ہا ہے؟؟
نہیں جناب میں یہ جرأت کیسے کرسکتا ہوں۔ میرا مقصد یقین دہانی کرانا تھا لیکن جب سے آپ نے گارنٹی کی اصطلاح استعمال کی ہے ہر کوئی اسے دوہرا رہا ہے ۔ اور میں بھی ان میں شامل ہوں ۔
گِدھ بولا پھر تو ٹھیک ہے۔ میراے خیال میں بگلے کا علاج تم کرتے ہو ۔ وہ کہتا لوگوں کو سمجھنا چاہیے اور تم انہیں سمجھانے کا عزمِ جوان اپنے اندر رکھتے ہو۔ بہت خوب، اب میں تھک گیا ہوں ۔ آگے کی منصوبہ بندی کل کرتے ہیں ۔ شب بخیر۔
✅✅✅
بولا لیکن سارےنخرے اٹھانے کے باوجود اب بگلا کہہ رہا ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو بھگوان نہ کہے بلکہ اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دے کہ لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں؟
گِدھ نے نادانستہ طوطے کے من کی بات کہہ دی۔ وہ فوراً بولا جناب عالی وہی تو میں کہہ رہا تھا کہ عوام اپنے دماغ سے کچھ نہیں سوچتے بلکہ ہم جیسے لوگ انہیں جو سجھاتے ہیں وہ اسی کو دوہراتے رہتے ہیں۔ آپ مجھے اپنا اقبال بنا لیجیے میں آپ کا اقبال بلند کرنے کی گارنٹی لیتا ہوں۔
گدھ چونک کر بولا گارنٹی! میری نقل اتار رہا ہے یا مذاق اڑا رہا ہے؟؟
نہیں
ہے؟
بھیااس میں ہمارے شاہ اور نڈا کی غلطی ہے۔ ان دس سالوں میں ہم وادی کے حوالے سے ایک بھی آدمی تیار نہیں کرسکے۔
لیکن آپ نے اپنے خاص آدمی منوج سنہا کو وہاں کا لیفٹننٹ گورنر بنا کر ساری اختیارات دے دئیے ۔ اس نے کیا کیا؟
ارے بھائی وہ بھی اس محاذ پر پوری طرح ناکام رہا ۔ پچھلے قومی انتخاب میں ہمیں وادی کے اندر نہ صرف کوئی امیدوار نہیں ملا بلکہ کوئی ایسا فردبھی میسر نہیں آیاجس کی حمایت کی جاسکے۔
وہ بیچارہ بھی کیا کرے؟ کشمیر کے لوگ نہ کسی کے جھانسے میں آتے ہیں اور نہ خوف کھاتے ہیں مگر پھر ایک بدعنوان کو آگے بڑھابا ٹھیک نہیں لگتا ۔
ارے میرے طوطے تم کس زمانے میں جیتے ہو۔ بدعنوانی عام ہوچکی ہے۔ ہم سب کرپٹ ہیں اس لیے اب یہ عیب نہیں بلکہ خوبی ہے۔
طوطا بولا لیکن
کھیل میں بھاگوت کا کردار سمجھ میں نہیں آیا۔
اوہو سمجھتے کیوں نہیں ۔ سنگھ کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہونے والا تھا ۔ اس سے قبل ہم نے اسے خوش کرکے مذکورہ مردم شماری کی حمایت کروالی۔ اب کم از کم کوئی سنگھی تو اس کے خلاف راگ نہیں الاپے گا۔
چلو مان لیا مگر پھر پرانے سنگھی رام مادھو کو کشمیر کا نگراں بنا نے کی کیا حکمت ہے؟ جبکہ اس پر سابق گورنر ستیہ پال ملک کے ذریعہ بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے ہیں اور وہ مشکوک کردار کا حامل ہے۔
جی ہاں مجھے معلوم ہے۔ اس بیوقوف نے 2019؍ انتخاب سے قبل صرف220نشستوں کی پیشنگوئی کرکے میرا بلڈ پریشر بڑھا دیا تھا اور اسی لیے میں نے اس کا حقہ پانی بند کردیا تھا ۔
جی ہاں مجھے معلوم ہے ۔ اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں کہ اس پر یہ مہربانی کیوں ہورہی
نہیں آتا تھا ۔
ارے بھیا ہم نے کیمرے والوں کو سخت ہدایت کردی تھی کہ اس کو بالکل نہ دکھائیں ۔ ہمارے ساتھ کہیں ناگزیر ہو جائے تو نظر آجائے بس۔
طوطا بولالیکن اب تو الیکشن ختم ہوچکا پانچ سال کے لیے آپ نے جوڑ توڑ کر سرکار بناہی لی ہے اس لیے اس کے نخرے اٹھانے سے کیا حاصل؟
ارے بھیا وہ جو ذات پات کی مردم شماری ہے نا اس کے لیے یہ سودے بازی کرنی پڑی۔
طوطے نے پوچھا سرکار ان دونوں کےدرمیان کا تعلق سمجھ میں نہیں آیا ۔
اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے؟ تم تو جانتے ہی ہو کہ سماجی مساوات کی خاطر مردم شماری سنگھ پریوار کے لیے سمِ قاتل ہے لیکن اس کی مخالفت کا مطلب سیاسی خودکشی بھی ہے اس لیے بھاگوت کو چنے کے جھاڑ پر چڑھا کر خوش کرنا مجبوری بن گیا۔
طوطے نے پوچھا لیکن اس کھیل
کرکے انتقام لینے لگا ہے ۔
طوطے نے پھر دُم ہلا کر کہا جی ہاں آج کل تو اس چونچ مجھ سے بھی زیادہ تیز ہوگئی ہے۔
گدھ نے کہا ایسی تمہاری زبان سے پھول کھلتے ہیں اور وہ کم بخت تو آگ اگلتا ہے۔ ہم سے کہتا ہے کہ ہمارے اندر رعونت نہیں ہونی چاہیے ۔ گھمنڈ بہت بری چیز ہے حالانکہ وہ خود سرتاپا اس میں ڈوبا ہوا ہے۔
طوطا بولا لگتا ہے وہ آپ کی مجبوری کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔
جی اس کا علاج کرنا پڑے گا مگر ذرا سنبھال کر۔ فی الحال تو ہمیں کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے ۔
اچھا یہ بتاو کہ اس کی سیکیورٹی بڑھا دینا کون سا علاج ہے ۔ اس سے یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا ؟
ارے بھیا اس سے انا کو مطمئن کیا جائے گا جیسے پران پرتشٹھان میں اپنے بغل میں بیٹھا کر کیا گیا تھا۔
طوطے نے کہا لیکن وہ وہاں موجود ہونے کے باوجود چند تصاویر کے سوا کہیں نظر ہی نہیں آت
ہیں مگر یہ سنگھ کی ضرورت نہیں والا معاملہ ذرا مختلف ہوگیا اس لیے کہ سویم سیوک تو ہم پر جان نچھاور کرتے ہیں۔
طوطا بولا تب تو بگلا بھاگوت کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ بلوغیت کا دعویٰ غلط ہے ورنہ کوئی بالغ اور سمجھدار انسان اپنے پیروں پر کلہاڑی کیسے مار سکتا ہے؟
جی ہاں وہ تو ہےلیکن اگر یہ بات کسی نجی محفل میں ہوئی ہوتی تو اسے سنبھالا جاسکتا تھا لیکن اس نے انڈین ایکسپریس سے کہہ دی جسے ہمارے مخالفین خوردبین لگا کر پڑھتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا وہ لے اڑے۔
طوطے نے تائید کی اور بولا جی ہاں موقع بھی غلط تھا الیکشن کے بعد کہتا تو بگلا بھاگوت کیا کرلیتا مگر یہ تیر تو بالکل دورانِ مہم نکلا اور اس کے قلب میں پیوست ہوگیا۔
جی ہاں اور بگلا بھگت کو دیکھو اس وقت تو کچھ نہیں بولا مگر جب ہم لوگ دو سو چالیس پر آگئے تو اب کھلے عام طنز کرکے انتقام لینے ل
پڑا۔
اچھا ۔ اس احمق نے ایسی کون سی غلطی کردی تھی ؟
ارے بھیا اس بیچارے کا بھی کیا قصور ، ہم سبھی لوگ چارسو پار کے خمار میں تھے اس لیے نڈا نے کہہ دیا کہ اب ہمیں سنگھ پریوار کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم بالغ ہوگئے ہیں۔
طوطے نے کہا نڈا نے اپنی بلوغیت کا ذکر کرکے بتا دیا کہ دودھ کے دانت ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اور شاید کبھی نہ ٹوٹیں ۔
جی اس کی زبان درازی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا اور اب بھی اسی قرض کا سود ادا کررہے ہیں۔
طوطا بولا لیکن کہہ دیا تو کہہ دیا ۔ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنا تو ہمارے پریوار کا شعار رہا ہے ۔ یہ وہی تو زمانہ تھا جب خود آپ نے منگل سوتر، بھینس اور ٹونٹی وغیرہ کی بحث چھیڑ دی تھی ۔
جی ہاں مگر وہ باتیں تو ان مسلمانوں کے خلاف تھیں جو ہمیں ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کو برا بھلا کہنے پر خوش ہوکر ہمارے اندھے بھگت ہمیں ووٹ دیتے ہیں م
ہوگیا ؟ میں تو فلک کا بادشاہ ہوں ۔
یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ تم اپنے آپ کو غیر طبعی یا اوتار سمجھنے کے لیے آزاد ہو مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ارے تم تو اس بگلا بھاگوت کی زبان تو نہیں بول رہے ہو جس نے مجھ پر طنز کیا تھا کہ کچھ لوگ بھگوان بننے کی کوشش کررہے ہیں ؟
جی نہیں میں اس کی زبان کیوں بولوں بلکہ خود آپ ہی اس کا بھاو بڑھا رہے ہو۔
ہم اس کا بھاو بڑھا رہے ہیں ۔ ارے ہمارے بس میں ہو تو اس بحر ہند میں غرق کردیں ۔ نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟
اچھا اگر ایسی بات ہے تو اس کی سیکیورٹی کو زیڈ پلس سے بڑھا کر اپنے برابر کیوں کردی ؟
یار تم نے بڑ ا نازک سوال کردیا ۔ وہ دراصل انتخابی مہم کے دوران ہمارے نڈا نے پھڈا کر دیا تھا اس کا کفارہ ادا کرنا پڑا۔
اچھا
گدھ کے پنجوں میں جکڑا ہوا طوطا بولا ایک بات بتاوں بھیا ۔ میر ا زندہ رہنا آپ کے حق میں میرے مرنے سے بہتر ہے۔
بھوکے گِدھ کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا ۔ اس نے سوال کیا وہ کیسے؟ جلدی بتاو ۔
طوطے نے کہا ’ایسی بھی کیا جلدی ہے؟‘ دھیرج رکھو ابھی بتاتا ہوں۔
دیکھو بھیا میری بھوک بہت بڑھ گئی ہے اب صبر کرنا مشکل ہورہا ہے۔
طوطا بولا تم مجھے اپنا اقبال بنالو یقین رکھو میں تمہاری شبیہ بدل دوں گا ۔
میری شبیہ کو کیا ہوگیا
ے پیسے بڑھا سکتے ہم۔
جیرا رکھی کو سمجھانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ بابو کے قاتل کا باپ رات پیسے دے گیا، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے ہم نے بیٹے کے قاتل کو اللہ رسوؐل کے نام پہ معاف کیا۔ جیرا اور رکھی صبح عدالت میں بیان دینے کے بعد میڈیا کو بتا رہے تھے۔
✅✅✅
میں ہیں، چار دن سے زیادہ تیری خبر نہیں چلائیں گے۔ جس طرح باسی سالن کی اہمیت نہیں ہوتی اور اسے پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح دو دن پرانی خبر بھی اہمیت نہیں رکھتی ان کے لیئے، پرانے مسئلے چھوڑ کر نیا مصالحہ ڈھونڈ لاتے ہیں، چار دن بعد تو اور تیرا بیٹا کسی کو یاد بھی نہیں رہنے،بہتر ہے موقع سے فائدہ اٹھا، ورنہ بیٹے سے تو گئے ہیں پیسوں سے بھی جائیں گے، تیرے بیٹے کے بدلے اڑسٹھ لاکھ پچاس ہزار مل رہے، یہ چھوٹی رقم نہیں ہے، اتنے پیسے تو ہماری سات نسلیں نہیں کما سکتیں، تھوڑی سی حجت حیل کر کے
کروں گی، پھانسی چڑھاؤں گی، رکھی کا رو رو کے برا حال تھا۔
شور ڈالنے تک ٹھیک ہے جتنا ڈال سکتی ڈال لے لیکن معاملہ پیسے لیکر ہی ختم ہونا، یہ بات سمجھالے خود کو۔
تجھے شرم نہیں آتی بیٹے کی لاش کا سودا کرتے، رکھی تڑپ اٹھی۔زیادہ بک بک نہ کر۔ شکر کر پیسے مل رہے ہیں نہ ملیں، تو کیا کر لے گی، وہ پیسے والے لوگ ہیں جتنے پیسے ہمیں دے رہے ہیں اس سے آدھے پولیس والوں کو دے کر معاملہ دبا لیں گے اور یہ جو ٹی وی والوں کے پیچھے لگی ہے کہ وہ تجھے انصاف دلائیں گے، تو یاد رکھ یہ ہمارے لیئے نہیں اپنے لیئے کام کرتے ہیں۔ سب اپنی روٹی کمانے کے چکر میں ہیں، چا
نکلا تھا، کہ ایک بگڑے رئیس زادے نے اسے اپنی امارت کے نیچے روند ڈالا، رپورٹر چیخ چیخ کر ٹی وی پہ بتا رہی تھی۔
بابو کی لاش گھر آئی تو اس کے رشتے داروں سے زیادہ ٹی وی،اخبار کے رپورٹر آئے، خوب چرچا ہوا۔
مجرم موقع پر پکڑا گیا، مجرم کو ہر صورت سزا ملنی چاہیئے، مجرم کے والدین جیرے اور رکھی کے دکھ میں برابر کے شریک۔ انھوں نے ہر قسم کے تعاون کی یقین دیانی کرائی، مجرم کے والدین دیت دینے کو تیار، بااثر مجرموں کو دیت کے نام پر کسی صورت بچنے نہیں دیں گے، ہر صورت سزا دلوا کر رہیں گے۔ سماجی تنظیموں کا بیان ، ہر ٹی وی چینل پہ ایک ہی خبر تھی۔
میں اس امیر زادے کو معاف نہیں کرو
جماعتیں پاس کر ہی لی تھیں۔
رکھی بابو سے نوکری کرنے کا کہتی اور بابو اس موضوع سے جان چھڑاتا، اس کے سکول کا سیکورٹی گارڈ ایم اے پاس تھا، جس کی تنخواہ پچیس ہزار تھی۔ جس سے پانچ ہزار ہر ماہ کمپنی والے اپنی کمیشن رکھ لیتے، بابو کی تعلیم تو نہ ہونے کے برابر تھی، اسے کہاں نوکری ملتی۔
آج پھر لڑ جھگڑ کر رکھی نے بابو کو نوکری ڈھونڈنے بھیجا، وہ بکتا جھکتا گھر سے نکل گیا، کچھ ہی دور گیا تھا کہ تیز رفتار گاڑی سے کچلا گیا، گاڑی اوور سپیڈ تھی اور بابو خیالوں میں مگن۔ سو دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔
لیکن اسے قسمت کہیئے کہ ادھر سے کسی چینل کا رپورٹر گذررہا تھا، اسے ایک بڑی خبر مل گئی۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی بوڑھے ماں باپ کی امیدوں کا واحد مرکز نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا
تا بیٹا سکول جاتا۔ بیوی کالی رنگت پہ گہری لال سرخی لگا کر ڈھولک پکڑے کام پہ نکل جاتی۔ رکھی اور اس کی ساتھی خیراں محلے محلے جاتیں، جہاں پتہ لگتا شادی یا کاکا ہوا اس گھر کی دہلیز پکڑ لیتیں، گھر کے بند دروزے اکثر ان پر کم ہی کھلتے وہ گلی میں ہی ڈھولک بجا اور گا گا کر بدھائیاں مانگتی رہتیں، اکثر جھڑکیاں اور گالیاں بھی کھاتیں لیکن ڈھیٹ بنی رہتیں، ویلیں لے کر ہی اٹھتیں۔ اور پھر جا کر اپنے خصموں کو بھیج دیتیں، رات کو جیرا ایک تھیٹر میں کام کرتا۔ کبھی کبھی کوئی نئی جگت بھی لگا لیتا، جتنی فحش جگت لگاتا اتنی زیادہ داد ملتی، لیکن پیٹ داد سے نہیں روٹی سے بھرتا ہے، سارے دن کی خواری کے بعد مشکل سے دال روٹی نصیب ہوتی۔
رکھی اور جیرا بوڑھے ہورہے تھے اور ان کی امیدیں بیٹے کی صورت جوان، بابو نے فیل ہو ہو کر بارہ جماعتیں پاس
دونوں چیزیں نہیں، ہم جیسے ماڑے لوگ چھوٹے کاموں کے لیئے بنے ہیں۔ کسی دفتر میں چائے بنادی، فائلیں پکڑادیں یا پھر بلدیہ میں جمعدار بھرتی ہوگئے اور اب تو جمعداری کی نوکری کے لیئے بھی تگڑی رشوت چلتی ہے، نوکری نہ ملی تو ایویں کڑھتا رہے گا ساری عمر۔ پڑھ گیا تو زیادہ دماغ خراب ہوگا اس کا، باپ دادا کے کام سے نفرت کرے گا، دوکان ڈالنے کے ہمارے پاس پیسے نہیں۔ پیچھے کیا رہ جائے گا کرنے کو نشہ یا خود کشی،بہتر ہے عزت کے ساتھ اپنا ہی کام کرے۔
جیرے نے تو میراثی کا میراثی ہی رہنا ہے، میرا بابو چار بہنوں کا اکلوتا بھائی خیری صلا کیوں کرنے لگا نشہ یا خود کشی، منہ اچھا نہیں تو بات ہی اچھی کر لیا کر، لیکن تو نے قسم کھائی ہے اپنے منہ جیسی ہی بات کرنی ہے۔
جیرے میراثی کا اکلوتا بی
جیرے میراثی کا بیٹا مرا تھا لیکن وہ دل میں خوش تھا۔ عام حالات میں اگر بیٹا مرتا تو اسے شدید دکھ ہوتا کہ وہ اس کی زندگی کی واحد کمائی تھا جو اس کے پاس تھی، لیکن جس طرح بابو ایک امیرزادے کی تیز رفتار بے قابو گاڑی سے کچلا گیا تھا اور ٹی وی پہ اس کی بات ہورہی تھی، جیرا سمجھ گیا تھا اب زندگی کی ڈگر بدلنے والی ہے، اس کا بیٹا مرا تھا لیکن وہ اور باقی گھر والے بہت دیر تک بہتر زندگی جینے والے ہیں۔ بیٹے کے مرنے سے اس کے بھاگ جاگ گئے تھے، ورنہ جب سے بابو پیدا ہوا تھا گھر میں کل کل ہی ختم نہیں ہوتی تھی، اس کی بیوی رکھی کہتی بیٹے کو پڑھا لکھا کر بابو بناؤں گی اور جیرا کہتا میں اسے اپنے کام میں لگاؤں گا، پڑھ کے بھی اسے نوکری نہیں ملنی، مل بھی گئی تو افسر نہیں لگ سکتا، بڑا افسر لگنے کے لیئے بڑے تعلقات اور پیسہ چاہیئے ہوتا ہے اور ہم غریبوں کے پاس یہ دونو
اُتر رہے ہیں یہ سب کچھ بہت جلد باضابطہ طور پر سامنے آجائے گا۔ ہاں البتہ اب ایک ہوگا اور بہت جلد ہوگا کہ ملک میں سیاست کا نقشہ بدل رہا ہے۔ زبان کا استعمال بہتر ہونے لگے گا۔ فضول اور بے بنیاد دعویٰ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور اسی دوا کو اپنا اثر دکھانا ہے جو تواضع کے وقت دی گئی ہے۔ مستقبل میں جب بھی جلسہ ہوا، اس میں زبان بہت بہتر استعمال ہوگی اور امکان یہی ہے کہ اب مزید کسی تواضع کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ سب کی پگڑیوں کا سائز معلوم ہوچکا ہے۔
✅✅✅
ملتی ہے۔ ایسی خوراک کہ تادیر اثر رہتا ہے زبان درازی کی بیماری کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو‘ بس ایک حد دو خوراکیں کافی ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟ کچھ پتا نہیں تاہم یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ یہ کوئی کاغذی تفتیش نہیں ہورہی‘ یوں سمجھ لیجیے کہ سر تو کئی سال پہلے منڈھوایا تھا اولے اب آکر پڑے ہیں۔ سیاسی مصلحت سیاسی رشوت کا دوسرا نام ہے آج کل یہ کسی حد تک ناپید ہے۔ جھوٹ، فریب، فراڈ، حرص، سب کچھ باہر آرہا ہے۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ سامنے شمشیر برہنہ ہے؛ تلوار کی چمک ہی ایسی ہے کہ سارے نشے اُتر رہے ہیں یہ سب کچھ بہت
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain