صورت میں ڈھل گئے۔ وہ اپنے سامنے پڑی ایک آدمی کی ننگی لاش پر ہنس رہے ہیں جو کہ اسی کی لاش تھی۔ صبح جب کدال ہاتھ میں لیے پیکھم سفر پر نکلا تو اس کے ذہن میں خواب کہیں موجود نہیں تھا۔
بشکر لینڈ کے لوگوں کے ہلّے گلّے اور سردار کی موجودگی میں نقطہ آغاز پر جھنڈا گاڑ کر پیکھم نے اپنی دوڑ کا آغازکیا۔ شروع میں وہ بہت تیز دوڑا۔ وہ جانتا تھا کہ صبح کا وقت ہے گرمی زیادہ نہیں وہ پوری طاقت سے دوڑ سکتا ہے۔ دو سے ڈھائی گھنٹے میں دس میل کا فاصلہ سیدھا طے کرکے وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اسے الٹے ہاتھ مڑنا تھا۔ وہاںکدال سے نشان لگا کر وہ پھر دوڑنا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سورج کی حدت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پیکھم کی ہمت کم ہونے لگتی ہے۔ تھوڑا کھاپی کرد وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ الٹے ہاتھ آٹھ میل کے برابر طے کرنے کے بعد اس کی حالت بگڑنے
فے تحائف ملنے پر بشکر لینڈ کے لوگ اس کی دریا دلی سے بہت خوش ہوئے اور اس کی خوب آئو بھگت کی۔ پیکھم نے انہیں زمین خریدنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو ان کے سردار نے کہا ’’فکر مت کرو تمہیں جتنی زمین چاہیے مل جائے گی۔ ہمارے پاس بہت زمین ہے۔ جتنا دور تک تم پیدل جاسکتے ہو اتنی زمین تمہاری ہے۔ ایک دن کا بھائو ایک ہزار روبل ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی تمہارے سفر کا آغاز ہوجائے گا لیکن سورج ڈوبنے سے پہلے تمہیں واپس اسی مقام تک آنا پڑے گا جہاں سے تم نے شروع کیا تھا۔ اگر تم ایسا نہ کرسکے تو تمہارے ایک ہزارر وبل ڈوب جائیں گے‘‘۔ پیکھم بخوشی تیار ہوگیا۔ صبح جلد اٹھنے کی خوشی میں بمشکل اسے نیندآئی۔ اس نے خواب میں دیکھاکہ بشکر سردار، وہ بیوپاری جس نے اسے بشکر لینڈ سے متعلق آگاہ کیا تھا اور وہ کسان جو اپنی زمینیں فروخت کررہا تھا تینوں شیطان کی صورت میں ڈھل
ہو گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ تعلقہ کی زمین پٹے پر لے لے تو زیادہ رقبے پر کاشت کرکے جلد ہی بہت امیر ہو جائے گا۔ ایک زمیندار جو دیوالیہ ہو گیا تھا اپنی زمین اونے پونے بیچ رہا تھا۔ پیکھم نے سوچا کہ یہ بہتر موقع ہے زیادہ سے زیادہ زمین خریدنے کا۔ وہ یہ سودا کرنے ہی جارہا تھاکہ ایک بیوپاری نے اسے بتایا کہ میں ابھی ابھی ’’بشکر لینڈ‘‘ سے آرہا ہوں جو کہ ایشیا کی طرف ہے وہاں نے میں ایک ہزار روبل (روسی کرنسی) میں 13 ہزار ایکڑزمین خریدی ہے۔ وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ لوگ محنت طلب کاموں سے جی چراتے اور بس عیش کی زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرتم ان کے لیے بہت سارے تحائف لے جائو تو بدلے میں وہ بھی تم سے فیاضی سے پیش آئیں گے۔ پیکھم کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ اپنی بیوی اور بچوں کو وہیں چھوڑ جلد ہی وہ بشکر لینڈ پہنچ گیا۔
تحفے تحائف ملنے پر بشکر لینڈ کے
بیوی بچوں کو ایک اچھی زندگی دے سکے گا۔ پیکھم کا یہ منصوبہ کامیاب رہا لیکن اس کامیابی نے اسے تند خو بنادیا، اتنا کہ اس کے پڑوسی کسان تنگ آکر اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ پیکھم نے ان کی زمینیں خریدنے کا پروگرام بنایا لیکن اسی دوران اس کے سامنے ایک اور اچھا سودا آگیا۔ ایک دن ایک کسان نے اسے بتایا کہ والگر ایور کے قریب ایک گائوں بس رہا ہے جہاں آباد ہونے والے لوگوں میں سے مردوں کو فی کس 25 ایکڑ زمین دی جارہی ہے۔ پیکھم کے خاندان میں چار افراد تھے جس کا مطلب تھا سو ایکڑزمین۔ وہ اپنے خاندان کے افراد کو یہاں لے کر آیا تو یہاں کے لوگوں نے اس کا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا اور ساتھ ہی سو ایکڑزمین بھی اسے دیدی۔ اب پیکھم کے پاس پہلے سے تین چار گنا زیادہ زمین تھی۔
اس کامیابی پر پیکھم قانع ہو کر نہیں بیٹھ گیا۔ اسے اور زیادہ زمین کی حرص ہو گئی۔ ا
زمین بھی ہوتی تو میں دنیا کو دکھا دیتا کہ میں کیا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو خوشحالی کی وہ زندگی دیتا کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی۔ پھر میرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا حتی کہ شیطان بھی نہیں‘‘۔
پیکھم کی یہ بات تنور کے پیچھے بیٹھے شیطان نے سنی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی ’’اتنا بڑا دعویٰ! اچھا بیٹا تو دیکھ اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ تجھے زمین کی خواہش ہے نا تو میں تجھے زمین ہی دونگا اور پھر تجھے اپنے قابو میں کروں گا‘‘۔
پیکھم جس زمیندارنی کی زمین پر کام کرتا تھا شہر منتقل ہونے کے لیے وہ اپنی وسیع وعریض زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں کاٹ کر بیچ رہی تھی۔ پیکھم نے جیسے تیسے کرکے اس سے بیس ایکڑ زمین خریدلی۔ اسے امید تھی کہ وہ اس زمین پر خوب محنت کرے گا اور جلدہی سارے قرضے اُتار دے گا اور اپنی بیوی
:
پیکھم جو گائوں میں ایک چھوٹا سا کسان تھا اس کی بیوی کی بڑی بہن شہر میں ایک مالدار بزنس مین سے بیاہی گئی تھی۔ بڑی بہن گائوں میں اپنی چھوٹی بہن سے ملنے آئی تو اترا اترا کر اپنی شہری زندگی کے عیش وآرام اور دولت مندی کے قصے بیان کرتی اور چھوٹی بہن کی گائوں کی غربت زدہ زندگی پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتی رہی۔ ’’کہاں تم اس گائوں میں پڑی ہوئی ہو‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں توہین کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ بڑی بہن کی شیخیوں اور جامے سے باہر باتوں سے پیکھم کی بیوی ذرا متاثر نہیں ہوئی۔ گائوں کی سادہ اور پر مسرت زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے ’’ہم جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہت خوش اور مزے میں ہیں‘‘۔ پیکھم اپنی بیوی اور اس کی بڑی بہن کی باتیں سن رہا تھا، وہ کہتا ہے ’’مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میں ایک کسان ہوں۔ اگر میری پاس تھوڑی سی زمین بھی
ستائیس ارب روپے کی سخاوت۔ بندر نے انصاف کے نام پر بلیوں کی ساری روٹی تو کھا لی لیکن اس کا مقصد صرف یہ نہ تھا۔ وہ مستقبل شناس تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس پر دھوکے کا الزام بھی نہ آئے اور بلیوں کی ہر لڑائی میں روٹی صرف اس کے پیٹ میں جائے۔ ساری زندگی وہ اپنی اولاد کو یہ پاٹھ پڑھانے کی کوشش کرتا رہا۔دم آخر بندر نے جلی حروف میں یہ خواہش اب وصیت میں شامل کروا دی تھی۔اب کسی بلی کو روٹی نہیں ملنے والی تھی۔
end
سطح پر تین سال سے زیادہ نہ تھا۔ صرف آئی پی پیز کے معاہدے تیس تیس سال پر محیط تھے۔ اندھے نے ریوڑیوں کی بوری ہی بیچ دی تھی۔ نہ سالانہ آڈٹ۔ نہ کوالٹی اسسمنٹ ٹیسٹ، نہ ویری فکیشن اور نہ ہی معاہدہ کی شق میں شعور کی کوئی چنگاری۔ شہر عجب میں اتنا ذہین کون تھا جو سوال بنا دے یا سوال اٹھا سکے۔یہاں اعمال نامہ صرف دائیں ہاتھ میں دینے کا قانون رائج کیا گیا تھا۔ بائیں بازو والے تھے ہی نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت بچوں کی صحت کے متعلق فیصلے کی تھی۔ مائیں دس ہزار بجلی کے بل پر نہر میں چھلانگیں لگا رہی تھیں۔بھائی بجلی کے بل پر بھائیوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ بے چھت کے گھر،سر پر طوفان اور بچوں کے لیے دودھ کے نام پر ستائیس ارب روپ
کے بس میں نہیں تھا۔شہر عجب میں دانش وہ وردی تھی جسے جادوئی کرشمہ سمجھا جاتا تھا۔متاثرین کی تعداد سے قطع نظر ہجوم کو آٹو میٹک سسٹم پر لگا رکھا تھا اور یہ ہجوم سیل بے کراں کا روپ دھار لیتا تھا۔ جہاں اس ہجوم کے چند پارٹیکلز بھی جمع ہوتے،کسی بم کی طرح دھماکے سے پھٹتے۔ مقصد صرف لولے لنگڑے اپاہج دماغوں کی افزائش میں اضافہ تھا۔یہ عمل نرسری سے شروع ہوتا اور سکولز سے کالج اور پھر یونیورسٹی کا سفر طے کر کے معاشرے میں رنگ بھری تصویریں پھینکنے پر مامور تھا۔ کارکردگی کے سوال پر استثنی صرف مخصوص عوامل پر نافذ تھا۔ طلبہ سے لے کر ہر سطح کے ملازمین کو اچھی کارکردگی سے مشروط رکھا جاتا تھا۔ہر امتحان میں کارکردگی کو اولیت دی جاتی۔کنٹریکٹ ری نیو کرنا ہوتا تو بھی کارکردگی دیکھی جاتی۔ یہ کنٹریکٹ کسی بھی سطح پر تین
باز بھول گئے کہ اب تماشا سنگین حقیقت بن کر انارکی کی طرف جا رہا ہے۔یک طرفہ محبت کی طرح یک طرفہ اصطلاحات اور فیصلوں سے کسی کو سروکار نہیں کہ اس کی زد میں کتنی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں لیکن اسلام کی فتح کا شوق ایسا غالب ہے جو کھیل میں بھی چسپاں کر دیا جاتا ہے۔بھلے دنیا جتنا بھی مذاق اڑا لے۔ ضرب المثل ہے کہ بات کرو تا کہ پہچانے جاؤ یا پھر جس کا اصل روپ دیکھنا ہے اس کے ساتھ سفر کیا جائے تا کہ اس کے متعلق فیصلے میں آسانی ہو۔ یہاں تو برسوں کا سفر ہے جس میں ہجر کے سال اور ہزاروں رٹے رٹائے بیانات میں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔شعور کو عشق کی بجھی راکھ تصور کیا جا چکا تھا۔ اب اس راکھ میں کوئی چنگاری باقی نہ تھی۔ راکھ میں انگلیاں پھیر کر سب اپنی اپنی خواہش کے مطابق تصاویر ڈھال رہے تھے۔ لیکن ان میں رنگ بھرنا کسی کے بس میں ن
نسائیت کا بنیادی مقصد خواتین کو سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے حقِ رائے دہی، مساوات، عورتوں کی ضروریات، حق وراثت، آزادیء رائے، خود کفالت اور آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ خانگی ایذا یا گھریلو تشدد اور آبروریزی سے تحفظ وغیرہ بھی شامل ہیں۔لیکن غلام بنانے کے شوق انصاف کی تاویل میں انصاف کو ہی ذبح کر رہے تھے۔ انصاف اب صرف خواہش کا نام تھا اور تبدیلی نام کی کوئی گنجائش باقی ہی نہ تھی۔اب ایسی آگ تھی،جس کا دھواں کہیں اور سے اٹھ رہا تھا۔یہ ایسی آگ تھی جو بجھتی ہی نہ تھی اور دھوئیں پر پیمرا نے پابندی لگا رکھی تھی اور وہ دھواں جس نے عوام پر سانسیں تنگ کر رکھی ہیں۔اس کی آگ حکومتی راہداریوں میں گم مذہب کے ہتھیار کند کر رہی تھی۔ خلقت خدا کہنے کو فسانے نہیں،ضروریات زندگی مانگ رہی تھی زباں بندی کے تعویذ اور پھونکوں سے اسم اعظم تخلیق کرتے ہوئے شعبدہ باز
شہر عجب میں معاملات ازل سے ڈگڈگی کی تال پر ہی رواں دواں تھے۔بندر تو بندر، ریچھ، اونٹ اور ہاتھی تک کا کام صرف اپنی اپنی تال پر جھومنے کا ہی تھا اور وہ اسی میں مگن تھے۔بیل کی آنکھوں پر بندھی پٹی تو جیسے آنکھ کا حصہ بن چکی تھی۔اب یہ پٹی بہت سے گروہان کی آنکھوں کو بھی دھندلا چکی تھی۔اب شعور صرف حلال و حرام تک محدود تھا اور آپسی معاملات سے انسانی تعلقات کو اسی پیمانے پر تولنے کا شوقین تھا۔ فیمینزم کا نام سنتے ہی مینڈکوں کو بھی زکام ہو جاتا۔اس سے قطع نظرکہ اصل معاملہ کیا ہو سکتا ہے اور حقوق و فرائض کی تفہیم کیسے ہونا چاہیے۔ حرام کے داغ لگا کر ہر شعور کو اپاہج کرنے کے شوق میں ہلکان ہونے کا رواج فروغ پا چکا تھا۔ مغربی دنیا کی پیروی میں ہلکان ہونے والوں کو بیٹی کی ٹانگیں کاٹتے وقت یاد تک نہ تھا کہ مغربی دنیا میں حقوق نسواں کی تحریک نسائیت کا بنیاد


جوڑ میں سخت درد تھا وہ باوجود کوشش کے دوڑ نہیں سکتی تھی اور ادھر شہزادہ پوری طاقت سے بھاگ رہا تھا۔ شہزادے نے اپنی دوڑ پوری کرلی اور جیت گیا۔ دوڑ کے ختم ہوتے ہی شہزادی کے جسم کا درد ختم ہوگیا اور وہ بھی بجلی کی تیزی کے ساتھ جیتنے والے نشان تک پہنچ گئی، مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی، شہزادہ دوڑ جیت چکا تھا، شہزادی حیران تھی کہ اسے کیا ہوگیا ہے وہ کیوں نہیں دوڑ سکی۔
پہلی مرتبہ سارے میدان میں شور بلند ہو رہا تھا تالیاں بج رہی تھیں۔ لوگ خوشی سے اچھل رہے تھے۔ شہزادی اٹلانٹاؔ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اسے اپنی دوڑ پر ناز تھا لیکن وینسؔ کے مدد سے میلانینؔ نے ہرا دیا۔ اور شرط کے مطابق میلانینؔ اور اٹلانٹاؔ کی شادی ہوگئی۔ سنگدل شہزادی اپنے پچھلے کئے پر نادم ہوئی اور توبہ کرلی اور دونوں ہنسی خوشی سے رہنے لگےend
کی کوشش کرے تم پھر اسے چھونا اس طرح وہ دوڑ نہیں سکے گی۔
مقابلے کے دن ہزاروں لوگ جمع تھے۔ شہزادی اٹلانٹاؔ تیار ہو کر آگئی۔ لوگوں کیلئے یہ بات عام ہوگئی تھی اور کسی کو شہزادہ میلانینؔ کے جیتنے کی امید نہ تھی۔ بگل کی آواز آئی شہزادہ اور شہزادی دوڑنے کیلئے تیار تھے۔ شہزادے نے تیسرے بگل کی آواز سے پہلے شہزادی کو چھو لیا۔ بگل بجا دونوں نے دوڑنا شروع کیا۔تھوڑی دیر تک دونوں برابر دوڑتے رہے مگر ایکا ایکی شہزادی آگے بڑھ گئی اتنے آگے کہ شہزادہ اس کا کسی طرح بھی پیچھا نہ کرسکتا تھا، شہزادے کو بہت افسوس ہوا کہ دیوی نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے مگر شہزادے نے دیکھا وہ دوڑتے دوڑتے شہزادی کے قریب آگیا ہے شہزادی ایسا لگتا تھا کہ بہت تھک گئی ہے اس سے بالکل چلا نہیں جا رہا تھا۔ شہزادے نے شہزادی کو پھر چھوا اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ شہزادی کے جوڑ جوڑ
کو دیکھ کر شاہ اسکونسؔ مجبور ہوگیا۔ اس نے کہا کہ، ’’تمہاری مرضی۔ مقابلہ ایک مہینے کے بعد ہوگا۔‘‘
پھر شہزادے کو قریب بلا کر پیار سے کہا، ’’اس ایک مہینے کے عرصہ میں تم محبّت کی دیوی وینسؔ، سے مدد مانگنا۔ تمہیں وہ اس دوڑ میں کامیاب کرے گی۔‘‘
شہزادہ میلانینؔ یہ سن کر رخصت ہوا اور ’’وینس‘‘ کے مندر کی طرف چل پڑا.... وینسؔ کا مندر دریائے آرگوسؔ کے کنارے پر بنا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر وینسؔ کے مجسّمے کے سامنے اس نے مدد کی بھیک مانگی۔ خونی کھیل بند کرنے کی التجا کی اور شہزادی اٹلانٹاؔ سے اس کی بے انتہا محبّت کا اظہار کیا۔ اور اپنی محبّت کے سچی ہونے کا یقین دلایا تب وینسؔ نے میلانینؔ کے ہاتھ کو اپنی خوبصورت سونے کی چھڑی سے چھو دیا اور کہا کہ: دوڑ شروع کرنے سے پہلے تم شہزادی کو چھو لینا اور جب بھی وہ دوڑ میں تم سے آگے جانے کی کوشش کرے تم پھر اسے چ
طرف دیکھا اور سَر جھکا دیا۔ اور جلاد کی تلوار نے اس کا سَر تن سے جدا کر دیا۔
شہزادہ میلانینؔ نے عہد کر لیا کہ کسی طرح یہ خونی کھیل کو بند کر دے گا۔ اور اس مغرور اور سنگدل شہزادی کو نیچا دکھائے گا جس نے بیسیوں بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ میلانینؔ نڈر اور بہادر ہونے کے علاوہ ایک رحم دل انسان بھی تھا جس سے یہ سب دیکھا نہ گیا۔ میلانینؔ شاہ اسکونسؔ کے پاس پہنچا اور مقابلے میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ شاہ اسکونسؔ نے کئی شہزادوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا اب ایک خوبصورت اور کمسن شہزادے کو دیکھ کر رحم آیا۔ اس نے میلانینؔ کو بہتیرا سمجھایا۔ لیکن شہزادہ کہاں ماننے والا تھا۔ وہ موت سے بالکل نہیں ڈرتا تھا۔ اس نے تن کر کہا، ’’مَیں ضرور مقابلہ کروں گا اور کسی طرح شہزادی کو اپنا لوں گا۔ مجھے شہزادی چاہئے یا موت۔‘‘ میلانینؔ کے چٹان جیسے مضبوط ار
ی اٹلانٹاؔ تیار ہوکر اس کے برابر کھڑی ہوگئی۔ دوڑ شروع ہونے والی تھی۔ بگل کی پہلی آواز پر دونوں تیار ہوگئے اور تیسری اور آخری آواز پر دوڑنے لگے۔ دونوں اپنی پوری طاقت سے بھاگ رہے تھے۔ لوگ دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ وہ شہزادہ جیت جائے اور اٹلانٹاؔ سے شادی کرے اور کسی طرح یہ خونی کھیل ختم ہو جائے۔ دونوں بہت دور تک برابر رہے لیکن آدھا راستہ طے کرنے کے بعد شہزادی اٹلانٹاؔ آگے بڑھ گئی۔ شہزادے کے جیتنے کی امید رکھنے والے لوگوں کے چہرے لٹک گئے۔ اس شہزادے نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پیچھے ہی رہا اور شہزادی جیت گئی۔
شہزادی کے جیتنے پر کہیں سے خوشیوں کا شور بلند نہیں ہوا اور سارے میدان پر موت کا سناٹا چھا گیا۔ ہارا ہوا شہزادہ رونی صورت بنائے ڈائنا دیوی کے چبوترے کے پاس آیا۔ اور ایک بار اس خوبصورت اور بے رحم شہزادی کی طرف
نے گھوڑے سے اتر کر ایک آدمی سے پوچھا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ آدمی اجنبی شہزادے کی طرف غور سے دیکھا اور کہا، ’’ہمارے شاہ اسکونسؔ کی بیٹی شہزادی اٹلانٹاؔ نے شرط رکھی ہے کہ وہ اسی نوجوان سے شادی کرے گی جو اسے دوڑ میں ہرا دے گا۔ ورنہ سامنے چبوترے پر کھڑی ہوئی ڈائنا دیوی کے سامنے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ پھر اس آدمی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’اب تک کئی نوجوان شہزادوں نے اس دوڑ میں شہزادی کے ساتھ ہار کر اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ آج ایک شہزادے کے ساتھ مقابلہ ہے....!‘‘ شہزادہ میلانینؔ اس آدمی کی باتیں بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اتنے میں شاہ اسکونسؔ کی سواری آئی۔ شاہ کے دائیں جانب خوبصورت شہزادی اٹلانٹا تھی۔ سب کے بیٹھتے ہی سب لوگ دوڑ کے شروع ہونے کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک نوجوان شہزادہ آیا اور ساتھ ہی شہزادی اٹلانٹاؔ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain