ہے، اسے سواریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیا ہے، انسان کو الہام کر دیا ہے کہ وہ ایسی سواریاں تیار کرے جو پانی کی موجوں میں غرق نہ ہو سکیں اور سفر میں انہیں سمندری طوفانوں اور موجوں سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ یہ اس قادر اور خالق کائنات کا نظام اور منصوبہ بندی ہے اور آنکھ اس خوبصورت اور سر سبز نظارے کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو خشک سالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
اس پختہ، انوکھی اور معجزانہ کاریگری کے سامنے انسانیت حیران و ششدر ہے۔ ریسرچ سینٹر، ریسرچ کرتے رہتے ہیں اور آئے روز ہمارے لئے اس کائنات کے عجوبے، عجائب و غرائب سے ہمیں آشنا کرواتے رہتے ہیں۔ انسان کے بنائے گئے روبوٹ جو فضا میں گردش کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غوطہ خور سمندروں کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو آپ تعجب خیز اشیاء سے متعارف ہوتے ہیں
عالی نے ارشاد فرمایا :’’اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں ) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو۔ ‘‘ (النحل:۱۴)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اﷲ کی نعمت سے چلتی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھا دے۔ بیشک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر کیلئے نشانیاں ہیں۔ ‘‘(لقمان:۳۱)
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لئے مسخر فرما دیا ہے اور کشتیوں کو (بھی) جو اس کے اَمر (یعنی قانون) سے سمندر (و دریا) میں چلتی ہیں۔ ‘‘ (الحج:۶۵)
کشتی کیسے اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم سے چلتی ہے؟ اس عظیم خوبی کے ساتھ اللہ تعالی نے سمندر کو پیدا کیا کہ اسے نفع حاصل کرنے کے لئے آسان و ہموار کر دیا ہے،
چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں جن سے وہ گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر میں کھجور کی پرانی پتلی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (یٰسین:۳۹)
چاند کی منزلیں اور اوقات مقرر کر دیئے گئے ہیں جن پر چلتا ہوا یہ اس قدر باریک ہو کر ہلال بن جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو بمشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اس کا چھوٹا بڑا ہونا پورے انتظام اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتا ہے تو کس نے اسے پیدا کیا ہے، اس میں نور و روشنی کی خاصیت رکھنے والا کون ہے، اس کے راستوں اور مدار کو متعین کرنے والا کون ہے، صبح و شام ان کے معاملے کی تدبیر کرنے والا کون ہے؟ کس قدر وہ عظیم ذات ہے جو پاک ہے۔ یہ اس اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ اس کائنات کے دوسری جانب کو بھی دیکھئے جس سے عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، جو حیرت میں ڈال دیتی ہیں اور سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ا
کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ ‘‘ (القصص: ۷۲)
رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف اور پرسکون اور پر نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے۔ سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے، کائنات کو حیات بخشتا ہے، کام کرنے اور معاش کے حصول کے لئے نفوس میں چستی اور حرکت پیدا کرتا ہے تاکہ زندگی خوشگوار ہو سکے اور لوگ سعادتوں کو سمیٹ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کیلئے (بغیر رکے) چلتا رہتا ہے۔ ‘‘ (یٰسین:۳۸)۔ کیا ہم ان باتوں پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں، وقت نکالتے ہیں ؟
سورج غیر محسوس طریقے سے انتہائی پرسکون حالت میں گردش کرتا ہے اس میں نہ تو کوئی اضطراب آتا ہے اور نہ ہی جنبش۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور چاند کی ہم نے
رات کو دین پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔ آپ ہر روز معجزات الٰہیہ اور پختہ کاریگری کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے۔ دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے جس میں کوئی تعطل و انقطاع نہیں آتا۔ تخلیق کائنات سے لے کر آج تک کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکا کہ رات اپنے وقت سے تاخیر کا شکار ہو گئی ہے یا سورج اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہو چکا ہے۔ تو کون ہے جو اس کی تدبیر کر رہا ہے اور کون ہے جو اس مرتب کارخانے کی تنظیم سازی کر رہا ہے اور بغیر انقطاع کے جگہوں کا تبادلہ کر رہا ہے؟ اگر ساری خلقت مل کر بھی رات کو دن کی جگہ اور دن کو رات کی جگہ لانا چاہے تو نہیں لا سکتی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’فرما دیجئے: ذرا یہ (بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا
رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف، پرسکون اور نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے۔ سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے، کائنات کو حیات بخشتا ہے۔
انسان جب اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی آنکھوں کو پھیرتا ہے تو اس وقت حیران و ششدر رہ جاتا ہے جب وہ اس کے جمال و کمال، جلالت، نظم و نسق اور توازن کو دیکھتا ہے جس کے عجائب ختم ہونے کو نہیں آتے۔ اس کے خفیہ راز اور اسرار، بے حد و بے انتہا ہیں ۔ تو قرآن مجید آسمان و زمین کی اس بادشاہت کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے بیان کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو
الرشید، اَلف لیلہ و لیلہ (1001 راتیں) کے خلیفہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خیزران اور زبیدہ کے مضبوط کردارہیں جو افسانوی شہر زاد کی حقیقی زندگی کی بنیاد تھے۔
آدم علی کہتے ہیں کہ خیزران ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔
’وہ اپنی مضبوط قوت ارادی، عزم، ذہانت، دانشمندی، استقامت اور بے رحمی کی بدولت غلام سے مادر ملکہ کے درجے تک پہنچیں۔ وہ تین خلفا کے تخت کی طاقت تھیں۔‘(پوری ہوگئی)
میں لکھتے ہیں کہ ان کے نام پر سکے ڈھالے گئے، محلات ان کے نام سے منسوب کیے گئے اور جس قبرستان میں بعد کے عباسی حکمرانوں کو سپرد خاک کیا گیا، اس میں بھی ان کا نام موجود ہے۔
’یہ سب نہ صرف ان کی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں بلکہ یہی میراث اَمت العزیز تک پہنچتی ہے جنھیں تاریخ میں زبیدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘
زبیدہ سلسال کی بیٹی اور خیزران کی بھانجی اور ہارون الرشید کی بیوی ہونے کے باعث ان کی بہو تھیں۔ جہاں ہارون الرشید، اَلف
کی وفات ہوئی، ہارون الرشید خلیفہ ہوئے اور مامون الرشید پیدا ہوئے۔‘
ہارون الرشید 14 ستمبر 786 کو خلیفہ بنے تو خلافت مغربی بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھیخلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بھائی کے برعکس اپنی والدہ کے امور مملکت میں حصہ لینے کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کی سیاسی قابلیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور ان کے شانہ بشانہ حکومت کی۔
مرنیسی کے مطابق وہ یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے کہ انھیں خیزران جیسی قابلیت اور ذہانت کی کسی عورت کے ساتھ اپنی طاقت سانجھی کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں۔
جب خیزران کی 789 میں وفات ہوئی تو ان کے بیٹے ہارون الرشید نے قواعد کو توڑتے ہوئے عوامی طور پر اپنے دُکھ کا اظہار کیا اور ان کے جنازے میں شرکت کی۔
تاریخ میں خیزران کے سیاسی کارناموں کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی لیکن ٹام وردے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان
نے انھیں زہر دینے کی کوشش کی۔
وہ لکھتے ہیں کہ الہادی نے ایک دن اپنی ماں کو پکے ہوئے چاول بھیجے۔ وہ چاول امتحان کے طورپر کتے کو کھلائے گئے تو اس کا تمام گوشت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرپڑا۔
ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ خیزران کو معلوم ہوا کہ الہادی اپنے بھائی ہارون الرشید کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ اپنے مختصر دورِ حکومت میں الہادی نے اپنے بھائی ہارون الرشید کے حق وراثت کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔
طَبَری میں فضل بن سعید سے روایت ہے کہ خیزران نے قسم کھائی تھی کہ وہ موسیٰ الہادی سے بات نہیں کریں گی۔
’جب الہادی کی موت کا وقت قریب آیا اور قاصد نے اطلاع دی تو انھوں نے کہا میں کیا کروں۔ وضو کے لیے پانی لاؤ تاکہ نماز پڑھ لوں۔ آج رات ایک خلیفہ مرے گا، دوسرا برسرِ خلافت ہوگا اور تیسرا پیدا ہوگا۔ موسیٰ الہادی کی وف
مالک کے حق میں سفارش کی اور کھلے عام اپنے بیٹے سے جواب طلب کیا۔‘
’الہادی غصہ میں کھلم کھلا ان پر چلائے اور کہا: ’میری بات کان کھول کرسنیں۔۔۔ میرے لوگوں میں سے جو کوئی آپ کے پاس درخواست لے کر آئے گا اس کا سر کاٹ دیا جائے گا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔ آپ کے پاس یہ جمگھٹا کیوں لگا رہتا ہے؟ اللہ اللہ کریں۔ خبردارجو کسی کے بھی حق میں منہ کھولا۔‘
ولیم منٹگمری واٹ کے مطابق جب الہادی ستمبر 786 میں پراسرار طور پر وفات پا گئے تو افواہ تھی کہ موت کے پیچھے خیزران کا ہاتھ ہے۔
ابوجعفرمحمد بن جریر الطَبَری نے تاریخ طبَری میں لکھا ہے کہ بعض ارباب نے بیان کیا ہے ان کے پیٹ میں ایک دنبل (پھوڑا) ہوا تھا وہی وجہ ہلاکت ہوا۔ دوسرے ارباب یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں خیزران کے اشارے اور حکم سے بعض لونڈیوں نے ان کو ہلاک کیا کیوں کہ الہادی نے انھیں زہ
عزیتِ عام طلب کی جس پر اعتراض اٹھا کیوں کہ تب بیٹی کی وفات پر عوامی تعزیت کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘
دس سال ڈیڑھ ماہ کی حکومت کے بعد المہدی کی وفات اگست 785 میں سرکاری طور پر جانشین مقرر کیے بغیر ہو گئی۔ الہادی خلیفہ ہوئے اور ہارون نے رضامندی ظاہر کی۔
مرنیسی لکھتی ہیں کہ خیزران نے وزیروں کو حکم دیا کہ وہ فوج کی اجرت ادا کریں تاکہ امن و امان قائم رہے۔ پھر ان سے اپنے بیٹے کی غیر موجودگی میں نئے خلیفہ کے طور پر بیعت لی۔
خیزران اپنے بیٹے موسیٰ الہادی کے دورِ حکومت میں بھی ویسا ہی غلبہ چاہتی تھیں جیسا کہ اپنے شوہر المہدی کے دور میں حاصل تھا۔
’وہ (الہادی) سے مشورہ کیے بغیر فیصلے کرنے لگیں۔ تاہم، الہادی نے ریاستی امور میں ان کی شرکت کی مخالفت کی۔‘
’یہ تنازع بالآخر عوام کے سامنے اس وقت کھلا جب خیزران نے ایک درخواست گزار عبداللہ بن مالک کے ح
تک انھیں شاہی سرپرستی حاصل رہی۔‘
جیسے جیسے ان کے شوہر کی عمر بڑھتی گئی، دربارمیں ان کی طاقت بڑھتی گئی اور انھوں نے اپنے کچھ رشتہ داروں کو بھی عہدوں سے نوازا۔
مرنیسی لکھتی ہیں کہ جب المہدی بغداد سے دور ہوتے تو وہ ان کی طرف سے حکومتی معاملات کو سنبھالتی تھیں۔
’اپنی والدہ، دو بہنوں اور دو بھائیوں کو بھی بلوا لیا اور اپنی ایک بہن، سلسال، کی شادی المہدی کے بھائی جعفر سے کی، اور اپنے بھائی کو یمن کا گورنر نامزد کیا۔‘
دو بیٹوں کے علاوہ المہدی اور خیزران کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام بانوقہ تھا۔
بینسن بورک نے اپنی کتاب ’دی کیلفس سپلینڈر: اسلام اینڈ دی ویسٹ ان دی گولڈن ایج آف بغداد‘ میں لکھا ہے کہ المہدی ان سے اتنا پیار کرتے تھے کہ انھیں لڑکوں کا لباس پہناکر سفر میں ساتھ لے جاتے۔
’جب 16 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تو المہدی نے تعزیتِ عام
تھا۔ ان کے پاس سینکڑوں غلام تھے اور کئی خواتین ملازمائیں تھیں۔ ایک پرتعیش طرزِ زندگی تھا۔‘
ان کی سالانہ آمدن خلافت کی آمدن کا ایک تہائی تھی، جو ان کے بیٹوں الہادی اور ہارون الرشید کی خلافت کے دوران دوگنا ہو کر خلافت کی کل آمدنی کے نصف سے زیادہ ہوگئی۔‘
نبیہ ایبٹ لکھتی ہیں کہ خیزران کی ذاتی دولت نے انھیں ’بلاشبہ، (ان کے بیٹے خلیفہ ہارون الرشید) کے بعد، اپنے دور کی مُسلم دنیا کی سب سے امیر ترین شخصیت بنا دیا تھا۔‘
لیکن وہ خیرات بھی اسی نسبت سے کرتی تھیںخیزران کو مکہ میں اور اس کے راستوں کے ساتھ کنویں کھودنے اور پینے کے پانی کے چشمے لگانے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔
طالب ہاشمی کے مطابق ایک دفعہ خیزران کو ایک نوکر نے اطلاع دی کہ اموی خلیفہ مروان دوم کی بیوہ مزنہ دروازے پر ہے۔
’مزنہ کے حالات نے خیزران کے دل کو اس قدر متاثر کیا کہ پھر موت تک ان
برمکیوں سے ان کا اتحاد تھا۔ خالد برمکی تب ساتھ تھے جب خیزران کو المہدی نے خریدا تھا اور ان کے ملکہ بننے کی پیش گوئی کی تھی۔ ان کے بیٹے اورہارون الرشید کے استاد یحییٰ برمکی کی بیوی ام فضل نے ہارون کو اپنا دودھ پلایا تھا اور ہارون کی والدہ خیزران نے یحییٰ کے بیٹے فضل کو اپنا دودھ پلایا تھا۔
مرنیسی کے مطابق وہ تمام فوجی اور ریاستی امور پر تبادلہ خیال کرتیں اور فیصلہ میں مدد دیتیں۔ وہ درخواست گزاروں، مرد اور خواتین، دونوں سے ملاقات کرتیں۔ انھیں غیر ملکی سفیروں سے ملنے، سیاسی طاقت استعمال کرنے اور امورِِ سلطنت چلانے کے لیے سرکاری کاغذات پر دستخط کی اجازت بھی تھی۔‘
’خیزران کے محل کی حفاظت سپاہی کرتے اور ان کی زمینیں دارالحکومت بغداد کے مضافات میں پھیلی ہوئی تھیں۔متعدد کاروباری ادارے اور کارخانے بھی چلاتیں اور بیرونِ ملک بھی بڑا کاروبار تھا۔ ان
پر، خیزران اب خلیفہ کے حرم میں بھی اعلیٰ اختیار رکھتی تھیں اور سلطنت کی بھی سب سے طاقت ور اور بااثر خاتون تھیں۔عربی اور اسلامی علوم کے ماہر ولیم منٹگمری واٹ کی انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ خیزران ایک مضبوط شخصیت کی حامل خاتون تھیں جن کا اپنے شوہر اور پھر بیٹوں کے دورِِ حکومت میں امورِ مملکت میں بہت اثر تھا۔
مرنیسی لکھتی ہیں کہ جب بھی المہدی دربار میں آتے وہ ان کے ساتھ ہوتیں۔
’وہ ایک پردے کے پیچھے چھپی ہوتیں اور اگر کسی بات سے متفق نہیں ہوتی تھیں، تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیتی تھیں۔ انھیں ہر وقت خلیفہ تک براہِ راست رسائی حاصل تھی۔ ان کی تجاویز کو ہمیشہ قبول کیا جاتا تھا۔ ان کی سفارش سے انعام یا ترقی اور سزا میں معافی ملتی۔‘
دربارمیں برمکیوں سے ان کا اتحاد
بھی کرتیں۔
سنہ 775 میں المہدی خلیفہ بنے تو خیزران نے انھیں آزاد کر کے شادی کرنے پر راضی کرلیا۔
مورخ ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب خلیفہ سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اشرافیہ میں شادی کریں گے، خیزران کو ملکہ بنانا ’جرات مندانہ طور پر روایت سے ہٹ کر تھا۔‘
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ المہدی کی زندگی میں خیزران حج پر گئیں تو انھیں مکہ میں خط لکھا کہ وہ ان کے بغیر وحشت محسوس کرتے ہیں اور کچھ اشعار کے ذریعے اپنے شوق کا اظہار کیا۔
یوں پہلی بیوی ریطہ کے بیٹوں کی بجائے خیزران کے بیٹوں، موسیٰ الہادی اور ہارون الرشید، کو اپنے تخت کا وارث بنایا۔
تاریخ ریطہ اور خیزران کے درمیان براہ راست کشیدگی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتی ہے۔ لیکن ایبٹ کا قیاس ہے کہ ریطہ نے جان لیا ہوگا کہ خیزران کی مخالفت کا کوئی فائدہ نہیں۔
ملکہ کے طور پر، خیزران
بغداد: مدراینڈ وائف آف ہارون الرشید‘ میں لکھتی ہیں کہ خیزران نے اپنی کامیابی کے لیے شاید ہی کبھی خوبصورتی پر انحصار کیا ہو۔
’وہ ذہین تھیں، آزادانہ طور پر شاعری کا حوالہ دیتی تھیں اور معروف علما سے قرآن، حدیث اور قانون کا مطالعہ کرتی تھیں۔‘
مراکشی ماہرسماجیات فاطمہ مرنیسی اپنی کتاب ’اسلامز فارگاٹن کوئینز‘ (اسلام کی بھولی ہوئی ملکائیں) میں لکھتی ہیں کہ حرم کی لونڈیاں، جنھیں جاریہ یا جواری کہا جاتا تھا، اپنے مالک کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے موسیقی، علمِ نجوم، ریاضی اور علم الٰہیات سیکھتیں اور خیزران نے تو فقہ کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔‘
المہدی کی زندگی میں خیزران سے پہلے بھی کچھ لونڈیاں آئیں لیکن، مرنیسی کے مطابق، وہ بالآخر المہدی کی پسندیدہ بن گئیں۔
وہ دونوں عملی لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے۔ کئی بار المنصور کے غصّے کی نقل بھی کرتی
خیزران نے المہدی سے تحفے میں ملے دارالارقم کے ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے بھی مسجد بنوا دیا تھا۔
یہ وہ گھر تھا جہاں اسلام کی ابتدا میں پیغمبراسلام دعوتِ دین دیتے اور ابتدائی مسلمان خفیہ نماز پڑھتے تھے۔ (دوسرے عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے یہ گھر خرید کر اپنے بیٹے المہدی کو دیا تھا۔ انھوں نے اسے اپنی بیوی خیزران کوتحفہ میں دے دیا جن سے منسوب ہوکر یہ مکان دارالخیزران مشہورہوا)۔
یہ مقام اب مسجدِ حرام کا حصہ ہے اور باب دار الارقم کے پاس ہے۔
تاریخِ کوکن‘ میں مومن محی الدین لکھتے ہیں کہ بانس جسے عربی زبان میں خیزران کہتے ہیں نزاکت حسن اور قامت محبوب کا معیار پایا تھا۔ بغداد کے عشرت کدوں میں نازک اندام حسیناؤں کو خیزران سے تشبیہ دی جاتی تھی اور یہی نام مہذب سوسائیٹی کی خواتین میں بھی مقبول تھا۔
لیکن نبیہ ایبٹ اپنی کتاب ’ٹو کوئینز آف بغداد:
, صحافی و محقق
مسلمانوں کے لیے مکہ میں وہ گھربہت خاص تھا کہ اس میں پیغمبراسلام پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے بعد سے یہ ایک (عقیل بن ابی طالب) کے بعد دوسرے (محمد بن یوسف الثقفی) خاندان کی ملکیت میں چلا آرہا تھا۔ سنہ 788 میں خیزران حج پر گئیں تو اسے خرید لیا۔
اسی مکہ میں حج ہی کے موقعے پر عباسی خلیفہ المہدی نے انھیں غلاموں کے ایک تاجر سے خریدا تھا اور بعد میں اپنی ملکہ بنایا تھا۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کے استاد آدم علی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اس گھر میں خیزران نے چھوٹی سی مسجد بنوائی اور پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش کو زیارت کا مقام بنایا۔‘
بیسویں صدی کے وسط میں اسے دو منزلہ لائبریری میں بدل دیا گیا۔ اب یہ مسجد حرام کے پاس ہی واقع ہے۔
اس سے پہلے خیزران نے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain