Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

احتساب ہوگا‘ پھر کیا ہوا؟ مسلم لیگ کا ایک دھڑا الگ ہوا اور یہی دھڑا بعد میں حکومت میں آگیا‘ مشرف گئے تو یہ دھڑا بھی غائب ہوگیا لوگ جہاں سے آئے تھے وہیں واپس لوٹ گئے۔
اس بار ڈپٹی کمشنر کچھ ماضی سے بہت مختلف ہے اور لہجے کا دھیمہ پن رکھتا ہے مگر ہائی پوٹینسی ڈوز دیتا ہے اور واقعتا سخت مزاج کا ہے‘ اس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے‘ کوئی سیاسی سفارش نہیں مان رہا۔ ڈپٹی کمشنر نے تو اپنے ہی قبیلہ کے ایک اہم رکن کو پکڑ رکھا ہے، ایک نہیں پورے دو سو افراد اس وقت پوچھ گچھ کے مرحلے سے گزرے ہیں۔ اُف کس قدر یہ سخت تفتیش ہے کہ خدا پناہ‘ جو نکل رہا ہے
اپنا آدھا وزن تفتیشی کے پاس ہی چھوڑ کر نکل رہا ہے‘ دور سے ہی پتا چلتا ہے اور صاف صاف پتا چلتا ہے کہ بھائی صاحب تفتیش بھگتا کر آئے ہیں۔ تفتیش کے دوران بڑی تگڑی دوا کی خوراک ملتی

MushtaqAhmed
 

کے چند لوگ ہیں۔ اکثریت ایسی ہے کہ اپنے پائوں ہیں اور نہ سر نہ دھڑ‘ جیسا کسی نے بنا دیا صبر شکر کرکے اسی ڈھانچے کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا سیاست دان اصل میں خوش ہی تب ہوتا ہے جب وہ کسی کلے کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ ایوب خان ایبڈو لے کر آئے تھے اور اس وقت یہ اعلان ہوا تھا کہ کنے کنے جانا اے بلو دے گھر، ٹکٹ کٹائو لائن بنائو۔ یہ اعلان ہوتے ہی بہت بڑی تعداد اس گاڑی پر سوار ہوگئی جو انہیں سیدھا اسمبلی میں لے گئی‘ جو سوار نہیں ہوئے ان کا حشر دنیا نے دیکھا۔ ان کی سیاست تباہ ہوگئی اور کاروبار برباد اس کے بعد ضیاء صاحب آگئے۔ احتساب کا نعرہ لگایا اور سیاست دانوں کو سات سات سال تک نااہل قرار دے دیا لیکن جب سات سال کے بعد انتخابات کرائے تو اکثریت پھر اسمبلی میں آگئی یہی کچھ مشرف صاحب نے کیا‘ کہا کہ احت

MushtaqAhmed
 

۔ چلیے ہمیں کیا؟ ’’جناں کھادیاں گاجراں ٹڈ اینا دے پیڑ‘‘۔
خیر ہمیں تو ہمدردی ہے ہر اس شخص کے ساتھ جس کی بھی پگڑی کا سائز معلوم کیا گیا ہے اور ہاں جب کسی کی پگڑی کا سائز اسلام آباد میں معلوم کیا جاتا ہے تو یہ سودا بڑا ہی مہنگا ہوتا ہے۔ یہ سودا اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ نئی دنیا آباد ہوتی ہے، نئے نقوش ابھرتے ہیں، کسی کی زندگی بدل جاتی اور کسی کی سیاست کا انداز بدل جاتا ہے، کوئی دھیما لہجہ اختیار کرلیتا ہے اور کوئی سیاست ہی سے کنارا کش ہوجاتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار تواضع پر ہوتا ہے اس کا اسکیل کیا تھا؟ ریکٹر اسکیل پر اس تواضع کی شدت کیا تھی‘ ہمارے ملک میں کتنے سیاست دان ہیں جو اپنے قد پر کھڑے ہیں۔ گنتی کے

MushtaqAhmed
 

پگڑی باندھتے ہوئے نکلتا اور پوچھنے پر بتاتا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے ’’پگ‘‘ کی لمبائی پوچھی تھی اس لیے کھول کر بتانا پڑا۔ لوگ سمجھتے ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، مگر جو سیانے تھے انہیں معلوم ہوتا تھا کہ چودھری صاحب کی خوب ’’تواضع‘‘ ہوئی ہے۔
کچھ اس سے ملتا جلتا واقعہ اسلام آباد میں ہوا‘ آٹھ ستمبر کو تحریک انصاف کا اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر جلسہ تھا، مقررین خوب گرجے اور برسے، ایک راہنماء نے تو حد ہی کردی؛ کہا کہ لشکر لے کر پنجاب جائیں گے، جیل توڑ کر اپنے لیڈر کو رہا کرائیں گے اور بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن جس نے بھی جلسہ میں سخت زبان استعمال کی، حد سے باہر نکل کر کھیلے، ان سب کی خوب کلاس ہوئی ہے۔ مطلب ایسی کلاس کہ سر کی پگڑی اُتار کر اس ’’پگ‘‘ کا سائز پوچھا گیا ہے۔ اب کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانتا لیکن ہوا یہی کچھ ہے۔ چلیے ہمیں کیا؟ ’’ج

MushtaqAhmed
 

ڈپٹی کمشنر پورے ضلع کا مالک ہوتا ہے۔ انگریز دور میں تو ڈپٹی کمشنر کے اختیارات اور شان ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ فرق آگیا ہے تاہم آج بھی اگر ڈپٹی کمشنر چاہے تو کوئی شہری پر نہیں مار سکتا۔ ایک کہاوت ہے، سچی ہے یا کسی نے گھڑی ہے اس کا تو علم نہیں تاہم یہ کہاوت اکثر سنائی جاتی ہے، کسی زمانے میں ڈپٹی کمشنر صاحب کسی بات پر غصہ میں تھے انہوں نے شہر کے چودھریوں کو بلا بھیجا، جو بھی چودھری ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے بعد اس کے دفتر سے باہر نکلتا وہ اپنی پگڑی باندھتا ہوا نکلتا، مقصد یہ تھا کہ دفتر کے اندر ملاقات کے دوران ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس کی پگڑی اُتار کر اس کی تواضع کی ہوتی تھی۔ جو بھی نکلتا سب پگڑی باندھتے

MushtaqAhmed
 

کیا جائے ۔ لگتا ہے اس لحاظ سے رقص وموسیقی کی مخالفت کرنے والے بھی حق بجانب ہوتے ہیں کہ ان کی نظرمیں رقص وموسیقی کے الگ الگ پہلوہوتے ہیں ، اصل میں قدرت کی پیدا کی ہوئی کوئی بھی چیزبری نہیں ہوتی بلکہ برے لوگوں کے برے مقاصد ان کو برا بنادیتے ہیں ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

MushtaqAhmed
 

؎
ترے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا
مثلاً ہندی اساطیر کامشہوردیوتا ’’شیو‘‘اس وجہ سے نٹ راج اورنٹورلال بھی کہلاتا ہے کہ تانڈو نام کے ایک مشہور رقص کے لیے مشہورہے ۔
مولانا روم کے درویشوں کا رقص بھی ایک مشہور رقص ہے جس میں درویش ایک ہاتھ زمین اوردوسرا ہاتھ آسمان کی طرف کرکے ناچتے ہیں ۔
رقص اورموسیقی قطعی فطری چیزیں ہیں لیکن مسئلہ اس وقت پیداہوجاتا ہے جب ایک اچھی چیز کو برائی کے لیے استعمال کیا جائے

MushtaqAhmed
 

مراطعنہ مرن اے مدعی طرزادا یم بین
تماشا مے کند خلق ومن ہربار می رقصم
ترجمہ۔ مجھے طعنہ مت دو اے مدعی ذرا میری طرز ادا تو دیکھو کہ لوگوں کے درمیان تماشا بن کر ناچ رہا ہوں
منم عثمان ہارونی مرید شیخ منصورم
ملامت می کندخلقے ومن بردار می رقصم
ترجمہ۔۔ میں عثمانی ہارونی اپنے شیخ منصور کامریدہوں ایک دنیا ملامت کررہی ہے لیکن میں ’’دار‘‘ پر ناچ رہا ہوں۔
اس ساری بحث میں باقی تو سب کچھ واضح ہے کہ صوفیانہ کلام ہے اورصوفیانہ اصطلاحات بیان کی گئی ہیں اوروہ بڑے طویل مباحث ہیں لیکن میں یہاں صرف ناچ یارقص کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں یہاں مراد وہ رقص نہیں ہے جسے آج کی دنیا میں عیاشی وفحاشی کاذریعہ بنایاگیا ہے بلکہ یہ وہ رقص ہے جس کاذکر پنجابی کے شاعر بابا بلھے شاہ نے بھی یوں کیا ہے

MushtaqAhmed
 

میری’’رندی‘‘ پر کہ سو پارسائیاں اس پر نچھاورکردیتا ہوں اورکیا تقویٰ ہے میرا کہ میں جبہ ودستار سمیت ناچتا ہوں
تو آں قاتل کہ بہربک تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیرخنجر خونخوارمی رقصم
ترجمہ۔ تو وہ قاتل ہے کہ صرف ایک تماشے کے لیے میرا خون بہاتے ہو اورمیں وہ بسمل ہوں جو خونخوار خنجر تلے ناچتا ہوں
سراپا برسراپائے خودم ازبے خودی قرباں
زگرد مرکزخود صورت پرکار می رقصم
ترجمہ ۔۔ میں بے خودی میں خود اپنے سراپا پر خود قربان ہوتا ہوں اورخود اپنے ’’مرکز‘‘ کے گرد پرکار کی طرح ناچتا ہوں
م

MushtaqAhmed
 

۔تم ہردم نغمہ سرا ہوکر مجھے نچاتے ہو اورمیں ہراس طرز پر ناچوں گا جس پر تم نچاوگے۔
بیاجاناں تماشا کس کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم
ترجمہ ۔ آؤ جاناں اوردیکھو کہ میں عشاق کی بھیڑ میں کس درجہ سامان رسوائی کے ساتھ سربازار ناچتا ہوں
اگرچہ قطرہ شبنم نہ پوئد برسر خارے
منم آں قطرہ شبنم بہ نوک خارمی رقصم
ترجمہ ۔ اس شعر میں نہایت کمال کی تشبیہہ استعمال کی گئی کہ اگرچہ شبنم کاقطرہ کانٹے کی نوک پرٹکتا نہیں لیکن میں وہ قطرہ شبنم ہوں جو کانٹے کی نوک پر ناچتا ہے
خوشاوندی کہ پامائش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم
ترجمہ ۔ شاباش ہے میری

MushtaqAhmed
 

کافی عرصہ پہلے ہم نے اس کالم میں ایک فارسی غزل کا ذکر کیاتھا ، ضرورت یوں پیش آئی تھی کہ اس وقت ایک بڑے کالم نگار نے اس غزل کوحضرت عثمان مروندی عرف لال شھباز قلندر سے منسوب کیا تھا جب کہ اصل میں یہ غزل حضرت عثمان ہارونی کی ہے ، غزل کا قافیہ یار، دیدار ، بازار وغیرہ ہے اور ردیف ’’می رقصم‘‘ ہے، ایک قاری کی فرمائش پر قند مکرر غزل کا مطلع ہے ،
نہ می دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
ترجمہ۔ میں نہیں جانتا کہ میں آخر ’’دیداریار‘‘ کے وقت ناچتا کیوں ہوں مگر اس بات پر مجھے ناز ہے کہ اپنے یار کے سامنے ناچتاہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ ہربار می رقصم
بہرطرزے کہ می رقصائی من اے یار می رقصم
ترجمہ ۔تم ہردم نغمہ سرا

MushtaqAhmed
 

،اس سے اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ لگا لیں کہ یہاں سے آئل ملنے کی صورت میں دنیا کو کتنا سستا کروڈ آئل میسر ہوگا اور پاکستان ایل این جی میں بھی خود کفیل ہوجائے گا ، اچھے دن آنے والے ہیں لیکن ہمیں اپنے بلوچستان کے ساحلوں اور علاقوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی ، بلوچستان میں غیر ملکی طاقتون کی سپانسرڈ دہشت گردی بلا وجہ نہیں ہے انہیں اندازہ ہے کہ پاکستان دفاعی طور پر تو خود کفیل ہے اگر معاشی طور پر بھی مضبوط ہوگیا تو دنیا کو ایک سپر پاور اور اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ کو بڑا دھچکہ پہنچے گا ، چین کو اپنے ہماسئے میں ایک مضبوط دوست میسر ہوگا جو اس کی تیز رفتار ترقی کی حفاظت اور ترسیل میں بڑی پیش رفت کا باعث بنے گا۔
end

MushtaqAhmed
 

کی ہے نہ تیل ظاہر ہے امریکا کاغذ کے نوٹ چھاپ کر یہ دونوں توانائیاں بیرونی دنیا سے خرید رہا ہے اور خود اسے اپنے مستقبل کے لیے بچا رہا ہے ، دنیا میں اس وقت جو بڑے آئل پروڈیوسر ممالک ہیں اُن میں وینزویلا پہلے نمبر پر ہے جس کے پاس اس سیال مادے کے ذخائر سے سالانہ تین چار ارب بیرل تیل نکلتا ہے جبکہ اس کے بعد سعودی عرب ، پھر ایران ، کینڈا اور عراق کا نمبر آتا ہے اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ پاکستان کے پاس چوتھے بڑے زکائر ہوں گے تو کون کس نمبر پر جائے گا ۔ملنے والے ذخائر کے لیے ابھی چار سے پانچ سال کا وقت درکار ہے اور چار سے پانچ ارب خرچ ہوں گے اس خزانے کو ملنے کو " بلیو واٹر اکانومی " کہا جارہا ہے اس سے اندازہ لگالیں کہ یہ ساحل کراچی کے نہیں اُن سمندروں میں چھپا ہوا ہے گوادر کے قریب ہے یہ وہ روٹ ہے جہاں سے دنیا کا چالیس فیصد آئل گزرتا ہے،اس سے

MushtaqAhmed
 

گیس نے کنفرم کیا ہے کہ ایک دوست ملک (چین ہوسکتا ہے ) کہ ساتھ مل کر پاکستان کے سمندروں کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان کے گہرے نیلے سمندروں میں وہ خزانہ دریافت ہوا ہے جو دنیا کا چوتھا بڑا آئل گیس فیلڈ ہے ۔
یہ خزانہ جسے " بلیو واٹر اکانومی" کہا گیا ہے اتنا بڑا ہے کہ اس سے نا صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ پاکستان آئل اور ایل این جی بیرون ملک بیچ بھی سکے گا ، تحقیقی اور بنیادی کام ہوچکا اب اسے نکالنے کا مرحلہ ہے،ایک اندازے کے مطابق اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے چار سے پانچ ارب ڈالر درکار ہوں گے اور چار سے پانچ سال ہی کا وقت درکار ہوگا جس کے بعد پاکستان سمندر سے تیل نکالنے اور اسے بیرون ملک بیچنے والا چوتھا بڑا ملک ہوگا ، اس وقت دنیا میں آئل گیس کے سب سے بڑے ذخائر امریکا کے پاس ہیں لیکن اُس نے ان سے نہ گیس حاصل کی ہے

MushtaqAhmed
 

اللہ جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کردیتا ہے اور یہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے بہت ہی موقر ذرائع نے اتنا بڑا انکشاف کیا ہے کہ خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔ وہ جو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ؎
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
کچھ ایسی ہی کیفیت ہے اس وقت میری کہ پاکستان کے سمندروں سے خزانہ ملا ہے اور خزانہ بھی کوئی کم نہیں دنیا کا چوتھا بڑا آئل گیس کاذخیرہ ملا ہے اور یہ خیالی کتابی بات نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ تین سال قبل جس دریافت کا آغاز کیا گیا تھا وہ مل گئی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف نے بھی ایک ایسا ہی دعویٰ کیا تھا لیکن پھر پتھر ہٹانے سے اُس دعوے کی ’ہوا ‘خارج ہوگئی تھی لیکن اب کے بار ایسا نہیں ہوا وزارت آئل و گیس نے

MushtaqAhmed
 

زمائش ہوتی ہے اور نفوس میں اخوت و بھائی چارہ کس قدر ہے اس لحاظ سے بھی۔ یہ ہر دوسرے مسلمانوں کیلئے آزمائش ہوتی ہے، ایسے وقت میں کوئی فرار نہیں اور ان جیسے حالات میں اور کوئی شے مقدم نہیں، اس وقت یہی لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے، مال خرچ کیا جائے، تعاون کیا جائے، ان کا ہاتھ بٹایا جائے اور بھائی چارہ کی ہر ممکن فضا قائم کی جائے۔ ان تمام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے جو تکلیفوں سے کراہ رہے ہیں، ان نفوس کو اطمینان اور تسلی دی جائے جو خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔
(مسجد نبویؐ میں دیئے گئے ایک خطبے سے ماخوذ)

MushtaqAhmed
 

جانا، ظلم وستم کا عام ہوجانا، قتل و غارت، بیماریوں اور وباؤں کا بڑھ جانا وغیرہ وغیرہ، بلاشبہ یہ حوادث بڑے مصائب میں سے ہیں اور جن پر نازل ہوتے ہیں ان کیلئے تو آزمائش اور ابتلا ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر مسلمانوں کیلئے بھی کسی آزمائش اور امتحان سے کم نہیں ہوتے جو خوشحال اور آزادانہ زندگی تو بسر کررہے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ ان کی گرد نوں کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن خرچ نہیں کرتے۔
مسلمانوں کے درمیان رحمت کے مقدار کے لحاظ سے بھی یہ آزمائش ہوتی ہے او

MushtaqAhmed
 

و رہا ہو۔ کبھی اس کے کچھ اسباب و اسرار سائنس کے ذریعے بھی معلوم ہو جاتے ہیں اور سائنس جہاں تک بھی پہنچ جائے پھر بھی وہ قاصر ہے اور جس قدر بھی ترقی کر جائے آخر یہ مخلوق ناتواں اور کمزور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘‘ ( بنی اسرائیل:۸۵)
کسی خاص قوم پر کسی خاص وقت میں ان حوادث کے نازل ہونے پر یہ کہنا کہ یہ ان پرعذاب اور سزا کے طور پر آئے ہیں، تخمینہ اور اٹکل ہے اور شریعت پر زبان درازی ہے کیونکہ ممکن ہے یہ آزمائش ان کے گناہوں کی پاکی، صفائی ستھرائی اور انتخاب و تکریم میں سے کسی ایک کا ذریعہ بن جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب ہی چیزیں اس آزمائش میں مقصود ہوں۔ آزمائش کی کئی اقسام اور احوال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگوں کو ان گزشتہ مصائب سے بھی سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً: امن و امان کا تباہ ہو

MushtaqAhmed
 

دیکھ رہے ہیں تو ان باطنی اشیاء کا کیا عالم ہو گا جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت سے زمین کیسے ہماری حفاظت کرتی ہے اور کیسے مستقر اور پرسکون ہے، یہ جاننے کیلئے ذرا زلزلوں ، آندھیوں اور طوفانوں کے آثار کو دیکھ لیجئے جو چند لمحوں کیلئے ہی رونما ہوتے ہیں۔ پھر زمین پر غورکیجئے کہ زمانے گزر چکے ہیں، پے در پے نسلیں بیت چکی ہیں . پھر بھی وہ تمام زندگی کے مدار میں ثابت اور قائم ہے۔ کس ذات نے اسے جھکنے اور مائل ہونے سے بچا رکھا ہے؟ کس نے اسے ثابت رکھا ہے کہ یہ مضطرب اور حرکت میں نہیں آتی؟
کائنات میں یہ زلزلے، آندھیاں اور طوفان اللہ کی سنتوں کے نظام کے تحت جاری ہوتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی ضرور حکمت ہوتی ہے مگر ان کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہوتی۔ یہ جہانوں کے پالنہار کی رحمت ہوتی ہے اگرچہ بظاہر مخلوق کو کچھ اور ہی محسوس ہو

MushtaqAhmed
 

تے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسلسل لوگوں کیلئے کائنات کے اسرار اور نشانیوں میں سے کچھ نہ کچھ دکھاتا رہتا ہے اور ہر دور میں، ہر امت میں اور ہر جگہ وہ اپنی خوبصورت کاریگری عیاں کرتا رہتا ہے تاکہ حجت قائم ہو سکے اور قیامت کے قائم ہونے تک صراط مستقیم نمایاں رہے۔
زمین کی عظیم تخلیق کو تو ہر وہ شخص دیکھتا ہے جو اس پر چلتا اور سکونت اختیار کرتا ہے کہ کتنی نرم، سازگار، وسیع اور مستقل ہے جس پر نہریں، چشمے، بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ ہیں، اس پر چلنے والی صاف شفاف ہوا ہے جس کے ذریعے سانس چلتی ہے۔ اگر کچھ لمحات کے لئے وہ رک جائے تو زندگی تباہی کا شکار ہو جائے، مخلوق تباہ و فنا ہو جائے لیکن یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت ہے جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے، جو ہماری نیند و بیداری میں ہماری حفاظت کرتی ہے۔ یہ تو وہ ظاہری اشیاء ہیں جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں تو ان باط