جائز سمجھی جاتی، اور اس بندے کو بھی پورا محلہ جانتا ہوتا تھا کہ یہ جو صاحب آواز لگاتے ہیں یہ فلاں صاحب کے قریبی دوست ہیں، اور وہ آواز بھی مختصر ہوا کرتی تھی۔
دروازے پہ مختصر آواز، یہ بھی ایک آرٹ تھا، دیکھیے ذرا ۔۔۔
ڈاکٹر صاحااااااب، ایسی طویل آواز دادا کے شاگرد یا ان کے قریبی دوستوں کی ہوا کرتی۔
جمال ۔۔۔ یہ آواز دستک کے بعد حسن انکل کی ہوتی جو ابو کے بیسٹ فرینڈ ہیں۔
نئے آنے والے ایک دو بار دستک کے بعد دروازے پہ منہ گُھسا کے کہتے، ’کوئی ہے۔‘
میرے دوست ہمیشہ چونک

MushtaqAhmed
 

ب سے چھوٹا بچہ باہر جا کے جھانکتا اور مہمان کی آمد کا سلسلہ ایک عجیب نحوست سے جڑ جاتا۔
کہاں دستک، اب سوچیے، ٹک ٹک ٹک، اور کہاں یہ مشینی قسم کی چیختی ہوئی آواز، تو شاید وہ دن تھے جب مہمانوں کا آنا زحمت میں بدلنا شروع ہوا ہو گا۔یہ بڑی باریک بات ہے، لکھ رہا ہوں تو بہت کچھ یاد آ رہا ہے، دستک کی آواز ہی کئی دفعہ طے کر دیتی تھی کہ آیا کون ہو گا، ننانوے فیصد وہ آئیڈیا ٹھیک ہوا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ آنے والا باہر سے آواز بھی دے دیا کرتا تھا، سہولت اس سے یہ ہوتی کہ مطلوبہ بندہ ہی دروازے پہ جایا کرتا، لیکن شرفا میں یہ چلن نہیں تھا، صرف بے تکلف دوست یا فیملی فرینڈز کی آواز باہر سے جائز

MushtaqAhmed
 

چونکہ وہ زنجیر سے لٹکتا تھا، جس کا جہاں ہاتھ پڑا اس نے وہیں بجا کے دستک دے دی، اور نیچے وہ نئی کنڈی کا نشان۔ ٹک ٹک ٹک، جو کئی برس کی متواتر کھٹکھٹاہٹ کے بعد نمودار ہوتا۔
میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے ایک کرخت آواز کی بیل پاکستان میں آئی تھی۔ ٹرررررر، باہر آنے والا دروازے پہ لگا بٹن دباتا اور اندر پورے گھر میں بھونچال آ جاتا۔ دستک کا مزہ یہ تھا کہ آواز کسی کو آئی، کسی کو نہیں آئی، جسے آئی اس نے بڑھ کے دیکھ لیا، یہ آواز؟ یہ تو صور تھا اور مسلسل پھونکا جاتا تھا۔ سب ہڑبڑا جاتے اور ایک دوسرے کو آواز دیتے کہ بھئی دیکھو کون ہے، سب سے

MushtaqAhmed
 

ان دنوں اخبار والے سائیکل پہ آیا کرتے اور اخبار دروازے کے نیچے سِرکانے کے بعد باقاعدہ ایک تھاپ دروازے پہ دیا کرتے کہ بھئی جاگتے ہیں تو اٹھا لیجے۔
ڈور بیل کا منحوس رواج ابھی نہیں ہوا تھا۔ گھروں میں کمرے ہوتے، ان کے سامنے برآمدہ، اس کے بعد صحن، پھر ایک ڈیوڑھی اور آخر میں ایک مناسب سا لکڑی کا دروازہ۔
دروزے پر دستک دینے کے لیے اسی پہ لگی کنڈی استعمال کی جاتی تھی، بیس تیس سال بعد اس کُنڈی کا ایک الگ ہی کیریکٹر لکڑی پہ نقش ہوا کرتا تھا۔ کچھ دروازے ایسے بھی تھے جن سے ہوڑا اور زنجیر نکلوا کے بعد ان پہ کنڈیاں لگائی گئی تھیں، تو ان پہ عمر کے دوہرے ثبوت ہوا کرتے۔ اوپری حصے پہ آدھے دائرے کی صورت میں ہوڑے کا نشان ہوا کرتا، چونکہ

MushtaqAhmed
 

میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے ایک کرخت آواز کی بیل پاکستان میں آئی تھی۔ ٹررررر، باہر آنے والا دروازے پہ لگا بٹن دباتا اور اندر پورے گھر میں بھونچال آ جاتا۔ دستک کا مزہ یہ تھا کہ آواز کسی کو آئی، کسی کو نہیں آئی، جسے آئی اس نے بڑھ کے دیکھ لیا۔
سردیاں ہوتی تھیں، دھوپ کے آنے میں تھوڑی دیر ہوا کرتی اور اس وقت پہلی دستک اخبار والے کی سنائی دیتی تھی۔

MushtaqAhmed
 

مخلوق کی ، یہ انسان دشمن نظام اچھی طرح سمجھتا جانتا ہے کہ انسان سوال کریں گے ۔ ان کے سوالات کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ حاکم طبقات کو اطاعت گزار پسند ہیں ۔ شب و روز میں تمیز نہ کرسکنے والے ۔ طاقت کے سامنے جھکنے والے ۔ انسانوں کا سماج تو آگہی تحقیق اور تعمیر پر بضد ہوتا ہے”یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔ معاف کیجئے گا ہمارے حاکم طبقات کی زندگی اسی نظام کی بدولت ہے ہماری درسگاہوں کے نصاب اس نظام کو غلام فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ شاہ لطیف رح کہتے تھے”سرمدی نغمہ اپنے خون سے غسل لے کر الاپا جاتا ہے”ہمارا نصاب اور نظام سرمدی نغمے کے اول نمبر دشمن ہیں۔
(پوری ہوگئی)