Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

لجاجت سے کہا ’’آپ اگر اجازت دیں تو میں پانچ منٹ میں نماز پڑھ لوں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سر کیوں نہیں؟ ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے‘‘ اس نے ڈرائیور کو اشارہ کر دیا‘ ڈرائیور نے سگنل کراس کر کے گاڑی کھڑی کر دی‘ وہ گاڑی سے اترا‘ کوٹ اتار کر سیٹ پر رکھا‘ ڈکی کھولی‘ اس میں سے کریٹ نکال کرفٹ پاتھ پر رکھا اور اونچی آواز میں بھکاری بچوں کو آوازیں دینے لگا‘ ایک بچے کی نظر اس پر پڑی‘ اس نے اونچی آواز میں دوسرے بھکاری بچوں کو اسکی طرف متوجہ کیا اور اس کے بعد تمام بچوں نے گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی اور پھر چند لمحوں میں میرا دوست بھکاری بچوں میں گھر چکا تھا‘ اس کے دائیں بائیں تین چار درجن بچے تھے اور وہ سب اونچی آواز میں قہقہے لگا رہے تھے اور اسے بار بار کہہ رہے تھے ’’چچا آج تم مجھے دو برگر دو گے‘‘ میرے دوست نے کریٹ کھولا اور اس میں سے برگر نکال کر انھیں دین

MushtaqAhmed
 

انتقال ہو گیا تھا‘ بیوی بیمار ہے‘ یہ روز بیوی کو پیمپر پہنا کر منڈی جاتا ہے‘ سبزی لاتا اور چپ چاپ یہاں بیٹھ جاتا ہے‘ سبزی بک جاتی ہے تو تین چار سو روپے لے کر گھر چلا جاتا ہے‘ کھانا بناتا ہے‘ بیوی کو نہلاتا اور پھر دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں‘ میں ان دونوں کی زندگی تبدیل نہیں کر سکتا‘ میں ان کے دکھ بھی کم نہیں کر سکتا لیکن میں اس کی سبزی خرید کر اسے جلدی گھر ضرور بھجوا سکتا ہوں اور میں یہ روز کرتا ہوں‘ شاید اللہ تعالیٰ کو میری یہ چھوٹی سی خفیہ نیکی پسند آ جائے‘‘ جونیئر استاد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے سینئر کولیگ کا ہاتھ پکڑا اور اسے پاگلوں کی طرح چومنے لگا‘ اس کے سامنے بھی ایک ولی بیٹھا ہوا تھا۔
ہم بلیو ایریا سے گزر رہے تھے‘ ہمارے سامنے چوک میں بھکاری بچوں کا پورا لشکر کھڑا تھا‘ میرے دوست نے شرمندگی سے میری طرف دیکھا اور لجاجت سے کہا

MushtaqAhmed
 

کر بولا’’ میں اسی لیے اس بوڑھے کے پاس جاتا ہوںکہ اس کے پاس سبزیاں بھی کم ہوتی ہیں اور گاہک بھی‘ میں اس کا واحد گاہک ہوتا ہوں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے میں جس دن اس کے پاس نہیں آؤں گا یہ اس دن شاید خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا‘ پورے بازار میں اس کا کوئی خریدار نہیں ہوتا‘ یہ بھری دکانوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر چپ چاپ خریداروں کا انتظار کرتا ہے لہٰذا میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں اور اس کی ساری سبزی خرید لیتا ہوں۔
جونیئر استاد نے حیرت سے یہ داستان سنی اور پھر پوچھا ’’اس سے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟‘‘ سینئر کولیگ نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’میری زندگی میں شاید کوئی فرق نہیں پڑتا‘ میں کسی بھی جگہ سے سبزی خرید سکتا ہوں لیکن میری اس چھوٹی سی کوشش سے اس بوڑھے کی زندگی میں بہت فرق پڑ جاتا ہے‘ یہ اور اس کی بیوی دونوں اکیلے رہتے ہیں‘ اس کی بہو اوربیٹے کا ایکسیڈنٹ می

MushtaqAhmed
 

کر واب دیا ’’ہم یہ پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں‘‘ جونیئر استاد کا اگلا سوال تھا ’’میری معلومات کے مطابق آپ صرف دو میاں بیوی ہیں‘ کیا آپ دونوں روزانہ اتنی سبزیاں کھا جاتے ہیں؟‘‘ کولیگ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ہرگز نہیں‘ میں آدھی سبزیاں محلے میں تقسیم کردیتا ہوں‘ ہمارے دائیں بائیں بہت لوگ رہتے ہیں اور انھیں بھی سبزیاں چاہیے ہوتی ہیں لہٰذا میری بیوی یہ ان میں تقسیم کر دیتی ہے۔
پوچھنے والے کی حیرت میں اضافہ ہو گیا اور اس نے پوچھا ’’لیکن آپ صرف ایک ہی بوڑھے شخص سے سبزیاں کیوں خریدتے ہیں؟ پوری مارکیٹ دکان داروں سے بھری ہے‘ ان سب کے پاس زیادہ ورائٹی ہے مگر آپ انھیں چھوڑ کر دور جاتے ہیں اور نیچے بیٹھ کر اس بوڑھے سے خریداری کرتے ہیں جسے نظر بھی نہیں آتا اور جس سے سبزیاں تولی بھی نہیں جاتیں‘‘ کولیگ نے قہقہہ لگایا‘ تھوڑی دیر رکا اور پھر مسکرا کر بولا’’ می

MushtaqAhmed
 

کتنا بڑا ولی پل رہا ہے۔
وہ دونوںاکٹھے واپس جاتے تھے‘ نوجوان استاد کے پاس سواری کا بندوبست نہیں تھا جب کہ اس کے کولیگ کے پاس گاڑی تھی لہٰذا وہ روز اسے ڈراپ کرتا تھا‘ ان کا معمول تھا وہ کالج سے نکلتے تھے‘ گاڑی میں بیٹھتے تھے اور گھر کے لیے روانہ ہو جاتے تھے‘ گاڑی کا مالک روزانہ محلے کی مارکیٹ میں رکتا تھا‘ گاڑی سائیڈ پر لگا کر اترتا تھا‘ چل کر دور جاتا تھا‘ زمین پر بیٹھے بوڑھے چھابڑی والے سے مرجھائی ہوئی سبزیاں خریدتا تھا اور پھر لفافے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ کر آگے چل پڑتا تھا‘ یہ روز کا معمول تھا‘روز ایک ہی جگہ رکنا‘ گاڑی سے اترنا‘ ایک ہی بوڑھے سے سبزیاں خریدنا اور پھر آگے روانہ ہو جانا۔
نوجوان استاد یہ منظر روز دیکھتا تھا‘ ایک دن اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے سینئر کولیگ سے پوچھ لیا ’’سر آپ اتنی سبزیوں کا کیا کرتے ہیں؟‘‘ کولیگ نے ہنس

MushtaqAhmed
 

ں کرتی‘ میں دن میں صرف ایک اچھا کام کرتا ہوں‘ میں اسے ایک مالٹا کھلا دیتا ہوں‘ میں روز دیکھتا ہوں یہ جوں ہی مالٹے کی مٹھاس محسوس کرتی ہے تو ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کی غربت پسپا ہو جاتی ہے اور وہاں اطمینان اور سکون کا ایک سایہ سا لہرا جاتا ہے۔
میں یہ سارا ڈرامہ اس ایک لمحے کے لیے کرتا ہوں ‘میں دن کے وقت چائے نہیں پیتا‘ اسکے پیسے بچاتا ہوں‘ موٹر سائیکل تیز چلا کر پٹرول کی بچت کرتا ہوں‘ تم سے دس بارہ روپے ادھار لیتا ہوں اور پھر مالٹوں کی رقم جمع کر کے یہاں آ جاتا ہوں‘ مالٹے خریدتا ہوں اور اس میں سے ایک اچھا اور میٹھا مالٹا تلاش کر کے اسے کھلا دیتا ہوں اور تم رضیہ یقین کرو‘ یہ میری سارے دن کی واحد نیکی ہوتی ہے‘‘ کلرک کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہونٹوں سے لگا لیا‘ اسے معلوم ہی نہیں تھا اس کے گھر میں کتنا بڑا و

MushtaqAhmed
 

بالکل مختلف تھا‘ مالٹے خریدنے کے بعد کلرک ایک صحت مند اور بڑا مالٹا چھیلتا تھا‘ اس میں سے ایک کاش توڑ کر چکھتا تھا اور پھر پورا مالٹا بوڑھی عورت کو دے کر کہتا تھا ’’یہ کھٹا ہے‘ذرا اسے چیک کرو‘‘ بوڑھی عورت چکھتی تھی اور ہنس کر کہتی تھی ’’باؤ جی یہ تو میٹھا ہے‘‘ یہ سن کر کلرک ہنستا تھا اور کہتا تھا ’’اچھا پھر یہ تم ہی کھاؤ‘‘ اور اس کے بعد موٹر سائیکل اسٹارٹ کر کے گھر روانہ ہو جاتا تھا۔
بیوی روزانہ یہ کھیل دیکھتی تھی‘ اس نے ایک دن اس سے کہا ’’تم روز یہ کیا ڈرامہ کرتے ہو‘ پکا ہوا‘ میٹھا مالٹا چھیلتے ہو اور اسے بوڑھی عورت کو دے دیتے ہو‘ مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی‘‘ کلرک نے ہنس کر جواب دیا ’’تم کسی دن غور سے اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھو تمہیں اس پرغربت کے ساتھ بھوک بھی نظر آئے گی‘ اس کے پاس مالٹے کم ہوتے ہیں لہٰذا یہ اپنا پھل کھا کر چیک نہیں کرت

MushtaqAhmed
 

کھے مالٹوں کو اور وہ یعنی واپڈا کا وہ کلرک ہمیشہ اسی بوڑھی عورت سے مالٹے خریدتا تھا‘ بوڑھی عورت جس دن ریڑھی نہیں لگاتی تھی اس دن وہ خالی ہاتھ گھر چلا جاتا تھا‘ وہ کون تھا؟ وہ واپڈا میں کلرک تھا‘ سارا دن فائلوں کی بک بک میں پھنسا رہتا تھا اور شام اپنی پرانی اور تھکی ہوئی موٹر سائیکل پر گھر نکل جاتا تھا۔
لیکن نہیں رکیے وہ راستے سے اپنی بیوی کو بھی پک کرتا تھا‘ اس کی بیگم اسکول ٹیچر تھی‘ اسکول کے وقت کے بعد وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی اور خاوند کا انتظار کرتی تھی‘ کلرک دفتر سے نکل کر بیوی کو لیتا تھا اور پھر دونوں گھر روانہ ہو جاتے تھے لیکن نہیں نہیں‘ یہ دونوں راستے سے مالٹے بھی خریدتے تھے اور صرف اسی بوڑھی عورت سے خریدتے تھے‘ اب مالٹے خریدنا بھی کوئی جرم نہیں تھا‘ دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ روزانہ فروٹ خریدتے ہیں لیکن اصل مسئلہ بالکل مخ

MushtaqAhmed
 

وہ روز ایک ہی ریڑھی سے مالٹے خریدتا تھا‘ بوڑھی عورت شہر کے درمیان مالٹوں کی ریڑھی لگاتی تھی‘ عورت اور اس کی ریڑھی دونوں بوڑھی تھیں‘ عورت کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا‘ دیکھنے میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے لٹھے کے رومال کو دھو کر سوکھنے کے لیے تار پر ڈال دیا ہو اور جب اسے اتارا ہو تو اس پر مچھلیاں پکڑنے والے جال کی طرح جھریاں ہی جھریاں ہوں‘ اس کی ریڑھی بھی ٹیڑھی اور بوسیدہ تھی اور اس کے پاس مالٹوں کی ورائٹی بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی شاید دس پندرہ درجن ہوتے ہونگے لہٰذا گاہک اسکے قریب سے گزر کر دوسری ریڑھیوں کی طرف چلے جاتے تھے۔
دائیں بائیں ریڑھیاں اچھی بھی تھیں اور ان کے پاس فروٹ بھی زیادہ ہوتے تھے چنانچہ بوڑھی عورت کے دائیں بائیں گاہکوں کی ریل پیل ہوتی تھی جب کہ وہ خاموش کھڑی کبھی اپنی اجڑی ہوئی ریڑھی کو دیکھتی تھی اور کبھی سامنے رکھے مال

MushtaqAhmed
 

ا، اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو گھاٹے کا سودا ہوگا، اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک حقیر اور معمولی انسان ہوں ، بھلا مجھے کون خریدے گا، آپؐ نے فرمایا: مگر تو اللہ کے نزدیک گھاٹے کا سودا نہیں ہے، بلکہ اللہ کے نزدیک تو انتہائی بیش قیمت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۰/۹۱، رقم الحدیث: ۱۲۶۴۹)

MushtaqAhmed
 

ا۔ آپؐ کو بھی اس سے بڑی محبت تھی، دیکھنے میں وہ بڑا معمولی سا شخص تھا، گندے سندے کپڑوں میں رہا کرتا تھا، ایک مرتبہ آپؐ بازار تشریف لے گئے، دیکھا کہ زاہر وہاں بیٹھا ہوا کچھ فروخت کررہا ہے، آپؐ چپکے سے اس کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے اور اس کو دبوچ لیا، وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا، اور جب اس نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اس کے ساتھ ہیں تو اس نے آپ ؐ کے جسم اطہر سے خود کو اور قریب کرلیا ، اور چھڑانے کی جو کوشش وہ کررہا تھا اس نے وہ کوشش ترک کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم از راہ مذاق اسے دبوچے رہے اور پکار پکار کر کہنے لگے اس غلام کو کون خریدے گا، اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!

MushtaqAhmed
 

وسلم اور حضرت ابوبکرؓ دونوں ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، گھر پہنچ کر دیکھا کہ جابرؓ مرض کی شدت سے بے ہوش پڑے ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اس کا بچا ہوا پانی ان کے اوپر چھڑکا، جس سے انہیں افاقہ ہوگیا، حضرت جابرؓ نے ہوش میں آکر دیکھا کہ دونوں حضرات ان کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ (خصائل نبوی ص:۲۹۴)
بیماروں اور ناداروں کے ساتھ
آپ کسی مریض سے دور ی اختیار نہیں فرماتے تھے، ایک مرتبہ آپؐ نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا، اور فرمایا: کھاؤ، بسم اللّٰہ، وثقۃً باللّٰہ، وتوکلا علیہ۔ (اللہ کے نام پر، اس پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے کھاؤ) (سنن الترمذی: ۴/۲۶۶، رقم الحدیث: ۱۸۱۷)
گاؤں کا رہنے والا ایک شخص جس کا نام زاہر تھا، آپؐ سے بڑی محبت کرتا تھا، اس کا معمول ہدیہ بھیجنے کا تھا۔ آ

MushtaqAhmed
 

امتیازی حیثیت اختیار کروں ، اللہ بھی اسے پسند نہیں فرماتے۔ (سبیل الہدی :۷/۱۳)
پیدل چلنے کا معمول
حالاں کہ آپ کے پاس اونٹنی بھی تھی، خچر بھی تھا، مگر آپ دور دراز کے اسفار کے لئے ہی ان جانوروں پر سوار ہوتے، قرب وجوار میں آنے جانے کے لئے پیدل چلنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار پڑا، آپؐ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، نہ آپ خچر پر سوار تھے، نہ ترکی گھوڑے پر بلکہ پیدل چل کر تشریف لائے۔ (صحیح البخاری: ۷/۱۱۶، رقم الحدیث: ۵۶۵۱)
خصائل شرح شمائل میں ہے کہ آپ امراء وسلاطین کی طرح سواری کے عادی نہ تھے بلکہ پا پیادہ کثرت سے چلتے تھے، بخاری شریف کی روایت میں اس عیادت کا قصہ ذرا مفصل ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جابرؓ بیمار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور

MushtaqAhmed
 

: ۱۳۱۲)
گھریلو کاموں میں معاونت
حضرت عائشہؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کس طرح رہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے، اپنی بکریوں کا دودھ خود نکال لیا کرتے تھے، اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے۔ (الادب المفرد ص:۱۶۵) ایک مرتبہ آپؐ ساتھیوں کے ساتھ کسی سفر میں تھے، کھانے کے لئے بکری ذبح کی گئی، تمام ساتھیوں نے کھانا پکانے کے کام تقسیم کرلئے، کسی نے کھال اتارنے کا کام اپنے ذمے لیا، کسی نے بوٹیاں بنانے کا، کسی نے پکانے کا، آپ نے فرمایا لکڑیاں اکٹھی کرکے میں لاؤں گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ رہنے دیں ، یہ کام بھی ہم میں سے کوئی کرلے گا، آپؐ نے فرمایا: میں جانتا ہوں تم یہ کام بھی کرلوگے مگر مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میں لوگوں میں امتیازی حیثیت اختیار

MushtaqAhmed
 

سلموں کے ساتھ بھی اسی طرح تواضع اور اخلاق سے پیش آیا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ نے ایک یہودی بچے کا واقعہ بیان فرمایاہے، یہ لڑکا آپؐ کی خدمت میں رہا کرتا تھا، ایک دن خبر ملی کہ وہ یہودی بچہ بیمار ہے، آپ عیادت کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے، اس کے سر پر دست شفقت رکھا اور فرمایا: اسلام لے آؤ! بچے نے باپ کی طرف دیکھا، گویا اجازت مانگ رہا ہو، باپ نے کہا: ابو القاسم کا حکم مان لو، بچّے نے اسلام قبول کرلیا، آپؐ باہر تشریف لائے اورساتھیوں سے فرمایا: اللہ کا شکر ہے اس نے بچے کو آگ سے بچا لیا۔ (صحیح البخاری: ۲/۹۴، رقم الحدیث: ۱۳۵۶)
ایک مرتبہ آپؐ تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک جنازہ گزرا، آپؐ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے، لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا، آپؐ نے فرمایا: کیا یہودی انسان نہیں ہوتے۔ (صح

MushtaqAhmed
 

رہی۔ کچھ دیر بعد آپؐ نے فرمایا: عدی آؤ میرے ساتھ گھر چلو، باقی باتیں وہیں بیٹھ کر ہوں گی۔ عدی ساتھ ساتھ چلے، راستے میں ایک بوڑھی عورت ملی، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا اور گفتگو کرنے لگی، آپؐ اس کی باتیں غور سے سن رہے تھے، جب تک اس نے اپنی بات پوری نہ کرلی آپؐ پوری بشاشت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ رہے۔ عدی نے یہ منظر دیکھا تو متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اسے یقین ہوگیا کہ اتنی متواضع اور بااخلاق شخصیت کسی دنیا دار بادشاہ کی نہیں ہوسکتی بلکہ یہ اخلاق اور تواضع کسی نبی کا ہی ہوسکتا ہے۔ اس منظر نے عدی کے دل میں ایسا گھر کیا کہ وہ اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام: ۴/۲۲۴)
غیر مسلموں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ:
آپؐ کے یہ اعلیٰ اخلاق صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں تھے بلکہ آپ غیر مسلموں کے

MushtaqAhmed
 

عدی بن حاتم کا قصہ
عدی بن حاتم عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کا بیٹا تھا، اس کی بہن سفانہ قید ہوکر مدینے آئی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا کہ سفانہ حاتم کی بیٹی ہے آپؐ نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا، اسے بھی رہا کردیا اور اس کے ساتھ جو دوسرے قیدی تھے انہیں بھی رہا فرمادیا۔ سفانہ نے واپس جاکر اپنے بھائی عدی کو خوب لعنت ملامت کی اور اسے ترغیب دی کہ وہ مدینے جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے۔ بہن کی ترغیب پر عدی مدینے حاضر ہوا۔ اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا۔ مال غنیمت کی صورت میں مال ودولت کا دریا بہہ رہا تھا، عرب کی اکثریت اسلام کے دامن رحمت میں آچکی تھی۔ عدی مدینے پہنچے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے، کچھ دیر تو وہیں بیٹھے رہے اور بات چیت ہوتی رہی۔

MushtaqAhmed
 

اس کی سانسیں ختم ہوچکی ہیں۔ وہ زندگی کو الوداع کہہ چکا ہے۔ اس کے ہاتھ سے کدال الگ کر لی جاتی ہے۔ ایک صدا گونجتی ہے ’’اس کی قبر کھود دو اسے صرف دو گز زمین کی ضرورت تھی‘‘۔
endd

MushtaqAhmed
 

کامیابی کی امید ہونے لگتی ہے وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اب وہ مجھے دکھنے لگے ہیں لہٰذا میں پہنچ جائوں گا۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے بدن کی تمام طاقت کو استعمال کرکے اس مرحلے کے بھی پار پہنچے گا۔ وہ پھر بھاگتا ہے۔ جسم وجان کی پوری طاقت کے ساتھ۔ وہ دوڑتا ہے، وہ دوڑتا ہے وہ اور دوڑتا ہے۔ آخر کار وہ نقطہ آغاز پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس وقت جب سورج ڈھل چکا ہوتا ہے۔ پھر بھی وہ دیکھتا ہے کہ اب بھی سارے بشکی اس کی ہمت بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ پہاڑی کی اونچائی پر سورج ڈھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنی تمام طاقت مجتمع کرکے بالآخر وہ پہاڑی کے نقطہ آغاز پر پہنچ کر، بے دم ہوکر گر پڑتا ہے۔ سب لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔ جب وہ پیکھم کو سیدھا کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کے منہ سے خون کی دھار بہہ رہی ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہوچکی

MushtaqAhmed
 

الت بگڑنے لگتی ہے۔ سورج عین اس کے سر کے اوپر چمک رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہدف کا حصول بہت مشکل ہے۔ آٹھویں میل سے ہی وہ واپس مڑنے کا سوچتا ہے کہ اس سے زیادہ کی اس میں ہمت نہیں تھی لیکن زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش میں وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک وہ برابر دوڑتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں پسینے سے شرابور ہونے کے ساتھ ساتھ چکر اور بدحواسی بھی اسے آلیتی ہے۔ وہ پھر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسے لگنے لگتا ہے کہ نقطہ آغاز پر واپس پہنچنا اب ناممکن ہے لیکن پھر بھی زندگی میں ملنے والے اس نادر موقع کو وہ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ سورج بھی ڈھلنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ بھاگتا ہے۔ پوری ہمت کے ساتھ وہ واپس دوڑتا ہے حتی کہ اسے وہ پہاڑی، بشکر لینڈ کے لوگ اور جھنڈہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسے کامیابی