حت کے بہ جائے واقعی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں، تو اسے مناسب جوڑ کی راہ نمائی کے ساتھ اسے نکاح کی ترغیب دیجیے، تو آپ کا یہ عمل ان شاء اﷲ ضرور بالضرور صدقۂ جاریہ ہوگا۔ کیوں کہ نیکی صرف وہی نہیں، جسے ہم اپنی سمجھ میں نیکی سمجھتے ہیں، بل کہ قرآن و احادیث میں جس خیر کا بھی صراحتاً یا اشارتاً ذکر آیا ہے، اسے انجام دینا، اس پر راہ نمائی کرنا اور اس میں تعاون پیش کرنا نیکی ہے، اور جسے کوئی نعمت میسر نہ ہو، اس کے سامنے بار بار محض اس کا ذکر کرنا، اس کا دل دکھانا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین
ابوذر رضی اﷲ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ابنِ آدم کے جسم کے ہر جوڑ پر صبح ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، پس ہر ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ اسے نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے۔ اسے برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے۔ اپنی بیوی سے جماع کرنا صدقہ ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! وہ تو اپنی شہوت پوری کرتا ہے، تو کیا یہ شہوت کی تکمیل اس کے لیے صدقہ ہوگی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ یہ شہوت غلط مقام میں پوری کرتا تو کیا گناہ گار نہ ہوتا ؟ ‘‘ (ابوداؤد)
اس آخری الذکر حدیث سے بھی نکاح کرنا اور کروانا دونوں کا کارِ ثواب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو کسی کے حالات سے پوری واقفیت ہے اور آپ اس کی فضیحت کے بہ جائے واقعی
حج کی تشویق اور ترغیب کے مضامین بیان کرنا جائز نہیں۔‘‘ (اغلاط العوام)
عرض یہ کرنا ہے کہ جب کسی کو نکاح کے اسباب و وسائل میسر ہی نہیں، تو بار بار اسے چھیڑنا چہ معنی؟ کیا آپ کو اس سے وحشت نہیں ہوتی کہ بار بار آپ کے اس ذکر کے باعث اس کے دل میں ارمان مچلنے لگیں اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگے اور پھر وہ شہوت کے غلبے میں کسی ناجائز اور غلط طریقے کو اختیار کر لے؟
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے امتِ محمدیہؐ! جس وقت تم میں سے کوئی مرد یا عورت زنا کرتا ہو، اس وقت اﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر غیرت کسی کو نہیں آتی۔ اے امت محمدیہؐ! جو کچھ میں جانتا ہوں، تم بھی جان لو تو ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
حضر
کب کر رہے ہو؟ بریانی کب کھلا رہے ہو؟ جو کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے یا کم از کم ایسے ارمان جگانے کے مترادف ہے، جن کو پُورا کرنا ان کے بس میں نہیں، اس لیے زیادتی ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حج کے تعلق سے لکھا ہے: ’’اکثر لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ حج کے بعد ہر مجلس میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، حالاں کہ جن پر حج فرض نہیں ہے اور ان کا جانا بھی جائز نہیں، اس وجہ سے کہ ان کی نہ مالی استطاعت ہے اور نہ مشقت پر صبر و تحمل ہو سکے گا، ان کے سامنے تشویق و ترغیب (شوق دلانے اور رغبت پیدا کرنے والے) قصّے اور مضامین بیان کرنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے ان کو حج کا شوق پیدا ہوگا اور سامان ہے نہیں، نہ ظاہری، نہ باطنی، تو خواہ مخواہ وہ دقت اور پریشانی میں مبتلا ہوں گے، جس سے ناجائز امور کے ارتکاب کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں کے سامنے حج کی تشویق اور
اوّل تو مناسب جوڑ نہیں ملتا، اور کوئی ملتا ہے تو اس کے مطالبات کی فہرست خاصی طویل ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ میریج بیورو اور نکاح کروانے والے دلال جیسی اصطلاحیں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں، جنہیں مناسب جوڑ سے کہیں زیادہ جلد از جلد دلالی اینٹھنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔
نکاح کروانے کی جانب لوگوں کی غفلت کی وجہ دنیوی زندگی میں انتہائی انہماک و مشغولی اور کسی حد تک خود غرضی ہے کہ کوئی کیوں کسی کی پریشانی اپنے سر لے۔ اس رجحان نے بہت سے ضرورت مند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نکاح جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھا ہے، جس کا نتیجا فحاشی و حرام کاری کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے میں اصلاحِ معاشرہ کے نام پر محض جلسے جلوس کرنا کیسے سود مند ہو سکتا ہے ؟
طرّہ یہ کہ ان نوجوانوں سے لوگ یہ پوچھتے نہیں تھکتے کہ شادی کب کر
کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے اور ان کے حوالے سے ضرورت مند کا نکاح کروانے کا باعثِ ثواب ہونا خصوصی طور پر معلوم ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے سماج کے بڑے بوڑھے اور اہلِ فہم و شعور اس طرف بہت متوجہ رہتے تھے، جس کا مشاہدہ پندرہ بیس سال قبل تک خُوب ہوتا تھا۔ اردو زبان میں اس قبیل سے ایک کہاوت بھی موجود ہے کہ چھان (چھپّر) کو ہاتھ لگانا بھی ثواب کا کام ہے، جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی کی اولاد نکاح کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نکاح میں جو بن پڑے، تعاون پیش کرے۔
ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت شدید تر ہو گئی ہے، اور اس سے غفلت بھی۔ ضرورت بڑھنے کی وجہ تو یہ ہے کہ جب سے ’’انفرادی خاندان‘‘ کا تصور آیا ہے، اور لوگ خاندان و رشتے داروں سے کٹناشروع ہوئے ہیں، تب سے اچھا و مناسب رشتہ ملنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگیا ہے۔ اوّل تو م
شامل ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سے وہ شخص کہ جس کے دین اور خلق سے تم خوش ہو، نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کر دو، ورنہ زمین پر بڑا فتنہ اور سخت فساد ہوگا۔ علماء کے نزدیک یہ امر مندوب و استحباب کے لیے ہے، بعض کہتے ہیں وجوب کے لیے فیصلہ یہ ہے کہ جہاں زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو اور نکاح کرنے پر قادر بھی ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، ورنہ مستحب ہے۔ نیز فرمایا گیا کہ اپنے غلام لونڈیوں میں سے بھی جن کو نیک دیکھو، ان کے بھی نکاح کردو۔ کیوں کہ نیک ہی نکاح اور خدمتِ مولیٰ کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں، یا صالحین سے مراد وہ کہ جن کو نکاح کی صلاحیت ہو۔(تفسیرِ حقانی)
اس سے معلوم ہُوا نکاح کرنا حکمِ خدا اور رسول ﷺ کی تعمیل اور ثواب کا باعث ہے، اس لیے نکاح کروانا بھی یقیناً کارِ ثواب ہوگا۔
نیکی کے کاموں میں
ے ساتھ تھے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص نکاح کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ نکاح کرلے، اس لیے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرم گاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے، اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے۔‘‘
(بخاری ، مسلم)
باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اﷲ اپنے فضل سے انھیں بے نیاز کردے گا، اور اﷲ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔‘‘ (النور) مطلب یہ ہے کہ جو تم میں مجرد ہیں خواہ عورت، خواہ مرد، خواہ بیوہ، خواہ ناکتحذا، ان کا نکاح کر دو۔ لفظ ایا میں سب شامل ہیں، اور رسول کریم
اسلام میں نکاح کو ایک عظیم عبادت کی حیثیت حاصل ہے، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نکاح سنتِ رسول ﷺ بھی ہے اور توالد و تناسل نیز نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ بھی۔ انسانی طبیعت میں جو جنسی تقاضا و میلان فطری طور پر رکھا گیا ہے، اسے پورا کرنے کا واحد ذریعہ شریعت کی رُو سے نکاح ہی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے، تو اس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے۔ پس! اسے باقی نصف دین کے متعلق خدا سے ڈرنا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘ (الترغیب)
حضرت علقمہؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا، انہوں نے کہا: ہم حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے
کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فور اََصاف کر لینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے۔اس گمان میں قطعی نہیں رہنا چاہیے کہ اولا دادا کرے گی۔ جائیداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی پر تہمت لگائی ہے، کسی کو پریشان کیا ہے ، کسی کی غیبت کی ہے، کسی کی دل آزاری کی ہے،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معافی تلافی کر لینی چاہئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے اور حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی کماحقہ توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
************
اس سے حق معاف کروائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف تو بہ واستغفار کے لیے رجوع کریں۔
لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں ہمیں ہمیشہ اپنے معاملات کا جائزہ لیتے رہنا ۔ہمیں ہمیشہ الرٹ رہنا چاہئے کہ کہیں جانے یا انجانے ہماری طرف سے حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کمی تو نہیں ہو رہی ہے؟ہم کسی کا حق تو نہیں مار رہے ہیں؟ کسی کا قرض لیکر اسے بھولنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں ؟ ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے۔ خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ، اگر کوئی حق کسی کا
غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ، والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آسائش (آرام) ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں۔ جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جیسے نماز ، روزہ، زکوۃ اور حج کی ادائیگی میں کو تاہی ، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادے گا (انشاء اللہ )۔ لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد ( بندوں کے حقوق ) سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، یاکسی شخص کو کوئی تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، کسی کی زمین جائداد پر ناجائز قبضہ کیاتو قرآن وحدیث کی روشنی میں اکثر علما وفقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے ، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق
پابند ہیں ) مگر وہ معاملات زندگی میں کھوئے ہیں ، اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ۔اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو باقاعد ہ دھیان نہیں دیتے ( یعنی نماز روزے وغیر ہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے) لیکن اخلاق وکردار کے اچھے ، معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بھرے ہوتےہیں۔ جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہو گی۔
حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر ذات و نسل ، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ،اگر ہم اپنے عزیزوں ، دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں ، غلام اگر مالک
دیے جائیں گے۔پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا۔‘‘
مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضروری ہے۔ ان میں کوتاہی سے ہماری عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقوق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں ( یعنی نماز ، روزے کے پابند ہیں ) مگر وہ معاملات زندگی میں کھوئے ہیں ، اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ۔اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو باقاعد ہ دھیان نہیں دیتے ( یعنی نماز روزے
پوچھا ، ’’تم جانتے ہو ، مفلس کون ہے ؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: ’’اللہ کے رسول ! مفلس وہ شخص ہے، جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو۔‘‘ آپ نے فرمایا،’’ نہیں ! بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہو گا جو قیامت کے دن بارگاہ الہٰی میں حاضر ہوگا، دُنیا میں وہ نماز پڑھتارہاہو گا، روزے رکھتار ہا ہو گا، زکوۃ ادا کرتارہا ہو گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا پیٹا ہو گا، تو یہ سب مظلومین اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد) دائر کریں گے۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی ، یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گے ، تو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے
بندے کے جو حقوق ہیں ، اُن کی ادائیگی کا نام ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ دونوں حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے، کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیوں نہیں رکھتے؟
جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز ، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے باوجو درحمت و مغفرت الٰہی سے محرومی ہمارامقدر بن جائے۔ اس ایک حدیث شاہد ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا ، ’’تم
اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا، نماز پڑھنا، روز درکھنا، حج وزکوۃ ادا کرناوغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے ، وہ کسی باشعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے۔
حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کر دہ دوسرے بندے کے جو حقوق
گدھے اور گھوڑے میں بحث چل رہی تھی گھوڑا کہہ رہا تھا آسمان نیلا ہے جبکہ گدھے کا کہنا تھا آسمان کالا ہے دونوں اپنی جگہ پر اٹل تھے فیصلہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کے پاس چلا گیا شیر نے گھوڑے کو سزا سنا دی گھوڑے نے کہا بادشاہ سلامت آپ جانتے ہیں میں صحیح ہوں بادشاہ نے کہا تمہیں سزا اس بات کی نہیں دی بلکہ سزا اس بات کی دی گئی ہے کہ تم نے گدھے سے بحث کی۔
سب سے پریشان کن بیل یہی ثابت ہوئی، کوئی مہربان چوزے کا گلا چھوڑنے پہ ہی نہیں آتا تھا، جب تک دروازہ نہیں دیکھیں گے تب تک چوں چوں چوں چلتی رہے گی۔ وہ بیل جلدی نکلوا دی گئی۔ اِس کے بعد اُسی ’ٹِنگ ٹانگ‘ کا ایک مہذب سا نعم البدل لگوایا گیا جو آج تک چل رہا ہے۔
میں یہاں جس فلیٹ پہ رہتا ہوں اس کی گھنٹی پہلے دن فارغ کر دی تھی۔ نئے لوگ بہت کم اتنا اوپر آتے ہیں، پرانے آنے والے فون پر پوچھ لیتے ہیں پہلے ہی، باقی اگر کوئی آتا ہے اور فقیر نیند میں ہو تو کم از کم گھنٹی کی آواز پہ آنکھ نہیں کھولنا پڑتی، اس سے بڑی نعمت خدا کوئی دے سکتا ہے؟
(پوری ہوگئی)
ہمارے گھر غالباً ستاسی اٹھاسی میں گھنٹی لگی تھی، اس کی آواز ’ٹِنگ ٹانگ‘ تھی۔ ابا نے شاید اُسی ٹرررر والی کرختگی سے بچنے کے لیے نسبتاً مہذب آواز کی گھنٹی لگوائی ہو گی لیکن، آواز اس کی زیادہ تھی اور لگی بھی ڈیوڑھی میں ہوئی تھی اور دروازے پہ آنے والے شاید میوزک خود بھی انجوائے کرنا چاہتے ہوں گے، اب جو اسے بجاتا تھا تو کم از کم تین بار ضرور بجاتا، اور تین کا نمبر کم از کم ہے، دس مرتبہ بجانے والے مہربان آج تک موجود ہیں، فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پولیس ہمیں اٹھانے آئی ہے یا وہ کسی چھاپے سے پناہ مانگنے کے لیے گھنٹی پیٹ رہے ہیں۔
وہ خراب ہوئی تو چوں چوں چوں چوں والی گھنٹی لگوائی مگر سب سے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain